بلوک چین کی بنیادی تعریف اور تصور 🧱
بلوک چین ایک ڈیجیٹل لجر (یعنی ایک بہ کھاتہ) ہے جو ڈی سینٹرلائزڈ (غیر مرکزی) طریقے سے کام کرتا ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے اسے ایک ڈیجیٹل ڈائری سمجھیں جس میں ہر صفحہ (بلوک) پر کچھ معلومات لکھی جاتی ہیں، اور یہ صفحات ایک مضبوط زنجیر (چین) سے جڑے ہوتے ہیں۔ ہر کوئی اس ڈائری کو دیکھ سکتا ہے، لیکن کوئی اس میں گڑبڑ نہیں کر سکتا۔ 🔒
بنیادی تصورات:
- بلوک: یہ ایک ڈیٹا پیکج ہوتا ہے جس میں ٹرانزیکشنز (مثلاً پیسوں کا لین دین) کی تفصیلات ہوتی ہیں۔ ہر بلوک میں شامل ہوتا ہے:
- ٹرانزیکشن ڈیٹا
- ایک منفرد کوڈ (ہیش)
- پچھلے بلوک کا ہیش (یہ اسے زنجیر کی طرح جوڑتا ہے)
- چین: جب نئے بلوک بنتے ہیں، وہ پچھلے بلوک سے جڑ جاتے ہیں، اور یوں ایک زنجیر بنتی ہے۔ اگر کوئی ایک بلوک میں تبدیلی کرے، تو پوری چین متاثر ہوتی ہے، جو اسے محفوظ بناتا ہے۔
- ڈی سینٹرلائزیشن: کوئی ایک ادارہ (جیسے بینک یا حکومت) اسے کنٹرول نہیں کرتا۔ یہ ایک نیٹ ورک پر بہت سے کمپیوٹرز (نوڈس) کے درمیان شئیر ہوتا ہے۔
- شفافیت اور سیکیورٹی: سب کو ڈیٹا نظر آتا ہے، لیکن اسے بدلنا تقریباً ناممکن ہے کیونکہ ہر تبدیلی کے لیے نیٹ ورک کے زیادہ تر نوڈس کی اجازت چاہیے۔
کیوں بنایا گیا؟ 🌟
بلوک چین کی ابتدا 2008 میں بٹ کوائن کے ساتھ ہوئی، جب ایک نامعلوم شخص یا گروپ (Satoshi Nakamoto) نے اسے بنایا تاکہ ایک ایسی کرنسی ہو جو بینکوں کے بغیر کام کرے۔ مقصد تھا:
- بھروسہ: تیسری پارٹی (جیسے بینک) کے بغیر لین دین۔
- شفافیت: ہر ٹرانزیکشن سب کے لیے کھلی کتاب کی طرح۔
- سیکیورٹی: ڈیٹا کو ہیشنگ اور کرپٹوگرافی سے محفوظ کرنا۔
آسان مثال:
تصور کریں آپ ایک بازار میں ہیں، اور سب کے پاس ایک مشترکہ بہ کھاتہ ہے۔ جب آپ کسی کو پیسے دیتے ہیں، تو سب اسے نوٹ کر لیتے ہیں۔ اگر کوئی جھوٹ بولے کہ اس نے پیسے نہیں لیے، تو سب اسے پکڑ لیتے ہیں کیونکہ سب کے پاس ایک ہی ریکارڈ ہے۔ 😎
⫘⫘⫘جاری ہے⫘⫘⫘