🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر اُنسٹھ⛔🌈☠️🏡
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
وہاں کے لوگوں میں افراتفری بپا رہی اور شام تک کچھ لوگ اپنی بیوی بچوں کو ساتھ لے کر قلعے سے نکل گئے وہ قلعہ الموت کی طرف جا رہے تھے، عبدالملک نے مزمل ،بن یونس شمونہ اور شافعیہ کو اپنے گھر میں ہی رکھا، انہوں نے طے کرلیا تھا کہ آدھی رات کے وقت نکلیں گے اور قلعہ الموت کا رخ کرلیں گے، عبدالملک مزمل اور بن یونس کو اس لیے بھی اپنے ساتھ رکھنا چاہتا تھا کہ ان کے پاس تلوار اور خنجر تھے شمونہ اور شافعیہ بھی تلواروں سے مسلح تھیں اور ان کے پاس بھی خنجر تھے۔
عبدالملک کہتا تھا کہ اسے اپنی جان کا کوئی غم نہیں وہ اپنے خاندان کی عورتوں کو محفوظ کرنا چاہتا تھا ،اور دوسرا اس کا الموت جانے کا مقصد یہ تھا کہ اس نے حسن بن صباح کو مجبور کرنا تھا کہ وہ فوج تیار کرے اور سلجوقیوں کے ساتھ باقاعدہ جنگ لڑ کر انہیں ختم کرے ،شہر کے لوگوں سے دو اونٹ اور کچھ گھوڑے لے لیے گئے تھے، یہ سارا انتظام خفیہ رکھا گیا تھا رات کو جب قلعے کے اندر خاموشی طاری ہوگئی اور لوگ گہری نیند سو گئے تھے تو دو اونٹ اور گھوڑے عبدالملک کے گھر کے سامنے پہنچ گئے، اس کا خاندان تیار تھا جو سامان ساتھ لے جانا چاہتا تھا وہ بھی تیار کر لیا گیا تھا۔
کچھ دیر بعد ایک قافلہ شہر سے نکلا چونکہ اس شہر میں فوج تھی ہی نہیں اس لیے دروازوں پر کوئی پہرا اور کوئی پابندی نہیں ہوتی تھی، اس شام لوگوں نے خود ہی شہر کے دروازے بند کرلیئے تھے، ایک دروازہ کھول لیا گیا اور یہ قافلہ نکل گیا۔
مزمل اور بن یونس قافلے کے محافظ تھے، ناظروطبس سے کوئی ایک میل دور گئے ہونگے کہ مزمل نے گھوڑے کے ساتھ بندھی ہوئی مشعل کو آگ لگائی ،عبدالملک نے پوچھا کہ مشعل کی کیا ضرورت ہے چاند اوپر آ رہا ہے، مزمل نے کوئی جواب نہ دیا اور مشعل بلند کر کے دائیں بائیں تین بار ہلائی اور پھر مشعل بجھا دی۔
عبدالملک نے پوچھا کہ یہ اس نے کیا کیا ہے، مزمل نے اسے ویسے ہی باتوں میں ٹال دیا،،،،،، ذرا ہی دیر بعد دور سے گھوڑوں کے ہلکے ہلکے ٹاپ سنائی دینے لگے، جو تیزی سے بڑھتے آ رہے تھے، عبدالملک نے چونک کر کہا یہ گھوڑ سوار نہ جانے کون ہیں، مزمل نے کہا کہ کوئی ایسا خطرہ نہیں ہو سکتا کہ یہ کوئی اپنی آدمی ہوں اور وہ مشعل کی روشنی دیکھ کر ادھر آ رہے ہوں۔
وہ سوار جو آرہے تھے جنگل میں کہیں چھپے ہوئے تھے، وہ مزمل اور بن یونس کے ساتھ وسم کوہ سے آئے تھے اور ناظروطبس سے کچھ دور ان سے الگ ہو گئے تھے، ان کی تعداد چالیس پچاس تھی انہیں کچھ دور جا کر چھپے رہنا تھا اور مزمل کے اسی اشارے کا انتظار کرنا تھا، طے یہی کیا گیا تھا کہ مزمل اور بن یونس عبدالملک کو آدھی رات کے وقت قلعے سے نکالیں گے، ان کی یہ اسکیم کامیاب ہو گئی تھی اور مزمل نے انہیں مشعل کا اشارہ دے دیا تھا۔
گھوڑ سواروں نے قریب آکر اس قافلے کو گھیرے میں لے لیا اور مزمل نے عبدالملک سے کہا کہ وہ گھوڑے سے اتر آئے، وہ گھوڑے سے اترا ہی تھا کہ ایک گھوڑ سوار نے تلوار نکالی اور عبدالملک کا سر تن سے جدا کر دیا۔
اس کے خاندان کی جو عورتیں تھیں انہوں نے چیخ و پکار شروع کردی ،مزمل نے عورتوں سے کہا کہ ان پر ہاتھ نہیں اٹھایا جائے گا اور انہیں واپس قلعے میں بھیج دیا جائے گا، اس خاندان کے دو آدمی بھی ساتھ تھے انہیں قتل کردیا گیا اور پھر عبدالملک کی لاش اور اس کا سر اٹھا کر یہ قافلہ ناظرو طبس واپس چلا گیا۔
ایک گھوڑ سوار نے عبدالملک کا سر اپنی برچھی کی انی سے اڑس لیا اور اس کے خاندان کی عورتوں کو قلعے میں داخل کر کے سب قلعہ وسم کوہ کی طرف چل پڑے، مزمل کا خیال تھا کہ عبدالملک کا سر قلعہ الموت کے دروازے پر رکھ آتے ہیں، لیکن سواروں کا کماندار نہ مانا اور اس نے کہا کہ اس کا فیصلہ سالاراوریزی کرےگا۔
تیسری صبح سوار وسم کوہ پہنچ گئے، وہ برچھی جس میں عبدالملک کا سر اڑسا ہوا تھا سالاراوریزی کو پیش کی گئی، سالاراوریزی نے کہا کہ یہ سر کپڑوں میں لپیٹ کر سلطان محمد کے پاس بھیج دیا جائے، شاید یہ سر بھی وہ بغداد بھیجنا چاہتا ہو،،،،،،، اس کے بعد تاریخ میں اس کا سراغ نہیں ملتا کہ اس کا سر بغداد میں بھیجا گیا تھا یا نہیں، یہ صاف شہادت ملتی ہے کہ سالار اوریزی نے سلطان کے حکم کے بغیر ہی اپنی آدھی فوج قلعہ ناظروطبس اس حکم کے ساتھ بھیج دی کہ اس قلعے پر قبضہ کر لیا جائے ،فوج کو یہ حکم بھی دیا گیا کہ کسی کے ساتھ ذرا سی بھی زیادتی نہ کی جائے ،بلکہ لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے اور انہیں یقین دلایا جائے کہ ان کی پوری پوری حفاظت کی جائے گی اور کسی عورت پر دست درازی نہیں ہوگی، فوج اس حکم کو بڑی اچھی طرح سمجھتی تھی وہ زمانہ چونکہ قتل و غارت کا زمانہ تھا، باطنی مسلمانوں کو قتل کرتے تھے اور مسلمانوں کی طرف سے باطنی جوابی قتل ہوتے تھے، اور فوج کو یہ حکم تھا کہ جہاں کہیں کوئی باطنی نظر آئے اسے قتل کر دیا جائے ،ان حالات میں سالاراوریزی نے اپنی فوج کو خاص طور پر کہا کہ کسی پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے۔
فوج چلی گئی اور پانچویں چھٹے روز ناظروطبس سے قاصد آیا اور اس نے بتایا کہ وہاں امن و امان ہے اور جو لوگ بھاگ رہے تھے انہیں روک لیا گیا ہے، اس پیغام کے ملنے کے بعد سالار اوریزی ناظروطبس چلا گیا ،مزمل اور بن یونس بھی اسکے ساتھ گئے ،شمونہ اور شافعیہ وسم کوہ میں ہی رہیں۔
سالار اوریزی نے اس قلعہ بند آبادی کے تمام لوگوں کو اکٹھا کرکے ویسا ہی لیکچر دیا جیسا سنجر نے شاہ در میں دیا تھا، اس نے خاص طور پر زور دے کر کہا کہ اللہ کے راستے پر واپس آ جاؤ تمہیں جنہوں نے پیرومرشد اور امام بن کر گمراہ کیا تھا ان کا انجام دیکھ لو، تم نے اپنے شیخ الجبال اور امام حسن بن صباح کے استاد کی لاش دیکھ لی ہوگی، اس کی لاش کے ساتھ سر نہیں تھا، اگر یہ اللہ کا اتنا ہی برگزیدہ شخص تھا تو وہ اس انجام کو کیوں پہنچا؟،،،،،،، مختصر یہ کہ اوریزی نے ان لوگوں کو باطنی فتنے سے نکالنے کے لیے بہت کچھ کہا وہ لوگ پہلے ہی خوفزدہ تھے انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ سلجوقی فوج آئی اور اس نے قلعے پر قبضہ کر لیا، یہ موقع ہوتا ہے جب فاتح فوج شہریوں پر ٹوٹ پڑتی ہیں، اور پہلا ہلا وہاں کی عورتوں پر بولتی ہے، لیکن اس فوج نے ایسی کوئی حرکت نہیں کی تھی، اس کی بجائے اس فوج کا کماندار شہر سے بھاگنے والوں کو روکتا تھا اور روک روک کر واپس ان کے گھروں میں بھیجتا تھا اور پھر لوگوں کو یقین دلاتا تھا کہ وہ ان کے محافظ بن کر آئے ہیں لٹیرے بن کر نہیں۔
جب سالار اوریزی ان لوگوں کے سامنے گیا تو لوگ پہلے ہی مطمئن ہو چکے تھے ،اوریزی کی ایک ایک بات ان کے دلوں میں اترتی جا رہی تھی، وہ تو اب عقیدوں، فرقوں اور مذہب کی بات ہی نہیں کرتے تھے، انہوں نے شاہ در میں بہت برا وقت دیکھا تھا، اب تو وہ اپنے اہل و عیال کی سلامتی اور عزت و آبرو چاہتے تھے، وہ انہیں ملتی نظر آ گئی تو وہ سالار اوریزی کی ہر آواز پر لبیک کہنے لگے۔
سالار اوریزی نے اپنا ایک خاص ایلچی سلطان محمد کی طرف یہ پیغام دے کر بھیجا کہ اس نے اس طرح قلعہ ناظروطبس اپنے قبضے میں لے لیا ہے، سالار اوریزی کو توقع یہ تھی کہ سلطان ناراض ہو گا کہ اس کے حکم کے بغیر ایسا کیوں کیا گیا، لیکن جب ایلچی واپس آیا تو پتہ چلا کہ سلطان اس اقدام پر بہت ہی خوش ہوا ہے، اور سالاراوریزی کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
قلعہ ناظروطبس کے لوگوں نے سالاراوریزی کی اطاعت قبول کر لی تھی، لیکن ان میں کچھ کٹر باطنی بھی تھے جن کے دلوں میں ذرا سا بھی اثر نہ ہوا، وہ حسن بن صباح کے پیرومرشد عبدالملک بن عطاش کا قتل برداشت نہ کر سکتے تھے، ان میں سے ایک آدمی الموت جا پہنچا اور حسن بن صباح کو جا اطلاع دی کہ پیر و مرشد عبد الملک بن عطاش قتل کر دیے گئے ہیں ۔
حسن بن صباح پر تو جیسے سکتہ طاری ہوگیا، اس کے دل میں اپنے پیر استاد کا احترام تھا یا نہیں یہ الگ بات ہے، اس کے لیے اصل دھچکہ یہ تھا کہ سلجوقیوں نے بھی اس کی طرح اہم شخصیتوں کو قتل کرنا شروع کر دیا تھا، اس آدمی نے جو حسن بن صباح کو اطلاع دینے گیا تھا تفصیل سے بتایا کہ کس طرح دو آدمی اور دو عورتیں وہاں آئی تھیں اور انہوں نے کیا افواہ پھیلائی اور وہ کس طرح عبدالملک کو لے گئے تھے، اور اگلی صبح عبدالملک کی لاش شہر کے ایک دروازے میں پڑی ملی تھی۔
حسن بن صباح یکلخت چونکا اور واہی تباہی بکنے لگا ،اس کے مشیر اور دیگر درباری اٹھ کھڑے ہوئے اور تھر تھر کانپنے لگے، انہوں نے حسن بن صباح کو اتنے غصہ میں کبھی نہیں دیکھا تھا ،وہ ہر صورت حال میں خندہ پیشانی سے بات کیا کرتا تھا اور تبسم اس کے ہونٹوں پر رہتا تھا، یہ پہلا موقع تھا کہ جن ہونٹوں پر مسکراہٹ رہتی تھی ان ہونٹوں سے جھاگ پھوٹنے لگی، اور وہ جب غصے سے بولتا تھا تو یہ جھاگ اڑ کر سننے والوں پر پڑتی تھی، وہ اپنے پیر استاد کا انتقام لینا چاہتا تھا یہ ممکن نہ تھا، اس لئے اس کا غصہ بڑھتا ہی جا رہا تھا، وہ زیادہ سے زیادہ یہی کر سکتا تھا کہ اپنے فدائیوں کو سالار اوریزی، سلطان محمد اور سنجر کو قتل کرنے کے لئے کہہ دیتا ،لیکن اس کے لیے وقت اور موقع درکار تھا۔
غصے سے وہ پاگل ہوا ہی جارہا تھا کہ اسے اطلاع ملی کے عبدالملک کی دونوں بیویاں اور دو بیٹیاں اور ان کے بیٹوں کے ایک ایک دو دو بچے آئے ہیں، حسن بن صباح باہر کو دوڑ پڑا، اپنے پیر استاد کے ان پسماندگان کا استقبال وہ آگے جاکر کرنا چاہتا تھا، اس نے استقبال یوں کیا کہ عبدالملک کی بوڑھی بیوی کے قدموں میں گر پڑا اور اس کے قدموں میں سر رکھ دیا ،اس کی دوسری بیوی ابھی جوانی کی عمر میں تھی ،حسن بن صباح انہیں اپنے کمرے میں لے آیا۔
کیا سلجوقیوں نے آپ کو چھوڑ دیا ہے ۔۔۔حسن بن صباح نے پوچھا۔ ۔ یا آپ خود کسی طریقے سے وہاں سے نکل آئی ہیں۔
سلجوقی سالار اوریزی آیا تھا۔۔۔ بڑی بیوی نے جواب دیا۔۔۔ اس نے ہمیں بڑے اچھے لہجے میں کہا کہ یہاں رہنا چاہتی ہو تو رہ سکتی ہو تمہاری حفاظت کی ذمہ داری ہم پر ہوگی، اور اگر الموت جانا چاہتی ہو تو اپنے محافظوں کے ساتھ الموت تک پہنچا دوں گا،،،،، میں نے کہا ہمیں الموت پہنچا دیا جائے، مجھے زیادہ ڈر اس جوان بیٹی کا تھا لیکن یوں لگا تھا جیسے یہ جوان بیٹی کسی کو نظر آئی ہی نہیں، ورنہ ایسی جوان لڑکی کو کون معاف کرتا ہے ،لیکن سالار اوریزی نے جیسا کہا تھا ویسا کر کے دکھا دیا ،ہمیں محافظ دستہ دے کر رخصت کیا اور وہ دستہ قلعہ الموت کے باہر چھوڑ کر چلا گیا ہے۔
حسن بن صباح نے حکم دیا کے اسے ایک خاص قسم کے فدائی کی ضرورت ہے، اس نے بتایا کہ سالار اوریزی کو قتل کرنا ہے، اس کے آدمی اچھی طرح جانتے تھے کہ کون سے آدمی کو قتل کرنے کے لیے کس قسم کے فدائی کی ضرورت ہوتی ہے، وہ حسن بن صباح کا مطلب سمجھ گئے پھر بھی حسن بن صباح نے انہیں مزید سمجھا دیا کہ سالار اوریزی بڑا ہی ہوشیار اور دانش مند آدمی ہے اور اس کی نظریں گہرائی تک چلی جاتی ہیں، اس لیے اس کے مطابق کوئی فدائی بھیجا جائے اور اس کا جواں سال ہونا ضروری ہے۔
تاریخوں میں لکھا ہے کہ حسن بن صباح کو ہر بڑی شخصیت کی نفسیات تک سے بھی واقفیت تھی ،پہلے بتایا جا چکا ہے کہ اس کا جاسوسی کا نظام بڑا ہی کارگر تھا ،اس میں عام قسم کے یا اوسط درجے کے آدمی نہیں تھے ،بلکہ اونچی حیثیت کے لوگ بھی تھے اور خاص طور پر عقل مند آدمی بھی تھے۔
یہ پہلے تفصیل سے سنایا جاچکا ہے کہ حسن بن صباح کی جنت میں فدائی پرورش پاتے تھے، ان کے دماغوں پر حشیش اور انتہائی خوبصورت لڑکیوں کا قبضہ ہوتا تھا، ان کی اپنی تو کوئی سوچ ہوتی ہی نہیں تھی، حسن بن صباح کی ایک جنت اور بھی تھی ،اس کے متعلق تاریخ میں کم ہی لکھا گیا ہے، لیکن دو وقائع نگاروں نے اس کی بھی تفصیلات لکھی ہیں، جو مختصراً یوں ہے کہ کچھ نوجوانوں کو ایک خاص قسم کی بوٹی کا نشہ پلایا جاتا تھا، اور انہیں ایسی جگہ رکھا جاتا تھا جہاں غالباً اسی بوٹی کا ہلکا ہلجا دھواں پھیلا رہتا تھا ،اس نشے کا اور اس دھوئیں کا اثر یہ ہوتا تھا کہ وہ آدمی اگر کنکریاں کھا رہا ہوتا تو یوں محسوس کرتا جیسے مرغن کھانے کھا رہا ہے، انہیں کھانے تو مرغن ہی دیئے جاتے تھے لیکن ان کے تصورات میں ایک جنت آباد کر دی جاتی تھی جن میں حوریں بھی ہوتی تھیں اور شراب بھی ہوتی تھی ،لیکن وہ حقیقت میں نہ حوریں ہوتی تھیں نہ شراب ،وہ آدمی اس تصور کو حقیقت سمجھتے تھے، تاریخ سے ایسے اشارے ملتے ہیں کہ اس خیالی جنت میں بہت ہی تھوڑے نوجوان کو رکھا جاتا تھا ،کیونکہ باہر بھیجے جانے کی صورت میں ان کا نشہ اتر بھی سکتا تھا، ان میں سے اگر کسی کو الموت سے باہر بھیجا جاتا تو ساتھ حشیش کا نشہ دیا جاتا تھا، حسیس ایسی چیز تھی جو دماغ کو حقیقی حالت میں آنے ہی نہیں دیتی تھی۔
تھوڑی ہی دیر بعد چھبیس ستائس سال عمر کا ایک خوبرو آدمی حسن بن صباح کے سامنے لا کر کھڑا کیا گیا، اس آدمی نے حسن بن صباح کے آگے سجدہ کیا ،حسن بن صباح نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا تو وہ سجدے سے اٹھا۔
ہمیشہ کے لیے جنت میں رہنا چاہتے ہو؟۔۔۔ حسن بن صباح نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
ہاں یا امام!،،،،، اس آدمی نے جواب دیا۔۔۔ آپ کا حکم ہوگا تو ہمیشہ جنت میں رہنا چاہوں گا، اور آپ جہنم میں پھیکنگے تو وہاں بھی میری زبان پر آپ ہی کا نام ہوگا۔
نہیں جہنم میں نہیں پھیکوں گا ۔۔۔حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ میں تمہیں اس جنت میں بھیج رہا ہوں جس میں تم ہمیشہ رہو گے اور ہمیشہ جوان رہو گے۔
اگر ہم آج کل اور جدید دور کی زبان میں بات کریں تو یہی کہیں گے کہ اس جوان آدمی اور اس جیسے دوسرے آدمیوں کی برین واشنگ ایسی خوبی سے کر دی گئی تھی کہ وہ حسن بن صباح کے اشارے پر جہنم میں جانے کے لیے بھی تیار ہو جاتے تھے، یورپ کے دو تین نفسیات دانوں نے حسن بن صباح کی جنت کا نفسیاتی تجزیہ بھی کیا ہے جو یہاں پیش نہیں کیا جائے گا ،کیونکہ یہ بڑا ہی خشک اور سائنسی موضوع ہے، حسن بن صباح کا اپنا ایک طریقہ اور انداز تھا جو وہ ایسے نوجوان پر استعمال کرتا تھا ،اس نے اس جوان سال آدمی کو بتایا کہ وہ قلعہ وسم کوہ جائے گا اور وہاں اسے ایک سپہ سالار دکھایا جائے گا جس کا نام اوریزی ہے، اسے قتل کرنا ہے اور خود بھی قتل ہو جانا ہے، اگر وہ اسکو قتل کرکے زندہ نکل سکتا ہے تو یہ اس کی اپنی قسمت ہے ،وہ واپس یہاں آئے گا تو جنت میں رہے گا، اور اگر اپنے آپ کو مار لے گا یا کسی کے ہاتھوں قتل ہو جائے گا تو اس سے زیادہ خوبصورت جنت میں جائے گا۔
حسن بن صباح کے فدائی کوئی اور دلیل تو سمجھتے ہی نہیں تھے ،ان کے دماغوں پر حشیش اور عورت اور لذت پرستی سوار ہوتی تھی ،جان لینے اور جان دینے کو تو وہ کچھ سمجھتے ہی نہیں تھے،،،،،، اس جواں سال آدمی کو اچھی طرح سمجھا دیا گیا کہ وہ یہ کام کس طرح کرے گا ،اور وہ اکیلا نہیں ہوگا وہاں دو آدمی ایسے ملیں گے جو اسے اپنی پناہ میں رکھیں گے ،اوریزی کے قتل میں اس کی رہنمائی اور مدد کریں گے۔
حسن بن صباح نے ایسے انداز سے بات کی تھی جیسے اس نے اس جوان سال شخص پر بہت بڑی نوازش کی ہو کہ اسے اپنے حکم کی تعمیل کا موقع دیا ہو۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
وسم کوہ ایک قلعہ بند شہر تھا جس کے متعلق پہلے تفصیل سے سنایا جاچکا ہے کہ یہ کس طرح اور کتنی مدت میں فتح کیا گیا تھا، اب اس کے اندر کے حالات بالکل نارمل تھے، عام خیال یہی تھا کہ اس قصبے میں اب کوئی باطنی نہیں رہا ،لیکن یہ سوچنے والے حقیقت سے بے خبر تھے ،وہاں چند ایک باطنی موجود تھے، جو صرف باطنی ہی نہیں تھے بلکہ حسن بن صباح کے جاسوسوں اور تخریب کار بھی تھے، وہ اس معاشرے میں اس طرح گھل مل گئے تھے کہ ان پر ذرا سا بھی شک نہیں کیا جا سکتا تھا ،وہ وسم کوہ کی خبریں الموت پہنچاتے رہتے تھے، ابھی تک انہوں نے کوئی تخریبی کارروائی نہیں کی تھی، شاید انہیں ایسا کوئی مشن دیا ہی نہیں گیا تھا ،ان کی تعداد بھی کوئی زیادہ نہیں تھی پانچ سات ہی ہوں گے۔
وسم کوہ میں دو ادھیڑ عمر آدمی رہتے تھے ان کے گھر ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے، دونوں بیوی بچوں والے تھے، ایک بڑھئی کا کام کرتا تھا اور دوسرا سبزیاں کاشت کر کے لوگوں کو بھیجتا تھا ،دونوں نے معاشرے میں اپنی عزت کی جگہ بنا رکھی تھی، اور لوگ انہیں عزت و احترام سے دیکھتے تھے، وہ بھی سب میں گھل مل کر رہتے تھے، وہ جو بڑھئی کا کام کرتا تھا اس کے گھر ایک جوان سال آدمی آیا جو اس کا مہمان سمجھا گیا، لیکن وہ وہیں رہنے لگا، بڑھئی اور اس سبزی فروش نے لوگوں کو بتایا کہ یہ بڑھئی کا بھتیجا ہے، رے میں رہتا تھا اور اس کا باپ مر گیا ہے اب یہ اپنے بڑھئی چچا کے ساتھ رہنے کے لیے یہاں آیا ہے، اور اپنے چچا کے ساتھ کام کرتا ہے اس کا نام عبید عربی بتایا گیا۔
عبید عربی خاموش طبع انسان تھا، لوگوں سے کم ہی ملتا اور بولتا تو بہت ہی کم تھا ،اس کے چہرے پر اداسی سی چھائی رہتی تھی، کوئی اسے سلام کرتا ملتا تو اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آ جاتی تھی پھر فوراً مسکراہٹ غائب ہوجاتی اور چہرے پر اداسی عود کر آتی تھی، اس کے انداز سے یوں لگتا تھا کہ وہ اس کوشش میں ہے کہ کسی کی طرف نہ دیکھے اور کوئی اس کے ساتھ سلام دعا نہ کرے،،،،،،، یہ وہی خوبرو جوان تھا جسے حسن بن صباح نے ذاتی طور پر وسم کوہ سالار اوریزی کے قتل کے لیے بھیجا تھا۔
وہ اس بڑھئی کا بھتیجا تھا یا نہیں ،اس کا باپ مر گیا تھا یا نہیں ،بہرحال یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ بڑھئی اور سبزیاں اگانے اور بیچنے والا اس کا پڑوسی باطنی تھے، وہ صرف باطنی نہیں تھے بلکہ تجربے کار جاسوس اور تخریب کار تھے، وسم کوہ سے الموت خبریں پہنچاتے رہتے تھے، ان دونوں نے عبید عربی کو اپنی پناہ میں رکھا اور اس جوان سال اور خوبرو آدمی نے ان دونوں کی ہدایات اور رہنمائی سے سالار اوریزی کو قتل کرنا تھا۔
وسم کوہ میں ایک وسیع و عریض میدان تھا جیسے گھوڑ دوڑ کا میدان کہا کرتے تھے، فوجی وہاں لڑائی کی مشک وغیرہ کیا کرتے تھے اور سوار گھوڑے دوڑاتے تھے ،سالار اوریزی ہر روز کچھ دیر کے لیے وہاں جاتا اور گھوڑے پر سوار اس میدان میں گھوم پھیر کر اور فوجیوں کو ٹریننگ کرتے دیکھا کرتا تھا اور پھر واپس آ جاتا تھا، ایک روز عبید عربی ان لوگوں میں کھڑا تھا جو فوج کا یہ تماشا دیکھ رہے تھے، سالار اوریزی ان لوگوں کے قریب سے گزرا تو عبید عربی اس کی طرف چل پڑا، ایک فوجی نے دوڑ کر اسے وہیں روک لیا اور پوچھا کہ وہ آگے کیوں آیا ہے۔
میں فوج میں بھرتی ہونا چاہتا ہوں۔۔۔ عبید عربی نے کہا۔۔۔ میں اسی لئے سپہ سالار کے سامنے جانا چاہتا ہوں۔
نہیں بھائی !،،،،،فوجی نے کہا۔۔۔میں تمہیں وہ جگہ دکھا دوں گا جہاں فوج میں آدمی بھرتی کیے جاتے ہیں، تم وہاں چلے جانا اور تمہیں بھرتی کر لیا جائے گا۔
میں صرف بھرتی کے لیے سپہ سالار سے نہیں ملنا چاہتا ۔۔۔عبید عربی نے کہا۔۔۔ یہ سپہ سالار مجھے بہت اچھا لگتا ہے، میں اس کا عقیدت مند ہوں یہ بہادر سالار ہے اور پکا مسلمان ہے، میں اس کے ساتھ ہاتھ ملانا چاہتا ہوں اور اس کے ہاتھ چومنا بھی چاہتا ہوں۔
نہیں میرے بھائی!،،،،، فوجی نے کہا۔۔۔بڑا سخت حکم ہے کہ کوئی باہر کا آدمی سپہ سالار کے قریب نہ جائے تمہیں بھی سپہ سالار سے سے ملنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔
وہ کیوں؟،،،،،، عبید عربی نے پوچھا۔
یہ تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے۔۔۔ فوجی نے کہا۔۔۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ حسن بن صباح کے فدائی یہاں کتنی حاکموں کو قتل کر چکے ہیں ،ان کا طریقہ قتل یہی ہے کہ عقیدت مند بن کر یا فریادی بن کر کسی حاکم کے قریب روتے دھوتے چلے جاتے ہیں اور خنجر نکال کر اس حاکم کو قتل کر دیتے ہیں پھر خود کشی کر لیتے ہیں۔
دراصل عبید عربی دیکھنا چاہتا تھا کہ سالار اوریزی کے قریب جایا جا سکتا ہے یا نہیں، اسے پتہ چل گیا کہ وہ یا کوئی اور اس سالار کے قریب نہیں جاسکتا، اسے اب کوئی اور طریقہ سوچنا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سورج غروب ہونے میں کچھ ہی دیر باقی تھی، شافعیہ قلعہ وسم کوہ کی دیوار پر اکیلی ہی ٹہل رہی تھی، وہ تو اس دنیا میں رہ ہی اکیلی گئی تھی، اسے ماں باپ یاد آ رہے تھے اور پھر اسے اپنا چچا ابو جندل یاد آنے لگا ،اس کے چچا کے مارے جانے کا اسے کوئی افسوس نہیں تھا ،لیکن اس کے دل پر بوجھ بڑھتا ہی جا رہا تھا، پہلے سنایا جا چکا ہے کہ وہ اپنے چچا ابو جندل کے ساتھ دور دراز کے ایک پہاڑی علاقے میں خزانے کی تلاش میں گئی تھی، شافعیہ کو کسی خزانے کے ساتھ ذرا سی بھی دلچسپی نہیں تھی، لیکن ابوجندل شافعیہ اور اس کی بہن کو بھی ساتھ لے گیا تھا کہ پیچھے ان کی دیکھ بھال اور حفاظت کرنے والا کوئی نہ تھا ۔
ابو جندل جس طرح خزانے والے غار میں مارا گیا تھا اور جس طرح شافعیہ وہاں سے نکلی اور جن مصائب میں الجھتی اور نکلتی واپس وسم کوہ پہنچی تھی، وہ پہلے تفصیل سے سنایا جاچکا ہے۔
شافعیہ قلعے کی دیوار پر چلتے چلتے رک گئی اور اس جنگل کی طرف دیکھنے لگی جس میں سے گزر کر وہ واپس آئی تھی، اس کے دل پر ہول سا طاری ہونے لگا، وہ اللہ کا شکر ادا کرنے لگی کہ وہ یقینی موت کے پیٹ میں سے نکل آئی تھی ،وسم کوہ میں اس کا اپنا کوئی عزیز رشتے دار نہیں رہا تھا لیکن وہ یہیں واپس آگئی۔
وہ خوش قسمت تھی کہ اسے مزمل اور شمونہ کی پناہ مل گئی تھی، ان دونوں نے اسے وہی پیار دیا جو اس کے ماں باپ اور پھر اس کا چچا ابو جندل اپنے ساتھ ہی لے کر اس دنیا سے اٹھ گئے تھے، پھر وہ اللہ کا شکر اس لیے بھی ادا کرنے لگی کہ ابوجندل نہ صرف باطنی تھا بلکہ حسن بن صباح کا جاسوس اور تخریب کار تھا، لیکن شافعیہ اور اس کے راستے سے ہٹ کر اللہ کی راہ پر آ گئی، اس راہ پر مزمل اور شمونہ نے اور سالار اوریزی نے بھی اسکا ہاتھ تھام لیا تھا۔
سورج افق تک پہنچ گیا تھا اور شفق بڑی ہی دلکش ہوتی جا رہی تھی، شافعیہ اس شفق کے رنگ دیکھنے لگی،،،،،، اسے اپنے پیچھے قدموں کی ہلکی ہلکی چاپ سنائی دی، یہ چاپ بتا رہی تھی کہ کوئی خراماں خراماں چلا آرہا ہے ،شافعیہ نے پیچھے دیکھا ایک خوبرو جوان آہستہ آہستہ چلا آ رہا تھا۔
شافعیہ نے اسے دیکھا اور پھر شفق کی طرف نظریں پھیر لی، لیکن اچانک اس نے پھر پیچھے دیکھا اسے اس جواں سال آدمی کا چہرہ کچھ مانوس سا اور کچھ شناسا لگا ،اس نے اس چہرے کو غور سے دیکھا اور ذہن پر زور دے کر یاد کرنے لگی کہ یہ چہرہ اسے کہاں نظر آیا تھا ،اسے اتنا یاد آیا کہ یہ چند دنوں چند مہینوں یا چند سالوں پہلے کی بات نہیں بلکہ بڑی ہی پرانی بات ہے کہ یہ چہرہ یا اس سے ملتا جلتا چہرہ دیکھا تھا۔
اس نے اس شخص سے نظریں ہٹا لی، اور وہ جواں سال شخص اسی رفتار سے چلتا آیا اور شافعیہ کے قریب پہنچ گیا ،شافعیہ نے ایک بار پھر منہ اس کی طرف کرکے دیکھا وہ آدمی بھی اسے دیکھ رہا تھا ،اس آدمی کے چہرے سے پتہ چلتا تھا کہ وہ چونک اٹھا ہے اور وہ شافعیہ کو پہچاننے کی کوشش کر رہا ہے، اب دونوں ایک دوسرے کے سامنے کھڑے تھے اور ان کے درمیان بمشکل ایک قدم کا فاصلہ تھا ،وہ جوان آدمی شافعیہ کی عمر کا تھا، اس وقت شافعیہ کی عمر پچیس چھبیس سال ہو گئی تھی۔
کیا تم مجھے پہچاننے کی کوشش کر رہے ہو؟،،،،،، شافعیہ نے بلاجھجک پوچھا اور جواب سنے بغیر کہا۔۔۔۔ کوشش کرو،،،،،ضرور کوشش کرو،،،،، مجھے بھی کچھ ایسا لگ رہا ہے کہ ہم پہلے بھی کبھی ملے ہیں، اگر ملے نہیں تو ایک دوسرے کو دیکھا ضرور ہے،،،،،،، اور کچھ ایسا بھی لگتا ہے جیسے ہم نے صرف ایک دوسرے کو دیکھا ہی نہیں بلکہ کسی جگہ ہم اکٹھے رہے ہیں ۔
مجھے خوشی ہے کہ تم نے برا نہیں جانا۔۔۔ اس شخص نے کہا۔۔۔جو تم محسوس کر رہی ہو وہ میں بھی محسوس کر رہا ہوں۔
تم ناصر تو نہیں ہو؟،،،،، شافعیہ نے پوچھا۔۔۔ خدا کی قسم تم ناصر٦ ہو ،اب یاد آیا میری یاد مجھے دھوکا نہیں دے سکتی، تم میرے بچپن کے ساتھی ہو ،مجھے وہ کشادہ گلی یاد آگئی ہے جہاں ہم کھیلا کرتے تھے اور تم مجھ سے اور میں صرف تم سے کھیلا کرتی تھی،،،،، کیا میں غلط کہہ رہی ہوں؟
تم غلط نہیں کہہ رہی۔۔۔ اس شخص نے کہا۔۔۔ تمہیں میرا نام یاد نہیں رہا۔۔۔شاید بچپن میں میرا نام ناصر ہی ہوگا ،لیکن بعد میں میرا نام عبید عربی ہو گیا تھا،،،،، ہاں تم میرے بچپن کی ساتھی ہو اس کے بعد تم وہاں سے چلی گئی تھی اور پھر شاید تمہیں ایک دو مرتبہ دیکھا ہو اور اس کے بعد میں کہاں کہاں پھیرا اور مجھ پر کیا گزری یہ لمبی کہانی ہے، اصل بات یہ ہے کہ تمہیں یہاں دیکھ کر مجھے بہت ہی خوشی ہوئی ہے ۔
کیا تم نے شادی کرلی ہے؟،،،،، شافعیہ نے پوچھا۔
نہیں شافعیہ!،،،،،، عبید عربی نے کہا۔۔۔ لڑکیاں تو بہت ملیں لیکن پیار والی کوئی نہ ملی، میں تمہیں دل کی بات بتاتا ہوں وہ یہ کہ مجھے جسم نہیں چاہیے، وہ محبت چاہیے جو روح کے اندر سے پھوٹا کرتی ہے اور وہ روح کے غنچوں کو بھی کھلا دیتی ہے۔
اس خوبرو جوان آدمی نے شافعیہ کی روح کے مرجھائے ہوئے غنچے کو تروتازہ کر کے کھلا دیا ،اس کا ذہن ایک ہی اڑان میں ماضی کے اس دور میں پہنچ گیا جب وہ عبید عربی کے ساتھ کھیلا کرتی تھی، اسے گئی گزری باتیں یاد آنے لگیں ،اس کا ساتھ بچپن تک ہی نہیں بلکہ بچپن سے نکل کر لڑکپن تک پہنچ گیا تھا ،شافعیہ کے ماں باپ ایک دوسرے کے بعد اسی عمر میں مر گئے تھے، اور اسے اور اس کی چھوٹی بہن کو ان کے چچا ابو جندل نے سنبھال لیا اور بڑے پیار سے پالا پوسا تھا ،جب ماں مر گئی اور دو چار مہینوں بعد اس کا باپ بھی مر گیا تو وہ عبید عربی کے ساتھ پہلے سے زیادہ کھیلنے لگی تھی، اور اب وہ کھیلتی کم تھی اور عبید کو اپنے پاس بٹھا کر باتیں زیادہ کرتی تھی، عبید اس کچی عمر میں بھی شافعیہ کو تسلیاں اور دلاسے دیا کرتا تھا۔
نہیں،،، نہیں،،، شافعیہ نے عبید عربی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا ۔۔۔تمہارا نام ناصرہ تھا عبید عربی نہیں، میں تمہیں ناصر ہی کہوں گی میرے دل میں وہ ناصر زندہ ہوگیا ہے۔
شافعیہ کے جذبات میں جو ہلچل بپا ہو گئی تھی ویسی ہی عبید عربی کے جذبات میں پیدا ہوگئی، اسے یاد آنے لگا کہ اس شافعیہ کے ساتھ اسے کتنا پیار تھا، اس کے بغیر وہ خوش رہتا ہی نہیں تھا ،اپنے ہمجولیوں کے ساتھ تو کھلتا ہی نہیں تھا اسے وہ وقت یاد آنے لگا جب ماں باپ کی موت کے بعد شافعیہ اس کے پاس بیٹھ کر رویا کرتی اور انہیں یاد کیا کرتی تھی تو عبید کس پیار سے اسے بہلایا کرتا تھا۔
شافعیہ!،،،،،،عبید عربی نے کہا۔۔۔ تم اس عمر میں خوبصورت تو تھی لیکن اتنی نہیں جتنی آج ہو۔
عبید عربی نے یہ بات کچھ ایسے جذباتی لہجے میں اور خوشگوار انداز میں کی تھی کہ شافعیہ کھلکھلا کر ہنس پڑی، اور اس بے ساختہ ہنسی نے اس کی ذات سے وہ سارا غبار اڑا دیا جو اسے کچھ دیر پہلے پریشان کیے ہوئے تھا، وہ محسوس کیا کرتی تھی جیسے اس کی ذات سے اور اس کے اندر سے دھواں اٹھتا رہتا ہے جس سے اس کا دم گھٹ جاتا ہے، عبید عربی کی شگفتگی نے اس کی یہ ساری گھٹن ختم کردی۔
سورج غروب ہو گیا تھا اور قلعے میں کئی جگہوں پر مشعلیں جل اٹھی تھیں، شام گہری ہو گئی تھی، شافعیہ کو یہ خیال آیا ہی نہیں کہ شمونہ اور مزمل اس کے لئے پریشان ہوں گے۔
تمہاری شادی تو ہو چکی ہوگی؟،،،، عبید عربی نے پوچھا۔
نہیں۔۔۔ شافع نے جواب دیا۔۔۔ شادی کی بات سامنے آتی ہے تو یوں لگتا ہے اپنے آپ کو کسی کے ہاتھ بیچ رہی ہوں، شاید گم گزشتہ پیار کی تلاش میں ہوں جو ملنا محال نظر آتا ہے۔
وہ مل گیا ہے۔۔۔ عبید عربی نے کہا۔۔۔ ہم دونوں کو مل گیا ہے، کس کے پاس رہتی ہو؟
اپنا کوئی بھی نہیں رہا۔۔۔شافعیہ نے جواب دیا۔۔۔ اللہ کے دو ایسے بندے مل گئے ہیں جن کے دلوں میں وہی پیار ہے جو میرے ماں باپ کے دلوں میں ہوا کرتا تھا،،،،،،، میں تمہیں ان سے ملواؤں گی۔
تمہیں یہاں زیادہ دیر رکنا نہیں چاہیے۔۔۔ عبید عربی نے کہا۔۔۔جن کے پاس رہ رہی ہو وہ تمہارے خون کے رشتے دار نہیں، ایسا نہ ہو کہ وہ تم پر کوئی شک کریں۔
تم اپنی بتاؤ۔۔۔ شافعیہ نے پوچھا۔۔۔تمہارا گھر کہاں ہے، پہلے تو تمہیں وسم کوہ میں کبھی نہیں دیکھا۔
میرے بھی ماں باپ مر گئے تھے۔۔۔ عبید عربی نے جواب دیا۔۔۔ تم اصفہان سے اپنے چچا کے ساتھ ہمیشہ کے لئے چلی گئی تھی تو اس کے تھوڑے ہی عرصے بعد میرے ماں باپ بھی مر گئے تھے ،میں کہیں اور رہتا تھا لیکن اب یہاں رہنے کے لئے آ گیا ہوں، یہاں ایک بڑھئی ہے وہ میرا چچا ہے میں اب اسی کے ساتھ رہوں گا اور اس نے مجھے اپنا کام سکھانا شروع کر دیا ہے،،،،،، آؤ چلیں کل کہاں اور کس وقت ملوں گی ۔
جہاں کہو گے۔۔۔ شافع نے بڑے ہی جذباتی لہجے میں جواب دیا۔۔۔ جس وقت کہو گے آ جاؤ گی۔
قلعے کے باہر آ سکوں گی۔۔۔ عبید عربی نے پوچھا، اور اس کے جواب کا انتظار کئے بغیر بولا ۔۔۔قلعے کے ساتھ ہی سبزیوں کا ایک باغ ہے وہ بہت ہی خوبصورت جگہ ہے وہاں درخت بہت زیادہ ہیں اور ان پر بیلیں چڑھی ہوئی ہیں، اور وہاں پھول دار پودے بھی ہیں، وہ باغ یہاں ہمارے ایک پڑوسی کا ہے، وہ سبزیاں اُگاتا ہے اور قلعے میں بیچتا ہے ،فوج کو بھی سبزیاں وہی دیتا ہے، اگر کل کسی وقت وہاں آ سکو تو میں وہی ملوں گا، اس باغ کے مالک سے ڈرنے اور گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں وہ ہمارا پڑوسی ہے اور میرے چچا کا بھائی بنا ہوا ہے۔
ہاں وہ باغ۔۔۔۔ شافعیہ نے مسرت بھرے لہجے میں کہا۔۔۔میں دو تین بار اس باغ میں گئی ہوں، بہت ہی خوبصورت جگہ ہے،،،،،،، میں وہاں آ جاؤں گی۔
انہوں نے اگلے روز کی ملاقات کا وقت مقرر کر لیا اور پھر قلعے کی دیوار سے اتر کر اپنے اپنے گھر چلے گئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
شافعیہ تو عبید عربی کی ذات میں گم ہوگئی تھی، اسے تو جیسے احساس ہی نہ رہا تھا کہ شام بہت گہری ہوگئی ہے اور اسے اپنے گھر پہنچنا ہے وہ سوچنے لگی کہ مزمل اور شمونہ اسے پوچھیں گے کہ وہ کہاں رہی ہے تو وہ کیا جواب دے گی، اس نے کوئی جھوٹ گڑھنا چاہا تو ضمیر نے اس کا ساتھ نہ دیا ،وہ مزمل اور شمونہ کے آگے جھوٹ بولنا نہیں چاہتی تھی، انہوں نے جو پیار اور جو احترام اسے دیا تھا اس کی قدر وہ صرف اس طرح کر سکتی تھی کہ ان کے ساتھ مخلص رہے اور صداقت کا دامن نہ چھوڑے۔
وہ گھر میں داخل ہوئی تو شمونہ اس کے لئے خاصی پریشان ہو رہی تھی، مزمل نے اسے بتایا کہ وہ اس کی تلاش میں نکلنے ہی والا تھا ،دونوں نے اس سے پوچھا کہ وہ کہاں چلی گئی تھی، وہ کھانے کے لئے اس کا انتظار کر رہے تھے۔
بچپن کا ایک ساتھ ہی مل گیا تھا۔۔۔۔ شافعیہ نے بڑے پر اعتماد لہجے میں کہا۔۔۔ اس کے ساتھ قلعے کی دیوار پر کھڑی بچپن کو یاد کرتی رہی ہوں۔
کون ہے وہ؟،،،،، شمونہ نے پوچھا۔
کچھ دن ہوئے یہاں آیا ہے۔۔۔ شافعیہ نے جواب دیا۔۔۔ ہم بچپن میں اکٹھے کھیلا کرتے تھے، آج اس عمر میں ملاقات ہوئی ہے اور ہم دونوں نے ایک دوسرے کو فوراً پہچان لیا تھا۔
اگر تم اسے اچھی طرح جانتی ہو تو پھر کوئی بات نہیں۔۔۔۔مزمل نے کہا۔۔۔ اگر اسے اتنا ہی جانتی ہوں کہ بچپن میں تمہارے ساتھ کھیلا کرتا تھا تو پھر محتاط رہنا ،آج کل کسی کا بھروسہ نہیں ۔
نہ ملو تو بہتر ہے۔۔۔ شمونہ نے کہا۔
یہ بات غلط ہے۔۔۔ مزمل نے کہا۔۔۔اسے ضرور ملو، اگر وہ شہر میں ابھی ابھی آیا ہے تو اسے ضرور ملو ،لیکن یوں نہیں کہ تمھیں اس سے بچپن میں پیار تھا ،بلکہ اس لیے ملو کہ اسے غور سے دیکھو اور یہ جانچ پڑتال کرنے کی کوشش کرو کہ یہ کوئی غلط آدمی تو نہیں،،،،،،، وہ حسن بن صباح کا بھیجا ہوا فدائی بھی ہوسکتا ہے، ہم نے جس طرح قلعہ ناظر و طبس لیا ہے، اسے حسن بن صباح بخشے گا نہیں، ہم نے اس کے پیرومرشد کو قتل کیا ہے، حسن بن صباح انتقام لے گا اور ضرور لے گا ،ہوسکتا ہے وہ سپہ سالار اوریزی کو بھی قتل کروا دے،،،،،،، ایسا کوئی اجنبی شہر میں نظر آئے تو اسے ہمیشہ شک کی نظروں سے دیکھو۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*