🤍✨🕌📿⭐️سیرت النبی ﷺ قدم بقدم🌴𝟐𝟓🌴
🤍✨🕌📿⭐️سیرت النبی ﷺ قدم بقدم🌴𝟐𝟓🌴
سرکارِ مدینیہ، سیدِ دو عالم ﷺ کی سیرت کا مکمل اور مفصل تذکرہ
☼الکمونیا ⲯ﹍︿﹍میاں شاہد﹍︿﹍ⲯآئی ٹی درسگاہ☼
✍🏻 عبداللہ فارانی
☰☲☷ گذشتہ سے پیوستہ ☷☲☰
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی بات سن کر صحابہ نے کہا
"ہمیں قریش کی طرف سے آپ کے بارے میں خطرہ ہے، ہم تو ایسا آدمی چاہتے ہیں جس کا خاندان قریش سے اس کی حفاظت کرتا رہے۔"
اس کے جواب میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا:
تم میری پروا نہ کرو، اللہ تعالی خود میری حفاظت فرمائیں گے۔"
دوپہر کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بیت اللہ میں پہنچ گئے۔آپ مقام ابراہیم کے پاس کھڑے ہوگئے۔اس وقت قریش اپنے اپنے گھروں میں تھے۔اب انہوں نے بلند آواز سے قرآن پڑھنا شروع کیا۔
قریش نے یہ آواز سنی تو کہنے لگے،
"اس غلام زاد کو کیا ہوا؟ "
کوئی اور بولا:
"محمد جو کلام لے کر آئے ہیں ، یہ وہی پڑھ رہا ہے. "
یہ سنتے ہی مشرکین ان کی طرف دوڑ پڑےاور لگے انہیں مارنے پیٹنے۔عبداللہ بن مسعود ؓ چوٹیں کھاتے جاتے تھے اور قرآن پڑھتے جاتے تھے۔یہاں تک کہ انہوں نے سورۃ کا زیادہ تر حصہ تلاوت کرڈالا۔اس کے بعد وہاں سے اپنے ساتھیوں کے پاس آگئے۔ان کا چہرہ اس وقت تک لہولہان ہوچکا تھا۔ان کی یہ حالت دیکھ کر مسلمان بول اٹھے:
"ہمیں تمہاری طرف سے اسی بات کا خطرہ تھا، "
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا:
"اللہ کی قسم! اللہ کے دشمنوں کو میں نے اپنے لیے آج سے زیادہ ہلکا اور کمزور کبھی نہیں پایا۔اگر تم لوگ کہو تو کل پھر ان کے سامنے جا کر قرآن پڑھ سکتا ہوں -"
اس پر مسلمان بولے!
"نہیں ، وہ لوگ جس چیز کو نا پسند کرتے ہیں ، آپ انہیں وہ کافی سنا آئے ہیں ،"
کفار کا یہ ظلم و ستم جاری رہا۔ایسے میں ایک دن حضور صلٰی اللہ علیہ وسلم صفا کی پہاڑی کے پاس موجود تھے۔ابوجہل آپ کے پاس سے گزرا۔اس نے آپ کو دیکھ لیا اورلگا گالیاں دینے، اس نے آپ کے سر پر مٹی بھی پہنکی۔عبداللہ بن جدعان کی باندی نے یہ منظر دیکھا۔پھر ابو جہل آپ کےپاس سے چل کر حرم میں داخل ہوا۔وہاں مشرکین جمع تھے۔وہ ان کے سامنے اپنا کارنامہ بیان کرنے لگا۔اسی وقت آپ کے چچا حضرت حمزہ ؓ حرم میں داخل ہوئے۔یہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔تلوار ان کی کمر سے لٹک رہی تھی۔وہ اس وقت شکار سے واپس آئے تھے۔ان کی عادت تھی کہ جب شکار سے لوٹتے تو پہلے حرم جا کر طواف کرتے تھے پھر گھر جاتے تھے۔حضرت حمزہ ؓ حرم میں داخل ہونے سے پہلے عبداللہ بن جدعان کی باندی کے پاس سے گزرے، اسنے سارا منظر خاموشی سے دیکھا اور سنا تھا۔اس نے حضرت حمزہ ؓ سے کہا:
"اے حمزہ! کچھ خبر بھی ہے، ابھی ابھی یہاں ابو حکم بن ہشام( ابو جہل)نے تمہارے بھتیجے کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔وہ یہاں بیٹھے تھے، ابو جہل نے انہیں دیکھ لیا، انہیں تکالیف پہنچائیں ، گالیاں دیں اور بہت بری طرح پیش آیا، آپ کے بھتیجے نے جواب میں اسے کچھ بھی نہ کہا -"
ساری بات سن کر حضرت حمزہ ؓ نے کہا:
"تم جو کچھ بیان کررہی ہو، کیا یہ تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے -"
اس نے فوراً کہا:
"ہاں ! میں نے خود دیکھا ہے -"
یہ سنتے ہی حضرت حمزہ ؓ جوش میں آگئے - چہرہ غصے سے تمتما اٹھا - فوراً حرم میں داخل ہوئے، وہاں ابوجہل موجود تھا - وہ قریشیوں کے درمیان میں بیٹھا تھا، یہ سیدھے اس تک جاپہنچے - ہاتھ میں کمان تھی، بس وہی کھینچ کر اس کے سر پر دے ماری - ابوجہل کا سر پھٹ گیا - حضرت حمزہ ؓ نے اس سے کہا:
"تو محمد کو گالیاں دیتا ہے، سن لے! میں بھی اس کا دین اختیار کرتا ہوں - جو کچھ وہ کہتا ہے، وہی میں بھی کہتا ہوں ، اب اگر تجھ میں ہمت ہے تو مجھے جواب دے -"
ابوجہل ان کی منت سماجت کرتے ہوئے بولا:
وہ ہمیں بےعقل بتاتا ہے، ہمارے معبودوں کو برا کہتا ہے، ہمارے باپ دادا کے راستے کے خلاف چلتا ہے -"
یہ سن کر حضرت حمزہ ؓ بولے:
"اور خود تم سے زیادہ بے عقل اور بےوقوف کون ہوگا جو اللہ کو چھوڑ کر پتھر کے ٹکڑوں کو پوجتے ہو، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں -"
ان کے یہ الفاظ سن کر ابوجہل کے خاندان کے کچھ لوگ یک دم حضرت حمزہ ؓ کی طرف بڑھے اور انہوں نے کہا:
"اب تمہارے بارے میں بھی ہمیں یقین ہوگیا ہے کہ تم بھی بےدین ہوگئے ہو -"
جواب میں حضرت حمزہ ؓ نے فرمایا:
"آؤ....کون ہے مجھے اس سے روکنے والا - مجھ پر حقیقت روشن ہوگئی ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں ، جو کچھ وہ کہتے ہیں ، وہ حق اور سچائی ہے، اللہ کی قسم! میں انہیں نہیں چھوڑوں گا - اگر تم سچے ہو تو مجھے روک کر دکھاؤ -"
یہ سن کر ابوجہل نے اپنے لوگوں سے کہا:
"ابو عمارہ (یعنی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ) کو چھوڑدو، میں نے واقعی ان کے بھتیجے کے ساتھ ابھی کچھ برا سلوک کیا تھا -"
وہ لوگ ہٹ گئے - حضرت حمزہ ؓ گھر پہنچے - گھر آکر انہوں نے الجھن محسوس کی کہ یہ میں قریش کے سامنے کیا کہہ آیا ہوں ... میں تو قریش کا سردار ہوں -
لیکن پھر ان کا ضمیر انہیں ملامت کرنے لگا، آخر شدید الجھن کے عالم میں انہوں نے دعا کی:
"اے اللہ! اگر یہ سچا راستہ ہے تو میرے دل میں یہ بات ڈال دے اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر مجھے اس مشکل سے نکال دے، جس میں میں گھر گیا ہوں -"
وہ رات انہوں نے اسی الجھن میں گزاری - آخر صبح ہوئی تو حضور نبی کریم ﷺ کے پاس پہنچے - آپ سے عرض کیا:
"بھتیجے! میں ایسے معاملے میں الجھ گیا ہوں کہ مجھے اس سے نکلنے کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا اور ایک ایسی صورت حال میں رہنا، جس کے بارے میں میں نہیں جانتا، یہ سچائی ہے یا نہیں ، بہت سخت معاملہ ہے -"
اس پر آنحضرت ﷺ حضرت حمزہ ؓ کی طرف متوجہ ہوئے - آپ نے انہیں اللہ کے عذاب سے ڈرایا - ثواب کی خوش خبری سنائی، آپ کے وعظ و نصیحت کا یہ اثر ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایمان کا نور عطا فرمادیا، وہ بول اٹھے:
"اے بھتیجے! میں گواہی دیتا ہوں کہ تم اللہ کے رسول ہو - بس اب تم اپنے دین کو کھل کر پیش کرو -"
حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں ، اسی واقعے پر قرآن پاک کی یہ آیت نازل ہوئی:
ترجمہ: ایسا شخص جو کہ پہلے مردہ تھا، پھر ہم نے اسے زندہ کردیا اور ہم نے اسے ایک ایسا نور دے دیا کہ وہ اسے لیے ہوئے چلتا پھرتا ہے۔ (سورة الانعام)
حضرت حمزہ ؓ کے ایمان لانے پر حضور نبی کریم ﷺ کو بہت زیادہ خوشی ہوئی، اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ حضرت حمزہ ؓ آپ کے سگے چچا تھے، دوسری وجہ یہ تھی کہ وہ قریش میں سب سے زیادہ معزز فرد تھے۔ اس کے ساتھ ہی وہ قریش کے سب سے زیادہ بہادر، طاقت ور اور خوددار انسان تھے۔ اور اسی بنیاد پر جب قریش نے دیکھا کہ اب رسول اللہ ﷺ کو مزید قوت حاصل ہوگئی ہے تو انہوں نے آپ کو تکالیف پہنچانے کا سلسلہ بند کردیا، لیکن اپنے تمام ظلم و ستم اب وہ کمزور مسلمانوں پر ڈھانے لگے۔ کس قبیلے کا بھی کوئی شخص مسلمان ہوجاتا وہ اس کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑجاتے، ایسے لوگوں کو قید کردیتے، بھوکا پیاسا رکھتے تپتی ریت پر لٹاتے، یہاں تک کہ اس کا یہ حال ہوجاتا کہ سیدھے بیٹھنے کے قابل بھی نہ رہتا ۔ اس ظلم اور زیادتی پر سب سے زیادہ ابوجہل لوگوں کو اکساتا تھا ۔
ایسے ہی لوگوں میں سے ایک حضرت بلال حبشی ؓ بھی تھے۔ آپ کا پورا نام بلال بن رباح تھا۔ یہ امیہ بن خلف کے غلام تھے۔
حضرت بلال ؓ مکہ میں پیدا ہوئے تھے۔ پہلے عبداللہ بن جدعان تیمی کے غلام تھے ۔ عبداللہ بن جدعان کے سو غلام تھے، یہ ان میں سے ایک تھے۔ جب اسلام کا آغاز ہوا اور اس کا نور پھیلا تو عبداللہ بن جدعان نے اپنے ٩٩ غلاموں کو اس خوف سے مکہ سے باہر بھجوا دیا کہ کہ کہیں وہ مسلمان نہ ہوجائیں ۔ بس اس نے حضرت بلال بن رباح ؓ کو اپنے پاس رکھ لیا۔ یہ اس کی بکریاں چرایا کرتےتھے ۔ اسلام کی روشنی حضرت بلال ؓ تک بھی پہنچی ۔ یہ ایمان لے آئے مگر انہوں نے اپنے اسلام کو چھپائے رکھا۔ ایک روز انہوں نے کعبہ کے چاروں طرف رکھے بتوں پر گندگی ڈال دی۔ ساتھ ہی وہ ان پر تھوکتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے:
"جس نے تمہاری عبادت کی وہ تباہ ہوگیا"
یہ بات قریش کو معلوم ہوگئی۔ وہ فورا عبداللہ بن جدعان کے پاس آئے... اور اس سے بولے:
"تم بے دین ہوگئے ہو۔"
اس نے حیران ہوکر کہا:
"کیا میرے بارے میں بھی یہ بات کہی جاسکتی ہے؟ "
اس پر وہ بولے:
"تمہارے غلام بلال نے آج ایسا ایسا کیا ہے۔"
"کیا!!! "
وہ حیرت زدہ رہ گیا ۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
عبداللہ بن جدان نے فوراً قریش کو ایک سو درہم دیےتاکہ بتوں کی جو توہین ہوئی ہے، اس کے بدلے ان کے نام پر کچھ جانور ذبح کردیے جائیں ۔ پھر وہ حضرت بلال رضی الله عنہ کی طرف بڑھا۔ اس نے انہیں رسی سے باندھ دیا۔ تمام دن بھوکا اور پیاسا رکھا۔ پھر تو یہ اس کا روز کا معمول بن گیا۔ جب دوپہر کے وقت سورج آگ برسانے لگتا تو انہیں گھر سے نکال کر تپتی ہوئی ریت پر چت لٹادیتا۔ اس وقت ریت اس قدر گرم ہوتی تھی کہ اگر اس پر گوشت کا ٹکڑا رکھ دیا جاتا تو وہ بھی بھن جاتا تھا۔ وہ اسی پر بس نہیں کرتا تھا، ایک وزنی پتھر منگاتا اور ان کے سینے پر رکھ دیتا تاکہ وہ اپنی جگہ پر سے ہل بھی نہ سکیں ۔ پھر وہ بدبخت ان سے کہتا:
" اب یا تو محمد کی رسالت اور پیغمبری سے انکار کر اور لات و عزیٰ کی عبادت کر ورنہ میں تجھے یہاں اسی طرح لٹائے رکھوں گا، یہاں تک کہ تیرا دم نکل جائے گا۔ "
حضرت بلال رضی الله عنہ اس کی بات کے جواب میں فرماتے:
" احد.... احد ۔ "
یعنی الله تعالٰی ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ۔
جب حضرت بلال رضی الله عنہ کسی طرح اسلام سے نہ ہٹے تو تنگ آکر عبدالله بن جدعان نے انہیں امیہ بن خلف کے حوالے کردیا۔ اب یہ شخص ان پر اس سے بھی زیادہ ظلم و ستم ڈھانے لگا۔
ایک روز انہیں اسی قسم کی خوفناک سزائیں دی جارہی تھیں کہ حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اس طرف سے گذرے ۔حضرت بلال رضی الله عنہ شدت تکلیف کی حالت میں احد احد پکار رہے تھے۔آپ نے انہیں اس حالت میں دیکھ کر فرمایا:
" بلال! تمہیں یہ احد احد ہی نجات دلائےگا۔ "
پھر ایک روز حضرت ابوبکر رضی الله عنہ اس طرف سے گذرے۔ امیہ بن خلف نے انہیں گرم ریت پر لٹا رکھا تھا۔ سینے پر ایک بھاری پتھر رکھا ہوا تھا۔انہوں نے یہ دردناک منظر دیکھ کر امیہ بن خلف سے کہا:
" کیا اس مسکین کے بارے میں تمہیں الله کا خوف نہیں آتا، آخر کب تک تم اسے عذاب دیے جاؤگے۔"
امیہ بن خلف نے جل کر کہا:
" تم ہی نے اسے خراب کیا ہے، اس لیے تم ہی اسے نجات کیوں نہیں دلادیتے۔"
اس کی بات سن کر حضرت ابوبکر رضی الله عنہ بولے:
" میرے پاس بھی ایک حبشی غلام ہے، وہ اس سے زيادہ طاقتور ہے اور تمہارے ہی دین پر ہے، میں ان کے بدلے میں تمہیں وہ دے سکتا ہوں ۔"
یہ سن کر امیہ بولا:
" مجھے یہ سودہ منظور ہے۔ "
یہ سنتے ہی ابوبکر صدیق ؓ نے اپنا حبشی غلام اس کے حوالے کردیا۔ اس کے بدلے میں حضرت بلال رضی الله عنہ کو لے لیا اور آزاد کردیا۔ سبحان الله! کیا خوب سودہ ہوا، یہاں یہ بات جان لینی چاہئے کہ حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کا حبشی غلام دنیا کے لحاظ سے بہت قیمتی تھا، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امیہ بن خلف نے غلام کے ساتھ دس اوقیہ سونا بھی طلب کیا تھا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ نے اس کا یہ مطالبہ بھی مان لیا تھا چنانچہ آپ نے اسے ایک یمنی چادر اور کچھ سونا دیا تھا - ساتھ ہی آپ نے امیہ بن خلف سے فرمایا تھا:
"اگر تم مجھ سے سو اوقیہ سونا بھی طلب کرتے تو بھی میں تمہیں دے دیتا -"
حضرت بلال ؓ کے علاوہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اور بھی بہت سے غلام مسلمانوں کو خرید کر آزاد فرمایا تھا، یہ وہ مسلمان غلام تھے جنہیں اللہ کا نام لینے کی وجہ سے ظلم کا نشانہ بنایا جارہا تھا - ان میں ایک حضرت بلال ؓ کی والدہ حمامہ رضی اللہ عنہا تھیں - ایک عامر بن فہیرہ ؓ تھے - انہیں اللہ کا نام لینے پر بڑے بڑے سخت عذاب دیے جاتے -
یہ قبیلہ بنی تیم کے ایک شخص کے غلام تھے - وہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا رشتے دار تھا - آپ نے اپنے رشتے دار سے خرید کر انہیں بھی آزاد فرمایا - ایک صاحب ابو فکیہ ؓ تھے - یہ صفوان بن امیہ ؓ کے غلام تھے - یہ حضرت بلال ؓ کے ساتھ ہی مسلمان ہوئے تھے -
صفوان بن امیہ ؓ بھی ابتدا میں مسلمانوں کے سخت مخالف تھے - وہ فتح مکہ کے بعد اسلام لائے تھے - ایک روز انہوں نے حضرت ابو فکیہ ؓ کو گرم ریت پر لٹا رکھا تھا - ایسے میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ اس طرف سے گزرے - اس وقت صفوان بن امیہ ؓ یہ الفاظ کہہ رہے تھے:
"اسے ابھی اور عذاب دو، یہاں تک کہ محمد یہاں آکر اپنے جادو سے اسے نجات دلائیں -"
حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اسی وقت صفوان بن امیہ ؓ سے انہیں خرید کر آزاد کردیا -
اسی طرح زنیرہ رضی اللہ عنہا نامی ایک عورت کو مسلمان ہونے کی بنیاد پر اس قدر خوفناک سزائیں دی گئیں کہ وہ بےچاری اندھی ہوگئیں ، ایک روز ابوجہل نے ان سے کہا:
جو کچھ تم پر بیت رہی ہے، یہ سب لات و عزی کر رہے ہیں .
یہ سنتے ہی زنیرہ رضی اللہ عنہا نے کہا.
ہر گز نہیں ، اللہ کی قسم، لات و عزی نہ کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں ، نہ کوئی نقصان... یہ جو کچھ ہو رہا ہے، آسمان والے کی مرضی سے ہو رہا ہے. میرے پروردگار کو یہ بھی قدرت ہے کہ وہ مجھے میری آنکھوں کی روشنی لوٹا دے.
دوسرے دن وہ صبح اٹھیں تو ان کی آنکھوں کی روشنی اللہ تعالٰی نے لوٹا دی تھی.
اس بات کا جب کافروں کو پتا چلا تو تو وہ بول اٹھے.
یہ محمد کی جادوگری ہے.
حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے انھیں بھی خرید کر آزاد کر دیا.
آپ نے زنیرہ رضی اللہ عنہا کی بیٹی کو بھی خرید کر آزاد کیا. اسی طرح نہدیہ نام کی ایک باندی تھیں . ان کی ایک بیٹی بھی تھیں . دونوں ولید بن مغیرہ کی باندیاں تھیں . انھیں بھی حضرت ابو بکر ؓ نے آزاد کر دیا.
عامر بن فہیرہ کی بہن اور ان کی والدہ بھی ایمان لے آئی تھیں . یہ حضرت عمر کے مسلمان ہونے سے پہلے ان کی باندیاں تھیں . حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے انھیں بھی خرید کر آزاد کر دیا.
ایمان لانے والے جن لوگوں پر ظلم ڈھائے گئے. ان میں سے ایک حضرت خباب بن ارت ؓ بھی ہیں . کافروں نے انھیں اسلام سے پھیرنے کی کوششیں کیں مگر یہ ثابت قدم رہے. انہیں جاہلیت کے زمانے میں گرفتار کیا گیا تھا، پھر انہیں ایک عورت ام انمار نے خرید لیا، یہ ایک لوہار تھے، نبی اکرم ﷺ ان کی دل جوئی فرماتے تھے. ان کے پاس تشریف لے جایا کرتے تھے. جب یہ مسلمان ہو گئے اور ام انمار کو یہ بات معلوم ہوئی تو اس نے انہیں بہت خوفناک سزائیں دیں . وہ لوہے کا کڑا لے کر آگ میں گرم کرتی٬ خوب سرخ کرتی٬پھر اس کو حضرت خباب ؓ کے سر پر رکھ دیتی، آخر حضرت خباب ؓ نے آپ ﷺ سے اپنی مصیبت کا ذکر کیا تو آپ نے ان کے لیے دعا فرمائی.
نبی اکرم ﷺ کی دعا کے فوراً بعد اس عورت کے سر میں شدید درد شروع ہو گیا. اس سے وہ کتوں کی طرح بھونکتی تھی، آخر کسی نے اسے علاج بتایا کہ وہ لوہا تپا کر سر پر رکھوائے، اس نے یہ کام حضرت خباب ؓ کے ذمے لگایا. اب آپ وہ حلقہ خوب گرم کر کے اس کے سر پر رکھتے.
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>

کوئی تبصرے نہیں: