🕌🛡️⚔️⭐معرکہٴ حق و باطل ⭐⚔️🛡️🕌🌴حصہ پانزدہم 🌴


 🕌🛡️⚔️⭐معرکہٴ حق و باطل ⭐⚔️🛡️🕌🌴حصہ پانزدہم 🌴
تذکرہ: امامِ عالی مقام ، نواسۂ رسول ، حضرت حسین ابن علی و اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم
🕌⭐🌴شہادت ِ امامِ حسین ؓ اور خون 🌴⭐🕌
✍🏻 حماد حسن خان
☼الکمونیا ⲯ﹍︿﹍میاں شاہد﹍︿﹍ⲯآئی ٹی درسگاہ☼
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
شہادت ِ امامِ حسین ؓ اور خون
  شہادتِ امامِ حسین  تاریخِ انسانی کا ایک غیر معمولی واقعہ ہے کہ پیغمبرﷺ کے پیروکاروں نے اپنے نبی ﷺ کے نواسے کو بے دردی سے شہید کر کے ان کے سرِ اقدس کو نیزے پر سجایا۔یہی نہیں بلکہ خاندانِ رسول ﷺ کے شہزادوں اور اصحابِ حسین کو بھی اپنے انتقام کا نشانہ بنا کر اُنہیں شہید کر دیا۔
ان کا جرم یہ تھا کہ وہ ایک فاسق اور فاجر کی بیت کر کے دین میں تحریف کرنے کے مرتکب نہیں ہوئے تھے۔انہوں نے اصولوں پر باطل کے ساتھ سمجھوتے سے صاف انکار کر دیا تھا۔انہوں نے آمریت اورملوکیت کے آگے سر تسلیمِ خم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔انہوں نے انسان کے بنیادی حقوق کے غاصبوں کی حکومت کی توثیق کرنے کی بزدلی نہیں دکھائی تھی۔
حسین ابن ِ علی  اور ان کے ۷۲ جانثاروں کے خون سے کربلا کی ریت ہی سرخ نہیں ہوئی بلکہ اس سرخی نے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

محدثین بیان کرتے ہیں کہ نواسئہ رسول ﷺ کی شہادت کے وقت بیت المقدس میں جو پتھر اٹھایا گیا ۔اس کے نیچے سے خون نکلا ۔شہادتِ حسین  کے بعد ملک شام میں بھی جس پتھرکو ہٹایا گیا اس کے نیچے سے خون کا چشمہ ابل پڑا۔
محدثین کا کہنا ہے کہ شہادتِ حسین  پر پہلے آسمان سرخ ہو گیا پھر سیاہ ہو گیا۔
ستارے ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے ۔یوں لگتا تھا جیسے کائنات ٹکرا کر ختم ہو جائے گی۔یوں لگتا تھا جیسے قیامت قائم ہو گئی ہو۔ دنیا پر اندھیرا چھا گیا۔
1 ۔ امام طبرانی نے ابو قبیل سے سند ِ حسین سے روایت کیا ہے کہ جب سیدنا امامِ حسین کو شہید کیا گیا تو سورج کو شدید گرہن لگ گیا ۔حتیٰ کہ دوپہر کے وقت تارے نمودار ہو گئے یہاں تک کہ انہیں اطمینان ہونے لگا کہ رات ہے ۔
2 ۔ امامِ طبرانی نے مجمع الکبیر میں جمیل بن زید سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ جب حضرت امام حسین کو شہید کیا گیا تو آسمان سرخ ہو گیا ۔
3 ۔ عیسی بن حارث الکندی سے مروی ہے کہ جب امامِ حسین کو شہید کر دیا گیا تو ہم سات دن تک ٹھہرے رہے ، جب ہم عصر کی نماز پڑھتے تو ہم دیواروں کے کناروں سے سورج کی طرف دیکھتے تو گویا زرد رنگ کی چادریں محسوس ہوتیں۔
اور ہم ستاروں کی طرف دیکھتے تو ان میں سے بعض، بعض سے ٹکراتے۔
امام طبرانی سیدنا امِ سلمہ  سے روایت کرتے ہیں کہ سیدہ فرماتی ہیں میں نے جنوں کو سنا کہ وہ حسین ابن ِ علی  کے قتل پر نوحہ کر رہے ہیں۔
امام طبرانی نے زہری سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا جب حضرت حسین کو شہید کر دیا گیا تو بیت المقدس کا جو بھی پتھر اٹھایا جائے گا اس کے نیچے سے تازہ خون پایا جائے گا۔
امام طبرانی نے امام زہری سے ایک روایت بھی نقل کی ہے ۔ انہوں نے کہا شہادتِ حسین  کے دن شام میں جو بھی پتھر اٹھایا جاتا تو وہ خون آلود ہوتا ۔
حضرت ابنِ عباس  کی روایت 
کربلا کے المناک واقعہ پر حضور ِ اکرم ﷺ کو جو اذیت اور تکلیف پہنچی اس کا اندازہ حضرت ابنِ عباس کی روایت سے ہوتا ہے۔
آپ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک روز دوپہر کے وقت خواب میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ۔آپ ﷺ کے بال مبارک بکھرے ہوئے گرد آلود ہیں۔دستِ مبارک میں خون سے بھری ہوئی بوتل ہے ۔میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں ،یہ کیا ہے؟آپ نے فرمایا :یہ حسین  اور ان کے اصحاب کا خون ہے جسے میں آج صبح سے جمع کرتا رہا۔مستند کتابوں میں مرکوز ہے کہ جب حضرت عبد اللہ بن عباس  خواب سے بیدار ہوئے تو آپ کی زبان مبارک پر ” انا للّٰہ وا نا الیہ راجعون“ کے الفاظ جاری تھے۔
لوگوں نے پوچھا۔حضرت کیا ہوا؟فرمانے لگے حسین ابنِ علی قتل کر دیے گئے ہیں۔لوگوں نے پوچھا: حضرت آپ کو کیسے پتا چلا تو آپ  نے فرمایا ابھی خواب میں رسول اللہ ﷺ تعزیتی کیفیت میں میرے سامنے تشریف لائے تھے۔آپ ﷺ کے ہاتھ مبارک میں خون سے بھری شیشی تھی۔ آپﷺ فرما رہے تھے۔ اے عباس! میرے بیٹے حسین کو قتل کر دیا گیا ہے۔یہ اس کا اور اس کے رفقاء کا خون ہے۔
حضرت ابنِ عبا س  فرماتے ہیں کہ میں اس تاریخ اور وقت کویاد رکھا۔ جب خبر آئی تو پتا چلا کہ حضرت امامِ حسین اسی وقت شہید کیے گئے تھے۔
حضرت امِ سلمہ کی روایت 
جس وقت حضرت ابنِ عبا س کو خواب میں حضور اکرم ﷺ کی زیارت ہوئی اسی وقت اُم المومنین کو بھی خواب میں نبی ِ پاکﷺ کی زیارت نصیب ہوئی۔
حضرت امِ سلمہ کو ازواجِ مطہرات میں سے یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہیں حضور ِ اکرم ﷺ نے وہ مٹی عطا فرمائی تھی جو حضرت جبرائیلِ امینؓ انہیں ریگزارِ کربلا سے اٹھا کر حضرت امامِ حسین ؓ کے بچپن کے زمانے میں دے گئے تھے۔ اور یہ عرض کر گئے تھے کہ حضور ﷺ یہ اس میدانِ کرب و بلا کی مٹی ہے جس میں آپ ﷺ کی امت کے کچھ بدبخت حسین ابن علی کو آپ ﷺ کے بعد شہید کر دیں گے۔
آپ ﷺ نے امِ سلمہ کو یہ مٹی عنایت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ:
اے امِ سلمہ !جب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو سمجھ لیناکہ میرا بیٹا حسین شہید ہو گیا ہے۔(الخصائص الکبری)
حضرت سلمہ  سے مروی ہے کہ میں اپنی والدہ ام المومنین حضرت امِ سلمہ  سے ملنے کے لیے گئی تو دیکھا کہ زار و قطار رو رہی ہیں۔آپ  پر دکھ و درد کی ایک ناقابلِ بیان کیفیت طاری ہے۔ میں نے عرض کیا ام المومنین !رونے کا سبب کیا ہے۔ آپ فرمانے لگیں کہ ابھی خواب میں رسول اللہ ﷺ اس حالت میں تشریف لائے تھے کہ آپ ﷺ کا سرِانور اور ریشِ مبارک پر مٹی تھی۔میں نے عرض کیا :یا رسول اللہ ﷺ یہ سب کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا ابھی ابھی قتلِ حسینؓ دیکھ کے آیا ہوں۔

ذبحِ اسماعیل ؓ سے ذبحِ حسینتک 
حضرت ابراہیم ؓ نے آتشِ نمرود میں بے خوف و خطرکود کر کلمہٴ حق کی جس پیغمبرانہ روایت کو آگے بڑھانا تھا۔وہ عظیم روایت ذبیح اسماعیل ؓ سے ذبیح حسین ؓ تک تسلیم و رضا اور ایثار و قربانی پر کھڑے رہنے کا اعلیٰ نمونہ دکھاتی ہے۔
حضرت ابراہیم ؓ نے بے خوف و خطر کلمہٴ حق کے لیے آتشِ نمرود میں کود کر نہ صرف مثال قائم کی بلکہ حکمِ الہٰی کی عملًا بجا آوری کے لیے اپنے سعادت مند اور پیارے لختِ جگر کی قربانی کی غرض سے چھری چلا دی۔
آپؓ کی تسلیم و رضا اور قربانی کو اللہ نے قبول کیا اور حضرت اسماعیل ؓ کی زندگی محفوظ رکھی کیوں کہ ان کی نسل ِ پاک سے ہی نبیِ آخرالزماں ﷺ کی ولادت باسعادت ہونی تھی ۔
اللہ سے اس کو (اور ہم نے ایک عظیم قربانی کو اس کا فدیہ قرار دیا۔ القرآن ) کہہ کر حضرت اسماعیل ؓ کے ذبح کو ذبحِ عظیم قرار دے دیا۔

فرزندِ پیغمبر ؓ کی قربانی بعثتِ مصطفی ﷺ کی خاطر موقوف ہوئی۔
حکمتِ خداوندی یہ تھی کہ حضور ﷺ کے بعد چونکہ کوئی نبی نہیں آئے گا۔اس لیے شہادت کے لیے انﷺ کے لختِ جگر کا انتخاب عمل میں آئے گا اور ذبحِ اسماعیل ؓ کو مصطفی ﷺ کے لختِ جگر سیدنا حضرت امامِ حسین ؓ سے ذبحِ عظیم بنا دیں گے۔
غریب و سادہ و رنگین ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسین ؓاور ابتداء ہے اسماعیل ؓ
خاندان ِ نبوت کے شہداء
میدانِ کربلا میں حضرت امامِ حسینؓ کے ساتھیوں میں بہتر آدمی شہید ہوئے،جنہیں اہلِ غاضریہ میں سے بنی اسد کے لوگوں نے دوسرے روز دفن کر دیا۔
خاندان ِ نبوت میں سے جو افراد شہید ہوئے ان کی تفصیل یہ ہے۔
1 ۔ اما مِ عالی مقامحضرت امام حسین کے بھائیوں میں سے
۱۔حضرت جعفر 
۲۔حضر ت عباس  
۳۔حضرت محمد  
۴۔حضرت عثمان  
۵۔
حضرت ابو بکر  
2 ۔ اولاد ِ حسین  میں سے
۱۔حضرت علی اکبر  
۲۔ حضرت عبد اللہ  (علی اصغر )
3 ۔ اولاد ِ حسن  میں سے 
۱۔حضرت عبد اللہ  
۲۔حضرت قاسم  
۳۔
حضرت ابو بکر  
4 ۔ حضرت جعفر  کی اولاد میں سے
۱۔حضرت عون  
۲۔ حضرت محمد  
5 ۔ اولاد ِ عقیل  میں سے 
۱۔حضرت جعفر  
۲۔حضرت عبد اللہ  
۳۔ حضرت عبد الرحمن  
جب کہ حضرت مسلم بن عقیل  اپنے دو بیٹوں کے ساتھ کوفہ میں اس سے پہلے ہی شہید ہو گئے تھے۔
اور ان کے علاوہ اولادِ عقیل  میں سے عبد اللہ بن مسلم بن عقیل  اور محمد بن ابی سعید بن عقیل  بھی شہید ہوئے۔
قافلہٴ حسین کے باقی افراد کی کوفہ روانگی
امامِ عالی مقام کا سرِ مبارک خولی بن یزید کے ہاتھ ابن زیاد کے پاس بھیج دیاگیا۔اور باقی شہیدوں کے سر قیس بن اشعث اور شمر وغیرہ کے ساتھ روانہ کئے گئے۔
خود ابنِ سعد اک روز کے لیے کربلا میں ٹھہر گیااور گیارہ محرم کی صبح کو اپنی فوج کے مقتولین کو جمع کیا ان پر نماز ِ جنازہ پڑھی اور دفن کر دیامگر شہدائے راہ ِ حق کو ایسے ہی بے گوروکفن پڑے رہنے دیا۔پھر پردہ نشیں بیبیاں اور امام زین العابدین  ،جنہوں نے اسی میدان میں رات گزار ی کو قیدی بنا کر کوفہ روانہ کیا۔
یزیدی فوج کے ایک سپاہی کا بیان ہے کہ جب حضرت زینب  اپنے بھائی کی لاش کے پاس سے گزریں تو انتہائی درد کے ساتھ روتے ہوئے اپنے نانا جان ﷺ کو پکارا کہ آپ ﷺ پر اللہ اور ملائکہ مقربین کا درود و سلام ہو ۔
حسین میدان میں پڑے ہوئے ہیں۔خون میں ڈوبے ہوئے، اور تمام اعزاء ٹکڑے ٹکڑے ...آپ ﷺ کی بیٹیاں قید میں جا رہی ہیں۔آپ ﷺ کی اولاد قتل کی گئی۔ہوا ان کی لاشوں پر خاک اڑا رہی ہے۔حضرت زینب  کے ان الفاظ کو سن کر دوست دشمن سب رونے لگے۔پھر جب کربلا سے یزیدی لشکر چلا گیا۔قبیلہ بنی اسد نے جو قریب کے گاؤں غاضریہ میں رہتا تھا۔انہوں نے آ کر حضرت امام ِ حسین اور ان کے ساتھیوں کی لاشوں کو دفن کیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی