🌹 خلاصۂ قرآن رکوع بہ رکوع, سبق نمبر 10
سورۃ المائدہ کا خلاصہ
اصلاحِ عرب
اس سورت میں اہلِ عرب کی اصلاح کے لیے وضع کردہ قوانین ذکر کیے جا رہے ہیں جن کو اپنانے سے عرب قوم — جو تہذیب و تمدن کے نام سے قبلِ اسلام نا آشنا تھی — ترقی کر کے تہذیب و تمدن یافتہ اقوام میں شمار ہونے لگی۔
شیخُ التفسیر حضرت مولانا احمد علی صاحب لاہوری رحمہ اللہ اس کو "اصلاحِ عرب" کے ساتھ مخصوص فرماتے ہیں جیسا کہ اس کی تقریر گزری، لیکن اگر اس کو "اصلاحِ معاشرت" کے ساتھ عمومی طور پر موضوع قرار دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے، کیونکہ ایسے مواقع پر عموم، خصوص سے بہتر ہوتا ہے، اور اصلاحِ معاشرہ کے ضمن میں اصلاحِ عرب کا مقصد بھی حاصل ہو جائے گا۔
واللہ سبحانہ وتعالیٰ أعلمُ بالصواب وإلیہ المرجعُ والمآب۔
رکوع نمبر ۱ کا خلاصہ: ایفائے عہد کا تاکیدی حکم
"عہد" کا لفظ عام ہے؛ اس سے مراد وہ وعدے بھی ہو سکتے ہیں جو بندے نے بندے سے کیے ہوں یا بندے نے رب سے کیے ہوں۔
ان دونوں کا یہی حکم ہے کہ انسان ان کو سختی سے پورا کرے۔ نیز یہ کہ کوئی حرام لقمہ پیٹ میں نہ جائے، اور اس کے لیے محرمات کی ایک فہرست بیان کر دی گئی۔
پھر یہ کہ جو علم تمہیں اللہ تعالیٰ نے دیا ہے وہ دوسروں تک پہنچاؤ، کیونکہ کتمانِ علم کی سزا بہت بری ہے۔
اس لیے "الأقرب فالأقرب" کو دعوت و تبلیغ کرتے رہنے کا حکم دیا گیا ہے، اور دیگر ادیان و ملل میں سے مسلمانوں کے زیادہ قریب اہلِ کتاب ہیں، اس لیے اولاً ان کو تبلیغ کی جائے، پھر دوسروں کو۔
رکوع نمبر ۲ کا خلاصہ: طریقۂ تمییزِ طیبات
تمییزِ طیبات، نظافتِ طبع پر موقوف ہے، اور نظافتِ طبع کے لیے طہارت ضروری ہے، اور طہارت سے مراد روح اور جسم دونوں کی پاکیزگی ہے۔
یہ دونوں ہی نظافتِ طبع کے موقوفٌ علیہ ہیں، لہٰذا مسلمانوں کو طہارتِ جسمانی کا پابند بنایا جا رہا ہے، جو وضو سے حاصل ہوتی ہے، اور طہارتِ روحانی بھی سکھائی جا رہی ہے جو نماز میں حاصل ہوتی ہے۔
رکوع نمبر ۳ کا خلاصہ: نقضِ عہد کا نتیجہ
اہلِ کتاب نے جو اللہ تعالیٰ سے وعدہ کیا تھا (یعنی حضورِ اکرم ﷺ پر ایمان لانے کا)، اس وعدے کو انہوں نے توڑا۔ اس کے مندرجہ ذیل نتائج برآمد ہوئے:
1. اہلِ کتاب پر اللہ تعالیٰ کی لعنت نازل ہوئی۔
2. قساوتِ قلبی کے مرض میں گرفتار کر دیے گئے۔
3. تحریفِ کلمات کے مرض میں مبتلا کر دیے گئے۔
4. تعلیمِ الٰہی کے ایک حصے کو پسِ پشت ڈال کر وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کے منکر ہوئے۔
5. خیانت کے عادی ہونے کی وجہ سے راندۂ درگاہ ہوئے۔
رکوع نمبر ۴ کا خلاصہ: لعنتِ الٰہی کا پہلا اثر — بزدلی اور گستاخی
گزشتہ رکوع میں نقضِ میثاق کا پہلا نتیجہ "لعنت" ذکر کیا گیا ہے۔
اس لعنت کے نتیجے میں بزدلی پیدا ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ کتاب بھی انتہائی بزدل ہو چکے تھے اور گستاخ اس قدر کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی تنگ دل ہو کر ان سے فراق کی دعائیں مانگنے لگے۔
جس کی پاداش میں بنی اسرائیل کو چالیس سال تک میدانِ تیہ میں حیران و سرگرداں پھرنا پڑا۔
رکوع نمبر ۵ کا خلاصہ: لعنتِ الٰہی کا دوسرا اثر — سلبِ عقل
جب کسی پر اللہ تعالیٰ کی لعنت نازل ہو تو اس کا دوسرا اثر یہ ہوتا ہے کہ اس کی عقل سلب کر لی جاتی ہے، اور پھر وہ ایسے کام کر گزرتا ہے جو اسے نہیں کرنا چاہییں۔
چنانچہ قابیل پر جب لعنتِ الٰہی مسلط ہوئی تو اس کی عقل پر پردہ پڑ گیا اور وہ اپنے بھائی کو قتل کر کے اس کوّے کی مانند ہو گیا جس نے اپنے ساتھی کوّے کو قتل کر دیا تھا۔
گویا سلبِ عقل کے بعد انسان، انسان کے درجے سے گر کر حیوانات کے مرتبے پر فائز ہو جاتا ہے، جس کا نتیجہ سوائے ذلت کے اور کچھ نہیں نکلتا۔
رکوع نمبر ۶ کا خلاصہ: ایسا طرزِ عمل اختیار کیا جائے کہ نقضِ عہد کی نوبت ہی نہ آئے
اس رکوع میں مسلمانوں کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ اپنی انفرادی زندگی میں ہر آدمی قربِ خداوندی کا راستہ اختیار کرے تاکہ نقضِ عہد کی نوبت ہی نہ آئے۔
بلکہ اجتماعی زندگی میں بھی "اقربُ إلی اللہ" ہی کو تلاش کرنا چاہیے؛ مثلاً امامت کا عہدہ اس شخص کے سپرد کیا جائے جو اقربُ إلی اللہ ہو، تاکہ نقضِ عہد سے بچا جا سکے۔
رکوع نمبر ۷ کا خلاصہ: اقربُ إلی اللہ ہونے کے لیے اتباعِ کتاب ضروری ہے
یہود کے لیے اپنے زمانے میں تورات کا اتباع ضروری تھا جو اس وقت واجبُ الاتباع تھی۔
پھر نصاریٰ کے لیے ان کے زمانے میں انجیل واجبُ الاتباع تھی۔
اس کے بعد اب مسلمانوں کے لیے قرآنِ کریم واجبُ الاتباع ہے، جو سب کے لیے مُصدِّق ہے۔
کسی قسم کی تکذیب آپ کو قرآن میں کتبِ سابقہ کی نظر نہیں آئے گی، اس لیے اس کو ماننا اور اس پر ایمان لانا ضروری ہے۔
رکوع نمبر ۸ کا خلاصہ: اعداءِ الٰہی سے مقاطعہ کی ضرورت
اس رکوع میں یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ یہود و نصاریٰ سے اپنے تمام دوستانہ تعلقات منقطع کر دو، ورنہ ان کی بداخلاقیاں اور جرائم تم میں بھی سرایت کر جائیں گے، اور تم بھی ان جیسے ہو جاؤ گے، اور ذلت کی پستیوں میں گرتے چلے جاؤ گے۔
اس مقاطعہ میں تمام مسلمان شریک ہوں گے، سوائے منافقین کے، کہ وہ ڈر کے مارے اس مقاطعہ میں شریک نہیں ہوں گے، کیونکہ نفاق کا خاصہ بزدلی ہے اور توحید کا خاصہ جرأت۔
اور جرأت، منافقین میں مفقود ہے — جو مقاطعہ کے لیے ایک ضروری رکن ہے۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔//
🌸🌼🤲🌹♥️

کوئی تبصرے نہیں: