وہ بدسلوکی کا دفاع حسن سلوک سے کرتے ہیں


 ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋-سورہ-الرعد-آیت نمبر 22🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼ 

بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ
وَ الَّذِیْنَ صَبَرُوا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً وَّ یَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ اُولٰٓئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِۙ

ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 لفظی ترجمہ 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼

وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو صَبَرُوا : انہوں نے صبر کیا ابْتِغَآءَ : حاصل کرنے کے لیے وَجْهِ : خوشی رَبِّهِمْ : اپنا رب وَاَقَامُوا : اور انہوں نے قائم کی الصَّلٰوةَ : نماز وَاَنْفَقُوْا : اور خرچ کیا مِمَّا : اس سے جو رَزَقْنٰهُمْ : ہم نے انہیں دیا سِرًّا : پوشیدہ وَّعَلَانِيَةً : اور ظاہر وَّيَدْرَءُوْنَ : اور ٹال دیتے ہیں بِالْحَسَنَةِ : نیکی سے السَّيِّئَةَ : برائی اُولٰٓئِكَ : وہی ہیں لَهُمْ : ان کے لیے عُقْبَى الدَّارِ : آخرت کا گھر

ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 ترجمہ 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼

شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی خوشنودی کی خاطر صبر سے کام لیا ہے، (22) اور نماز قائم کی ہے اور ہم نے انہیں جو رزق عطا فرمایا ہے، اس میں سے خفیہ بھی اور علانیہ بھی خرچ کیا ہے، اور وہ بدسلوکی کا دفاع حسن سلوک سے کرتے ہیں، (23) وطن اصلی میں بہترین انجام ان کا حصہ، (24)۔

ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 تفسیر 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼

22: قرآن کریم کی اصطلاح میں صبر کا مفہوم بہت عام ہے۔ انسان اپنی نفسانی خواہشات کے تقاضوں کو جب بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے دبا لے تو یہ صبر ہے۔ مثلا نفس کی خواہش یہ ہورہی ہے کہ اس وقت کی نماز چھوڑ دی جائے۔ ایسے موقع پر اس خواہش کی خلاف ورزی کر کے نماز پڑھنا صبر ہے۔ یا اگر کسی گناہ کی خواہش دل میں پیدا ہورہی ہے تو اس کو دبا کر گناہ سے بچ جانا صبر ہے۔ اسی طرح اگر کسی تکلیف کے موقع پر اگر نفس کا تقاضا یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر شکوہ اور غیر ضروری واویلا کیا جائے تو ایسے موقع پر اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر راضی رہ کر اختیاری واویلا نہ کرنا بھی صبر ہے۔ اس طرح صبر کا لفظ دین کے تمام احکام پر عمل کو حاوی ہے۔ یہی معنی آیت نمبر 24 میں بھی مراد ہیں۔
23: یعنی برائی کا بدلہ اچھائی سے دیتے ہیں اور دفاع کا لفظ استعمال فرما کر قرآن کریم نے یہ بھی واضح فرما دیا کہ اچھائی کرنے کا انجام بالاآخر یہ ہوتا ہے کہ دوسرے کی بد سلوکی کے برے اثرات مٹ جاتے ہیں۔
24: اس آیت میں اصل الفاظ یہ ہے۔ لھم عقبی الدار۔ اس میں الدار کے لفظی معنی گھر کے ہیں۔ بہت سے مفسرین نے کہا ہے کہ اس سے مراد آخرت کا عالم ہے یہ لفظ بکثرت وطن کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور یہاں آخرت کے بجائے اس لفظ کو استعمال کرنے سے بظاہر اشارہ اس طرف ہے کہ انسان کا اصلی گھر اور وطن آخرت ہے اس لیے کہ دنیا کی زندگی تو فنا ہوجانے والی ہے انسان کو ہمیشہ ہمیشہ جہاں رہنا ہے وہ آخرت کا عالم ہے اس لیے یہاں الدار کا ترجمہ اصلی وطن سے کیا گیا ہے یہی بات آگے آیت 24 اور 25 میں بھی ملحوظ رہنی چاہیے

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی