📿 *حلال، پاکیزہ اور عمدہ مال سے صدقات کی ادائیگی کی تاکید:*
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں کہ:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ وَمِمَّاۤ اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ ۪ وَلَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ وَلَسْتُمْ بِاٰخِذِیْہِ اِلَّاۤ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْہِ ؕ وَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ.
(سورۃ البقرۃ آیت: 267)
*ترجمہ:* اے ایمان والو۔ جو کچھ تم نے کمایا ہو اور جو پیداوار ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالی ہو اس کی اچھی چیزوں کا ایک حصہ (اللہ کے راستے میں) خرچ کیا کرو، اور یہ نیت نہ رکھو کہ بس ایسی خراب قسم کی چیزیں (اللہ کے نام پر) دیا کرو گے جو (اگر کوئی دوسرا تمہیں دے تو نفرت کے مارے) تم اسے آنکھیں میچے بغیر نہ لے سکو۔ اور یاد رکھو کہ اللہ ایسا بےنیاز ہے کہ ہر قسم کی تعریف اسی کی طرف لوٹتی ہے۔ ( آسان ترجمۂ قرآن)
📿 *ہدایات ونکات:*
1️⃣ مذکورہ آیت کے شانِ نزول اور پسِ منظر سے متعلق کتبِ احادیث میں متعدد روایات موجود ہیں، جن کا حاصل یہ ہے کہ بعض حضرات صدقہ دینے میں خراب یا کم تر مال خرچ کیا کرتے تھے تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں عمدہ مال خرچ کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔
2️⃣ ماقبل کی آیات میں صدقات کا اجر وثواب باطل کردینے والے تین امور کا بیان تھا ، یعنی صدقہ دے کر احسان جتلانا، تکلیف دینا اور ریاکاری کرنا، جبکہ مذکورہ آیت نمبر 267 میں صدقے میں دیے جانے والے مال سے متعلق احکام ذکر کیے جارہے ہیں کہ صدقے میں مال کس نوعیت کا دینا چاہیے؟ واضح رہے کہ اس آیت میں زکوٰۃ اور صدقات سبھی مراد لیے گئے ہیں۔
3️⃣ ’’اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ‘‘ میں ’’طَیِّبٰتِ‘‘ کی ایک تفسیر عمدہ مال سے کی گئی ہے کہ خراب اور نکمّا مال نہیں دینا چاہیے، بلکہ عمدہ مال دینا چاہیے، جبکہ سورۃ آل عمران آیت نمبر 92 میں عمدہ مال سے بھی بڑھ کر محبوب مال خرچ کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد ہے کہ: ’’لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَيْءٍ فَإِنَّ اللهَ بِهٖ عَلِيْمٌ‘‘ (کہ: تم نیکی کے مقام تک اُس وقت تک ہرگز نہیں پہنچو گے جب تک اُن چیزوں میں سے (اللہ کے لیے) خرچ نہ کرو جو تمہیں محبوب ہیں۔ اور جو کچھ بھی تم خرچ کرو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔) جبکہ اس کی دوسری تفسیر حلال مال سے کی گئی ہے کہ حرام مال دینے سے اجتناب کرنا چاہیے، البتہ ان دونوں تفسیروں کو ملا کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مال پوری طرح عمدہ تبھی بن سکتا ہے جب وہ حلال بھی ہو اور عمدہ بھی ہو۔ واضح رہے کہ صدقہ حلال مال ہی قبول ہوسکتا ہے یعنی صدقے کے فضائل اور اجر وثواب حلال مال سے صدقہ دینے ہی سے حاصل ہوسکتے ہیں۔ جبکہ حرام مال سے دیا گیا صدقہ قبول نہیں ہوتا۔ چنانچہ حدیث شریف میں اس کا ذکر آتا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’طہارت کے بغیر نماز درست نہیں ہوتی، اور حرام مال سے صدقہ قبول نہیں ہوتا۔‘‘
1- عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: «لَا تُقْبَلُ صَلَاةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ وَلَا صَدَقَةٌ مِّنْ غُلُوْلٍ». (سنن الترمذي: أَبْوَابُ الطَّهَارَةِ، بَابُ مَا جَاءَ لَا تُقْبَلُ صَلَاةٌ بِغَيْرِ طُهُورٍ)
4️⃣ ’’مَا کَسَبْتُمْ‘‘ یعنی جو کچھ تم نے کمایا۔ اس سے اس طرف بھی اشارہ ہے کہ مالِ تجارت میں بھی زکوٰۃ فرض ہوتی ہے یعنی یہ بھی مالِ زکوٰۃ ہے۔
5️⃣ ’’مِمَّاۤ اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ‘‘ اس میں عشر کا ذکر ہے کہ زمین کی پیداوار یعنی زرعی پیداوار میں عشر واجب ہے، جس کا واضح حکم سورۃ الانعام کی آیت نمبر 141 میں مذکور ہے کہ: ’’وَاٰتُوْا حَقَّهٗ يَوْمَ حَصَادِهٖ‘‘ (یعنی جب ان کی کٹائی کا دن آئے تو اللہ کا حق ادا کرو۔) جبکہ بعض حضرات کے نزدیک زیرِ نظر آیت میں زمین میں مدفون خزانے اور دفینے بھی مراد ہیں کہ ان میں سے خمس یعنی پانچواں حصہ ادا کیا جائے گا جس کی تفصیل اہلِ علم سے معلوم کی جاسکتی ہے۔
6️⃣ ’’وَلَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ وَلَسْتُمْ بِاٰخِذِیْہِ اِلَّاۤ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْہِ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اپنے مال میں سے خراب، ردی اور کم تر مال صدقے میں خرچ نہ کیا کرو، حالانکہ اگر ایسا خراب اور ردی مال تمہیں خود لینا پڑ جائے کہ کسی پر تمہارا کوئی حق ہو اور وہ تمہیں ایسا مال دینا چاہے یا کوئی تمہیں ایسا مال ہدیہ وغیرہ میں دینا چاہے تو تم اسے لینا بھی گوارہ نہ کرو، لیکن مجبوری میں چشم پوشی اور رعایت کرتے ہوئے لے لو گے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ جس چیز کو خود اپنے لیے پسند نہیں کرتے ہو اس کو اللہ کی راہ میں دینے کی کیسے جرأت کرلیتے ہو؟! اس لیے صحیح، عمدہ اور اعلیٰ مال خرچ کرو۔ واضح رہے کہ جس شخص کے پاس صرف کم تر اور نکما مال ہی ہو تو اس کی طرف سے تو وہ بھی قبول ہے۔
7️⃣ ’’وَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ‘‘ اللہ تعالیٰ غنی اور بے نیاز ہے کہ اسے تمہارے مال وصدقات کی ضرورت نہیں، بلکہ اس میں تمہارا ہی نفع ہے، اور وہ حمید ہے کہ اپنی ذات وصفات کی وجہ سے بذات خود قابل تعریف ہے، اسے تمہاری اور حاجت مندوں کی تعریف کی بھی ضرورت نہیں۔
✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی