خلیفۂ دوم امیرالمؤمنین حضرت عمربن الخطاب ؓ سن ۲۳ہجری میں جب حجِ بیت اللہ سے واپسی پرمکہ سے مدینہ کی جانب محوِسفرتھے ٗراستے میں ایک جگہ اپنے اونٹ کوبٹھایا،اورزمین پربیٹھ کراپنے ہاتھوں سے سنگریزوں کواِدھراُدھرہٹاتے ہوئے آرام کیلئے کچھ جگہ بنائی …اورپھروہاں اپنی چادربچھاکراس پرلیٹ گئے،جب نگاہ آسمان کی جانب اٹھی توفوراًہی دونوں ہاتھ بھی آسمان کی جانب بلندہوگئے…تب اپنے رب سے مناجات کرتے ہوئے یوں دعاء کی :اَللّھُمَّ کَبُرَتْ سِنِّي ، وَضَعُفَتْ قُوَّتِي ، وَانتَشَرَتْ رَعِیَّتِي ، فَاقبِضنِي اِلَیکَ…یعنی’’اے اللہ!اب میری عمرزیادہ ہوگئی ہے ، قوت بھی کمزورپڑچکی ہے، رعایابھی خوب پھیل چکی ہے،اس لئے اے اللہ!اب تومجھے بس اپنے پاس بلالے‘‘۔ (۱)
اورپھرمدینہ منورہ پہنچنے کے بعدمسجدِنبوی میں خطاب کے دوران اللہ سبحانہ ٗوتعالیٰ سے اپنے لئے شہادت کی دعاء مانگی…لیکن پھرفوراًہی فرمانے لگے : أَنَّیٰ لِي الشَّھَادَۃ؟ یعنی’’میرے نصیب میں شہادت کہاں ؟‘‘
اس جملے سے غالباًمقصدیہ ہوگاکہ مختلف محاذوں پرجواسلامی افواج اللہ کے دین کی سربلندی کی خاطرمصروفِ جہادہیں …وہ تمام علاقے مدینہ سے بہت دور…سینکڑوں ٗ بلکہ ہزاروں میلوں کی مسافت پرہیں …لہٰذامحاذِجنگ سے اس قدردوریہاں مدینہ میں بیٹھے ہوئے ’’شہادت‘‘کی توقع کس طرح کی جاسکتی ہے…؟اورپھرقدرے توقف کے بعدخودہی یوں فرمانے لگے: اِنَّ الَّذِي سَاقَنِي مِن مَکَّۃَ اِلَیٰ المَدِینَۃِ قَادِرٌ عَلَیٰ أن یَسُوقَ لِي الشَھَادَۃَ اِلَیٰ المَدِینَۃ یعنی’’وہ اللہ جس نے اپنے فضل وکرم سے مجھے مکہ سے مدینہ پہنچادیا،یقیناوہ اس بات پربھی قادرہے کہ اب میرے لئے ’’شہادت‘‘ کوبھی یہیں مدینہ میں ہی پہنچادے‘‘۔ (۲)
اس واقعہ کے بعدمحض چندروزہی گذرے تھے کہ ماہِ ذوالحجہ کے آخری دنوں میں ’’ابولولوفیروز‘‘نامی مجوسی غلام نے آپؓ کے قتل کامنصوبہ بنایا،اس مقصدکیلئے اس نے ایک بڑازہرآلودخنجربھی تیارکیا۔ایک روزنمازِفجرسے پہلے ہی اندھیرے کافائدہ اٹھاتے ہوئے وہ مسجدکے کسی کونے میں چھپ کربیٹھ گیا…اورجب نمازکاوقت ہوا …حضرت عمربن الخطاب ؓ حسبِ معمول امامت کیلئے آگے بڑھے اورنمازشروع کی،ابھی تکبیرہی کہی تھی کہ ابولولوفیروزنے آگے بڑھ کرخنجرسے کئی وارکئے،لوگوں نے اسے پکڑنے کی کوشش کی تواس نے اندھادھندہرایک کونشانہ بناناشروع کردیا…چونکہ مسجدمیں سب ہی لوگ غیرمسلح تھے اس لئے اسے پکڑنے میں دقت پیش آئی ، اس کے ان حملوں کے نتیجے میں وہاں موجودنمازیوں میں سے تیرہ افرادشدیدزخمی ہوئے ، جن میں سے چھ افراد شہیدہوگئے…کچھ موقع پرہی…اورکچھ بعدمیں …اس موقع پرقاتل نے جب فرارہونے کی کوشش کی توحضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے اس پراپناکمبل ڈال دیا،جس پراسے نقل وحرکت میں دشواری پیش آنے لگی،اورتب اس نے گرفتاری سے بچنے کیلئے اپنے اسی خنجرسے ہی خودکشی کرلی…اوریوں وہ بدبخت اپنے اس بدترین جرم کے پیچھے کارفرمااصل ’’سازش‘‘کوہمیشہ کیلئے ’’سربستہ راز‘‘کی شکل میں چھپاگیا۔
حضرت عمربن الخطاب ؓ جواس اچانک حملے کے نتیجے میں شدیدزخمی ہوجانے کی وجہ سے گرگئے تھے،اب انہوں نے نمازمکمل کرنے غرض سے حضرت عبدالرحمن بن عو ف ؓ کواشارہ کیا،جس پرانہوں نے آگے بڑھ کر نمازِ فجر مکمل کی،جبکہ حضرت عمرؓ کو فوری طورپر اٹھاکر گھر پہنچایاگیا۔
کچھ وقت گذرنے کے بعدجب طبیعت قدرے سنبھلی تواپنے سرہانے موجودحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکومخاطب کرتے ہوئے استفسارکیا’’بھتیجے !وہ حملہ آورکون تھا،اوراس کاانجام کیاہوا؟‘‘اس پرانہوں نے جواب میں یوں کہا’’وہ مجوسی غلام ابولؤلؤفیروزتھا،اوریہ کہ اس نے خودکشی کرلی ہے‘‘ ۔ یہ سن کر فرمایا’’اللہ کاشکرہے کہ مجھے کسی ایسے شخص نے قتل نہیں کیاجواللہ کے سامنے سجدہ ریزہوتاہو‘‘۔
اس موقع پرمہاجرین وانصارمیں سے کبارِصحابہ نے مشورہ دیتے ہوئے کہاکہ ’’اے امیرالمؤمنین! آپ اپناجانشین مقررکردیجئے…تاکہ اختلاف وافتراق کی نوبت نہ آئے‘‘
اس پرحضرت عمربن الخطاب ؓ نے چھ حضرات کے نام گنواتے ہوئے فرمایاکہ ’’رسول اللہ ﷺ کے نزدیک ان چھ حضرات کی خاص حیثیت تھی،آپ ﷺ ان سے ہمیشہ خوش رہے اور تادمِ آخرراضی ومطمئن رہے …لہٰذایہی چھ افرادباہم مشاورت کے بعدآپس میں سے ہی کسی کومنصبِ خلافت کیلئے منتخب کرلیں ‘‘۔ وہ چھ افرادیہ تھے:
۱۔حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ۔ ۲۔حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ۔
۳۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ۔۴۔حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ۔۵۔ حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ ۔۶۔حضرت زبیربن العوام رضی اللہ عنہ۔(۱)
نیزاس موقع پریہ تاکیدبھی فرمائی کہ ان چھ حضرات میں سے کسی ایک کے انتخاب کایہ کام زیادہ سے زیادہ تین دن کی مدت میں بہرصورت طے پاجائے،تاکہ معاملہ طول نہ پکڑنے پائے…اوریوں منافقین اورخفیہ دشمنوں کوکسی سازش کاموقع نہ مل سکے۔
حضرت عمربن الخطاب ؓ نے اس قاتلانہ حملے کے نتیجے میں زخمی ہونے کے بعدیہ تاکیدکی تھی کہ نئے خلیفہ کے انتخاب تک ان کی جگہ مسجدِنبوی میں نمازصہیب پڑھائیں ۔ چنانچہ اس دوران ٗ نیزحضرت عمرؓکی شہادت کے بعدبھی مزیدتین دن یعنی نئے خلیفہ کے انتخاب تک مسجدِنبوی میں امامت کے فرائض مسلسل حضرت صہیب بن سنان الرومیؓ انجام دیتے رہے۔(۱)
اس کے بعدحضرت عمربن الخطاب ؓ نے ان چھ افرادکوبلوایا،اورانہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:’’تم میں سے جوشخص خلافت کیلئے منتخب ہو، اسے میں وصیت کرتاہوں کہ وہ ’’انصار‘‘کے حقوق کابہت لحاظ رکھے،کیونکہ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی مددکی اورمہاجرین کواپنے گھروں میں ٹھکانہ فراہم کیا،انصارتمہارے محسن ہیں ، تمہیں بھی ان کے ساتھ احسان ہی کرناچاہئے،ان کی بھول چُوک سے جہاں تک ممکن ہودرگذراورچشم پوشی سے کام لینا‘‘۔
پھرمزیدفرمایا:’’تم میں سے جوکوئی خلافت کیلئے منتخب ہومیں اسے ’’مہاجرین‘‘کے ساتھ حسنِ سلوک کی بھی وصیت کرتاہوں ‘‘۔
اورپھراپنے بیٹے عبداللہ کوام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکی خدمت میں یہ کہتے ہوئے بھیجاکہ ’’جاؤ…ان سے میرے لئے رسول اللہ ﷺ اورابوبکرؓ کے پہلومیں تدفین کی اجازت طلب کرو‘‘
اس پرحضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماوہاں پہنچے اوراپنے والدیعنی حضرت عمرؓکی طرف سے یہی گذارش کی …جسے سننے کے بعدام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکی
آنکھوں سے آنسورواں ہوگئے…اورفرمایا:’’میں اس جگہ کواپنے لئے محفوظ رکھناچاہتی تھی…مگرآج میں عمرکوخودپرترجیح دوں گی…‘‘
۲۶/ذوالحجہ سن ۲۳ہجری بروزِبدھ قاتلانہ حملے کے نتیجے میں زخمی ہونے کے بعدچوتھے روزیعنی یکم محرم سن ۲۴ہجری بروزاتوارتریسٹھ برس کی عمرمیں رسول اللہ ﷺ کے خاص ساتھی اورجلیل القدرصحابی خلیفۂ دوم امیرالمؤمنین فاروقِ اعظم حضرت عمربن الخطاب ؓ اس جہانِ فانی سے کوچ کرتے ہوئے اپنے رب سے جاملے…نمازِجنازہ حضرت صہیب بن سنان الرومی ؓ نے پڑھائی ،مسجدِنبوی میں رسول اللہ ﷺ اورخلیفۂ اول حضرت ابوبکرصدیق ؓ کے پہلومیں سپردِخاک کئے گئے۔
اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں ان کے درجات بلندفرمائیں ، نیزہمیں وہاں اپنے حبیب ﷺ اورتمام صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی صحبت ومعیت کے شرف سے سرفرازفرمائیں ۔