🕌🛡️⚔️⭐معرکہٴ حق و باطل ⭐⚔️🛡️🕌🌴حصہ نوزدہ🌴


 🕌🛡️⚔️⭐معرکہٴ حق و باطل ⭐⚔️🛡️🕌🌴حصہ نوزدہ🌴

تذکرہ: امامِ عالی مقام ، نواسۂ رسول ، حضرت حسین ابن علی و اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم
🕌⭐🌴 مرحلہٴ صبر کے بعد مرحلہٴ توکل🌴⭐🕌
✍🏻 حماد حسن خان
☼الکمونیا ⲯ﹍︿﹍میاں شاہد﹍︿﹍ⲯآئی ٹی درسگاہ☼
☰☲☷ گذشتہ قسط☷☲☰
https://bit.ly/Haq-O-Batil18
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
# مرحلہٴ صبر کے بعد مرحلہٴ توکل :
جب انسان صبر کے مرحلے سے آگے بڑھتا ہے تو ” مقام ِ توکل “ میں داخل ہو جاتا ہے۔
شیخ ابو علی الرود باری  نے توکل کے تین مدارج بیان کیے ہیں۔
 ۱۔ پہلا درجہ عطا پر شکر اور منع پر صبر
۲۔
دوسرا درجہ منع اور عطا کا ایک ہو جانا 
۳۔ تیسرا درجہ منع پر شکر کا محبوب ہو جانا 
 ۱۔ پہلادرجہ : عطا پر شکر اور منع پر صبر 
صبر کی منزل طے کرنے کے بعد توکل کا جو درجہ شروع ہوتا ہے وہ ” عطا کیے جانے پر شکر اور رد کیے جانے پر صبر “ 
یعنی جب بندے کو نعمت ملے تو بندہ شکر بجا لائے اور نعمت چھن جانے پر صبر کرے۔
۲۔ دوسرا درجہ : منع اور عطا ایک ہو جانا 
توکل کا دوسرا درجہ ہے کہ بندہ اس طرح ہو جائے یعنی کہ منع اور عطا اس کے نزدیک ایک ہو جائیں ۔توکل کے اس درجے میں منع اور عطا دونوں باتیں اس بندے کے لیے برابر ہو جاتی ہیں۔
نوٹ: پہلے درجے میں ملنے اور چھن جانے میں فرق تھا کہ بندہ ملنے پر تو اللہ کا شکر ادا کرتا تھا مگر نعمت کے چھن جانے پر صبر کرتا تھا۔
مگر توکل کے اس درجے میں بندہ دونوں صورتوں میں شکر ادا کرتا ہے۔کوئی نعمت ملے بھی تو شکر ادا کرتا ہے اور اگر کوئی نعمت چھن جائے تو بھی شکر ہی ادا کرتا ہے۔
 ۳۔ تیسرا درجہ: منع پر شکر کا محبوب ہو جانا 
توکل کا تیسرا درجہ ہے کہ بندے کے لیے کسی نعمت کے چھن جانے پر شکر کرنا محبوب ہو جانا ۔
جب کوئی نعمت چھن جاتی ہے اور بندہ سوچتا ہے کہ محبوب اس چیز کے چھن جانے پر راضی ہے۔ تو یہ تصور کر کے وہ جھوم جھوم اٹھتا ہے۔اور اس نعمت کے چھن جانے پر اسے وہ لذت اور لطف آتا ہے کہ جو کسی نعمت کے عطا ہونے پر نہیں آتا ۔اللہ اپنے بندوں کی آزمائش کرتا ہے۔ایک تو کبھی عطا کر کے اور دوسرا کبھی چھین کے۔
دوسرے طریقے کے ذریعے اللہ اپنے خاص بندوں کی آزمائش کرتا ہے بندہ جب سوچتا ہے کہ اللہ نے مجھے ایک بڑی آزمائش کے لیے منتخب کیا ہے تو یہ سوچ کر اسے جو مزہ اور کیف و سرور حاصل ہوتا ہے وہ اس خوشی اور مسرت سے کہیں بڑھ کے ہوتا ہے۔
جو کسی نعمت کے عطا کیے جانے پر ہوتا ہے۔اس لیے بندے کو نعمت چھن جانے پر اللہ کا شکر اد اکرنا زیادہ محبوب ہو جاتا ہے۔
# ایک حکایت:
توکل کی یہ کیفیت کہ جہاں چھن جانے پر زیادہ لطف اور سرور آتا ہے۔اس سے متعلق یہ حکایت بیان کی جاتی ہے کہ ایک دفعہ مجنوں کو خبر ملی کہ لیلیٰ بیمار ہے اور طبیبوں نے اس کی صحت یابی کے لیے تازہ خون کی فراہمی کی شرط کو لازمی قرار دیا ہے۔
تو مجنوں وہاں پہنچا اور مکمل صحت یابی تک ہر روز وہ اپنا تازہ خون لیلیٰ کو دیتا رہا ۔لیلیٰ نے صحت یابی کے بعد بطور شکرانہ خیرات کرنے کا فیصلہ کیا۔کھانا تیار کر کے اعلان کیا کہ شہر کے فقراء مساکین اور درویش آ کر کھانا کھا لیں ۔مجنوں بھی آگیا۔جس نے جان پر کھیل کر لیلیٰ کی صحت یابی میں حصہ لیا ۔مجنوں بھی اپنا کاسہ لے کر لائن میں آگیا۔
لیلیٰ سب کو باری باری دیتی جا رہی مگر جب مجنوں کی باری آئی تو اس نے خیرات کے لیے جب اپنا کاسہ آگے کیا تو لیلیٰ نے ہاتھ مار کر اس کا کاسہ گرا کر توڑ دیا اور دوسروں کو خیرات دینے لگی۔مجنوں اپنا کاسہ اٹھائے دیوانہ وار ناچنے لگا۔لوگوں نے کہا کہ یہ تو واقعی پاگل ہے۔لیلیٰ نے سب کے سامنے تیری بے عزتی کی اور تو ناچ رہا ہے۔مجنوں نے کہا ارے نادانو! پاگل میں نہیں تم ہو ۔
لیلیٰ کو میری ذات سے کچھ خاص تعلق ہے تبھی تو اس نے میرا کاسہ توڑ دیا ہے۔اور کسی کا کاسہ کیوں نہ توڑا ۔یہ بات لیلیٰ کی میری ذات سے کسی الگ نوعیت کے تعلق کا اظہار ہے۔
یہ تو عشقِ مجازی والوں کا حال ہے ۔ان سے بھی محبوب جب کچھ چھین لیتا ہے تو انہیں زیادہ سرور آتا ہے۔تو ان لوگوں کی خوشی ، کیف و مستی کا کیا عالم ہوتا ہوگا جو عشقِ حقیقی کے مسافر ہیں۔
ان سے ان کا محبوبِ حقیقی کوئی نعمت چھین لے تو وہ تو محبوبِ حقیقی کی خصوصی توجہ کے تصور سے ہی جھوم جھوم جاتے ہیں۔ان کی نظر چھینی ہوئی نعمت پر نہیں ہوتی بلکہ محبوب کی خوشی اور رضا پر ہوتی ہے۔
# متوکلین کی جزا:
انسان صبر کی منازل اور مدارج طے کرتا ہوا مرحلہٴ توکل میں داخل ہوتا ہے۔
صبر کے سبب سے بندے کو اللہ کی معیت حاصل ہو چکی ہوتی ہے۔خدائے بزرگ وبرتر کی رحمتوں اور برکتوں کا نزول بھی اس پر پہلے ہی ہو چکا ہوتا ہے۔لیکن توکل کے سبب سے اسے اللہ کی محبت کی خوشخبری سنائی جاتی ہے ۔قرآن میں ارشاد ہوتا ہے کہ 
” بیشک اللہ توکل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔“ ( العمران۳:۱۵۹ )
یہ متوکلین کے لیے بشارت ہے کہ اے توکل کرنے والو صبر کی نعمتیں تو تم پہلے ہی اللہ کی بارگاہ سے پا چکے ہو اب توکل کے سبب سے ہم تمہیں اپنی بارگاہ میں محبوب کر لیتے ہیں۔
یعنی کہ متوکلین اللہ کی محبت سے سرفراز کیے جاتے ہیں۔
# مرحلہٴ رضا:
صبر کی منازل اور مدارج طے کرنے کے بعد انسان توکل کی منازل کو بھی عبور کر لیتا ہے۔تو پھرمرحلہٴ رضا کا آغاز ہوتا ہے۔بہت سے اولیا ء ایسے ہو گزرے ہیں جو مرحلہٴ صبر کی مشکل منزلوں میں ہی رک گئے۔
کچھ خوش نصیب ایسے بھی ہوئے جنہوں نے صبرکی منزل تو عبور کر لی مگر وہ مرحلہٴ توکل میں جا کر رک گئے اور بہت کم ایسے ہوئے ہیں جو صبر کے بعد توکل کی منزل بھی عبور کر گئے۔اور مرحلہ ِ رضا میں داخل ہو گئے۔
توکل کی طرح مرحلہٴ رضا کے بھی تین درجے ہیں۔
یہ درجات حضرت شیخ عبد القادر جیلانی  نے اپنی تصنیف ” غنیة الطالبین“ حضرت شیخ زالنو ن مصری  کے حوالے سے بیان فرمائے ہیں۔
ترک الاختیار قبل القضاء
2 ۔ سرور القلب بمرالقضاء
فقدان المرارة بعد القضاء
ترک الاختیار قبل القضاء:
مرحلہٴ رضا کا پہلا درجہ یعنی جب قضا ء کی چھری چلنے لگے اور بچنے کا اختیار بھی ہو تو اختیار رکھتے ہوئے بھی خود کو قضا ء سے نہ بچایا جائے۔
 
ایک صورت یہ ہے کہ انسان کچھ نہ کر سکے اور ذبح ہو جائے۔ اس مقام کو رضا نہیں کہتے۔رضا تو یہ ہے کہ انسان خود کو بچانے کا اختیار تو رکھتا ہو ، خود کو بچانے پر قادر ہو ، لیکن پھر بھی قضاء کی چھری گوارہ کرے۔
2 ۔ سرورالقلب بمرا لقضاء:
  مرحلہٴ رضا کا پہلا درجہ تو یہ تھا کہ چھری چلنے سے پہلے کے اختیار کے باوجود بندہ خود کو نہ بچائے۔
مگر جب قضاء کی چھری چل رہی ہو ، تقدیر اپنا فیصلہ سنا رہی ہو ، بندے کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کیے جا رہے ہوں۔تقدیر اسے تکلیف، مصائب و الم کے پہاڑوں تلے دبارہی ہو، اور ہر قسم کی پریشانیاں اور اذییتیں امڈی چلی آ رہی ہوں ۔مصیبتوں ، تکلیفوں کی انتہا کے باوجود بندہ دل میں سرور و لذت پا رہا ہو۔تو یہ مرحلہٴ رضا کا دوسرا درجہ ہے۔
فقدان المرارة بعد القضاء:
مرحلہٴ رضا کا تیسرا درجہ یہ ہے کہ جب قضا ء کی چھری چل جائے اور سب کچھ لٹ جائے ۔
انسان اپنے انجام کو پہنچ جائے اور کچھ بھی پاس نہ بچے تو یہ کبھی بھول کر بھی زبان پر شکوہ نہ لائے۔کبھی دل میں یہ خیال نہ آئے کہ میرا انجام بظاہر کیسا ناگوار ہوا۔میرے ساتھ کیسے ظلم ہوا اور کتنی تکلیف، مصائب اور الام مجھے برداشت کرنے پڑے تھے۔

# مقامِ رضاایک کٹھن منزل :
مقام ِ رضا تک رسائی اور استقامت ایک ایسا مشکل مرحلہ ہے کہ جہاں بڑے بڑے اولیاء کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں۔حضرت شاہ محمد غوث گوالیاری  جو کامل اولیاء میں سے تھے اور مقام رضا پر فائز تھے ۔ان کے بارے میں ہے کہ قلعہٴ ِگوالیار کے گورنر نے کہا کہ شام تک ریاست ِ گوالیار کی حدود سے باہر نکل جائیں ۔
جب وہ اپنے خاندان کے افراد اور مریدوں کو لے کر گوالیار سے نکلے تو ہندو لٹیروں نے یہ جان کرکہ اب ہمیں روکنے والا کوئی نہیں ،پیچھے سے حملہ کر دیا اور لوٹ مار شروع کر دی۔حضرت شاہ محمدغوث گوالیار  کے گھوڑے پر ان کے پیچھے ان کی نو سال کی نواسی سوار تھی۔
جس کے کانوں میں سونے کی بالیاں تھیں ۔ڈاکو لوٹ مار کرتے ہوئے حضرت کے گھوڑے تک آ پہنچے اور ایک ڈاکو نے آپ  کی نواسی کے کانوں سے بالیاں جب نوچیں تو معصوم بچی کے کان چرگئے۔

درد سے بچی کی چیخ نکل گئی۔تو حضرت شاہ محمد غوث گوالیار  سے مقام ِ رضا پر مزید ٹھہرے رہنا مشکل ہو گیا۔اور آپ  نے بے اختیار اپنی چھڑی کو ہوا میں لہرایا تو تمام ڈاکووٴں کے سر قلم ہو کر زمین پر آ گرے۔اگر وہ چاہتے تو ڈاکوؤں کے سر قلم کرنے کی کرامت پہلے بھی دکھا سکتے تھے۔اگر چاہتے تو ڈاکوؤں کو پہلے ہی ختم کر سکتے تھے۔مگر وہ رضا پر ثابت قدم رہے۔
مگر جب انہوں نے اپنی معصوم نواسی کی چیخیں سنیں اور اسے خون سے لت پت دیکھا تو مقام ِ رضا پر ان کے قدم ڈگمگا گئے اور انہوں نے اپنی چھڑی لہرا کر ڈاکووٴں کے سر قلم کر دئیے۔
اس طرح امام نبہانی جامعِ کرامت ِ اولیاء میں بیان کرتے ہیں کہ شیخ احمد شربینی  ایک بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں جو کہ مقام ِ رضا پر فائز تھے۔ان کا ایک چھوٹا اکلوتا بچہ تھا ۔
جب وہ معصوم اکلوتا بچہ فوت ہونے لگا تو آپ کی بیوی آپ کی خدمت میں آ کر رونے لگی اور عرض کرنے لگی کہ آپ  کی تو اللہ سے لو لگی رہتی ہے۔مگر میرا اکلوتا بیٹا میری محبت کا مرکز و محور ہے۔ اگر میری گود اس سے خالی ہو گئی تو میرا جینا محال ہو جائے گا ۔اس لیے آپ  میرے بیٹے کے لیے اپنے اللہ کے حضور دعا کریں ۔آپ  نے فرمایا میں اپنے مولا کی رضا پر راضی ہوں ۔
اگر میرا مولا میرے بیٹے کی جان لے کر خوش ہے تو میں بھی اس پر خوش ہوں۔آپ کی بیوی روتی رہی ، منت سماجت کرتی رہی، مگر آپ  کا دل اللہ کی رضا پرجما رہا۔اسی دوران ملک الموت بچے کی روح قبض کرنے آ گئے۔جب روح قبض کرنے کے لیے ملک الموت نے ہاتھ آ گے بڑھایا اور بچے پر حالتِ نزع طاری ہوئی تو بچے کی یہ حالت شفقت ِ پدری سے نہ دیکھی گئی ۔آپ  کے قدم مقام ِ رضا سے لڑکھڑا گئے۔
اس وقت نگاہ اوپر اٹھا کر دیکھا ۔تصرف کا یہ عالم تھا کہ اللہ کی بارگاہ میں صرف التجا کے انداز میں دیکھنے کی دیر تھی کہ لوحِ محفوظ بدل گئی۔آپ  نے ملک الموت سے فرمایااے ملک الموت اپنے رب کی طرف لوٹ جا ،بچے کی موت کا حکم منسوخ ہو چکا ہے۔
# حضرت امام حسین اور مقامِ رضا :
حضور ِ اکرم ﷺ کے ایک ولی کا روحانی تصرف یہ ہے کہ اگر وہ چھڑی لہرائے یا نگاہ اٹھائے تو زندگی کو موت یا موت کو زندگی میں بدل دے۔
اور حضرت امام حسین کی شان یہ ہے کہ اگر لاکھوں کروڑوں ولی ایسے جمع ہو جائیں تو ان کی گرد کو بھی نہ پا سکیں ۔امامِ عالی مقام اگر نگاہ اٹھاتے تو نہ جانے کیا سے کیا ہو جاتا ۔آپ اگر چاہتے تو قافلہٴ حسین بچ جاتا۔یزیدی لشکر تباہ ہو جاتا ۔ کوفہ و بصرہ میں آپ کا اقتدار ہوتا۔مگر یہ سب مقام ِ رضا کے خلاف تھا۔
امتِ مصطفی ﷺ میں بڑے بڑے اولیائے کرام کے قدم مقامِ رضا کی مشکل منزلوں میں ڈگمگائے مگر نواسہٴ رسول ﷺ اور جگر گوشہِ بتول کے قدم مقامِ رضا کی منزل پر نہیں ڈگمگائے۔
میدانِ کربلا میں سخت گرمی اور تپتے ریگزار پر شہادت کی کٹھن منزلوں پر آپ کامیاب و کامران دکھائی دیئے ۔
آپ  مرحلہٴ رضا کے تینوں مدارج پر کامیاب ہیں۔مرحلہٴ رضا کا پہلا درجہ یہ تھا کہ علم ہو پھر بھی قضا ء کو قبول کیا جائے۔اور اختیار رکھتے ہوئے خود کو نہ بچایا جائے۔کیوں کہ بہت سی احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے اور امامِ حسین کو بے خبری کی حالت میں شہید نہیں کر دیا گیا۔
حضرت امامِ حسین  اپنے بچپن سے جانتے تھے کہ میری شہادت میدانِ کربلا میں لکھی جا چکی ہے اور وہ تو وقت ِ شہادت ، مقامِ شہادت اور احوالِ شہادت تک سے باخبر تھے۔اگر وہ چاہتے تو یزید کے ہاتھ پر بیعت کر کے اپنی قضا ء سے چھٹکارا پا لیتے۔اگر چاہتے تو اللہ سے التجا کر کے اس قضا سے فرار کا راستہ اختیار کر لیتے لیکن آپ  نے ایسا نہیں کیا کہ آپ  عاشقوں میں سے تھے۔
آپ  کی زندگی کے کئی برس تو محبوب کے وصال کے انتظار میں بیت گئے تھے۔آپ  نے اپنے بچپن سے اپنے نانا جان ﷺ سے سن رکھا تھا کہ کربلا کے میدان میں رب ِذوالجلال کا بے نقاب نظارہ کرایا جائے گا۔کتنا بڑا صبر تھا کہ آپ  نے پچاس برس کی زندگی ہجر و فراق کی مشکل منازل میں گزار دی۔
آپ  مقامِ رضا کے پہلے مرحلے میں یوں پورے اترے کہ سب کچھ جانتے ہوئے یزید کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا۔
یزید کی اتباع کا پیغام ملا مگر آپ  نے قبول نہ کیا اور آپ  کے قدم آہستہ آہستہ میدانِ کربلا کی طرف بڑھتے چلے گئے۔جہاں جامِ شہادت آپ کا منتظر تھا۔آپ  نے آگے بڑھ کر جام ِ شہادت نوش کیا۔اور عزم و استقلال کے ساتھ اپنے محبوب ِ حقیقی کی بارگاہ میں جا پہنچے۔مرحلہٴ رضا کا دوسرا درجہ کہ جب تقدیر کی چھریاں چل ر ہی ہوں تو بندے کو کڑواہٹ کا احساس نہ ہو بلکہ وہ لذت اور میٹھا پن محسوس کرے۔
مقامِ رضا کے اس درجے پر امام ِ عالی مقام  یوں پورے اترتے نظر آتے ہیں کہ ایک لمحے کے لیے بھی ان کی زبان پر شکوہ سنائی نہیں دیا۔آپ  نے دشمنوں سے درخواست و التجا نہیں کی۔چیخ و پکار یا آہ و فغاں کی صدا بلند نہیں ہوئی۔خیموں سے ماتم کی آواز نہیں آئی۔
خاندانِ نبوت کا ہر فرد صبرکا دودھ، توکل کا پانی اور رضا کی خوراک کھا کر جوان ہوا تھا۔
یہ کیسے ماتم کر سکتے تھے بھلا ! وہ تو سب خوشی خوشی ایک دوسرے سے آگے بڑھ بڑھ کر خود کو حق کی راہ پر شہادت کے لیے پیش کر رہے تھے۔اور اس طرح خانوادئہ رسول ﷺ کا ایک ایک فرد گردن کٹواتا رہا۔جام ِ شہادت نوش ہوتے رہے اور یہاں تک کہ وہ وقت آ گیا جس کا قدسیان ِ فلک انتظار کر رہے تھے۔نواسہٴ رسول  اپنے ساتھیوں کی قربانی دیتے اور سینکڑوں یزیدیوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد بلاآخر تیروں اور نیزوں سے جسم چھلنی کروا کر گھوڑے سے نیچے آ گرے۔
اس دوران نماز کا وقت ہو گیااور اسی گھڑی کے امامِ عالی مقام  منتظر تھے۔تلوار زمین پر رکھ کر گرم ریت پر اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو گئے۔ادھر قاتل کی تلوار گردنِ حسینی  پر لگی۔سرِمبارک تنِقدس سے جدا ہو گیا۔اور ملک الموت نے اللہ کی طرف سے یہ خوش خبری سنائی:
” اے وہ نفس جس نے اطمینان حاصل کر لیا تو اپنے رب کی طرف واپس چل ۔
اس طرح کہ تُو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی“ ( سورة الفجر۸۹:۲۷) 
اے حسین!تم اپنے امتحانِ رضا میں کامیاب ہو گئے اور تم ہم پر راضی تھے۔ہم تمہاری گردن کٹتے دیکھ کر تم سے راضی ہو گئے۔اب تو رضا با لقضاء کا تاج پہن کر بصد ناز میری بار گاہ میں حاضر ہو جا۔
” پھر تم میرے برگزیدہ بندوں میں شامل ہو جاؤ اور میری بہشت میں داخل ہو جاؤ۔
(الفجر۸۹: ۲۰، ۳۰)
حضرت امامِ حسین  رضا کے تیسرے درجے میں بھی کامیاب و کامران رہے۔تیسرا درجہ یہ تھا کہ سب کچھ لٹا دینے کے بعد بھی زبان پر شکوہ نہ آئے اور امامِ عالی مقام تو سب کچھ چھینے جانے کے بعد خوش و خرم اللہ کی بارگاہ اور اپنے نانا جان ﷺ کے قدموں میں پہنچ چکے تھے۔اب ان کے لیے تو زبان پر شکوہ لانے یا پریشانی کا تو سوال ہی نہیں تھا۔

کردار کی عظمت
معرکہ ِ کربلا کی تفصیلات سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ مقامِ رضا پر نہ صرف حضرت امامِ حسین ثابت قدم رہے بلکہ آپ  کے گھرانے کے باقی افراد بھی آپ  ہی کی طرح کوہ ِ استقامت و وقار بن کر ثابت قدم رہے اور کسی کے قدموں میں ذرا بھی لرزش نہیں آئی۔بعد میں بھی کسی نے خانوادئہ نبوت ﷺکے کسی فرد سے میدان ِ کربلا کے مصائب کا ذکر نہیں سنا ۔
ان کی زبان پر کبھی شکوہ نہیں آیا ۔بلکہ حضرت امام ِ حسین  کے قاتلوں سے بھی حسن ِ سلوک کیا۔
حضرت امام زین العابدین  واقعہ کربلا کے بعد مدینہ منورہ سے کچھ دور مقام پر آباد ہو گئے تھے۔حضرت امامِ حسین  کے قاتلوں میں سے ایک شخص کو یزید نے کسی غلطی کی سزا دینا چاہی تو وہ جان بچا کر بھاگا۔
پوری سلطنت میں اسے جان بچانے کی کوئی جگہ نہ ملی۔

تو بلا آخر اسی گھرانے کے پاس چلا گیا۔جس گھرانے کے خون سے وہ میدان ِ کربلا میں ہاتھ رنگ چکا تھا۔وہ شخص حضرت امام زین العابدین  کے پاس آیا اور پناہ چاہی۔آپ  نے اسے تین دن اپنے پاس ٹھہرایا۔اس کی خدمت و تواضع کی ۔جب وہ جانے لگا تو اسے رخت ِ سفر بھی دیا۔یہ حسنِ سلوک دیکھ کر اس شخص کے باہر جاتے قدم رک گئے اور اسے خیال آیا کہ شاید امام زین العابدین  نے اسے پہچانا نہیں ہے کیونکہ اگر پہچان لیتے تو انتقام لیتے۔
اس لیے وہ مڑ کے واپس آیا اور دبے لفظوں میں کہنے لگا کہ آپ  نے شاید مجھے پہچانا نہیں ہے۔آپ  نے پوچھا کہ تمہیں کیوں یہ گمان گزرا ہے کہ میں نے نہیں پہچانا ؟ اس نے کہا کہ جو سلوک آپ  نے میرے ساتھ کیا ،وہ کوئی اپنے دشمن یا قاتلوں کے ساتھ نہیں کرتا۔امام زین العابدین  مسکرائے اور فرمانے لگے کہ:
” اے ظالم!میں تجھے میدانِ کربلا کی اس گھڑی سے جانتا ہوں جب میرے باپ کی گردن پر تم لوگ تلوار چلا رہے تھے لیکن فرق یہ ہے کہ وہ تمہارا کردار تھا اور یہ ہمارا کردار ہے“
حضرت امیر معاویہ
انسان کو اپنی جان سے محبت ہوتی ہے۔
بیوی اور بچوں سے پیار ہوتا ہے۔ ماں باپ کو چاہتا ہے۔ بھائی اور عزیز و اقارب سے بھی محبت رکھتا ہے مگر صرف اسی قسم کی چیزوں سے محبت کرنے والا انسان ہوسکتا ہے مگر مسلمان نہیں ہوسکتا۔ مسلمان ہونے کے لئے ایک اور ذات آقائے دو عالم محمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنی پڑے گی۔اس لئے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دین حق کی شرط اول ہے۔
پیارے آقا ئے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
” یعنی تم میں کوئی مومن نہیں ہوگا، یہاں تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی اولاد اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں“۔
اور پیارے آقا ئے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے لئے سارے صحابہ کرام کی محبت لازم ہے اس لئے کہ تمام صحابہ حضور ﷺ کومحبوب ہیں اور محبوب کا محبوب، محبوب ہی ہوتا ہے۔
لہٰذا جو شخص حضور ﷺ سے محبت کا دعویٰ کرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام سے محبت نہ کرے وہ جھوٹا ہے پیارے آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
” میرے اصحاب کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرو میرے بعد انہیں نشانہ اعتراض نہ بنانا۔ جس نے ان سے محبت رکھی اس نے میری محبت کے سبب ان سے محبت رکھی۔
اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے میرے ساتھ بغض رکھا، اور جس نے انہیں اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے اللہ رب العزت کو اذیت دی اور جس نے اللہ تعالیٰ کو اذیت دی ،قریب ہے کہ اللہ پاک نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا“۔
پیارے آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح لفظوں میں فرمادیا ہے کہ میری محبت کے سبب میرے صحابہ سے محبت ہو گی اور میرے بغض کے سبب میرے صحابہ سے بغض ہو گا۔
یعنی جو شخص پیارے آقا ئے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام سے محبت ضرور کرتا ہوگا۔ اور جو شخص صحابہ سے بغض اور عداوت رکھتا ہے وہ حضورﷺ سے بھی بغض اور عداوت کے سبب ان سے بغض اور عداوت رکھتا ہے اور حدیث شریف نے فیصلہ کردیا کہ جو شخص پیارے آقا ئے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے بغض و عداوت رکھتا ہے وہ جھوٹا ہے اس لئے کہ صحابہ سے بغض اور عناد حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض اور عناد کے سبب ہے۔
بعض لوگ جو پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے دعویدار ہیں وہ بہت سے صحابہ کرام خصوصاً حضرت امیر معاویہ سے نہ صرف بغض و عناد رکھتے ہیں بلکہ کھلم کھلا ان کے لئے گستاخانہ الفاظ استعمال کر کے بے ادبی کے مرتکب ہوتے ہیں۔
اور اپنی نادانی کی بنا پر ایسی بہت سی احادیث مبارکہ کو پس پشت ڈال دیتے ہیں جن میں واضح طور پر صحابہ کرام سے عقیدت و محبت کا درس دیا گیا ہے۔
اللہ ہم سب کو پیارے آقا ئے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم رضااور خوشی پانے کے لئے حق کی سمجھ عطا کرے (آمین)
# حضرت امیر معاویہ کا نام و نسب:
آپ  کا نام معاویہ اور کنیت ابو عبدالرحمٰن ہے۔ باپ کی طرف سے آپ کا سلسلہ نسب یہ ہے:
معاویہ بن ابو سفیان، سخر بن حرب۔
اور ماں کی طرف سے نسب یوں ہے:
معاویہ بن ہند بنت عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس بن عبد مناف۔
” عبد مناف“ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے چوتھے دادا ہیں۔ اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا سلسلہ نسب یہ ہے:
ابن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف۔
مختصر یہ ہوا کہ حضرت معاویہ والد کی طرف سے پانچویں پشت اور ماں کی طرف سے بھی پانچویں پشت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چوتھے دادا عبد مناف سے مل جاتے ہیں۔
جس سے ظاہر ہوا کہ آپ  نسب کے لحاظ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی اہل قرابت میں سے ہیں اور رشتے میں نبی کریم ﷺ کے حقیقی سالے ہیں۔ایسے کہ ام المومنین حضرت ام حبیبہ بنت ابو سفیان  جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں۔ وہ حضرت امیر معاویہ کی حقیقی بہن ہیں اس لئے مولانا رومی نے اپنی مثنوی شریف میں آپ  کو تمام مومنوں کا ماموں تحریر فرمایا ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::اگلی قسط :::::::::::::::>
https://bit.ly/Haq-O-Batil20

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی