جون 2025
!حضرت محمد ﷺ ابراہیم جلیس ابن انشا ابن حبان ابو حمزہ عبدالخالق صدیقی ابوداؤد اپنے محبوب ﷺ کو پہچانئے احکامِ الصلوة احکام و مسائل احمد اشفاق احمد جمال پاشا احمد مشتاق اختر شیرانی اذکار و وظائف اردو ادب اردو کہانیاں ارشاد خان سکندر ارشد عبد الحمید اسلم انصاری اسلم راہی اسماء الحسنیٰﷻ اسماء المصطفیٰ ﷺ اصلاحی ویڈیو اظہر ادیب افتخار عارف افتخار فلک کاظمی اقبال ساجد اکاؤنٹنگ اکاؤنٹنگ اردو کورس اکاؤنٹنگ ویڈیو کورس اردو اکبر الہ آبادی الکا مشرا الومیناٹی امام ابو حنیفہ امجد اسلام امجد امۃ الحئی وفا ان پیج اردو انبیائے کرام انٹرنیٹ انجینئرنگ انفارمیشن ٹیکنالوجی انیس دہلوی اوبنٹو او ایس اور نیل بہتا رہا ایپل ایپلیکیشنز ایچ ٹی ایم ایل ایڈوب السٹریٹر ایڈوب فوٹو شاپ ایکسل ایم ایس ورڈ ایموجیز اینڈرائڈ ایوب رومانی آبرو شاہ مبارک آپ بیتی آج کی ایپ آج کی آئی ٹی ٹِپ آج کی بات آج کی تصویر آج کی ویڈیو آرٹیفیشل انٹیلیجنس آرٹیفیشل انٹیلیجنس کورس آسان ترجمہ قرآن آفتاب حسین آلوک شریواستو آؤٹ لُک آئی ٹی اردو کورس آئی ٹی مسائل کا حل باصر کاظمی باغ و بہار برین کمپیوٹر انٹرفیس بشیر الدین احمد دہلوی بشیر بدر بشیر فاروقی بلاگر بلوک چین اور کریپٹو بھارت چند کھنہ بھلے شاہ پائتھن پروٹون پروفیسر مولانا محمد یوسف خان پروگرامنگ پروین شاکر پطرس بخاری پندونصائح پوسٹ مارٹم پیر حبیب اللہ خان نقشبندی تاریخی واقعات تجربات تحقیق کے دریچے ترکی زبان سیکھیں ترمذی شریف تلوک چند محروم توحید تہذیب حافی تہنیت ٹپس و ٹرکس ثروت حسین جاوا اسکرپٹ جگر مراد آبادی جمادی الاول جمادی الثانی جہاد جیم جاذل چچا چھکن چودھری محمد علی ردولوی حاجی لق لق حالاتِ حاضرہ حج حذیفہ بن یمان حسرتؔ جے پوری حسرتؔ موہانی حسن بن صباح حسن بن صباح اور اسکی مصنوعی جنت حسن عابدی حسن نعیم حضرت ابراہیم  حضرت ابو ہریرہ حضرت ابوبکر صدیق حضرت اُم ایمن حضرت امام حسینؓ حضرت ثابت بن قیس حضرت دانیال حضرت سلیمان ؑ حضرت عثمانِ غنی حضرت عُزیر حضرت علی المرتضیٰ حضرت عمر فاروق حضرت عیسیٰ  حضرت معاویہ بن ابی سفیان حضرت موسیٰ  حضرت مہدیؓ حکیم منظور حماد حسن خان حمد و نعت حی علی الفلاح خالد بن ولید خالد عرفان خالد مبشر ختمِ نبوت خطبات الرشید خطباتِ فقیر خلاصۂ قرآن خلیفہ دوم خواب کی تعبیر خوارج داستان ایمان فروشوں کی داستانِ یارِ غار والمزار داغ دہلوی دجال درسِ حدیث درسِ قرآن ڈاکٹر عبدالحمید اطہر ندوی ڈاکٹر ماجد دیوبندی ڈاکٹر نذیر احمد ڈیزائننگ ذوالحجۃ ذوالقعدۃ راجیندر منچندا بانی راگھویندر دیویدی ربیع الاول ربیع الثانی رجب رزق کے دروازے رشید احمد صدیقی رمضان روزہ رؤف خیر زاہد شرجیل زکواۃ زید بن ثابت زینفورو ساغر خیامی سائبر سکیورٹی سائنس و ٹیکنالوجی سپلائی چین منیجمنٹ سچائی کی تلاش سراج لکھنوی سرشار صدیقی سرفراز شاہد سرور جمال سسٹم انجینئر سفرنامہ سلطان اختر سلطان محمود غزنوی سلیم احمد سلیم صدیقی سنن ابن ماجہ سنن البیہقی سنن نسائی سوال و جواب سورۃ الاسراء سورۃ الانبیاء سورۃ الکہف سورۃ الاعراف سورۃ ابراہیم سورۃ الاحزاب سورۃ الاخلاص سورۃ الاعلیٰ سورۃ الانشقاق سورۃ الانفال سورۃ الانفطار سورۃ البروج سورۃ البقرۃ سورۃ البلد سورۃ البینہ سورۃ التحریم سورۃ التغابن سورۃ التکاثر سورۃ التکویر سورۃ التین سورۃ الجاثیہ سورۃ الجمعہ سورۃ الجن سورۃ الحاقہ سورۃ الحج سورۃ الحجر سورۃ الحجرات سورۃ الحدید سورۃ الحشر سورۃ الدخان سورۃ الدہر سورۃ الذاریات سورۃ الرحمٰن سورۃ الرعد سورۃ الروم سورۃ الزخرف سورۃ الزلزال سورۃ الزمر سورۃ السجدۃ سورۃ الشعراء سورۃ الشمس سورۃ الشوریٰ سورۃ الصف سورۃ الضحیٰ سورۃ الطارق سورۃ الطلاق سورۃ الطور سورۃ العادیات سورۃ العصر سورۃ العلق سورۃ العنکبوت سورۃ الغاشیہ سورۃ الغافر سورۃ الفاتحہ سورۃ الفتح سورۃ الفجر سورۃ الفرقان سورۃ الفلق سورۃ الفیل سورۃ القارعہ سورۃ القدر سورۃ القصص سورۃ القلم سورۃ القمر سورۃ القیامہ سورۃ الکافرون سورۃ الکوثر سورۃ اللہب سورۃ اللیل سورۃ الم نشرح سورۃ الماعون سورۃ المآئدۃ سورۃ المجادلہ سورۃ المدثر سورۃ المرسلات سورۃ المزمل سورۃ المطففین سورۃ المعارج سورۃ الملک سورۃ الممتحنہ سورۃ المنافقون سورۃ المؤمنون سورۃ النازعات سورۃ الناس سورۃ النباء سورۃ النجم سورۃ النحل سورۃ النساء سورۃ النصر سورۃ النمل سورۃ النور سورۃ الواقعہ سورۃ الھمزہ سورۃ آل عمران سورۃ توبہ سورۃ سباء سورۃ ص سورۃ طٰہٰ سورۃ عبس سورۃ فاطر سورۃ فصلت سورۃ ق سورۃ قریش سورۃ لقمان سورۃ محمد سورۃ مریم سورۃ نوح سورۃ ہود سورۃ یوسف سورۃ یونس سورۃالانعام سورۃالصافات سورۃیٰس سورة الاحقاف سوشل میڈیا سی ایس ایس سی پلس پلس سید امتیاز علی تاج سیرت النبیﷺ شاہد احمد دہلوی شاہد کمال شجاع خاور شرح السنۃ شعب الایمان - بیہقی شعبان شعر و شاعری شفیق الرحمٰن شمشیر بے نیام شمیم حنفی شوال شوق بہرائچی شوکت تھانوی صادق حسین صدیقی صحابہ کرام صحت و تندرستی صحیح بُخاری صحیح مسلم صفر صلاح الدین ایوبی طارق بن زیاد طالب باغپتی طاہر چوھدری ظفر اقبال ظفرتابش ظہور نظر ظہیر کاشمیری عادل منصوری عارف شفیق عاصم واسطی عامر اشرف عبادات و معاملات عباس قمر عبد المالک عبداللہ فارانی عبید اللہ علیم عذرا پروین عرفان صدیقی عزم بہزاد عُشر عُشر کے احکام عطاء رفیع علامہ اقبال علامہ شبلی نعمانیؒ علی بابا عمر بن عبدالعزیز عمران جونانی عمرو بن العاص عنایت اللہ التمش عنبرین حسیب عنبر غالب ایاز غزہ فاتح اُندلس فاتح سندھ فاطمہ حسن فائر فاکس، فتنے فرحت عباس شاہ فرقت کاکوروی فری میسن فریدہ ساجد فلسطین فیض احمد فیض فینکس او ایس قتیل شفائی قربانی قربانی کے احکام قیامت قیوم نظر کاتب وحی کامٹیزیا ویڈیو ایڈیٹر کرشن چندر کرنل محمد خان کروم کشن لال خنداں دہلوی کلیم عاجز کنہیا لال کپور کوانٹم کمپیوٹنگ کورل ڈرا کوئز 1447 کوئز 2025 کیا آپ جانتے ہیں؟ کیف بھوپالی کیلیگرافی و خطاطی کینوا ڈیزائن کورس گوگل گیمز گینٹ چارٹس لائبریری لینکس متفرق مجاہد بن خلیل مجتبیٰ حسین محاورے اور ضرب الامثال محرم محسن اسرار محسن نقوی محشر بدایونی محمد بن قاسم محمد یونس بٹ محمدنجیب قاسمی محمود میاں نجمی مختصر تفسیر ِعتیق مخمور سعیدی مرادِ رسولِ کریم ﷺ مرزا غالبؔ مرزا فرحت اللہ بیگ مزاح و تفریح مستدرک حاکم مستنصر حسین تارڑ مسند احمد مشتاق احمد یوسفی مشکوٰۃ شریف مضمون و مکتوب معارف الحدیث معاشرت و طرزِ زندگی معتزلہ معرکہٴ حق و باطل مفتی ابولبابہ شاہ منصور مفتی رشید احمد مفتی سید مختار الدین شاہ مفتی شعیب عالم مفتی شفیق الدین الصلاح مفتی صداقت علی مفتی عتیق الرحمٰن شہید مفتی عرفان اللہ مفتی غلام مصطفیٰ رفیق مفتی مبین الرحمٰن مفتی محمد افضل مفتی محمد تقی عثمانی مفتی وسیم احمد قاسمی مقابل ہے آئینہ مکیش عالم منصور عمر منظر بھوپالی موبائل سوفٹویئر اور رپیئرنگ موضوع روایات مؤطا امام مالک مولانا اسلم شیخوپوری شہید مولانا اشرف علی تھانوی مولانا اعجاز احمد اعظمی مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مولانا جہان یعقوب صدیقی مولانا حافظ عبدالودود شاہد مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلیؔ مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ مولانا محمد ظفر اقبال مولانا محمد علی جوہر مولانا محمدراشدشفیع مولانا مصلح الدین قاسمی مولانا نعمان نعیم مومن خان مومن مہندر کمار ثانی میاں شاہد میر امن دہلوی میر تقی میر مینا کماری ناز ناصر کاظمی نثار احمد فتحی ندا فاضلی نشور واحدی نماز وٹس ایپ وزیر آغا وکاس شرما راز ونڈوز ویب سائٹ ویڈیو ٹریننگ یاجوج و ماجوج یوسف ناظم یونس تحسین ITDarasgah ITDarasgah - Pakistani Urdu Family Forum for FREE IT Education ITDarasgah - Pakistani Urdu Forum for FREE IT Education ITDarasgah.com - Pakistani Urdu Forum for IT Education & Information ITDCFED ITDCPD ITDCWSE ITDCXA


 **📚 سوال نمبر 4 (فقہیات):**  


*"نمازِ وتر میں کس وقت *قنوت* پڑھنا سنت کے مطابق ہے؟*  


- **A) صرف رکوع سے پہلے ❤️**  

- **B) صرف رکوع کے بعد 💙**  

- **C) دونوں وقت جائز 💚**  

- **D) اِن میں سے کوئی نہیں 💛**  


🏆★ITDarasgah Quiz★🏆
Click Here for Answer


**⏰ وقت:** کم از کم اگلے 24 گھنٹے تک اور زیادہ سے زیادہ آفیشل درست جواب پوسٹ ہونے تک جواب دے سکتے ہیں!  

**🎯 طریقہ:** درست آپشن پر **مخصوص ایموجی** سے ری ایکٹ کریں ( ❤️، 💙، 💚 یا 💛 ) یا پھر رپلائے کا آپشن (اگر دستیاب ہو) استعمال کریں، بٹن دباکے۔


**🙏** ان سوالات کا جواب ضرور دیا کریں، بیشک غلط ہی ہو، اس سے آپ کے علم میں اضافہ ہوگا۔


 

🌿 اَلْمُحْيِي – معنیٰ، مفہوم، فضائل، برکات، اذکار و وظائف 🌿


📖 معنیٰ و مفہوم:

🔹 اَلْمُحْيِي (Al-Muḥyī):
اللہ تعالیٰ کے اسمائے حُسنیٰ میں سے ایک اسمِ مبارک۔

🔹 لغوی معنی:
زندہ کرنے والا، زندگی بخشنے والا، حیات عطا کرنے والا۔

🔹 اصطلاحی مفہوم:
اَلْمُحْيِي وہ ذات ہے جو مخلوق کو عدم سے وجود عطا کرتی ہے، مردہ کو زندہ کرتی ہے، دلوں کو ایمان کی روشنی سے زندہ کرتی ہے، اور قیامت کے دن قبروں سے اٹھائے گی۔


📜 قرآنی حوالہ جات:

يُحْيِي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ
"وہ زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کرتا ہے۔"
(سورۃ الروم: 19)

قُلِ اللَّهُ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ
"کہہ دو! اللہ ہی تمہیں زندگی دیتا ہے، پھر موت دیتا ہے۔"
(سورۃ الجاثیہ: 26)

وَيُحْيِي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا
"اور وہی زمین کو مردہ ہونے کے بعد زندہ کرتا ہے۔"
(سورۃ الحدید: 17)


🌟 فضائل و برکات:

ایمان کی حیات: یہ اسم بندے کے دل میں روحانیت، نور اور ایمان کی تازگی لاتا ہے۔
مردہ دلوں کو زندگی: جو روحانی طور پر پژمردہ ہو چکے ہوں، یہ اسم ان میں نورِ معرفت پھونکتا ہے۔
نئی امید و ولولہ: جو مایوس ہو چکا ہو، اسے نئی توانائی، ولولہ اور زندہ دلی عطا ہوتی ہے۔


📿 اذکار و وظائف:

🔹 اذکار برائے روحانی تازگی:
روزانہ 66 مرتبہ "یَا مُحْيِي" پڑھنا روحانی طور پر دل کو زندہ رکھتا ہے۔ خاص طور پر فجر یا تہجد کے بعد۔

🔹 اذکار برائے جسمانی صحت:
"یَا مُحْيِي یَا قَيُّوْمُ" 100 مرتبہ پڑھ کر پانی پر دم کر کے بیمار کو پلائیں۔
🕊️ اللہ چاہے تو بیماری میں افاقہ ہوگا، نیا حوصلہ پیدا ہوگا۔

🔹 مردہ دل، افسردگی یا وسوسوں سے نجات:
جو شخص مایوسی یا غم کی کیفیت میں ہو، روزانہ "یَا مُحْيِي" کا ذکر دل کو تازگی دیتا ہے۔


🕊️ روحانی فوائد:

✨ دل میں نور، یقین اور حرکت پیدا ہوتی ہے۔
✨ غفلت، وسوسے اور مردہ پن سے نجات ملتی ہے۔
✨ روحانی زندگی میں تجدید اور ترقی حاصل ہوتی ہے۔
✨ بندہ ہر حال میں اللہ سے زندگی کی امید رکھتا ہے۔


🤲 دعائیہ جملہ:

"یَا مُحْيِي! ہمارے مردہ دلوں کو ایمان کی روشنی سے زندہ فرما، ہمارے بکھرے حوصلوں کو بحال فرما، ہمیں دنیا و آخرت میں زندگی عطا فرما جو تیرے قرب کا سبب بنے۔ آمین!"


📝 خلاصہ:

اَلْمُحْيِي اللہ کی وہ صفت ہے جو انسان کو یہ یاد دلاتی ہے کہ زندگی صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے — وہی زندہ کرتا ہے، وہی ایمان بخشتا ہے، وہی قیامت کے دن دوبارہ زندہ کرے گا۔

💧 یہ اسم دل کی سختی، روح کی پژمردگی اور زندگی کی مایوسی کے خلاف اللہ کی زندہ کر دینے والی صفت ہے۔


 


📚 سوال نمبر 3 (اسلامی سائنس و تاریخ):

"مسلم سائنسدان ابن الہیثم کس علم کے بانی مانے جاتے ہیں؟

A) کیمسٹری ❤️

B) طبیعات (اوپٹکس) 💙

C) ریاضی 💚

D) فلکیات 💛


🏆★ITDarasgah Quiz★🏆
Click Here for Answer



🎯 طریقہ: درست آپشن پر مخصوص ایموجی سے ری ایکٹ کریں۔ ❤️، 💙، 💚 یا 💛 یا پھر رپلائے کا آپشن استعمال کریں، بٹن دباکے


*ان سوالات کا جواب ضرور دیا کریں، بیشک غلط ہی ہو، اس سے آپ کے علم میں اضافہ ہوگا* 🙏



🌹 بسْمِ ﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم 🌹

━━❰・ *پوسٹ نمبر 191* ・❱━━━
          *سنن و نوافل سے متعلق مسائل:*

 *(81) استسقاء کی خاص دعا:* 
استسقاء کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے دعا کے متعدد کلمات ثابت ہیں، جن میں سے درج ذیل کلمات یاد رکھنےکے قابل ہے؛ "اَللّٰھُمَّ اسْقِنَا غَیْثاً مُغِیْثاً ھَنِیْاً مَرِیئاً مُرِیعاً طَبَقاً غَدَقاً عَاجِلاً غَیْرَ رَائث نَافِعاً  غَیْرَ ضَارٍّ"
ترجمہ : اے اللہ ! ہمیں ایسی بارش سے سیراب فرمائیے جو مصیبت دفع کرنے والی، اور ظاہری و باطنی طور پر سودمند ہو، اور سرسبزی و شادابی لانے کا ذریعہ ہو، اور خوب جل تھل کرنے والی ہو، اس کا نفع جلد ظاہر ہو، تاخیر نہ ہو،اور جو ہراعتبار سے نفع بخش ہو، اس میں نقصان کا کوئی پہلو نہ ہو۔ 
 
*(82) نمازِ استخارہ:* 
جب کسی شخص کو کوئی اہم معاملہ درپیش ہو اور وہ یہ طے نہ کرپا رہا ہو کہ اس کو اختیار کرنا بہتر رہے گا یا نہیں؟ تو اسے چاہیے کہ استخارہ کرے۔ استخارہ کے معنی خیر طلب کرنے کے آتے ہیں، یعنی اپنے معاملہ میں اللہ تعالی سے خیر اور بھلائی کی دعا کرے۔ اور اس کا طریقہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ بتلایا ہے کہ دو رکعت نفل نماز پڑھی جائے، اس کے بعد پوری توجہ کے ساتھ یہ دعا پڑھے۔
                    (جاری ہے)
📚حوالہ:
(1) طحطاوی علی المراقی اشرفی:552
(2) حلبی کبیر 428
(3) کتاب المسائل:1/509
 ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
━━━━━━━━❪❂❫━━━━━━━
▒▓█ مَجْلِسُ الْفَتَاویٰ █▓▒
مرتب:✍   مفتی عرفان اللہ درویش ھنگو عفی عنہ 
━━━━━━━━❪❂❫━━━━━━━ 


 **📚 سوال نمبر 2 (قرآن کریم):**  


*"سورۃ الکہف میں 'اصحابِ کہف' کے کتنی مدت تک غار میں سوئے رہنے کا ذکر ہے؟*  


- **A) 100 سال ❤️**  

- **B) 200 سال 💙**  

- **C) 300 سال 💚**  

- **D) 309 سال 💛**  

🏆★ITDarasgah Quiz★🏆
Click Here for Answer

🎯 طریقہ: درست آپشن پر مخصوص ایموجی سے ری ایکٹ کریں۔ ❤️، 💙، 💚 یا 💛 یا پھر رپلائے کا آپشن استعمال کریں، بٹن دباکے


*ان سوالات کا جواب ضرور دیا کریں، بیشک غلط ہی ہو، اس سے آپ کے علم میں اضافہ ہوگا* 🙏


 🌻 غیر مسلم کا بچہ مسلمان کی پرورش میں فوت ہوجائے تو نماز جنازہ کا حکم


📿 غیر مسلم کا بچہ مسلمان کی پرورش میں فوت ہوجائے تو اس کی نماز جنازہ کا حکم:
اگر کسی مسلمان نے غیر مسلم والدین کا بچہ گود لیا ہو تو ایسی صورت میں اس نابالغ بچے کو مسلمان قرار دینے کی دو ہی صورتیں ہوسکتی ہیں: ایک تو یہ کہ وہ بچہ سمجھ دار ہوجائے اور اسلام قبول کرلے، ایسی صورت میں اسلام قبو ل کرلینے کے بعد اگر وہ فوت ہوجائے تو اس کی نمازِ جنازہ ادا کرنے میں تو کوئی شبہ نہیں۔ دوسری صورت یہ کہ اس کو دار الاسلام کے تابع قرار دے کر مسلمان مانا جائے، اس میں اختلاف ہے لیکن بچے کا فائدہ اسی میں ہے کہ اس کو مسلمان مانا جائے۔ اس صورت میں اگر وہ سمجھ دار ہونے سے پہلے ہی فوت ہوجائے اور وہ ایسے ملک میں ہے جو کہ دار الاسلام ہے تو اس پر نمازِ جنازہ ادا کی جائے گی، اور اگر وہ ملک دار الاسلام نہ ہو تو اس پر نمازِ جنازہ ادا نہ کی جائے گی۔ (امداد الفتاوٰی تخریج شدہ)
☀️ المحيط البرهاني:
قال محمد رحمه الله في «الجامع الصغير»: في صبي سبي وسبى معه أبواه أو أحدها فمات لا يصلى عليه إلا إذا كان أقر بالإسلام، وهو يعقل الإسلام، وإن لم يسب معه أحدهما فمات يصلى عليه. يجب أن يعلم أن الولد الصغير يعتبر تبعا للأبوين أو لأحدهما في الدين، فإن انعدما يعتبر تبعا لصاحب اليد، فإن عدمت اليد يعتبر تبعا للدار؛ لأنه يقدر اعتباره أصلا في الدين، فلا بد من اعتباره تبعا نظيرا له، غير أن علة التبعية في الأبوين أقوى فتعتبر أولا تبعا لهما أو لأحدهما، وعند انعدامهما عليه التبعية في حق صاحب اليد أقوى. إذا ثبت هذا فنقول: إذا كان مع الصبي أبواه أو أحدهما يعتبر تابعا لهما لا للدار، فيجعل كافرا تبعا لهما .... وأما إذا لم يسب مع أحد أبويه صلي عليه إذا مات، ويعتبر مسلما تبعا للدار عند انعدام تبعية الأبوين. (الفصل الثاني والثلاثون في الجنائز)

✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم 
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی


 🌿 اليوم الأول من "درسگاہ سالانہ کوئز 1447"


📚 سوال نمبر 1 (حدیث و سیرت):

"حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: 'تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو...؟'


A) زیادہ مالدار ہو ❤️


B) قرآن سیکھے اور سکھائے 💙


C) زیادہ روزے رکھے 💚


D) طاقتور ہو 💛


🏆★ 𝐈𝐓𝐃𝐚𝐫𝐚𝐬𝐠𝐚𝐡🇵🇰𝐐𝐮𝐢𝐳 ★🏆 Click Here for Answers:

🎯 طریقہ: درست آپشن پر مخصوص ایموجی سے ری ایکٹ کریں۔ ❤️، 💙، 💚 یا 💛 یا پھر رپلائے کا آپشن استعمال کریں، بٹن دباکے


*ان سوالات کا جواب ضرور دیا کریں، بیشک غلط ہی ہو، اس سے آپ کے علم میں اضافہ ہوگا* 🙏


 🕌🛡️⚔️⭐معرکہٴ حق و باطل ⭐⚔️🛡️🕌🌴حصہ نہم 🌴
تذکرہ: امامِ عالی مقام ، نواسۂ رسول ، حضرت حسین ابن علی و اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم
🕌⭐🌴اہل ِ کوفہ کے نام خط🌴⭐🕌
✍🏻 حماد حسن خان
☼الکمونیا ⲯ﹍︿﹍میاں شاہد﹍︿﹍ⲯآئی ٹی درسگاہ☼
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حضرت مسلم بن عقیل  کی شہادت کی خبر ابھی تک حضرت امام ِ حسین تک نہیں پہنچی تھی۔ اس لیے آپ  نے مقام ِ حاجر سے قیس بن مسہرحیداوی کو خط دے کر کو فہ روانہ کیا ۔جس میں آپ  نے لکھا کہ:
” مجھے مسلم بن عقیل  کا خط مل گیا کہ جس میں انہوں نے ہمارے متعلق حسن ِ رائے اور ہماری مدد و حق طلبی کے لیے تمہارے اجتماع کی خبر دی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ہمارے مقصد میں کامیاب فرمائے۔ میں آٹھ ذوالحج بروز منگل کو یوم ترویہ کو مکہ سے روانہ ہو چکا ہوں۔جب تمہارے پاس میرا قاصد پہنچے تو مخفی طور پر اپنے کام کے لیے کوشش بڑھا دیں۔میں انشاء اللہ جلد ہی تمہارے پاس پہنچنے والا ہوں ۔والسلام علیکم و رحمةاللہ و برکاتہ!“
حضرت قیس جب امام ِ عالیٰ مقام کا خط لے کر قادسیہ پہنچے تو حصین بن نمیر جو ابن ِ زیاد کے حکم سے پہلے ہی فوج کے ساتھ تاک بندی کیے ہوئے تھا اس نے قیس کو گرفتا ر کر کے ابن زیاد کے پاس بھیج دیا ۔
ابن ِ زیاد نے کہا کہ تم اگر اپنی جان بچانا چاہتے ہو تو گورنر ہاؤس کی چھت پر چڑھ کر حسین ابن ِ علی کے خلاف تقریر کرو۔اور ان کو برا بھلا کہو۔حضرت قیس چھت پر چڑھ گئے اور صلوة والسلام کے بعد فرمایاکہ رسول ِ کریم ﷺ کے پیارے نواسے حضرت حسین بن ِ علی  اس وقت خلق ِ خدا میں سب سے بہترین شخص ہیں ۔ میں ان ہی کا بھیجا ہوا تم لوگوں کے پاس آیا ہوں ۔
تمہارا فرض ہے کہ ان کی مدد کے لیے قدم بڑھاؤ اور ان کی آواز پر لبیک کہو۔پھر حضرت قیس نے ابن ِ زیاد اور اس کے باپ کو برا بھلا کہا اور حضرت علی  کے لیے دعائے خیر کی۔ ابن ِ زیاد ان کی تقریر سن کر سخت غضبناک ہو گیا اور حکم دیا کہ اسے چھت کے اوپر سے نیچے گرا دو تاکہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں ۔بے رحموں نے حضرت قیس نیچے گرا دیا جس سے ان کی ہڈیاں چکنا چور ہو گئیں۔
اور ایسے امام ِ عالی مقام  کا ایک سچا محب آپ  پر قربان ہو گیا۔
شہادتِ مسلم بن عقیلکی خبر
قافلہٴ حسینی کوفہ کے حالات سے بے خبر کوفہ کی طرف رواں دواں تھا ۔راستے میں ہر چراہ گاہ سے جس پر قافلے کا گزر ہوتا کچھ لوگ ہمراہ ہو جاتے۔جب قافلہٴ حسینی ثعلبہ کے مقا م پر پہنچا تو حضرت امام ِ حسین  کو حضرت مسلم بن عقیل  اورہانی بن عروہ کی شہادت کی خبر ملی۔

عبد اللہ بن سلیم الاسدی اور مذری بن مشغل الاسدی سے روایت ہے کہ جب ہم حج سے فارغ ہوئے تو ہمیں حضرت امام حسین  کے ساتھ شامل ہونے سے زیادہ پسندیدہ کچھ نہ تھا۔ اس لیے ہم نے امام ِ عالی مقام کوراستے میں جا لیا۔اسی دوران میں قافلے کا گزر بنی اسد کے ایک آدمی کے قریب سے ہوا تو آپ  نے اس سے حالات دریافت کرنے کا ارادہ فرمایا پھر خیال ترک فرما دیا۔
جب ہم اس شخص کے پاس سے گزرے اور کوفہ کے لوگوں کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا خدا کی قسم !جب میں کوفہ سے نکلا تو مسلم بن عقیل  اور ہانی بن عروہ قتل ہو چکے تھے۔ ان کو ٹانگوں سے پکڑ کر بازاروں میں گھسیٹا جا رہا تھا ۔عبد اللہ اور منذر کے بقول انہوں نے تمام حالات حضرت امام ِ حسین کے گوش گزار کئے تو آپ  نے کئی بار اناللہ وانا الیہ راجعون پڑھا۔
عبد اللہ اور منذر کہتے ہیں کہ پھر ہم نے عرض کیا کہ ہم آپ کو خداکا واسطہ دیتے ہیں کہ آپ  اپنی اور اپنے گھر والوں کی فکر کریں اور یہاں سے واپس لوٹ جائیں کیونکہ کوفہ میں کوئی بھی حامی و مدد گار نہیں ہے۔ بلکہ ہمیں اندیشہ یہ ہے کہ آپ کو دعوت دینے والے ہی آپ  کے دشمن ہو گئے ہیں۔یہ سن کر مسلم بن عقیل  کے تینوں بھائی کھڑے ہو گئے اور جوش میں آ کر کہا کہ خدا کی قسم ہم واپس نہیں ہوں گے۔
جب تک مسلم کے خون کا بدلہ نہیں لے لیں گے یا پھر ہم بھی ان کی طرح قتل نہیں ہو جائیں گے ۔مسلم بن عقیل  کے بھائیوں کی بات سن کر حضر ت امام حسین نے فرمایا ان لوگوں کے بعد زندہ رہنے میں کوئی لطف و بھلائی نہیں ہے۔ آپ  کے بعض ساتھیوں نے یہ بھی کہا کہ خدا کی قسم آپ مسلم بن عقیل  کی طرح نہیں ہیں۔ جوں ہی آپ کوفہ تشریف لے جائیں گے سب آپ  کے ساتھ ہو جائیں گے۔
(البدایہ و النہایہ ۸:۱۶۹ ۔ الطبری)
حضرت امامِ حسین  جب اپنے قافلے کے ساتھ زرود کے مقام پر پہنچے تو آپ کو اپنے قاصد حضرت قیس  کے قتل کی خبر ملی جسے آپ  نے مکہ سے روانگی کے بعد مقام حاجر سے کوفہ والوں کے لیے خط دے کر روانہ کیا تھا ۔اس المناک خبر ملنے کے بعد آپ  نے اپنے رفقاء کو جمع کر کے فرمایا کہ ہمارے شیعوں نے ہم کو چھوڑ دیا ہے ۔
تم میں سے جو واپس جانا چاہے وہ بخوشی واپس چلا جائے۔ ہماری طرف سے اس پر کوئی پابندی یا الزام نہیں ۔آپ  نے یہ اس لیے فرمایا کہ راستے میں دیہات کے بہت سے لوگ ا س خیال کے تحت آپ  کے ساتھ ہو گئے تھے کہ شاید آپ بھی کسی ایسے شہر جا رہے ہیں جہاں کے رہنے والوں نے آپ  کی اطاعت قبول کر لی ہے۔جب کہ ان لوگوں کو صحیح حالات سے آگاہ کئے بغیر لے جانا مناسب نہیں تھا۔اور آپ  جانتے تھے کہ جب ان لوگوں کوصحیح حالات کا علم ہو گا تو آپ  کے ہمراہ صرف وہی لوگ رہ جائیں گے جو آپ  کے ساتھ جان کی بازی بھی لگانے پر تیار ہوں گے۔آپ  کے اس ا علان کے بعد بہت سے وہ لوگ جو راستے میں شامل ہوئے تھے منتشر ہو گئے اورآپ  کے ساتھ وہی لوگ رہ گئے جو مکہ سے چلے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*


 ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋-سورہ-ابرایم-آیت نمبر 24🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼ 

بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ
اَلَمْ تَرَ كَیْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَیِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِی السَّمَآءِۙ

ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 لفظی ترجمہ 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼

اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا كَيْفَ : کیسی ضَرَبَ اللّٰهُ : بیان کی اللہ نے مَثَلًا : مثال كَلِمَةً طَيِّبَةً : کلمہ طیبہ (پاک بات) كَشَجَرَةٍ : جیسے درخت طَيِّبَةٍ : پاکیزہ اَصْلُهَا : اس کی جڑ ثَابِتٌ : مضبوط وَّفَرْعُهَا : اور اس کی شاخ فِي : میں السَّمَآءِ : آسمان

ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 ترجمہ 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼

شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کلمہ طیبہ کی کیسی مثال بیان کی ہے ؟ وہ ایک پاکیزہ درخت کی طرح ہے جس کی جڑ (زمین میں) مضبوطی سے جمی ہوئی ہے، اور اس کی شاخیں آسمان میں ہیں۔ (18)

ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 تفسیر 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼

18: کلمہ طیبہ سے مراد کلمہ توحید یعنی لا الہ الا اللہ ہے اور اکثر مفسرین نے فرمایا ہے کہ پاکیزہ درخت سے مراد کھجور کا درخت ہے جس کی جڑیں زمین میں مضبوطی کے ساتھ جمی ہوتی ہیں، اور تیز ہوائیں اور آندھیاں اسے نقصان نہیں پہنچاسکتیں، نہ اسے اپنی جگہ سے ہلا سکتی ہیں، اسی طرح جب توحید کا کلمہ انسان کے دل و دماغ میں پیوست ہوجاتا ہے تو ایمان کی خاطر اسے کیسی ہی تکلیفوں یا مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑے اس کے ایمان میں کوئی کمزوری نہیں آتی ؛ چنانچہ آنحضرت ﷺ کے صحابہ کو ہر قسم کی اذیتیں دی گئیں ؛ لیکن توحید کا جو کلمہ ان کے دل میں گھر کرچکا تھا اس میں مصائب کی ان آندھیوں سے ذرہ برابر تزلزل نہیں آیا، کھجور کے درخت کی دوسری صفت اس آیت میں یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ اسکی شاخیں آسمان کی طرف بلند ہوتی ہیں، اور زمین کی کثافتوں سے دور رہتی ہیں، اسی طرح جب توحید کا کلمہ مومن کے دل میں پیوست ہوجاتا ہے تو اسکے تمام نیک کام جو درحقیقت اسی کلمے کی شاخیں ہیں آسمان کی طرف بلند ہوتے ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ تک پہنچ کر اس کی خوشنودی حاصل کرتے ہیں، اور دنیا پرستی کی کثافتوں سے محفوظ رہتے ہیں۔


 

🌿 اَلْمُعِيدُ – معنیٰ، مفہوم، فضائل، برکات، اذکار و وظائف 🌿


📖 معنیٰ و مفہوم:

🔹 اَلْمُعِيدُ (Al-Muʿīd):
اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ہے۔

🔹 لغوی معنی:
لوٹانے والا، دوبارہ واپس کرنے والا، از سرِ نو پیدا کرنے والا۔

🔹 اصطلاحی مفہوم:
اَلْمُعِيدُ وہ ذات ہے جو پہلی بار پیدا کرنے کے بعد، دوبارہ زندہ بھی کرتی ہے۔
وہی مرنے کے بعد دوبارہ زندگی عطا فرماتا ہے، وہی ہر شے کو نئے سرے سے لوٹاتا ہے۔


📜 قرآنی حوالہ:

إِنَّهُ هُوَ يُبْدِئُ وَيُعِيدُ
"بے شک وہی ہے جو (پہلی بار) پیدا کرتا ہے اور (پھر دوبارہ) لوٹائے گا۔"
سورۃ بروج: 13

كَمَا بَدَأَكُمْ تَعُودُونَ
"جیسے اُس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا، ویسے ہی تم لوٹائے جاؤ گے۔"
سورۃ اعراف: 29


🌟 فضائل و برکات:

✅ انسان کو یقین کامل حاصل ہوتا ہے کہ موت کے بعد زندگی ممکن ہے۔
✅ ٹوٹے دلوں، بگڑے حالات اور بکھرے تعلقات کو اللہ از سر نو درست کر سکتا ہے۔
✅ پرانی حالت کو بہتر اور نئی زندگی عطا کرنے والا صرف اللہ ہی ہے۔


📿 اذکار و وظائف:

🔹 روزانہ صبح یا رات کو 66 بار "یَا مُعِيدُ" پڑھنا:

  • گم شدہ چیز، بچھڑے رشتے، یا کھوئی ہوئی نعمت کی واپسی کے لیے مؤثر ہے۔

  • ٹوٹی ہوئی امیدیں اور بگڑے حالات سنورنے لگتے ہیں۔

  • بے روزگاری یا کاروباری بندش ختم ہونے میں مدد ملتی ہے۔

🔹 "یَا مُبْدِئُ یَا مُعِيدُ" 100 بار پڑھنا:

  • اللہ سے روحانی تجدید، دل کی اصلاح اور دوبارہ خوشی کے مواقع کی دعا کے لیے پڑھا جاتا ہے۔


🕊️ روحانی فوائد:

✨ ماضی کی غلطیوں سے نئی شروعات کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
✨ ایمان، عزم اور صبر کی تازگی نصیب ہوتی ہے۔
✨ یہ اسم توبہ، رجوع اور تبدیلی کے خواہشمند دلوں کے لیے بےحد مؤثر ہے۔
✨ بندہ جان لیتا ہے کہ جو چیز کھو گئی، وہ اللہ چاہے تو پھر سے عطا فرما سکتا ہے۔


🤲 دعائیہ کلمات:

"یَا مُعِيدُ! تو ہی ہے جو بچھڑوں کو ملاتا ہے، جو نعمتیں واپس لوٹاتا ہے۔ ہمیں ہماری گمشدہ رحمتیں، کھوئی ہوئی خوشیاں اور بھٹکی ہوئی راہیں واپس عطا فرما۔ ہمیں نئی زندگی، نئی ہدایت اور نئی امید عطا فرما۔ آمین!"


📝 خلاصہ:

اَلْمُعِيدُ اللہ کی اس قدرت کا اعلان ہے کہ وہ کسی بھی چیز کو دوبارہ ویسا ہی یا اس سے بہتر بنا سکتا ہے۔
یہ اسم ہر اس بندے کے لیے ہے جو مایوس ہو چکا ہو، جو کہے: "کیا دوبارہ ممکن ہے؟"
تو جان لے، اللہ المُعِيدُ ہے — وہ دوبارہ عطا کرتا ہے، بہتر لوٹاتا ہے۔




 📌 غلط عادتوں سے آزادی – تمباکو، الکحل، اور جنک فوڈ

(شریعت کی رہنمائی میں)

📖 مقدمہ:
اللہ تعالیٰ نے انسان کو قوتِ عمل، عقل و بصیرت سب کچھ دیا، لیکن شیطان نے ان پر غالب آنے کے لیے غرائز، خواہشات اور بری عادتوں کا سہارا لیا:

"إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا"
(سورۃ فاطر: 6)
"بے شک شیطان تمہارا دشمن ہے، تو تم بھی اسے دشمن سمجھو۔" 

تمباکو، الکحل اور جنک فوڈ وہ عادتیں ہیں جو نہ صرف جسم کو تباہ کرتی ہیں، بلکہ دل، ذہن اور آخرت کو بھی خطرے میں ڈالتی ہیں ۔

❗ 1. غلط عادتوں کی اقسام اور ان کے اثرات (Types of Bad Habits and Their Effects)
تمباکو (سگریٹ، گٹکا، شیشہ)❗جسمانی اثرات: کینسر، دل کی بیماریاں، سانس کی تکلیف❗تفسیاتی اثرات: لت، غصہ، بے یقینی، تناؤ
الکحل❗جسمانی اثرات: جگر کی بیماریاں، دل کی تکلیف، نظامِ ہاضمہ خراب❗تفسیاتی اثرات:الجھن، ذہنی کمزوری، شرم کی کمی
جنک فوڈ (چپس، برگرز، کولڈ ڈرنکس)❗جسمانی اثرات: موٹاپا، ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر❗تفسیاتی اثرات:توجہ کم، غصہ، تھکاوٹ

🧠 2. غلط عادتوں کے ذہنی اور روحانی نقصانات
غصہ، چڑچڑا پن، عدم تحفظ
نماز، تلاوت، دعا میں عدم توجہ
اللہ کی نافرمانی کا عادی بننا
اولاد اور ماحول پر منفی اثرات
آخرت میں عذاب کا باعث بن سکتا ہے
📚 3. شریعت کی روشنی میں حرام عادتوں کی ممانعت
✅ الف) تمباکو اور الکحل
"إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ"
(سورۃ المائدۃ: 90)
"شیطان کی یہ گندی چیزوں سے دور رہو۔" 

✅ ب) جنک فوڈ اور زیادہ کھانا
"وَآتِ ذَا الْحَقِّ حَقَّهُ وَلَا تُسْرِفْ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ"
(سورۃ الأنعام: 141)
"اور حد سے زیادہ مت کرو، اللہ مسرفین سے محبت نہیں کرتا۔" 

🛑 4. غلط عادتوں سے چھٹکارا پانے کے چند قدم
1. نیت کریں: اللہ کی رضا کے لیے توبہ کرنے کی
2. توبہ کریں: اللہ سے معافی مانگیں
3. وقتی تبدیلی: چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھائیں (ایک دن نہ پینا، ایک دن نہ کھانا)
4. متبادل چیزوں کا استعمال: میوہ جات، دودھ، شہد، دعا، ذکر
5. صحبت کی تبدیلی: بری صحبت سے دور رہیں، نیک لوگوں کی صحبت میں رہیں
6. عبادت کو بڑھائیں: نماز، تلاوت، دعا، استغفار

🥜 5. متبادل سہولتیں (Healthy Alternatives to Replace Bad Habits)
سگریٹ✅دانتوں کا مسواک کرنا، دعا، مشروم، ناشپاتی
الکحل✅نیم گرم دودھ، شربت، شہد والا پانی
جنک فوڈ✅بادام، کشمش، تازہ پھل، دہی، دال، سبزیاں

🕿 6. نماز، دعا اور ذکر کا استعمال
فجر کے بعد✅سورۂ فاتحہ، استغفار: دل کو سکون دیتا ہے
ظہر سے قبل✅دعا، ذکر: نفس کو قابو میں رکھتا ہے
مغرب کے بعد✅تسبیح، دعا: برکت کا ذریعہ بنتا ہے
عشاء کے بعد✅تلاوت، میڈیٹیشن: نیند میں سکون آتا ہے

📌 7. نمونہ روزمرہ معمہ برائے عادتوں کی تبدیلی (Daily Routine for Breaking Bad Habits)
5:00 AM فجر کی نماز، تلاوت، دعا
6:00 AM نیم گرم پانی + بادام/کشمش
8:00 AM ناشتہ (دلیہ، دودھ، سبزی)
12:00 PM ظہر کی نماز، دعا، 10 منٹ یوگا / تنشین
4:00 PM عصر کی نماز، پھل یا دہی
7:00 PM مغرب کی نماز، کھانا (ہلکا، متوازن)
8:30 PM عشاء کی نماز، تلاوت، استغفار
10:00 PM وضو کر کے سونا، اللہ کا ذکر کرتے ہوئے

📌 خاتمہ:
غلط عادتیں فقط جسم کو نہیں، بلکہ روح، دل اور آخرت کو بھی تباہ کر سکتی ہیں ۔

"وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسًا إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي"
(سورۃ یوسف: 53)
"اور میں اپنی جان کو بری الذمہ نہیں کہتا، بے شک نفس تو برا برا حکم دیتا ہے، سوائے اس کے جس پر میرا رب رحم کرے۔" 

آج سے اپنی زندگی میں توبہ، دعا، ذکر، اور عبادت کو شامل کریں، تو اللہ آپ کو تمام برائیوں سے نجات دے گا!


جبریل و ابلیس
علامہ اقبال

جبرئیل
ہمدم دیرینہ کیسا ہے جہان رنگ و بو

ابلیس
سوز و ساز و درد و داغ و جستجو و آرزو

جبرئیل
ہر گھڑی افلاک پر رہتی ہے تیری گفتگو
کیا نہیں ممکن کہ تیرا چاک دامن ہو رفو

ابلیس
آہ اے جبریل تو واقف نہیں اس راز سے
کر گیا سرمست مجھ کو ٹوٹ کر میرا سبو

اب یہاں میری گزر ممکن نہیں ممکن نہیں
کس قدر خاموش ہے یہ عالم بے کاخ و کو

جس کی نومیدی سے ہو سوز درون کائنات
اس کے حق میں تقنطو اچھا ہے یا لاتقنطوا

جبرئیل
کھو دیئے انکار سے تو نے مقامات بلند
چشم یزداں میں فرشتوں کی رہی کیا آبرو

ابلیس
ہے مری جرأت سے مشت خاک میں ذوق نمو
میرے فتنے جامۂ عقل و خرد کا تار و پو

دیکھتا ہے تو فقط ساحل سے رزم خیر و شر
کون طوفاں کے طمانچے کھا رہا ہے میں کہ تو

خضر بھی بے دست و پا الیاس بھی بے دست و پا
میرے طوفاں یم بہ یم دریا بہ دریا جو بہ جو

گر کبھی خلوت میسر ہو تو پوچھ اللہ سے
قصۂ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو

میں کھٹکتا ہوں دل یزداں میں کانٹے کی طرح
تو فقط اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو


 


 ⲯ﹍︿﹍︿﹍-درسِ حدیث ﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼

معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1442
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى عَنْ أَبِيهِ عَنْ جده: قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا بَالُ أَقْوَامٍ لا يفقهون جيرانهم ولا يعلمونهم ولا يعظونهم ولا يامرونهم ومَا بَالُ أَقْوَامٍ لا يتعلمون جيرانهم ولا يتفقهون ولا يتعظون والله ليعلمن قوم جيرانهم ويفقهونهم ويعظونهم ويامرونهم وينهونهم وليتعلمن قوم من جيرانهم ويتفقهون ويتعظون ولاعاجلنهم بالعقوبة فى الدنيا. (رواه ابن راهويه والبخارى فى الوحدان وابن السكن وابن مدة)

ⲯ﹍︿﹍︿﹍ ترجمہ﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼

تعلیم و تربیت کا اہتمام بھی پڑوسی کا حق ہے
علقمہ بن عبدالرحمن بن ابزی نے اپنے والد عبدالرحمن کے واسطے سے اپنے دادا ابزی خزاعی ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن (اپنے ایک خاص خطاب میں) اراشاد فرمایا: کیا ہو گیا ہے ان لوگوں کو اور کیا حال ہے ان کا (جنہیں اللہ نے علم و تفقہ کی دولت سے نوازا ہے اور ان کے پڑوس میں ایسے پسماندہ لوگ ہیں جن کے پاس دین کا علم اور اس کی سمجھ بوجھ نہیں ہے) وہ اپنے ان پڑوسیوں کو دین سکھانے اور ان میں دین کی سمجھ بوجھ پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں، نہ ان و وعظ و نصیحت کرتے ہیں۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی ذمہ داری ادا کرتے ہیں۔ اور کیا ہو گیا ہے ان (بےعلم اور پسماندہ) لوگوں کو کہ وہ اپنے پڑوسیوں سے دین سیکھنے اور دین کی سمجھ بوجھ پیدا کرنے کی فکر نہیں کرتے نہ ان سے نصیحت لیتے ہیں۔ خدا کی قسم! (دین کا علم اور اس کی سمجھ رکھنے والے) لوگوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے (ناواقف اور پسماندہ) پڑوسیوں کو دین سکھانے اور دین کی سمجھ بوجھ ان میں پیدا کرنے کی کوشش کریں اور وعظ و نصیحت (کے ذریعہ ان کی اصلاح) کریں اور انہیں نیک کاموں کی تاکید اور برے کاموں سے منع کریں اور اسی طرح ان کے ناواقف اور پسماندہ پڑوسیوں و چا ہئے کہ وہ خود طالب بن کر اپنے پڑوسیوں سے دین کا علم و فہم حاصل کریں اور ان سے نصیحت لیں۔ یا پھر (یعنی اگر یہ دونوں طبقے اپنا اپنا فرض ادا نہیں کریں گے) تو میں ان کو دنیا ہی میں سخت سزا دوں گا۔ (مسند اسحاق بن راہویہ)

ⲯ﹍︿﹍︿﹍ تشریح﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼

پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے جو ارشادات یہاں تک درج ہوئے ان کا زیادہ تر تعلق زندگی کے معاملات میں ان کے ساتھ اکرام و رعایت کے برتاؤ اور حسن سلوک سے تھا۔ آخر میں آپ ﷺ کا ایک وہ ارشاد بھی پڑھئے جس میں ہدایت فرمائی گئی ہے کہ اگر کسی کے پڑوس میں بےچارے ایسے لوگ رہتے ہوں جو دینی تعلیم و تربیت اور اپنی عملی اور اخلاقی حالت کے لحاظ سے پسماندہ ہوں تو دوسرے لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ ان کی تعلیم و تربیت اور اور ان کے سدھار و اصلاح کی فکر و کوشش کریں اور اگر وہ اس میں کوتاہی کریں تو مجرم اور سزا کے مستحق ہوں گے۔ تشریح ..... یہ حدیث کنز العمال جلد پنجم میں "حق الجار" کے زیر عنوان اسی طرح مرکوز ہے۔ جس طرح یہاں درج کی گئی ہے، لیکن دوسری جگہ اسی کنز العمال میں حضور و کا یہی خطاب قریب قریب انہی الفاظ میں اس اضافہ کے ساتھ مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا روئے سخن اس خطاب میں ابو موسیٰ اشعری اور ابو مالک اشعری کی قوم اشعریین کی طرف تھا۔ اس قوم کے افراد عام طور سے دین کے علم اور تفقہ سے بہرہ مند تھے لیکن ان ہی کے علاقہ میں اور ان کے پڑوس میں ایسے لوگ بھی آباد تھے جو اس لحاظ سے بہت پسماندہ تھے، نہ ان کی تعلیم و تربیت ہوئی تھی اور نہ خود ان می ں اس کی طلب اور فکر تھی۔ اس لحاظ سے یہ دونوں طبقے قصور وار تھے، اس بناء پر رسول اللہ ﷺنے اپنے کریمانہ عادت کے مطابق ان کو نامزد کئے بغیر اپنے اس خطاب میں ان دونوں پر عتاب فرمایا تھا۔ اس روایت میں آگے یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ جب اشعریین کو یہ معلوم ہوا کہ اس خطاب میں حضور ﷺ کے عتاب کا روئے سخن ہماری طرف تھا تو ان کا ایک وفد آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو اور انہوں نے حضور ﷺ سے یہ وعدہ کیا کہ ہم ان شاء اللہ ایک سال کے اندر اندر ان آبادیوں کے لوگوں کو دین کی تعلیم دے دیں گے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر علاقہ کے لوگوں کو جو دین کا علم رکھتے ہوں اس کا ذمہ دار قرار دیا کہ وہ اپنے پاس پڑوس کے ناواقف لوگوں کو دین کی تعلیم دیں اور تبلیغ اور وعظ و نصیحت کے ذریعہ ان ی اصلاح کی کوشش کرتے تہیں۔ اور اس طرح ناواقف لوگوں کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے کہ وہ اپنے پاس پڑوس کے اہل علم اور اہل دین سے تعلیم اور تربیت و اصلاح کا رابطہ رکھیں۔ اگر رسول اللہ ﷺ کی اس ہدایت پر عمل جاری رہتا تو امت کے کسی طبقہ میں بھی دین سے بےخبری اور رسول اللہ ﷺ سے وہ بےتعلقی نہ ہوتی جس میں امت کی غالب اکثریت آج مبتلا ہے۔ بلاشبہ اس وقت کا سب سے بڑا اصلاحی اور تجدیدی کارنامہ یہی ہے کہ امت میں تعلیم اور تعلم کے اس عمومی غیر رسمی نظام کو پھر سے جاری اور قائم کیا جائے جس کی اس حدیث پاک میں ہدایت فرمائی گئی ہے۔ بڑے خوش نصیب ہوں گے وہ بندے جن کو اس کی توفیق ملے گی۔


🌹 بسْمِ ﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم 🌹

━━❰・ *پوسٹ نمبر 190* ・❱━━━
          *سنن و نوافل سے متعلق مسائل:*

 *(79) اگر نمازِ استسقاء سے پہلے ہی بارش ہوگئی* 
 اگر  نمازِ استسقاء کا اعلان کردیا گیا تھا؛لیکن ابھی  لوگ جمع نہیں ہو پائے تھے کہ بارش ہوگئی تو بھی مستحب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لانے کے لیے حسبِ پروگرام لوگ جمع ہو کر نماز و دعا کا اہتمام کریں۔

 *(80) دعا استسقاء میں ہاتھ کس طرح اٹھائیں؟* 
صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دعا استسقاء کے وقت عام دعاؤں کے برخلاف ہتھیلیوں کا حصہ زمین کی طرف اور ہاتھ کا اوپری حصہ آسمان کی طرف کرکے (یعنی الٹے ہاتھ کرکے) دعا فرمائی، اسی وجہ سے فقہاء کرام نے بھی دعا استسقاء میں اس کیفیت کو پسندیدہ قرار دیا ہے۔
  
📚حوالہ:
(1) درمختار مع الشامی:3/73
(2) مسلم شریف:1/293
(3) طحطاوی علی المراقی طبع کراچی:301
(4) کتاب المسائل:1/508
 ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
━━━━━━━━❪❂❫━━━━━━━
▒▓█ مَجْلِسُ الْفَتَاویٰ █▓▒
مرتب:✍   مفتی عرفان اللہ درویش ھنگو عفی عنہ 
━━━━━━━━❪❂❫━━━━━━━
 


 🌻 اپنے بچوں کو کھانا کھلا کر اس کا ایصالِ ثواب کرنا


📿 اپنے بچوں کو صدقہ کی نیت سے کھانا کھلا کر اس کا ایصالِ ثواب کرنا:
اگر کوئی شخص صدقہ کی نیت سے اپنے ہی بچوں کو کھانا کھلائے اور اس کا ثواب کسی زندہ یا مردہ کو بخش دے تو یہ بھی جائز ہے، اس کا بھی ثواب پہنچے گا کیونکہ  اپنے اہل وعیال کو کھلانا بھی صدقہ اور ثواب کا کام ہے اور ثواب کی نیت سے ان کو کھلانا بھی درست اور باعثِ اجر ہے، اس لیے اس نیکی کا ایصالِ ثواب کرنے میں کوئی شبہ نہیں۔ (مأخذ: البحر الرائق، امداد الفتاوٰی تخریج شدہ)

🌼 عبارات
☀️ سنن الترمذي:
1965- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: نَفَقَةُ الرَّجُلِ عَلَى أَهْلِهِ صَدَقَةٌ. وَفِي البَابِ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، وَعَمْرِو بْنِ أُمَيَّةَ الضَّمْرِيِّ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. 
☀️ رد المحتار:
صَرَّحَ عُلَمَاؤُنَا فِي «بَابِ الْحَجِّ عَنِ الْغَيْرِ» بِأَنَّ لِلْإِنْسَانِ أَنْ يَجْعَلَ ثَوَابَ عَمَلِهِ لِغَيْرِهِ صَلَاةً أَوْ صَوْمًا أَوْ صَدَقَةً أَوْ غَيْرَهَا كَذَا فِي «الْهِدَايَةِ»، بَلْ فِي زَكَاةِ «التَّتَارْخَانِيَّة» عَن «الْمُحِيطِ»: الْأَفْضَلُ لِمَنْ يَتَصَدَّقُ نَفْلًا أَنْ يَنْوِيَ لِجَمِيعِ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ؛ لِأَنَّهَا تَصِلُ إلَيْهِمْ وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِهِ شَيْءٌ اهـ  هُوَ مَذْهَبُ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ ..... وَأَمَّا عِنْدَنَا فَالْوَاصِلُ إلَيْهِ نَفْسُ الثَّوَابِ. وَفِي «الْبَحْرِ»: مَنْ صَامَ أَوْ صَلَّى أَوْ تَصَدَّقَ وَجَعَلَ ثَوَابَهُ لِغَيْرِهِ مِن الْأَمْوَاتِ وَالْأَحْيَاءِ جَازَ، وَيَصِلُ ثَوَابُهَا إلَيْهِمْ عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ كَذَا فِي «الْبَدَائِعِ»، ثُمَّ قَالَ: وَبِهَذَا عُلِمَ أَنَّهُ لَا فَرْقَ بَيْنَ أَنْ يَكُونَ الْمَجْعُولُ لَهُ مَيِّتًا أَوْ حَيًّا. وَالظَّاهِرُ أَنَّهُ لَا فَرْقَ بَيْنَ أَنْ يَنْوِيَ بِهِ عِنْدَ الْفِعْلِ لِلْغَيْرِ أَوْ يَفْعَلَهُ لِنَفْسِهِ ثُمَّ بَعْدَ ذَلِكَ يَجْعَلُ ثَوَابَهُ لِغَيْرِهِ؛ لِإِطْلَاقِ كَلَامِهِمْ، 
وَأَنَّهُ لَا فَرْقَ بَيْنَ الْفَرْضِ وَالنَّفَلِ. اهـ. وَفِي «جَامِعِ الْفَتَاوَى»: وَقِيلَ: لَا يَجُوزُ فِي الْفَرَائِضِ اهـ. 
(باب صلاة الجنازة: مَطْلَبٌ فِي الْقِرَاءَةِ لِلْمَيِّتِ وَإِهْدَاءُ ثَوَابِهَا لَهُ)

✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم 
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی


 صاحب میں ایک شاعر ہوں چھپا ہوا دیوان تو خیر کوئی نہیں ہے۔ مگر کلام خدا کے فضل سے اتنا موجود ہے کہ اگر میں مرتب کرنے بیٹھوں تو ایک چھوڑ چار پانچ دیوان مرتب کر ہی سکتا ہوں۔ اپنی شاعری کے متعلق اب میں خود کیا عرص کروں البتہ مشاعروں میں جانے والے حضرات اگر کسی مشاعرے میں میرا کلام سن چکے ہیں تو وہ بتائیں گے کہ میرے متعلق عام رائے کیا ہے۔ البتہ اتنا میں بھی جانتا ہوں کہ جب مشاعرے میں میرے نام کا اعلان ہوتا ہے۔ سامعین بے قابو ہوکر اس وقت تک تالیاں بجاتے ہیں جب تک میں پڑھنے کے لیے اسٹیج پر نہ آجاؤں۔ اور جب تک میں پڑھتا ہوں داد کے شور سے مشاعرہ گونجتا ہی رہتا ہے۔ مجھ کو اچھی طرح یاد ہے کہ ایک مرتبہ میرا ایک شعر آٹھ مرتبہ مجھ سے پڑھوایا گیا تھا۔ اور پھر بھی سامعین نے یہی کہا تھا کہ سیری نہیں ہوئی۔ یہ سب کچھ میں خود ستائی کے طور پر عرض نہیں کر رہا ہوں۔ میرا قول یہ ہے کہ من آنم کہ من آنم۔ میں تو یہ سب کچھ اس لیے عرص کر رہا ہوں کہ اپنے متعلق تھوڑا بہت اندازہ کرادوں کہ میں ان شاعروں میں سے نہیں ہوں۔ جو محض ایک تخلص پال کر بیٹھ رہتے ہیں۔ اور زندگی بھر میں بس ایک آدھ غزل کہنے کے گناہگار ہوتے ہیں۔ حضت! یہاں تو بقول شخصے،

عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں

ابھی ہوش سنبھالا ہی تھا کہ گھر میں شعر و شاعری کے چرچے سنے۔ مشاعروں کے کھیل کھیلے۔ اور آخر پندرہ برس کی عمر ہوگئی کہ پہلی غزل اس شان سے مشاعرے میں پڑھی ہے کہ گھر پر پڑی بوڑھیوں نے نظر اتاری اور باہر اس فن کے بڑے بڑے مشاقوں نےاعتراف کیا کہ صاحبزادے نے پالنے ہی میں پیر دکھائے ہیں۔ مطلب یہ کہ شاعری کی ابتدا اسی عمر میں ہوئی جس کے متعلق شاعر کہہ گیا ہے، کہ،
برس پندرہ یا کہ سولہ کا سن

جوانی کی راتیں امنگوں کے دن
داد جو ملی تو حوصلے اور بڑھ گئے۔ اب دن رات بس ایک ہی مشغلہ ہے غزل گوئی اور غزل سرائی۔ جس مشاعرے میں پہنچ گئے بس جھنڈے گاڑ آئے۔ اپنے سامنے کسی کا چراغ نہ جلنے دیا۔ جس طرح، میں غزل کہہ دی اس کو اپنا لیا۔ خاص شہرت حاصل کی گرہ لگانے میں۔ قصہ کوتاہ کچھ ہی دنوں میں مقامی مشاعروں کے علاوہ دور دور سے بلاوے آنےلگے۔ آج یہاں مشاعرہ ہے تو کل وہاں، آج اس شہر میں کل اس شہر میں۔ یہ سچ ہے کہ اس طرح تعلیم ضرور ناقص رہ گئی۔ مگر شاعر ہونا مسلم ہوگیا۔ آواز میں قیامت کا سوز تھا۔ اور دھن بنانے کا سلیقہ خداداد تھا۔ پھر کلام کی لطافتیں۔

مختصر یہ کہ سب کچھ مل جل کر مشاعرہ لوٹنے میں مدد دیتا تھا۔ ایک نمائش کے مشاعرہ میں تو تمغہ تک دیا گیا تھا۔ اخباروں میں تصویریں چھاپی گئیں۔ رسالوں کے ایڈیٹروں نے بڑی منت کے خطوط لکھے کہ میں اپنا تازہ کلام بھیجوں۔ بے شمار رسالے اور اخبار مفت آنے لگے۔ اور ان میں میرا کلام بڑے امتیاز کے ساتھ چھپنے لگا۔ بڑے بڑے سالانہ نمبروں میں صرف میری غزل کو جلی حروف میں اور خوشنما حاشیہ کے اندر ایک پورے صفحے میں چھاپا گیا۔ مختصر یہ کہ آپ کی دعا سے شہرت اور مقبولیت کی کوئی کمی نہ رہی۔ یہاں تک کہ کچھ ہی دنوں کے بعد مشق اس قدر بڑھ گئی اور کلام میں کچھ خدا کے فضل سے ایسی پختگی پیدا ہوگئی کہ بہت سے نوجوان اپنی اپنی غزلیں اصلاح کے لیے لانے لگے۔ اور اب ضرورت اس کی پیش آئی کہ ذرا اس فن کا مطالعہ بھی کرلیا جائے۔ کہ یہ فاعلاتن فاعلات آخر کیا بلا ہوتی ہے،
یہ سچ ہے کہ پیدائشی اور فطری شاعروں کے لیے ان چیزوں کی ضرورت نہیں ہوا کرتی۔ مگر شاگردوں کے سمجھانے اور استاد بننے کے لیے معلومات حاصل ہونا ضروری ہوتا ہے۔ بہرحال اس سلسلہ میں جتنی کتابیں دیکھیں اتنی ہی طبیعت الجھی کہ یہ ہے کیا خرافات۔ آخر ایک کتابوں کا سیٹ مل گیا۔ شاعری کی پہلی کتاب۔ دوستی کتاب۔ تیسری کتاب۔ ان کتابوں کو سلسلہ وار پڑھنے سے خود تو کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ مگر دوسروں کو سمجھانے کا مواد ضرور مل گیا اور اب شاگردوں کی غزلوں پر اصلاح کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ان شاگردوں کا مشاعروں میں چمکنا تھا کہ شاگردوں کی تعداد دن دونی رات چوگنی ترقی کرنے لگی۔ یہاں تک کہ عالم یہ ہوگیا کہ ہر مشاعرے کے دن درجنوں شاگرد حلقہ باندھے بیٹھے ہیں۔ اور میں ان کی غزل لکھوا رہا ہوں۔ کہ یہ مطلع تم لکھ لو اور یہ شعر تم لکھ لو۔ شاگردوں سے اور کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو، مگر اتنا ضرور ہوتا ہے کہ خود اپنے کو اوّل تو اساتذہ کی صف میں جگہ ملتی ہے۔ دوسرے استاد کی غزل پر یہ شاگرد داد کا وہ شور مچاتے ہیں کہ مشاعرہ ہی سر پر اٹھالیتے ہیں۔ اور اگر کبھی کوئی بدخواہ اعتراض کربیٹھے تو یہی شاگرد مرنے مارنے پر تیار ہوجاتے ہیں۔ گویا استاد کی اچھی خاصی طاقت ہوتے ہیں یہ شاگرد۔

گھر میں اللہ کے فضل و کرم سے کھانے پینے کی کوئی کمی نہ تھی۔ وثیقہ بندھا ہوا تھا۔ اور باپ دادا بھی اتنا چھوڑ گئے تھے کہ چار کو کھلا کر کھاسکیں۔ لہٰذا فکر معاش کا تو کوئی ذکر ہی نہیں۔ لے دے کے بس فکر سخن ہی تھی، شاگردوں کو بھی کبھی کسی خدمت کا کوئی موقعہ نہ دیا۔ بلکہ ان ہی کی جو خدمت ہوسکی وہ کی۔ یعنی مفت کی غزلوں کے علاوہ اکثر مفت کی روٹیاں بھی مل جاتی تھیں۔ اگر کبھی کوئی شاگرد رسا ول یا آچار یا اپنے گاؤں سے گڑ وغیرہ بھی لے آیا تو یہی فکر رہتی تھی کہ اس کا بدلا کیونکر اتارا جائے۔ ایک مرتبہ ایک تنبولی شاگرد نے پانوں کی ڈھولی کی قیمت لینے سے انکار کردیا۔ نتیجہ یہ کہ اگلے مشاعرے میں نہ صرف یہ کہ نہایت زوردار غزل کہہ کر ان کو دی بلکہ ان کا ریل ٹکٹ بھی خود ہی خریدا، عرض تو کیا۔ کہ اس شاعری کو تجارت یا روزگار کی صورت کو کبھی دی ہی نہیں اور نہ اس کی ضرورت پیش آئی کبھی۔
ان ہی حالات میں زندگی بڑے مزے میں بسر ہو رہی تھی کہ ایک دم سے وہ انقلاب آگیا۔ جس نے ساری دنیا زیر وزبر کرکے رکھ دی۔ اپنا سب کچھ چھوڑ کر اس طرف آجانا پڑا۔ گھر گیا۔ گرہستی گئی۔ وثیقہ گیا۔ مختصر یہ کہ آپ ’’واحد حاضر‘‘ رہ گئے۔ اور باقی سب کچھ ’’جمع غائب‘‘ اور تو اور کھانے پینے کے لالے پڑگئے۔ دو دو روٹیوں کا سہارا تک کو نہ رہا۔ دل میں کہا۔ جان ہے تو جہان ہے۔

ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
مگر آخر کب تک نہ گھبراتے۔ پردیس میں نہ کوئی جان نہ پہچان۔ ایک نفسا نفسی کا عالم۔ سب کو اپنی اپنی پڑی ہے۔ مہاجرین میں کچھ جانی پہچانی شکلیں بھی نظر آئیں مگر سب کو اپنی اپنی فکر، اور یہاں یہ عالم کہ روزبروز حالت پتلی ہوتی جارہی ہے۔ سرچھپانے کو تو خیر ایک آگ لگی ہوئی عمارت کے دوپسماندہ کمرے مل گئے۔ مگر پیٹ کی آگ بجھانے کی سبیل نظر نہ آتی تھی۔ آخر خاندانی وضع کے خلاف روزگار کی تلاش میں نکلنا پڑا۔ یاد آیا کہ اسی شہر سے ایک رسالہ بڑے آب و تاب سے نکلا کرتا تھا۔ جس کے ایک سالنامہ میں انگور کی ایک خوشنما بیل کے حاشیہ کے اندر اپنی ایک غزل چھپی تھی۔ اور ایڈیٹر صاحب نے اس پر ایک نوٹ بھی دیا تھا۔ کہ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ لسان الزمن حضرت قیس سونڈوی نے اپنے رشحات سے ہمارے سالنامہ کو نوازا ہے، امید ہے کہ حضرت قیس آئندہ بھی ہم کو اس فخر کا موقع عطا فرماتے رہیں گے۔ چنانچہ اسی رسالے کے دفتر کا رخ کیا اور پوچھتے گچھتے آخر اس رسالے کے دفتر پہنچ ہی گئے۔ ایڈیٹر صاحب سے اپنا تعارف کرایا۔ اور وہ حسب توقع دوڑے لیموینڈ کی بوتل لے کر سگریٹ کی ڈبیہ کھول کر رکھ دی۔ دیا سلائی خود جلائی اور دیر تک ہماری ہجرت پر مسرت کا اظہار کرتے رہے کہ صاحب بہت اچھا ہوا۔ جو آپ تشریف لے آئے۔ تھوڑی دیر کے بعد موقع دیکھ کر اور ان کو بے حد خلیق پاکر عرض کیا،

’’بھائی جان آتو گیا ہوں۔ مگر واضح رہے کہ سب کچھ چھوڑ کر آیا ہوں۔ اور خاندانی وضع کے خلاف اب اس پر بھی آمادہ ہوں۔ کہ کہیں ملازمت اختیار کروں۔‘‘
وہ نہایت اطمینان سے بولے۔ ’’ملازمت! بہرحال اب تو آپ آئے ہیں کچھ نہ کچھ ہو ہی جائے گا۔ آپ کے ایسے قابل آدمیوں کے لیے ملازمت کی کہاں کمی ہوسکتی ہے۔ بہرحال آپ نے یہ فیصلہ تو کر ہی لیا ہوگا کہ آپ کس شعبہ میں ملازمت اختیار کرنا پسند کریں گے۔‘‘

عرض کیا۔ ’’بھائی اپنا شعبہ تو ظاہر ہے کہ زندگی بھر سوائے ادبی خدمت کے اور کوئی کام ہی نہیں کیا۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب تک ادبی خدمت کو ذریعہ آمدنی بنانے کا خیال بھی نہ آیا تھا۔ مگر اب حالات نے مجبور کردیا ہے۔‘‘
وہ بولے، یہ تو درست ہے۔ مگر ادبی سلسلہ میں ملازمت کا کیا سوال ہوسکتا ہے۔ آپ کے خیال میں کون سا محکمہ ہے ایسا جو آپ کے ایسے ادیبوں کے لیے جگہ نکال سکے گا۔ کم سے کم میری سمجھ میں تو نہیں آرہا ہے۔

عرض کیا، ’’آپ محکموں پر نہ ڈالیے۔ میرے لیے تو اتنا ہی کافی ہے کہ مثلاً آپ کا ادارہ ہے۔ اسی میں کوئی خدمت میرے سپرد کردی جائے۔‘‘
ایڈیٹر صاحب نے دم بخودہوجانے کے بعد فرمایا، ’’قبلہ بات اصل میں یہ ہےکہ ضرورت تو مجھ کو بھی ہے۔ اپنے یہاں چند لوگوں کی۔ مگر معاف کیجیے گا۔ میں نے آج تک سوائے غزلوں کے اور کوئی چیز آپ کی نہیں دیکھی ہے۔‘‘

عرض کیا، ’’اور کیا چیز آپ دیکھنا چاہتے ہیں۔ شجرہ موجود ہے۔ وہ میں دکھا سکتا ہوں۔ خود مجھ کو آپ ہی دیکھ رہے ہیں۔ اور کوئی چیز سے مطلب کیا ہے۔ جناب ذرا وضاحت فرمائیں تو کچھ عرض کروں۔‘‘
وہ بولے۔ ’’میرا مطلب یہ ہے کہ نثر غالباً آپ نے کبھی نہیں لکھی، نہ آپ کا کبھی کوئی افسانہ پڑھا ہے۔ نہ کوئی تنقیدی مضمون دیکھا ہے۔ نہ کوئی تحقیقی مقالہ۔‘‘

عرض کیا، ’’جناب والا۔ یہ آپ نے درست فرمایا اور یہ واقعہ بھی ہے اب تک اس قسم کی کوئی چیز لکھنے کا اتفاق نہیں ہوا ہے۔‘‘
ان کو بہانہ مل گیا۔ آنکھیں گھماکر بولے۔ ’’اب آپ خود غور فرمائیے کہ کسی ادبی رسالہ کے ادارۂ تحریر میں آپ کو کیونکر شامل کیا جاسکتا ہے۔ آپ کی شاعرانہ صلاحیت مسلم ہے۔ مگر اس کی ہم کو ضرورت نہیں۔‘‘

ایسے کو رذوق سے کچھ اور کہنا ہی بیکار تھا۔ ادھر ادھر کی گفتگو کرکے چلے آئے اور طے کرلیا کہ اب ادھر کا رخ بھی نہ کریں گے۔ مگر ادھر کا نہ سہی کسی اور طرف کا رخ تو کرنا ہی تھا۔ ورنہ یہاں تو فاقو ں کی نوبت بھی دور نہ تھی۔ کافی دماغ سوزی کے بعد ایک ترکیب ذہن میں آئی کہ اگر کوئی بلشرز دیوان چھاپنے پر تیار ہوجائے تو کیا مضائقہ ہے۔ کچھ نہ کچھ حق تصنیف بھی مل جائے گا۔ دوسرے اس پردیس میں اپنے تعارف کا ایک ذریعہ اس دیوان کی صورت میں نکل آئے گا۔ بالکل الہامی طور پر دیوان کا نام ذہن پر نازل ہوا۔ ’’لیلائے سخن‘‘ قیس کی مناسبت سے اس سے بہتر نام اور کیا ہوسکتا تھا۔ دوسرے ہی دن یہاں کے ایک آدھ پبلشرز سے ملنے کے لیے روانہ ہوگئے۔ شہر کے سب سے بڑے پبلشر کا نام اور پتہ پہلے ہی پوچھ رکھا تھا۔ ان کی دکان پر پہنچ کر ان سے شرفِ نیاز یاصل کیا۔ اور آخر اپنا تعارف خود کرایا۔
’’نام سے تو آپ واقف ہی ہوں گے۔ اس خاکسار کو قیس سونڈوی کہتے ہیں۔‘‘

وہ حضرت بھی عجیب چیز نکلے۔ کہنے لگے، ’’پھر!‘‘
غصہ تو بہت آیا اس ’’پھر‘‘ پر مگر کیا کرتے وقت آپڑا تھا۔ لہٰذا اپنے آپ کو سنبھال کر کہا۔ ’’میں نے آپ کے ہاں کی مطبوعہ اکثر کتابیں دیکھی ہیں۔ اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ طباعت کا جو سلیقہ آپ کو حاصل ہے وہ کسی اور پبلشر کے حصہ میں نہیں آیا ہے۔ اور میں نے طے کرلیا ہے کہ میں اپنا دیوان اگر کسی کو دے سکتا ہوں تو وہ صرف آپ کو۔ کیا نام ہے اس کتاب کا جو ابھی آپ نے شائع کی ہے۔‘‘

وہ ڈکارتے ہوئے بولے۔ ’’کلیدِ مرغی خانہ۔‘‘
عرض کیا، ’’جی ہاں، کلید مرغی خانہ۔ کیا کہنا ہے اس کتاب کا۔ کتابت ہے تو سبحان اللہ۔ طباعت ہے تو ماشاء اللہ۔ پھر ترتیب اور سجاوٹ۔ دلہن بناکر رکھ دیا ہے آپ نے کتاب کو۔ میں نے اپنے دیوان کا نام تجویز کیا ہے، لیلائے سخن، جس کا تخلص قیس ہوا اس کے دیوان کا کتنا مناسب نام ہے یہ۔‘‘

انہوں نے براہِ راست سوال کیا۔ ’’تو آپ چھپوانا چاہتے ہیں اپنا دیوان۔‘‘
عرض کیا، جی ہاں ارادہ تو کچھ ایسا ہی ہے۔ میں نے اپنے چار دوادین میں سے انتخاب کرکے ایک دیوان مرتب کیا ہے۔ گویا اپنی کائنات شعری کا جوہر نچوڑ لیا ہے۔ اور یہ طے ہوا ہے کہ چھپواؤں گا آپ ہی کے ذریعہ۔‘‘

انہوں نے کہا، ’’اچھا تو ہم چھاپ دیں گے۔ بہتر سے بہتر لکھائی چھپائی ہوگی۔ کاغذ وہی ہوگا جو کلید مرغی خانہ کا ہے۔ ہم آپ کو ابھی حساب لگاکر بتائے دیتے ہیں کہ آپ کو کیا خرچ کرنا پڑے گا۔‘‘
ہم نے چونک کر کہا۔ ’’ہم کو کیا خرچ کرنا پڑے گا۔ غالباً آپ میرا مطلب نہیں سمجھے۔‘‘

وہ ہم سے زیادہ متحیر ہوکر بولے۔ ’’تو کیا مطلب ہے آپ کا۔‘‘
صاف صاف عرض کیا۔ ’’مطلب یہ ہے کہ آپ لے لیجیے دیوان اور چھاپئے، حق تصنیف طے ہوجائے۔ جو مناسب سمجھیے دے دیجیے۔‘‘

انہوں نے ایک قہقہہ لگایا۔ گویا یہ کوئی بہت دلچسپ لطیفہ سنا تھا۔ اور عجیب تمسخر سے بولے۔
آپ گویا یہ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کا دیوان آپ سے خرید کر خود بیچنے کے لیے چھائیں۔ آج کل بھلا کون کسی کا دیوان چھاپتا ہے۔ کس کے پیسے فالتو ہیں۔ کہ وہ دیمک کی ضیافت کے لیے دیوان چھاپ کر اپنے یہاں ڈھیر کرلے۔ پیسہ بھی ضائع کرے وقت بھی برباد کرے۔ محبت بھی خواہ مخواہ کی اور جگہ بھی گھیری جائے۔‘‘

ایک آدھ شاعر کے کلام کے مجموعوں کا حوالہ دیا۔ جو حال ہی میں شائع ہوئے تھے۔ اور عرض کیا۔ ’’آخر یہ مجموعے اور یہ دیوان بھی تو چھپے ہیں۔‘‘
زانو پر ہاتھ مار کر بولے۔ ’’اوہو۔ آپ سمجھے نہیں۔ جن شاعروں کا آپ نے نام لیا ہے۔ ان کی تو اس وقت مانگ ہے۔ ان کے مجموعے تو اگر اس وقت ہم کو بھی مل جائیں تو ہم بھی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر چھاپ دیں۔ مگر یہاں ذکر ہے آپ کا؟‘‘

اب تو قابو میں رہنا مشکل تھا۔ ذرا تلخی سے عرض کیا۔ ’’کیا مطلب آپ کا؟ اگر آپ میرے نام سے واقف نہیں ہیں اور میرے شاعرانہ مرتبہ کو نہیں جانتے تو اس میں میرا تو کوئی قصور نہیں۔ یہ تو آپ ہی کی کوتاہی ہے۔ ورنہ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں ایک خاص مقام رکھتا ہوں، اس دور کے شعرا میں۔‘‘
وہ صاحب عجیب بیہودگی سے مسکراکر بولے۔ ’’اجی یہ تو سب ہی شاعر کہتے ہیں۔ خیر اس سے کیا مطلب ہم معافی چاہتے ہیں کہ ہم آپ کا دیوان نہیں چھاپ سکتے۔‘‘

ہم نے اٹھتے ہوئے کہا۔ ’’کلام تو خیر میں خود آپ کو چھاپنےکے لیے اب نہیں دے سکتا۔ مگر کتابوں کی تجارت کرنے آپ بیٹھے ہیں تو ذرا اہل علم سے بات کرنے کا سلیقہ بھی پیدا کیجیے۔‘‘
وہ حضرت بھی پہلو بدل کر بولے۔ ’’اہل علم جب کوئی آتا ہے تو ہماری گفتگو بھی دوسری قسم کی ہوتی ہے۔‘‘

اور ہم نے اس بدتمیزی کا جواب دینا اپنی شان کے خلاف سمجھا۔ دل ہی دل میں کھولتے ہوئے اس دکان سے باہر آگئے، مگر ابھی چند ہی قدم آگے بڑھے ہوں گے کہ چودھری صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ یہ چودھری صاحب بڑے اثر و رسوخ کے لوگوں میں سے ہیں۔ اور میرے کلام کے دلدادہ ہیں، بلکہ نمائش کے مشاعرے میں صدر یہی تھے۔ اور ان ہی کی طرف سے میرے لیے تمغے کا اعلان ہوا تھا۔ ہمیشہ جھوم جھوم کر میری غزلیں سنا کرتے تھے۔ اور اچھل اچھل کر داد دیا کرتے تھے۔ آج بھی دور ہی سے دیکھ کر پہچان گئے۔ اور ایک نعرہ بلند کیا۔
’’آخاہ قیس صاحب ہیں۔ ارے بھئی آپ کہاں۔ بھئی خوب ملاقات ہوئی۔ کب آئے۔‘‘

عرض کیا۔ ’’آئے ہوئے تو دو مہینہ سے زیادہ ہوچکے ہیں۔‘‘
حیرت سے بولے۔ ’’دو مہینہ سے زیادہ ہوگئے اور کہیں نظر بھی نہ آئے۔ میں تو اکثر مشاعروں میں گیا مگر آپ کو نہ دیکھا۔‘‘

عرض کیا۔ ’’جناب والا، اب شعر کی فکر سے زیادہ پیٹ کی فکر ہے۔ وہ فارغ البالی کے زمانے گئے۔ اب تو سب سے مقدم ہے روزی کا ملنا۔ مگر اب آپ مل گئے ہیں تو سب ہی کچھ ہوجائے گا۔‘‘
اور یہ کہہ کر اپنی تمام داستان سنادی کہ کس بے سروسامانی کی حالت میں یہاں تک پہنچے ہیں۔ اور اگر جلد ہی ملازمت کا کوئی سلسلہ نہ ہوا تو کیا وقت آنے والا ہے ہم پر۔ بڑی ہمدردی اور غور سے تمام حالات سنتے رہے۔ اور سب کچھ سننے کے بعد فرمایا ’’ارے بھئی گھبرانے کی کیا بات ہے۔ ملازمت آپ کونہیں، تو اور کس کو ملے گی۔ میں ذمہ لیتا ہوں اس بات کا۔‘‘

منہ مانگی مراد مل گئی۔ جی چاہا کہ اس شریف انسان کے قدموں پر گر کر جان دیدیں۔ مگر وفورِ جذبات میں قدموں کے بجائے ان کے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر دباتے ہوئے عرض کیا۔ ’’میرا دل خود گواہی دے رہاہے کہ آپ مل گئے ہیں تو اب میری مشکلات کا خاتمہ ہی سمجھنا چاہیے۔‘‘
کہنے لگے۔ ’’خیر یہ تو آپ کی بندہ نوازی ہے۔ اچھا قبلہ یہ تو فرمائیے کہ انگریزی تعلیم کہاں تک ہے۔‘‘

ایسے ذہین آدمی سے اس مہمل سوال کی امید نہ ہوسکتی تھی۔ ظاہر ہے کہ ان حضرت نے ہمارا انگریزی نہیں بلکہ اردو کا کلام سنا تھا۔ کبھی انگریزی میں بات کرتے بھی نہ سنا ہوگا۔ البتہ کبھی کبھی سوٹ پہنے ضرور دیکھا ہوگا۔ اور ممکن ہے کہ یہ غلط فہمی اسی وجہ سے پیدا ہوگئی ہو۔ لہٰذا ہم نے اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے عرض کیا،
’’بھائی جان انگریزی سے کیا واسطہ، آپ تو جانتے ہوں گے زندگی گزری ہے اردو کی خدمت میں۔‘‘

وہ بولے، ’’تاہم کم سے کم آپ میٹرک تو ہوں گے۔‘‘
عرض کیا، ’’اجی نہ میٹرک نہ الکٹرک۔ بچپن ہی سے اس شاعری کا ایسا شوق ہوا کہ لکھنا پڑھنا چھوڑ چھاڑ بس اسی کے ہو رہے۔‘‘

وہ کچھ سمجھ سے گئے۔ ’’اوہ تو گویا آپ انگریزی جانتے ہی نہیں۔ یہ تو بڑی مشکل پیدا کردی آپ نے۔ اب ظاہر ہے کہ آپ کو کوئی باقاعدہ ملازمت تو مل ہی نہیں سکتی۔ مگر خیر۔ آپ یہ کیجیے کہ فی الحال تو میری ایک چھوٹی سی دکان ہے اس کے حساب کتاب کی نگرانی فرمائیے بیٹھ کر۔ اس عرصہ میں اگر کوئی بہتر جگہ مل گئی تو چلے جائیے گا۔ ورنہ میں ہی کچھ نہ کچھ پیش کرتا رہوں گا۔‘‘
خدا کا ہزار ہزار شکر و احسان ہے کہ اس نے کوئی سبیل بہرصورت پیدا ہی کردی۔ سچ کہا ہے کسی نے وہ بھوکا اٹھاتا ہے مگر بھوکا سلاتا نہیں ہے۔ لیجیے اب ہم ایک بارونق بازار میں موزے، بنیائن، رومال، تیل، گنگھا، آئینہ بیچنے ایک دکان پر بیٹھ گئے۔ صبح آٹھ بجے جاکر دکان کھولنا جھاڑو دینا۔ دن بھر گاہکوں کا خیرمقدم کرنا رومال بیچنا۔ اور رات کے نوبجے دکان بند کردینا۔ ایک کام تو یہ تھا اور دوسرا کام یہ کہ دن بھر کی بکری رجسٹر پر لکھ کر شام کو میزان نکال لیا کرتے تھے مگر یہ دوسرا کام اس قدر نامعقول ثابت ہوا کہ کبھی کبھی تو زندگی سے عاجز آجاتے تھے، کبھی تو کیش بک میں ہیں دو سو باسٹھ روپے تیرہ آنے نو پائی۔ اور کھاتہ میں میزان کل ہے دو سو تیس روپے تیرہ آنے نو پائی اور کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ کون صاحب بتیس روپے چپکے سے کیش بکس میں ڈال گئے ہیں۔ دوکان کے دوسرے ملازم سے پوچھ رہے ہیں کہ بھائی تم ہی کچھ یاد کرو۔ آخر وہ اسی رائے پر اڑجاتا کہ ’’جب آپ اپنے دوست کو غزل سنا رہے تھے اس وقت جتنے گاہک آئے سب سے دام لے کر کیش بکس میں تو آپ نے ڈال لیے مگر کھاتہ پر چڑھائے نہیں۔‘‘ لیجیے اب کھاتے کے فرضی اندراج ہو رہے ہیں۔ مگر جس دن یہ ہوتا کہ کیش بکس میں سے نکلتے ہیں تین سو چودہ روپے اور کھاتہ دکھا رہا ہے تین سو چون روپے تو اس روز تو ہاتھوں کے طوطے ہی اڑ کر رہ جاتے۔ کہ اب یہ چالیس روپے کی کمی کہاں سے پوری ہو۔ دکان کے دوسرے ملازم نے یاد کرتے ہوئے کہا،

’’میں سمجھ گیا قیس صاحب۔ چالیس روپے کا وہ تھرموس بیچا تھا۔ اور تھرموس لے کر وہ صاحب بیٹھ گئے تھے آپ کی غزل سننے۔ دوسروں کے ساتھ بڑی دیر تک واہ وا کرتے رہے اور پھرایک دم غائب ہوگئے۔ دیکھیے تھرموس کے دام لکھے ہیں۔‘‘
کھاتے میں تھرموس کے دام چالیس روپے موجود۔ اور اب ہم کو بھی یاد آگیا کہ ہم نے دام تو لکھ لیے تھے مگر وہ بیٹھ گئے تھے کلام سننے اور بڑے سخن فہم معلوم ہو رہےتھے۔ لہٰذا یہی خیال تھا کہ جاتے وقت دے دیں گے دام مگر وہ چپکے سے نکل گئے۔ بمشکل تمام دوسرے ملازم سے مل ملاکر اور اس کو بھی اسی کا ایک موقع دینے کا وعدہ کرکے کھاتہ کے اس اندراج کو مٹایا گیا اور جان بچی۔ کان پکڑ کر توبہ کی کہ آئندہ دکان پر شعر و شاعری کا شغل ہرگز نہ ہوگا۔ اور سوائے دکانداری کے دوکان پر بیٹھ کر اور کچھ نہ کریں گے، مگر جس نے بھی کہا ہے سچ کہا ہے کہ،

وہی ہوتا جو منظورِ خدا ہوتا ہے
دیکھتے کیا ہیں کہ کیف۔ سیف۔ حیف۔ نور۔ طور۔ نشور۔ سب کے سب ٹولی بنائے ہوئے چلے آرہے ہیں۔ اور ایک دم سے آکر حملہ آور ہوگئے۔ اب کیسے نہ بٹھاتے ان کو اور جب بیٹھ کر ان سے یہ معلوم ہوا کہ مشاعرے سےاٹھ کر وہ لوگ آرہے ہیں تو کیسے نہ ان سے فرمائش ہو مشاعرے کی غزلیں سنانے کی۔ اور جب وہ غزلیں سنادیں تو کہاں کا ہے یہ اخلاق کہ خود اپنی اسی طرح کی غزل نہ سنائی جائے ان کو۔ بس اتنی سی بات سے مشاعرے کی سی کیفیت پیدا ہوکر رہ جاتی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ راہ گیر بھی اکثر سخن فہم ہوتے ہیں۔ اگر وہ کلام سننے کو ٹھہر جائیں تو کون ان سے کہہ سکتا ہے کہ آپ چلتے پھرتے نظر آئیں۔ رہ گئے گاہک ان کی بلا سے مشاعرہ ہو یا کچھ وہ تو سن لائٹ سوپ لینے اس وقت بھی آئیں گے۔ ان کو تو اپنے نوزائیدہ بچے کے لیے چوسٹی اور بے بی پاؤڈر اس وقت بھی درکار ہوگا۔ چنانچہ یہ بالکل اتفاق کی بات ہے کہ جس وقت کا ہم ذکر کر رہے ہیں۔ شعرائے کرام کے علاوہ سامعین بھی کچھ زیادہ ہی جمع ہوگئے تھے۔ اس لیے کہ برق اپنی غزل پڑھ رہے تھے اور ان کی آواز کو سن کر راہ گیر کیا معنی پرندے تک ہوا میں معلق ہو کے رہ جاتے ہیں۔ دریا اپنی روانی چھوڑ دیتا ہے اور کچھ عجیب بات ہے کہ اسی وقت گاہک بھی کچھ ضرورت سے زیادہ آگئے تھے۔ مختصر یہ کہ ملا جلا مجمع ضرورت سے کچھ زیادہ ہی تھا۔ اور سڑک تھوڑی بہت رک گئی تھی۔ یعنی ادھر اور ادھر دونوں طرف موٹر کھڑے ہارن دے رہے تھے کہ ناگاہ چودھری صاحب بھی اسی وقت آموجود ہوئے۔

کچھ پریشان۔ کچھ بدحواس۔ چہرے کا رنگ اڑا ہوا تھا۔ غالباً وہ سمجھے ہوں گے اس اجتماع کو دیکھ کر کہ کوئی بلوہ ہوگیا ہے۔ یا دکان میں آگ لگ گئی ہے۔ مگر یہاں پر کچھ آل پاکستان مشاعرے کا رنگ دیکھ کر ان کی جان میں جان آئی۔ سرپکڑ کر ایک طرف خاموش بیٹھ گئے۔ یہاں تک کہ جب ہم نے غزل پڑھی تو بھی ہمارے کلام پر اچھل اچھل پڑنے والے چودھری صاحب سر پکڑے ہی بیٹھے رہے۔ یہاں تک کہ آنے والےر خصت ہوگئے۔ مجمع چھٹ گیا۔ سڑک کھل گئی۔ اور دکان پر کوئی نہ رہا تو چودھری صاحب نے نہایت خاموشی سے اٹھ کر کہا،
’’قیس صاحب آج کون تاریخ ہے۔‘‘

عرض کیا۔ ’’پندرہ۔‘‘
انہوں نے کہا، ’’میں بصد ادب آدھے مہینہ کی یہ تنخواہ پیش کر رہا ہوں اور آدھے مہینہ کی مزید تنخواہ اپنی طرف سے ہدیہ کے طور پر پیش کر رہا ہوں۔ امید ہے آپ مجھ کو معاف فرمائیں گے۔‘‘

عرض کیا۔ ’’بات کیا ہے آخر۔‘‘
کہنے لگے، ’’میں شرمندہ ہوں گا اس سلسلہ میں بات کرتے ہوئے۔ صرف اسی قدر عرض ہے کہ میری دکانداری تو ختم ہوکر ہی رہ جائے گی۔ اگر آپ کچھ اور دن یہاں رہے، اس عرصہ میں جو نقصانات ہوچکے ہیں ان سےمیں بے خبر نہیں ہوں۔‘‘

لاکھ ان سے تفصیلی گفتگو کرنا چاہی مگر وہ بس ہاتھ ہی جوڑتے رہے۔ اور اپنی دکان سے رخصت کردیا۔ مگر اب اپنے شاعر احباب کے مشورے سے ہم نے ایک سائن بورڈ اپنے مکان پر ہی ٹانگ لیا ہے،
’’ادارہ اصلاح سخن‘‘

یہاں کلام میں اصلاح بھی دی جاتی ہے۔
اور دوسرے کے لیے بہترسے بہتر کلام بھی حسب فرمائش تیار کیا جاتا ہے۔

صبح سے شام اس سائن بورڈ کے زیر سایہ بیٹھے رہتے ہیں۔ آج پندرہ روز ہوچکے ہیں۔ مگر اب تک صرف دو گاہک آئے ہیں۔ ایک صاحب کی بیوی روٹھ کر میکے چلی گئی ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ایسے پھڑکتے ہوئے شعر ان کو لکھے جائیں کہ بیوی تڑپ کر واپس آجائے۔ شعر ان کو کہہ کر دے دیے ہیں۔ آٹھ آنے وہ دے گئے ہیں۔ اور آٹھ آنے بیوی کے آجانے پر دیں گے۔
دوسرے صاحب اس لیے تشریف لائے تھے کہ وہ واقع ہوئے ہیں قوال۔ ان کے ایک حریف قوال نے کسی پچھلی محفل میں ایک چیز گا کر محفل کو لوٹ لیا ہے۔ اب وہ چاہتے ہیں کہ اسی قسم کی اس سے زبر چیز کہہ دی جائے۔ وعدہ ہوا ایک روپیہ کا۔ اور اگر وہ چل گئی تو جیسی آمدنی محفل میں ہوگی ویسی ہی وہ ہماری خدمت بھی کریں گے۔ یہ چیز ہم تیار کر رہے ہیں۔‘‘

ان دو گاہکوں کے علاوہ اب تک اور کوئی نہیں آیا۔ ہاں میں بھولا۔ ایک صاحبزادے بھی شاگردی کرنے آئے تھے۔ اور پوچھ رہے تھے کہ وہ جو ہم کو استاد کیںد گے تو ہم ان کو اس کسر نفسی کا کیا معاوضہ دیں گے۔ یہ ہے اس دور میں آپ کی شاعری کا حال۔ اور اس حال میں ہیں آپ کے وہ شاعر جو آپ کے ادب کو مالا مال کر رہے ہیں۔

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget