🌿 آج کی بات: بدلہ یا معافی؟ ایک دائمی سبق


 

🌿 آج کی بات: بدلہ یا معافی؟ ایک دائمی سبق

انسانی فطرت میں انتقام کا جذبہ ایک فطری احساس ہے۔ جب کوئی ہمیں تکلیف دیتا ہے، ہمیں نقصان پہنچاتا ہے یا ہماری عزت نفس کو مجروح کرتا ہے تو دل و دماغ بدلے کی آگ میں جھلسنے لگتے ہیں۔ لیکن اسلام ہمیں ایک بلند تر راستہ دکھاتا ہے: "معاف کرنا"۔

🔹 قرآن کا پیغام: معافی کی عظمت

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے متعدد بار معاف کرنے والوں کی تعریف کی ہے:

"وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللّٰهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ"
(آل عمران: 134)
"اور (متقی وہ ہیں) جو غصہ پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں، اور اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔"

یہ آیت ہمیں غصہ پی جانے اور معاف کرنے کی وہ منزل دکھاتی ہے جو ایک بندے کو اللہ کے محبوب بندوں کی صف میں شامل کر دیتی ہے۔

معاف کرنا محض ایک اخلاقی برتری نہیں، بلکہ روحانی بلندی کا راستہ ہے۔ انسان جتنا بڑا ہوتا ہے، اتنی ہی زیادہ گنجائش رکھتا ہے کہ دوسروں کی کوتاہیوں کو معاف کر دے۔


🔹 نبی کریم ﷺ کی زندگی: معافی کا کامل نمونہ

نبی کریم ﷺ کی پوری زندگی معاف کرنے کا عملی مظہر تھی۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے دشمنوں کو معاف کیا، حتیٰ کہ اُن مواقع پر بھی جب وہ پوری طاقت سے بدلہ لے سکتے تھے۔

🕋 فتح مکہ کا منظر:

مکہ کے وہ لوگ جنہوں نے 13 سال تک آپ ﷺ کو اور آپ کے ساتھیوں کو اذیت دی، قتل کی سازشیں کیں، ہجرت پر مجبور کیا، جب فتح مکہ کے دن آپ ﷺ کے سامنے لا کھڑے کیے گئے تو آپ نے صرف یہ فرمایا:

"لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ، اذْهَبُوا فَأَنْتُمُ الطُّلَقَاءُ"
"آج تم پر کوئی گرفت نہیں، جاؤ! تم سب آزاد ہو۔"

یہ تاریخ کا وہ لمحہ تھا جہاں نبی ﷺ نے عملی طور پر یہ سکھایا کہ معافی صرف ایک نعرہ نہیں، بلکہ ایک نجات دہندہ عمل ہے۔


🔹 حضرت یوسفؑ اور بھائیوں کی معافی:

حضرت یوسف علیہ السلام کی کہانی معافی کی ایک شاندار مثال ہے۔ اُن کے بھائیوں نے انہیں کنویں میں پھینکا، جدائی، غلامی اور قید کی اذیت دی، لیکن جب سب کچھ یوسفؑ کے ہاتھ میں تھا تو فرمایا:

"لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ ۖ يَغْفِرُ اللّٰهُ لَكُمْ"
(یوسف: 92)
"آج تم پر کوئی ملامت نہیں، اللہ تمہیں معاف کرے۔"

یوسفؑ نے بدلہ لینے کی بجائے دلی معافی کو ترجیح دی، اور یہی عمل ہمیں ایک اعلیٰ اخلاقی سطح تک پہنچاتا ہے۔


🔹 تاریخ کے عظیم لوگ: معافی کی مثالیں

🌟 حضرت علیؓ:

جب جنگ صفین کے موقع پر ان کے دشمن نے ان پر حملہ کیا اور حضرت علیؓ نے اسے زیر کر لیا، تو وہ شخص حضرت علیؓ کے چہرے پر تھوک دیا۔ حضرت علیؓ فوراً پیچھے ہٹ گئے۔ جب اس کی وجہ پوچھی گئی تو فرمایا:

"اب میرا انتقام ذاتی ہو گیا تھا، اور میں اللہ کے لیے لڑ رہا تھا، اپنے نفس کے لیے نہیں۔"

کیا زبردست مقام ہے معافی کا! معاف کرنا صرف ایک عمل نہیں، بلکہ نفس کی شکست ہے۔


🔹 نفسیاتی اور روحانی سکون

بدلہ وقتی طور پر تسکین دیتا ہے، لیکن دل کو دائمی سکون نہیں دیتا۔ معاف کرنا:

  • دل کو بوجھ سے آزاد کرتا ہے

  • روح کو سکون دیتا ہے

  • انسانی تعلقات میں بہتری لاتا ہے

  • اللہ کی رحمت کو دعوت دیتا ہے

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"جو شخص کسی کے ظلم کو برداشت کرے اور معاف کر دے، اللہ اس کی عزت میں اضافہ فرماتا ہے۔"
(مسند احمد)


🔹 روزِ قیامت کا منظر:

ہم سب اللہ کے محتاج ہوں گے کہ وہ ہمیں معاف کرے۔ تو اگر ہم دنیا میں دوسروں کو معاف کرتے رہے، تو اللہ کی "جزا بالمثل" کے قانون کے تحت ہمیں بھی معافی کا دروازہ کھول دیا جائے گا۔


🔹 حدیثِ نبوی ﷺ:

"ارْحَمُوا تُرْحَمُوا، وَاغْفِرُوا يَغْفِرْ اللهُ لَكُمْ"
"رحم کرو، تم پر رحم کیا جائے گا۔ معاف کرو، اللہ تمہیں معاف کرے گا۔"
(مسند احمد)

یہ حدیث ہمیں ایک اٹل اصول سکھاتی ہے: تم جیسا کرو گے، ویسا پاؤ گے۔


✨ نتیجہ:

جب آپ کسی سے بدلہ لیتے ہیں، تو وہ لمحہ وقتی تسکین کا باعث ضرور بنتا ہے، لیکن دل کے اندر وہ نفرت کا بیج چھوڑ جاتا ہے۔ جبکہ جب آپ معاف کرتے ہیں، تو آپ دل، روح اور عقل کو روشنی سے بھر دیتے ہیں۔

معاف کرنا کمزوری نہیں، بلکہ طاقت کی معراج ہے۔


📌 آج کی بات یاد رکھیں:

🔹 بدلہ وقتی تسکین ہے، معافی دائمی سکون!
🔹 بدلہ انتقام ہے، معافی احسان!
🔹 بدلہ نفس کی جیت ہے، معافی روح کی فتح!

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی