🌻 نفلی عبادات: انفرادیت سے اجتماعیت تک


 🌻 نفلی عبادات: انفرادیت سے اجتماعیت تک


📿 نفلی عبادات واعمال سے متعلق شریعت کا مزاج اور مروجہ متعدد اغلاط کی نشاندہی:
شریعت نے جو عبادت اور نیک عمل جس ہیئت وصورت کے ساتھ مشروع کیا ہے اس کو اسی شکل وصورت کے ساتھ سرانجام دینا ہی دین کا تقاضا ہے، اس میں اپنی طرف سے تبدیلی کرنا ممنوع ہے، جس سے بچنا ضروری ہے، چنانچہ شریعت نے جو عبادت انفرادی طور پر مشروع کی ہے تو اس کو اپنی طرف سے اجتماعی رنگ دینا ممنوع ہے۔ جیسا کہ عام نفلی عبادات واعمال سے متعلق شریعت کا عمومی مزاج یہ ہے کہ ہر شخص انھیں انفرادی طور پر ادا کرے، انھیں اپنی طرف سے اجتماعی صورت میں ادا کرنے کو شریعت نے ناپسند قرار دیا ہے حتی کہ متعدد صورتوں میں یہ اجتماعی اہتمام بدعت بن جاتا ہے۔ اسی لیے فقہاء کرام نے نفل نماز کو تداعی کے ساتھ باجماعت ادا کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔  
انفرادی نفلی عبادات واعمال کو اپنی طرف سے اجتماعی شکل وصورت دینا ممنوع تو ہے ہی البتہ مشاہدہ یہ ہے کہ پھر رفتہ رفتہ ان میں دیگر غیر شرعی باتیں اور خرابیاں بھی در آتی ہیں جن کی وجہ سے اس کی قباحت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ غور کیا جائے تو ہم لوگ کئی انفرادی نفلی عبادات کو رفتہ رفتہ اجتماعی شکل دیے جارہے ہیں اور ہمیں یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ یہ شریعت کے مقاصد اور مزاج کے بھی خلاف ہے اور اہل السنۃ والجماعۃ کی اتباع کے تقاضوں کے بھی خلاف ہے۔ آئیے ذیل میں ایسے متعدد نفلی اعمال کا اجمالی تذکرہ کرتے ہیں جو کہ انفرادی عبادات ہیں لیکن ہم نے انھیں اجتماعی شکل دے دی ہے:
1️⃣ صلاۃ التسبیح ایک انفرادی نفلی عبادت ہے لیکن اسے باجماعت ادا کرنے کا اہتمام کیا جارہا ہے جس کے لیے دعوت دے کر لوگوں کو بلایا جاتا ہے، بعض علاقوں میں خواتین میں اس کا رواج اور اہتمام کافی زیادہ ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ شریعت کے تقاضوں کے خلاف ہے۔
2️⃣ شبِ برأت کا قیام یعنی شعبان کی پندرہویں رات عبادت کرنا ایک انفرادی نفلی عبادت ہے، لیکن اب اس مبارک رات میں شب بیداری کی غرض سے مساجد اور دینی مراکز میں اجتماعات اور جلسے منعقد کیے جاتے ہیں جن کے لیے باقاعدہ دعوت دے کر لوگوں کو جمع کیا جاتا ہے۔ حالانکہ سنت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ مزید یہ کہ یہ مَیلوں، جلسوں اور اجتماعات کی رات نہیں،بلکہ تنہائی میں رب کو منانے،  اس کی عبادت کرنے اور اس سے مانگنے کی رات ہے۔
3️⃣ ایصالِ ثواب ایک انفرادی نفلی عمل ہے، لیکن اس کے لیے بھی اجتماعات منعقد کیے جاتے  ہیں، لوگوں کو اجتماعی قرآن خوانی میں شرکت کی دعوت دی جاتی ہے، اجتماعی طور پر ختم، فاتحہ خوانی اور رسمِ قل کا اہتمام کیا جاتا  ہے اور اس کے لیے اشتہارات شائع کیے جاتے ہیں، جن کی خرابیاں محتاجِ بیان نہیں۔ ظاہر ہے کہ شریعت سے اس کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملتا۔
4️⃣ ایک طویل عرصے سے ’’مجلسِ ذکر‘‘ کے اشتہارات بھی شائع ہورہے  ہیں اور اجتماعی ذکر بالجہر کی مجلس منعقد کرکے لوگوں کو اس میں شرکت کی باقاعدہ دعوت دی جاتی ہے۔ پھر ان مجالس میں رفتہ رفتہ نظریاتی اور عملی طور پر شرعی حدود سے تجاوز بھی دیکھنے کو مل رہا ہے جس کی وجہ سے قباحت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ اجتماعی ذکر بالجہر کے لیے دعوت نہ چلائی جائے اور اس میں نظریاتی اور عملی طور پر شرعی حدود کی پاسداری کی جائے تو اس کی گنجائش ہو سکتی ہے، البتہ انفرادی ذکر کی اہمیت اور افضیلت ایک واضح امر ہے۔
5️⃣ اب تو اعتکاف بھی اجتماعی صورت اختیار کرنے لگا ہے کہ لوگوں کو اشتہارات کے ذریعے کسی شیخ ومرشد یا بزرگ شخصیت کے ساتھ اعتکاف کرنے کی باقاعدہ دعوت دی جاتی ہے اور اعتکاف کی عبادات ومعمولات کا ایک اجتماعی نظم بنایا جاتا ہے جس کی پابندی معتکف پر لازم قرار دی جاتی ہے حتی کہ اس اجتماعی نظم کی پابندی نہ کرنے والوں کو اعتکاف میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اس اجتماعی اعتکاف کو ایجاد ہوئے بھی کچھ عرصہ ہوچکا ہے لیکن رفتہ رفتہ اس میں بھی منکرات کا اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ البتہ اگر کوئی شخص اپنی اصلاح وتربیت کی نیت سے اپنے شیخ ومرشد کی مسجد میں اعتکاف کرنا چاہے تو یہ ممنوع نہیں اس شرط کے ساتھ کہ اس میں شرعی حدود سے تجاوز نہ کیا جائے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: فتویٰ جامعہ دار العلوم کراچی نمبر: ۲۴۶۴/ ۷۰۔ ذکر واعتکاف میں مروّجہ بدعات از حضرت اقدس مولانا صدیق احمد صاحب رحمہ اللہ)
6️⃣ شبِ قدر کا قیام ایک انفرادی نفلی عبادت ہے، لیکن اب رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں شب بیداری کی غرض سے مساجد اور دینی مراکز میں اجتماعات اور جلسے منعقد ہونے لگے ہیں، اجتماعی نوافل اور اجتماعی دعاؤں کا اہتمام کیا جانے لگا ہے جن کے لیے باقاعدہ دعوت دے کر اور اشتہار شائع کرکے لوگوں کو جمع کیا جاتا ہے۔ حالانکہ شریعت کا یہ مزاج ہرگز نہیں جیسا کہ ماقبل میں کچھ تفصیل ذکر ہوچکی۔
7️⃣ اسی طرح اب تو ’’مجلسِ درود شریف‘‘ کے اشتہارات بھی شائع ہونے لگے ہیں اور لوگوں کو باقاعدہ مجمع لگاکر درود شریف پڑھنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ اسی طرح کئی مساجد میں فرض نمازوں اور جمعہ کی نماز کے بعد آواز سے آواز ملا کر اجتماعی طور پر درود شریف پڑھنے کا بھی اہتمام کیا جارہا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان باتوں کا سنت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کوئی ثبوت نہیں ملتا۔
8️⃣ میت کے لواحقین کی تعزیت کرنا ایک انفرادی عمل ہے لیکن اس کو بھی ایک اجتماعی شکل دے دی گئی ہے کہ اس کے لیے جگہیں مختص کی جاتی ہیں جہاں تین دنوں تک لوگوں کا ہجوم جمع رہتا ہے، تعزیت کے لیے آنے والے اور وہاں پہلے سے موجود افراد اجتماعی طور پر دعا کرتے جاتے ہیں اور اسے لازم بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس کا بھی سنت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ (اس کی تفصیل بندہ نے اپنی کتاب ’’تعزیت سنت کے مطابق کیجیے‘‘میں ذکر کی ہے۔)
9️⃣ جنازے کے ساتھ بلند آواز سے اجتماعی طور پر کلمہ شہادت پڑھنا اور ذکر کرنا بھی عام ہوچکا ہے، حالانکہ شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں، البتہ اس موقع پر انفرادی طور پر آہستہ آواز سے ذکر کرنا درست ہے۔
🔟 نمازِ جنازہ کے فورًا بعد اجتماعی طور پر میت کے لیے دعا کا اہتمام بھی عام ہوچکا ہے، حالانکہ یہ غیر شرعی عمل ہے، کیونکہ سنت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ مزید یہ کہ نمازِ جنازہ بذاتِ خود میت کے لیے ایک اجتماعی دعا ہے، اس لیے اس کے بعد اسی جگہ اپنی طرف سے ایک اور اجتماعی دعا کے اضافے اور اہتمام کا کیا جواز ہوسکتا ہے؟! البتہ اگر کوئی شخص انفرادی طور پر میت کے لیے دعا کرنا چاہے تو منع نہیں، لیکن اس کو بھی اسی وقت کے ساتھ خاص کرنا اور اس کو لازم سمجھنا ممنوع ہے۔
1️⃣1️⃣ کئی علاقوں میں فرض نماز کے بعد کی سنت نماز کی ادائیگی کے بعد اجتماعی دعا کا التزام واہتمام بھی عام ہے، ظاہر ہے کہ سنت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملتا۔البتہ اگر کوئی انفرادی طور پر دعا مانگنا چاہے تو اس  میں کوئی حرج نہیں۔

⬅️ فائدہ:
نیکی کسی خود ساختہ عمل کا نام نہیں، بلکہ نیکی نیکی اُس وقت بنتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اُس وقت قبول ہوتی ہے جب اس میں دو بنیادی باتیں پائی جائیں: ایک تو یہ کہ وہ نیکی شریعت کے مطابق ہو، کیونکہ جو نیکی شریعت کے خلاف ہو اس کو نیکی نہیں کہتے، بلکہ وہ گناہ بن جاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ وہ نیکی اخلاص کے ساتھ ہو، تو جو نیکی ریاکاری، نام ونمود اور فخر کی نیت سے کی جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوتی۔  
(تفسیر امام رازی سورۃ الملک آیت: 2)

📚 عبارات
☀️ تفسير الرازي:
الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًاۚ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْغَفُوْرُ (سورة الملك: 2)
اَلْمَسْأَلَةُ السَّادِسَةُ: ذَكَرُوا فِي تَفْسِيرِ ﴿أَحْسَنُ عَمَلًا﴾ وُجُوْهًا: أَحَدُهَا: أَنْ يَكُونَ أَخْلَصَ الْأَعْمَالِ وَأَصْوَبَهَا؛ لِأَنَّ الْعَمَلَ إِذَا كَانَ خَالِصًا غَيْرَ صَوَابٍ: لَمْ يُقْبَلْ، وَكَذَلِكَ إِذَا كَانَ صَوَابًا غَيْرَ خَالِصٍ، فَالْخَالِصُ: أَنْ يَكُونَ لِوَجْهِ اللهِ، وَالصَّوَابُ: أَنْ يَكُونَ عَلَى السُّنَّةِ.
☀️ صحيح مسلم:
1255- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ: أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَعُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ الْمَسْجِدَ فَإِذَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ جَالِسٌ إِلَى حُجْرَةِ عَائِشَةَ وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ الضُّحَى فِي الْمَسْجِدِ فَسَأَلْنَاهُ عَنْ صَلَاتِهِمْ، فَقَالَ: بِدْعَةٌ. (باب بَيَانِ عَدَدِ عُمَرِ النَّبِىِّ ﷺ وَزَمَانِهِنَّ)
☀️ إكمال المعلم شرح صحيح مسلم للقاضي عياض:
(بدعة) يعنى إظهار صلاتها في المسجد والاجتماع لها، لا أن صلاة الضحى بدعة، وقد تقدم الكلام على هذا وغيره، والخلاف فيها في الصلاة. (باب بَيَانِ عَدَدِ عُمَرِ النَّبِىِّ ﷺ وَزَمَانِهِنَّ)
☀️ سنن الدارمي:
450- حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي رَبَاحٍ شَيْخٌ مِنْ آلِ عُمَرَ قَالَ: رَأَى سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ رَجُلًا يُصَلِّي بَعْدَ الْعَصْرِ الرَّكْعَتَيْنِ يُكَبِّرُ، فَقَالَ لَهُ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ: أَيُعَذِّبُنِي اللهُ عَلَى الصَّلَاةِ؟ قَالَ: لَا، وَلَكِنْ يُعَذِّبُكَ اللهُ بِخِلَافِ السُّنَّةِ. 
(بَابُ مَا يُتَّقَى مِنْ تَفْسِيرِ حَدِيثِ النَّبِيِّ ﷺ، وَقَوْلِ غَيْرِهِ عِنْدَ قَوْلِهِ ﷺ)
☀️ الاعتصام للشاطبي:
وَالثَّانِي: أَنْ يُطْلَبَ تَرْكُهُ وَيُنْهَى عَنْهُ لِكَوْنِهِ مُخَالَفَةً لِظَاهِرِ التَّشْرِيعِ مِنْ جِهَةِ ضَرْبِ الْحُدُودِ، وَتَعْيِينِ الْكَيْفِيَّاتِ، وَالْتِزَامِ الْهَيْئَاتِ الْمُعَيَّنَةِ، أَوِ الْأَزْمِنَةِ الْمُعَيَّنَةِ مَعَ الدَّوَامِ، وَنَحْوِ ذَلِكَ، وَهَذَا هُوَ الِابْتِدَاعُ وَالْبِدْعَةُ، وَيُسَمَّى فَاعِلُهُ مُبْتَدِعًا. .....
وَقَوْلُهُ فِي الْحَدِّ: «تُضَاهِي الشَّرْعِيَّةَ» يَعْنِي أَنَّهَا تُشَابِهُ الطَّرِيقَةَ الشَّرْعِيَّةَ مِنْ غَيْرِ أَنْ تَكُونَ فِي الْحَقِيقَةِ كَذَلِكَ، بَلْ هِيَ مُضَادَّةٌ لَهَا مِنْ أَوْجُهٍ مُتَعَدِّدَةٍ: .....
وَمِنْهَا: الْتِزَامُ الْكَيْفِيَّاتِ وَالْهَيْئَاتِ الْمُعَيَّنَةِ، كَالذِّكْرِ بِهَيْئَةِ الِاجْتِمَاعِ عَلَى صَوْتٍ وَاحِدٍ، وَاتِّخَاذُ يَوْمِ وِلَادَةِ النَّبِيِّ ﷺ عِيدًا، وَمَا أَشْبَهَ ذَلِكَ. (الْبَابُ الْأَوَّلُ: تَعْرِيفُ الْبِدَعِ وَبَيَانُ مَعْنَاهَا)
☀️ مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح:
(وَأَقَلَّهَا تَكَلُّفًا) ...... وَلَا يَتَحَلَّقُونَ لِلْأَذْكَارِ وَالصَّلَوَاتِ بِرَفْعِ الصَّوْتِ فِي الْمَسَاجِدِ وَلَا فِي بُيُوتِهِمْ. (بَابُ الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ)
☀️ البحر الرائق شرح كنز الدقائق:
وَلِأَنَّ ذِكْرَ اللهِ تَعَالَى إذَا قُصِدَ بِهِ التَّخْصِيصُ بِوَقْتٍ دُونَ وَقْتٍ أو بِشَيْءٍ دُونَ شَيْءٍ لم يَكُنْ مَشْرُوعًا حَيْثُ لم يَرِد الشَّرْعُ بِهِ؛ لِأَنَّهُ خِلَافُ الْمَشْرُوعِ. (باب العيدين)
☀️ الدر المختار:
(وَلَا يُصَلِّي الْوِتْرَ وَ) لَا (التَّطَوُّعَ بِجَمَاعَةٍ خَارِجَ رَمَضَانَ) أَيْ يُكْرَهُ ذَلِكَ عَلَى سَبِيلِ التَّدَاعِي، بِأَنْ يَقْتَدِيَ أَرْبَعَةٌ بِوَاحِدٍ كَمَا فِي «الدُّرَرِ». 
☀️ رد المحتار على الدر المختار:
(قَوْلُهُ: عَلَى سَبِيلِ التَّدَاعِي) هُوَ أَنْ يَدْعُوَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا، كَمَا فِي «الْمُغْرِبِ»، وَفَسَّرَهُ الْوَانِيُّ بِالْكَثْرَةِ وَهُوَ لَازِمُ مَعْنَاهُ. (قَوْلُهُ: أَرْبَعَةٌ بِوَاحِدٍ) أَمَّا اقْتِدَاءُ وَاحِدٍ بِوَاحِدٍ أَو اثْنَيْنِ بِوَاحِدٍ فَلَا يُكْرَهُ، وَثَلَاثَةٍ بِوَاحِدٍ فِيهِ خِلَافٌ، «بَحْرٌ» عَن «الْكَافِي». وَهَلْ يَحْصُلُ بِهَذَا الِاقْتِدَاءِ فَضِيلَةُ الْجَمَاعَةِ؟ ظَاهِرُ مَا قَدَّمْنَاهُ مِنْ أَنَّ الْجَمَاعَةَ فِي التَّطَوُّعِ لَيْسَتْ بِسُنَّةٍ يُفِيدُ عَدَمَهُ، تَأَمَّلْ. بَقِيَ لَو اقْتَدَى بِهِ وَاحِدٌ أَوْ اثْنَانِ ثُمَّ جَاءَتْ جَمَاعَةٌ اقْتَدَوْا بِهِ. قَالَ الرَّحْمَتِيُّ: يَنْبَغِي أَنْ تَكُونَ الْكَرَاهَةُ عَلَى الْمُتَأَخِّرِينَ. اهـ. (بَابُ الْوِتْرِ وَالنَّوَافِلِ)

✍🏼۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم 
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی