سورۃ المائدہ کا خلاصہ
رکوع نمبر ۹ کا خلاصہ: اعداءِ الٰہی سے مقاطعہ کی وجہ
دشمنانِ خدا سے مقاطعہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اہلِ کتاب اسلام اور مسلمانوں کا تمسخر اور مذاق اُڑاتے ہیں، شعائرِ اسلام مثلاً اذان، نماز وغیرہ کی بے حرمتی کرتے ہیں، اشاعتِ دینِ الٰہی کے فرض کو ترک کرتے ہیں، اس لیے وہ اس قابل نہیں رہے کہ ان سے کسی قسم کی دوستی رکھی جائے۔
رکوع نمبر ۱۰ کا خلاصہ: اُمتِ مُقتصدہ کی تبلیغ اور مسائلِ تبلیغیہ
اہلِ کتاب میں ایک جماعت ایسی بھی موجود ہے جو میانہ رو اور نیک نیت ہے۔ اس جماعت کے کانوں تک کلمۂ طیبہ کی دعوت پہنچانا حضور ﷺ اور آپ کی اُمت کا فرض ہے۔
جن میں سب سے اہم توحید کی دعوت ہے جس کے نصاریٰ قائل نہیں۔ چنانچہ نصاریٰ کے دو فرقوں کا بیان ذکر کیا گیا ہے:
ایک فرقہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا مانتا تھا — اس کی تردید کے لیے خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بیان نقل کیا گیا۔
اور دوسرا فرقہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تین خداؤں میں سے ایک خدا مانتا تھا — ان لوگوں کے لیے عذابِ الیم کا وعدہ کیا گیا ہے۔
رکوع نمبر ۱۱ کا خلاصہ: تبلیغِ اہلِ کتاب میں نصاریٰ مقدم ہیں
جب تبلیغ کا فریضہ انجام پانا شروع ہو تو اس کے اولین مخاطب نصاریٰ ہونے چاہییں — سب سے پہلے انہیں تبلیغ کی جائے، پھر یہود کو۔
کیونکہ نصاریٰ کو فقط حضور ﷺ کی نبوت منوانے کی ضرورت ہے، جبکہ یہود کو حضور ﷺ کے ساتھ ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا قائل کرانے کی بھی ضرورت ہے۔
اس لیے یہود پر دوگنی محنت درکار ہے۔
لہٰذا اگر پہلے نصاریٰ کو تبلیغ کر لی جائے تو ان کی موافقت سے تمہارا کام آسان ہو جائے گا۔
رکوع نمبر ۱۲ کا خلاصہ: سفرِ تبلیغ میں حلال و حرام کی تمیز
اگرچہ اس رکوع میں سفر وغیرہ کا کوئی ذکر نہیں، اسی لیے جن علما نے ربط کا خاص خیال نہیں رکھا، انہوں نے اس کو سفر کے ساتھ خاص نہیں کیا بلکہ عموم پر رکھا ہے، اور یہ درست ہے۔
لیکن چونکہ ہمیں ربط بھی مدنظر ہے، اس لیے اگر اسے سفرِ تبلیغ کے ساتھ خاص کر لیا جائے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں، کما صرّح بہ شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ۔
اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اے مسلمانو! جب تم سفرِ تبلیغ پر جاؤ تو حلال کو حرام اور حرام کو حلال کر کے افراط و تفریط کا شکار نہ ہونا، بلکہ غیر مسلموں کو اصلی اور سادہ دین ہی پیش کرنا۔
رکوع نمبر ۱۳ کا خلاصہ: مرکزِ اصلی سے تعلق منقطع نہ ہونے پائے
مسلمانوں کا مرکز بیتُ اللّٰہ الحرام ہے، جسے قبلہ مقرر کر کے مسلمانوں کو اتحاد و یگانگت کا سبق دیا گیا۔
اس رکوع میں یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کا تعلق اپنے مرکزِ اصلی سے کبھی بھی منقطع نہ ہونے پائے — اس میں مسلمانوں کی زندگی کا راز پنہاں ہے۔
اگر اس مرکز سے تعلق توڑ دیا گیا تو پھر عزت کے بجائے ذلت، بقاء کے بجائے فنا، اور راحت کے بجائے شدتِ عذاب کا مظاہرہ ہوگا، جس کی برداشت کی طاقت کسی میں نہیں۔
پھر اس سورت میں اپنے مرکز کی طرف آنے کے آداب بھی بتائے گئے ہیں کہ فلاں قسم کا شکار جائز ہے اور فلاں قسم کا ناجائز — ان آداب کی رعایت بھی ضروری ہے۔
رکوع نمبر ۱۴ کا خلاصہ: لایعنی سوالات سے احتراز ضروری ہے
عربی کی ایک ضرب المثل مشہور ہے:
"کثرةُ الکلامِ تُنبِی عن قِلّةِ العمل"
کہ جو آدمی باتیں بہت زیادہ کرتا ہے، سمجھ لینا کہ عمل میں اس کا حصہ بہت کم ہے۔
اسی لیے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا جا رہا ہے کہ زیادہ سوالات کر کے اپنی آزادی کا دائرہ تنگ نہ کرو، جیسا کہ پچھلی اُمتوں نے اپنے انبیاء سے کثرت سے سوالات کیے، پھر ان پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے مجرم ہوئے اور تباہ و برباد کر دیے گئے۔
اس لیے مسلمان لایعنی اور کثرتِ سوال سے پرہیز کریں۔
رکوع نمبر ۱۵ کا خلاصہ: عدالتِ خداوندی میں انبیاء بطورِ گواہ
قیامت کے دن جب ربُّ العالمین کی بارگاہ کمرۂ عدالت کا منظر پیش کرے گی، اور ربُّ العالمین خود حَکَم ہوں گے، تو اس کمرے میں بطورِ گواہ انبیاء علیہم السلام پیش کیے جائیں گے۔
ہر ایک نبی سے اس کی اُمت کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی — جو محض منظرِ عام پر لانے کے لیے ہوگی، ورنہ اللہ ربُّ العالمین کے سامنے کوئی چیز بھی پردۂ خفا میں نہیں۔
رکوع نمبر ۱۶ کا خلاصہ: انبیاء علیہم السلام کی تمنا بوقتِ گواہی
جس وقت انبیاء کرام علیہم السلام کو بطورِ گواہ پیش کیا جائے گا تو ان کی انتہائی تمنا یہی ہوگی کہ ان کی اُمت کی بخشش ہو جائے۔
چنانچہ وہ اللہ کے عدل اور فضل، دونوں کا ذکر کریں گے تاکہ اللہ تعالیٰ ان کی اُمت پر رحم فرما کر انہیں جنت میں داخلے کا پروانہ عطا فرما دے۔
"آج الحمدللہ سورۃ المائدہ کی 16 رکوعات کا خلاصہ مکمل ہوا، کل ان شاء اللہ سورة الانعام شروع کرینگے۔"
🌼🌹🤲♥️🌸


ایک تبصرہ شائع کریں