جنوری 2025
!حضرت محمد ﷺ ابراہیم جلیس ابن انشا ابن حبان ابو حمزہ عبدالخالق صدیقی ابوداؤد اپنے محبوب ﷺ کو پہچانئے احکامِ الصلوة احکام و مسائل احمد اشفاق احمد جمال پاشا احمد مشتاق اختر شیرانی اذکار و وظائف اردو ادب اردو کہانیاں ارشاد خان سکندر ارشد عبد الحمید اسلم انصاری اسلم راہی اسماء الحسنیٰﷻ اسماء المصطفیٰ ﷺ اصلاحی ویڈیو اظہر ادیب افتخار عارف افتخار فلک کاظمی اقبال ساجد اکاؤنٹنگ اکاؤنٹنگ اردو کورس اکاؤنٹنگ ویڈیو کورس اردو اکبر الہ آبادی الکا مشرا الومیناٹی امام ابو حنیفہ امجد اسلام امجد امۃ الحئی وفا ان پیج اردو انبیائے کرام انٹرنیٹ انجینئرنگ انفارمیشن ٹیکنالوجی انیس دہلوی اوبنٹو او ایس اور نیل بہتا رہا ایپل ایپلیکیشنز ایچ ٹی ایم ایل ایڈوب السٹریٹر ایڈوب فوٹو شاپ ایکسل ایم ایس ورڈ ایموجیز اینڈرائڈ ایوب رومانی آبرو شاہ مبارک آپ بیتی آج کی ایپ آج کی آئی ٹی ٹِپ آج کی بات آج کی تصویر آج کی ویڈیو آرٹیفیشل انٹیلیجنس آرٹیفیشل انٹیلیجنس کورس آسان ترجمہ قرآن آفتاب حسین آلوک شریواستو آؤٹ لُک آئی ٹی اردو کورس آئی ٹی مسائل کا حل باصر کاظمی باغ و بہار برین کمپیوٹر انٹرفیس بشیر الدین احمد دہلوی بشیر بدر بشیر فاروقی بلاگر بلوک چین اور کریپٹو بھارت چند کھنہ بھلے شاہ پائتھن پروٹون پروفیسر مولانا محمد یوسف خان پروگرامنگ پروین شاکر پطرس بخاری پندونصائح پوسٹ مارٹم پیر حبیب اللہ خان نقشبندی تاریخی واقعات تجربات تحقیق کے دریچے ترکی زبان سیکھیں ترمذی شریف تلوک چند محروم توحید تہذیب حافی تہنیت ٹپس و ٹرکس ثروت حسین جاوا اسکرپٹ جگر مراد آبادی جمادی الاول جمادی الثانی جہاد جیم جاذل چچا چھکن چودھری محمد علی ردولوی حاجی لق لق حالاتِ حاضرہ حج حذیفہ بن یمان حسرتؔ جے پوری حسرتؔ موہانی حسن بن صباح حسن بن صباح اور اسکی مصنوعی جنت حسن عابدی حسن نعیم حضرت ابراہیم  حضرت ابو ہریرہ حضرت ابوبکر صدیق حضرت اُم ایمن حضرت امام حسینؓ حضرت ثابت بن قیس حضرت دانیال حضرت سلیمان ؑ حضرت عثمانِ غنی حضرت عُزیر حضرت علی المرتضیٰ حضرت عمر فاروق حضرت عیسیٰ  حضرت معاویہ بن ابی سفیان حضرت موسیٰ  حضرت مہدیؓ حکیم منظور حماد حسن خان حمد و نعت حی علی الفلاح خالد بن ولید خالد عرفان خالد مبشر ختمِ نبوت خطبات الرشید خطباتِ فقیر خلاصۂ قرآن خلیفہ دوم خواب کی تعبیر خوارج داستان ایمان فروشوں کی داستانِ یارِ غار والمزار داغ دہلوی دجال درسِ حدیث درسِ قرآن ڈاکٹر عبدالحمید اطہر ندوی ڈاکٹر ماجد دیوبندی ڈاکٹر نذیر احمد ڈیزائننگ ذوالحجۃ ذوالقعدۃ راجیندر منچندا بانی راگھویندر دیویدی ربیع الاول ربیع الثانی رجب رزق کے دروازے رشید احمد صدیقی رمضان روزہ رؤف خیر زاہد شرجیل زکواۃ زید بن ثابت زینفورو ساغر خیامی سائبر سکیورٹی سائنس و ٹیکنالوجی سپلائی چین منیجمنٹ سچائی کی تلاش سراج لکھنوی سرشار صدیقی سرفراز شاہد سرور جمال سسٹم انجینئر سفرنامہ سلطان اختر سلطان محمود غزنوی سلیم احمد سلیم صدیقی سنن ابن ماجہ سنن البیہقی سنن نسائی سوال و جواب سورۃ الاسراء سورۃ الانبیاء سورۃ الکہف سورۃ الاعراف سورۃ ابراہیم سورۃ الاحزاب سورۃ الاخلاص سورۃ الاعلیٰ سورۃ الانشقاق سورۃ الانفال سورۃ الانفطار سورۃ البروج سورۃ البقرۃ سورۃ البلد سورۃ البینہ سورۃ التحریم سورۃ التغابن سورۃ التکاثر سورۃ التکویر سورۃ التین سورۃ الجاثیہ سورۃ الجمعہ سورۃ الجن سورۃ الحاقہ سورۃ الحج سورۃ الحجر سورۃ الحجرات سورۃ الحدید سورۃ الحشر سورۃ الدخان سورۃ الدہر سورۃ الذاریات سورۃ الرحمٰن سورۃ الرعد سورۃ الروم سورۃ الزخرف سورۃ الزلزال سورۃ الزمر سورۃ السجدۃ سورۃ الشعراء سورۃ الشمس سورۃ الشوریٰ سورۃ الصف سورۃ الضحیٰ سورۃ الطارق سورۃ الطلاق سورۃ الطور سورۃ العادیات سورۃ العصر سورۃ العلق سورۃ العنکبوت سورۃ الغاشیہ سورۃ الغافر سورۃ الفاتحہ سورۃ الفتح سورۃ الفجر سورۃ الفرقان سورۃ الفلق سورۃ الفیل سورۃ القارعہ سورۃ القدر سورۃ القصص سورۃ القلم سورۃ القمر سورۃ القیامہ سورۃ الکافرون سورۃ الکوثر سورۃ اللہب سورۃ اللیل سورۃ الم نشرح سورۃ الماعون سورۃ المآئدۃ سورۃ المجادلہ سورۃ المدثر سورۃ المرسلات سورۃ المزمل سورۃ المطففین سورۃ المعارج سورۃ الملک سورۃ الممتحنہ سورۃ المنافقون سورۃ المؤمنون سورۃ النازعات سورۃ الناس سورۃ النباء سورۃ النجم سورۃ النحل سورۃ النساء سورۃ النصر سورۃ النمل سورۃ النور سورۃ الواقعہ سورۃ الھمزہ سورۃ آل عمران سورۃ توبہ سورۃ سباء سورۃ ص سورۃ طٰہٰ سورۃ عبس سورۃ فاطر سورۃ فصلت سورۃ ق سورۃ قریش سورۃ لقمان سورۃ محمد سورۃ مریم سورۃ نوح سورۃ ہود سورۃ یوسف سورۃ یونس سورۃالانعام سورۃالصافات سورۃیٰس سورة الاحقاف سوشل میڈیا سی ایس ایس سی پلس پلس سید امتیاز علی تاج سیرت النبیﷺ شاہد احمد دہلوی شاہد کمال شجاع خاور شرح السنۃ شعب الایمان - بیہقی شعبان شعر و شاعری شفیق الرحمٰن شمشیر بے نیام شمیم حنفی شوال شوق بہرائچی شوکت تھانوی صادق حسین صدیقی صحابہ کرام صحت و تندرستی صحیح بُخاری صحیح مسلم صفر صلاح الدین ایوبی طارق بن زیاد طالب باغپتی طاہر چوھدری ظفر اقبال ظفرتابش ظہور نظر ظہیر کاشمیری عادل منصوری عارف شفیق عاصم واسطی عامر اشرف عبادات و معاملات عباس قمر عبد المالک عبداللہ فارانی عبید اللہ علیم عذرا پروین عرفان صدیقی عزم بہزاد عُشر عُشر کے احکام عطاء رفیع علامہ اقبال علامہ شبلی نعمانیؒ علی بابا عمر بن عبدالعزیز عمران جونانی عمرو بن العاص عنایت اللہ التمش عنبرین حسیب عنبر غالب ایاز غزہ فاتح اُندلس فاتح سندھ فاطمہ حسن فائر فاکس، فتنے فرحت عباس شاہ فرقت کاکوروی فری میسن فریدہ ساجد فلسطین فیض احمد فیض فینکس او ایس قتیل شفائی قربانی قربانی کے احکام قیامت قیوم نظر کاتب وحی کامٹیزیا ویڈیو ایڈیٹر کرشن چندر کرنل محمد خان کروم کشن لال خنداں دہلوی کلیم عاجز کنہیا لال کپور کوانٹم کمپیوٹنگ کورل ڈرا کوئز 1447 کوئز 2025 کیا آپ جانتے ہیں؟ کیف بھوپالی کیلیگرافی و خطاطی کینوا ڈیزائن کورس گوگل گیمز گینٹ چارٹس لائبریری لینکس متفرق مجاہد بن خلیل مجتبیٰ حسین محاورے اور ضرب الامثال محرم محسن اسرار محسن نقوی محشر بدایونی محمد بن قاسم محمد یونس بٹ محمدنجیب قاسمی محمود میاں نجمی مختصر تفسیر ِعتیق مخمور سعیدی مرادِ رسولِ کریم ﷺ مرزا غالبؔ مرزا فرحت اللہ بیگ مزاح و تفریح مستدرک حاکم مستنصر حسین تارڑ مسند احمد مشتاق احمد یوسفی مشکوٰۃ شریف مضمون و مکتوب معارف الحدیث معاشرت و طرزِ زندگی معتزلہ معرکہٴ حق و باطل مفتی ابولبابہ شاہ منصور مفتی رشید احمد مفتی سید مختار الدین شاہ مفتی شعیب عالم مفتی شفیق الدین الصلاح مفتی صداقت علی مفتی عتیق الرحمٰن شہید مفتی عرفان اللہ مفتی غلام مصطفیٰ رفیق مفتی مبین الرحمٰن مفتی محمد افضل مفتی محمد تقی عثمانی مفتی وسیم احمد قاسمی مقابل ہے آئینہ مکیش عالم منصور عمر منظر بھوپالی موبائل سوفٹویئر اور رپیئرنگ موضوع روایات مؤطا امام مالک مولانا اسلم شیخوپوری شہید مولانا اشرف علی تھانوی مولانا اعجاز احمد اعظمی مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مولانا جہان یعقوب صدیقی مولانا حافظ عبدالودود شاہد مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلیؔ مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ مولانا محمد ظفر اقبال مولانا محمد علی جوہر مولانا محمدراشدشفیع مولانا مصلح الدین قاسمی مولانا نعمان نعیم مومن خان مومن مہندر کمار ثانی میاں شاہد میر امن دہلوی میر تقی میر مینا کماری ناز ناصر کاظمی نثار احمد فتحی ندا فاضلی نشور واحدی نماز وٹس ایپ وزیر آغا وکاس شرما راز ونڈوز ویب سائٹ ویڈیو ٹریننگ یاجوج و ماجوج یوسف ناظم یونس تحسین ITDarasgah ITDarasgah - Pakistani Urdu Family Forum for FREE IT Education ITDarasgah - Pakistani Urdu Forum for FREE IT Education ITDarasgah.com - Pakistani Urdu Forum for IT Education & Information ITDCFED ITDCPD ITDCWSE ITDCXA


🌹 بسْمِ ﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم 🌹
ــــــــــــــــــــــــ

━━❰・ پوسٹ نمبر 71 ・❱━━━

    ثناء ، تشہد ، درودشریف اور تسبیحات کو جہرا پڑھنے پر سجدہ سہو کا حکم
      اگر کسی شخص نے ثناء ، تشہد ، درودشریف یا تکبیرات جہرا پڑھیں تو اگرچہ ایسا کرنا مناسب نہیں ہے ، لیکن اس کی وجہ سے نہ تو نماز فاسد ہوگی اور نہ سجدہ سہو واجب ہوگا۔

وتر میں دعائے قنوت کی تکبیر اور ہاتھ اٹھانے کا حکم
نماز وتر میں دعائے قنوت کے لیے تکبیر کہتے وقت ہاتھ اٹھانا سنت ہے اور تکبیر کہنے کے بارے میں دو اقوال ہیں، بعض حضرات کے نزدیک واجب ہے اور بعض کے نزدیک سنت ، کتاب المسائل میں وجوب کے قول کو اختیار کیا گیا ہے ، لہذا تکبیر رہ جانے کی صورت میں سجدہ سہو کرنا واجب ہے۔

📚حوالہ:
☆ الدرالمختار مع ردالمحتار 2/144      
☆ عالمگیری 1/128
☆ تاتارخانیہ 1/721  
☆ کتاب المسائل 1/334

━━━━━━━━❪❂❫━━━━━━━
▒▓█ مَجْلِسُ الْفَتَاویٰ █▓▒
مرتب:✍  
مفتی عرفان اللہ درویش ھنگو عفی عنہ 
━━━━━━━━❪❂❫━━━━━━━
 




سنتے چلے آئے ہیں کہ آم، گلاب اور سانپ کی طرح عورتوں کی بھی بے شمار قسمیں ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آم اور گلاب کی قسم صحیح اندازہ کاٹنے اورسونگھنے کے بعد ہوتاہے اور اگر مارگزیدہ مرجائے تو سانپ کی قسم کاپتہ چلانابھی چنداں دشوارنہیں۔ لیکن آخر الذکر خالص مشک کی طرح، اپنی قسم کا خود اعلان کر دیتی ہیں۔ ایک بزرگوار، جنہوں نے اپنی عمر اور کمائی ریس کورس اور ’’طواف کوئے ملامت‘‘ میں گنوائی ہے، اکثر کہا کرتے ہیں کہ گھوڑے اور عورت کی ذات کا اندازہ اس کی لات اوربات سے کیا جاتاہے۔ لیکن اس قسم کے مقولوں کی حیثیت ہارے ہوئے جواری کی لفظی پھلجھڑیوں سے زیادہ نہیں جو فضا کو روشن کریں یا نہ کریں، آنکھوں میں کچھ دیرکیلئے ضرور چکا چوند پیدا کر دیتی ہیں۔ پھر اس کے بعد تاریکی کچھ اور زیادہ تاریک معلوم ہوتی ہے۔ گھوڑے اور سانپ کے خصائل کی تصدیق یا تردید کا حق ویسے تو سلوتریوں اور سپیروں کوپہنچتا ہے یا پھر ان حضرات کو جو ڈسے جا چکے ہیں یا دلتی کا ذاتی تجربہ رکھتے ہیں۔ لیکن ہم اتنا ضرور عرض کریں گے کہ ثمر ممنوعہ اگر سانپ کے پھن پر بھی رکھا ہوتا تو وہاں بھی آدم کےحریص ہونٹ بے دھڑک اسے چوم لیتے۔
خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ بات قسموں کی ہورہی تھی اورہم کہنا یہ چاہتے تھے کہ آجکل عورتوں کو دوقسموں میں بانٹا جا سکتا ہے۔ ایک وہ جوموٹی ہیں، دوسرے وہ جو دبلی نہیں ہیں۔ آپ کہیں گے، ’’آخر ان دونوں میں فرق کیا ہوا؟ یہ تو وہی الف دو زبراً اور الف نون زبران والی بات ہوئی۔‘‘ مگر آپ یقین جانئے کہ دونوں قسموں میں دبلے ہونے کی خواہش کے علاوہ اور کوئی بات مشترک نہیں۔ ان کے حدود اربعہ، خط و خال اور نقوش جدا جدا ہیں اور اس میں کاتب تقدیر کی کسی املا کی غلطی کا قطعاً کوئی شائبہ نہیں۔ اصل فرق یہ ہے کہ اول الذکر طبقہ (جو صحیح معنوں میں ایک فرقہ کی حیثیت رکھتا ہے) کھانے کے لئے زندہ رہنا چاہتا ہے۔ دوسرا طبقہ زندہ رہنے کیلئے کھاتا ہے۔ پہلا طبقہ دوا کو بھی غذا سمجھ کر کھاتا ہے اور دوسراطبقہ غذا کو بقدر دوا استعمال کرتا ہے۔ ایک کھانے پر جان دیتا ہے اور دوسرا کھانے کو دوڑ تا ہے۔ وعلیٰ ہذاالقیاس۔ فرق باریک ضرور ہے، لیکن اگر آپ نے کبھی فن برائے فن، زندگی برائے فن، فن برائے زندگی اور زندگی برائے بندگی وغیرہ بحث سنی ہے تو یہ فرق بخوبی سمجھ میں آجائے گا۔ اس مضمون میں روئے سخن دوسرے طبقہ سے ہے جو دبلانہیں ہے مگر ہونا چاہتا ہے۔

زمانہ قدیم میں ایران میں نسوانی حسن کا معیار چالیس صفات تھیں (اگر چہ ایک عورت میں ان کا یکجا ہوناہمیشہ نقض امن کا باعث ہوا) اور یہ مشہور ہے کہ شیریں ان میں سے انتالیس صفات رکھتی تھی۔ چالیسویں صفت کے بارے میں مورخین متفقہ طور پر خاموش ہیں۔ لہذا گمان غالب ہے کہ اس کاتعلق چال چلن سے ہوگا۔ اس زمانے میں ایک عورت میں عموماً ایک ہی صفت پائی جاتی تھی۔ اس لئے بعض بادشاہوں کو بدرجہ مجبوری اپنے حرم میں عورتوں کی تعداد بڑھانی پڑی۔ ہر زمانے میں یہ صفات زنانہ لباس کی طرح سکڑ تی، سمٹتی اورگھٹتی رہیں۔ بالآخر صفات تو غائب ہو گئیں، صرف ذات باقی رہ گئی۔ یہ بھی غنیمت ہے کیونکہ ذات و صفات کی بحث سے قطع نظر یہی کیا کم ہے کہ عورت صرف عورت ہے۔ ورنہ وہ بھی رد ہو جاتی تو ہم اس کا کیا بگاڑ لیتے۔
آج کل کھاتے پیتے گھرانوں میں دبلے ہونے کی خواہش ہی ایک ایسی صفت ہے جو سب خوبصورت لڑکیوں میں مشترک ہے۔ اس خواہش کی محرک دور جدید کی ایک جمالیاتی دریافت ہے، جس نے تندرستی کوایک مرض قرار دے کر بدصورتی اوربدہیئتی سے تعبیر کیا۔ مردوں کی اتنی بڑی اکثریت کو اس رائے سے اتفاق ہے کہ اس کی صحت پر شبہ ہونے لگتا ہے جہاں یرقان حسن کے اجزائے ترکیبی میں شامل ہو جائے اور جسم بیمار و تن لاغر حسن کامعیار بن جائیں، وہاں لڑکیاں اپنے تندرست و تواناجسم سے شرمانے اور بدن چرا کر چلنے لگیں تو تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ یوںسمجھئے کہ حوا کی جیت کا راز آدم کی کمزوری میں نہیں بلکہ خود اس کی اپنی کمزوری میں مضمر ہے۔ اگر آپ کو یہ نچڑے ہوئے دھان پان بدن، ستے ہوئے چہرے اور سوکھی بانہیں پسندنہیں تو آپ یقیناً ڈاکٹر ہوں گے۔ ورنہ اہل نظر تو اب چہرے کی شادا بی کو ورم، فربہی کو جلندھر اور پنڈلی کے سڈول پن کو ’’فیل پا‘‘ گردانتے ہیں۔

آج پھر فرہاد کے ہاتھ میں تیشہ ہے، مگر یہ تیشہ محمود ہے! یا یوں کہیئے کہ جب سے بت شکن نے بت پرستی اور بت تراشی اختیار کی، حسن کا معیار ایسا بدلا کہ جب تک قدیم یونانی مجسموں کے پیچ و خم اور ابھار کو رند ے لگاکر بلیرڈ کی میز کی طرح سپاٹ نہ کردیا جائے، وہ آنکھوں میں کھٹکتے ہیں۔ اجنتا کی تصویریں اور مائیکل انجلو کے مجسمے بھی اسی سلوک یا بدسلوکی کے سزاوار ہیں ان میں بھی ا یک ایسے بھرپور بدن کے خطوط کو ابھارا گیا ہے جو اپنے آپ سے شرمندہ نہیں لیکن جس کی تاب مضمحل بازو اور تھکے ہوئے اعصاب نہیں لا سکتے۔ اس پر عہد مغلیہ کے مشہور شاعر بہاری کا یہ دوہا صادق آتا ہے،
اپنے انگ کے جان کے، یوون نرپت پروین

ستن، من، نین، نتمب کو بڑو ا جا پھا کین
یعنی اپنے روپ کا انگ جان کر جوانی کے ذہین بادشاہ نے سینہ، دل، آنکھوں اور کولہوں میں بڑا اضافہ کیا۔ دیکھا گیا ہے کہ جوانی کا ذہین بادشاہ بسا اوقات ان صنائع بدائع کے استعمال میں فیاضی سے کام لیتا ہے جسکے باعث جمال خود رو کی قطع و برید لازم آتی ہے۔ شکرہے کہ اب حسن خود کو بڑی حد تک ان حشو و زوائد سے پاک کر چکا ہے۔ اب عورت اقلیدس کے خط مستقیم کی مانند ہے جس میں طول ہے عرض نہیں۔

تا ہم بعض رجعت پسندوں کے نزدیک اب بھی مثالی اور متناسب جسم وہ ہے جس میں مندرجہ بالا چار عناصر میں سے پہلے اور چوتھے کا محیط برابر ہو اور کمر کا ناپ ان دونوں سے پندرہ سولہ انچ کم مثلاً 37۔21۔37 انچ۔ کسی ایکٹرس کے جسم کی اس سے بہتر کوئی تعریف نہیں ہوسکتی کہ اسے انگریزی کے 8 ہند سے سے تشبیہ دی جائے۔ یہ اور بات ہےکہ 24 سال کے سن میں جو خاتون 8 کا ہندسہ نظر آتی ہیں وہ 42سال کی عمر میں دو چشمی بن جائیں!
اگلے وقتوں کے لوگوں کے قویٰ بالعموم ان کے ضمیر سے زیادہ قوی ہوتے تھے۔ اس زمانے میں یہ عقیدہ عام تھا کہ دانا مرد، عورتوں کو ’’گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔‘‘ صنف نازک کے باب میں ان کانظریہ کم وبیش وہی تھا جو مرزا غالب کا آم کے متعلق یعنی یہ کہ بہت ہوں! لیکن اب حال یہ ہے کہ جب تک اچھی طرح ناپ تول نہ کر لی جائے کسی کو اپنی آنکھوں پر اعتبارنہیں آتا۔ بدن کی ناپ تول کا حق پہلے صرف درزی اور گور کن کو حاصل تھا، مگر اب دنیا کی ہر خوبصورت عورت کا جغرافیہ جس میں وزن اور محرم کا سائز نمایاں ہیں معلومات عامہ کا جز بن گیا ہے اوربلاشبہ یہ وہ جزہے جو کل پر بھار ی ہے۔

وزن حسن کا دشمن ہے (یاد رکھیئے رائے کے علاوہ ہر وزنی چیز گھٹیا ہوتی ہے) اسی لئے ہر سمجھ دار عورت کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اپنی چربی کی دبیز تہوں کے خول کو سانپ کی کینچلی کی طرح اتار کراپنی عزیز سہیلیوں کو پہنا دے۔ عقد نا گہنانی کے بعد کہ جس سے کسی کو مفر نہیں، ہر لڑکی کا بیشتر وقت اپنے وزن اور شوہر سے جنگ کرنے میں گزرتا ہے۔ جہاں تک زن و شوہر کی جنگ کا تعلق ہے، ہم نہیں کہہ سکتے کہ شہید کون ہوتا ہے اور غازی کون لیکن زن اور وزن کی جنگ میں پلہ فریق اول ہی کابھاری رہتا ہے، اس لئے جیت فریق ثانی کی ہوتی ہے۔ مٹاپے میں ایک خرابی یہ ہے کہ تمام عمر کو گلے کا ہار ہو جاتا ہے اور بعض خواتین گھر کے اندیشوں اورہمسایوں کی خوش حالی سے بھی دبلی نہیں ہوتیں،
’’تن‘‘ کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں

دراصل گرہستی زندگی کی آب و ہوا ہی ایسی معتدل ہے کہ مولسری کا پھول دو تین سال میں گوبھی کا پھول بن جائے تو عجب نہیں۔
مٹاپا عام ہویا نہ ہو، مگر دبلے ہونے کی خواہش جتنی عام ہے اتنی ہی شدید بھی۔ آئینے کی جگہ اب وزن کم کرنے کی مشین نے لے لی ہے۔ بعض نئی مشینیں تو ٹکٹ پر وزن کے ساتھ قسمت کا حال بھی بتاتی ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ کچھ عورتوں کی قسمت کے خانے میں صرف ان کا وزن لکھا ہوتا ہے۔ عورتوں کو وزن کم کرنے کی دواؤں سے اتنی ہی دلچسپی ہے جتنی ادھیڑ مردوں کو یونانی دواؤں کے اشتہاروں سے۔ اگر یہ دلچسپی ختم ہو جائے تو دواؤں کے کارخانوں کے ساتھ ساتھ بلکہ ان سے کچھ پہلے وہ اخبارات بھی بند ہو جائیں جن میں یہ اشتہارات نکلتے ہیں۔ اگر آپ کو آسکر وائلڈ کی رائے سے اتفاق ہے کہ آرٹ کا اصل مقصد قدرت کی خام کاریوں کی اصلاح اور فطرت سے فی سبیل اللہ جہاد ہے، تو لازمی طور پر یہ مانناپڑے گاکہ ہر بدصورت عورت آرٹسٹ ہے۔ اسلئے کہ ہوش سنبھالنے کے بعد اس کی ساری تگ و دو کا منشا سیاہ کو سفیدکر دکھانا، وزن گھٹانا اور ہر سالگرہ پر ایک موم بتی کم کرنا ہے۔ عمر کی تصدیق تو شاید بلدیہ کے ’’رجسٹر پیدائش و اموات‘‘ سے کی جا سکتی ہے لیکن ایک دوسرے کے وزن کے متعلق بھاری سے بھاری بہتان لگایا جاسکتا ہے۔ رائی کا پہاڑ اور گرمی دانے کا مسا بنانا لتری عورتوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ وہ عورت جسے خود اپنی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے نظر نہیں آتے، دوسرے کی جھائیوں پر بے جھجک اپنی بڑے ہوئے ناخن والی انگلی اٹھاتے وقت یہ بھول جاتی ہے کہ ہر گل کے ساتھ خار اورہر منہ پر مہاسا ہوتا ہے۔

عورتیں فطرتاً بہت راسخ العقیدہ ہوتی ہیں اور اپنے بنیادی عقائد کی خاطرعمر بھر سب کچھ ہنسی خوشی برداشت کرلیتی ہیں۔ مثلاً سات نمبر پاؤں میں پانچ نمبر کا جوتا۔ وزن کم کرنے کے لئے کیا کیا جتن نہیں کرتیں۔ غسل آفتابی، جاپانی مالش، یونانی جلاب، انگریزی کھانا، چہل قدمی، ورزش، فاقہ۔۔۔ پہلے چہل قدمی کو لیجئے کہ امرت دھارا کی طرح یہ ہرمرض کی دوا ہے۔ سوکھے ساکھے مرد اپنا وزن بڑھانے اور عورتیں اپنا وزن گھٹانے کے لئے ٹہلتی ہیں۔ جس طرح چائے گرمی میں ٹھنڈک پہنچاتی ہیں اورسردی میں حدت، اسی طرح چہل قدمی دبلے کو موٹا اور موٹے کو دبلا کرتی ہے۔ اگر ہماری طرح آپ کو بھی الفنسٹن اسٹریٹ پر ٹہلنے کا شوق ہے تو آپ نے بعض میاں بیوی کوان مختلف بلکہ متضاد عزائم کے ساتھ پابندی سے ’’ہوا خوری‘‘ کرتے دیکھا ہوگا۔ عورتوں کا انجام ہمیں معلوم نہیں لیکن یہ ضرور دیکھا ہے کہ بہت سے ہوا خور رفتہ رفتہ ’’حوا خور‘‘ ہو جاتے ہیں۔
جو عورتیں دواؤں سے پرہیز کرتی ہیں، وہ صرف ورزش سے خود کو ’’سلم‘‘ رکھ سکتی ہیں۔ ’’سلمنگ‘‘ کے موضوع پر عورتوں کی رہبری کیلئے بے شمار با تصویر کتابیں ملتی ہیں جن کے مضامین عورتیں پڑھتی ہیں اور تصویروں سے مرد جی بہلاتے ہیں۔ ان میں بتایا جتا ہے کہ مرد کاٹھ کے پتلے کی مانند ہے، لیکن عورت موم کی طرح نرم ہے۔ چنانچہ مرد کوہر سانچے میں ڈھال سکتی ہے۔ پھراسکے اپنے گوشت پوست میں قدرت نے وہ لوچ رکھا ہے کہ،

سمٹے تو دل عاشق، پھیلے تو زمانہ ہے
چنانچہ ہرعضو بدن کے لئے ایک علاحدہ ورزش ہوتی ہے۔ مثلاً دوہری ٹھوڑی کو اکہری کرنے کی ورزش 51 انچ کو 15 انچ بنانے کی کسرت۔ ہاتھ پاؤں ہلائے بغیر غذا ہضم کرنے کی ترکیب۔ شرعی عیوب کا ہپناٹزم سے علاج وغیرہ۔ توند کیلئے ماہرین کا خیال ہے کہ سیاست داں کے ضمیر کی مانند ہے۔ اس کی لچک کو ذہن نشین کرانے کی غرض سے وہ اکثر اسے مولوی اسماعیل میرٹھی کے ’وقت ‘سے تشبیہ دیتے ہیں جس کے متعلق وہ کہہ گئے ہیں کہ،

وقت میں تنگی فراخی دونوں ہیں جیسے ربڑ
کھینچنے سے کھنچتی ہے، چھوڑے سے جاتی ہے سکڑ

حق تو یہ ہے کہ جدید سائنس نے اس قدر ترقی کرلی ہے کہ دماغ کے علاوہ جسم کا ہر حصہ حسب منشا گھٹایا اور بڑھایا جاسکتا ہے۔
یہی حال عورتوں کے رسالوں کاہے۔ ان کے (رسالوں کے) تین ٹکڑے کئے جا سکتے ہیں۔ اول: آزادیٔ اطفال اور شوہر کی تربیت و نگہداشت۔ دوم: کھانا پکانے کی ترکیبیں۔ سوم کھانا نہ کھانے کی ترکیبیں۔ ان مضامین سے ظاہر ہوتا ہے کہ تشخیص سب کی ایک ہی ہے۔ بس نسخے مختلف ہیں۔ پرہیز بہر صورت یکساں! اس امر پر سب متفق ہیں کہ افزائش حسن کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ایسی غذا کھائی جائے جس سے خون صالح نہ پیدا ہو اورجو جز وبدن نہ ہو سکے۔ ہماری رائے میں کسی پڑھی لکھی عورت کے لئے اس سے سخت اور کونسی سزا ہو سکتی ہے کہ اسے چالیس دن تک اس کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھلایاجائے۔ دبلے ہونے کا اس سے بہتر اور زوداثر طریقہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔

رسالوں کے اس حصے میں تاریخی ناولوں کا چٹخارہ اور یونانی طب کی چاشنی ہوتی ہے، اس لئے نہایت شوق سے پڑھا جاتا ہے۔ چند عنوانات اور ٹوٹکے بطور نمونہ پیش کئے جاتے ہیں۔
زلیخا حضرت یوسف کے پیچھے دوڑنے کی وجہ سے دوبارہ جوان ہوئی! قلو پطرہ کے نازک اندام ہونے کا راز یہ ہے کہ وہ نہار منہ مصری تربوز کا پانی اور رعیت کاخون پیتی تھی۔ ملکہ الزبتھ اسلئے دبلی تھی کہ میری آف اسکاٹ نے اس کا موم کا پتلا بنا رکھا تھا جس میں وہ چاندنی رات میں سوئیاں چبھویا کرتی تھی۔ کیتھرین، ملکہ روس کے’سلم‘ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہ رات کو روغن قاز مل کر سوتی تھی۔ ملکہ نور جہاں بیگن پر جان دیتی تھی۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ بیگن کے سر پر بھی تاج ہوتا ہے، بلکہ اس میں کوئی پروٹین نہیں ہوتی۔ ملکہ ممتاز محل اورتاج محل کی خوبصورتی کاراز ایک ہی ہے۔ سفید رنگ! ایکٹرس آڈرے ہیپ برن اسلئے موٹی نہیں ہوتی کہ وہ ناشتے میں نشاستے سے پرہیزکرتی ہے اور پھیکی چائے پیتی ہے جس سے چربی پگھلتی ہے۔

چائے کی پتی سے گھٹ سکتا ہے عورت کا شکم
دبلے آدمی کینہ پرور، سازشی اور دغا بازہوتے ہیں۔ یہ ہماری نہیں بلکہ جولیس سیزر کی رائے ہے جس نے ایک مریل سے درباری کی ہاتھوں قتل ہو کر اپنے قول کو سچا کردکھایا۔ گو کہ ہمارے موزے کا سائز صرف گیارہ اور بنیان کاچونتیس ہے لیکن ہمیں بھی اس نظریہ سے اتفاق ہے کیونکہ ہم نے دیکھا ہے کہ موٹی عورتیں فطرتاً ملنسار، ہنس مکھ اور صلح پسند ہوتی ہیں۔ وہ نہ خودلڑتی ہیں اور نہ مرد ان کے نام پر تلوار اٹھاتے ہیں ممکن ہے کوئی صاحب اس کایہ جواز پیش کریں کہ چونکہ ایسی گج گامنی کی نقل وحرکت بغیر جر ثقیل کے ممکن نہیں لہذا وہ نہ ڈٹ کر لڑ سکتی ہے اور نہ میدان چھوڑ کر بھاگ سکتی ہے۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ آج تک کسی موٹی عورت کی وجہ سے کوئی جنگ نہیں ہوئی۔

خدا نخواستہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم حسن میں ہارس پاور کے متلاشی ہیں اور اکھاڑے کی رونق کو چھپر کھٹ کی زینت بنانے کی سفارش کر رہے ہیں۔ ہمارے ذہن میں حسن بے پروا کا یہ سراپا نہیں کہ ہر خط بدن ایک دائرہ بنا رہاہے۔ پیٹ پر ٹائر بندھا ہوا ہے۔ چہرے سے لگتا ہے کہ ابھی ابھی بھڑوں نے کاٹا ہے۔ اگر یہ صحیح ہے کہ اس بچاری کا سینہ ارمانوں کامدفن ہے تو یہ صاف ظاہر ہے کہ مرحومین کی تعداد کچھ زیادہ ہی تھی۔ کھلے ہوئے گلے کے بلاؤز کا یہ عالم کہ کوئی شیرخوار بچہ دیکھ پائے تو بلبلااٹھے۔ تنگ پوشی کا یہ حال کہ کوزے میں دریا بلکہ پہاڑ بند۔ ٹانگیں جیسے بوڑھے ہاتھی کی سونڈ جن پر غرارہ بھی چوڑی دار پاجامہ معلوم ہوتا ہے۔
ایسی ہی چوڑی چکلی خاتون کا لطیفہ ہے کہ انہوں نے بس ڈرائیور سے بڑی لجاجت سے کہا، ’’بھیا! ذرا مجھے بس سے اتر وادے۔‘‘ ڈرائیور نے مڑ کر دیکھا تو اس کا چہرہ فرشتوں کی طرح تمتما اٹھا۔ ان فرشتوں کی طرح جنہوں نے بار خلافت اٹھانے سے انکار کردیا تھا۔ پھرخود ہی بولیں، ’’میری عادت ہے کہ دروازے سے الٹی اترتی ہوں مگر تمہارا الٹی کھوپڑی کا کنڈکٹر سمجھتا ہے کہ چڑھ رہی ہوں اور ہر دفعہ زبر دستی اندر دھکیل دیتا ہے۔ تین اسٹاپ نکل گئے۔‘‘

ہم یہاں یہ پر چار نہیں کر رہے کہ حسن اور وزن میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اس لئے اب خود اس مثالی رشتے کے بند ٹوٹ چکے ہیں۔ ہم تو صرف قارئین کرام کو اطمینان دلانا چاہتے ہیں کہ تندرستی کوئی لاعلاج نسوانی مرض نہیں ہے۔ ہمیں کمزوری میں جب تک وہ اخلاقی نہ ہو، بظاہر کوئی دلکشی نظر نہیں آتی۔ اسی طرح فاقہ کشی صرف دو صورتوں میں جائز ہے۔ کسی شرعی ضرورت یا بطور ستیہ گرہ۔ مگر وزن گھٹانے کی غرض سے جو فاقہ کشی کی جاتی ہے اس کی محرک کوئی روحانی حاجت یا سیاسی مصلحت نہیں بلکہ خدائے مجازی کی پسند ہے۔ اس پیکر تصویر کے خطوط کی بے کیف سادگی اور پھیکا پن مردکے عجز تصور کے فریادی ہیں۔ یہ کہنا تو زیادتی ہوگی کہ حسن بیمار کے پیچھے ایک چھکے چھکائے تھکے ہوئے حسن پرست کی جنسی اکتاہٹ کار فرما ہے۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ مرد کی پسند وہ پل صرا ط ہے جس پر کوئی موٹی عورت نہیں چل سکتی۔

تحریر: مشتاق احمد یوسفی 


 ہم سب اچھی نیند کیسے حاصل کر سکتے ہیں جو ہماری کارکردگی کو بہتر بنا سکے؟


نیکول بیکر ان بہت سے لوگوں میں سے ایک ہیں جو کورونا وائرس کی وبا کے آغاز سے ’انسومنیا‘ یعنی نیند نہ آنے کے مرض میں مبتلا ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’پہلے میری یہ عادت تھی کہ میں ہر روز رات نو بجے سو جاتی تھی مگر اب میں رات تین بجے بھی جاگ رہی ہوتی ہوں۔ یہ تھکا دینے والی اور پریشان کُن صورتحال ہے کیونکہ اس کے باعث مجھے دن بھر کام کرنے میں مشکل ہوتی ہے۔‘

نیکول بیکر ایک کمپنی میں کوارڈینیٹر کے طور پر کام کرتی ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ اُن کے نیند کے مسائل کی بنیادی وجہ بڑھتی ہوئی بے چینی ہے۔

’میرے خیال میں کووڈ سے ہونے والی اموات، اپنی نوکری، خاندان، آمد ورفت پر پابندیوں اور مستقبل کے بارے میں عدم اعتماد کی وجہ سے میرے ذہن پر بہت دباؤ پڑا ہے۔ میرا ذہن ہر وقت دوڑ رہا ہوتا تھا اور زندگی کے بارے میں چوبیس گھنٹے سوچتا رہتا ہے جس کی وجہ سے میں سو نہیں پا رہی تھی۔‘

یونیورسٹی آف ساؤتھ ہیمٹن کی ایک تحقیق کے مطابق برطانیہ میں انسومنیا کے مریضوں کی تعداد بڑھی ہے۔ پہلے ہر چھ میں سے ایک شخص کو یہ بیماری لاحق تھی مگر اب یہ شرح ہر چار میں ہے ایک ہے۔

ادھر امریکہ میں سنہ 2020 میں گوگل پر لفظ انسومنیا تاریخ میں سب سے زیادہ دفعہ ڈھونڈا گیا ہے۔

کورونا وائرس کی وبا کے دوران نیند کے مسائل کی وجہ بے چینی کے علاوہ لوگوں کی روزمرہ زندگی کے ربط میں زبردستی تبدیلیاں اور سماجی عناصر میں کمی کو کہا جا رہا ہے۔

کیونکہ تھکا ہوا سٹاف کم کارآمد ہوتا ہے اس لیے متعدد کمپنیاں اپنے ملازمین کو بہتر اور زیادہ نیند دینے کے لیے کوشاں ہیں۔ نیکول بیکر کی کمپنی ایم وی ایف بھی ایسی ہی ایک کمپنی ہے۔ جب کورونا وائرس کی وبا شروع ہوئی تو ایم وی ایف نے ملازمین کی بہتری کے لیے ذہنی صحت سے متعلق سیشن کیے اور میڈیٹیشن ایپ ’ہیڈ سپیس‘ کی مفت سبسکرپشن دی۔

نیکول کہتی ہیں اس سب نے انھیں انسومنیا کا مقابلہ کرنے میں مدد کی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ان وسائل سے مجھے یہ پہچاننے میں مدد ملی کہ وبا نے مجھے کیسے متاثر کیا ہے اور مجھے ذہنی سکون ملا۔‘

کیٹی فشر ایک سلیپ کوچ ہیں اور ’سرکیڈین سلیپ کوچنگ‘ کی بانی ہیں۔ وہ مختلف کمپنیوں کے ساتھ کام کرتی ہیں تاکہ ان کے ملازمین کی مدد کی جا سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن میں گھروں میں بند رہنے کی وجہ سے لوگوں کی نیند متاثر ہوئی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’بہت سے لوگ گھروں میں رہنے کی وجہ سے صبح دیر تک سوتے ہیں۔ وہ ورزش کم کرتے ہیں اور انھیں تھکاوٹ دور کرنے کا موقع نہیں ملتا۔‘

’دفتر نہ جانے سے وقت کا احساس، جو دن کا ربط چلاتا ہے، متاثر ہوتا ہے۔‘

ایڈورٹائزنگ کی عالمی کمپنی گروپ ایم کے ساتھ بھی کیٹی کام کرتی ہیں۔ گروپ ایم پہلے ہی نومولود بچوں کے والدین کے لیے نیند کے لیے کوچنگ کی ورک شاپس اپنے ملازمین کو فراہم کرتا تھا۔ وبا کے دوران انھوں نے اپنی یہ سروس تمام ملازمین کو فراہم کی ہے۔ اپنے سیشنز میں کیٹی لوگوں کی صحت کا جائزہ لیتی ہیں، ان کے ذاتی حالات اور نیند میں کمی کی وجوہات پرکھتی ہیں اور ان مسائل کے حل تجویز کرتی ہیں۔

گروپ ایم کی جینیفر ہارلی کہتی ہیں کہ نیند سے متعلق سپورٹ ان کے کاروبار کے لیے اہم ہے۔ ’جب ہم کافی نیند نہیں کرتے تو ہم اپنا کام بہترین انداز میں نہیں کرتے، اسی لیے ہمیں نیند میں بہتری کے معاملے میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ کاروباروں کو چاہیے کہ وہ اس بات کے اثرات جائزہ لیں کہ اُن کے ملازمین کتنے صحتمند خوش اور نیند پوری کیے ہوئے ہیں۔‘

رینڈ گروپ کی تحقیق کے مطابق کورونا وائرس کی وبا سے پہلے بھی ناکافی نیند کی وجہ سے کام صحیح سے نہ ہونے کی وجہ سے برطانوی معیشت کو 40 ارب پاؤنڈ کا نقصان ہوتا تھا۔

اب جیسے جیسے بہت سے کاروبار لوگوں کو گھروں سے کام کرنے دے رہے ہیں کیٹی فشر کا کہنا ہے کہ کمپنیوں کو چاہیے کہ وہ وقتاً فوقتاً اپنے ملازمین کو چیک کرتے رہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ کمپنیوں کو چاہیے کہ وہ دفتری اور گھریلو زندگی میں توازن رکھیں اور جو لوگ گھروں سے کام کر رہے ہیں ان کو ایک متواتر روٹین رکھنے کو کہیں۔

وہ لوگوں کو یہ تجویز بھی دیتی ہیں کہ وہ صبح اٹھنے کا ایک وقت رکھیں چاہے وہ گھر سے کام کر رہے ہیں یا دفتر سے۔

میکس کرسٹن ایک ہپنو تھراپسٹ اور سلیپ کوچ ہیں۔ ان کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے دوران لوگوں میں کچھ بری عادتیں پیدا ہو گئیں ہیں جیسے کہ فون پر بہت زیادہ وقت ضائع کرنا جو کہ ان کی نیند کے ربط کو خراب کر رہا ہے۔

’لوگ اپنے کام کی سکرین سے اپنے تقریحی وقت میں دوسری سکرینوں پر جا رہے ہیں اور پھر سونے کے وقت بھی ان کے پاس ایک سکرین ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بے وقتی کافی یا شراب بھی مسائل پیدا کر رہے ہیں۔‘

برطانیہ میں ایسوسی ایشن فار ڈی سنٹرلائزڈ ایینرجی (اے ڈی ای) نے میکس کرسٹن کو اپنے ملازمین میں نیند کے مسائل کے حل کے لیے رکھا۔ اے ڈی ای میں آپریشنز کی سربراہ لیلی فرنچمن کا کہنا ہے کہ ’اگر کسی کو نیند کے مسائل ہو رہے ہیں تو میں اس کی ضرور سنوں گی۔ کیونکہ اس کا مطلب ہے کچھ کام نہیں کر رہا ہے۔ چاہے وہ دفتری ہے یا ذاتی مسئلہ ہے، اس شخص کو سپورٹ چاہیے۔‘

میکس کرسٹن کا کہنا ہے کہ ’نیند کو کبھی بھی مشکل کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ یہ وہ ستون ہے جو آپ کی کارکردگی بہتر کرتا ہے۔‘


 سورہ یونس آیت نمبر 43

بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے

 ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 درسِ قرآن 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼

وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّنْظُرُ اِلَیْكَ١ؕ اَفَاَنْتَ تَهْدِی الْعُمْیَ وَ لَوْ كَانُوْا لَا یُبْصِرُوْنَ

 ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 ترجمہ 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼

اور ان میں سے کچھ وہ ہیں جو تمہاری طرف دیکھتے ہیں (مگر دل میں انصاف نہ ہونے کی وجہ سے وہ اندھوں جیسے ہیں) تو کیا تم اندھوں کو راستہ دکھاؤ گے، چاہے انہیں کچھ بھی سجھائی نہ دیتا ہو ؟ (23)

 ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 تفسیر🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼

23: آنحضرت ﷺ کو اپنی امت پر جو غیر معمولی شفقت تھی اس کی وجہ سے آپ اکثر اس بات سے غمگین رہتے تھے کہ یہ کافر لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے، یہ آیت آپ کو تسلی دے رہی ہے کہ آپ اسی شخص کو راہ راستہ پر لاسکتے ہیں جو دل میں حق کی طلب رکھتا ہو۔ لیکن جن لوگوں میں اس طلب کا فقدان ہے، ان کی مثال تو بہروں اور اندھوں کی سی ہے کہ آپ کتنا ہی چاہیں، نہ انہیں کوئی بات سنا سکتے ہیں، نہ کوئی راستہ دکھا سکتے ہیں۔ ان کی ذمہ داری آپ پر نہیں، خود انہی پر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر کوئی ظلم نہیں کیا۔ بلکہ یہ خود اپنے اوپر ظلم کر رہے ہیں کہ دوزخ کا راستہ اپنا رکھا ہے۔



🌹 بسْمِ ﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم 🌹
ــــــــــــــــــــــــ

━━❰・ پوسٹ نمبر 70 ・❱━━━

    نماز میں قعدہ اولی کو سہوا ترک کرنے کا حکم
        نماز میں قعدہ اولی یعنی دوسری رکعت میں بیٹھنا اور تشہد پڑھنا دونوں واجب ہیں، اگر کوئی نمازی بھول سے قعدہ اولی کرنے کے بجائے کھڑا ہوگیا تو جب تک کھڑے ہونے کے قریب نہ ہو لوٹ آئے ، اور اس صورت میں سجدہ سہو بھی لازم نہیں، لیکن اگر نہیں لوٹا یا کھڑے ہونے کے بعد لوٹا تو آخر میں سجدہ سہو کرنا لازم ہے ، خواہ فرض نماز ہو یا سنت یا نفل۔

📚حوالہ:
☆ الدرالمختار مع ردالمحتار 2/555      
☆ عالمگیری 1/127
☆بحر الرائق 2/95  
☆بدائع الصنائع 1/399  
☆ کتاب المسائل 1/333
━━━━━━━━❪❂❫━━━━━━━
▒▓█ مَجْلِسُ الْفَتَاویٰ █▓▒
مرتب:✍  
مفتی عرفان اللہ درویش ھنگو عفی عنہ 
━━━━━━━━❪❂❫━━━━━━━
 

 


کافری میں بھی جو چاہت ہوگی
کچھ تو ایماں کی شباہت ہوگی

حشر ہے وعدۂ فردا تیرا
آج کی رات قیامت ہوگی

پوچھا پھر ہوگی ملاقات کبھی
پھر مرے حال پہ شفقت ہوگی

کس صفائی سے دیا اس نے جواب
دیکھا جائے گا جو فرصت ہوگی

خاک آسودہ غریبوں کو نہ چھیڑ
ایک کروٹ میں قیامت ہوگی

آپ کے پاؤں کے نیچے دل ہے
اک ذرا آپ کو زحمت ہوگی

ہر نفس اتنی ہی لو دے گا سراجؔ
جتنی جس دل میں حرارت ہوگی

کلام: سراج لکھنوی



 🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر پینسٹھ - آخری قسط⛔🌈☠️🏡

الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی  و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سلطان محمد کا وزیراعظم ابونصر احمد مغرب کی نماز مسجد میں پڑھ کر واپس گھر آ رہا تھا جب اس نے اپنے گھر کے احاطے کے باہر والے دروازے کے سامنے ابن مسعود اور زریں کو گھوڑوں سے اترتے دیکھا اور دربان انکی طرف چلا کہ وہ ان سے پوچھے کہ وہ کون ہیں اور کیوں آئے ہیں، ابونصر احمد تو ابن مسعود کو دیکھ کر دوڑ ھی پڑا اور دوسرے لمحے دونوں ہی جذباتی اور پرتپاک انداز سے بغل گیر ہو گئے۔
اپنی بہن کو لے آیا ہوں ۔۔۔ابن مسعود نے وزیراعظم سے الگ ہوتے ہوئے زریں کی طرف اشارہ کیا اور کہا۔۔۔۔ آپ شاید حیران ہوتے ہونگے کہ میں بہن کو الموت سے نکال کر کس طرح لایا ہوں ،یہ بیٹھ کر سناؤں گا۔
ابونصر دونوں کو اندر لے گیا اور دربان سے کہا کہ گھوڑوں کو اصطبل میں رکھا جائے، مکان کے اندر جاکر زریں کو ابو نصر احمد نے زنانہ حصہ میں بھیج دیا اور گھر میں کہا کہ یہ اس کے خاص مہمان ہیں۔
ان مہمانوں کو غسل کرایا گیا اور زریں نے عورتوں کے ساتھ اور ابن مسعود نے ابو نصر احمد کے ساتھ کھانا کھایا اور پھر الگ بیٹھ کر باتیں کرنے لگے، ابونصر تو ابن مسعود کو دیکھ کر اس قدر خوش ہوا کہ وہ بار بار خوشی کا اظہار کرتا تھا۔
محترم وزیراعظم!،،،،،، ابن مسعود نے کہا۔۔۔۔ اللہ کے فضل و کرم سے آپ الموت لے لیں گے، میں آپ کی پوری پوری مدد کروں گا اس کے عوض آپ مجھے میری بہن دے دیں۔
بہن دے دیں!،،،،، ابو نصر احمد نے حیرت زدہ لہجے میں کہا۔۔۔ ہاں تم اپنی بہن کو لے تو آئے ہو۔
ہاں محترم وزیراعظم !،،،،،،ابن مسعود نے کہا۔۔۔ میں بہن کو لے تو آیا ہوں لیکن یہ ایسے نشے سے سرشار ہے کہ بہن بھائی کے رشتے کے تقدس کو بھول بیٹھی ہے،،،،، جس طرح وسم کوہ میں مجھے طبیب نے ابلیسیت سے نکال کر انسانیت کے درجے میں کھڑا کردیا تھا اسی طرح میری بہن کو انسانیت کی عظمت عطا ہوجائے تو میں اسے اپنے اوپر بہت بڑا احسان سمجھوں گا۔
ابن مسعود نے تفصیلاً بتایا کہ اس کی بہن ابھی کس ذہنی کیفیت میں ہے، اور جب یہ دونوں بہن بھائی حسن بن صباح کی جنت میں تھے تو ان کا آپس میں کیا تعلق تھا،،،،،، ابونصر احمد دانشمند وزیر تھا، وہ ساری بات سمجھ گیا اور اس نے کہا کہ وہ کل صبح ہی زریں کو طبیب کے حوالے کر دے گا ،اور کچھ دنوں بعد ابن مسعود اپنی بہن کو اس روپ میں دیکھے گا جس میں وہ اسے دیکھنا چاہتا ہے۔
ابن مسعود نے ابو نصر احمد کو پوری تفصیل سے سنایا کہ وہ کس طرح حسن بن صباح کے پاس پہنچا تھا ،کیا جھوٹ بولے تھے اور اسے کیا فریب دیئے تھے، اور پھر اسے حیدر بصری اور خزانے کا قصہ سنایا ،ابن مسعود کو خزانے کی حقیقت معلوم نہیں تھی اس نے ابو نصر احمد کو یہ بھی بتایا کہ وہ اپنی بہن کو وہاں سے کیا کہہ کر ساتھ لایا ہے، راستے میں اس نے اپنے دو ساتھیوں کو جس طرح قتل کیا تھا وہ بھی سنایا۔
میں اب ایک ہی بات سننا چاہتا ہوں۔۔۔ ابونصر احمد نے کہا۔۔۔ میں کب الموت پر حملہ کروں، حملے اور محاصرے کے وقت تمہیں الموت میں ہونا چاہیے۔
محترم وزیر اعظم !،،،،،ابن مسعود نے کہا۔۔۔ میں کل صبح وسم کوہ کو روانہ ہو جاؤں گا، مزمل آفندی اور بن یونس میرے ساتھ الموت جائیں گے ،خطرہ صرف مزمل آفندی کے متعلق ہے کہ حسن بن صباح اسے پہچان لے گا، لیکن ایسا نہیں ہوگا وہ تو پندرہ سولہ سال پہلے کا واقعہ ہے کہ مزمل اسکے پاس کچھ دن رہا تھا ،اس اتنے لمبے عرصے میں سینکڑوں مزمل آفندی اس کی نظروں سے گزر چکے ہیں، حسن بن صباح میں اب وہ پہلے والی بات نہیں رہی،،،،، بہرحال میں نے کل صبح روانہ ہو جانا ہے۔ دنوں کا حساب کر لیں وہاں جاتے ہی ان دونوں کو ساتھ لے کر الموت روانہ ہو جاؤں گا ،اور کچھ دنوں بعد آپ یہاں سے کوچ کریں اور الموت کو محاصرے میں لے لیں، ہم دریا والا دروازہ کھولیں گے اور آپ کو مشعل کا اشارہ بھی دے دیں گے، اندر ہمیں موقع ملا تو حسن بن صباح کو قتل بھی کر دیں گے، لیکن یہ ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ وہ اکیلا باہر نکلتا ہی نہیں۔
انہوں نے ضروری تفصیلات طے کر لیں اور وہ سو گئے،،،،،، صبح اس وقت ابن مسعود جاگ اٹھا جب صبح ابھی تاریک تھی ،وہ جانے کے لیے تیار ہوا اور اپنی بہن سے ملے بغیر وسم کوہ کو روانہ ہوگیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ابن مسعود وسم کوہ پہنچا تو سالار اوریزی، مزمل آفندی اور بن یونس نے اس کا ویسا ہی پرتپاک اور پرجوش خیر مقدم کیا جیسا ابو نصر احمد نے کیا تھا، وہ سب حیران تھے کہ یہ سابق فدائی زندہ اور سلامت حسن بن صباح کے ہاتھوں سے نکل آیا ہے، اس نے جب سنایا کہ وہ حسن بن صباح کے ہاتھوں سے نہ صرف نکل آیا ہے بلکہ اسے ایسا دھوکا دیا ہے کہ وہ حسن بن صباح کا قابل اعتماد آدمی بن گیا ہے اور اب وہ واپس جائے گا تو حسن بن صباح دریا والا دروازہ اس کی ذمہ داری میں دے دے گا۔
وہ جب یہ تفصیلات سنا رہا تھا تو یہ تینوں اسے اس طرح حیران و پریشان ہو کر دیکھ رہے تھے کہ کوئی انسان اس قدر دانشمند بھی ہو سکتا ہے کہ ایسی فریب کاریاں کر لے کہ اُس فریب کار کو بھی انگلیوں پر نچا دے جو نبی بھی بن گیا تھا اور امام بھی اور لوگوں نے اس کے آگے سجدے کرنے شروع کر دیے تھے۔
وہ نہیں جانتے تھے کہ اللہ تبارک و تعالی نے انسان کو بہت بڑی قوت عطا فرمائی ہے، اس قوت پر اختیار بھی انسان کو دے دیا ہے ،اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ اس قوت سے عرش بریں کا فرشتہ بن جائے یا روئے زمین کا ابلیس ہو جائے۔
ابن مسعود نے اصل بات چھیڑی اور کہا کہ مزمل آفندی اور بن یونس اس کے ساتھ الموت چلیں، وہ تو پہلے ہی تیار بیٹھے تھے اور انہوں نے اسی کو زندگی کا مقصد بنا رکھا تھا کہ الموت کو فتح کرکے وہاں سے ابلیسیت کا نام و نشان مٹانا ہے، اور حسن بن صباح کو قتل کرنا ہے، بات اس خطرے کی ہوئی کہ حسن بن صباح مزمل آفندی کو پہچان لے گا، لیکن ابن مسعود کہتا تھا کہ حسن بن صباح اتنی لمبی مدت بعد مزمل کو نہیں پہچان سکے گا۔
ابن مسعود نے یہ بھی کہا کہ وہ کوشش کرے گا کہ  مزمل اور بن یونس حسن بن صباح کے سامنے جائیں ہی نہیں، اس طرح کچھ ضروری تفصیلات طے کرکے مزمل اور بن یونس اس کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہوگئے۔
اگلی صبح تینوں روانہ ہوگئے، مزمل آفندی اور بن یونس نے کوئی بھیس نہ بدلا نہ وہ کسی بہروپ میں گئے وہ جیسے تھے ویسے ہی چل پڑے، ابن مسعود کو اپنی عقل اور اپنی خداداد صلاحیتوں پر اتنا اعتماد تھا کہ وہ یقین کے ساتھ کہتا تھا کہ وہ ان دونوں کو محفوظ رکھے گا اور اتنا آزاد کے اندر یہ جو بھی کاروائی ضروری سمجھیں گے کر سکیں گے، ابن مسعود کا ایمان بیدار ہوچکا تھا اور اس کی یہ کامیابی ایمان کی قوتوں کی حاصل تھی۔
بڑی لمبی مسافت طے کرکے وہ الموت پہنچے ،مزمل اور بن یونس کو ابن مسعود نے حسن بن صباح کے مہمان خانے میں بھیج دیا اور خود حسن بن صباح کے پاس چلا گیا، حسن بن صباح نے اس سے پوچھا کہ وہ کیا کر آیا ہے۔
یا شیخ الجبل!،،،،،، ابن مسعود نے کہا ۔۔۔میں بات مختصر کروں گا اور وہی بات کروں گا جو شیخ الجبل کے لئے اہم ہے،،،،، الموت پر حملہ نہیں روکا جاسکے گا ،میں وہاں پہنچا تو فوج کو تیاری کا حکم مل چکا تھا، حملے کی قیادت وزیر اعظم ابو نصر احمد خود کرے گا۔
 میں اپنی بہن کو ایوان سلطنت میں قابل اعتماد ساتھیوں کے حوالے کر آیا ہوں، جہاں وہ نہ صرف یہ کہ محفوظ رہے گی بلکہ اپنی کاروائی آزادی سے اور آسانی سے کرتی رہے گی۔
میں نے بہن کو جس آدمی کے حوالے کیا ہے وہ اسی انتظار میں تھا کہ اسے زریں جیسی ہی ایک لڑکی مل جائے تو وہ ان سلطانوں کا تختہ الٹ سکتا ہے ،اس نے کہا کہ ابو نصر احمد کو شیشے میں اتارنا کوئی مشکل نہیں، لیکن ابھی اسے حملے سے نہیں روکا جا سکتا کیونکہ سلطان محمد کوچ کا حکم دے چکا ہے۔
سلجوقی فوج کی نفری کتنی ہوگی ؟،،،،حسن بن صباح نے پوچھا۔
چالیس اور پچاس ہزار کے درمیان ہوگی۔۔۔ ابن مسعود نے جواب دیا۔۔۔ اس فوج کے پاس منجنیقیں بھی ہوں گی ،لیکن انہیں میں نے مرو میں دیکھ کر حساب کیا ہے کہ ان کے پھینکے ہوئے پتھر شہر کے اندر نہیں پہنچ سکیں گے، کیونکہ الموت چٹان کے اوپر ہے، اور پتھر اتنی بلندی تک نہیں آ سکیں گے، میں آپ کو یہ بھی بتا دیتا ہوں یا شیخ الجبل یہ فوج الموت کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے گی آنے دیں محاصرہ بری طرح ناکام ہوگا۔
سلطان محمد احمق آدمی ہے۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ اور اس کا یہ وزیراعظم ابونصر احمد اس سے بھی زیادہ احمق معلوم ہوتا ہے، وہ موسم کے تیور کو دیکھ ہی نہیں رہے، تم باہر نکل کر دیکھنا پہاڑوں پر برف پڑنی شروع ہوگئی ہے، ایک دو چاند اور طلوع اور غروب ہوں گے تو برف باری یہاں تک بھی پہنچ جائے گی، ہم یہاں اندر آرام سے بیٹھے رہیں گے اور سلجوقیوں کے محاصرے کو برفباری ہی توڑ کر منجمد کردے گی۔
ابن مسعود نے یہ سنا تو پریشان ہو گیا ،اسے خیال آیا کہ ابو نصر احمد بڑے ہی جوش وخروش سے حملے کی باتیں کر رہا تھا اور اس نے نہایت اچھی چالیں بھی سوچ رکھی تھیں، لیکن اس نے موسم کی طرف دھیان دیا ہی نہیں تھا، یہ تو تاریخ سے بھی پتہ چلتا ہے کہ ابو نصر احمد جذباتی وزیراعظم تھا، بے شک وہ مرد مومن تھا اور الموت پر قبضہ کا مقصد یہ نہیں سمجھتا تھا کہ اپنی سلطنت کو وسعت دینی ہے، بلکہ وہ ابلیسیت کا خاتمہ چاہتا تھا ،لیکن جذبات سے مغلوب ہو کر سوچنے والوں کے مقاصد اکثر پورے نہیں ہوا کرتے۔
ابن مسعود کے پاس اب کوئی ذریعہ اور طریقہ نہ تھا کہ وہ مرو پیغام بھیجتا کہ کوچ ملتوی کردو ،کیوں کہ تین چار مہینوں تک برفباری جاری رہے گی ،اسے ایسی امید تھی ہی نہیں کہ تین چار مہینوں کے اندر اندر قلعہ سر ہو جائے گا، ابھی تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ مرو سے فوج کب کوچ کرے گی۔
یا شیخ الجبل!،،،،، ابن مسعود نے حسن بن صباح کو مزید چکر دینے کے لیے کہا ۔۔۔میں نے ایک بڑی خطرناک بات دیکھی ہے، ہمارے جو آدمی مرو میں ہیں ان میں کچھ بددلی پیدا ہوگئی ہے، اور مجھے شک ہونے لگا ہے کہ ہمارے کچھ آدمی غداری پر اتر آئے ہیں، اور ان کی وفاداریاں مشکوک ہوگئی ہیں، ایوان سلطنت میں جس کے حوالے میں اپنی بہن کر آیا ہوں وہ بالکل صحیح آدمی ہے، وہ بھی کہتا تھا کہ اب اپنے آدمیوں پر پوری طرح اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔
یہ ابن مسعود کا ایک نفسیاتی وار تھا جو اس نے حسن بن صباح کو کمزور کرنے کے لیے کیا تھا، اس کا خیال یہ تھا کہ حسن بن صباح اپنے ان فدائیوں پر اعتماد کرنا چھوڑ دے جنہیں اس نے سلطنت سلجوقیہ کے بڑے بڑے شہروں میں پھیلا رکھا تھا، حسن بن صباح کو اپنی اسی طاقت پر ناز تھا ،حسن بن صباح نے یہ بات سنی اور کہا کہ وہ حملے اور محاصرے سے نپٹ لے تو باہر کے مسئلوں پر توجہ دے گا۔
اب ایک بہت ہی ضروری بات کرتا ہوں یا شیخ الجبل!،،،،،، ابن مسعود نے کہا۔۔۔۔ میں نے مرو میں بھی اڑتی اڑتی یہ بات سنی تھی کہ الموت کے اندر ایک دو آدمی ایسے آگئے ہیں جو محاصرے کے دوران اندر سے دریا والا دروازہ کھول دیں گے، اس کا ایک علاج تو یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ وہ دو آدمی کون ہیں اور کہاں چھپے ہوئے ہیں۔
میں اس کام کو بہت ہی مشکل بلکہ ناممکن سمجھتا ہوں، میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ وہ خفیہ دروازہ میری ذمہ داری میں دے دیں ،اور وہاں جو آدمی موجود ہیں انہیں وہاں سے ہٹا دیں ،میں مرو سے دو فدائی ساتھ لایا ہوں ،وہ بڑے ہی دانشمند اور جرات والے ہیں، آپ مجھے اجازت دیں کہ میں ان دونوں کو ساتھ لے کر اس دروازے کا ذمہ دار بن جاؤں۔
ابن مسعود نے ایسی ہی کچھ باتیں گڑھ کر حسن بن صباح کو پریشانی میں ڈال دیا ،لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ حسن بن صباح اتنا ہی کچا تھا کہ یہ پریشانی اس کے پاؤں اکھاڑ دیتی، اس نے یہ حکم تو دے دیا کہ دریا والے خفیہ دروازے پر جو آدمی مقرر ہیں انہیں وہاں سے ہٹا کر ابن مسعود کو مقرر کردیا جائے، لیکن ابن مسعود کو شاید یہ معلوم نہ تھا کہ وہاں جاسوسوں پر بھی جاسوس لگے ہوئے تھے، حسن بن صباح نے ابن مسعود سے فارغ ہوکر جب یہ حکم دیا کہ وہ دروازہ ابن مسعود کے حوالے کر دیا جائے اس نے یہ حکم بھی دیا کہ ابن مسعود اور اس کے ساتھیوں پر کڑی نظر رکھی جائے، اور پھر کڑی نظر رکھنے والوں پر بھی نظر رکھنے کا انتظام موجود تھا ،یہ تھا وہ طریقہ اور اصول جنہوں نے حسن بن صباح کو نبی بھی بنایا شیخ الجبل اور امام بھی، اور اسے ایک دہشت بھی بنا دیا تھا۔
اب وہ واقعہ رونما ہوا جو تاریخ کے دامن میں آج بھی محفوظ ہے، یہ 503 ہجری کا واقعہ ہے جو ہر مؤرخ نے تفصیل سے لکھا۔
سلطان محمد اور ابو نصر احمد موسم کو خاطر میں لائے ہی نہیں تھے، موسم سرما شروع ہوگیا تھا اور الموت اس علاقے میں تھا جہاں پر برف باری ہوا کرتی تھی، اس کے ساتھ جو پہاڑ تھے وہ برف سے سفید ہو جایا کرتے تھے ، بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ الموت میں یا اس علاقے میں برفباری تو ہوتی تھی لیکن اتنی زیادہ نہیں کہ فوجوں کے آگے رکاوٹ بن جاتی، بہرحال سلجوقی سالاروں کو پیش نظر رکھنا چاہیے تھا جو انہوں نے نہ رکھا۔
 فوج کے کوچ میں بھی انہوں نے خاصی تاخیر کر دی اور اس دوران سردی بڑھ گئی اور الموت برفباری کی زد میں آنے لگا ،لیکن اتنا زیادہ نہیں کہ اسے برداشت ہی نہ کیا جا سکتا۔
آخر ایک روز الموت کے اندر ہڑبونگ مچ گئی کہ سلجوقی فوج شہر کا محاصرہ کر رہی ہے، حسن بن صباح کی کوئی باقاعدہ فوج نہیں تھی لیکن ہر شہری جو تلوار اٹھا سکتا تھا وہ الموت کا محافظ تھا ،اور ان میں فدائیوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی تھی، اس تعداد پر مورخوں کا اختلاف ہے بعض نے بیس پچیس ہزار تعداد لکھی ہے اور ایک دو نے پچاس ہزار لکھی ہے، لیکن تعداد جتنی بھی تھی وہ جانباز ہی تھی، لیکن یہ فدائی تربیت یافتہ فوج کی طرح نہیں لڑ سکتے تھے ،وہ تو دن دہاڑے اپنے شکار کو خنجر سے ہلاک کرتے اور اسی خنجر سے اپنے آپ کو مار لیتے تھے۔
حسن بن صباح شہر کی دیوار پر گیا اور اس نے باہر کی صورتحال دیکھی، اس نے اپنے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ اس فوج پر آسمانی آفت گرے گی اور یہ بھاگ جائے گی، وہ اپنے لوگوں کی حوصلہ افزائی اسی طرح بڑ ھانک کر کیا کرتا تھا ،اس نے دیوار پر تیرانداز کھڑے کردیے۔
سلجوقی فوج نے ایسے جانباز تیار کر رکھے تھے جو معجزے بھی کر دکھایا کرتے تھے، وہ دو دو چار چار اور کچھ اس سے زیادہ ٹولیوں میں اس چٹان پر چڑھے جس پر الموت کا شہر آباد تھا ،وہ دروازے توڑنے کے لئے اوپر جا رہے تھے لیکن تیر اندازوں کے لیے وہ بڑا ہی آسان شکار ثابت ہوئے، تیروں کی بوچھاڑ ان پر پڑی تو وہ تیر کھا کر لڑھکتے اور قلابازیاں کھاتے نیچے آ پڑے۔
محاصرہ تین اطراف پر تھا ،پیچھے دریا تھا اور دریا کا پاٹ وہاں تنگ تھا اس لئے دریا کا جوش بھی زیادہ تھا اور گہرائی بھی زیادہ تھی۔
ابونصر احمد نے ایسے آدمی تیار کر رکھے تھے جنہیں دور پیچھے جاکر کشتیوں کے ذریعے قلعے کے عقب میں اس خفیہ دروازے تک پہنچنا تھا جو اب ابن مسعود کی تحویل میں تھا ،ابن مسعود کے ساتھ مزمل آفندی اور بن یونس تھے۔
دروازے کی چابی ابن مسعود کے پاس تھی، وہ جب بھی دروازہ کھولنے کے لیئے آگے بڑھتا کوئی نہ کوئی آدمی آجاتا اور ابن مسعود پیچھے ہٹ آتا، اسے معلوم نہیں تھا کہ حسن بن صباح نے اس پر نظر رکھنے کے لیے خفیہ طور پر کچھ آدمی لگا رکھے ہیں۔
دنوں پہ دن گزرتے جا رہے تھے، منجنیقوں سے پتھر پھینکے گئے لیکن پتھر دیوار سے ٹکرا کر لڑھکتے ہوئے واپس آ جاتے تھے، یہ منجنیقیں چھوٹی تھیں اور بڑی منجنیق تھی ہی نہیں، ابونصر احمد نے جانبازوں کی جماعت کو دریا کی طرف بھیج دیا کہ وہ دریا کے ذریعے خفیہ دروازے تک پہنچیں، لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ دریا میں اترنے سے پہلے شہر کی دیوار کی طرف دیکھتے رہیں، دیوار سے ایک اشارہ ملے گا پھر دریا میں اتریں۔
دو دشواریاں پیدا ہوگئیں، ایک یہ کہ دریا میں جو کشتیاں حسن بن صباح نے رکھوائی ہوئی تھیں وہ خفیہ دروازے کے قریب بندھی ہوئی تھیں، ان کے علاوہ اور کوئی کشتی نہیں تھی، ابو نصر  احمد کے ان آدمیوں کو ان کشتیوں تک پہنچنے کے لئے کچھ دور تک تیر کر جانا تھا۔ وہ جانباز دریا کے کنارے جا کر چھپ گئے اور قلعے کی دیوار کی طرف دیکھنے لگے، دیوار سے کوئی اشارہ نہیں مل رہا تھا۔
محاصرے کو ایک مہینہ گزر گیا اور ایک روز ابن مسعود نے دروازہ کھول دیا ،دریا کا پانی اندر آ گیا ،آگے چٹان کی اونچائی تھی اس لئے پانی وہاں تک محدود رہا ،چٹان کو کاٹ کاٹ کر سیڑھیاں بنائی گئی تھیں، اچانک ایک آدمی ادھر آ نکلا اور اس نے دروازہ کھلا دیکھا تو بلند آواز سے پوچھا کہ یہ دروازہ کس نے اور کیوں کھولا ہے، اس آدمی کی آواز اتنی بلند تھی کہ وہاں جو اور آدمی موجود تھے وہ بھی سن کر دوڑے آئے ،وہ سات آٹھ تھے، وہ نیچے آئے تو ابن مسعود نے انہیں کہا اس نے یہ دروازہ آزمائش کے لئے کھولا تھا تاکہ ضرورت کے وقت  اٹک نہ جائے۔
ان آدمیوں کو شک ہوگیا کہ یہ کوئی چال بازی ہے، ایک نے کہا کہ امام کو اطلاع دی جائے اتنے میں ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا اور اس نے کہا کہ اس دروازے کا خیال رکھنا کیونکہ کچھ آدمی دریا کے کنارے چھپے ہوئے دیکھے گئے ہیں ،ایسا نہ ہو کہ وہ دریا کے راستے ادھر آ جائیں۔
صورتحال ایسی پیدا ہوگئی کہ مزمل آفندی اور بن یونس نے جوش میں آکر تلواریں نکال لیں اور ان آدمیوں کو للکارا ،وہ تو حسن بن صباح کے خاص قسم کے جانباز اور قابل اعتماد آدمی تھے، انہوں نے بھی تلوار نکال لی اور اس تنگ جگہ میں خونریز معرکہ ہوا ،جس میں تین چار فدائی تو مارے گئے لیکن ابن مسعود مزمل آفندی اور بن یونس بھی مارے گئے، اور انہیں ان آدمیوں نے باہر دریا میں پھینک کر دروازہ بند کیا اور مقفل کرکے حسن بن صباح کو جا بتایا کہ وہاں کیا ہوا ہے۔
ابونصر احمد پریشان ہو رہا تھا کہ ابھی تک اسے دیوار سے وہ اشارہ نہیں ملا جو اسے ابن مسعود نے بتایا تھا ،وہ اس طرف چلا گیا جہاں اس کے وہ جانباز انتظار میں بیٹھے تھے جنہیں دریا میں اتر کر اس دروازے تک پہنچنا تھا۔
ابونصر احمد نے بڑا ہی غلط حکم دیا وہ یہ کہ ایک آدمی کو دریا میں اترنے کو کہا کہ وہ پیچھے چلا جائے اور دیکھے کے دروازہ کھلا ہے یا نہیں، اور وہاں سے ایک کشتی میں بیٹھ کر واپس آئے، اس نے اپنی طرف سے شاید ٹھیک ہی سوچا تھا کہ ایک یا دو آدمی ایک دو کشتیاں لے آئیں اور یہ پارٹی یہاں بیٹھنے کی بجائے اس دروازے کے قریب جاکر کشتیوں میں بیٹھی رہے، لیکن جب وہ آدمی دریا میں اترا تو تھوڑی ہی دور جا کر اس نے چیخنا چلانا شروع کر دیا ،کیونکہ ہلکی ہلکی برفباری شروع ہو گئی تھی اور دریا کا پانی ناقابل برداشت حد تک یخ تھا، وہ آدمی اکڑ گیا اور یہ دیکھا کہ وہ ہاتھ پاؤں نہیں مار رہا تھا دریا اسے ساتھ ہی لے گیا۔
ابو نصر نے ایک آدمی ضائع کرکے محسوس کیا کہ کشتیوں کے بغیر کوئی آدمی اس دروازے تک نہیں پہنچ سکتا ،اس نے واپس اپنے سالاروں کے پاس آکر کہا کہ کچھ آدمی دور اوپر دریا کے کنارے کنارے بھیجے جائیں، اور کہیں سے ایک دو کشتیاں لے کر آئیں، آدمی بھیج دیے گئے۔
محاصرے کی ایک اور رات آئی، اور رات کو ایسی شدید برفباری شروع ہو گئی جو پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی، ہلکی برفباری کو تو سلجوقی فوج برداشت کرتی رہی لیکن مسلسل یخ بستہ ٹھنڈ میں وہ رہ کر فوجیوں کے جسم اکڑتے جا رہے تھے۔
رات بھر برفباری جاری رہی اور بڑھتی ہی گئی، صبح ہوئی تو دنیا کا یہ خطہ سفید چادر میں ڈھک گیا تھا ،گھوڑے بھی کانپ رہے تھے، درخت بھی برف کے بوجھ سے جھک رہے تھے۔
حسن بن صباح کو بڑا اچھا موقع مل گیا وہ دیوار پر چڑھا اور دونوں بازو پھیلا کر بڑی ہی بلند آواز سے کہا ۔۔۔اے آسمان تو نے مجھے زمین پر اتارا تھا، اب ایسا قہر برسا کے تیرے اترے ہوئے امام کے یہ دشمن اکڑ اکڑ کر ختم ہو جائیں۔
حسن بن صباح کی یہ پکار اور للکار سلجوقی فوج کے حوصلے پست کرنے لگی، اور الموت کے شہریوں کے حوصلے مضبوط ہونے لگے، قدرت نے حسن بن صباح کو بڑا اچھا موقع فراہم کردیا تھا ،برفباری رک ہی نہیں رہی تھی اور زمین پر برف کی تہہ جمتی جارہی تھی، جو فٹوں کے حساب سے بلند ہو رہی تھی۔
ابونصر احمد ایساٰ مجبور ہوا کہ اس نے محاصرہ اٹھا لیا اور اپنی فوج کو واپسی کا حکم دے دیا، تب اسے پتا چلا کہ اس کی فوج کی کچھ نفری اس قدر اکڑ گئی ہے کہ اس کے لئے چلنا یا گھوڑے پر سوار ہونا ممکن نہیں رہا ،گھوڑوں کی حالت بھی بگڑ گئی تھی ۔
بڑی ہی بری حالت میں سلجوقی فوج وہاں سے ناکام نکلی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سلطان محمد کے وزیراعظم ابونصر احمد کے جذباتی فیصلے نے اپنی فوج کو کچھ عرصے کے لیے بے کار کر دیا ،یہ تو جسموں کا معاملہ تھا کہ برف نے جسم بے کار کر دیے تھے، لیکن ذہنی طور پر بھی یہ فوج کچھ عرصے کے لیے لڑنے کے قابل نہ رہی، فوج میں جو لوگ تھے وہ عالم فاضل تو نہیں تھے کہ کچھ سمجھ جاتے کہ یہ تو موسم ہی برف باری کا تھا اور اب کے برفباری زیادہ ہی ہوئی، وہ یقین کر بیٹھے کہ یہ حسن بن صباح کا معجزہ ہے کہ اس نے آسمان تک اپنی آواز پہنچائی اور آسمان نے برف گرا کر سلجوقی فوج کو بھگا دیا۔
فوج کی جسمانی حالت تو جلدی ہی ٹھیک ہوگئی لیکن ذہنی اور نفسیاتی طور پر فوج نہ سنبھل سکی، اپنی شکست کی خفت مٹانے کے لئے بھی فوجیوں نے افواہ پھیلانے شروع کر دی تھی، جن کا لب لباب یہ تھا کہ حسن بن صباح نبی یا امام نہ سہی اس کے ہاتھ میں کوئی ایسی آسمانی طاقت ضرور ہے جس سے وہ بڑی سے بڑی فوج پر بھی مصیبت نازل کرکے اسے شکست دے سکتا ہے، فوج کا لڑنے کا جذبہ اور حوصلہ جسے آج کی زبان میں مورال کہتے ہیں ان افواہوں سے بڑی ہی بری طرح مجروح ہو رہا تھا ،اور ایسی بددلی پھیل گئی تھی کہ وہ لوگ جو رضاکارانہ طور پر فوج میں شامل ہوئے تھے وہ فوج سے نکلنے لگے ۔
سلطان محمد نے یہ صورت حال دیکھی تو وہ پریشان ہوگیا وہ اس سوچ میں پڑ گیا کہ اللہ کے سپاہی کی تو یہ شان تھی کہ وہ دنیا کے لالچ اور ہوس کو الگ پھینک کر لڑا کرتا تھا اور اس کے پیش نظر اللہ کی خوشنودی ہوا کرتی تھی، لیکن اس فوج کی حالت ایسی ہو گئی تھی کہ اس میں اللہ کے خوف کی بجائے حسن بن صباح کا خوف پیدا ہوگیا تھا، اس نے ابو نصر احمد کو وزارت سے تو بر طرف نہ کیا لیکن فوج کے ساتھ اس کا تعلق توڑ دیا اور فوج کی کمان اپنے ہاتھ میں لے لی، اس نے سالاروں کو بلایا اور انہیں کہا کہ وہ اپنی فوج میں وہی جذبہ پیدا کریں جو مجاہد کا جذبہ ہوتا ہے، اور فوج سے حسن بن صباح کا خوف ختم کریں۔
سالاروں نے اپنی سی کوششیں شروع کردیں، سلطان محمد نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ چند دنوں کے وقفے سے پوری فوج کو ایک جگہ اکٹھا کرکے خطاب کیا کرتا تھا، علمائے دین کی خدمت بھی حاصل کی گئیں، جنہوں نے وعظ خطبوں اور آیات قرآنی سے فوج کے ذہن سے حسن بن صباح کے متعلق وہم اور وسوسے نکالنے شروع کردیے، یہ بڑا ہی صبر آزما اور وقت طلب عمل تھا جس کے اثرات نہایت ہی آہستہ آہستہ پیدا ہو رہے تھے۔
سلطان محمد نے ادھر اور سالار اوریزی نے اور شاہ در میں سلطان سنجر نے بھی مشاہدہ کیا کہ حسن بن صباح کے جو اثرات ختم ہونے شروع ہو گئے تھے وہ پھر سامنے آنے لگے ہیں ،اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اور بھی زیادہ ضروری ہو گیا تھا کہ الموت پر فوج کشی کرکے حسن بن صباح کو ختم کیا جائے، اسلامی نظریات اور دین کے دیگر عقیدے تو اپنی جگہ اہم تھے ہی مگر اس صورتحال نے سلطنت سلجوقیہ کی بقاء کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔
سات آٹھ سال گزر گئے تب جاکر فوج ذہنی بلکہ روحانی طور پر تیار ہوئی، فوج میں سے بے شمار لوگوں کو نکال دیا گیا تھا اور بے شمار نئے لوگوں کو بھرتی کیا گیا ،اس نئی نفری میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ تھی، اس نوجوان نفری کی تعلیم و تربیت کا خصوصی انتظام کیا گیا تھا۔
سلطان محمد نے بڑے ہی گہرے غوروفکر سے اور ہر پہلو کو سامنے رکھ کر محاصرے کا منصوبہ تیار کیا ،جس میں سالاروں کے مشورے اور ان کی تجاویز بھی شامل تھیں، سلطان محمد نے محاصرے کا بنیادی اصول یہ دیا کہ قلعے پر چڑھائی کرنی ہی نہیں، نہ آگے بڑھ کر دروازے توڑنے ہیں، بلکہ شہر میں داخل ہونے کی ذرا سی بھی کوشش نہیں کرنی، بلکہ یہ کرنا ہے کہ شہر کو محاصرے میں لے کر بیٹھ جانا ہے خواہ یہ محاصرہ سالوں تک لمبا ہو جائے۔
ایک روز مرو سے فوج نکلی، اس کا رخ الموت کی طرف تھا ،کچھ نفری وسم کوہ سے بلوا کر اس میں شامل کی گئی تھی اور کچھ نفری شاہ در سے بھی بلوالی گئی تھی ،اس فوج کا سپہ سالار امیر نوش گین شیر گیر تھا،مورخوں نے لکھا ہے کہ یہ سپہ سالار جذبات کے جوش میں آنے والا نہیں تھا ،بلکہ ٹھنڈے دل سے سوچ بچار کرنے کا عادی تھا ،یہ اس کی بنیادی فوجی تربیت تھی اور اس میں دوہری صلاحیت پائی جاتی تھی جو ایک کامیاب سپہ سالار کے لیے ضروری ہوتی ہے۔
اس فوج نے الموت کو محاصرے میں لے لیا، سلطان محمد کو اچھی طرح معلوم تھا کہ محاصرہ صرف تین اطراف ہوسکتا ہے، وہ فوج کا حوصلہ قائم رکھنے کے لیے رات کو بھی باہر گھومتا پھرتا اور فوجیوں کے ساتھ باتیں کرتا رہتا تھا ،اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسے نمونیہ ہو گیا اور طبیبوں نے بہت کوشش کی اور اسے مرو چلنے کو بھی کہا، لیکن اس نے فوج کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کردیا۔
پانچ چھ دن ہی گزرے ہوں گے کہ سلطان محمد کی یہ بیماری اچانک اتنی بڑھ گئی کہ طبیب بھی کچھ نہ کرسکے اور سلطان محمد فوت ہوگیا۔
جب فوج میں یہ خبر پھیلی کے سلطان کا انتقال ہوگیا ہے تو یکلخت فوج میں بدامنی سی پھیل گئی ،سپہ سالار امیر نوش گین شیر گیر نے یہ صورت حال دیکھی تو اس نے محاصرہ اٹھا لیا ،فوج اس حالت میں واپس آئی کہ اس کے ساتھ سلطان محمد کا جنازہ بھی تھا۔
اس طرح اب کے بھی الموت صاف بچ گیا اور حسن بن صباح اس پر قابض رہا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سلطان سنجر کو شاہ در میں سلطان محمد کے انتقال کی خبر پہنچی تو وہ بھاگم بھاگ مرو پہنچا ،ادھر وسم کوہ سے سالار اوریزی بھی آگیا اور جہاں جہاں امیر مقرر تھے وہ سب آگئے ،سب حیران اور پریشان تھے کہ یہ کیا ہوا کہ سلطان کا انتقال ہوگیا اور فوج محاصرہ اٹھا کر واپس آگئی۔
 سالار اوریزی اور ابو نصر احمد حیران تھے کہ ابن مسعود مزمل آفندی اور بن یونس قلعہ الموت گئے تھے لیکن انہوں نے کچھ بھی نہ کیا اور واپس بھی نہ آئے، ایک خیال یہ ظاہر کیا گیا کہ حسن بن صباح نے تینوں کو اپنا جادو چلا کر فدائی بنا لیا ہو گا۔
اب تو وہاں صورت حال ایسی بن گئی تھی کہ ایک دو یا چند ایک افراد کا کسی کو خیال ہی نہیں آرہا تھا ،اب تو سلطنت سلجوقیہ خطرے میں نظر آنے لگی تھی، سنجر اب پوری سلطنت کا سلطان ہوگیا تھا، اس کا سب سے بڑا بھائی برکیارق پہلے ہی فوت ہوچکا تھا۔
اس نے حکم جاری کر دیا کہ الموت کو ہر قیمت پر فتح کرنا ہے اور پوری کی پوری فوج کو تیار کرکے الموت لے جایا جائے اور محاصرے کو طول دینے کی بجائے چٹان پر جا کر شہر پر یلغار کی جائے۔
ایک بار پھر فوج کو تیار کیا جانے لگا ،ادھر حسن بن صباح ایک بار پھر پہلے والے جوش و کمال میں آ گیا، وہ خود اس خوش فہمی میں مبتلا ہو گیا کہ اسے خدا نے کوئی مافوق الفطرت طاقت دے رکھی ہے کہ الموت کے محاصرے کے لئے جو بھی آتا ہے اس پر ایسی مصیبت نازل ہوتی ہے کہ وہ اپنی فوج کو واپس بھگا لے جاتا ہے۔
سنجر کچھ زیادہ جوشیلا سلطان تھا اور اس میں دلیری اور بے خوفی سب سے زیادہ تھی، اس پر انتقام کا جذبہ بھی غالب تھا ،اس نے ساری سلطنت کی فوج مرو اکٹھی کر لی اور اپنی نگرانی میں اس فوج کو تیار کرنے لگا۔
اس نے زیادہ انتظار نہ کیا ایک سال کے اندر اندر وہ تمام کا تمام لشکر لے کر الموت جا پہنچا ،قیادت اس نے اپنے پاس رکھی اور محاصرے کو مکمل کرنے کے پورے انتظامات کر دیے۔
اس کا خیمہ فوج سے ذرا دور الگ تھلگ تھا اور اس خیمے میں اس کا بستر زمین پر بچھایا جاتا تھا۔
محاصرے کو ابھی چند ہی دن گزرے تھے کہ سلطان سنجر ایک صبح جاگا تو اس نے اپنے بستر کے قریب تکیے کی طرف ایک لمبا خنجر زمین پر گڑا ہوا پایا ،اس کے دستے کے ساتھ ایک کاغذ بندھا ہوا تھا ،وہ تو دیکھ کر ہی گھبرا گیا ،خنجر کے دستے سے کاغذ کھول کر پڑھا اس پر فارسی زبان میں حسن بن صباح کی طرف سے مختصر سا پیغام لکھا ہوا تھا ،جس کاترجمہ یہ ہے۔۔۔۔۔ اے سلطان سنجر ہمیں یہ اذیت دینے سے باز آجاؤ ،اگر تمہارا پاس خاطر نہ ہوتا تو یہ خنجر زمین میں گاڑنے کی بجائے تمہارے نرم سینے میں گاڑنا آسان تھا۔
خنجر اور اس پیغام نے سلطان سنجر کو پسینے میں نہلا دیا ،وہ کوئی ایسا ڈرپوک آدمی بھی نہ تھا لیکن وہ اس خیال سے ڈرا کہ اس کے اپنے محافظوں میں ایک یا دو فدائی موجود ہیں ،ورنہ کوئی پرندہ بھی سلطان کے خیمے کے قریب سے نہیں گزر سکتا تھا۔
اس نے اسی وقت سالاروں کو بلا کر یہ خنجر اور پیغام دکھایا کہ معلوم کیا جائے کہ فوج میں یا محافظ دستے میں کون باطنی فدائی ہے، اس نے یہ حکم دے تو دیا لیکن خود ہی بولا کہ ایسے آدمی کو ڈھونڈ نکالنا ممکن نہیں۔
سالار رخصت ہوئے ہی تھے کہ اسے اطلاع دی گئی کہ حسن بن صباح کا ایک ایلچی ملنے آیا ہے، اس نے ایلچی کو اپنے خیمے میں بلالیا، ایلچی نے کہا کہ اسے شیخ الجبل نے صلح کی درخواست کے لئے بھیجا ہے اور کہا ہے کہ اپنی شرائط بتائیں۔
ایک بڑی قدیم کتاب "نامہ خسرواں" کے باب حالات حسن بن صباح میں یہ شرائط تفصیل سے لکھی ہیں، یہ بھی لکھا ہے کہ سلطان سنجر کا حوصلہ اس خنجر اور پیغام کو دیکھ کر ایسا مجروح ہوا کہ اس نے ایلچی کو اپنی شرائط بتائیں جو مختصر یہ تھی کہ آئندہ حسن بن صباح کہیں بھی کوئی قلعہ تعمیر نہ کرے، نہ کسی چھوٹے یا بڑے قلعے کو سر کرنے کی کوشش کرے، دوسری شرط کہ باطنی وہ اسلحہ اپنے پاس نہ رکھیں جو فوج کے استعمال کے لیے ہوتا ہے ،خصوصاً منجنیق، تیسری شرط یہ تھی کہ حسن بن صباح اپنے فرقے میں نئے مرید شامل نہ کرے اور اپنی تبلیغ بند کردے۔
ایلچی چلا گیا اور خاصی دیر بعد واپس آکر اس نے بتایا کہ شیخ الجبل نے تینوں شرائط تسلیم کرلی ہیں، اس کتاب میں لکھا ہے کہ حسن بن صباح کے لئے ان شرائط میں کوئی نقصان نہیں تھا ،اسے کوئی قلعہ تعمیر کرنے کی ضرورت نہیں تھی ،باطنیوں نے کم و بیش پچاس قلعوں پر قبضہ جما رکھا تھا ،فوجی اسلحہ اور منجنیقیں باطنیوں کے کسی کام کی نہیں تھی، انہیں صرف ایک چھری یا خنجر کی ضرورت ہوتی تھی۔
تیسری شرط یہ تھی کہ حسن بن صباح اپنے فرقے کی تبلیغ بند کردے یہ شرط بھی اس نے یہ سوچ کر مان لی کہ وہ تو خفیہ طور پر بیعت کر لیا کرتا تھا، کسی کو اس کا پتا نہیں چل سکتا تھا، اس کی تبلیغ بھی زیر زمین یعنی خفیہ طور پر ہوتی تھی۔
سلطان سنجر نے تحریری معاہدے پر اپنی مہر لگائی اور حسن بن صباح نے بھی اپنے دستخط کیے اور محاصرہ اٹھا لیا گیا۔
فدائیوں نے اپنی قتل و غارت کی کاروائیاں پھر شروع کردیں، ایک دو سال ہی گزرے تھے کہ حسن بن صباح مر گیا ،وہ 28 ربیع الثانیہ 518 ہجری کے روز فوت ہوا تھا، اس وقت اس کی عمر نوّے سال تھی، اور اس نے 35 سال قلعہ الموت میں بیٹھ کر لوگوں کے دلوں پر حکومت کی تھی۔
اس کی موت اس کے فرقے کے لیے خاصی نقصان دہ ثابت ہوئی، اس کے جانشین مقرر ہوتے رہے لیکن اس کا فرقہ تیس فرقوں میں تقسیم ہوتا چلا گیا اور جوں جوں وقت گزرتا گیا باطنی فدائی کرائے کے قاتل بن گئے، جنہیں کسی بھی مذہب کے لوگ اپنے مخالفین کے قتل کے لئے استعمال کرسکتے تھے۔
ان فدائیوں کو حشیشین کہا جانے لگا ،کیونکہ یہ حشیش کے بغیر جیسے زندہ ہی نہیں رہ سکتے تھے، اور اسی نشے میں قاتلانہ کاروائیاں کرتے تھے۔
حسن بن صباح نے طویل عمر پائی ، اس جماعت کا خاتمہ ہلاکو خان کے ہاتھوں ہوا۔ جس نے قلعہ الموت کو فتح کرکے حسن بن صباح کے آخری جانشین رکن الدین کو گرفتار کرلیا اور ہزاروں فدائیوں کو بڑی بے رحمی سے قتل کر دیا،آج عالم ِ اسلام کو ایک مرتبہ پھر اس قسم کے خطرات ہر جگہ لاحق ہیں،اغیار کے کہنے پر فانی دنیا میں نام اور دولت کمانے کے لئے بہت سے لوگ ایمان و ملت فروشی کے مذموم کاروبار میں لگے ہوئے ہیں،اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل و احسان سے اہلِ اسلام کو سمجھنے اور سازشوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*


 دعویٰ: ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں سڑکوں پر دکاندار 'باقاعدہ ملازمتوں' والے لوگوں سے زیادہ کماتے ہیں۔

 

حقیقت: یہ دعویٰ غلط ہے کیونکہ اس مطالعہ سے مراد اسٹریٹ وینڈرز کی آمدنی اور زیادہ ریگولیٹڈ یا رسمی ملازمت والے لوگوں کی آمدنی کے درمیان کوئی موازنہ نہیں ہے۔

 

21 اور 24 اکتوبر 2024 کے درمیان، فیس بک ، انسٹاگرام ، ٹک ٹاک ، اور ایکس (سابقہ ​​ٹویٹر) سمیت سوشل میڈیا پر پوسٹس کا ایک سلسلہ وائرل ہوا ، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ اسٹریٹ وینڈرز 'باقاعدہ ملازمتوں' والے لوگوں کے مقابلے اوسطاً زیادہ کماتے ہیں۔ 'پاکستان میں۔

ان پوسٹس نے واضح طور پر اس بات کی نشاندہی نہیں کی کہ "باقاعدہ ملازمتوں" سے کیا مراد ہے، کچھ نے " روایتی ملازمت " اور " 9-5 ملازمتیں " جیسی متبادل اصطلاحات استعمال کیں۔

 

حقیقت یا افسانہ؟

"سٹریٹ وینڈر،" "پاکستان،" اور "کماؤ" کے کلیدی الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے اس دعوے کے لیے گوگل پر سرچ کرنے سے پتہ چلا کہ یہ دعویٰ ابتدائی طور پر 2022 میں آن لائن سامنے آیا تھا۔ یہ پوسٹس یہاں ، یہاں اور یہاں X پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ .

 

مزید برآں، 2022 اور 2024 کی فیس بک اور انسٹاگرام پر متعدد پوسٹس ایسی تصاویر پیش کرتی ہیں جن میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ سڑک پر دکاندار روایتی پیشوں سے زیادہ کماتے ہیں۔ ان میں سے کچھ پوسٹس یہاں ، یہاں اور یہاں دیکھی جا سکتی ہیں ۔ مزید برآں، دو مضامین اپنی سرخیوں میں بھی اس دعوے کو نمایاں کرتے ہیں، لیکن ان کے متن کے اہم حصوں میں اس کا ذکر نہیں کرتے، جسے یہاں اور یہاں دیکھا جا سکتا ہے ۔

 

دونوں مضامین "پاکستانی اسٹریٹ اکانومی کی بحالی" کے عنوان سے ایک مطالعہ کا حوالہ دیتے ہیں۔

 

گوگل سرچ نے سوچ فیکٹ چیک کے عنوان سے " پاکستانی اسٹریٹ اکانومی کی بحالی: اسلام آباد کا معاملہ " کے عنوان سے ایک مطالعہ کی طرف لے جایا ، "پاکستان کے جڑواں شہروں میں اسٹریٹ اکانومی کا سماجی و اقتصادی تجزیہ" کے عنوان سے RASTA کے خصوصی شمارے میں شائع ہوا۔ 2022 میں پاکستان کی ترقی کا جائزہ۔ مضمون ناصر اقبال ، صائمہ نواز ، اور محمد عقیل انور نے لکھا ہے۔ . رستا (ریسرچ فار سوشل ٹرانسفارمیشن اینڈ ایڈوانسمنٹ) ایک سوشل سائنس ریسرچ نیٹ ورک ہے جس کا انتظام پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس، اسلام آباد کرتا ہے۔

 

آرٹیکل کے مطابق، "سٹریٹ وینڈرز کی اوسط ماہانہ آمدنی روپے ہے۔ 114,708"۔ چونکہ یہی اعداد و شمار سوشل میڈیا پر 2024 اور 2022 کی بہت سی پوسٹس کے ذریعے نقل کیے گئے ہیں، جن میں یہاں ، یہاں ، یہاں ، اور یہاں شامل ہیں ، ہم نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جس مطالعہ کا حوالہ دیا جا رہا ہے وہ درحقیقت " پاکستانی اسٹریٹ اکانومی کی بحالی " ہے۔ : اسلام آباد کا مقدمہ ۔

 

واضح رہے کہ دی پاکستان ڈویلپمنٹ ریویو کے مضمون میں صفحہ 338-39 کے علاوہ "باقاعدہ" ملازمتوں یا ان سے حاصل ہونے والی آمدنی کا کوئی ذکر نہیں ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ "زیادہ تر SVs [سٹریٹ وینڈرز] کی تعلیم کم تھی۔ اور اس وجہ سے، معیشت کے رسمی شعبوں میں ملازمت حاصل کرنے کے امکانات کم تھے۔

 

نہ تو یہ "باقاعدہ" ملازمتوں پر کام کرنے والے لوگوں اور سٹریٹ وینڈنگ کے پیشے میں کام کرنے والوں کی آمدنی کے درمیان موازنہ کرتا ہے، اور نہ ہی یہ اسٹریٹ وینڈنگ مارکیٹ میں موجودہ مالیاتی واقعات کے بارے میں تازہ ترین معلومات پیش کرتا ہے۔ جیسا کہ یہ 2022 میں شائع ہوا تھا، پاکستانی روپے میں قیمتوں کے مساوی امریکی ڈالر میں بتائے گئے ہیں، اور مصنفین صفحہ 344 (ٹیبل 3 کے نیچے نوٹ میں) کا ذکر کرتے ہیں کہ انہوں نے اس مطالعہ کے لیے جو شرح مبادلہ استعمال کیا وہ تھا "1 US$ = PKR 155۔ تاہم، آج 1 امریکی ڈالر = PKR 277.79۔

 

مزید برآں، 2022 اور 2024 دونوں کی پوسٹس اور آرٹیکلز کا دعویٰ ہے کہ ملک بھر میں اسٹریٹ وینڈرز "باقاعدہ" — نان اسٹریٹ وینڈنگ — نوکریوں والے لوگوں سے زیادہ کماتے ہیں۔ تاہم، مضمون صرف اسلام آباد اور راولپنڈی کے شہروں میں سڑکوں پر دکانداروں اور ان کے کاروبار کے بارے میں معلومات کا تجزیہ کرتا ہے نہ کہ ملک بھر میں۔ جیسا کہ مصنفین نے صفحہ 338 پر بیان کیا ہے، ان کا "تجزیہ بنیادی سروے کے اعداد و شمار پر مبنی ہے، جسے "PIDE Street Economy Survey (PSES)" کہا جاتا ہے، جو جڑواں شہروں یعنی اسلام آباد اور راولپنڈی میں کیا گیا ہے۔"

 

مزید برآں، 114,708 روپے (جو کہ مطالعہ میں استعمال کیے گئے ایکسچینج ریٹ کے مطابق 740 امریکی ڈالر کے برابر ہے) کے اعداد و شمار کو سوشل میڈیا پوسٹس کے ذریعے پاکستان میں ایک اسٹریٹ وینڈر کی اوسط ماہانہ تنخواہ کے طور پر بتایا گیا ہے۔ جبکہ 114,708 کے اعداد و شمار کی پاکستان ڈویلپمنٹ ریویو کے مضمون سے تصدیق ہوتی ہے ، لیکن پوسٹس اس اعداد و شمار کے پیچھے مکمل تصویر کو نظر انداز کرتی ہیں۔ صفحہ 344 پر، مصنفین نوٹ کرتے ہیں کہ "ان پٹ لاگت (خام مال اور دیگر خدمات کے لیے) کے علاوہ... ایک سڑک فروش تقریباً US$107 ماہانہ بطور آپریشنل لاگت ادا کرتا ہے۔"

 

دعوے میں یہ بتانے سے بھی انکار کیا گیا ہے کہ گلیوں میں فروخت کرنے والے زیادہ تر کاروباروں کی غیر قانونی حیثیت اکثر دکانداروں کے لیے بے دخلی اور معاشی نقصان کا باعث بنتی ہے۔ مصنفین نے صفحہ 347 پر اس پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ "98 فیصد SVs [سٹریٹ وینڈرز] مارکیٹ میں قانونی تحفظ کے بغیر کام کر رہے تھے۔" جب اسٹریٹ وینڈرز نے لائسنس کے لیے درخواست دی، تو اس نے "مقامی انتظامیہ کو مواد ضبط کرنے اور اسٹریٹ وینڈرز کو بے دخل کرنے پر آمادہ کیا۔" تقریباً "65 فیصد اسٹریٹ وینڈرز" نے دعویٰ کیا کہ ان کا ضبط شدہ مواد انھیں واپس نہیں کیا گیا، اور ایک بار کی بے دخلی "SVs [سٹریٹ وینڈرز] کے لیے تقریباً دو ماہ کے خالص منافع میں نقصان کا باعث بنی۔" کل "ضبطی کی وجہ سے ہونے والا معاشی نقصان" علاقے کے لحاظ سے "US$497" اور "US$334" کے درمیان تھا۔ لہذا، مطالعہ کے مطابق، گلیوں میں دکاندار اور ان کے کاروبار اکثر "مقامی انتظامیہ کی طرف سے بڑے پیمانے پر استحصال" کا نشانہ بنتے ہیں۔

 

وائرل پوسٹس مطالعہ کی مکمل تصویر فراہم نہیں کرتی ہیں، اور وہ یہ بھی واضح نہیں کرتی ہیں کہ وہ "باقاعدہ ملازمتیں"، "روایتی ملازمت" یا "9-5 ملازمتیں" کے ذریعے بالکل کن ملازمتوں کا حوالہ دیتے ہیں۔ ان ملازمتوں کے لیے بھی کوئی آمدنی کا حوالہ نہیں دیا گیا ہے، جس سے یہ واضح نہیں ہے کہ سڑک فروش کی اوسط تنخواہ (114,708 روپے) کا کیا موازنہ کیا جا رہا ہے۔

 

وائرلٹی

فیس بک پر، دعویٰ یہاں اور یہاں پایا گیا ۔

 

فیس بک اور انسٹاگرام پر، صرف ان کی تصویروں میں دعویٰ کرنے والی پوسٹس یہاں ، یہاں ، اور یہاں دیکھی جا سکتی ہیں ۔

 

انسٹاگرام پر، دعویٰ یہاں ، یہاں ، اور یہاں پایا گیا ۔

 

X پر، دعویٰ یہاں ، یہاں ، یہاں ، اور یہاں پایا گیا ۔

 

TikTok پر، دعویٰ یہاں پایا گیا ۔

نتیجہ:   مطالعہ یہ ظاہر نہیں کرتا ہے کہ پاکستان میں گلیوں میں دکاندار "باقاعدہ" پیشوں سے زیادہ کماتے ہیں۔ درحقیقت، اس میں باقاعدہ ملازمتوں یا ان سے حاصل ہونے والی آمدنی کا کوئی ذکر نہیں ہے، اور نہ ہی یہ سڑک فروشوں کی آمدنی کا ان لوگوں سے موازنہ کرتا ہے جو باقاعدہ ملازمتیں رکھتے ہیں۔ یہ مطالعہ 2022 میں بھی شائع ہوا تھا اور اس لیے اس کا اطلاق 2024 پر نہیں ہوتا ہے۔ مزید برآں، پوسٹ خود گمراہ کن ہے کیونکہ یہ اس بات کی وضاحت نہیں کرتی ہے کہ "باقاعدہ ملازمتیں" کیا ہیں یا ان کی اوسط ماہانہ آمدنی۔


MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget