Top Ad unit 728 × 90

✨📰 خاص مضامین 📰🏅

random

🌸 خلاصۂ قرآن رکوع بہ رکوع، سبق نمبر 08


 سورۃ النساء کا خلاصہ 



رکوع نمبر ۹ کا خلاصہ: مسلکِ صحیح کا ایک جزئیہ

اس رکوع میں بتایا جا رہا ہے کہ اگر تم نے مسلکِ صحیح کو ترک کر دیا تو تمہیں اپنی خواہشات پر عمل کرنے کے لیے محاکمہ اِلَى الطَّاغُوت کی ضرورت پیش آئے گی، اور اس کا انجام اللہ تعالیٰ کی لعنت کا نزول ہوگا۔

اس لیے مسلکِ صحیح کی پیروی کرو، جس کا ایک جزئیہ یہ بھی ہے کہ حضورِ اکرم ﷺ کا ہر فیصلہ بسر و چشم قبول کیا جائے، اور اس پر عمل کرنے میں کسی قسم کی سُستی یا کاہلی کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔

جس طرح منافقین کا شیوہ ہے کہ وہ اوّل تو حضور ﷺ کے پاس اپنا فیصلہ لے کر جاتے ہی نہیں، اور اگر جاتے بھی ہیں تو عمل کی نیّت سے نہیں، بلکہ جان چھڑانے کی نیت سے اور اس اُمید پر کہ ممکن ہے فیصلہ ہمارے حق میں ہو جائے۔


رکوع نمبر ۱۰ کا خلاصہ: قانونِ عدل کی اشاعت کا ایک ضروری رکن

قانونِ الٰہی جو عین عدل و انصاف ہے، اس کے جہاں اور ارکان ہیں، وہاں ایک بنیادی رکن قتل و قتال اور جہاد بھی ہے — جو محض اعلاءِ کلمۃ اللہ کے لیے ہو۔

نیز کمزور مسلمانوں کی حمایت کے لیے بھی اس کی ضرورت ہے، تاکہ امتِ مسلمہ ایک دبی ہوئی جماعت نہ رہے بلکہ اسے قوّت و شوکت حاصل ہو۔


رکوع نمبر ۱۱ کا خلاصہ: جہاد کے بعض احکام

اس رکوع میں جہاد سے متعلق چند احکام بیان کیے گئے ہیں:

مجاہد موت کا خیال دل سے نکال دے اور جہاد کی مکمل تیاری میں مصروف ہو، کیونکہ موت تو ہر ایک کو آنی ہے۔

نیز امیر کی اطاعت سے گریز نہ کیا جائے۔

ہر تنگی اور آسانی کو اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر محمول کیا جائے جو سفرِ قتال کے دوران پیش آئیں۔

اسی طرح مسلمان مجاہدین کی جمعیت بڑھانے کی کوشش کی جائے، تاکہ مسلمانوں کے دلوں میں کفار کا کوئی رُعب نہ رہے۔


رکوع نمبر ۱۲ کا خلاصہ: کفّار کی اقسام اور ان کا حکم

کفّار کی چار اقسام ہیں:

۱۔ مُعاہَد: یعنی جن کی حفاظت مسلمانوں کی ذمہ داری ہے، یا جنہیں ذِمّی کہا جاتا ہے۔

۲۔ معاہد کے معاہد: یعنی ذِمّی نے کسی کو امان دی ہوئی ہے۔

۳۔ عاجز: جیسے بوڑھے، بچے اور عورتیں وغیرہ۔

۴۔ باغی اور شرارتی: جو اپنی شرارت اور بغاوت سے باز نہیں آتے۔


ان میں سے پہلی تین قسم کے کافروں سے قتال نہ کرو، اور چوتھی قسم کے کافروں کو سمجھاؤ؛ اگر اپنی ریشہ‌دوانیوں سے باز آجائیں تو ٹھیک، ورنہ پھر انہیں طاقت اور اسلحے کے بل پر روکو۔


رکوع نمبر ۱۳ اور ۱۴ کا خلاصہ: مسلمانوں کی اقسام

سب سے پہلے یہ حکم دیا گیا ہے کہ کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو قتل کرنے کی کوشش نہ کرے۔

پھر اس کا مکمل قانون بیان کیا گیا ہے۔

اس کے بعد حکم دیا گیا کہ میدانِ جنگ میں مومن اور کافر کے درمیان تمیز ہونی چاہیے، جس کی شناخت اسلامی سلام سے ہو جائے گی۔

ان کے عقائد جانچنے کی ضرورت نہیں۔

پھر خروج الی القتال کے اعتبار سے مسلمانوں کی چار قسمیں بیان کی گئی ہیں:

۱۔ قاعد: جو جنگ میں جانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں لیکن ابھی روانگی کا حکم نہیں ملا۔

۲۔ مجاہد: جو میدانِ جنگ میں اپنا مال و جان قربان کر رہے ہیں۔

۳۔ اولواالضّرر: وہ معذور لوگ جو میدانِ جنگ میں جانے کے قابل نہیں۔ ان میں سے ہر ایک کو نیت اور درجہ کے مطابق ثواب ملے گا۔

۴۔ وہ لوگ جو مسلمانوں کے ساتھ جہاد میں شریک نہ ہوں بلکہ کفّار کی مدد کریں — ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہی ہوگا۔


رکوع نمبر ۱۵ کا خلاصہ: اہمیتِ قتال

اسلام کا اہم ترین رکن نماز ہے جس کے تارک کو کافر قرار دیا گیا ہے۔

جہاد کی اہمیت کے پیشِ نظر اس میں بھی تخفیف کر دی گئی، حالانکہ نماز کسی حالت میں معاف نہیں — بیماری، تندرستی، خوف، امن، بےچینی یا غم — کسی حالت میں نہیں۔

لیکن جہاد کی وجہ سے چار رکعتوں کو دو کر دیا گیا، اور جمعِ صُوری جائز قرار دی گئی۔

یہ سب جہاد کی اہمیت کے پیشِ نظر ہوا۔

فائدہ:

قصر کی تین صورتیں متصوّر ہو سکتی ہیں:

(۱) قصرِ رکعات

(۲) قصرِ جماعت

(۳) قصرِ اوقات

پہلی دو کا ثبوت قرآنِ کریم سے ہے، اور تیسری کا ثبوت حدیثِ شریف سے ہے۔


رکوع نمبر ۱۶ کا خلاصہ: امراء کو جانبداری سے بچنا چاہیے

لوگوں کے مال اور حکومت کے مال میں خیانت کرنے والے شخص یا گناہ‌گار آدمی کی طرف‌داری سے امراء اور افسرانِ بالا کو منع کیا جا رہا ہے، کیونکہ اس صورت میں ان کا وہ رعب و دبدبہ باقی نہیں رہے گا جو ہونا چاہیے۔

نتیجتاً فوج بددل ہو جائے گی اور ان میں راہِ خداوندی میں اپنی جان قربان کرنے کا وہ جذبہ نہیں رہے گا جو ایک مسلمان کو ہمیشہ میدانِ جنگ میں جانے پر اُبھارتا ہے۔

لہٰذا غیر جانبداری سے کام لینا ضروری ہے۔


رکوع نمبر ۱۷ کا خلاصہ: مسلکِ صحیح کی پیروی لازم ہے

منافقینِ مدینہ کی ایک جماعت نے حضور ﷺ کے دینِ اسلام کو مسلکِ صحیح سے برگشتہ کرنے کی کوشش کی۔

اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اس کی خبر دے دی۔

مسلمانوں کو بھی اس رکوع میں تاکید کی جا رہی ہے کہ وہ مسلکِ صحیح کی پیروی کریں اور اسلام کی مخالفت ہرگز نہ کریں۔


جاری ہے ۔۔۔۔۔۔//

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.