محاورہ: آستین کا سانپ


 🕳️🐍 تلفظ 🐍🕳️

"آستین کا سانپ"
(Āstīn kā sāṉp) 🗣️🎙️

🕳️🐍 معانی و مفہوم 🐍🕳️
یہ محاورہ اس شخص کے لیے استعمال ہوتا ہے جو:

  • دوستی، قرابت یا بھروسے کے پردے میں چھپ کر دھوکہ دے۔ 😈

  • قریب ترین رشتے دار، دوست یا ساتھی ہی خطرناک دشمن نکلے۔

  • ظاہری طور پر وفادار لگے لیکن اندر سے زہر بھرا ہو۔

🔹 سادہ الفاظ میں: سب سے قریب بیٹھا خطرناک دشمن۔ 🐍

🕳️🐍 موقع و محل 🐍🕳️
یہ محاورہ ان مواقع پر بولا جاتا ہے جہاں:

  • کوئی قریبی شخص دھوکہ دے یا پیچھے سے وار کرے۔

  • کاروبار، خاندان یا دوستی میں غداری سامنے آئے۔

  • کسی کی اصلیت بے نقاب ہو جائے۔

مثال:
"اس نے اپنے بھائی کے ساتھ مل کر ساری جائداد ہڑپ کر لی، سچ میں آستین کا سانپ نکلا!" 🏠
یا
"وہ سالوں تک ساتھ رہا، لیکن جب موقع ملا تو آستین کا سانپ بن گیا۔" 🤝➜🔪

🕳️🐍 تاریخ و واقعہ 🐍🕳️
یہ محاورہ فارسی-اردو سے آیا ہے۔ قدیم زمانے میں لوگ آستین میں چھوٹے سانپ چھپا کر حملہ کرتے تھے، یہی تصویر اس محاورے کی بنیاد ہے۔ اردو ادب میں یہ غداری اور منافقت کی سب سے مشہور علامت ہے۔ غالب، میر اور جدید کہانیوں میں بھی یہ محاورہ بار بار آیا ہے۔ 🕰️📜

🕳️🐍 پُر لطف قصہ 🐍🕳️
ایک گاؤں میں دو بھائی بہت اچھے تھے۔ بڑا بھائی ہر وقت چھوٹے کی تعریف کرتا تھا۔ جب باپ کی جائداد تقسیم ہوئی تو چھوٹے نے راتوں رات سارے کاغذات پر جعلی دستخط کر دیے۔
بڑا بھائی روتے ہوئے بولا: "ارے، تو تو میرا آستین کا سانپ نکلا!"
چھوٹا ہنستے ہوئے بولا: "بھائی، آستین میں سانپ رکھنا ہی تو فیشن ہے!" 😅
گاؤں والوں نے کہا: "بس، اب دونوں بھائیوں کی دوستی کا سانپ مر چکا!" 😂

ایک تبصرہ شائع کریں

[blogger]

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget