🌼 خلاصۂ قرآن رکوع بہ رکوع, سبق نمبر 07
سورۃ النساء کا خلاصہ
اصلاحِ عرب یا اصلاحِ معاشرہ
اس سورت میں اہلِ عرب کی اصلاح کا تذکرہ کیا جا رہا ہے، یا یوں کہیے کہ اس میں اصلاحِ معاشرہ کا بیان ہے۔
یہ سورت دو بڑے حصوں پر مشتمل ہے:
1️⃣ تدبیرِ منزل
2️⃣ سیاستِ مدینہ (اجتماعی نظام کی اصلاح)
پھر تدبیرِ منزل خود دو فصلوں پر مشتمل ہے:
1️⃣ قانونِ اصلاحِ مال
2️⃣ قانونِ اصلاحِ ازواج و اولاد
(اور اولاد کی اصلاح اسی ضمن میں خود بخود حاصل ہو جائے گی۔)
رکوع نمبر ۱ کا خلاصہ: ناجائز مال کی آمد کی روک تھام
اس رکوع میں یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ یتیم کے مال سے بچو، کیونکہ یہ تمہارے حق میں ناجائز اور حرام ہے۔
اسی طرح کسی عورت سے اس نیت سے نکاح نہ کرو کہ اس کے مال کے وارث بن کر اس کا سارا مال ہڑپ کر جاؤ، کیونکہ یہ بھی ناجائز ہے۔
عورتوں کے مہر بھی ادا کرو؛ جب تک وہ خوشی سے معاف نہ کریں، تمہارے لیے اس کا استعمال حرام ہے۔
حرام سے جتنا ہو سکے بچو، کیونکہ حرام کھانا اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھرنے کے مترادف ہے — اور ظاہر ہے کوئی عاقل انسان ایسا نہیں چاہے گا۔
رکوع نمبر ۲ کا خلاصہ: درآمدِ مال کا صحیح قانون
مالِ میراث میں سے جو حصے اللہ تعالیٰ نے مقرر کر دیے ہیں، اگر ان پر قناعت کی جائے اور کسی کا حصہ غصب نہ کیا جائے، تو اللہ تعالیٰ کی رضا اور برکت تمہارا مقدر ہوگی۔
اگر تم اس قانونِ میراث کی پابندی کرو گے تو عزت پاؤ گے،
ورنہ خود اپنے لیے ذلّت کا راستہ کھول رہے ہو۔
اس قانون پر عمل کرنے سے تمہارا مال حلال و طیب ہوگا،
جس کی برکت تم خود اپنی آنکھوں سے دیکھو گے۔
رکوع نمبر ۳ کا خلاصہ: قانونِ اصلاحِ عیوبِ ازواج
عورت کی بے حیائی اور خاوند کی اس سے نفرت کے تین درجے ہیں:
1️⃣ اگر عورت کھلے عام بدکاری کرے اور حیا محسوس نہ کرے،
تو اگر غیر شادی شدہ ہے تو سو (۱۰۰) کوڑے مارے جائیں،
اور اگر شادی شدہ ہے تو رجم (سنگسار) کیا جائے۔
(اس حکم سے پہلے قید کا حکم تھا جو اب منسوخ ہو گیا۔)
2️⃣ اگر عورت کی بے حیائی اتنی عام نہ ہو کہ گواہ موجود ہوں، مگر برادری کو علم ہو — تو اس پر رجم نہیں، البتہ مال لے کر طلاق دینا جائز ہے جیسا کہ عرفِ عام میں ہوتا ہے۔
3️⃣ اگر بے حیائی کا علم صرف خاوند کو ہے،
تو اس صورت میں مال لے کر طلاق دینا مناسب نہیں؛
بلکہ اگر طلاق دینی ہو تو بغیر کسی مالی فائدے کے دے دے۔
رکوع نمبر ۴ کا خلاصہ: طرزِ معاشرت کیسا ہو؟
جو عورتیں پہلے سے منکوحہ ہیں، ان سے حالتِ ازدواج میں دوسرا نکاح کرنا حرام ہے۔
البتہ اگر نکاح ضروری ہو اور آزاد عورت سے نکاح کی استطاعت نہ ہو تو باندی سے نکاح جائز ہے۔
اگر نکاح نہ کیا جائے اور صبر سے کام لیا جائے تو یہ زیادہ بہتر ہے۔
اور نکاح کی صورت میں خوش اخلاقی کے ساتھ گزارہ کرو،
جان چھڑانے کی کوشش نہ کرو کیونکہ وہ تمہاری رفیقۂ حیات ہے۔
اس قانون پر عمل کرنے سے بد اخلاقی اور معاشرتی بگاڑ کا مکمل انسداد ہو جائے گا۔
رکوع نمبر ۵ کا خلاصہ: قانونِ اصلاحِ معاملات
معاملات کے سلسلے میں یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ کسی کا مال اس کی رضا مندی کے بغیر ہرگز استعمال نہ کرو۔ ہاں! اگر باہمی رضا مندی ہو یا خرید و فروخت کے ذریعے مال کا مالک بن جائے تو اس صورت میں اس کا استعمال جائز ہے۔ نیز یہ کہ مرد اور عورت اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر ترقی کریں۔ مرد عورتوں کی راہ میں حائل نہ ہوں اور عورتیں مرد کے کام نہ سنبھالیں، کیونکہ اگر ایسا ہوا تو کائنات کا سارا نظام تباہ ہو کر رہ جائے گا — جیسا کہ آج کل عام مشاہدے میں نظر آ رہا ہے۔
رکوع نمبر ۶ کا خلاصہ: تقسیمِ مراتبِ زوجین اور فرائضِ مشترکہ
شوہر کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ذرائعِ معاش سنبھالے، اور عورت کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ گھر کی ملکہ بن کر اپنی جان، مال، عزت و آبرو کی حفاظت کرے۔ اگر عورت نافرمانی کرے تو تادیبی کاروائی کی صورت میں اجازت ہے، لیکن اس کا مقصد عورت کو زدو کوب کرنا نہیں بلکہ اصلاح ہونا چاہیے۔ پھر میاں بیوی میں سے ہر ایک کا فرضِ مشترک یہ ہے کہ دونوں اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں، والدین کے ساتھ نیک سلوک کریں، عزیز و اقارب، دوست احباب، ہمسائے وغیرہ کے ساتھ صلۂ رحمی برقرار رکھیں، اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کریں — مگر مقصد دکھاوا نہ ہو بلکہ اللہ کی رضا ہو۔
رکوع نمبر کا خلاصہ: مسلمان ہر وقت بیدار رہیں
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے جو قوانین وضع کیے ہیں وہ انتہائی مفید ہیں۔ ان پر عمل کرنے کے لیے غفلت کو خیر باد کہنا ہوگا؛ بیداری اور ہوشیاری دکھانی ہوگی، ورنہ مسخِ فطرت کا خطرہ ہے۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ قانونِ الہی کو چھوڑ کر کسی اور قانون کو وہی درجہ دینا جو قانونِ الہی کا ہونا چاہیے — اس میں ایک طرح سے شرک کا شائبہ موجود ہے۔ لہٰذا قانونِ الہی سے روگردانی کسی بھی حالت میں مناسب نہیں۔
رکوع نمبر ۸ کا خلاصہ: قانونِ الہی کو پسِ پشت ڈالنے کا انجام
اگر کتابِ اللہ یعنی حکمِ الٰہی پر عمل نہ کیا جائے تو لازمی طور پر لوگ بتوں، پادریوں وغیرہ کے قوانین پر عمل کریں گے۔ آسان الفاظ میں، قانونِ الٰہی کو چھوڑ کر قانونِ شیطانی اختیار کیا جائے گا۔ جو شخص ایسا کرے گا اس پر ہمیشہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی لعنت برستی رہے گی اور وہ رحمتِ باری تعالیٰ سے دور ہوتا چلا جائے گا، حتیٰ کہ وہ جہنم کی اتھاہ گہرائیوں میں جا گرے گا۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔///
🌸🌹♥️🤲🌼

کوئی تبصرے نہیں: