سورۂ آلِ عمران کے مضامین کا خلاصہ
اصلاح و تردیدِ عیسائیت
عیسائیوں کے من گھڑت عقائد کی تردید اور ان کی اصلاح کا بیان اس سورت میں ہوگا۔
سورۂ بقرہ میں یہود کی اصلاح بالذات اور عیسائیوں کی بالتبع مقصود تھی،
جبکہ سورۂ آلِ عمران میں عیسائیوں کی اصلاح بالذات اور یہودیوں کی بالتبع ہے۔
رکوع نمبر ۱ کا خلاصہ: نصارٰی کو دعوتِ الی الکتاب اور تعلیمِ کتاب میں صحیح و غلط کا امتیاز
عیسائی چونکہ تین خدا مانتے تھے اور مانتے ہیں، اس لیے انہیں توحید کی دعوت دینے کے بعد فرمایا جا رہا ہے کہ جس خدا نے انجیل نازل کی، اسی خدا نے قرآن نازل کیا ہے۔ تم اس کی بات کیوں نہیں مانتے؟
تمہیں ضرور اس کی بات مان لینی چاہیے۔
قرآنِ کریم کی آیات دو بڑی قسموں میں منقسم ہیں:
(۱) محکمات
(۲) متشابہات
ان کی تعلیم کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ پہلے محکمات کا علم حاصل کیا جائے جو کتابِ الٰہی کے اصول ہیں، اس کے بعد متشابہات کو اللہ پر چھوڑ دیا جائے۔
لیکن بعض لوگ جو سمجھنا نہیں چاہتے اور قلبی طور پر بیمار ہیں، وہ محکمات کو چھوڑ کر متشابہات کے پیچھے لگ جاتے ہیں اور گمراہ ہو جاتے ہیں، اس لیے ایسے لوگوں سے بچنا چاہیے۔
رکوع نمبر ۲ کا خلاصہ: مسلکِ صحیح کے مخالفین کی بربادی اور موافقین کی سرفرازی کا اعلان
جو لوگ اللہ کے باغی ہیں اور توحید کے منافی عقائد اپنے اوپر مسلط کرتے ہیں، ان کا انجام بہت برا ہوگا اور وہ آخرت میں جہنم کی آگ کا ایندھن بنیں گے۔
اور جو لوگ اللہ کی گواہی، فرشتوں اور اہلِ علم کی گواہی علی التوحید کو سچا مانتے ہیں اور اللہ کے مطیع اور اس کی وحدانیت کے قائل ہیں، انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت کی ابدی نعمتوں میں پہنچا دیا جائے گا۔
رکوع نمبر ۳ کا خلاصہ: مخالفین و معاندین راہِ راست پر نہیں آسکتے
اوپر یہ بیان کیا گیا کہ مسلکِ صحیح کے مخالفین فی النار والسقر ہوں گے۔
اس رکوع میں بتایا جا رہا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ راہِ راست پر آنا ہی نہیں چاہتے۔
بھلا جو قوم انبیاء کو ناحق شہید کرے، ان کی تکذیب کرے، اور پھر یہ کہے کہ ہمارے سب گناہوں کا کفارہ حضرت عیسیٰؑ نے سولی پر چڑھ کر ادا کر دیا — حالانکہ یہ عقیدہ بعد کی پیداوار ہے، اصلی انجیل میں اس کا کوئی ذکر نہیں —
الغرض یہ لوگ راہِ راست پر نہیں آسکتے، اس لیے مسلمانوں کو ان سے دلی دوستی کیے بغیر اپنی راہ پر گامزن رہنا چاہیے اور ان کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔
رکوع نمبر ۴ کا خلاصہ: عزت کا دار و مدار نیک لوگوں کی اتباع میں ہے
حضور ﷺ کی اتباع محبتِ الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہے۔
اپنی منت کو پورا کرنا ہو تو مریمؑ کی والدہ کو دیکھو،
اولاد کی تمنا ہو تو حضرت زکریا علیہ السلام کے عمل کو دیکھو،
اور اولادِ صالح کو دیکھنا ہو تو یحییٰ علیہ السلام کو دیکھو۔
اپنے آپ کو ان کے نمونے اور اُسوہ پر چلانے کی کوشش کرو —
اسی میں تمہاری عزت کا راز پنہاں ہے۔
رکوع نمبر ۵ کا خلاصہ: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی بشارت اور ان کی تعلیمات کا خلاصہ
گزشتہ رکوع میں حضرت مریم علیہا السلام کی پیدائش کا ذکر کیا گیا۔
اس رکوع میں ان کے بیٹے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے عجیب طریقے سے بغیر باپ کے پیدا ہونے کی بشارت حضرت مریم کو سنائی جا رہی ہے۔
پیدائش کے بعد انہیں برگزیدہ پیغمبر بنا کر کتابِ ہدایت انجیل کے لیے منتخب کیا گیا۔
ان کی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ:
سب کام اللہ تعالیٰ کے ارادے سے ہوتے ہیں،
اللہ سے تعلق جوڑو، جس طرح میرے سارے کام ہو جاتے ہیں، تمہارے بھی ہو جایا کریں گے۔
اللہ تعالیٰ کی کتابوں کی تصدیق کرتے ہوئے اس کے دین کے معاون بن جاؤ،
تمہارے خلاف ساری باطل طاقتوں کو اللہ تعالیٰ اپنی قوتِ تدبیر سے تمہارے راستے سے ہٹا دے گا۔
رکوع نمبر ۶ کا خلاصہ: چار وعدے
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق چار قسم کے وعدے بیان کیے گئے ہیں:
1️⃣ توفی: یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے جسد اور روح کے ساتھ اس دنیا سے منتقل ہو جائیں گے۔
2️⃣ رفع إلی السماء: وفات کے بعد (روح مع الجسد) کو آسمان پر زندہ اٹھا لیا جائے گا۔
3️⃣ تطہیر من الکفار: یعنی کفار سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بچا لیا جائے گا اور کفار اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔
4️⃣ متبعین کا غالب رہنا: یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متبعین ہمیشہ (جب تک وہ ان کی تعلیمات پر عمل پیرا رہیں) اپنے مخالفین پر غالب رہیں گے۔
اور اللہ تعالیٰ نے یہ چاروں وعدے پورے فرمائے۔
رکوع نمبر ۷ کا خلاصہ: اہلِ کتاب کو مسلکِ صحیح کی دعوت اور ان کا انحراف
اہلِ کتاب سے کہا جا رہا ہے کہ تم توحید کے قائل ہو جاؤ، کیونکہ تمہارے بڑے مذہبی پیشوا جنہیں تم قابلِ تعظیم سمجھتے ہو — حضرت ابراہیم علیہ السلام — بھی موحد تھے۔
وہ نہ مشرک تھے، نہ یہودی اور نہ عیسائی۔
تم بھی توحید کا دامن تھام لو تاکہ نجات حاصل کرو۔
لیکن انہوں نے اس سیدھی، صاف اور سچی تعلیم و دعوت کو ٹھکرا دیا، اور یوں اپنی دنیا و آخرت کی ذلت و بربادی کا سامان خود پیدا کر لیا۔
رکوع نمبر ۸ کا خلاصہ: اہلِ کتاب کا مسلمانوں کے خلاف سرگرمِ عمل ہونا
اس رکوع میں چار چیزیں بیان کی گئی ہیں:
1️⃣ اہلِ کتاب کی سازش کا انکشاف
2️⃣ اس سازش سے بعض حضرات کا استثناء
3️⃣ سازشیوں سے اللہ تعالیٰ کا برتاؤ
4️⃣ سازشی لوگوں کی اپنے بڑوں کے مسلک سے انحراف
چنانچہ اہلِ کتاب کی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازش کا انکشاف یہ ہوا کہ یہ لوگ ایک دوسرے کو تلقین کرتے تھے کہ
"دن میں مسلمان ہو جاؤ اور رات کو اسلام سے منکر ہو جاؤ، تاکہ لوگ اسلام قبول کرنا چھوڑ دیں۔"
البتہ بعض لوگ اس سازش میں شریک نہیں تھے، اور جو شریک ہیں وہ یاد رکھیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انہیں جہنم کا سخت عذاب دے گا، کیونکہ یہ اپنے بڑوں کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ان کے بڑے تو سازش کرنے والے نہ تھے، پھر انہیں کیا ہو گیا؟
رکوع نمبر ۹ کا خلاصہ: اہلِ کتاب کے مقتداؤں کا حضور ﷺ کی اطاعت کا اقرار
اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء سے یہ وعدہ لیا تھا کہ اگر آخری نبی حضرت محمد ﷺ تمہاری موجودگی میں مبعوث ہو گئے تو تم ان کی تصدیق و تصویب کرنا اور ان کی مدد کرنا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"کیا تمہیں یہ بات منظور ہے؟"
سب نے وعدہ کیا۔
پھر اللہ تعالیٰ نے اس وعدے پر اپنی مہرِ تصدیق ثبت کرتے ہوئے فرمایا:
"تم بھی اس معاہدے پر گواہ رہنا، اور میں بھی گواہ ہوں۔"
تو جب انبیاء علیہم السلام نے جو ان کے مقتداء ہیں، حضرت محمد ﷺ کی اطاعت کا اقرار کیا ہے تو اہلِ کتاب کو تو بطریقِ اولیٰ آپ ﷺ کی اتباع کرنی چاہیے۔
رکوع نمبر ۱۰ کا خلاصہ: یہود کے ایک شبہے کا جواب
یہودیوں کی طرف سے حضور ﷺ پر اعتراض کیا جاتا تھا کہ
"تم اپنے آپ کو ملتِ ابراہیمی کا متبع کہتے ہو، حالانکہ ملتِ ابراہیم میں اونٹ کا گوشت اور دودھ حرام تھا، تم یہ چیزیں کیوں استعمال کرتے ہو؟"
اس کا جواب دیا گیا کہ یہ چیزیں ملتِ ابراہیمی میں حرام نہ تھیں، بلکہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے منت کے طور پر ان چیزوں کو اپنے اوپر حرام کر لیا تھا، ورنہ ان میں فی نفسہ کوئی حرمت نہیں تھی۔
پھر فرمایا گیا کہ دنیا کا سب سے پہلا گھر خانہ کعبہ ہے، جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر سے آراستہ ہوا۔
تم اس کا حج کرو تاکہ تمہارے اندر اتحاد و اتفاق کی صفت پیدا ہو۔
اگر اہلِ کتاب تمہاری بات مان لیں تو ٹھیک، ورنہ تم ان سے مقاطَعہ (بائیکاٹ) کر لو۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔//
🌹🌼🌸🤲♥️


ایک تبصرہ شائع کریں