🤍✨🕌📿⭐️سیرت النبی ﷺ قدم بقدم🌴𝟐𝟔🌴
🤍✨🕌📿⭐️سیرت النبی ﷺ قدم بقدم🌴𝟐𝟔🌴
سرکارِ مدینیہ، سیدِ دو عالم ﷺ کی سیرت کا مکمل اور مفصل تذکرہ
☼الکمونیا ⲯ﹍︿﹍میاں شاہد﹍︿﹍ⲯآئی ٹی درسگاہ☼
✍🏻 عبداللہ فارانی
☰☲☷ گذشتہ سے پیوستہ ☷☲☰
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حضرت خباب ؓ فرماتے ہیں کہ ایک روز میں حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں گیا اور یہ وہ زمانہ تھا جب ہم پر خوب ظلم کیا جاتا تھا، میں نے آپ ﷺ سے عرض کیا.
اے اللہ کے رسول، کیا آپ ہمارے لیے دعا نہیں فرماتے.
میرے الفاظ سنتے ہی آپ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا۔پھر آپ نے فرمایا۔
تم سے پہلی امت کے لوگوں کو اپنے دین کے لیے کہیں زیادہ عذاب برداشت کرنے پڑے٬ ان کے جسموں پر لوہے کی کنگھییاں کی جاتی تھیں ، جس سے ان کی کھال اور ہڈیاں الگ ہو جاتی تھیں ، مگر یہ تکالیف بھی انہیں ان کے دین سے نہ ہٹا سکیں ۔ ان کے سروں پر آرے چلا چلا کر ان کے جسم دو کر دییے گئے مگر وہ اپنا دین چھوڑنے پر تیار پھر بھی نہ ہوئے. اس دین اسلام کو اللہ تعالٰی اس طرح پھیلا دے گا کہ صنعاء کے مقام سے حضر موت جانے والے سوار کو سوائے اللہ تعالٰی کے کسی کا خوف نہیں ہو گا۔ یہاں تک کہ چرواہے کو اپنی بکریوں کے متعلق بھیڑیوں کا ڈر نہیں ہو گا۔
حضرت خباب بن ارت ؓ فرماتے ہیں ایک دن میرے لیے آگ دہکائی گئی، پھر وہ آگ میری کمر پر رکھ دی گئی اور پھر اس کو اس وقت تک نہیں ہٹایا گیا جب تک کہ وہ آگ میری کمر کی چربی سے بجھ نہ گئی۔
ایسے ہی لوگوں میں حضرت عمار بن یاسر ؓ بھی تھے، حضرت عمار بن یاسر ؓ کو ان کے دین سے پھیرنے کے لیے مشرکوں نے طرح طرح کے ظلم کیے، آگ سے جلا جلا کر عذاب دیے، مگر وہ دین پر قائم رہے۔
علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ لکھتے ہیں .
ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ اس طرف تشریف لے جا رہے تھے اس وقت حضرت عمار ؓ کو آگ سے جلا جلا کر تکالیف پہنچائی جا رہی تھیں ۔ ان کی کمر پر جلنے کی وجہ سے کوڑھ جیسے سفید داغ پڑ گئے تھے۔آنحضرت ﷺ نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا۔
اے آگ ٹھنڈی اور سلامتی والی بن جا، جیسا کہ تو ابراہیم علیہ السلام کے لیے ہو گئی تھی۔
اس دعا کے بعد انہیں آگ کی تکلیف محسوس نہیں ہوتی تھی۔
حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ حضرت عمار بن یاسر، ان کے والد یاسر، ان کے بھائی عبداللہ اور ان کی والدہ سمیہ رضی اللہ عنہم، ان سبھی کو اللہ کا نام لینے کی وجہ سے سخت ترین عذاب دیے گئے۔ ایک روز جب انہیں تکالیف پہنچائی جا رہی تھیں تو نبی کریم ﷺ اس طرف سے گزرے، آپ نے ان کی تکالیف کو دیکھ کر فرمایا.
اے اللہ، آل یاسر کی مغفرت فرما.
ان کی والدہ سمیہ رضی اللہ عنہا کو ابو جہل کے چچا حذیفہ بن ابن مغیرہ نے ابو جہل کے حوالے کر دیا۔یہ اس کی باندی تھیں ۔ابو جہل نے انہیں نیزہ مارا۔اس سے وہ شہید ہو گئیں ۔ اس طرح اسلام میں انہیں سب سے پہلی شہید ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔آخر انہی مظالم کی وجہ سے حضرت عمار ؓ کے والد یاسر ؓ بھی شہید ہو گئے۔
اپنے ان مظالم اور بدترین حرکات کے ساتھ ساتھ یہ لوگ حضور اکرم ﷺ سے معجزات کا مطالبہ بھی کرتے رہتے تھے۔
ایک روز ابو جہل دوسرے سرداروں کے ساتھ حضور نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور بولا:
"اے محمد! اگر تم سچے ہو تو ہمیں چاند کے دو ٹکڑے کرکے دکھاؤ، وہ بھی اس طرح کہ ایک ٹکڑا ابو قبیس پہاڑ پر نظر آئے اور دوسرا قعیقعان پہاڑ پر نظر آئے۔"
مطلب یہ تھا کہ دونوں ٹکڑے کافی فاصلے پر ہوں تاکہ اس کے دو ٹکڑے ہونے میں کوئی شک نہ رہ جائے۔
اس روز مہینے کی چودھویں تاریخ تھی۔ چاند پورا تھا۔ آپ ﷺ نے ان کی یہ عجیب فرمائش سن کر فرمایا:
"اگر میں ایسا کر دکھاؤں تو کیا تم ایمان لے آؤ گے ۔"
انہوں نے ایک زبان ہو کر کہا:
"ہاں !بالکل! ہم ایمان لے آئیں گے۔"
"آپ ﷺ نے اللہ تعالٰی سے دعا فرمائی کہ آپ کے ہاتھ سے ایسا ہوجائے،چنانچہ چاند فوراً دو ٹکڑے ہوگیا۔ اس کا ایک حصہ ابوقبیس کے پہاڑ کےاوپر نظر آیا، دوسرا قعیقعان پہاڑ پر، اس وقت نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"لو اب گواہی دو۔"
ان کے دلوں پر تو قفل پڑے تھے، کہنے لگے:
"محمد نے ہم لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا ہے۔"
کچھ نے کہا:
"محمد نے چاند پر جادو کردیا ہے مگر ان کے جادو کا اثر ساری دنیا کے لوگوں پر نہیں ہو سکتا۔"
مطلب یہ تھا کہ ہر جگہ کے لوگ چاند کو دو ٹکڑے نہیں دیکھ رہے ہوں گے۔ اب انہوں نے کہا:
"ہم دوسرے شہروں سے آنے والوں سے یہ بات پوچھیں گے۔"
چنانچہ جب مکہ میں دوسرے شہروں کے لوگ داخل ہوئے تو انہوں نے چاند کے بارے میں ان سے پوچھا، آنے والے سب لوگوں نے یہی کہا:
"ہاں ہاں ! ہم نے بھی چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھا ہے۔"
یہ سنتے ہی مشرک بول اٹھے:
"بس! پھر تو یہ عام جادو ہے، اس کا اثر سب پر ہوا ہے۔"
کچھ نے کہا:
"یہ ایک ایسا جادو ہے جس سے جادوگر بھی متاثر ہوئے ہیں ۔"
یعنی جادوگروں کو بھی چاند دو ٹکڑے نظر آیا ہے۔
اس پر اللہ تعالٰی نے سورہ قمر کی آیات نازل فرمائی۔
"ترجمہ: قیامت نزدیک آ پہنچی اور چاند شق ہوگیا اور یہ لوگ کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو ٹال دیتے ہیں اور کہتے ہیں ، یہ جادو ہے جو ابھی ختم ہو جائے گا۔
مختلف قوموں کی تاریخ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ چاند کا دو ٹکڑے ہونا صرف مکہ میں نظر نہیں آیا تھا بلکہ دوسرے ملکوں میں بھی اس کا مشاہدہ کیا گیا تھا۔
اسی طرح ایک دن مشرکین نے کہا:
"اگر آپ واقعی نبی ہیں تو ان پہاڑوں کو ہٹادیجئے جن کی وجہ سے ہمارا شہر تنگ ہورہا ہے۔ تاکہ ہماری آبادیاں پھیل کر بس جائیں ۔ اور اپنے رب سے کہہ کر ایسی نہریں جاری کرادیں جیسی شام اور عراق میں ہیں اور ہمارے باپ دادوں کو دوبارہ زندہ کراکے دکھائیں ۔ ان دوبارہ زندہ ہونے والوں میں قصی بن کلاب ضرور ہو، اس لئے کہ وہ نہایت دانا اور عقل مند بزرگ تھا۔ ہم اس سے پوچھیں گے، آپ جو کچھ کہتے ہیں ، سچ ہے یا جھوٹ، اگر ہمارے ان بزرگوں نے آپ کی تصدیق کردی اور آپ نے ہمارے یہ مطالبے پورے کردیئے تو ہم آپ کی نبوت کا اقرار کرلیں گے اور جان لیں گے کہ آپ واقعی اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں ، اللہ تعالٰی نے آپ کو ہماری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے...جیسا کہ آپ دعوی کرتے ہیں ۔"
ان کی یہ باتیں سن کر نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"مجھے ان باتوں کے لئے تمہاری طرف رسول بنا کر نہیں بھیجا گیا بلکہ میں تو اس مقصد کے لیے بھیجا گیا ہوں کہ ایک اللہ کی عبادت کرو۔"
ایک مشرک کہنے لگا:
"آپ اسی طرح کھانا کھاتے ہیں جس طرح ہم کھاتے ہیں ، اسی طرح بازاروں میں چلتے ہیں جس طرح ہم چلتے ہیں ، ہماری طرح ہی زندگی کی ضروریات پوری کرتے ہیں ، لہٰذا آپ کو کیا حق ہے کہ نبی کہہ کر خود کو نمایاں کریں اور یہ کہ آپ کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں اترا جو آپ کی تصدیق کرتا۔"
اس پر اللہ تعالٰی نے سورہ فرقان کی آیت 7 نازل فرمائی:
"ترجمہ: اور یہ کافر لوگ رسول اللہ ﷺ کی نسبت یوں کہتے ہیں کہ اس رسول کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ہماری طرح کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا گیا کہ وہ اس کے ساتھ رہ کر ڈرایا کرتا۔ اس کے پاس غیب سے کوئی خزانہ آ پڑتا یا اس کے پاس کوئی (غیبی) باغ ہوتا جس سے یہ کھایا کرتا اور ایمان لانے والوں سے یہ ظالم لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ تم تو ایک بے عقل آدمی کی راہ پر چل رہے ہو۔"
پھر جب انہوں نے یہ کہا کہ اللہ تعالٰی کی ذات اس سے بہت بلند ہے کہ وہ ہم ہی میں سے ایک بندے کو رسول بنا کر بھیجے تو اس پر اللہ تعالٰی نے سورہ یونس کی آیت نازل فرمائی:
"ترجمہ: کیا ان مکہ کے لوگوں کو اس بات سے تعجب ہوا کہ ہم نے ان میں سے ایک شخص کے پاس وحی بھیج دی کہ سب آدمیوں کو اللہ کے احکامات کے خلاف چلنے پر ڈرائیں اور جو ایمان لے آئے، انہیں خوش خبری سنادیں کہ انہیں اپنے رب کے پاس پہنچ کر پورا رتبہ ملے گا۔"
اس کے بعد ان لوگوں نے آپ ﷺ سے کہا:
"ہم پر آسمان کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے گرادو، جیسا کہ تمہارا دعوی ہے کہ تمہارا رب جو چاہے کر سکتا ہے۔ہمیں معلوم ہوا ہے کہ تم جس رحمن کا ذکر کرتے ہو وہ رحمن یمامہ کا ایک شخص ہے، وہ تمہیں یہ باتیں سکھاتا ہے، ہم لوگ اللہ کی قسم! کبھی رحمن پر ایمان نہیں لائیں گے۔"
یہاں رحمن سے ان لوگوں کی مراد یمامہ کے ایک یہودی کاہن سے تھی۔ اس بات کے جواب میں اللہ تعالٰی نے سورة الرعد کی آیت 30 نازل فرمائی:
"ترجمہ: آپ فرمادیجئے کہ وہی میرا مربی اور نگہبان ہے۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے قابل نہیں ، میں نے اسی پر بھروسہ کر لیا اور اسی کے پاس مجھے جانا ہے۔"
اس وقت آپ پر رنج اور غم کی کیفیت طاری تھی۔ آپ کی عین خواہش تھی کہ وہ لوگ ایمان قبول کرلیں ، لیکن ایسا نہ ہوسکا، اس لئے غمگین تھے، اسی حالت میں آپ وہاں سے اٹھ گئے۔
مشرکین نے اس قسم کی اور بھی فرمائشیں کیں ۔ کبھی وہ کہتے صفا پہاڑ کو سونے کا بناکر دکھائیں ، کبھی کہتے سیڑھی کے ذریعے آسمان پر چڑھ کر دکھائیں اور فرشتوں کے ساتھ واپس آئیں ۔ ان کی تمام باتوں کے جواب میں اللہ تعالٰی نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو آپ کی خدمت میں بھیجا۔ انہوں نے آکر کہا:
"اے محمد ﷺ! اللہ تعالٰی آپ کو سلام فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر آپ چاہیں تو صفا پہاڑ کو سونے کا بنادیا جائے۔ اسی طرح ان کے جو مطالبات ہیں ، ان کو بھی پورا کر دیا جائے، لیکن اس کے بعد بھی اگر یہ لوگ ایمان نہ لائے تو پھر سابقہ قوموں کی طرح ان پر ہولناک عذاب نازل ہوگا، ایسا عذاب کہ آج تک کسی قوم پر نازل نہیں ہوا ہوگا اور اگر آپ ایسا نہیں چاہتے تو میں ان پر رحمت اور توبہ کا دروازہ کھلا رکھوں گا۔"
یہ سن کر آپ نے عرض کیا:
"باری تعالٰی! آپ اپنی رحمت اور توبہ کا دروازہ کھلا رکھیں ۔"
دراصل آپ جانتے تھے کہ قریش کے یہ مطالبات جہالت کی بنیاد پر ہیں ، کیونکہ یہ لوگ رسولوں کو بھیجنے کی حکمت کو نہیں جانتے تھے...رسولوں کا بھیجا جانا تو در اصل مخلوق کا امتحان ہوتا ہے تاکہ وہ رسولوں کی تصدیق کریں اور رب تعالٰی کی عبادت کریں ۔ اگر اللہ تعالٰی درمیان سے سارے پردے ہٹادے اور سب لوگ آنکھوں سے سب کچھ دیکھ لیں تو پھر تو انبیاء اور رسولوں کو بھیجنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی اور غیب پر ایمان لانے کا کوئی معنی ہی نہیں رہتا۔
مکہ کے مشرکین نے دو یہودی عالموں کے پاس اپنے آدمی بھیجے۔ یہ یہودی عالم مدینہ میں رہتے تھے۔ دونوں قاصدوں نے یہودی عالموں سے ملاقات کی اور ان سے کہا:
"ہم آپ کے پاس اپنا ایک معاملہ لے کر آئے ہیں ، ہم لوگوں میں ایک یتیم لڑکا ہے، اس کا دعوی ہے کہ وہ اللہ کا رسول ہے۔"
یہ سن کر یہودی عالم بولے:
"ہمیں اس کا حلیہ بتاؤ۔"
قاصدوں نے نبی اکرم ﷺ کا حلیہ بتادیا۔ تب انہوں نے پوچھا:
"تم لوگوں میں سے کن لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے؟"
انہوں نے جواب دیا:
"کم درجے کے لوگوں نے۔"
اب انہوں نے کہا:
"تم جاکر ان سے تین سوال کرو، اگر انہوں نے ان تین سوالات کے جوابات دے دیے تو وہ اللہ کے نبی ہیں اور اگر جواب نہ دے سکے تو پھر سمجھ لینا، وہ کوئی جھوٹا شخص ہے۔"
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>





