🌻 صدقات کو باطل کردینے والی تین چیزیں


🌻 صدقات کو باطل کردینے والی تین چیزیں

📿 صدقات کے اجر وثواب کو باطل کردینے والی تین چیزوں کا بیان:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰی ۙ کَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَہٗ رِئَآءَ النَّاسِ وَ لَا یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِؕ فَمَثَلُہٗ  کَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْہِ تُرَابٌ فَاَصَابَہٗ وَابِلٌ فَتَرَکَہٗ صَلْدًا ؕ لَا یَقْدِرُوْنَ عَلٰی شَیْءٍ مِّمَّا کَسَبُوْا ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ. (سورۃ البقرۃ آیت: 264)
▪️ ترجمہ: اے ایمان والو! اپنے صدقات کو احسان جتلا کر اور تکلیف پہنچا کر اُس شخص کی طرح ضائع مت کرو جو اپنا مال لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتا ہے اور اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان نہیں رکھتا۔ چنانچہ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چکنی چٹان پر مٹی جمی ہو، پھر اس پر زور کی بارش پڑے اور اس (مٹی کو بہا کر چٹان) کو (دوبارہ) چکنی بنا چھوڑے۔ ایسے لوگوں نے جو کمائی کی ہوتی ہے وہ ذرا بھی ان کے ہاتھ نہیں لگتی، اور اللہ (ایسے) کافروں کو ہدایت تک نہیں پہنچاتا۔ (آسان ترجمۂ قرآن)

🌼 ہدایات ونکات:
1️⃣ سورۃ البقرۃ کی مذکورہ آیت نمبر 264 سے پہلے کی دو آیات کا حاصل یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے فضائل اور اجر وثواب حاصل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ جس پر خرچ کیا ہے اُس پر نہ تو احسان جتلایا جائے اور نہ ہی اس کو تکلیف پہنچائی جائے۔  نیز اگر حاجت مند سائل کو کسی وجہ سے کچھ نہ دے سکے تو اس سے نرم الفاظ میں معذرت کرلینا اور اگر وہ مانگنے پر اصرار کرے تو درگزر اور معاف کردینا بہت بہتر ہے اس سے کہ اُس کو کچھ دے دیا جائے اور پھر بعد میں اس پر احسان جتلایا جائے یا اس کو ذلیل کرکے تکلیف پہنچائی جائے۔ چنانچہ ارشاد ہے:
اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُوْنَ مَاۤ  اَنْفَقُوْا مَنًّا وَّلَاۤ  اَذًی ۙ لَّہُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ ۚ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَ لَا ھُمْ  یَحْزَنُوْنَ ﴿۲۶۲﴾ قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّ مَغْفِرَۃٌ خَیْرٌ مِّنْ صَدَقَۃٍ یَّتْبَعُہَاۤ  اَذًی ؕ وَ اللّٰہُ غَنِیٌّ حَلِیْمٌ ﴿۲۶۳﴾ 
▪️ ترجمہ: جو لوگ اپنے مال اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، پھر خرچ کرنے کے بعد نہ احسان جتلاتے ہیں اور نہ کوئی تکلیف پہنچاتے ہیں، وہ اپنے پروردگار کے پاس اپنا ثواب پائیں گے، نہ ان کو کوئی خوف لاحق ہوگا اور نہ کوئی غم پہنچے گا۔ ﴿۲۶۲﴾ بھلی بات کہہ دینا اور درگزر کرنا اُس صدقے سے بہتر ہے جس کے بعد کوئی تکلیف پہنچائی جائے  اور اللہ بڑا بےنیاز، بہت بردبار ہے۔ ﴿۲۶۳﴾ (آسان ترجمۂ قرآن)
جبکہ زیرِ نظر آیت نمبر 264 میں صدقات کو باطل اور ضائع کردینے والی تین باتوں سے اجتناب کا حکم دیا گیا ہے، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
2️⃣ لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِکُمْ: ٍٍصدقات کے باطل ہونے کے معنی ہیں: اُن کے اجر وثواب کو ضائع کردینا اور اُن پر ملنے والے فضائل سے محروم ہوجانا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ صدقات کی قبولیت کے لیے بھی کچھ شرائط ہیں جن کو پورا کرنا ضروری ہے۔ واضح رہے کہ ہر نیکی کی قبولیت کے لیے تین بنیادی شرائط ہیں: ایمان کے ساتھ نیکی کرنا، شریعت کے مطابق نیکی کرنا اور اخلاص کے ساتھ نیکی کرنا۔
3️⃣ بِالْمَنِّ: کسی دوسرے پر احسان کرکے اس کو جتلانا، اس کو بار بار باور کرانا، اس کو طعنے دینا، احسان یاد دلا کر اس سے خدمت لینا اور لوگوں کے سامنے اس احسان کا  تذکرہ کرکے اس کو رسوا کرنا؛ یہ ساری شکلیں احسان جتلانے کی ہیں، جو کہ ناجائز اور سنگین گناہ ہے، اس کی وجہ سے نیکی کا اجر بھی ضائع ہوجاتا ہے اور باہمی تعلقات میں بھی کشیدگی پیدا ہوجاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی پر احسان کرکے جتلانا واضح طور پر نامناسب سی بات ہے کیوں کہ ایک تو جب احسان اللہ تعالیٰ کے لیے کیا ہے اور اسی سے اس کا اجر چاہیے تو اس کو جتلانے کا کیا مطلب؟؟ اس سے تو اجر ضائع ہوجاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ جب احسان کرنے کی توفیق اللہ تعالیٰ ہی نے دی ہے اور اسی نے اس قابل بنایا ہے تو اس میں بندے کا کیا کمال جس کی وجہ سے احسان جتلایا جائے؟؟ اس بات پر تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے دوسرے پر احسان کرنے کے قابل بنایا۔ تیسرا یہ کہ جب احسان ہمدردی کی بنیاد پر کیا ہے تو یہ ہمدردی برقرار رہنی چاہیے، جس کی صورت یہی ہے کہ احسان نہ جتلایا جائے، ورنہ تو احسان جتلانے کا یہی مطلب ہوا کرتا ہے کہ مقصود ہمدردی نہ تھی۔ واضح رہے کہ صدقہ دے کر احسان جتلانا کبیرہ گناہ ہے، چنانچہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’تین طرح کے لوگ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُن سے [لُطف وکرم کی] گفتگو نہیں فرمائیں گے، اُن کو [رحمت کی نگاہ سے] نہیں دیکھیں گے،اُن کو [گناہوں سے] پاک نہیں کریں گے اور  اُن کے لیے درد ناک عذاب ہوگا۔‘‘ تو حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ  نے فرمایا کہ یہ لوگ تو نامراد اور خسارے والے ہیں، اے اللہ کے رسول! یہ کون لوگ ہیں؟ تو حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:
1۔ ٹخنے چھپانے والا مرد۔
2۔ جھوٹی قسم کھا کر اپنا مال فروخت کرنے والا۔
3۔ احسان جتلانے والا۔
☀ صحیح مسلم میں ہے:
306- عَنْ أَبِى ذَرٍّ عَنِ النَّبِىِّ ﷺ قَالَ: «ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ»، قَالَ: فَقَرَأَهَا رَسُولُ اللهِ ﷺ ثَلَاثَ مِرَارٍ. قَالَ أَبُو ذَرٍّ: خَابُوا وَخَسِرُوا، مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: «الْمُسْبِلُ وَالْمَنَّانُ وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْكَاذِبِ».
307- عَنْ أَبِى ذَرٍّ عَنِ النَّبِىِّ ﷺ قَالَ: «ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: الْمَنَّانُ الَّذِى لَا يُعْطِى شَيْئًا إِلَّا مَنَّهُ، وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْفَاجِرِ، وَالْمُسْبِلُ إِزَارَهُ».
4️⃣ وَالْاَذٰی: اس کے معنی ہیں: تکلیف دینا اور ایذا رسانی۔ صدقات دینے میں تکلیف دینے کے معنی ہیں: جس کو صدقہ دیا جائے اس کو ذلیل کرکے، اس کے ساتھ حقارت کا معاملہ کرکے، اس کو غربت کا طعنہ دے کر  اور اس پر احسان جتلا کر اس کو تکلیف پہنچانا۔ اس کی وجہ سے بھی صدقات کا اجر وثواب باطل ہوجاتا ہے۔
5️⃣ کَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَہٗ رِئَآءَ النَّاسِ وَلَا یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ: صدقات باطل کرنے کا تیسرا سبب ریاکاری ہے۔ ریاکاری کے معنی یہ ہیں کہ: نیک عمل اسی نیت سے کرنا کہ لوگ تعریف کریں، معاشرے میں نیک نامی حاصل ہو، عزت وشہرت حاصل ہو اور دنیاوی مفادات حاصل کی جاسکیں۔ تمام نیک اعمال کی قبولیت کے لیے ایک بنیادی شرط اخلاص ہے کہ اس کے بغیر کوئی عمل قبول نہیں ہوتا۔ اس لیے اعمال میں اخلاص کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے کہ ہر عمل صرف اللہ ہی کی رضا کے لیے کیا جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ صدقات میں ریاکاری ان کے اجر وثواب کو ضائع کردیتی ہے۔ 
6️⃣ ریاکاری کے ساتھ ’’وَلَا یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ‘‘ ذکر کرنے سے اس طرف اشارہ ہے کہ ریاکاری کرنا اللہ تعالیٰ اور آخرت پر کامل ایمان نہ رکھنے کا نتیجہ ہے اور یہ کامل مؤمن کی شان نہیں ہے کہ وہ نیک اعمال میں ریاکاری کرے۔ 
7️⃣ فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْہِ تُرَابٌ فَاَصَابَہٗ وَابِلٌ فَتَرَکَہٗ صَلْدًا ؕ لَا یَقْدِرُوْنَ عَلٰی شَیْءٍ مِّمَّا کَسَبُوْا: چٹان پر اگر مٹی جمی ہو تو یہ امید ہوسکتی ہے کہ اس پر کوئی چیز کاشت کرلی جائے، لیکن اگر بارش مٹی کو بہالے جائے تو چٹان کے چکنے پتھر کاشت کے قابل نہیں رہتے، اسی طرح صدقہ خیرات سے آخرت کے ثواب کی امید ہوتی ہے،  لیکن اگر اس کے ساتھ ریا کاری یا احسان جتانے کی خرابی لگ جائے تو وہ صدقے کو بہالے جاتی ہے اور ثواب کی کوئی امید نہیں رہتی۔
8️⃣ وَاللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ: اس سے اس طرف اشار ہے کہ صدقات میں ریاکاری، احسان جتلانا اور تکلیف دینا کفار کی صفات ہیں، اس لیے مؤمن کو اس کے ارتکاب سے بچنا چاہیے۔ یا یہاں کافر ناشکرے کے معنی میں ہے کہ صدقات میں ان تین مذموم باتوں کا ارتکاب ناشکری ہے جس سے مؤمن کو بچنا چاہیے۔

✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم 

فاضل جامعہ دار العلوم کراچی 

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی