🕌🛡️⚔️⭐معرکہٴ حق و باطل ⭐⚔️🛡️🕌🌴حصہ بیست و یک 🌴


 🕌🛡️⚔️⭐معرکہٴ حق و باطل ⭐⚔️🛡️🕌🌴حصہ بیست و یک 🌴

🕌⭐🌴 تذکرہ: امامِ عالی مقام ، نواسۂ رسول ، حضرت حسین ابن علی و اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم⭐🕌
✍🏻 حماد حسن خان
☼الکمونیا ⲯ﹍︿﹍میاں شاہد﹍︿﹍ⲯآئی ٹی درسگاہ☼
☰☲☷ گذشتہ قسط☷☲☰
https://bit.ly/Haq-O-Batil20
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حضرت عمر بن عبدالعزیز وہ ہیں کہ جن کو امام الہدیٰ کہا جاتا ہے۔
خلفائے راشدین میں پانچویں خلیفہ کی حیثیت سے ان کا شمار کیا جاتا ہے۔ اور جن کی عیادت کے لئے حضرت خضر آیا کرتے تھے۔ مگر حضرت عبداللہ بن مبارک جیسے امام وقت جب حضرت امیر معاویہ  کے گھوڑے کی ناک کے گردو غبار کو بھی ان سے افضل بتاتے ہیں تو پھر حضرت امیر معاویہ کی عظمت و رفعت کا کیا کہنا مگر افسوس کہ آج کل وہ لوگ جن کی حقیقت کچھ بھی نہیں وہ حضرت امیر معاویہ سے افضل بنتے ہیں بلکہ ان کی ذات پر لعنت بھی بھیجتے ہیں۔
حضرت علامہ قاضی عیاض لکھتے ہیں کہ علامہ معافی بن عمران نے ایک شخص سے کہا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز حضرت امیر معاویہ سے افضل ہیں یہ سنتے ہی علامہ ابن عمران غضب ناک ہوگئے اور فرمایا:
” نبی کریم ﷺ کے صحابہ پر کسی کو قیاس نہیں کیا جائے گا“۔
حضرت امیر معاویہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ، ان کے سالے، ان کے کاتب وحی، اور خدائے تعالیٰ کی وحی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امین ہیں۔
حضرت علامہ شہاب الدین ” خفاجی نسیم الریاض شرح شفائے امام قاضی ایاز“ میں تحریر فرماتے ہیں کہ ’ ’ جو شخص حضرت امیر معاویہ پر طعن کرے وہ جہنمی کتوں سے ایک کتاہے“۔
صحابہ کرام، محدثین اعظم اور علمائےء اسلام حضرت امیر معاویہ کی تعریف و توصیف بیان کرتے ہیں۔ باوجود یہ کہ وہ حضرت علی کے فضائل و مناقب سے خوب واقف تھے اور ان کے مابین جو واقعات رونما ہوئے انہیں اچھی طرح جانتے تھے۔
رئیس المفسرین حضرت ابن عباس جو اجلہ صحابہ میں سے ہیں اور حضرت علی کے ایسے خاص ہیں کہ ان کے دشمن پر بہت سخت ہیں وہ حضرت امیر معاویہ کی تعریف کرتے ہیں اور ان کو فقیہ و مجتہد مانتے ہیں تو کتنے بد نصیب ہیں وہ لوگ جو جلیل القدر صحابیٴ رسول کے نقش قدم چھوڑ کر شیطان کی اتباع کرتے ہیں یعنی حضرت امیر معاویہ کی شان میں بے جا کلمات بولتے ہیں اور ان کی توہین و تنقید کرتے ہیں۔
اور حضرت علامہ قسطلانی بخاری شریف کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ بڑے مناقب اور بڑی خوبیوں والے ہیں اور حضرت ملا علی قاری لکھتے ہیں:
” حضرت امیر معاویہ بہترین صحابہ میں سے ہیں“۔
اس لئے تمام محدثین کرام حضرت معاویہ اور دیگر اصحاب کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے جس طرح دوسرے صحابہ ناموں کے ساتھ (رضی اللہ تعالیٰ) لکھتے ہیں اسی طرح حضرت امیر معاویہ کے نام کے ساتھ بھی (رضی اللہ تعالیٰ) تحریر فرماتے ہیں:
”حضرت امیر معاویہ، متقی، عادل اور ثقہ ہیں۔
اسی لئے حضرت عبداللہ بن عباس ، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت سائب بن یزید، حضرت نعمان بن بشیر، اور حضرت ابو سعید خدری جیسے فقہاء و مجتہدین صحابہ کرام نے آپ  سے حدیثیں روایت کیں۔ اس طرح حضرت جبیر، حضرت ابو ادریس کھولانی ، حضرت سعید بن مسیب، حضرت خالد بن معدان، حضرت ابو صالح ثمان، حضرت ہمام بن عتبہ اور حضرت قیس بن ابو خازم جیسے جلیل القدر تابعین فقہا اور علماء نے آپ  سے حدیثیں روایت کی ہیں“۔
اگر حضرت امیر معاویہ میں مکرو فریب اور فاسق وفا جر ہوتا جیسے کہ آج کل بعض جاہلوں نے سمجھ رکھا ہے تو یہ بڑے بڑے صحابہ و تابعین حضرات ان سے حدیثیں روایت کرنا ہر گز قبول نہ کرتے۔
بخاری، مسلم، ترمذی، ابو داؤد، نسائی، بیہقی اور طبرانی وغیرہ کے محدثین کرام نے حضرت امیر معاویہ کی روایت کردہ حدیثیں قبول کی ہیں اور اپنی کتابوں میں درج کیں۔
ان میں خاص کر امام بخاری، اور امام مسلم ایسی ہی ہستیاں ہیں کہ اگر کسی راوی میں ذرا بھی عیب پایا جاتا تو اس کی روایت لینے سے انکار کر دیتے تو ان بزرگوں کا حضرت امیر معاویہ کی روایتوں کو قبول کر لینا بھی بیبانگ دہل اعلان کر رہا ہے کہ ان سب کے نزدیک حضرت امیر معاویہ متقی، عادل، ثقہ اور قابل روایت ہیں۔
حضرت علی سے اختلاف کے سبب مرتبہ عدالت سے ساکت نہیں ہیں۔
ورنہ یہ حضرات ان کی روایتیں ہرگز قبول نہ فرماتے۔ حضرت عمر فاروق نے حضرت امیر معاویہ کو دمشق کا حاکم مقرر کیا اور معزول نہ فرمایا جبکہ آپ حاکموں کے حالات پر کڑی نگاہ رکھتے تھے اور ذرا سی لغزش پر معزول فرما دیتے تھے۔ جیسے کہ معمولی شکایت پر حضرت خالد بن ولید جیسی بزرگ ہستی کو معزول فرمادیا۔ تو حضرت عمر جیسے سخت گیر آدمی کا حضرت امیر معاویہ کو دمشق کا حاکم مقرر فرمانا اور اپنی ظاہری حیات کے آخری لمحات تک اس اہم عہدے پر انہیں برقرار رکھنا حضرت امیر معاویہ کی عظمت و رفعت اور ان کی امانت و دیانت کا کھلم کھلا اقرار اور اعلان ہے۔
حضرت امام حسن نے ۶ ماہ امور خلافت انجام دینے کے بعد حضرت امیر معاویہ کو خلافت سپرد کردی اور ان کے ہاتھ پر بیعت کر لی پھر ان کے سالانہ وظائف اور نذرانے قبول فرماتے۔
قسم ہے وحدہ لا شریک کی اگر امیر معاویہ باطل پرست ہوتے تو حضرت امام حسن سر کٹا دیتے مگر ان کے ہاتھ میں ہاتھ نہ دیتے۔
اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت امام حسن کے اس فعل مبارک کی ان الفاظ میں تعریف فرمائی:
” میرا بیٹا سردار ہے امید ہے کہ اللہ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح کرادے گا“۔
اب اگر کوئی بد بخت حضرت امیر معاویہ کو نا اہل قرار دے تو حضرت امام حسن پر الزام آجائے گا کہ آپ  نے نا اہل کو خلافت کیوں سپرد کی اور امت کی بھاگ دوڑ ان کے ہاتھ میں کیوں دی؟ جب کہ یہ سپردگی قلت و ذلت کی وجہ سے نہیں تھی اس لئے کہ ۴۰۰۰۰ سپاہی جان قربان کرنے کی بیعت آپ  کے ہاتھ پر کر چکے تھے۔
 *ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::اگلی قسط :::::::::::::::>
https://bit.ly/Haq-O-Batil22

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی