🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر پینسٹھ - آخری قسط⛔🌈☠️🏡


 🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر پینسٹھ - آخری قسط⛔🌈☠️🏡

الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی  و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سلطان محمد کا وزیراعظم ابونصر احمد مغرب کی نماز مسجد میں پڑھ کر واپس گھر آ رہا تھا جب اس نے اپنے گھر کے احاطے کے باہر والے دروازے کے سامنے ابن مسعود اور زریں کو گھوڑوں سے اترتے دیکھا اور دربان انکی طرف چلا کہ وہ ان سے پوچھے کہ وہ کون ہیں اور کیوں آئے ہیں، ابونصر احمد تو ابن مسعود کو دیکھ کر دوڑ ھی پڑا اور دوسرے لمحے دونوں ہی جذباتی اور پرتپاک انداز سے بغل گیر ہو گئے۔
اپنی بہن کو لے آیا ہوں ۔۔۔ابن مسعود نے وزیراعظم سے الگ ہوتے ہوئے زریں کی طرف اشارہ کیا اور کہا۔۔۔۔ آپ شاید حیران ہوتے ہونگے کہ میں بہن کو الموت سے نکال کر کس طرح لایا ہوں ،یہ بیٹھ کر سناؤں گا۔
ابونصر دونوں کو اندر لے گیا اور دربان سے کہا کہ گھوڑوں کو اصطبل میں رکھا جائے، مکان کے اندر جاکر زریں کو ابو نصر احمد نے زنانہ حصہ میں بھیج دیا اور گھر میں کہا کہ یہ اس کے خاص مہمان ہیں۔
ان مہمانوں کو غسل کرایا گیا اور زریں نے عورتوں کے ساتھ اور ابن مسعود نے ابو نصر احمد کے ساتھ کھانا کھایا اور پھر الگ بیٹھ کر باتیں کرنے لگے، ابونصر تو ابن مسعود کو دیکھ کر اس قدر خوش ہوا کہ وہ بار بار خوشی کا اظہار کرتا تھا۔
محترم وزیراعظم!،،،،،، ابن مسعود نے کہا۔۔۔۔ اللہ کے فضل و کرم سے آپ الموت لے لیں گے، میں آپ کی پوری پوری مدد کروں گا اس کے عوض آپ مجھے میری بہن دے دیں۔
بہن دے دیں!،،،،، ابو نصر احمد نے حیرت زدہ لہجے میں کہا۔۔۔ ہاں تم اپنی بہن کو لے تو آئے ہو۔
ہاں محترم وزیراعظم !،،،،،،ابن مسعود نے کہا۔۔۔ میں بہن کو لے تو آیا ہوں لیکن یہ ایسے نشے سے سرشار ہے کہ بہن بھائی کے رشتے کے تقدس کو بھول بیٹھی ہے،،،،، جس طرح وسم کوہ میں مجھے طبیب نے ابلیسیت سے نکال کر انسانیت کے درجے میں کھڑا کردیا تھا اسی طرح میری بہن کو انسانیت کی عظمت عطا ہوجائے تو میں اسے اپنے اوپر بہت بڑا احسان سمجھوں گا۔
ابن مسعود نے تفصیلاً بتایا کہ اس کی بہن ابھی کس ذہنی کیفیت میں ہے، اور جب یہ دونوں بہن بھائی حسن بن صباح کی جنت میں تھے تو ان کا آپس میں کیا تعلق تھا،،،،،، ابونصر احمد دانشمند وزیر تھا، وہ ساری بات سمجھ گیا اور اس نے کہا کہ وہ کل صبح ہی زریں کو طبیب کے حوالے کر دے گا ،اور کچھ دنوں بعد ابن مسعود اپنی بہن کو اس روپ میں دیکھے گا جس میں وہ اسے دیکھنا چاہتا ہے۔
ابن مسعود نے ابو نصر احمد کو پوری تفصیل سے سنایا کہ وہ کس طرح حسن بن صباح کے پاس پہنچا تھا ،کیا جھوٹ بولے تھے اور اسے کیا فریب دیئے تھے، اور پھر اسے حیدر بصری اور خزانے کا قصہ سنایا ،ابن مسعود کو خزانے کی حقیقت معلوم نہیں تھی اس نے ابو نصر احمد کو یہ بھی بتایا کہ وہ اپنی بہن کو وہاں سے کیا کہہ کر ساتھ لایا ہے، راستے میں اس نے اپنے دو ساتھیوں کو جس طرح قتل کیا تھا وہ بھی سنایا۔
میں اب ایک ہی بات سننا چاہتا ہوں۔۔۔ ابونصر احمد نے کہا۔۔۔ میں کب الموت پر حملہ کروں، حملے اور محاصرے کے وقت تمہیں الموت میں ہونا چاہیے۔
محترم وزیر اعظم !،،،،،ابن مسعود نے کہا۔۔۔ میں کل صبح وسم کوہ کو روانہ ہو جاؤں گا، مزمل آفندی اور بن یونس میرے ساتھ الموت جائیں گے ،خطرہ صرف مزمل آفندی کے متعلق ہے کہ حسن بن صباح اسے پہچان لے گا، لیکن ایسا نہیں ہوگا وہ تو پندرہ سولہ سال پہلے کا واقعہ ہے کہ مزمل اسکے پاس کچھ دن رہا تھا ،اس اتنے لمبے عرصے میں سینکڑوں مزمل آفندی اس کی نظروں سے گزر چکے ہیں، حسن بن صباح میں اب وہ پہلے والی بات نہیں رہی،،،،، بہرحال میں نے کل صبح روانہ ہو جانا ہے۔ دنوں کا حساب کر لیں وہاں جاتے ہی ان دونوں کو ساتھ لے کر الموت روانہ ہو جاؤں گا ،اور کچھ دنوں بعد آپ یہاں سے کوچ کریں اور الموت کو محاصرے میں لے لیں، ہم دریا والا دروازہ کھولیں گے اور آپ کو مشعل کا اشارہ بھی دے دیں گے، اندر ہمیں موقع ملا تو حسن بن صباح کو قتل بھی کر دیں گے، لیکن یہ ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ وہ اکیلا باہر نکلتا ہی نہیں۔
انہوں نے ضروری تفصیلات طے کر لیں اور وہ سو گئے،،،،،، صبح اس وقت ابن مسعود جاگ اٹھا جب صبح ابھی تاریک تھی ،وہ جانے کے لیے تیار ہوا اور اپنی بہن سے ملے بغیر وسم کوہ کو روانہ ہوگیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ابن مسعود وسم کوہ پہنچا تو سالار اوریزی، مزمل آفندی اور بن یونس نے اس کا ویسا ہی پرتپاک اور پرجوش خیر مقدم کیا جیسا ابو نصر احمد نے کیا تھا، وہ سب حیران تھے کہ یہ سابق فدائی زندہ اور سلامت حسن بن صباح کے ہاتھوں سے نکل آیا ہے، اس نے جب سنایا کہ وہ حسن بن صباح کے ہاتھوں سے نہ صرف نکل آیا ہے بلکہ اسے ایسا دھوکا دیا ہے کہ وہ حسن بن صباح کا قابل اعتماد آدمی بن گیا ہے اور اب وہ واپس جائے گا تو حسن بن صباح دریا والا دروازہ اس کی ذمہ داری میں دے دے گا۔
وہ جب یہ تفصیلات سنا رہا تھا تو یہ تینوں اسے اس طرح حیران و پریشان ہو کر دیکھ رہے تھے کہ کوئی انسان اس قدر دانشمند بھی ہو سکتا ہے کہ ایسی فریب کاریاں کر لے کہ اُس فریب کار کو بھی انگلیوں پر نچا دے جو نبی بھی بن گیا تھا اور امام بھی اور لوگوں نے اس کے آگے سجدے کرنے شروع کر دیے تھے۔
وہ نہیں جانتے تھے کہ اللہ تبارک و تعالی نے انسان کو بہت بڑی قوت عطا فرمائی ہے، اس قوت پر اختیار بھی انسان کو دے دیا ہے ،اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ اس قوت سے عرش بریں کا فرشتہ بن جائے یا روئے زمین کا ابلیس ہو جائے۔
ابن مسعود نے اصل بات چھیڑی اور کہا کہ مزمل آفندی اور بن یونس اس کے ساتھ الموت چلیں، وہ تو پہلے ہی تیار بیٹھے تھے اور انہوں نے اسی کو زندگی کا مقصد بنا رکھا تھا کہ الموت کو فتح کرکے وہاں سے ابلیسیت کا نام و نشان مٹانا ہے، اور حسن بن صباح کو قتل کرنا ہے، بات اس خطرے کی ہوئی کہ حسن بن صباح مزمل آفندی کو پہچان لے گا، لیکن ابن مسعود کہتا تھا کہ حسن بن صباح اتنی لمبی مدت بعد مزمل کو نہیں پہچان سکے گا۔
ابن مسعود نے یہ بھی کہا کہ وہ کوشش کرے گا کہ  مزمل اور بن یونس حسن بن صباح کے سامنے جائیں ہی نہیں، اس طرح کچھ ضروری تفصیلات طے کرکے مزمل اور بن یونس اس کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہوگئے۔
اگلی صبح تینوں روانہ ہوگئے، مزمل آفندی اور بن یونس نے کوئی بھیس نہ بدلا نہ وہ کسی بہروپ میں گئے وہ جیسے تھے ویسے ہی چل پڑے، ابن مسعود کو اپنی عقل اور اپنی خداداد صلاحیتوں پر اتنا اعتماد تھا کہ وہ یقین کے ساتھ کہتا تھا کہ وہ ان دونوں کو محفوظ رکھے گا اور اتنا آزاد کے اندر یہ جو بھی کاروائی ضروری سمجھیں گے کر سکیں گے، ابن مسعود کا ایمان بیدار ہوچکا تھا اور اس کی یہ کامیابی ایمان کی قوتوں کی حاصل تھی۔
بڑی لمبی مسافت طے کرکے وہ الموت پہنچے ،مزمل اور بن یونس کو ابن مسعود نے حسن بن صباح کے مہمان خانے میں بھیج دیا اور خود حسن بن صباح کے پاس چلا گیا، حسن بن صباح نے اس سے پوچھا کہ وہ کیا کر آیا ہے۔
یا شیخ الجبل!،،،،،، ابن مسعود نے کہا ۔۔۔میں بات مختصر کروں گا اور وہی بات کروں گا جو شیخ الجبل کے لئے اہم ہے،،،،، الموت پر حملہ نہیں روکا جاسکے گا ،میں وہاں پہنچا تو فوج کو تیاری کا حکم مل چکا تھا، حملے کی قیادت وزیر اعظم ابو نصر احمد خود کرے گا۔
 میں اپنی بہن کو ایوان سلطنت میں قابل اعتماد ساتھیوں کے حوالے کر آیا ہوں، جہاں وہ نہ صرف یہ کہ محفوظ رہے گی بلکہ اپنی کاروائی آزادی سے اور آسانی سے کرتی رہے گی۔
میں نے بہن کو جس آدمی کے حوالے کیا ہے وہ اسی انتظار میں تھا کہ اسے زریں جیسی ہی ایک لڑکی مل جائے تو وہ ان سلطانوں کا تختہ الٹ سکتا ہے ،اس نے کہا کہ ابو نصر احمد کو شیشے میں اتارنا کوئی مشکل نہیں، لیکن ابھی اسے حملے سے نہیں روکا جا سکتا کیونکہ سلطان محمد کوچ کا حکم دے چکا ہے۔
سلجوقی فوج کی نفری کتنی ہوگی ؟،،،،حسن بن صباح نے پوچھا۔
چالیس اور پچاس ہزار کے درمیان ہوگی۔۔۔ ابن مسعود نے جواب دیا۔۔۔ اس فوج کے پاس منجنیقیں بھی ہوں گی ،لیکن انہیں میں نے مرو میں دیکھ کر حساب کیا ہے کہ ان کے پھینکے ہوئے پتھر شہر کے اندر نہیں پہنچ سکیں گے، کیونکہ الموت چٹان کے اوپر ہے، اور پتھر اتنی بلندی تک نہیں آ سکیں گے، میں آپ کو یہ بھی بتا دیتا ہوں یا شیخ الجبل یہ فوج الموت کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے گی آنے دیں محاصرہ بری طرح ناکام ہوگا۔
سلطان محمد احمق آدمی ہے۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ اور اس کا یہ وزیراعظم ابونصر احمد اس سے بھی زیادہ احمق معلوم ہوتا ہے، وہ موسم کے تیور کو دیکھ ہی نہیں رہے، تم باہر نکل کر دیکھنا پہاڑوں پر برف پڑنی شروع ہوگئی ہے، ایک دو چاند اور طلوع اور غروب ہوں گے تو برف باری یہاں تک بھی پہنچ جائے گی، ہم یہاں اندر آرام سے بیٹھے رہیں گے اور سلجوقیوں کے محاصرے کو برفباری ہی توڑ کر منجمد کردے گی۔
ابن مسعود نے یہ سنا تو پریشان ہو گیا ،اسے خیال آیا کہ ابو نصر احمد بڑے ہی جوش وخروش سے حملے کی باتیں کر رہا تھا اور اس نے نہایت اچھی چالیں بھی سوچ رکھی تھیں، لیکن اس نے موسم کی طرف دھیان دیا ہی نہیں تھا، یہ تو تاریخ سے بھی پتہ چلتا ہے کہ ابو نصر احمد جذباتی وزیراعظم تھا، بے شک وہ مرد مومن تھا اور الموت پر قبضہ کا مقصد یہ نہیں سمجھتا تھا کہ اپنی سلطنت کو وسعت دینی ہے، بلکہ وہ ابلیسیت کا خاتمہ چاہتا تھا ،لیکن جذبات سے مغلوب ہو کر سوچنے والوں کے مقاصد اکثر پورے نہیں ہوا کرتے۔
ابن مسعود کے پاس اب کوئی ذریعہ اور طریقہ نہ تھا کہ وہ مرو پیغام بھیجتا کہ کوچ ملتوی کردو ،کیوں کہ تین چار مہینوں تک برفباری جاری رہے گی ،اسے ایسی امید تھی ہی نہیں کہ تین چار مہینوں کے اندر اندر قلعہ سر ہو جائے گا، ابھی تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ مرو سے فوج کب کوچ کرے گی۔
یا شیخ الجبل!،،،،، ابن مسعود نے حسن بن صباح کو مزید چکر دینے کے لیے کہا ۔۔۔میں نے ایک بڑی خطرناک بات دیکھی ہے، ہمارے جو آدمی مرو میں ہیں ان میں کچھ بددلی پیدا ہوگئی ہے، اور مجھے شک ہونے لگا ہے کہ ہمارے کچھ آدمی غداری پر اتر آئے ہیں، اور ان کی وفاداریاں مشکوک ہوگئی ہیں، ایوان سلطنت میں جس کے حوالے میں اپنی بہن کر آیا ہوں وہ بالکل صحیح آدمی ہے، وہ بھی کہتا تھا کہ اب اپنے آدمیوں پر پوری طرح اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔
یہ ابن مسعود کا ایک نفسیاتی وار تھا جو اس نے حسن بن صباح کو کمزور کرنے کے لیے کیا تھا، اس کا خیال یہ تھا کہ حسن بن صباح اپنے ان فدائیوں پر اعتماد کرنا چھوڑ دے جنہیں اس نے سلطنت سلجوقیہ کے بڑے بڑے شہروں میں پھیلا رکھا تھا، حسن بن صباح کو اپنی اسی طاقت پر ناز تھا ،حسن بن صباح نے یہ بات سنی اور کہا کہ وہ حملے اور محاصرے سے نپٹ لے تو باہر کے مسئلوں پر توجہ دے گا۔
اب ایک بہت ہی ضروری بات کرتا ہوں یا شیخ الجبل!،،،،،، ابن مسعود نے کہا۔۔۔۔ میں نے مرو میں بھی اڑتی اڑتی یہ بات سنی تھی کہ الموت کے اندر ایک دو آدمی ایسے آگئے ہیں جو محاصرے کے دوران اندر سے دریا والا دروازہ کھول دیں گے، اس کا ایک علاج تو یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ وہ دو آدمی کون ہیں اور کہاں چھپے ہوئے ہیں۔
میں اس کام کو بہت ہی مشکل بلکہ ناممکن سمجھتا ہوں، میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ وہ خفیہ دروازہ میری ذمہ داری میں دے دیں ،اور وہاں جو آدمی موجود ہیں انہیں وہاں سے ہٹا دیں ،میں مرو سے دو فدائی ساتھ لایا ہوں ،وہ بڑے ہی دانشمند اور جرات والے ہیں، آپ مجھے اجازت دیں کہ میں ان دونوں کو ساتھ لے کر اس دروازے کا ذمہ دار بن جاؤں۔
ابن مسعود نے ایسی ہی کچھ باتیں گڑھ کر حسن بن صباح کو پریشانی میں ڈال دیا ،لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ حسن بن صباح اتنا ہی کچا تھا کہ یہ پریشانی اس کے پاؤں اکھاڑ دیتی، اس نے یہ حکم تو دے دیا کہ دریا والے خفیہ دروازے پر جو آدمی مقرر ہیں انہیں وہاں سے ہٹا کر ابن مسعود کو مقرر کردیا جائے، لیکن ابن مسعود کو شاید یہ معلوم نہ تھا کہ وہاں جاسوسوں پر بھی جاسوس لگے ہوئے تھے، حسن بن صباح نے ابن مسعود سے فارغ ہوکر جب یہ حکم دیا کہ وہ دروازہ ابن مسعود کے حوالے کر دیا جائے اس نے یہ حکم بھی دیا کہ ابن مسعود اور اس کے ساتھیوں پر کڑی نظر رکھی جائے، اور پھر کڑی نظر رکھنے والوں پر بھی نظر رکھنے کا انتظام موجود تھا ،یہ تھا وہ طریقہ اور اصول جنہوں نے حسن بن صباح کو نبی بھی بنایا شیخ الجبل اور امام بھی، اور اسے ایک دہشت بھی بنا دیا تھا۔
اب وہ واقعہ رونما ہوا جو تاریخ کے دامن میں آج بھی محفوظ ہے، یہ 503 ہجری کا واقعہ ہے جو ہر مؤرخ نے تفصیل سے لکھا۔
سلطان محمد اور ابو نصر احمد موسم کو خاطر میں لائے ہی نہیں تھے، موسم سرما شروع ہوگیا تھا اور الموت اس علاقے میں تھا جہاں پر برف باری ہوا کرتی تھی، اس کے ساتھ جو پہاڑ تھے وہ برف سے سفید ہو جایا کرتے تھے ، بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ الموت میں یا اس علاقے میں برفباری تو ہوتی تھی لیکن اتنی زیادہ نہیں کہ فوجوں کے آگے رکاوٹ بن جاتی، بہرحال سلجوقی سالاروں کو پیش نظر رکھنا چاہیے تھا جو انہوں نے نہ رکھا۔
 فوج کے کوچ میں بھی انہوں نے خاصی تاخیر کر دی اور اس دوران سردی بڑھ گئی اور الموت برفباری کی زد میں آنے لگا ،لیکن اتنا زیادہ نہیں کہ اسے برداشت ہی نہ کیا جا سکتا۔
آخر ایک روز الموت کے اندر ہڑبونگ مچ گئی کہ سلجوقی فوج شہر کا محاصرہ کر رہی ہے، حسن بن صباح کی کوئی باقاعدہ فوج نہیں تھی لیکن ہر شہری جو تلوار اٹھا سکتا تھا وہ الموت کا محافظ تھا ،اور ان میں فدائیوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی تھی، اس تعداد پر مورخوں کا اختلاف ہے بعض نے بیس پچیس ہزار تعداد لکھی ہے اور ایک دو نے پچاس ہزار لکھی ہے، لیکن تعداد جتنی بھی تھی وہ جانباز ہی تھی، لیکن یہ فدائی تربیت یافتہ فوج کی طرح نہیں لڑ سکتے تھے ،وہ تو دن دہاڑے اپنے شکار کو خنجر سے ہلاک کرتے اور اسی خنجر سے اپنے آپ کو مار لیتے تھے۔
حسن بن صباح شہر کی دیوار پر گیا اور اس نے باہر کی صورتحال دیکھی، اس نے اپنے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ اس فوج پر آسمانی آفت گرے گی اور یہ بھاگ جائے گی، وہ اپنے لوگوں کی حوصلہ افزائی اسی طرح بڑ ھانک کر کیا کرتا تھا ،اس نے دیوار پر تیرانداز کھڑے کردیے۔
سلجوقی فوج نے ایسے جانباز تیار کر رکھے تھے جو معجزے بھی کر دکھایا کرتے تھے، وہ دو دو چار چار اور کچھ اس سے زیادہ ٹولیوں میں اس چٹان پر چڑھے جس پر الموت کا شہر آباد تھا ،وہ دروازے توڑنے کے لئے اوپر جا رہے تھے لیکن تیر اندازوں کے لیے وہ بڑا ہی آسان شکار ثابت ہوئے، تیروں کی بوچھاڑ ان پر پڑی تو وہ تیر کھا کر لڑھکتے اور قلابازیاں کھاتے نیچے آ پڑے۔
محاصرہ تین اطراف پر تھا ،پیچھے دریا تھا اور دریا کا پاٹ وہاں تنگ تھا اس لئے دریا کا جوش بھی زیادہ تھا اور گہرائی بھی زیادہ تھی۔
ابونصر احمد نے ایسے آدمی تیار کر رکھے تھے جنہیں دور پیچھے جاکر کشتیوں کے ذریعے قلعے کے عقب میں اس خفیہ دروازے تک پہنچنا تھا جو اب ابن مسعود کی تحویل میں تھا ،ابن مسعود کے ساتھ مزمل آفندی اور بن یونس تھے۔
دروازے کی چابی ابن مسعود کے پاس تھی، وہ جب بھی دروازہ کھولنے کے لیئے آگے بڑھتا کوئی نہ کوئی آدمی آجاتا اور ابن مسعود پیچھے ہٹ آتا، اسے معلوم نہیں تھا کہ حسن بن صباح نے اس پر نظر رکھنے کے لیے خفیہ طور پر کچھ آدمی لگا رکھے ہیں۔
دنوں پہ دن گزرتے جا رہے تھے، منجنیقوں سے پتھر پھینکے گئے لیکن پتھر دیوار سے ٹکرا کر لڑھکتے ہوئے واپس آ جاتے تھے، یہ منجنیقیں چھوٹی تھیں اور بڑی منجنیق تھی ہی نہیں، ابونصر احمد نے جانبازوں کی جماعت کو دریا کی طرف بھیج دیا کہ وہ دریا کے ذریعے خفیہ دروازے تک پہنچیں، لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ دریا میں اترنے سے پہلے شہر کی دیوار کی طرف دیکھتے رہیں، دیوار سے ایک اشارہ ملے گا پھر دریا میں اتریں۔
دو دشواریاں پیدا ہوگئیں، ایک یہ کہ دریا میں جو کشتیاں حسن بن صباح نے رکھوائی ہوئی تھیں وہ خفیہ دروازے کے قریب بندھی ہوئی تھیں، ان کے علاوہ اور کوئی کشتی نہیں تھی، ابو نصر  احمد کے ان آدمیوں کو ان کشتیوں تک پہنچنے کے لئے کچھ دور تک تیر کر جانا تھا۔ وہ جانباز دریا کے کنارے جا کر چھپ گئے اور قلعے کی دیوار کی طرف دیکھنے لگے، دیوار سے کوئی اشارہ نہیں مل رہا تھا۔
محاصرے کو ایک مہینہ گزر گیا اور ایک روز ابن مسعود نے دروازہ کھول دیا ،دریا کا پانی اندر آ گیا ،آگے چٹان کی اونچائی تھی اس لئے پانی وہاں تک محدود رہا ،چٹان کو کاٹ کاٹ کر سیڑھیاں بنائی گئی تھیں، اچانک ایک آدمی ادھر آ نکلا اور اس نے دروازہ کھلا دیکھا تو بلند آواز سے پوچھا کہ یہ دروازہ کس نے اور کیوں کھولا ہے، اس آدمی کی آواز اتنی بلند تھی کہ وہاں جو اور آدمی موجود تھے وہ بھی سن کر دوڑے آئے ،وہ سات آٹھ تھے، وہ نیچے آئے تو ابن مسعود نے انہیں کہا اس نے یہ دروازہ آزمائش کے لئے کھولا تھا تاکہ ضرورت کے وقت  اٹک نہ جائے۔
ان آدمیوں کو شک ہوگیا کہ یہ کوئی چال بازی ہے، ایک نے کہا کہ امام کو اطلاع دی جائے اتنے میں ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا اور اس نے کہا کہ اس دروازے کا خیال رکھنا کیونکہ کچھ آدمی دریا کے کنارے چھپے ہوئے دیکھے گئے ہیں ،ایسا نہ ہو کہ وہ دریا کے راستے ادھر آ جائیں۔
صورتحال ایسی پیدا ہوگئی کہ مزمل آفندی اور بن یونس نے جوش میں آکر تلواریں نکال لیں اور ان آدمیوں کو للکارا ،وہ تو حسن بن صباح کے خاص قسم کے جانباز اور قابل اعتماد آدمی تھے، انہوں نے بھی تلوار نکال لی اور اس تنگ جگہ میں خونریز معرکہ ہوا ،جس میں تین چار فدائی تو مارے گئے لیکن ابن مسعود مزمل آفندی اور بن یونس بھی مارے گئے، اور انہیں ان آدمیوں نے باہر دریا میں پھینک کر دروازہ بند کیا اور مقفل کرکے حسن بن صباح کو جا بتایا کہ وہاں کیا ہوا ہے۔
ابونصر احمد پریشان ہو رہا تھا کہ ابھی تک اسے دیوار سے وہ اشارہ نہیں ملا جو اسے ابن مسعود نے بتایا تھا ،وہ اس طرف چلا گیا جہاں اس کے وہ جانباز انتظار میں بیٹھے تھے جنہیں دریا میں اتر کر اس دروازے تک پہنچنا تھا۔
ابونصر احمد نے بڑا ہی غلط حکم دیا وہ یہ کہ ایک آدمی کو دریا میں اترنے کو کہا کہ وہ پیچھے چلا جائے اور دیکھے کے دروازہ کھلا ہے یا نہیں، اور وہاں سے ایک کشتی میں بیٹھ کر واپس آئے، اس نے اپنی طرف سے شاید ٹھیک ہی سوچا تھا کہ ایک یا دو آدمی ایک دو کشتیاں لے آئیں اور یہ پارٹی یہاں بیٹھنے کی بجائے اس دروازے کے قریب جاکر کشتیوں میں بیٹھی رہے، لیکن جب وہ آدمی دریا میں اترا تو تھوڑی ہی دور جا کر اس نے چیخنا چلانا شروع کر دیا ،کیونکہ ہلکی ہلکی برفباری شروع ہو گئی تھی اور دریا کا پانی ناقابل برداشت حد تک یخ تھا، وہ آدمی اکڑ گیا اور یہ دیکھا کہ وہ ہاتھ پاؤں نہیں مار رہا تھا دریا اسے ساتھ ہی لے گیا۔
ابو نصر نے ایک آدمی ضائع کرکے محسوس کیا کہ کشتیوں کے بغیر کوئی آدمی اس دروازے تک نہیں پہنچ سکتا ،اس نے واپس اپنے سالاروں کے پاس آکر کہا کہ کچھ آدمی دور اوپر دریا کے کنارے کنارے بھیجے جائیں، اور کہیں سے ایک دو کشتیاں لے کر آئیں، آدمی بھیج دیے گئے۔
محاصرے کی ایک اور رات آئی، اور رات کو ایسی شدید برفباری شروع ہو گئی جو پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی، ہلکی برفباری کو تو سلجوقی فوج برداشت کرتی رہی لیکن مسلسل یخ بستہ ٹھنڈ میں وہ رہ کر فوجیوں کے جسم اکڑتے جا رہے تھے۔
رات بھر برفباری جاری رہی اور بڑھتی ہی گئی، صبح ہوئی تو دنیا کا یہ خطہ سفید چادر میں ڈھک گیا تھا ،گھوڑے بھی کانپ رہے تھے، درخت بھی برف کے بوجھ سے جھک رہے تھے۔
حسن بن صباح کو بڑا اچھا موقع مل گیا وہ دیوار پر چڑھا اور دونوں بازو پھیلا کر بڑی ہی بلند آواز سے کہا ۔۔۔اے آسمان تو نے مجھے زمین پر اتارا تھا، اب ایسا قہر برسا کے تیرے اترے ہوئے امام کے یہ دشمن اکڑ اکڑ کر ختم ہو جائیں۔
حسن بن صباح کی یہ پکار اور للکار سلجوقی فوج کے حوصلے پست کرنے لگی، اور الموت کے شہریوں کے حوصلے مضبوط ہونے لگے، قدرت نے حسن بن صباح کو بڑا اچھا موقع فراہم کردیا تھا ،برفباری رک ہی نہیں رہی تھی اور زمین پر برف کی تہہ جمتی جارہی تھی، جو فٹوں کے حساب سے بلند ہو رہی تھی۔
ابونصر احمد ایساٰ مجبور ہوا کہ اس نے محاصرہ اٹھا لیا اور اپنی فوج کو واپسی کا حکم دے دیا، تب اسے پتا چلا کہ اس کی فوج کی کچھ نفری اس قدر اکڑ گئی ہے کہ اس کے لئے چلنا یا گھوڑے پر سوار ہونا ممکن نہیں رہا ،گھوڑوں کی حالت بھی بگڑ گئی تھی ۔
بڑی ہی بری حالت میں سلجوقی فوج وہاں سے ناکام نکلی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سلطان محمد کے وزیراعظم ابونصر احمد کے جذباتی فیصلے نے اپنی فوج کو کچھ عرصے کے لیے بے کار کر دیا ،یہ تو جسموں کا معاملہ تھا کہ برف نے جسم بے کار کر دیے تھے، لیکن ذہنی طور پر بھی یہ فوج کچھ عرصے کے لیے لڑنے کے قابل نہ رہی، فوج میں جو لوگ تھے وہ عالم فاضل تو نہیں تھے کہ کچھ سمجھ جاتے کہ یہ تو موسم ہی برف باری کا تھا اور اب کے برفباری زیادہ ہی ہوئی، وہ یقین کر بیٹھے کہ یہ حسن بن صباح کا معجزہ ہے کہ اس نے آسمان تک اپنی آواز پہنچائی اور آسمان نے برف گرا کر سلجوقی فوج کو بھگا دیا۔
فوج کی جسمانی حالت تو جلدی ہی ٹھیک ہوگئی لیکن ذہنی اور نفسیاتی طور پر فوج نہ سنبھل سکی، اپنی شکست کی خفت مٹانے کے لئے بھی فوجیوں نے افواہ پھیلانے شروع کر دی تھی، جن کا لب لباب یہ تھا کہ حسن بن صباح نبی یا امام نہ سہی اس کے ہاتھ میں کوئی ایسی آسمانی طاقت ضرور ہے جس سے وہ بڑی سے بڑی فوج پر بھی مصیبت نازل کرکے اسے شکست دے سکتا ہے، فوج کا لڑنے کا جذبہ اور حوصلہ جسے آج کی زبان میں مورال کہتے ہیں ان افواہوں سے بڑی ہی بری طرح مجروح ہو رہا تھا ،اور ایسی بددلی پھیل گئی تھی کہ وہ لوگ جو رضاکارانہ طور پر فوج میں شامل ہوئے تھے وہ فوج سے نکلنے لگے ۔
سلطان محمد نے یہ صورت حال دیکھی تو وہ پریشان ہوگیا وہ اس سوچ میں پڑ گیا کہ اللہ کے سپاہی کی تو یہ شان تھی کہ وہ دنیا کے لالچ اور ہوس کو الگ پھینک کر لڑا کرتا تھا اور اس کے پیش نظر اللہ کی خوشنودی ہوا کرتی تھی، لیکن اس فوج کی حالت ایسی ہو گئی تھی کہ اس میں اللہ کے خوف کی بجائے حسن بن صباح کا خوف پیدا ہوگیا تھا، اس نے ابو نصر احمد کو وزارت سے تو بر طرف نہ کیا لیکن فوج کے ساتھ اس کا تعلق توڑ دیا اور فوج کی کمان اپنے ہاتھ میں لے لی، اس نے سالاروں کو بلایا اور انہیں کہا کہ وہ اپنی فوج میں وہی جذبہ پیدا کریں جو مجاہد کا جذبہ ہوتا ہے، اور فوج سے حسن بن صباح کا خوف ختم کریں۔
سالاروں نے اپنی سی کوششیں شروع کردیں، سلطان محمد نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ چند دنوں کے وقفے سے پوری فوج کو ایک جگہ اکٹھا کرکے خطاب کیا کرتا تھا، علمائے دین کی خدمت بھی حاصل کی گئیں، جنہوں نے وعظ خطبوں اور آیات قرآنی سے فوج کے ذہن سے حسن بن صباح کے متعلق وہم اور وسوسے نکالنے شروع کردیے، یہ بڑا ہی صبر آزما اور وقت طلب عمل تھا جس کے اثرات نہایت ہی آہستہ آہستہ پیدا ہو رہے تھے۔
سلطان محمد نے ادھر اور سالار اوریزی نے اور شاہ در میں سلطان سنجر نے بھی مشاہدہ کیا کہ حسن بن صباح کے جو اثرات ختم ہونے شروع ہو گئے تھے وہ پھر سامنے آنے لگے ہیں ،اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اور بھی زیادہ ضروری ہو گیا تھا کہ الموت پر فوج کشی کرکے حسن بن صباح کو ختم کیا جائے، اسلامی نظریات اور دین کے دیگر عقیدے تو اپنی جگہ اہم تھے ہی مگر اس صورتحال نے سلطنت سلجوقیہ کی بقاء کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔
سات آٹھ سال گزر گئے تب جاکر فوج ذہنی بلکہ روحانی طور پر تیار ہوئی، فوج میں سے بے شمار لوگوں کو نکال دیا گیا تھا اور بے شمار نئے لوگوں کو بھرتی کیا گیا ،اس نئی نفری میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ تھی، اس نوجوان نفری کی تعلیم و تربیت کا خصوصی انتظام کیا گیا تھا۔
سلطان محمد نے بڑے ہی گہرے غوروفکر سے اور ہر پہلو کو سامنے رکھ کر محاصرے کا منصوبہ تیار کیا ،جس میں سالاروں کے مشورے اور ان کی تجاویز بھی شامل تھیں، سلطان محمد نے محاصرے کا بنیادی اصول یہ دیا کہ قلعے پر چڑھائی کرنی ہی نہیں، نہ آگے بڑھ کر دروازے توڑنے ہیں، بلکہ شہر میں داخل ہونے کی ذرا سی بھی کوشش نہیں کرنی، بلکہ یہ کرنا ہے کہ شہر کو محاصرے میں لے کر بیٹھ جانا ہے خواہ یہ محاصرہ سالوں تک لمبا ہو جائے۔
ایک روز مرو سے فوج نکلی، اس کا رخ الموت کی طرف تھا ،کچھ نفری وسم کوہ سے بلوا کر اس میں شامل کی گئی تھی اور کچھ نفری شاہ در سے بھی بلوالی گئی تھی ،اس فوج کا سپہ سالار امیر نوش گین شیر گیر تھا،مورخوں نے لکھا ہے کہ یہ سپہ سالار جذبات کے جوش میں آنے والا نہیں تھا ،بلکہ ٹھنڈے دل سے سوچ بچار کرنے کا عادی تھا ،یہ اس کی بنیادی فوجی تربیت تھی اور اس میں دوہری صلاحیت پائی جاتی تھی جو ایک کامیاب سپہ سالار کے لیے ضروری ہوتی ہے۔
اس فوج نے الموت کو محاصرے میں لے لیا، سلطان محمد کو اچھی طرح معلوم تھا کہ محاصرہ صرف تین اطراف ہوسکتا ہے، وہ فوج کا حوصلہ قائم رکھنے کے لیے رات کو بھی باہر گھومتا پھرتا اور فوجیوں کے ساتھ باتیں کرتا رہتا تھا ،اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسے نمونیہ ہو گیا اور طبیبوں نے بہت کوشش کی اور اسے مرو چلنے کو بھی کہا، لیکن اس نے فوج کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کردیا۔
پانچ چھ دن ہی گزرے ہوں گے کہ سلطان محمد کی یہ بیماری اچانک اتنی بڑھ گئی کہ طبیب بھی کچھ نہ کرسکے اور سلطان محمد فوت ہوگیا۔
جب فوج میں یہ خبر پھیلی کے سلطان کا انتقال ہوگیا ہے تو یکلخت فوج میں بدامنی سی پھیل گئی ،سپہ سالار امیر نوش گین شیر گیر نے یہ صورت حال دیکھی تو اس نے محاصرہ اٹھا لیا ،فوج اس حالت میں واپس آئی کہ اس کے ساتھ سلطان محمد کا جنازہ بھی تھا۔
اس طرح اب کے بھی الموت صاف بچ گیا اور حسن بن صباح اس پر قابض رہا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سلطان سنجر کو شاہ در میں سلطان محمد کے انتقال کی خبر پہنچی تو وہ بھاگم بھاگ مرو پہنچا ،ادھر وسم کوہ سے سالار اوریزی بھی آگیا اور جہاں جہاں امیر مقرر تھے وہ سب آگئے ،سب حیران اور پریشان تھے کہ یہ کیا ہوا کہ سلطان کا انتقال ہوگیا اور فوج محاصرہ اٹھا کر واپس آگئی۔
 سالار اوریزی اور ابو نصر احمد حیران تھے کہ ابن مسعود مزمل آفندی اور بن یونس قلعہ الموت گئے تھے لیکن انہوں نے کچھ بھی نہ کیا اور واپس بھی نہ آئے، ایک خیال یہ ظاہر کیا گیا کہ حسن بن صباح نے تینوں کو اپنا جادو چلا کر فدائی بنا لیا ہو گا۔
اب تو وہاں صورت حال ایسی بن گئی تھی کہ ایک دو یا چند ایک افراد کا کسی کو خیال ہی نہیں آرہا تھا ،اب تو سلطنت سلجوقیہ خطرے میں نظر آنے لگی تھی، سنجر اب پوری سلطنت کا سلطان ہوگیا تھا، اس کا سب سے بڑا بھائی برکیارق پہلے ہی فوت ہوچکا تھا۔
اس نے حکم جاری کر دیا کہ الموت کو ہر قیمت پر فتح کرنا ہے اور پوری کی پوری فوج کو تیار کرکے الموت لے جایا جائے اور محاصرے کو طول دینے کی بجائے چٹان پر جا کر شہر پر یلغار کی جائے۔
ایک بار پھر فوج کو تیار کیا جانے لگا ،ادھر حسن بن صباح ایک بار پھر پہلے والے جوش و کمال میں آ گیا، وہ خود اس خوش فہمی میں مبتلا ہو گیا کہ اسے خدا نے کوئی مافوق الفطرت طاقت دے رکھی ہے کہ الموت کے محاصرے کے لئے جو بھی آتا ہے اس پر ایسی مصیبت نازل ہوتی ہے کہ وہ اپنی فوج کو واپس بھگا لے جاتا ہے۔
سنجر کچھ زیادہ جوشیلا سلطان تھا اور اس میں دلیری اور بے خوفی سب سے زیادہ تھی، اس پر انتقام کا جذبہ بھی غالب تھا ،اس نے ساری سلطنت کی فوج مرو اکٹھی کر لی اور اپنی نگرانی میں اس فوج کو تیار کرنے لگا۔
اس نے زیادہ انتظار نہ کیا ایک سال کے اندر اندر وہ تمام کا تمام لشکر لے کر الموت جا پہنچا ،قیادت اس نے اپنے پاس رکھی اور محاصرے کو مکمل کرنے کے پورے انتظامات کر دیے۔
اس کا خیمہ فوج سے ذرا دور الگ تھلگ تھا اور اس خیمے میں اس کا بستر زمین پر بچھایا جاتا تھا۔
محاصرے کو ابھی چند ہی دن گزرے تھے کہ سلطان سنجر ایک صبح جاگا تو اس نے اپنے بستر کے قریب تکیے کی طرف ایک لمبا خنجر زمین پر گڑا ہوا پایا ،اس کے دستے کے ساتھ ایک کاغذ بندھا ہوا تھا ،وہ تو دیکھ کر ہی گھبرا گیا ،خنجر کے دستے سے کاغذ کھول کر پڑھا اس پر فارسی زبان میں حسن بن صباح کی طرف سے مختصر سا پیغام لکھا ہوا تھا ،جس کاترجمہ یہ ہے۔۔۔۔۔ اے سلطان سنجر ہمیں یہ اذیت دینے سے باز آجاؤ ،اگر تمہارا پاس خاطر نہ ہوتا تو یہ خنجر زمین میں گاڑنے کی بجائے تمہارے نرم سینے میں گاڑنا آسان تھا۔
خنجر اور اس پیغام نے سلطان سنجر کو پسینے میں نہلا دیا ،وہ کوئی ایسا ڈرپوک آدمی بھی نہ تھا لیکن وہ اس خیال سے ڈرا کہ اس کے اپنے محافظوں میں ایک یا دو فدائی موجود ہیں ،ورنہ کوئی پرندہ بھی سلطان کے خیمے کے قریب سے نہیں گزر سکتا تھا۔
اس نے اسی وقت سالاروں کو بلا کر یہ خنجر اور پیغام دکھایا کہ معلوم کیا جائے کہ فوج میں یا محافظ دستے میں کون باطنی فدائی ہے، اس نے یہ حکم دے تو دیا لیکن خود ہی بولا کہ ایسے آدمی کو ڈھونڈ نکالنا ممکن نہیں۔
سالار رخصت ہوئے ہی تھے کہ اسے اطلاع دی گئی کہ حسن بن صباح کا ایک ایلچی ملنے آیا ہے، اس نے ایلچی کو اپنے خیمے میں بلالیا، ایلچی نے کہا کہ اسے شیخ الجبل نے صلح کی درخواست کے لئے بھیجا ہے اور کہا ہے کہ اپنی شرائط بتائیں۔
ایک بڑی قدیم کتاب "نامہ خسرواں" کے باب حالات حسن بن صباح میں یہ شرائط تفصیل سے لکھی ہیں، یہ بھی لکھا ہے کہ سلطان سنجر کا حوصلہ اس خنجر اور پیغام کو دیکھ کر ایسا مجروح ہوا کہ اس نے ایلچی کو اپنی شرائط بتائیں جو مختصر یہ تھی کہ آئندہ حسن بن صباح کہیں بھی کوئی قلعہ تعمیر نہ کرے، نہ کسی چھوٹے یا بڑے قلعے کو سر کرنے کی کوشش کرے، دوسری شرط کہ باطنی وہ اسلحہ اپنے پاس نہ رکھیں جو فوج کے استعمال کے لیے ہوتا ہے ،خصوصاً منجنیق، تیسری شرط یہ تھی کہ حسن بن صباح اپنے فرقے میں نئے مرید شامل نہ کرے اور اپنی تبلیغ بند کردے۔
ایلچی چلا گیا اور خاصی دیر بعد واپس آکر اس نے بتایا کہ شیخ الجبل نے تینوں شرائط تسلیم کرلی ہیں، اس کتاب میں لکھا ہے کہ حسن بن صباح کے لئے ان شرائط میں کوئی نقصان نہیں تھا ،اسے کوئی قلعہ تعمیر کرنے کی ضرورت نہیں تھی ،باطنیوں نے کم و بیش پچاس قلعوں پر قبضہ جما رکھا تھا ،فوجی اسلحہ اور منجنیقیں باطنیوں کے کسی کام کی نہیں تھی، انہیں صرف ایک چھری یا خنجر کی ضرورت ہوتی تھی۔
تیسری شرط یہ تھی کہ حسن بن صباح اپنے فرقے کی تبلیغ بند کردے یہ شرط بھی اس نے یہ سوچ کر مان لی کہ وہ تو خفیہ طور پر بیعت کر لیا کرتا تھا، کسی کو اس کا پتا نہیں چل سکتا تھا، اس کی تبلیغ بھی زیر زمین یعنی خفیہ طور پر ہوتی تھی۔
سلطان سنجر نے تحریری معاہدے پر اپنی مہر لگائی اور حسن بن صباح نے بھی اپنے دستخط کیے اور محاصرہ اٹھا لیا گیا۔
فدائیوں نے اپنی قتل و غارت کی کاروائیاں پھر شروع کردیں، ایک دو سال ہی گزرے تھے کہ حسن بن صباح مر گیا ،وہ 28 ربیع الثانیہ 518 ہجری کے روز فوت ہوا تھا، اس وقت اس کی عمر نوّے سال تھی، اور اس نے 35 سال قلعہ الموت میں بیٹھ کر لوگوں کے دلوں پر حکومت کی تھی۔
اس کی موت اس کے فرقے کے لیے خاصی نقصان دہ ثابت ہوئی، اس کے جانشین مقرر ہوتے رہے لیکن اس کا فرقہ تیس فرقوں میں تقسیم ہوتا چلا گیا اور جوں جوں وقت گزرتا گیا باطنی فدائی کرائے کے قاتل بن گئے، جنہیں کسی بھی مذہب کے لوگ اپنے مخالفین کے قتل کے لئے استعمال کرسکتے تھے۔
ان فدائیوں کو حشیشین کہا جانے لگا ،کیونکہ یہ حشیش کے بغیر جیسے زندہ ہی نہیں رہ سکتے تھے، اور اسی نشے میں قاتلانہ کاروائیاں کرتے تھے۔
حسن بن صباح نے طویل عمر پائی ، اس جماعت کا خاتمہ ہلاکو خان کے ہاتھوں ہوا۔ جس نے قلعہ الموت کو فتح کرکے حسن بن صباح کے آخری جانشین رکن الدین کو گرفتار کرلیا اور ہزاروں فدائیوں کو بڑی بے رحمی سے قتل کر دیا،آج عالم ِ اسلام کو ایک مرتبہ پھر اس قسم کے خطرات ہر جگہ لاحق ہیں،اغیار کے کہنے پر فانی دنیا میں نام اور دولت کمانے کے لئے بہت سے لوگ ایمان و ملت فروشی کے مذموم کاروبار میں لگے ہوئے ہیں،اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل و احسان سے اہلِ اسلام کو سمجھنے اور سازشوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی