🕌🛡️⚔️⭐معرکہٴ حق و باطل ⭐⚔️🛡️🕌🌴حصہ ہشتم 🌴



 🕌🛡️⚔️⭐معرکہٴ حق و باطل ⭐⚔️🛡️🕌🌴حصہ ہشتم 🌴
تذکرہ: امامِ عالی مقام ، نواسۂ رسول ، حضرت حسین ابن علی و اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم
🕌⭐🌴حضرت امام حسینؓ کا کوفہ جانے کا پکا عزم🌴⭐🕌
✍🏻 حماد حسن خان
☼الکمونیا ⲯ﹍︿﹍میاں شاہد﹍︿﹍ⲯآئی ٹی درسگاہ☼

*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اہل ِ کوفہ کے خطوط اور وفود کے بعد امامِ عالی مقامؓ نے مسلم بن عقیلؓ کو حالات سے آگاہی کے لیے کوفہ بھیجا تھا آپؓ نے اہلِ کوفہ کی بے پناہ عقیدت اور محبت کو دیکھتے ہوئے امامِ عالی مقام ؓ کو لکھ بھیجا تھا کہ آپؓ تشریف لے آئیں ۔ یہاں ہزاروں افراد آپؓ کی طرف سے میرے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں ۔
چنانچہ حضرت امامِ حسین ؓنے کوفہ جانے کا پکا عزم کر لیا۔ ادھر کوفہ میں جو انقلاب برپا ہو چکا تھا آپؓ ابھی تک اس سے لاعلم تھے۔ جب آپ ؓ خانوادئہ رسول ﷺ کی مقدس خواتین ، بچوں اور رفقا ء کے ساتھ کوفہ کی طرف روانہ ہونے لگے تو حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے منع کیا اور کہا کہ کوفی بڑے بے وفا اور ناقابل ِ اعتماد ہیں۔
میں آ پ ؓکو خدا کا واسطہ دیتا ہوں کہ کوفہ نہ جائیں ۔

اگر اہلِ کوفہ نے موجودہ حکومتی گورنر کو قتل کر دیا ہوتا ۔اپنے دشمنوں کو کوفہ سے نکال دیا ہوتا اور حالات پر قابو ہوتا تو آپ ؓ کا جانا درست تھا ۔لیکن اگر انہوں نے آپؓ کو ایسے حالات میں وہاں بلایا ہے کہ ان کا امیر ان میں موجود ہے اور اس کی حکومت قائم ہے اور اس کے کارندے حکومتی محصولات بدستور وصول کر رہے ہیں تو جان لیجئے کہ انہوں نے آپؓ کو صرف جنگ و جدل کے لیے بلایا ہے۔
مجھے تو خوف ہے کہ یہ بلانے والے آپؓ کو دھوکہ دیں گے۔آپؓ کو بے یارو مدد گار چھوڑ دیں گے بلکہ مجھے تو خدشہ ہے کہ وہ لوگ حکومت ِ وقت کے ساتھ مل کرآپ ؓسے لڑیں گے۔ اس طرح حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ حضرت عبداللہ بن جعفرؓ اور دیگر ساتھی منع کرتے رہے لیکن امامِ عالی مقام ؓ سب کو یہ جواب دیتے رہے کہ اب مسئلہ وفا اور بے وفائی کا نہیں ۔مسئلہ اس دعوت کا ہے جس میں مجھے کلمہٴ حق بلند کرنے ، ظلم و جبر کے خلاف جنگ ، شریعت ِ مصطفوی ﷺ کے احیاء اور دینِ اسلام کی قدروں کو پامالی سے بچانے کے لیے میدان ِ عمل میں آنے کو کہا گیا ہے۔
سنو میں ان مقاصد کے لیے اپنے ارادے اورموجودہ اقدام سے پیچھے نہیں ہٹوں گا۔
بعض لوگ نادانی میں یا بغضِ اہلِ بیت میں کہہ دیتے ہیں کہ جب یزید کے مقابلے میں حضرت امامِ حسین ؓ کے پاس کافی عسکری فوج و سیاسی حمایت نہ تھی تو آپ کا ایسے حالات میں مکہ چھوڑ کر کوفہ کے لیے عازم ِ سفر ہونا معاذ اللہ خروج تھا۔یہ دلیلِ اہلِ بیت کے ساتھ دلی بغض و فساد ہونے یا انتہا درجے کی بے وقوفی کے سواء کچھ نہیں ۔
راہ ِ رخصت اور راہ ِ عزیمت 
شریعت ِ مطہرہ میں دو راستے بتائے جاتے ہیں۔ دونوں راستے اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی طرف سے تجویز کردہ ہیں۔ ایک راہ کو راہِ رخصت کہا جاتا ہے اور ایک کو راہ ِ عزیمت۔ اگر حالات ساز گار ہوں،جبر و ظلم اور کفر کی طاقتوں کا صفایا آسانی سے کیا جا سکتا ہو تو ان حالات میں ہر چھوٹے بڑے اور ہر کلمہ گو پر اس ظلم کے خلاف میدانِ کارزار میں نکل آنا فرض اور واجب ہوتا ہے۔
لیکن جب حالات ساز گار نہ ہوں ۔ اسلحہ و عسکری قوت ساتھ نہ ہو باطل زیادہ مضبوط اور زیادہ منظم اور قوی تر ہو تو ایسے حالات میں شریعت نے امت ِ مسلمہ کو دو راستے عطا کر دیے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ رخصت پر عمل کرے اور گوشہ نشین ہو جائے۔ چپکے سے لعنت ملامت کرے اور دل سے بُرا جانے ۔لیکن مسلح تصادم اورکشمکش کے لیے میدان میں نہ آئے۔ 
ہر دور میں اکثریت رخصت پر عمل کرتی ہے۔
اور راہ ِ رخصت پر عمل کرنا نہ ہی ناجائز ہے نہ حرام اور نہ ہی اللہ کی ناراضگی کا سبب ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ہر اضطراری حالات میں رخصت کی اجازت دے رکھی ہے۔اب اگر سب کے سب لوگ بلا استثناء ایسے حالات میں رخصت پر ہی عمل کرنا شروع کر دیں تو پھر ظلم اور کفر کی طاغوتی طاقتوں کو روکنا ناممکن ہو جائے گا۔ اس لیے شریعت میں باجود رخصت کی موجودگی کے کچھ لوگ راہ ِ عزیمت پر ہی چل نکلتے ہیں۔
وہ حالات کی سازگاری اورناسازگاری کو نہیں دیکھتے ۔ فوج اور لشکر کی بھاری اکثریت پر نظر نہیں ڈالتے وہ کشمکش میں ناکامی اور کامیابی پر توجہ نہیں دیتے بلکہ ان کی توجہ صرف اور صرف اس امر پر مرکوز ہوتی ہے کہ وہ اپنے تن من کو دین ِ خدا وندی کی سر بلندی کے لیئے کیسے قربان کریں ۔ انہیں ہلکی سی امید ہوتی ہے کہ شاید تن میں لگی ہوئی آگ ہی آئندہ نسلوں کے اندر اندھیروں کو اجالوں میں بدل دے۔
وہ حالات کی ناسازگاری سے نا دانستہ بے خبری اور لا تعلقی اختیار کرتے ہوئے راہ ِ عزیمت پر چلتے ہیں اور اپنی جان پر کھیل جاتے ہیں۔ وہ اپنی شان اور مقام کی مناسبت سے اس اقدام کو فرض سمجھتے ہیں۔ جس طرح ہر شخص راہ ِ رخصت پر عمل نہیں کر سکتا اسی طرح راہ ِ عزیمت پر چلنا بھی ہر کسی کے بس کی بات نہیں ۔
حضرت امامِ حسینؓ نے یہ اقدام اس لیے کیا تھاکہ انؓ کے رگ و ریشے میں علی ابنِ ابی طالب ؓ کا خون گردش کر رہا تھا اور آپؓ نے سیدہ فاطمتہ الزہرہؓ کی گود میں پرورش پائی تھی۔
محبوبِ خدا ﷺ کے مبارک کاندھوں پر سواری کی تھی اور حضور ﷺ کی زبان مبارک کو چوسا تھا۔ اور آپؓ خانوادئہ نبوت کے چشم و چراغ تھے۔ اسی لیے راہِ عزیمت پر اس دور میں عمل کرنا آ پؓ ہی کوشایان تھا۔ پھر یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ راہ ِ رخصت پر عمل بھی اگرچہ راہِ حق ہے اس راہ کو اپنانے والوں کو مطعون کرنا درست نہیں کہ یہ حق انہیں شریعت نے دیا ہے۔
لیکن ایسے لوگوں کی راہ کو کوئی شخص اپنا راستہ اور رہنما نہیں بناتا۔ اہلِ محبت اور عشاق ان لوگوں کی راہ پر چلتے ہیں جو راہِ حق پر اپنی گردنیں کٹواتے ہیں۔ وہ قیامت تک کے لیے ایک اسو ئہ ہدایت دے جاتے ہیں۔احیائے دین کے قافلوں کے سفر کو ایک ایسی شاہراہ تعمیر کر کے دے دی جاتی ہے جس پر ہر راہ گزر سہولت سے منزل تک پہنچ جائے۔وہ لوگ جنہوں نے حضرت امامِ حسینؓ کے مقام کو ظاہری حالات کی ناسازی کی بنا پر معاذاللہ خروج اور بغاوت کا الزام دیا۔
وہ نہ تو دین کی روح سے واقف ہیں نہ شریعتِ اسلامیہ کے احیاء کے تقاضوں سے ۔وہ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ دین کی مٹتی ہوئی قدروں کی نشاة ِ ثانیہ کے لیے کیوں کر جان قربان کر دی جاتی ہے اور شاید وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ اس وقت یزید کا مسندِ خلافت پر بیٹھنا اسلام کی تاریخ کو کس رخ پر ڈال رہا تھا۔ اگر امامِ حسین ؓ میدانِ کارزار میں علمِ حق بلند کرنے کے لیئے نہ نکلتے اور یہ ۷۲تن بھی اپنے خون کا نذرانہ نہ دیتے تو آج اسلام کی جو متاع جمہوری قدروں کی آزادی ، اظہار ِ جاہ و حشمت اور نفاذ ِ شریعت کی مسلسل جد و جہد کی صورت میں نظر آ رہی ہے اس کا کہیں بھی وجود نہ ہوتا۔
اسلام کی پوری تاریخ اور امتِ مصطفی ﷺ حسین ابنِ علی ؓ کے خون کے قطرات اور خانوادئہ رسول ﷺ کی اس عظیم قربانی کی مرہون ِ منت ہے۔جس نے راہِ رخصت کو چھوڑ کر راہ ِ عزیمت کو اپنایا اور اپنا سب کچھ قربان کر دیا مگر اس زمانے کی تاریکیوں اور اندھیروں کو ایسے اجالوں میں بدل گیا جس نے چودہ سو سال سے انسانیت کی راہیں روشن کر رکھی ہیں۔راہِ رخصت پہ چلنے والے ہزاروں کی موجودگی کے باوجود آج بھی دنیا جب بطورِ نمونہ کسی کا نام لیتی ہے تو وہ حسین ابن ِ علی ؓ کا ہی نام لیتی ہے۔سبحان اللہ۔ قربان ہماری نسلیں تا قیامت۔

کربلا جانے والے اہلِ بیت 
# اس سفر میں حضرت امامِ حسین  کے3 صاحبزادے آپ کے ہمراہ تھے۔
حضرت علی اوسستجن کو امام زین العابدین  کہتے ہیں۔حضرت شہر بانو کے بطن سے تھے۔اس وقت ان کی عمر 22 سال تھے اور وہ بیمار تھے۔
2 ۔ آپ کے دوسرے صاحبزادے حضرت علی اکبر  تھے۔
ان کی عمر 18 سال تھی۔ یہ کربلا میں شہید ہوئے۔
3 ۔ امام عالی مقام کے تیسرے صاحبزادے علی اصغر  تھے۔ انکی والدہ قبیلہ بنی ِ قضا عہ سے تھیں۔ یہ شیر خوار بچے تھے۔
4 ۔ آپ کی ایک صاحبزادی حضرت سکینہ بھی آپکے ساتھ تھیں۔جن کی نسبت حضرت قاسم  سے ہوئی تھی۔
اس وقت ان کی عمر7 سال تھی۔

5 ۔ حضرت امام حسین کی دو بیویاں ہمراہ تھیں۔ایک شہر بانو  
6 ۔ دوسری حضرت علی اصغر  کی والدئہ محترمہ
# حضرت امام حسن کے چار نوجوان صاحبزادے بھی ساتھ تھے۔جو کربلا میں شہید ہوئے۔
7 ۔ حضرت قاسم  
8 ۔ حضرت عبداللہ 
حضرت عمر
10۔ حضرت ابو بکر
# حضرت علی کے پانچ فرزند بھی امام عالی مقام کے ہمراہ تھے اور سب نے شہادت پائی۔
11۔ حضرت عباس بن علی
12۔ حضرت عثمان بن علی
13۔ حضرت عبداللہ بن علی
14۔
حضرت محمد بن علی
15۔ حضرت جعفر بن علی
# حضرت عقیل کے فرزندوں میں سے حضرت مسلم اور ان کے دو صاحبزادے ، امامِ عالی مقام  کے کربلا پہنچنے سے پہلے ہی کوفہ میں شہید ہو چکے تھے۔ اور3 فرزند کربلا میں شہید ہوئے۔
16۔ حضرت عبداللہ
17۔
حضرت عبدالرحمٰن
18۔ حضرت جعفر
# حضرت جعفر طیار کے دو پوتے بھی کربلا میں امامِ عالی مقام  کے ہمراہ کربلا میں شہید ہوئے۔
19۔ حضرت محمد
20۔ حضرت عون
ان کے والد کا نام عبداللہ بن جعفر ہے اور انکی والدہ کا نا م زینب ہے۔
یہ حضرت امام حسین کی حقیقی بہن ہیں۔ اور یہ دونوں امامِ عالی مقام  کے بھانجے ہیں۔
صاحب زدگان ِ اہل ِ بیت میں سے کل 17 حضرات حضرت امامِ حسین ؓ کے ساتھ کربلا میں شہادت سے سرفراز ہوئے۔اور حضرت امام زین العابدین، عمر بن حسن، محمد بن عمر بن علی، اور دوسرے کم عمر صاحبزادے قیدی بنائے گئے۔(سوانح کربلا)
 مکہ سے کوفہ روانگی
حضرت امامِ حسین  مکہ معظمہ سے۸ ذالحج کو کوفہ کے لیے روانہ ہوئے۔
جب آپ روانہ ہونے لگے تو آپ کی خدمت میں درخواست کی گئی کہ آپ  کچھ دن اور مکہ میں گزار لیں۔لیکن حضرت امامِ حسین کے سامنے ان کے والدِ گرامی کا یہ ارشاد تھا کہ مکہ معظمہ کا تقدس ایک شخص کے سبب پامال ہو گا اور اس ایک شخص کے سبب سے مکہ میں خون بہے گا۔آپ  نے فرمایا کہ ممکن ہے کہ مکہ میں یزیدی فوج میری گرفتاری کا اقدام کرے اور ہمارے حامی ہمارے دفاع میں تلواریں اٹھا لیں۔
اس طرح میرے سبب سے حرم ِ مکہ میں خون بہے۔
امام ِ عالی مقام  توکل بر خدا کوفہ کی طرف روانہ ہو گئے۔راستے میں صفاح کے مقام پرعرب کے مشہور شاعر فرزوق سے آپ  کی ملاقات ہوئی۔وہ کوفہ سے آ رہا تھا۔فرزوق نے آپ  کو سلام کیا اور دعا دیتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ  کی مراد پوری کرے۔آپ کو وہ چیز عطا فرمائے جس کے آپ  طلب گار ہیں۔
حضرت امام ِ حسین نے پوچھا کہ تمہارے پیچھے لوگوں کا کیا حال ہے۔ اس نے کہا کہ لوگوں کے دل تو آپ  کے ساتھ ہیں مگر ان کی تلواریں بنی امیہ کے ساتھ ہیں۔ تاہم قضا ئے الہٰی آسمان سے نازل ہوتی ہے اور اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ آپ  نے فرمایا تم نے سچ کہا بیشک پہلے بھی اللہ ہی کے ہاتھ میں امر تھا اور بعد میں بھی اسی کے ہاتھ میں اختیار ہے۔ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
ہمارے رب کی ہر روز نئی شان ہے۔اگر قضا ئے الہٰی وہی ہے جو ہم چاہتے ہیں تو ہم اللہ کی نعمتوں پر اس کاشکر ادا کرتے ہیں۔ اور شکر ادا کرنے پر وہی ہمارا مدد گار ہے۔اور اگر قضائے الہٰی ہماری امید کے خلاف ہے تو جس شخص کی نیت صالح ہو اور وہ متقی ہو تو اس کی شکایت نہیں کرتے ۔ اس کے بعد امام ِ عالی مقامنے اپنی سواری کو چلایا اور سلام کرتے ہوئے دونوں ایک دوسرے سے رخصت ہو گئے۔
(البدایہ و النہایہ ۸:۱۶۶ ۔ الطبری ۶:۲۸ ۔ ابن اثیر ۴:۴۰)
فرذوق سے ملاقات کے بعدقافلہٴ حسینؓ آگے بڑھا تو آپ  کے بھانجے حضرت عون و محمد  اپنے والد حضرت عبداللہ بن جعفر  کا خط لے کر پہنچ گئے ۔ خط میں لکھا تھا :
”میں خدا کے نام پر آپ سے التجا کرتا ہوں کہ میرا یہ خط دیکھتے ہی آپ واپس لوٹ آئیں۔
جو سفر آپ نے اختیار کیا ہے اس میں مجھے آپ  کی ہلاکت اور آپ  کے اہل ِ بیت کی بربادی کاخوف ہے۔ آج اگر آپ  ہلاک ہو گئے تو اسلام کا نور بجھ جائے گا ۔آپ  ہدایت یافتوں کے رہنما اور اہلِ ایمان کی امید ہیں ۔آپ  سفر میں عجلت نہ کریں ۔اس خط کے پیچھے میں خود آ رہا ہوں ۔ والسلام“
حضرت عبداللہ بن جعفر  نے اپنے بچوں کے ہاتھ یہ خط روانہ کر کے خود امیرِ مکہ عمرو بن سعید سے ملاقات کی اور اسے کہا کہ حضرت امامِ حسین کو ایک خط بھیج دیں جس میں انہیں امان دینے اور نیکی اور احسان کرنے کا وعدہ ہو۔
اور خط میں انہیں واپس آنے کی درخواست کی گئی ہو۔ممکن ہے اس طرح وہ مطمئن ہو کر واپس آ جائیں ۔ عمرو بن سعید نے کہا کہ جو کچھ آپ لکھنا چاہتے ہیں وہ میری طرف سے لکھ لیں ۔میں اس پر مہر لگا دوں گا ۔اس پر حضرت عبد اللہ بن جعفر نے جو لکھنا چاہا عمرو بن سعید کی طرف سے لکھا اور اس پر اس نے مہرثبت کر دی۔آپ  نے اس سے مزید کہا کہ میرے ساتھ کسی آدمی کو امان کے طور پر بھیج دو۔
اس پر عمرو بن سعید نے یحٰیی کو آپ  کے ساتھ بھیج دیا ۔حضرت عبد اللہ بن جعفر اور یحٰیی خط لے کر روانہ ہو گئے ۔ حتیٰ کہ حضرت امام حسین سے جا ملے اور انہیں یہ خط پڑھ کر سنایا۔ حضرت امام حسین نے واپس آنے سے انکار کرتے ہوئے فرمایا :
”میں نے رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھا ہے آپ ﷺ نے مجھے ایک کام سر انجام دینے کا حکم فرمایا ہے۔
جس کو میں ہر حالت میں انجام دوں گا۔انہوں نے پوچھا وہ خواب کیا ہے۔ آپ  نے فرمایا کہ یہ خواب میں کسی کو نہیں بتاؤں گا ۔یہاں تک کہ میں اپنے رب سے جا ملوں“
امام ِ عالی مقام  نے عمرو بن سعید کی تحریر کا جواب لکھ کر ان کے سپرد کیا ۔ حضرت عبد للہ کچھ مجبوریوں کی وجہ سے اس سفر میں آپ کے ساتھ نہیں جا سکتے تھے۔ انہوں نے اپنے صاحبزادوں عون و محمد کوآپ  کے ساتھ رہنے کی ہدایت کی اور خود واپس آ گئے ۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی