🤍✨🕌📿⭐️سیرت النبی ﷺ قدم بقدم🌴𝟐𝟑🌴
🤍✨🕌📿⭐️سیرت النبی ﷺ قدم بقدم🌴𝟐𝟑🌴
سرکارِ مدینیہ، سیدِ دو عالم ﷺ کی سیرت کا مکمل اور مفصل تذکرہ
☼الکمونیا ⲯ﹍︿﹍میاں شاہد﹍︿﹍ⲯآئی ٹی درسگاہ☼
✍🏻 عبداللہ فارانی
☰☲☷ گذشتہ سے پیوستہ ☷☲☰
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس کے بعد کچھ دن تک آپ ﷺ خاموش رہے۔ پھر آپ ﷺ کے پاس جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے۔ انہوں نے آپ کو اللہ کی جانب سے اللہ تعالٰی کے پیغام کو ہر طرف پھیلا دینے کا حکم سنایا۔
آپ ﷺ نے دوبارہ لوگوں کو جمع فرمایا۔ان کے سامنے یہ خطبہ ارشاد فرمایا:
اللہ کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، میں خاص طور پر تمہاری طرف اور عام طور پر سارے انسانوں کی طرف اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ، اللہ کی قسم! تم جس طرح جاگتے ہو، اسی طرح ایک دن حساب کتاب کے لئے دوبارہ جگائے جاؤ گے۔ پھر تم جو کچھ کررہے ہو، اس کا حساب تم سے لیا جائے گا۔ اچھائیوں اور نیک اعمال کے بدلے میں تمہیں اچھا بدلہ ملے گا اور برائی کا بدلہ برا ملے گا، وہاں بلاشبہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جنت ہے یا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم ہے۔اللہ کی قسم! اے بنی عبد المطلب! میرے علم میں ایسا کوئی نوجوان نہیں جو اپنی قوم کے لئے اس سے بہتر اور اعلی کوئی چیز لے کر آیا ہو۔ میں تمہارے واسطے دنیا اور آخرت کی بھلائی لے کر آیا ہوں ۔ "
آپ ﷺ کے اس خطبے کو سن کر ابو لہب نے سخت ترین انداز میں کہا:
"اے بنی عبد المطلب! اللہ کی قسم! یہ ایک فتنہ ہے اس سے پہلے کہ کوئی دوسرا اس پر ہاتھ ڈالے، بہتر یہ ہے کہ تم ہی اس پر قابو پالو، یہ معاملہ ایسا ہے کہ اگر تم اس کی بات سن کر مسلمان ہوجاتے ہو، تو یہ تمہارے لئے ذلت و رسوائی کے بات ہوگی - اگر تم اسے دوسرے دشمنوں سے بچانے کی کرو گے تو تم خود قتل ہوجاؤگے -"
اس کے جواب میں اس کی بہن یعنی نبی اکرم ﷺ کی پھوپھی صفیہ رضی اللہ عنہا نے کہا:
"بھائی! کیا اپنے بھتیجے کو اس طرح رسوا کرنا تمہارے لیے مناسب ہے اور پھر اللہ کے قسم! بڑے بڑے عالم یہ خبر دیتے آرہے ہیں کہ عبدالمطلب کے خاندان میں سے ایک نبی ظاہر ہونے والے ہیں ، لہٰذا میں تو کہتی ہوں ، یہی وہ نبی ہیں -"
ابولہب کو یہ سن کر غصہ آیا، وہ بولا:
"اللہ کی قسم یہ بالکل بکواس اور گھروں میں بیٹھنے والی عورتوں کی باتیں ہیں - جب قریش کے خاندان ہم پر چڑھائی کرنے آئیں گے اور سارے عرب ان کا ساتھ دیں گے تو ان کے مقابلے میں ہماری کیا چلے گی - خدا کی قسم ان کے لیے ہم ایک تر نوالے کی حیثیت ہوں گے -"
اس پر ابوطالب بول اٹھے:
"اللہ کی قسم! جب تک ہماری جان میں جان ہے ہم ان کے حفاظت کریں گے -"
اب نبی کریم ﷺ صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور تمام قریش کو اسلام کی دعوت دی - ان سب سے فرمایا:
"اے قریش! اگر میں تم سے یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے سے ایک لشکر آرہا ہے اور وہ تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا تم مجھے جھوٹا خیال کرو گے -"
سب نے ایک زبان ہوکر کہا:
"نہیں ! اس لیے کہ ہم نے آپ کو آج تک جھوٹ بولتے ہوئے نہیں سنا -"
اب آپ نے فرمایا:
"اے گروہِ قریش! اپنی جانوں کو جہنم سے بچاؤ، اس لئے کہ میں اللہ تعالی کے ہاں تمہارے لیے کچھ نہیں کرسکوں گا، میں تمہیں اس زبردست عذاب سے صاف ڈرا رہا ہوں جو تمہارے سامنے ہے، میں تم لوگوں کو دو کلمے کہنے کی دعوت دیتا ہوں ، جو زبان سے کہنے میں بہت ہلکے ہیں ، لیکن ترازو میں بے حد وزن والے ہیں ، ایک اس بات کی گواہی کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، دوسرے یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں ، اب تم میں سے کون ہے جو میری اس بات کو قبول کرتا ہے -"
آپ کے خاموش ہونے پر ان میں سے کوئی نہ بولا تو آپ نے اپنی بات پھر دہرائی، پھر آپ نے تیسری بار اپنی بات دہرائی مگر اس بار بھی سب خاموش کھڑے رہے - اتنا ہوا کہ سب نے آپ کی بات خاموشی سے سن لی اور واپس چلے گئے -
ایک دن قریش کے لوگ مسجد حرام میں جمع تھے، بتوں کو سجدے کررہے تھے، آپ نے یہ منظر دیکھا تو فرمایا:
"اے گروہ قریش! اللہ کی قسم! تم اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کے راستے سے ہٹ گئے ہو -"
آپ کی بات کے جواب میں قریش بولے:
"ہم اللہ تعالٰی کی محبت ہی میں بتوں کو پوجتے ہیں تاکہ اس طرح ہم اللہ تعالٰی کے قریب ہوسکیں -"
(افسوس! آج کل ان گنت لوگ بھی قبروں کو سجدہ بالکل اسی خیال سے کرتے ہیں اور خود کو مسلمان کہتے ہیں )
اس موقع پر اللہ تعالٰی نے ان کی بات کے جواب میں وحی نازل فرمائی:
ترجمہ: آپ فرمادیجیے! اگر تم اللہ تعالٰی سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تعالٰی تم سے محبت کرنے لگیں گے اور تمہارے سب گناہوں کو معاف کردیں گے - (سورۃ آل عمران:آیت 31)
قریش کو یہ بات بہت ناگوار گزری - انہوں نے ابوطالب سے شکایت کی:
"ابوطالب! تمہارے بھتیجے نے ہمارے معبودوں کو برا کہا ہے، ہمارے دین میں عیب نکالے ہیں ، ہمیں بےعقل ٹھہرایا ہے، اس نے ہمارے باپ دادا تک کو گمراہ کہا ہے، اس لیے یا تو ہماری طرف سے آپ نپٹیے یا ہمارے اور اس کے درمیان سے ہٹ جایئے، کیونکہ خود آپ بھی اسی دین پر چلتے ہیں جو ہمارا ہے اور اس کے دین کے آپ بھی خلاف ہیں -"
ابو طالب نے انہیں نرم الفاظ میں یہ جواب دے کر واپس بھیج دیا کہ
اچھا میں انہیں سمجھاؤں گا -
ادھر اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو آپ کی خدمت میں بھیجا - حضرت جبرئیل نہایت حسین شکل و صورت میں بہترین خوشبو لگائے ظاہر ہوئے اور بولے:
"اے محمد! اللہ تعالیٰ آپ کو سلام فرماتے ہیں ، اور فرماتے ہیں کہ آپ تمام جنوں اور انسانوں کی طرف سے اللہ تعالی کے رسول ہیں ، اس لیے انہیں کلمہ لا الہ الا اللہ کی طرف بلایئے -"
یہ حکم ملتے ہی آپ نے قریش کو براہ راست تبلیغ شروع کردی اور حالت اس وقت یہ تھی کہ کافروں کے پاس پوری طاقت تھی اور وہ آپ کی پیروی کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں تھے، کفر اور شرک ان کے دلوں میں بسا ہوا تھا - بتوں کی محبت ان کے اندر سرایت کرچکی تھی - ان کے دل اس شرک اور گمراہی کے سوا کوئی چیز بھی قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھے - شرک کی یہ بیماری لوگوں میں پوری طرح سماچکی تھی -
آپ ﷺ کی تبلیغ کا یہ سلسلہ جب بہت بڑھ گیا تو قریش کے درمیان ہر وقت آپ ہی کا ذکر ہونے لگا - وہ لوگ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر آپ سے دشمنی پر اتر آئے - آپ کے قتل کے منصوبے بنانے لگے - یہاں تک سوچنے لگے کہ آپ کا معاشرتی بائیکاٹ کردیا جائے، لیکن یہ لوگ پہلے ایک بار پھر ابوطالب کے پاس گئے اور ان سے بولے:
"ابوطالب! ہمارے درمیان آپ بڑے قابل، عزت دار اور بلند مرتبہ آدمی ہیں ، ہم نے آپ سے درخواست کی تھی کہ آپ اپنے بھتیجے کو روکیے، مگر آپ نے کچھ نہیں کیا، ہم لوگ یہ بات برداشت نہیں کرسکتے کہ ہمارے معبودوں کو اور باپ داداؤں کو برا کہا جائے - ہمیں بےعقل کہا جائے - آپ انہیں سمجھا لیں ورنہ ہم آپ سے اور ان سے اس وقت تک مقابلہ کریں گے جب تک کہ دونوں فریقوں میں سے ایک ختم نہ ہوجائے -
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
قریش تو یہ کہہ کر چلے گئے، ابوطالب پریشان ہوگئے - وہ اپنی قوم کے غصے سے اچھی طرح واقف تھے - دوسری طرف وہ اس بات کو پسند نہیں کرسکتے تھے کہ کوئی بھی شخص حضور نبی کریم ﷺ کو رسوا کرنے کی کوشش کرے، اس لیے انہوں نے حضور نبی کریم ﷺ سے کہا:
"بھتیجے! تمہاری قوم کے لوگ میرے پاس آئے تھے، انہوں نے مجھ سے یہ، یہ کہا ہے، اس لیے اپنے اوپر اور مجھ پر رحم کرو اور مجھ پر ایسا بوجھ نہ ڈالو جس کو میں اٹھا نہ سکوں -"
ابوطالب کی اس گفتگو سے نبی اکرم ﷺ نے خیال کیا کہ اب چچا ان کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں ، وہ بھی اب آپ کی مدد نہیں کرنا چاہتے، آپ کی حفاظت سے ہاتھ اٹھارہے ہیں ، اس لیے آپ نے فرمایا:
"چچا جان! اللہ کی قسم! اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں اور یہ کہیں کہ میں اس کام کو چھوڑ دوں ، تو بھی میں ہرگز اسے نہیں چھوڑوں گا یہاں تک کہ خود اللہ تعالٰی اس کو ظاہر فرمادیں -"
یہ کہتے ہوئے آپ کی آواز بھرا گئی - آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے - پھر آپ اٹھ کر جانے لگے، لیکن اسی وقت ابوطالب نے آپ کو پکارا:
"بھتیجے! ادھر آؤ -"
آپ ان کی طرف مڑے تو انہوں نے کہا:
"جاؤ بھتیجے! جو دل چاہے کہو، اللہ کی قسم میں تمہیں کسی حال میں نہیں چھوڑوں گا -"
جب قریش کو اندازہ ہوگیا کہ ابوطالب آپ کا ساتھ چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں تو وہ عمارہ بن ولید کو ساتھ لےکر ابوطالب کے پاس آئے اور بولے:
"ابوطالب! یہ عمارہ بن ولید ہے - قریش کا سب سے زیادہ بہادر، طاقت ور اور سب سے زیادہ حسین نوجوان ہے - تم اسے لےکر اپنا بیٹا بنالو اور اس کے بدلے میں اپنے بھتیجے کو ہمارے حوالے کردو، اس لیے کہ وہ تمہارے اور تمہارے باپ دادا کے دین کے خلاف جارہا ہے، اس نے تمہاری قوم میں پھوٹ ڈال دی ہے اور ان کی عقلیں خراب کردی ہیں - تم اسے ہمارے حوالے کردو تاکہ ہم اسے قتل کردیں ... انسان کے بدلے میں ہم تمہیں انسان دے رہے ہیں -"
قریش کی یہ بےہودہ تجویز سن کر ابوطالب نے کہا:
"اللہ کی قسم! یہ ہرگز نہیں ہوسکتا - کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ کوئی اونٹنی اپنے بچے کو چھوڑ کر کسی دوسرے بچے کی آرزومند ہوسکتی ہے -"
ان کا جواب سن کر مطعم بن عدی نے کہا:
"ابوطالب! تمہاری قوم نے تمہارے ساتھ انصاف کا معاملہ کیا ہے اور جو بات تمہیں ناپسند ہے اس سے چھٹکارے کے لیے کوشش کی ہے - اب میں نہیں سمجھتا کہ اس کے بعد تم ان کی کوئی اور پیش کش قبول کرو گے -"
جواب میں ابوطالب بولے:
"اللہ کے قسم! انہوں نے میرے ساتھ انصاف نہیں کیا - بلکہ تم سب نے مل کر مجھے رسوا کرنے اور میرے خلاف گٹھ جوڑ کرنے کے لیے یہ سب کچھ کیا ہے، اس لیے اب جو تمھارے دل میں آئے کرلو -"
بعد میں یہ شخص یعنی عمارہ بن ولید حبشہ میں کفر کی حالت میں مرا۔ اس پر جادو کردیا گیا تھا۔ اس کے بعد یہ وحشت زدہ ہوکر جنگلوں اور گھاٹیوں میں مارا مارا پھرا کرتا تھا۔ اسی طرح دوسرا شخص مطعم بن عدی بھی کفر کی حالت میں مرا۔
غرض جب ابو طالب نے قریش کی یہ پیش کش بھی ٹھکرادی تو معاملہ حد درجے سنگین ہوگیا۔ دوسری طرف ابو طالب نے قریش کے خطرناک ارادوں کو بھانپ لیا، انہوں نے بنی ہاشم اور بنی عبد المطلب کو بلایا، ان سے درخواست کی کہ سب مل کر آپ کی حفاظت کریں ، آپ کا بچاؤ کریں ۔ ان کی بات سن کر سوائے ابو لہب کے سب تیار ہوگئے۔ ابو لہب نے ان کا ساتھ نہ دیا۔ یہ بدبخت سختی کرنے اور آپ کے خلاف آواز اٹھانے سے باز نہ آیا۔ اسی طرح جو لوگ آپ پر ایمان لےآئے تھے ان کی مخالفت میں بھی ابو لہب ہی سب سے پیش پیش تھا۔ آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو تکالیف پہنچانے میں بھی یہ قریش سے بڑھ چڑھ کر تھا۔
آپ کو تکالیف پہنچانے کے سلسلے میں حضرت عباس ؓ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں ۔ فرماتے ہیں ، ایک روز میں مسجد حرام میں تھا کہ ابو جہل وہاں آیا اور بولا:
"میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں ، اگر میں محمد کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھ لوں ، تو میں ان کی گردن ماردوں ۔"
حضرت عباس ؓ فرماتے ہیں ، یہ سن کر میں فوراً نبی کریم ﷺ کی طرف گیا اور آپ کو بتایا کہ ابو جہل کیا کہہ رہا ہے۔
نبی اکرم ﷺ یہ سن کر غصے کی حالت میں باہر نکلے اور تیز تیز چلتے مسجد الحرام میں داخل ہوگئے، یہاں تک کہ گزرتے وقت آپ کو دیوار کی رگڑ لگ گئی۔ اس وقت آپ سورة العلق کی آیت 1،2 پڑھ رہے تھے:
"ترجمہ: اے پیغمبر! آپ اپنے رب کا نام لے کر (قرآن) پڑھا کیجئے! وہ جس نے مخلوقات کو پیدا کیا۔ جس نے انہیں خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔"
تلاوت کرتے ہوئے آپ اس سورت کی آیت 6 تک پہنچ گئے:
"ترجمہ: سچ مچ بے شک کافر آدمی حد سے نکل جاتا ہے۔"
یہاں تک کہ آپ نے سورة کا آخری حصہ پڑھا جہاں سجدے کی آیت ہے اور اس کے ساتھ ہی آپ سجدے میں گرگئے۔ اسی وقت کسی نے ابو جہل سے کہا:
"ابو الحکم! یہ محمد سجدے میں پڑے ہیں ۔"
یہ سنتے ہی ابو جہل فوراً آپ کی طرف بڑھا، آپ کے نزدیک پہنچا، لیکن پھر اچانک وآپس آگیا۔ لوگوں نے حیران ہوکر پوچھا:
"ابو الحکم! کیا ہوا؟"
جواب میں اس نے اور زیادہ حیران ہوکر کہا:
"جو میں دیکھ رہا ہوں ، کیا تمہیں وہ نظر نہیں آرہا؟"
اس کی بات سن کر لوگ اور زیادہ حیران ہوئے اور بولے:
"تمہیں کیا نظر آرہا ہے ابو الحکم؟"
اس پر ابو جہل نے کہا:
"مجھے اپنے اور ان کے درمیان آگ کی ایک خندق نظر آرہی ہے۔"
اسی طرح ایک دن ابو جہل نے کہا:
"اے گروہ قریش! جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو، محمد تمہارے دین میں عیب ڈال رہا ہے، تمہارے معبودوں کو برا کہہ رہا ہے، تمہاری عقلوں کو خراب بتا رہا ہے اور تمہارے باپ داداؤں کو گالیاں دے رہا ہے، اس لئے میں خدا کے سامنے عہد کرتا ہوں کہ کل میں محمد کے لئے اتنا بڑا پتھر لے کر بیٹھوں گا جس کا بوجھ وہ برداشت نہیں کر سکیں گے، جونہی وہ سجدے میں جائیں گے، میں وہ پتھر ان کے سر پر دے ماروں گا، اس کے بعد تم لوگوں کو اختیار ہے، چاہو تو اس معاملے میں میری مدد کرنا اور مجھے پناہ دینا، چاہو تو مجھے دشمنوں کے حوالے کر دینا، پھر بنی عبد مناف میرا جو بھی حشر کریں ۔"
یہ سن کر قریش نے کہا:
"اللہ کی قسم! ہم تمہیں کسی قیمت پر دغا نہیں دیں گے، اس لئے جو تم کرنا چاہتے ہو، اطمینان سے کرو۔"
دوسرے دن ابو جہل اپنے پروگرام کے مطابق ایک بہت بھاری پتھر اٹھا لایا اور لگا نبی اکرم ﷺ کا انتظار کرنے۔ ادھر نبی اکرم ﷺ بھی عادت کے مطابق صبح کی نماز کے بعد وہاں تشریف لے آئے۔ اس وقت آپ کا قبلہ بیت المقدس کی طرف تھا۔ آپ نماز کے لئے رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان کھڑے ہوا کرتے تھے، کعبے کو اپنے اور بیت المقدس کے درمیان کر لیا کرتے تھے۔ آپ نے آتے ہی نماز کی نیت باندھ لی۔ ادھر قریش کے لوگ اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے انتظار کررہے تھے کہ دیکھیں آج کیا ہوتا ہے؟ ابو جہل اپنے پروگرام میں کامیاب ہوتا ہے یا نہیں ؟
پھر جونہی آپ سجدے میں گئے، ابو جہل نے پتھر اٹھایا اور آپ کی طرف بڑھا۔ جیسے ہی وہ آپ کے نزدیک ہوا، ایک دم اس پر لرزہ طاری ہوگیا۔ چہرے کا رنگ اڑگیا۔ گھبراہٹ کے عالم میں وہاں سے پیچھے ہٹ آیا۔ ادھر پتھر پر اس کے ہاتھ اس طرح جم گئے کہ اس نے چاہا، ہاتھ اس پر سے ہٹالے، لیکن ہٹا نہ سکا۔ قریش کے لوگ فوراً اس کے گرد جمع ہوگئے اور بولے:
"ابو الحکم! کیا ہوا؟ "
اس نے جواب دیا:
"میں نے رات کو تم سے جو کہا تھا، اس کو پورا کرنے کے لئے میں محمد کی طرف بڑھا مگر جیسے ہی ان کے قریب پہنچا، ایک جوان اونٹ میرے راستے میں آگیا۔ میں نے اس جیسا زبردست اونٹ آج تک نہیں دیکھا۔ وہ ایک دم میری طرف بڑھا جیسے مجھے کھالے گا۔"
جب اس واقعے کا ذکر نبی اکرم ﷺ سے کیا گیا تو آپ نے فرمایا:
"وہ جبرئیل علیہ السلام تھے اگر وہ میرے نزدیک آتا تو وہ ضرور اسے پکڑ لیتے۔"
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>

کوئی تبصرے نہیں: