آج کی بات: کسی کا بھلا نہ ہوسکے تو


 

آج کی بات 🌟

جملہ: کسی کا بھلا نہ ہو سکے تو برا کرنے کی کوشش بھی نہ کرو، یاد رکھو!!! دنیا کمزور ہے دنیا بنانے والا نہیں 🤲

تعارف ✨

انسانی زندگی کا مقصد ایک دوسرے کے لیے خیر اور بھلائی پھیلانا ہے۔ جملہ "کسی کا بھلا نہ ہو سکے تو برا کرنے کی کوشش بھی نہ کرو، یاد رکھو!!! دنیا کمزور ہے دنیا بنانے والا نہیں" اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اگر ہم کسی کی مدد نہیں کر سکتے، تو کم از کم اس کا نقصان بھی نہ کریں، کیونکہ دنیا فانی ہے، لیکن اسے بنانے والا اللہ ہر چیز کا حساب رکھتا ہے۔ یہ جملہ ہمیں نیک نیتی، دوسروں کے لیے خیر خواہی اور اللہ کے احتساب کی یاد دہانی کراتا ہے۔ اس تشریح میں ہم اس جملے کی گہرائی کو اسلامی تعلیمات، تاریخی واقعات، نفسیاتی اور سماجی نقطہ نظر سے دیکھیں گے، تاکہ یہ سمجھ سکیں کہ برائی سے بچنا اور اللہ کے احتساب کو یاد رکھنا کیوں ضروری ہے۔ 📜


اسلامی نقطہ نظر سے خیر خواہی اور برائی سے اجتناب 🕋

اسلام میں دوسروں کے لیے خیر خواہی اور برائی سے بچنے کی بہت اہمیت ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں:
"نیکی اور برائی برابر نہیں ہیں، برائی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو، تو وہ شخص جس سے تمہاری دشمنی تھی، تیرا گہرا دوست بن جائے گا۔" (سورہ فصلت: 34) 🌹
یہ آیت ہمیں سکھاتی ہے کہ اگر ہم کسی کا بھلا نہیں کر سکتے، تو کم از کم برائی سے بچیں، کیونکہ نیکی برائی کو ختم کرتی ہے اور رشتوں کو مضبوط کرتی ہے۔

نبی کریم ﷺ نے برائی سے بچنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا:
"جو شخص کسی مومن کو دنیا کی تکلیف سے بچاتا ہے، اللہ اسے آخرت کی تکلیف سے بچاتا ہے۔" (صحیح مسلم) 🙏
یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ دوسروں کا نقصان نہ کرنا اور ان کے لیے خیر خواہی رکھنا اللہ کی رحمت کا باعث بنتا ہے۔

ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا:
"اپنے ہاتھوں اور زبان سے کسی مومن کو تکلیف نہ دو۔" (صحیح بخاری) 🕊️
یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ اگر ہم کسی کی بھلائی نہیں کر سکتے، تو اسے نقصان پہنچانے سے بھی گریز کرنا چاہیے، کیونکہ اللہ ہر عمل کا حساب رکھتا ہے، اور دنیا فانی ہے، لیکن اللہ کی عدالت ہمیشہ قائم رہے گی۔


تاریخی تناظر میں خیر خواہی اور برائی سے اجتناب 📚

اسلامی تاریخ میں خیر خواہی اور برائی سے بچنے کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اپنی پوری زندگی دوسروں کے لیے خیر خواہی میں گزاری۔ جب انہیں خلافت ملی، تو انہوں نے اپنے دشمنوں کو بھی معاف کیا اور کبھی کسی کا برا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ان کی اس نیک نیتی کی وجہ سے اللہ نے ان کی حفاظت کی اور انہیں امت کے لیے عظیم رہنما بنایا۔ 🕊️

ایک اور مثال حضرت عثمان بن عفان ؓ کی ہے۔ جب ان کے خلاف فتنہ اٹھا، تو انہوں نے اپنے دفاع کے لیے تشدد کا سہارا لینے سے انکار کیا اور کہا: "میں کسی کا خون بہانے کی بجائے اپنی جان قربان کر دوں گا۔" ان کی اس خیر خواہی اور برائی سے اجتناب نے انہیں شہادت کا رتبہ عطا کیا۔ 🌹

غیر اسلامی تاریخ میں بھی ایسی مثالیں ملتی ہیں۔ مہاتما گاندھی نے اپنی زندگی غیر متشدد جدوجہد کے لیے وقف کی اور کبھی کسی کا برا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ان کا ماننا تھا کہ اگر آپ کسی کی بھلائی نہیں کر سکتے، تو کم از کم اسے نقصان نہ پہنچائیں۔ ان کی اس سوچ نے انہیں عظیم عزت دی۔ 🌍 اسی طرح، نیلسن منڈیلا نے اپنی جدوجہد میں کبھی بدلے کی سوچ نہیں رکھی، بلکہ ہمیشہ خیر خواہی سے کام لیا، جس کی وجہ سے وہ دنیا بھر میں محبت اور عزت کا نشان بنے۔ 💞


نفسیاتی اور سماجی نقطہ نظر 🧠

نفسیاتی طور پر، دوسروں کے لیے خیر خواہی اور برائی سے اجتناب انسان کو ذہنی سکون اور اطمینان دیتا ہے۔ تحقیق بتاتی ہے کہ جو لوگ دوسروں کا برا نہیں سوچتے اور ان کے لیے خیر کی دعا کرتے ہیں، وہ کم تناؤ اور زیادہ خوشی محسوس کرتے ہیں۔ 😊 مثال کے طور پر، اگر کوئی شخص اپنے ساتھی کے ساتھ تنازع کی صورت میں بدلہ لینے کے بجائے معافی مانگ لے یا خیر خواہی سے پیش آئے، تو اس کا دل سکون میں رہتا ہے۔ اس کے برعکس، حسد یا بدلے کی سوچ انسان کو ذہنی پریشانی میں مبتلا کرتی ہے۔ 😔

سماجی طور پر، خیر خواہی اور برائی سے اجتناب معاشرے میں ہم آہنگی اور اتحاد کو فروغ دیتا ہے۔ جب لوگ ایک دوسرے کا برا کرنے سے گریز کرتے ہیں، تو یہ معاشرے میں اعتماد اور محبت کو بڑھاتا ہے۔ 💞 مثال کے طور پر، اگر ایک کمیونٹی کے لوگ ایک دوسرے کی بھلائی کے لیے کام کریں اور نقصان پہنچانے سے بچیں، تو یہ معاشرے میں امن اور خوشحالی کا باعث بنتا ہے۔ اس کے برعکس، بدنیتی اور نقصان پہنچانے کی کوشش معاشرے میں نفرت اور تقسیم کو جنم دیتی ہے۔ 💔


خیر خواہی اور برائی سے اجتناب کے اسلامی اور عملی طریقے 🛠️

دوسروں کے لیے خیر خواہی اور برائی سے بچنے کے لیے درج ذیل عملی اقدامات کیے جا سکتے ہیں:

  1. نیک نیتی رکھیں: ہر عمل اللہ کی رضا کے لیے کریں اور دوسروں کے لیے خیر کی نیت رکھیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "عمل کا دارومدار نیت پر ہے۔" (صحیح بخاری) 🌹

  2. دوسروں کی مدد کریں: اگر بھلائی ممکن نہ ہو، تو کم از کم نقصان سے گریز کریں۔ "بہترین لوگ وہ ہیں جو دوسروں کے لیے زیادہ مفید ہوں۔" (سنن ابن ماجہ) 🙏

  3. دعا کریں: اللہ سے دعا مانگیں کہ وہ آپ کے دل کو خیر خواہی سے بھر دے۔ "اے اللہ! میرے دل کو حسد اور بدنیتی سے پاک کر۔" (سنن ابو داؤد) 🤲

  4. صبر و تحمل: اگر کوئی آپ کے ساتھ برا کرے، تو اس کے بدلے خیر کی دعا کریں۔ "صبر ایمان کا نصف ہے۔" (سنن ترمذی) 🕊️

  5. خود احتسابی: اپنے اعمال پر نظر رکھیں اور دیکھیں کہ کیا آپ واقعی دوسروں کا برا سوچنے سے بچ رہے ہیں۔ "اپنے نفس کا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے۔" (سنن ترمذی) 🪞


نتیجہ 🌸

اگر ہم کسی کا بھلا نہیں کر سکتے، تو کم از کم اس کا برا کرنے سے گریز کریں، کیونکہ دنیا فانی ہے، لیکن اللہ ہر عمل کا حساب رکھتا ہے۔ اسلامی تعلیمات ہمیں خیر خواہی اور برائی سے اجتناب کی طرف رہنمائی کرتی ہیں، جبکہ تاریخی واقعات اور نفسیاتی تحقیق اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ نیک نیتی اور خیر خواہی انسان کو ذہنی سکون اور معاشرتی عزت دیتی ہے۔ آئیے، ہم اپنے دلوں کو خیر خواہی سے بھریں، برائی سے بچیں، اور اپنی زندگی کو اللہ کی رضا اور محبت سے سجائیں۔ 🌹💞

ایک تبصرہ شائع کریں

[blogger]

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget