Top Ad unit 728 × 90

✨📰 خاص مضامین 📰🏅

random

🤍✨🕌📿⭐️سیرت النبی ﷺ قدم بقدم🌴𝟐𝟒🌴


 🤍✨🕌📿⭐️سیرت النبی ﷺ قدم بقدم🌴𝟐𝟒🌴

 سرکارِ مدینیہ، سیدِ دو عالم ﷺ کی سیرت کا مکمل اور مفصل  تذکرہ

☼الکمونیا ⲯ﹍︿﹍میاں شاہد﹍︿﹍ⲯآئی ٹی درسگاہ☼

✍🏻 عبداللہ فارانی

☰☲☷ گذشتہ سے پیوستہ ☷☲☰

*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

ایک روز حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھےکہ ابوجہل آپ کے پاس آیا اور بولا: 

" کیا میں نے آپ کو اس سے منع نہیں کیا تھا، آپ جانتے نہیں ، میں سب سے بڑے گروہ والا ہوں ۔"

اس پر سورۃ العلق کی آیت ۱۷، ۱۸ نازل ہوئیں ۔

ترجمہ: سو یہ اپنے گروہ کے لوگوں کو بلالے، اگر اس نے ایسا کیا تو ہم بھی دوزخ کے پیادوں کو بلالیں گے۔

حضرت ابن عباس رضی الله عنہہ فرماتے ہیں ۔

" اگر ابوجہل اپنے گروہ کو بلاتا تو الله تعالٰی کے عذاب کے فرشتے اسے پکڑ کر تہس نہس کردیتے۔"

ایک روز ابوجہل حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے سامنے آیا اور آپ سے مخاطب ہوا: 

" آپ کو معلوم ہے میں بطحا والوں کا محافظ ہوں اور میں یہاں ایک شریف ترین شخص ہوں ۔ "

اس وقت اللہ تعالٰی نے سورہ دخان کی آیت 49 نازل فرمائی: 

" ترجمہ: چکھ تو بڑا معزز مکرم ہے۔"

آیت کا یہ جملہ دوزخ کے فرشتے ابوجہل کو ڈالتے وقت پھٹکارتے ہوئے کہیں گے۔

ابولہب بھی حضور اکرم ﷺ کی ایذارسانی میں آگے آگے تھا۔ نبی کریم ﷺ کی تبلیغ میں رکاوٹیں ڈالتا تھا،آپ ﷺ کو برا بھلا کہتا تھا۔ اس کی بیوی ام جمیل بھی اس کے ساتھ شامل تھی، وہ جنگل سے کانٹے دار لکڑیاں کاٹ کر لاتی اور نبی کریم ﷺ کے راستے میں بچھاتی، اس پر الله تعالٰی نے سورۃ اللھب نازل فرمائی ۔ اس میں ابولہب کے ساتھ اس کی بیوی کوبھی عذاب کی خبر دی گئ۔وہ غصے میں آگ بگولہ ہوگئ، پتھر ہاتھ میں لیئے آپ صلی الله علیہ وسلم کی طرف بڑھی۔اس وقت آپ ﷺ کے ساتھ ابوبکر صدیق رضی الله عنہہ تھے۔ انہوں نے ابولہب کی بیوی کو آتے دیکھا تو فرمایا: 

" الله کے رسول! یہ عورت بہت زبان دراز ہے، اگر آپ یہاں ٹھرے تو اس کی بدزبانی سے آپ کو تکلیف پہنچے گی۔"

ان کی بات سن کر حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: 

" ابوبکر! فکر نہ کرو، وہ مجھے نہ دیکھ سکے گی۔"

اتنے میں ام جمیل نزدیک پہنچ گئ۔ اسے وہاں صرف ابوبکر صدیق رضی الله عنہہ نظر آئے۔ وہ آتے ہی بولی: 

" ابوبکر! تمہارے دوست نے مجھے ذلیل کیا ہیں ، کہاں ہے تمہارا دوست جو شعر پڑتا ہے۔"

ابوبکر بولے: 

" کیا تمہیں میرے ساتھ کوئی نظر آرہا ہے۔"

"کیوں کیا بات ہے، مجھے تو تمہارے ساتھ کوئی نظر نہیں آرہا۔"

انہوں نے پوچھا:

"تم ان کے ساتھ کیا کرنا چاہتی ہو؟"

جواب میں اس نے کہا:

"میں یہ پتھر اس کے منہ پر مارنا چاہتی ہوں ،اس نے میری شان میں نازیبا شعر کہے ہیں ۔" وہ سورة اللہب کی آیات کو شعر سمجھ رہی تھی۔

اس پر انہوں نے کہا: 

" نہیں ! اللہ کی قسم! وہ شاعر نہیں ہیں ۔ وہ تو شعر کہنا جانتے ہی نہیں ، نہ انہوں نے تمہیں ذلیل کیا ہے۔"

یہ سن کر وہ وآپس لوٹ گئی۔ بعد میں ابو بکر صدیق ؓ نے آپ ﷺ سے پوچھا:

" اے اللہ کے رسول! وہ آپ کو دیکھ کیوں نہیں سکی۔"

آپ نے ارشاد فرمایا:

"ایک فرشتے نے مجھے اپنے پروں میں چھپالیا تھا۔"

ایک روایت کے مطابق آپ نے یہ جواب ارشاد فرمایا تھا:

"میرے اور اس کے درمیان ایک آڑ پیدا کردی گئی تھی۔"

ابو لہب کے ایک بیٹے کا نام عتبہ تھا اور دوسرے کا نام عتیبہ تھا۔ اعلانِ نبوّت سے پہلے رسول کریم ﷺ نے اپنی دو بیٹیوں حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہما کا نکاح ابو لہب کے ان دونوں بیٹوں سے کردیا تھا۔ یہ صرف نکاح ہوا تھا، ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی۔ اسلام کا آغاز ہوا اور سورۂ لہب نازل ہوئی تو ابو لہب نے غصے میں آکر اپنے بیٹوں سے کہا:

" اگر تم محمد کی بیٹیوں کو طلاق نہیں دوگے تو میں تمہارا چہرہ نہیں دیکھوں گا۔"

چنانچہ ان دونوں نے انہیں طلاق دے دی۔( دیکھا جائے تو آپ ﷺ کی بیٹیوں کے لئے اس میں حکمت تھی گویا اللہ تعالٰی نے چاہا کہ یہ پاک صاحب زادیاں عتبہ اور عتیبہ کے ہاں نہ جاسکیں ۔) یہ رشتہ اسلام دشمنی کی بنیاد پر ختم کیا گیا، یعنی آپ دونوں چونکہ نبی کریم ﷺ کی صاحب زادیاں تھیں ، اس لئے یہ قدم اٹھایا گیا۔ 

اس موقع پر عتیبہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے آپ کی شان میں گستاخی کی۔ آپ صاحب زادیوں کی وجہ سے پہلے ہی غمگین تھے، ان حالات میں آپ نے اس کے حق میں بد دعا فرمائی:

" اے اللہ! اس پر اپنے کتوں میں سے ایک کتا مسلط فرمادے۔"

عتیبہ یہ بد دعا سن کر وہاں سے لوٹ آیا، اس نے اپنے باپ ابو لہب کو سارا حال سنایا۔ اس کے بعد دونوں باپ بیٹا ایک قافلے کے ساتھ ملک شام کی طرف روانہ ہوگئے۔ راستے میں یہ لوگ ایک جگہ ٹھہرے۔ وہاں قریب ہی ایک راہب کی عبادت گاہ تھی۔ راہب ان کے پاس آیا۔ اس نے انہیں بتایا:

"اس علاقے میں جنگلی درندے رہتے ہیں ۔"

ابو لہب یہ سن کر خوف زدہ ہوگیا، نبی کریم ﷺ کی بد دعا یاد آگئی۔اس نے قافلے والوں سے کہا:

"تم لوگ میری حیثیت سے باخبر ہو اور یہ بھی جانتے ہو کہ میرا تم پر کیا حق ہے۔"

انہوں نے ایک زبان ہو کر کہا:

"بےشک ہمیں معلوم ہے۔"

ابو لہب یہ سن کر بولا:

"تب پھر تم ہماری مدد کرو، میں محمد کی بد دعا کی وجہ سے خوف زدہ ہوگیا ہوں ، اس لئے تم لوگ اپنا سامان اس عبادت گاہ کی طرف رکھ کر اس پر میرے بیٹے کا بستر لگا دو اور اس کے چاروں طرف تم لوگ اپنے بستر لگالو۔"


ان لوگوں نے ایسا ہی کیا، یہی نہیں ، انہوں نے اپنے چاروں طرف اپنے اونٹوں کو بھی بٹھادیا۔ اس طرح عتیبہ ان سب کے عین درمیان میں آگیا۔ اب وہ سب اس کی پاسبانی کرنے لگے۔ ان تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود حضور نبی کریم ﷺ کی پیش گوئی پوری ہوگئی۔نصف رات کے قریب ایک شیر وہاں آیا اور سوئے ہوئے لوگوں کو سونگھنے لگا۔ ایک ایک کو سونگھتے ہوئے وہ آگے بڑھتا رہا، یہاں تک کہ وہ لمبی چھلانگ لگا کر عتیبہ تک پہنچ گیا۔ بس پھر کیا تھا، اس نے اسے چیر پھاڑ کر ہلاک کرڈالا۔

تکالیف پہنچانے کا ایک اور واقعہ اس طرح پیش آیا کہ ایک روز آپ ﷺ مسجد الحرام میں نماز پڑھ رہے تھے۔ قریب ہی کچھ جانور ذبح کئے گئے تھے۔ وہ لوگ اپنے بتوں کے نام پر قربانی کرتے تھے۔ ان جانوروں کی ایک اوجھڑی ابھی تک وہیں پڑی تھی۔ ایسے میں ابو جہل نے کہا: 

"کیا کوئی شخص ایسا ہے جو اس اوجھڑی کو محمد کے اوپر ڈال دے۔"

ایک روایت کے مطابق کسی نے کہا:

"کیا تم یہ منظر نہیں دیکھ رہے ہو تم میں سے کون ہے جو وہاں جائے جہاں فلاں قبیلے نے جانور ذبح کئے ہیں ، ان کا گوبر، لید، خون اور اوجھڑی وہاں پڑے ہیں ۔ کوئی شخص وہاں جاکر گندگی اٹھالائے اور محمد کے سجدے میں جانے کا انتظار کرے۔ پھر جونہی وہ سجدے میں جائیں ، وہ شخص گندگی ان کے کندھوں کے درمیان رکھ دے۔"

تب مشرکوں میں سے ایک شخص اٹھا۔ اس کا نام عقبہ بن ابی معیط تھا۔ یہ اپنی قوم میں سب سے زیادہ بدبخت تھا۔ یہ گیا اور اوجھڑی اٹھالایا، جب آپ ﷺ سجدے میں گئے تو اوجھڑی آپ پر رکھ دی۔

اس پر مشرکین زور زور سے ہنسنے لگے۔ یہاں تک کہ وہ ہنسی سے بے حال ہوگئے اور ایک دوسرے پر گرنے لگے۔ ایسے میں کسی نے حضرت فاطمة الزهراء رضی اللہ عنہا کو یہ بات بتادی۔ وہ روتی ہوئی حرم میں آئیں ۔ نبی کریم ﷺ اسی طرح سجدے میں تھے اور اوجھڑی آپ کے کندھوں پر تھی۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اوجھڑی کو آپ پر سے ہٹایا۔ اس کے بعد آپ سجدے سے اٹھے اور نماز کی حالت میں کھڑے ہوگئے۔ نماز سے فارغ ہوکر آپ ﷺ نے ان لوگوں کے حق میں بد دعا فرمائی:

"اے اللہ تو قریش کو ضرور سزا دے، اے اللہ تو قریش کو ضرور سزا دے، اے اللہ تو قریش کو ضرور سزا دے۔"

قریش جو مارے ہنسی کے لوٹ پوٹ ہورہے تھے، یہ بد دعا سنتے ہی ان کی ہنسی کافور ہوگئی۔ اس بد دعا کی وجہ سے وہ دہشت زدہ ہوگئے۔ اس کے بعد آپ نے نام لے لے کر بھی بد دعا فرمائی:

"اے اللہ! تو عمرو بن ہشام کو سزا دے۔(یعنی ابو جہل کو)، عقبہ بن ابی معیط اور امیہ بن خلف کو سزا دے۔"

حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں :

"اللہ کی قسم! آپ ﷺ نے جن جن قریشیوں کا نام لیا تھا، میں نے انہیں غزوۂ بدر میں خاک و خون میں لتھڑا ہوا دیکھا، اور پھر ان کی لاشوں کو ایک گڑھے میں پھینک دیا گیا۔

اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت عثمان غنی ؓ نے اس طرح بیان فرمایا ہے:

"ایک روز نبی کریم ﷺ طواف فرمارہے تھے، اس وقت آپ کا ہاتھ حضرت ابو بکر ؓ کے ہاتھ میں تھا۔ حجر اسود کے پاس تین آدمی بیٹھے تھے۔ جب آپ حجر اسود کے پاس سے گزرے اور ان کے قریب پہنچے تو ان تینوں نے آپ کی ذات با برکات پر چند جملے کسے۔ ان جملوں کو سن کر آپ کو تکلیف پہنچی۔ تکلیف کے آثار آپ کے چہرے سے ظاہر ہوئے۔دوسرے پھیرے میں ابو جہل نے کہا:

" تم ہمیں ان معبودوں کی عبادت کرنے سے روکتے ہو جنہیں ہمارے باپ دادا پوجتے آئے ہیں ، لیکن ہم تم سے صلح نہیں کر سکتے۔" جواب میں آپ ﷺ نے فرمایا:

"میرا بھی یہی حال ہے۔"

*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

حضرت عثمان ؓ فرماتے ہیں :

ابو جہل نے ایک دم آگے بڑھ کر آپ ﷺ کے کپڑے پکڑنے کی کوشش کی۔ میں نے آگے بڑھ کر ایک گھونسہ اس کے سینے پر مارا۔ اس سے وہ زمین پر گر پڑا۔ دوسری طرف سے ابو بکر صدیق ؓ نے امیہ بن خلف کو دھکیلا،تیسری طرف خود حضور نبی کریم ﷺ نے عتبہ بن ابی معیط کو دھکیلا۔ آخر یہ لوگ آپ کے پاس سے ہٹ گئے۔ اس وقت آپ نے ارشاد فرمایا:

"اللہ کی قسم! تم لوگ اس وقت تک نہیں مرو گے، جب تک اللہ کی طرف سے اس کی سزا نہیں بھگت لوگے۔"

حضرت عثمان ؓ فرماتے ہیں :

"یہ الفاظ سن کر ان تینوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں تھا جو خوف کی وجہ سے کانپنے نہ لگا ہو۔"

پھر آپ نے ارشاد فرمایا:

"تم لوگ اپنے نبی کے لئے بہت بُرے ثابت ہوئے۔"

یہ فرمانے کے بعد آپ اپنے گھر کی طرف لوٹ گئے۔ ہم آپ کے پیچھے پیچھے چلے۔

جب آپ اپنے دروازے پر پہنچے تو اچانک ہماری طرف مڑے اور فرمایا:

"تم لوگ غم نہ کرو، اللہ تعالٰی خود اپنے دین کو پھیلانے والا، اپنے کلمے کو پورا کرنے والا اور اپنے نبی کی مدد کرنے والا ہے۔ ان لوگوں کو اللہ بہت جلد تمہارے ہاتھوں ذبح کروائے گا۔"

اس کے بعد ہم بھی اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ اور پھر اللہ کی قسم غزوۂ بدر کے دن اللہ تعالٰی نے ان لوگوں کو ہمارے ہاتھوں ذبح کرایا۔

ایک روز ایسا ہوا کہ آپ خانہ کعبہ کا طواف کررہے تھے، ایسے میں عقبہ بن ابی معیط وہاں آگیا، اس نے اپنی چادر اتار کر آپ کی گردن میں ڈالی اور اس کو بل دینے لگا۔ اس طرح آپ کا گلا گھٹنے لگا۔ ابو بکر صدیق ؓ دوڑ کر آئے اور اسے کندھوں سے پکڑ کر دھکیلا۔ ساتھ ہی انہوں نے فرمایا:

"کیا تم اس شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو، جو یہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے...اور جو تمہارے رب کی طرف سے کھلی نشانیاں لے کر آیا ہے۔"

بخاری کی ایک حدیث کے مطابق حضرت عروہ ابن زبیر ؓ سے روایت ہے کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت عمرو بن عاص ؓ سے پوچھا:

"مجھے بتائیے! مشرکین کی طرف سے حضور نبی کریم ﷺ کے ساتھ سب سے زیادہ بدترین اور سخت ترین سلوک کس نے کیا تھا؟"

جواب میں حضرت عمرو بن عاص ؓ نے فرمایا:

"ایک مرتبہ حضور نبی کریم ﷺ کعبہ میں نماز ادا فرمارہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط آیا، اس نے آپ کی گردن میں کپڑا ڈال کر اس سے پوری قوت سے آپ کا گلا گھونٹا۔ اس وقت حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے اسے دھکیل کر ہٹایا۔"

یہ قول حضرت عمرو بن عاص ؓ کا ہے، انہوں نے یہی سب سے سخت برتاؤ دیکھا ہوگا، ورنہ آپ ﷺ کے ساتھ اس سے کہیں زیادہ سخت برتاؤ کیا گیا۔

پھر جب مسلمانوں کی تعداد 38 ہوگئی تو حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے آپ سے عرض کیا: 

"اے اللہ کے رسول! مسجد الحرام میں تشریف لے چلئے تاکہ ہم وہاں نماز ادا کر سکیں ۔"

اس پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

"ابو بکر! ابھی ہماری تعداد تھوڑی ہے۔"

ابو بکر صدیق ؓ نے پھر اسی خواہش کا اظہار کیا۔ آخر حضور نبی کریم ﷺ اپنے تمام صحابہ کے ساتھ مسجد الحرام میں پہنچ گئے۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے کھڑے ہوکر خطبہ دیا۔ لوگوں کو کلمہ پڑھ لینے کی دعوت دی۔ اس طرح حضرت ابو بکر صدیق ؓ سب سے پہلے شخص ہیں ، جنہوں نے مجمعے میں کھڑے ہوکر اس طرح تبلیغ فرمائی۔ 

اس خطبے کے جواب میں مشرکین مکہ حضرت ابو بکر رضی اللہ اور دوسرے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے اور انہیں مارنے لگے۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو تو انہوں نے سب سے زیادہ مارا پیٹا، مارپیٹ کی انتہا کردی گئی۔


 عقبہ نے تو انہیں اپنے جوتوں سے ماررہا تھا۔ اس میں دوہرا تلا لگا ہوا تھا۔ اس نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے چہرے پر ان جوتوں سے اتنی ضربیں لگائیں کہ چہرہ لہو لہان ہوگیا۔ ایسے میں حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے قبیلے بنو تمیم کے لوگ وہاں پہنچ گئے۔ انہیں دیکھتے ہی مشرکین نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو چھوڑ دیا۔ ان لوگوں نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو ایک کپڑے پر لٹایا اور بے ہوشی کی حالت میں گھر لے آئے۔ ان سب کو یقین ہوچکا تھا کہ ابو بکر ؓ آج زندہ نہیں بچیں گے۔ اس کے بعد بنو تمیم کے لوگ واپس حرم آئے۔ انہوں نے کہا :

"اللہ کی قسم! اگر ابو بکر مرگئے تو ہم عقبہ کو قتل کر دیں گے۔"

یہ لوگ پھر حضرت ابو بکر ؓ کے پاس آئے۔ انہوں نے اور حضرت ابوبکر ؓ کے والد نے ان سے بار بار بات کرنے کی کوشش کی، لیکن آپ بالکل بے ہوش تھے۔ آخر شام کے وقت کہیں جاکر آپ کو ہوش آیا اور بولنے کے قابل ہوئے۔ انہوں نے سب سے پہلے یہ پوچھا:

"آنحضرت ﷺ کا کیا حال ہے؟"

گھر میں موجود افراد نے ان کی اس بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ ادھر حضرت ابوبکر صدیق ؓ بار بار اپنا سوال دہرا رہے تھے۔ آخر ان کی والدہ نے کہا:

"اللہ کی قسم! ہمیں تمہارے دوست کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ۔"

یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا:

"اچھا تو پھر ام جمیل بنت خطاب کے پاس جائیں ، ان سے آنحضرت ﷺ کا حال دریافت کرکے مجھے بتائیں ۔"

ام جمیل رضی اللہ عنہا حضرت عمر ؓ کی بہن تھیں ، اسلام قبول کرچکی تھیں ،لیکن ابھی تک اپنے اسلام کو چھپائے ہوئے تھیں ۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی والدہ ان کے پاس پہنچیں ، انہوں نے ام جمیل رضی اللہ عنہا سے کہا:

"ابو بکر محمد بن عبد اللہ کی خیریت پوچھتے ہیں ۔"

ام جمیل رضی اللہ عنہا چونکہ اپنے بھائی حضرت عمر ؓ سے ڈرتی تھی، وہ ابھی تک ایمان نہیں لائے تھے، اس لئے انہوں نے کہا:

"میں نہیں جانتی۔"

ساتھ ہی وہ بولیں :

"کیا آپ مجھے اپنے ساتھ لے جانا چاہتی ہیں ؟"

حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی والدہ نے فوراً کہا: 

"ہاں !"

اب یہ دونوں وہاں سے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے پاس آئیں ۔ ام جمیل رضی اللہ عنہا نے ابو بکر صدیق ؓ کو زخموں سے چور دیکھا تو چیخ پڑیں :

جن لوگوں نے تمہارے ساتھ یہ سلوک کیا ہے، وہ یقیناً فاسق اور بد ترین لوگ ہیں ، مجھے یقین ہے، اللہ تعالٰی ان سے آپ کا بدلہ لے گا۔"

حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے کہا:

"رسول اللہ ﷺ کا کیا حال ہے؟"

ام جمیل رضی اللہ عنہا ایسے لوگوں کے سامنے بات کرتے ہوئے ڈرتی تھیں جو ابھی ایمان نہیں لائے تھے، چنانچہ بولیں :

یہاں آپ کی والدہ موجود ہیں ۔"

حضرت ابو بکر ؓ فوراً بولے:

"ان کی طرف سے بے فکر رہیں ،یہ آپ کا راز ظاہر نہیں کریں گی۔"

اب ام جمیل رضی اللہ عنہا نے کہا:

"رسول اللہ ﷺ خیریت سے ہیں ۔"

ابو بکر صدیق ؓ نے پوچھا:

حضور ﷺ اس وقت کہاں ہیں ۔"

"ام جمیل نے فرمایا: 

"دار ارقم میں ہیں ۔"

یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق ؓ بولے:

"اللہ کی قسم ! میں اس وقت تک نہ کچھ کھاؤں گا، نہ پیوں گا جب تک کہ میں رسول اللہ ﷺ سے مل نہ لوں ۔"

ان دونوں نے کچھ دیر انتظار کیا...تاکہ باہر سکون ہو جائیں ...آخر یہ دونوں انہیں سہارا دے کر لے چلیں اور دار ارقم پہنچ ہوگئیں ، جونہی نبی اکرم ﷺ نے حضرت ابو بکر ؓ کی یہ حالت دیکھی تو آپ کو بےحد صدمہ ہوا۔ آپ نے آگے بڑھ کر ابوبکر ؓ کو گلے سے لگا لیا۔ انہیں بوسہ دیا۔ باقی مسلمانوں نے بھی انہیں گلے سے لگایا اور بوسہ دیا۔ پھر حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے آپ ﷺ سے عرض کیا:

"آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں ، اے اللہ کے رسول! مجھے کچھ تو نہیں ہوا، سوائے اس کے کہ میرے چہرے پر چوٹیں آئی ہیں ۔ یہ میری والدہ میرے ساتھ آئی ہیں ، ممکن ہے اللہ تعالٰی آپ کے طفیل انہیں جہنم کی آگ سے بچالے۔"

نبی کریم ﷺ نے ان کی والدہ کے لیے دعا فرمائی۔ پھر انہیں اسلام کی دعوت دی۔ وہ اسی وقت ایمان لے آئیں ، جس سے ابو بکر صدیق ؓ اور تمام صحابہ کو بےحد خوشی ہوئی۔

ایک روز صحابہ کرام نبی کریم ﷺ کے گرد جمع تھے۔ ایسے میں کسی نے کہا:

"اللہ کی قسم! قریش نے آج تک نبی کریم ﷺ کے علاوہ کسی اور کی زبان سے بلند آواز میں قرآن نہیں سنا۔ اس لئے تم میں سے کون ہے جو ان کے سامنے بلند آواز میں قرآن پڑھے۔"

یہ سن کر حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بول اٹھے:

"میں ان کے سامنے بلند آواز سے قرآن پڑھوں گا۔"

*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.