🕌🛡️⚔️⭐معرکہٴ حق و باطل ⭐⚔️🛡️🕌🌴حصہ سیزدہم 🌴
تذکرہ: امامِ عالی مقام ، نواسۂ رسول ، حضرت حسین ابن علی و اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم
🕌⭐🌴شہادت ِ حضرت علی اکبر 🌴⭐🕌
✍🏻 حماد حسن خان
☼الکمونیا ⲯ﹍︿﹍میاں شاہد﹍︿﹍ⲯآئی ٹی درسگاہ☼
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جب اہل ِ بیت نبوت کے افراد کے علاوہ باقی افراد ایک ایک کر کے شہادت کا جام نوش کر گئے تو بنی ِ ہاشم اور خاندان ِ نبوت میں سے سب سے پہلے امام ِ عالی مقام کے سامنے آپ کے لخت ِ جگر، نور ِ نظر ،شبیہِ پیغمبر ﷺحضرت علی اکبرکھڑے ہوئے۔اور میدان ِ جنگ میں جانے کی اجازت طلب کی۔
آپ نے ایک محبت بھری نگاہ اپنے فرزند پہ ڈا لی اور فرمایا:
بیٹے میں تمہیں کس بات کی اجازت دوں ۔کیا تیروں سے چھلنی ہونے اور تلواروں سے کٹنے کی اجازت دوں ۔کیا میں تمہیں خاک و خون میں غلطاں ہونے کی اجازت دوں ۔بیٹے تم نہ جاؤ۔میں جاتا ہوں کہ یہ لوگ میرے خون کے پیاسے ہیں۔مجھے شہید کرنے کے بعد پھر یہ کسی کو کچھ نہیں کہیں گے۔
علی اکبر نے عرض کیا بابا جان !میں آپ کے بعد زندہ رہنا نہیں چاہتا۔بہشتِ بریں میں نانا جان ﷺ کے پاس پہنچا دیں ۔
لاڈلا بیٹا جس کی کبھی کوئی خواہش ایسی نہ تھی جو پوری نہ کی ہو۔مگر آج تو یہی گردن کٹانے اور خاک و خون میں لوٹنے کی اجازت طلب کر رہا ہے۔اجازت دوں تو کس طرح؟اور نہ دوں تو کیسے روکوں ؟
جب بیٹے کا اصرار بڑھا تو امامِ عالی مقام کو چار و ناچار اجازت دینی ہی پڑی۔
حضرت علی اکبر میدانِ جنگ میں جانے کے لیے تیار ہو ئے تو امام نے خود اپنے بیٹے کو گھوڑے پر سوار کیا۔ اسلحہ اپنے دستِ مبارک سے لگایافولادی ٹوپی اپنے ہاتھ سے سر پر رکھی۔کمر پر پٹکا باندھا۔ تلوارحمائل کی ۔اور نیزہ اپنے دستِ اقدس سے انکے ہاتھ میں دیا۔بیٹے نے اپنے بابا جان اور خیمے میں کھڑی ہوئی دکھی بیبیوں کو سلام کیا اور میدانِ جنگ کی طرف چل پڑے۔
18 سال کا یہ حسین جوان جس کا چہرہٴ زیباآقائے دو عا لم ﷺ کے جمال ِ جہاں آرا کا خطبہ پڑھ رہا تھا۔اور جس کا روئے تاباں حبیبِ کبریا ﷺ کے جلو ئہ زیبا کی یاد دلا رہا تھامیدانِ کارزار میں پہنچ گیا۔اسد اللہی شیر نے دشمنوں کی صف کی طرف نظر کی۔ذوالفقار ِ حیدری چمکائی اور یہ رجز پڑھنا شروع کیا :
اے یزیدجان لو کہ میں علی اکبر ہوں ۔
میرے باپ کا نام حسین ہے جو فاتح خیبر علی حیدر کے نورِنظر ہیں۔ اور کان کھول کر سن لو کہ ہم اہل ِ بیت ِ رسالت ہیں ۔اللہ کے پیارے رسول ﷺ سے ساری دنیا میں ہم سے زیادہ کوئی قریبی نہیں۔خدا کی قسم (ابنِ زیاد) ہم پر حکومت نہ کر سکے گا۔تم دیکھو گے کہ آج میں اپنے باپ کا کیسے دفاع کرتا ہوں ۔شہزادہٴ عالی وقار نے جس وقت یہ رجز پڑھی تو لگا کہ میدانِ کربلا کا ایک ایک چپہ اور ریگستانِ کوفہ کا ایک ایک ذرہ کانپ گیا۔
پر یزیدی فوج کے دل پتھر سے بھی زیادہ سخت تھے ۔انہوں نے کوئی اثر نہ لیا۔
حضرت علی اکبر نے پھر فرمایا: اے ظالمو!اگر تم اولاد ِ رسول ﷺ کے خون کے پیاسے ہو تو جو شخص تم میں سے بہادر ہے اسے میدان میں بھیجو۔اور اسد اللہ دیکھنا ہو تو میرے مقابلے میں آؤ۔مگر کس کی ہمت تھی کہ آگے بڑھتا اور کس کے دل میں تاب تھی کہ تنہا اس شیر کے آگے آتا۔
جب بار بار کی للکار کے باوجود کوئی مقابلے میں نہیں آیا تو آپ نے خود ہی آگے بڑھ کے دشمنوں پر حملہ کر دیا۔جس طرف کا رخ کیا یزیدی لشکر پھٹتا چلا گیا ۔اور ایک وار میں کئی کئی نوجوانوں کو گرا دیا۔کبھی لشکر کے میمنہ پر لپکے تو اسے منتشر کر دیا۔اور کبھی پلٹ کر فوج کے میسرہ پر جھپٹتے تو اس کی صفوں کو درہم برہم کر دیا۔اور کبھی قلب ِ لشکر میں غوطہ لگا کے شمشیر زنی کے وہ جوہر دکھائے کہ کشتوں کے پشتے لگا دئے۔
ہر طرف شور برپا ہو گیا۔بڑے بڑے سورما ہمت ہار گئے۔اور بڑے بڑے بہادروں کے حوصلے پست ہو گئے۔ہاشمی شیر کا حملہ نہ تھا بلکہ قہر ِ الہٰی کا ایک عذاب ِعظیم تھا جو یزیدیوں پر نازل ہو گیا تھا۔اگرچہ جسم پر بیسیوں زخم لگے مگر لڑائی سے ہاتھ نہ روکا ۔
لڑتے لڑتے جب پیاس کی شدت نے نڈھال کر دیا تو پانی کا ایک گھونٹ بھر کر دوبارہ تازہ دم ہونے لیے آئے۔
اور عرض کیا ابا جان! اگر پانی کا ایک گھونٹ مل جائے تو پھر تازہ دم ہو کر حملہ کروں ۔حضرت امام ِ حسین نے فرمایا کہ بیٹے جان !پانی تو میسر نہیں ہے لیکن میں اپنی سوکھی ہوئی زبان تیرے منہ میں ڈال سکتا ہوں۔حضرت علی اکبر نے امامِ حسین کی سوکھی ہوئی زبان چوسی اور پھر میدان میں جا پہنچے۔اور پکارا،ہے کوئی جو میرے سامنے آئے؟ عمر بن سعد نے طارق بن شیث پہلوان سے کہا بڑے شرم کی بات ہے کہ ایک نوجوان اکیلا میدان میں ہے اور اور تم ہزاروں کی تعداد میں ہو۔
اس نے پہلی دفعہ للکارا اور جب تم میں سے کوئی نہ گیا تو وہ خود آگے بڑھ کے آیا اور حملہ کیا۔تمہاری صفوں کو درہم برہم کر دیا ۔بھوکا ہے پیاسا ہے اور دھوپ میں لڑتے لڑتے تھک گیا ہے۔اس حال میں بھی وہ تم کو للکار رہا ہے۔مگر تم میں سے کوئی اس کے مقابلے کی طاقت نہیں رکھتا۔شرم کرو اپنے دعوی ٰشجاعت پر۔اگر غیرت ہے تو میدان میں پہنچ کر اس کا مقابلہ کر سر کاٹ کے لے آ۔
تم نے یہ کام سر انجام دیا تو میں وعدہ کرتا ہوں عبد اللہ بن زیاد سے تمہیں موصل کی گورنری لے دوں گا۔طارق بدبخت گورنری کے لالچ میں فرزند ِ رسول ﷺ کا خون بہانے کو دوڑ پڑا۔اور سامنے پہنچتے ہی شبیہ ِ پیغمر ﷺ پر نیزے سے حملہ کر دیا۔مگر ہاشمی شیر نے کمال ِ ہنر مندی سے اس کے وار کو بیکار کرتے ہوئے اسے سینے پر نیزے سے ایسے وار کیا کہ نیزہ اس کی پیٹ سے نکل گیا۔
اور وہ گھوڑے سے گر گیا۔شہزادے نے اس کو روند ڈالا۔
طارق کے بیٹے عمرو بن طارق نے جب اپنے باپ کو اس طرح قتل ہوتے دیکھا تو وہ غصے میں آگ بگولا ہو گیا۔اور دوڑ کر علی اکبر پر حملہ کر دیا۔شہزادے نے ایک ہی وار اس کا کام تمام کر دیا۔اب طارق کا دوسرا بیٹا طلحہ بن طارق اپنے باپ اور بھائی کا بدلہ لینے کے لیے شہزادے پر ٹوٹ پڑا۔
مگر علی اکبر نے جلد ہی اسے بھی موت کے گھاٹ اتار دیا۔شہزادے کی ہیبت سے پورا یزیدی لشکر تھرا گیا۔ابن ِ سعد نے ایک مشہور بہادر مصراع بن غالب کو مقابلے کے لیے بھیجا۔وہ نیزہ تان کر حملہ کرنا ہی چاہتا تھا کہ آپ نے اس کے نیزے کو تلوار سے قلم کر دیا۔اور پھر اس کے سر پر ایسی تلوار ماری کہ وہ ٹکڑے ہو کر زمین پر گر پڑا ۔
اب کسی کی ہمت نہ تھی کہ وہ ہاشمی شیر کے مقابلے میں آتا۔
آخر ابنِ سعد نے محکم بن طفیل کو ہزار سواروں کے ساتھ ایک بار حملہ کرنے کے لیے بھیجا۔ان بد بختوں نے آپ کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔اور حملہ کرنا شروع کر دیا۔آپ بھی برابر جوابی حملہ کرتے رہے۔مگر نیزہ اور تلواروں کی لگاتار ضربوں سے آپ کا تنِ نازنین زخموں سے چور ہو گیا۔ایک نیزہ آپ کے سینہِ اقدس میں پیوست ہو گیا تھا۔حضرت علی اکبر نے گھوڑے کی زین سے گرتے ہوئے آواز دی: ابا جان! مجھے سنبھالیں ۔
حضرت امامِ حسین بے ساختہ دوڑ پڑے۔اپنے پیارے بیٹے کے پاس پہنچے تو علی اکبر نے عجیب انداز میں باپ کو تکتے ہوئے عر ض کی: ابا جان! اگر آپ یہ نیزے کا پھل جسم سے نکال دیں تو میں ایک بار پھر میدان میں جانے کو تیار ہوں۔آپ کا بیٹا کثرت سے زخم کھائے ہونے کے باوجود ہمت ہارنے والا نہیں۔حضرت امامِ حسین نے اپنے جوان بیٹے جو کہ حسن و جمال اور رعنائی و زیبائی کا پیکر ہیں...کو اپنی گود میں لے لیا ۔
دیکھا تونازوں پلا بیٹا سر سے پاؤں تک زخموں سے چور ہے۔حضرت امامِ حسین نے ہمت کر کے نیزے کا پھل علی اکبر کے جسم سے نکالا تو خون کا فوارہ اُبل پڑا اور لاڈلے بیٹے کی روح باپ کے سامنے ہی قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔ (انا للہ وا نا الیہ راجعون)
اس واقعہ کے وقت امامِ عالی مقام کی عمر شریف چھپن برس پانچ ماہ اور پانچ دن تھی۔اس وقت تک آپ کے سر اور ریش مبارک کا ایک بھی بال سفید نہ تھا۔اپنے ہاتھوں جوان بیٹے کی ایسی پر درد شہادت دیکھنا اس قدر الم ناک ثابت ہوا کہ میدانِ جنگ سے خیموں تک لاش اٹھا کر لانے کے اس مختصر وقفے میں آپ کے سر اور ریش مبارک کے بال سفید ہو چکے تھے۔
شہادت ِ حضرت قاسم
ہاشمی خاندان کے ایک مہکتے ہوئے پھول حضرت قاسم جو حضرت حسن کے فرزند ہیں۔ ان کی عمر انیس سال ہے۔اور ان کی شادی کے لیے رشتہ حضرت امامِ حسین کی صاحب زادی حضرت بی بی سکینہ سے طے ہو چکا تھا۔وہ آپ کی خدمت میں کھڑے دست بدست راہِ حق میں اپنی جان قربان کرنے کی اجازت طلب کر رہے تھے۔
امامِ حسین نے فرمایا:
بیٹاتم میرے بھائی حسنِ مجتٰبی کی یادگار ہو۔میں کس طرح تمہیں تیروں سے چھلنی ہونے اور تلواروں سے کٹنے کی اجازت دے دوں؟عرض کیا چچا جان مجھے دشمنوں سے لڑنے کی اجازت ضرور دیجئیے ۔اور مجھے اپنے اوپر قربان ہونے کی سعادت سے محروم نہ کیجئیے۔جب حضرت قاسم نے بہت اصرار کیا تو امام ِ پاک نے روتے ہوئے انہیں اپنے سینے سے لگایا اور رخصت کر دیا۔
دشمن کا ایک سپاہی حمید بن مسلم یزیدی لشکر میں تھا ۔اس کا بیان ہے کہ جب حضرت قاسم میدان ِ جنگ میں آئے تو معلوم ہوا کہ جیسے چاند کا ایک ٹکڑا سامنے نمودار ہو گیا ۔آپ کے جسم پر زرہ بھی نہ تھی بلکہ صرف ایک پیراہن پہنے ہوئے شوق ِ شہادت کے جوش میں میدان میں آ گئے۔اور یزیدی لشکر سے فرمایا:
”اے دین کے دشمنو!میں قاسم بن حسن بن علی ہوں ۔
جسے میرے مقابلے میں بھیجنا ہے بھیجو“
عمر بن سعد نے ملک شام کے ایک نامی گرامی پہلون ارزق سے کہا تم اس کے مقابلے میں جاؤ۔اس نے کہا کہ میں ہرگز نہیں جا سکتاکہ بچے کے مقابلے میں جانا ہماری توہین ہے۔ابنِ سعد نے کہا کہ تم اسے بچہ نہ جانو۔یہ حسن کا بیٹا اور فاتح ِ خیبر کا پوتا ہے۔ا س کا مقابلہ آسان نہیں ہے۔اس نے کہا کچھ بھی ہو میں ایسے بچے کے مقابلے میں نہیں جا سکتا۔
البتہ میرے یہاں چار بیٹے موجود ہیں میں ان میں سے ایک کو بھیج دیتا ہوں۔ابھی ایک منٹ میں اس کا سر کاٹ کر لے آئیں گے۔ارز ق کا بڑا بیٹا زہر میں بجھی ہوئی قیمتی تلوار چمکاتا ہوا اور بادل کی طرح غراتا ہوا میدان میں آیا اور پہنچتے ہی حضرت قاسم پر وار کیا۔آپ نے اس کے وار سے بچ کے ایسی تلوار ماری کہ اس کی تلوار کٹ گئی۔اب ارزق کا دوسرا بیٹا اپنے بھائی کو خاک و خون میں تڑپتا دیکھ کر غصے میں بھرا ہوا سامنے آیا۔
آپ نے پہلے ہی وار میں نیزہ مار کر اسے بھی جہنم میں پہنچا دیا۔اب تیسرا بھائی غیض و غضب میں بھرا ہوا آگے بڑھا اور گالیاں بکنے لگا۔آپ نے فرمایاہم گالیوں کا جواب گالیوں سے نہیں دیتے کہ یہ اہل ِ نبوت کی شان کے خلاف ہے۔البتہ ہم تجھے تیرے بھائیوں کے پاس ابھی جہنم میں پہنچا دیتے ہیں۔یہ کہتے ہوئے آپ نے اسے بھی کھیرے کی طرح کاٹ کر دو ٹکڑے کر دیا۔
اب ارزق کا چوتھا بیٹا شیر کی طرح غراتا ہوا حضرت قاسم پر حملہ آور ہوا۔آپ نے اس کے وار کو بیکار کر دیا۔اور اس کے کندھے پر تلوار کا ایسا وار کیا کہ وہ منہ کے بل زمین پر آ گرا اور پھر وہ پوری طاقت کے ساتھ اٹھنا ہی چاہتا تھا کہ آپ نے اس کے سر کو جسم سے الگ کر دیا۔
جب ہاشمی بہادر نے صرف چند منٹوں میں ارزق کے چاروں بیٹوں کو موت کے گھاٹ اتار کے اس کے سارے غرور کو خاک میں ملا دیا۔
تو وہ غصے سے کانپنے لگا اور جن کے مقابلے میںآ نا وہ اپنی توہین سمجھتا تھا اب ان سے لڑنے کے لیے بیقرار ہو گیا۔ہاتھی کی طرح چنگھاڑا اور شیر کی طرح دھاڑتا ہوا میدان میں آکر حضرت قاسم کو للکاراکہ لڑکے تیار ہو جاؤ موت تمہارے سر پر آ گئی ہے۔آپ نے فرمایاارزق ہوش کا دعویٰ کر تو اوروں کے لیے دہشت کا پہاڑ ہو گا۔ابھی تو نے ہاشمی بہادروں کو نہیں دیکھا ہے۔
ہماری رگوں میں شیرِ خدا کا خون ہے۔تو ہمارے نزدیک مچھر اور مکھی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ارزق یہ طعنہ سن کر اور بھی آگ بگولا ہو گیا۔اور حضرت قاسم پر نیزے سے حملہ کیا ۔آپ نے اس کے وار کو بیکار کر دیا۔پھر آپ نے بھی نیزے سے وار کیا جو خالی گیا۔اس طرح دونوں طرف سے کچھ دیر نیزہ بازی ہوئی۔اس کے بعد ارزق نے تلوار کھینچی تو آپ نے بھی تلوار نکال لی۔
تو اس نے جب آپ کے ہاتھ میں اپنے بیٹے کی تلوار دیکھی تو کہا کہ یہ تلوار تو ہمارے لڑکے کی ہے تمہارے پاس کہاں سے آ گئی ؟ آپ نے ہنس کر فرمایا کہ تیرا بیٹا مجھے یاد گار کے طور پر یہ تلوار اس لیے دے گیا ہے تاکہ میں تجھے اسی سے موت کے گھاٹ اتار کر تیرے بیٹوں کے پاس پہنچا دوں۔یہ سن کر ارزق غصے سے بپھر گیا۔ اور حضرت قاسم پر حملہ کرنا ہی چاہتا تھا کہ آپ نے فرمایا ارزق ہم تو تجھے نہایت تجربہ کار بہادر سمجھتے تھے لیکن تو نہایت اناڑی ہے کہ گھوڑے کی زین کسنے کا بھی سلیقہ نہیں رکھتا۔
آپ کے اس طرح فرمانے پر جب وہ جھک کر اپنے گھوڑے کی زین دیکھنے لگا تو اسی وقت آپ نے تلوار کا ایسا بھرپور وار کیا کہ وہ دو ٹکڑے ہو کر زمین پر آ گرا۔
حضرت قاسم ، ارزق کے گھوڑے پر سوار ہو گئے اور خیمے کی طرف آ کر حضرت امامِ حسین کی خدمت میں عرض کیا...پیاس ...پیاس... چچا جان! اگر تھوڑا سا پانی پینے کو مل جائے تو ابھی ہم ان سب کو موت کے گھاٹ اتاردیں۔
امام ِ عالی مقام نے فرمایا :بیٹا تھوڑی دیر اور صبر کرو۔ عنقریب تم ناناجانﷺ کے مبارک ہاتھوں سے جامِ کوثر پی کر سیراب ہو جاؤ گے۔اس کے بعد تمہیں کبھی پیاس نہیں ستائے گی۔
حضرت قاسم پھر میدان کی طرف پلٹ پڑے۔ابن سعد نے کہا کہ اس نوجوان نے ہمارے کئی نامی گرامی پہلوانوں کو قتل کر دیا لہذا اب اس کے مقابلے میں تنہا نہ جاؤ۔
اسے چاروں طرف سے گھیر کے قتل کر دو۔دشمنوں نے آپ کو چاروں طرف سے گھیر لیا ۔اور گھمسان کی لڑائی شروع ہو گئی۔آپ کے جسم پر ستائیس زخم آئے۔آخر میں شیث بن سعد نے آپ کے سینے پر ایسا نیزہ مارا کہ آپ گھوڑے سے گر پڑے اور پکارا کہ اے چچا جان !میری خبر گیری فرمائیے۔امام اپنے بھتیجے کی درد ناک آواز سن کر دوڑ پڑے۔دیکھا کہ جسم ِ نازنین زخموں سے چور ہے ۔
آپ نے ان کا سراپنی گود میں رکھ لیا۔اور چہرئہ انور سے گر د و غبار صاف کرنے لگے۔اتنے میں حضرت قاسم نے آنکھیں کھول دیں ۔اور اپنا سر امام کی گود میں پا کر مسکرائے اور پھر آپ کی روح پرواز کر گئی۔
راوی کہتا ہے کہ جب امام ِ عالی مقام نے حضرت قاسم کو اٹھاکر لے جا رہے تھے تو آپ کے پاؤں زمین سے رگڑ رہے تھے۔اور مجھے ابھی بھی ان کے پاؤں زمین پر گھسٹتے ہوئے نظر آتے ہیں۔میں نے اس لڑکے کے بارے میں پوچھا تو مجھے بتایا گیا کہ یہ قاسم بن حسن بن علی ہیں۔
عون و محمد کی شہادت
حضرت بی بی زینب نے امام ِ عالی مقام سے درخواست کی کہ میرے دونوں بیٹوں کو بھی میدان میں جانے کی اجازت دیں ۔حضرت امام حسین نے انکار کر دیاکیونکہ ان دونوں کی عمر ابھی نو، د س سال ہی تھی۔پھر حضرت بی بی زینب اور دونوں شہزادوں نے منت کی اور اجازت کی درخواست کی کہ ہمیں اجازت دیں۔
امام ِ عالی مقام نے فرمایا کہ اپنے ارادے سے باز آجاؤ۔اس پر عون و محمد نے التجا کی کہ ہماری کم عمری پر نہ جائیے۔ہماری رگوں میں بھی شیرِخدا کا خون ہے۔ہم بھی میدان ِ جنگ میں لڑ کردشمن کا مقابلہ کریں گے۔حضرت امام ِ حسین نے بچوں کی دلیرانہ گفتگو سن کر حضرت بی بی زینب سے فرمایامیری طرف سے اجازت ہے۔
حضرت بی بی زینب خوش ہو گئیں۔
اور انہوں نے اپنے دونوں بچوں کو نصیحت کی کہ یاد رکھوکہ اگر تم سے پوچھا جائے کہ تم کون ہو تو یہ ہرگز مت کہنا کہ تم زینب کے بیٹے ہو۔ کہنا کہ ہم حضرت امام حسین کے غلام ہیں ۔اور دونوں کو میدانِ جنگ میں روانہ کر دیا۔
جب عمر بن سعد نے دونوں کو دیکھا تو دیکھتے ہی پکارا کہ میں یہ تو جانتا ہوں کہ تم زینب کے بیٹے اور امام حسین کے بھتیجے ہو۔
مگر مجھے تمہاری بھولی صورت دیکھ کے رحم آ گیا ہے۔ادھر آؤ میری طرف آ جاؤ۔یہاں تمہیں پانی بھی اور کھانا بھی ملے گا اور انعام بھی۔عمر بن سعد کی اس بات سے عون و محمدتڑپ اٹھے اور جواب دیاکہ اوہ ظالم !ہم نہ زینب کے بیٹے ہیں نہ حسین کے بھتیجے۔ہم تو امام حسین ؓ کے غلام ہیں۔اور ہم تمہارے لالچ میں آنے والے نہیں۔ہم اللہ کی راہ میں لڑنے کے لیے آئے ہیں۔
اور پھر عون و محمد کے نعروں سے زمین ِکربلا ہل گئی۔عون نے دائیں طرف سے اور محمد نے بائیں طرف سے حملہ کیا ۔ان کی تلواریں چمکیں اور نیزے ہوامیں لہرائے اور دشمن حیران رہ گئے کہ ان دو بچوں نے میدان ِ جنگ میں بہادری کے ایسے جوہر دکھائے جو اپنی مثال آپ ہیں۔عمر بن سعد نے کمسن بچوں کو جب ایسے بہادری سے جنگ کرتے دیکھا تو چلا اٹھاکہ یہ نو دس سال کے بچے جو تین دن کے بھوکے پیاسے ہیں انہیں تم لوگ ابھی تک قتل نہیں کر سکے۔
تو سب نے مل کر تیروں اور تلواروں کی بوچھاڑ کر دی۔چھوٹے بھائی کے سینے میں تیرلگا تو بڑا بھائی جھک کر نکالنے لگا تو دشمن نے تلوار سے وار کر دیا اور دونوں بھائی اکٹھے ہی جام ِ شہادت نوش کر گئے۔
شہادت ِ حضرت ِ عباس علمدار
ٍ اب وہ وقت آ گیا کہ امام ِ عالی مقام کے علمدار حضرت عباس بن علی ،امام پاک سے میدان جنگ میں جانے کی اجازت طلب کر رہے ہیں۔
اور عرض کرتے ہیں کہ: بھائی جان! پیارے بھائی بھانجے تو بھوکے پیاسے جامِ شہادت نوش کر گئے مگر اب ننھے ننھے شیر خوار بچوں کا پیاس سے تڑپنا اور ان کا بلکنا مجھ سے نہیں دیکھا جاتا۔مجھے اجازت دیجیے کہ میں جا کر فرات سے ایک مشکیزہ پانی لے آؤں اور ان پیاسوں کو پلاؤں ۔
امامِ عالی مقام کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں فرمایا:بھائی عباس تم ہی میرے علمدار ہو۔
اگر تم پانی لانے میں شہید ہو گئے تو میرا علم کون اٹھائے گا ؟اور میرے زخم ِ دل پر مرہم کون لگائے گا۔ حضرت عباس نے عرض کیا ،میری جان آپ پر قربان ،مجھے پانی لانے کی اجازت ضرور دیجیے کہ اب ننھے بچوں کی تکلیف میری قوت ِ برداشت سے باہر ہے۔بس اب آخری تمنا یہی ہے کہ ساقیٴ کوثر کے جگر پاروں کو چند گھونٹ پانی پلا کر میں بھی آپ کے لیے قربان ہو کر اپنے بھائیوں کے پاس پہنچ جاؤں ۔
حضرت امام حسین نے جب حضرت عباس کی طرف سے بہت اصرار دیکھا تو انہیں سینے سے لگایا اور اشک بار آنکھوں سے انہیں اجازت دے دی۔
وہ اک مشکیزہ کندھے پہ لٹکاکر گھوڑے پر سوار ہوئے اور فرات کی طرف روانہ ہوئے۔ یزیدی فوج نے جب حضرت عباس کو فرات کی طرف جاتے دیکھا تو روک دیا۔آپ نے فرمایا اے کوفیو!خدائے تعالیٰ سے ڈرواور رسولِ پاک ﷺ سے شرماؤ۔
افسوس صد افسوس کہ تم لوگوں نے بے شمار خطوط بھیج کر نواسہٴ رسول ﷺ کو بلایا۔ اور جب وہ سفر کی مشقتیں اٹھا کر تمہاری زمین پر جلوہ افروز ہوئے تو ان کے ساتھ بے وفائی کی۔دشمنوں سے مل کر ان کے تمام رفقاء اور عزیز و اقارب کو شہید کر دیا۔چھوٹے چھوٹے بچوں کو ایک ایک بوند پانی کے لیے ترسا رہے ہو۔سوچو قیامت کے دن ان کے نانا جان نبیٴ محترم نور ِ مجسم ﷺ کو کیا منہ دکھاؤ گے؟کوفیو نے جواب دیا کہ اگر ساری دنیا بھی پانی ہو جائے تب بھی ہم تمہیں پانی کا ایک قطرہ نہیں لینے دیں گے۔
جب تک حسین یزید کی بیعت نہ کر لیں۔ظالموں کا یہ جواب سن آپ کو جلال آ گیا۔فرمایا:
”حسین سر کٹا سکتے ہیں پر باطل کے سامنے جھک نہیں سکتے“
پھر حضرت عباس شیر کی طرح ان پر جھپٹ پڑے۔اور اپنی تلوار دھواں دھار چلانے لگے۔یہاں تک کہ بہت سے دشمنوں کو موت کی نیند سلاتے ہوئے فرات تک پہنچ گئے۔
پانی کے کنارے والی فوج نے جب آپ کو دیکھا تو آہنی دیوار بن گئے۔مگرشیرِخدا کے شیر مرتے کٹتے اور دشمنوں کی صفوں کو چیرتے پھاڑتے ہوئے آگے بڑھے اور گھوڑے کو فرات میں داخل کر دیا۔مشکیزہ بھرا اور ایک چلو ہاتھ میں لے کر پینا چاہا کہ ننھے بچوں کا پیاس سے بلکنا اور تڑپنا یاد آ گیا۔تو آپ کی عقیدت ِ ایمانی نے یہ گوارہ نہ کیا کہ ساقیٴ کوثر کے دُلارے اور علی و فاطمہ کے جگر پارے تو پیاس میں تڑپیں اور ہم سیراب ہو جائیں۔
آپ نے چلُو کا پانی گرا کر پانی کا بھرا مشکیزہ بائیں کندھے پر لٹکایا اور چل پڑے۔چاروں طرف سے شور ہوا کہ راستہ روک لو۔مشکیزہ چھین لو پانی بہا دو کہ اگر حسین کے خیمے تک پانی پہنچ گیا تو ہمارا ایک بھی سپاہی نہیں بچے گا۔سب کی عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہو جائیں گے۔
حضرت عباس اس کوشش میں رہے کہ کسی طرح اہل ِ بیت ِ نبوت تک یہ پانی پہنچ جائے۔
جب دشمنوں نے آپ کو چاروں طرف سے گھیر لیا تو آپ نے بپھرے ہوئے شیر کی طرح حملہ کرنا شروع کر دیا۔لاشوں پر لاشیں گرنے لگیں۔اور خون کی نالیاں بہنے لگی۔اورشیرِ خدا کے شیر نے ثابت کر دیا کہ میرے بازوؤں میں قوت ِ حیدری اور رگوں میں خونِ علی ہے۔آپ برابر دشمنوں کو مارتے کاٹتے اور چیرتے پھاڑتے ہوئے خیمہٴ حسینی کی طرف بڑھتے چلے جا رہے تھے کہ ایک بدبخت جس کا نام زرارہ تھا نے پیچھے سے دھوکہ دے کر ایسی تلوار چلائی کہ ہاتھ کندھے سے کٹ کر الگ ہو گیا۔
آپ نے فورامشکیزہ داہنے کندھے پر لٹکا لیا ۔اور اسی ہاتھ سے تلوارِ علی چلاتے رہے کہ پھر اچانک نوفل بن ارزق خبیث نے دایاں بازو بھی کاٹ دیا۔آپ نے مشکیزہ دانتوں سے پکڑ لیا۔مگر مشکیزہ کا خیمہٴ حسینی تک پہنچنا شاید اللہ تعالیٰ کو منظور نہیں تھا۔ایک بدبخت کا تیر مشکیزے کے اندر ایسے لگا کہ پار ہو گیا۔اور اس کا سارا پانی بہہ گیا۔
پھر ظالموں نے چاروں طرف سے آپ کو گھیر کر زخموں سے چور چور کردیا۔یہاں تک کہ آپ گھوڑے کی زین سے زمین پر آگئے۔اور فرمایا:اے میرے بھائی جان !میری خبر گیری فرمائیں۔امامِ عالی مقام دوڑ کر تشریف لائے دیکھا تو عباس خون میں نہائے ہو ئے ہیں۔اور عنقریب جام شہادت نوش فرمانے والے ہیں۔شدت ِ غم سے امامِ عالی مقام کی زبان پر یہ کلمات جاری ہوئے کہ اب میری کمر ٹوٹ گئی۔پھر عباس کی لاش خیمے کی طرف اٹھا کر لا رہے تھے کہ انکی روح قفس ِ عنصری سے پرواز کر گئی۔
( انا للہ وا نا الیہ راجعون)
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*