جولائی 2019
!حضرت محمد ﷺ ابراہیم جلیس ابن انشا ابن حبان ابو حمزہ عبدالخالق صدیقی ابوداؤد اپنے محبوب ﷺ کو پہچانئے احکامِ الصلوة احکام و مسائل احمد اشفاق احمد جمال پاشا احمد مشتاق اختر شیرانی اذکار و وظائف اردو ادب اردو کہانیاں ارشاد خان سکندر ارشد عبد الحمید اسلم انصاری اسلم راہی اسماء الحسنیٰﷻ اسماء المصطفیٰ ﷺ اصلاحی ویڈیو اظہر ادیب افتخار عارف افتخار فلک کاظمی اقبال ساجد اکاؤنٹنگ اکاؤنٹنگ اردو کورس اکاؤنٹنگ ویڈیو کورس اردو اکبر الہ آبادی الکا مشرا الومیناٹی امام ابو حنیفہ امجد اسلام امجد امۃ الحئی وفا ان پیج اردو انبیائے کرام انٹرنیٹ انجینئرنگ انفارمیشن ٹیکنالوجی انیس دہلوی اوبنٹو او ایس اور نیل بہتا رہا ایپل ایپلیکیشنز ایچ ٹی ایم ایل ایڈوب السٹریٹر ایڈوب فوٹو شاپ ایکسل ایم ایس ورڈ ایموجیز اینڈرائڈ ایوب رومانی آبرو شاہ مبارک آپ بیتی آج کی ایپ آج کی آئی ٹی ٹِپ آج کی بات آج کی تصویر آج کی ویڈیو آرٹیفیشل انٹیلیجنس آرٹیفیشل انٹیلیجنس کورس آسان ترجمہ قرآن آفتاب حسین آلوک شریواستو آؤٹ لُک آئی ٹی اردو کورس آئی ٹی مسائل کا حل باصر کاظمی باغ و بہار برین کمپیوٹر انٹرفیس بشیر الدین احمد دہلوی بشیر بدر بشیر فاروقی بلاگر بلوک چین اور کریپٹو بھارت چند کھنہ بھلے شاہ پائتھن پروٹون پروفیسر مولانا محمد یوسف خان پروگرامنگ پروین شاکر پطرس بخاری پندونصائح پوسٹ مارٹم پیر حبیب اللہ خان نقشبندی تاریخی واقعات تجربات تحقیق کے دریچے ترکی زبان سیکھیں ترمذی شریف تلوک چند محروم توحید تہذیب حافی تہنیت ٹپس و ٹرکس ثروت حسین جاوا اسکرپٹ جگر مراد آبادی جمادی الاول جمادی الثانی جہاد جیم جاذل چچا چھکن چودھری محمد علی ردولوی حاجی لق لق حالاتِ حاضرہ حج حذیفہ بن یمان حسرتؔ جے پوری حسرتؔ موہانی حسن بن صباح حسن بن صباح اور اسکی مصنوعی جنت حسن عابدی حسن نعیم حضرت ابراہیم  حضرت ابو ہریرہ حضرت ابوبکر صدیق حضرت اُم ایمن حضرت امام حسینؓ حضرت ثابت بن قیس حضرت دانیال حضرت سلیمان ؑ حضرت عثمانِ غنی حضرت عُزیر حضرت علی المرتضیٰ حضرت عمر فاروق حضرت عیسیٰ  حضرت معاویہ بن ابی سفیان حضرت موسیٰ  حضرت مہدیؓ حکیم منظور حماد حسن خان حمد و نعت حی علی الفلاح خالد بن ولید خالد عرفان خالد مبشر ختمِ نبوت خطبات الرشید خطباتِ فقیر خلاصۂ قرآن خلیفہ دوم خواب کی تعبیر خوارج داستان ایمان فروشوں کی داستانِ یارِ غار والمزار داغ دہلوی دجال درسِ حدیث درسِ قرآن ڈاکٹر عبدالحمید اطہر ندوی ڈاکٹر ماجد دیوبندی ڈاکٹر نذیر احمد ڈیزائننگ ذوالحجۃ ذوالقعدۃ راجیندر منچندا بانی راگھویندر دیویدی ربیع الاول ربیع الثانی رجب رزق کے دروازے رشید احمد صدیقی رمضان روزہ رؤف خیر زاہد شرجیل زکواۃ زید بن ثابت زینفورو ساغر خیامی سائبر سکیورٹی سائنس و ٹیکنالوجی سپلائی چین منیجمنٹ سچائی کی تلاش سراج لکھنوی سرشار صدیقی سرفراز شاہد سرور جمال سسٹم انجینئر سفرنامہ سلطان اختر سلطان محمود غزنوی سلیم احمد سلیم صدیقی سنن ابن ماجہ سنن البیہقی سنن نسائی سوال و جواب سورۃ الاسراء سورۃ الانبیاء سورۃ الکہف سورۃ الاعراف سورۃ ابراہیم سورۃ الاحزاب سورۃ الاخلاص سورۃ الاعلیٰ سورۃ الانشقاق سورۃ الانفال سورۃ الانفطار سورۃ البروج سورۃ البقرۃ سورۃ البلد سورۃ البینہ سورۃ التحریم سورۃ التغابن سورۃ التکاثر سورۃ التکویر سورۃ التین سورۃ الجاثیہ سورۃ الجمعہ سورۃ الجن سورۃ الحاقہ سورۃ الحج سورۃ الحجر سورۃ الحجرات سورۃ الحدید سورۃ الحشر سورۃ الدخان سورۃ الدہر سورۃ الذاریات سورۃ الرحمٰن سورۃ الرعد سورۃ الروم سورۃ الزخرف سورۃ الزلزال سورۃ الزمر سورۃ السجدۃ سورۃ الشعراء سورۃ الشمس سورۃ الشوریٰ سورۃ الصف سورۃ الضحیٰ سورۃ الطارق سورۃ الطلاق سورۃ الطور سورۃ العادیات سورۃ العصر سورۃ العلق سورۃ العنکبوت سورۃ الغاشیہ سورۃ الغافر سورۃ الفاتحہ سورۃ الفتح سورۃ الفجر سورۃ الفرقان سورۃ الفلق سورۃ الفیل سورۃ القارعہ سورۃ القدر سورۃ القصص سورۃ القلم سورۃ القمر سورۃ القیامہ سورۃ الکافرون سورۃ الکوثر سورۃ اللہب سورۃ اللیل سورۃ الم نشرح سورۃ الماعون سورۃ المآئدۃ سورۃ المجادلہ سورۃ المدثر سورۃ المرسلات سورۃ المزمل سورۃ المطففین سورۃ المعارج سورۃ الملک سورۃ الممتحنہ سورۃ المنافقون سورۃ المؤمنون سورۃ النازعات سورۃ الناس سورۃ النباء سورۃ النجم سورۃ النحل سورۃ النساء سورۃ النصر سورۃ النمل سورۃ النور سورۃ الواقعہ سورۃ الھمزہ سورۃ آل عمران سورۃ توبہ سورۃ سباء سورۃ ص سورۃ طٰہٰ سورۃ عبس سورۃ فاطر سورۃ فصلت سورۃ ق سورۃ قریش سورۃ لقمان سورۃ محمد سورۃ مریم سورۃ نوح سورۃ ہود سورۃ یوسف سورۃ یونس سورۃالانعام سورۃالصافات سورۃیٰس سورة الاحقاف سوشل میڈیا سی ایس ایس سی پلس پلس سید امتیاز علی تاج سیرت النبیﷺ شاہد احمد دہلوی شاہد کمال شجاع خاور شرح السنۃ شعب الایمان - بیہقی شعبان شعر و شاعری شفیق الرحمٰن شمشیر بے نیام شمیم حنفی شوال شوق بہرائچی شوکت تھانوی صادق حسین صدیقی صحابہ کرام صحت و تندرستی صحیح بُخاری صحیح مسلم صفر صلاح الدین ایوبی طارق بن زیاد طالب باغپتی طاہر چوھدری ظفر اقبال ظفرتابش ظہور نظر ظہیر کاشمیری عادل منصوری عارف شفیق عاصم واسطی عامر اشرف عبادات و معاملات عباس قمر عبد المالک عبداللہ فارانی عبید اللہ علیم عذرا پروین عرفان صدیقی عزم بہزاد عُشر عُشر کے احکام عطاء رفیع علامہ اقبال علامہ شبلی نعمانیؒ علی بابا عمر بن عبدالعزیز عمران جونانی عمرو بن العاص عنایت اللہ التمش عنبرین حسیب عنبر غالب ایاز غزہ فاتح اُندلس فاتح سندھ فاطمہ حسن فائر فاکس، فتنے فرحت عباس شاہ فرقت کاکوروی فری میسن فریدہ ساجد فلسطین فیض احمد فیض فینکس او ایس قتیل شفائی قربانی قربانی کے احکام قیامت قیوم نظر کاتب وحی کامٹیزیا ویڈیو ایڈیٹر کرشن چندر کرنل محمد خان کروم کشن لال خنداں دہلوی کلیم عاجز کنہیا لال کپور کوانٹم کمپیوٹنگ کورل ڈرا کوئز 1447 کوئز 2025 کیا آپ جانتے ہیں؟ کیف بھوپالی کیلیگرافی و خطاطی کینوا ڈیزائن کورس گوگل گیمز گینٹ چارٹس لائبریری لینکس متفرق مجاہد بن خلیل مجتبیٰ حسین محاورے اور ضرب الامثال محرم محسن اسرار محسن نقوی محشر بدایونی محمد بن قاسم محمد یونس بٹ محمدنجیب قاسمی محمود میاں نجمی مختصر تفسیر ِعتیق مخمور سعیدی مرادِ رسولِ کریم ﷺ مرزا غالبؔ مرزا فرحت اللہ بیگ مزاح و تفریح مستدرک حاکم مستنصر حسین تارڑ مسند احمد مشتاق احمد یوسفی مشکوٰۃ شریف مضمون و مکتوب معارف الحدیث معاشرت و طرزِ زندگی معتزلہ معرکہٴ حق و باطل مفتی ابولبابہ شاہ منصور مفتی رشید احمد مفتی سید مختار الدین شاہ مفتی شعیب عالم مفتی شفیق الدین الصلاح مفتی صداقت علی مفتی عتیق الرحمٰن شہید مفتی عرفان اللہ مفتی غلام مصطفیٰ رفیق مفتی مبین الرحمٰن مفتی محمد افضل مفتی محمد تقی عثمانی مفتی وسیم احمد قاسمی مقابل ہے آئینہ مکیش عالم منصور عمر منظر بھوپالی موبائل سوفٹویئر اور رپیئرنگ موضوع روایات مؤطا امام مالک مولانا اسلم شیخوپوری شہید مولانا اشرف علی تھانوی مولانا اعجاز احمد اعظمی مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مولانا جہان یعقوب صدیقی مولانا حافظ عبدالودود شاہد مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلیؔ مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ مولانا محمد ظفر اقبال مولانا محمد علی جوہر مولانا محمدراشدشفیع مولانا مصلح الدین قاسمی مولانا نعمان نعیم مومن خان مومن مہندر کمار ثانی میاں شاہد میر امن دہلوی میر تقی میر مینا کماری ناز ناصر کاظمی نثار احمد فتحی ندا فاضلی نشور واحدی نماز وٹس ایپ وزیر آغا وکاس شرما راز ونڈوز ویب سائٹ ویڈیو ٹریننگ یاجوج و ماجوج یوسف ناظم یونس تحسین ITDarasgah ITDarasgah - Pakistani Urdu Family Forum for FREE IT Education ITDarasgah - Pakistani Urdu Forum for FREE IT Education ITDarasgah.com - Pakistani Urdu Forum for IT Education & Information ITDCFED ITDCPD ITDCWSE ITDCXA


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟘  𝟡⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس نے سونے سے پہلے یہ دوائی کھالی اسے فوراً نیند آگئی اس سے پہلے اس کی اتنی جلدی آنکھ کبھی نہیں لگی تھی صبح آنکھ کھلی تو اس نے محسوس کیا کہ اس کی طبیعت غیرمعمولی طور پر ہشاش بشاش ہے وہ سب سے پہلے علی بن سفیان کے پاس گیا اسے یہ نہ بتایا کہ اس نے اس پہاڑی علاقے میں حکیم کو جڑی بوٹیاں تلاش کرتے دیکھا تھا یہ بتانے والی بات نہیں تھی کیونکہ حکیم کوئی مشکوک انسان نہیں تھا اس کے متعلق یہ بھی مشہور تھا کہ تعویذ بھی دیتا اور جنات وغیرہ کو بھی قبضے میں رکھتا ہے علی بن سفیان نے مہدی الحسن سے کہا کہ وہ اسی جگہ جائے اسے وہاں کوئی نہ کوئی مشکوک انسان ضرور نظر آئے گا علی بن سفیان دراصل تخریب کاروں کے ایک اڈے کی تلاش میں تھا
مہدی الحسن اس طرف جاتے حکیم کے پاس چلا گیا وہ گڈریوں کے لباس میں تھا اس نے حکیم سے کہا کہ وہ صبح سویرے اتنی دور سے یہ بتانے آیا ہے کہ رات اسے بہت گہری نیند آئی ہے اور اب وہ اتنا ہشاش بشاش ہے، جتنا وہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا
اگر شام تک تم اسی حالت میں رہے تو بدروح نہیں ہوسکتی حکیم نے کہا شام کو پھر آجانا
مہدی اونٹ پر سوار ہوا اور اپنی ڈیوٹی پر روانہ ہوگیا
اس سرسبز جگہ وہ بہت دنوں سے جارہا تھا اور سارا سارا دن وہاں رہتا تھا رات کو بھی وہاں گیا تھا مگر اب حکیم سے ملاقات کے بعد اسے اس جگہ سے ڈر محسوس ہونے لگا حکیم نے اسے بتایا تھا کہ بدروح نقصان نہیں پہنچائے گی کیونکہ وہ محبت کی خاطر اس کی روح کے پاس آتی ہے پھر بھی ان دیکھی پراسرار مخلوق کا ڈر قدرتی تھا اسے ایسے محسوس ہونے لگا جیسے اس کے گرد بدروحیں منڈلا رہی ہوں وہ دلیر آدمی تھا ڈر کو دل سے نکالنے کی کوشش کرنے لگا اور اس بدروح کو تصور میں لانے لگا جس کا ذکر حکیم نے کیا تھا اس تصور نے اسے تسکین دی اور وہ ادھر ادھر گھومنے لگا
اچانک اس نے محسوس کیا کہ اس کی طبیعت جو اتنی زیادہ ہشاش بشاش تھی بجھ رہی ہے اور دل پر گھبراہٹ طاری ہورہی ہے اس نے اپنے آپ کو سنبھالنے کی بہت کوشش کی لیکن گھبراہٹ بڑھتی گئی اور اس نے حکیم کو اپنی جو تکلیف بتائی تھی وہ پہلے کی نسبت زیادہ ہوگئی اس نے اسی وقت حکیم کے پاس جانا چاہا لیکن ڈیوٹی نہیں چھوڑ سکتا تھا برداشت کرتا رہا بہت دیر بعد اس کی طبیعت گھبراہٹ سے آزاد ہونے لگی اور آہستہ آہستہ اس حالت میں آگئی جس میں کل دوائی کھانے سے پہلے تھی اسے یقین ہوگیا کہ یہ بدروح کا اثر ہے
دن گزر گیا اس نے اونٹوں اور بھیڑ بکریوں کو اکٹھا کیا اور انہیں وہاں لے گیا جہاں روزانہ لے جاتا تھا اونٹ پر سوار ہوکر وہ شہر میں حکیم کے پاس چلا گیا اسے اپنی طبیعت کی یہ تبدیلی بتائی حکیم نے بدروح کے شک کا اظہار کیا لیکن ایک روز اور دوائی کھانے کو کہا اس نے دوائی دے دی جو مہدی الحسن نے رات سونے سے پہلے کھالی گزشتہ رات کی طرح اسے نیند آئی اور صبح طبیعت شگفتہ تھی وہ روز مرہ کی طرح علی بن سفیان کے پاس گیا اور وہاں سے اپنی ڈیوٹی کی جگہ پر چلا گیا
اس کی جسمانی حالت اچھی رہی ذہنی حالت یہ تھی کہ بدروح کا خیال غالب تھا۔آدھا دن گزرا تو اس کی شگفتگی کم ہونے لگی جو آہستہ آہستہ ختم ہوگئی اور اس کی جگہ گھبراہٹ اور اداسی آگئی اس نے دھیان ادھر ادھر کرنے کی کوشش کی اور ٹہلنے لگا پھر آہستہ آہستہ طبیعت ٹھکانے آگئی اس کے کانوں میں ایسی آواز پڑی جیسے دور کہیں کوئی عورت رو رہی ہو رونے کی آواز بلند ہوئی پھر مدھم ہوتے ہوتے خاموش ہوگئی مہدی الحسن جہاں تھا وہیں رہا یہ کوئی بدروح رو رہی تھی اور یہ وہی بدروح ہوسکتی تھی جس کا ذکر حکیم نے کیا تھا مہدی الحسن کے دل پر خوف طاری ہوا جس پر اس نے قابو پالیا اس نے یہ ارادہ کیا کہ بدروح سے بات کرے لیکن حکیم نے اسے بتایا نہیں تھا کہ بدروح کے ساتھ بات کرنی چاہیے یا نہیں اگر وہ کسی اور جگہ اور مختلف ماحول میں کسی عورت کے رونے کی آواز سنتا تو دوڑ کر مدد کو پہنچتا لیکن یہاں کسی جیتی جاگتی عورت کا کوئی کام نہیں تھا یہ فرعونوں کے دور کی کسی لڑکی کی بدروح تھی
شام کو وہ کل کی طرح حکیم کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ اس کی حالت کیا ہوئی اور اس نے کیسی آوازیں سنی ہیں حکیم گہری سوچوں میں کھو گیا اور بولا میرا شک یقین میں بدل گیا ہے یہ بدروح ہے گھبراؤ نہیں میں ابھی ایک تعویذ دوں گا پھر بدروح سے پوچھوں گا کہ وہ کیا چاہتی ہے اس کے مطابق کچھ اور کروں گا لیکن تمہیں ڈرنا نہیں چاہیے یہ بدروح تمہارے ساتھ محبت کرتی ہے اس لیے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی تم اس جگہ جاتے رہنا اگر تم نے اس بدروح سے بھاگنے کی کوشش کی تو نقصان کا خطرہ ہے
حکیم نے اسے ایک تعویذ دے دیا جو اس نے اپنے بازو کے ساتھ باندھ لیا میں رات کو اپنا عمل کروں گا حکیم نے کہا کل صبح میرے پاس آنا تمہیں بتاؤں گا کہ بدروح کیا ہے تم نے رونے کی جو آوازیں سنی ہیں وہ اسی بدروح کی ہیں یہ بدروح شیطان نہیں پھر بھی کوشش کروں گا کہ تمہیں اس سے نجات مل جائے مہدی الحسن دل پر تذبذب اور ہیجان لے کر چلا گیا اگلے روز مہدی الحسن کو علی بن سفیان کی طرف سے کچھ اور ہدایات ملیں وہ بھاگم بھاگ حکیم کے پاس گیا حکیم جیسے اسی کے انتظار میں بیٹھا تھا اسے دیکھتے ہی اٹھ کھڑا ہوا اور اسے اندر لے گیا وہ تمہارے ساتھ صرف ایک ملاقات کرنا چاہتی ہے حکیم نے کہا وہ تمہارے سامنے آئے گی اپنا آپ دکھائے گی تم اسے دیکھ سکو گے ہوسکتا ہے پہلے روز وہ تمہارے سامنے آئے اور غائب ہوجائے وہ دوسری دنیا کی مخلوق ہے شاید اس دنیا کے انسانوں کے قریب آنے سے گریز کرے اگر اس نے ایسا ہی کیا تو تمہیں اگلے روز پھر جانا پڑے گا
کہاں؟
وہیں جہاں تم ہر روز جاتے ہو حکیم نے کہا جہاں تم نے مجھے دیکھا تھا تم وہاں رات کو جاؤ گے آپ بھی ساتھ ہوں گے؟
نہیں حکیم نے کہا اس جہان میں گئی ہوئی روح صرف اسے نظر آتی ہے جسے وہ چاہتی ہے اور اگر کوئی گناہ گار بدروح کسی انسان پر نظر رکھ لے تو اسے فوراً مار ڈالتی ہے یہ بدروح جو تمہیں ملنا چاہتی ہے کسی کو پریشان کرنے والی نہیں اس کے رونے کو سمجھو وہ مظلوم ہے محبت کی پیاسی ہے میں نے رات جب اسے حاضر کیا تو وہ زارو قطار روئی اور اس نے میری منت کی کہ اس شخص کو تھوڑی دیر کے لیے میرے پاس بھیج دو پھر ہمیشہ کے لیے چلی جاؤں گی اگر یہ باتیں کوئی اور کررہا ہوتا تو مہدی الحسن پر اتنا زیادہ اثر نہ ہوتا جتنا اس نے قبول کیا یہ باتیں اس حکیم کی زبان سے نکل رہی تھیں جس سے مہدی الحسن کے بڑے حاکم بھی متاثر تھے وہ حکیم بھی تھا اور عالم بھی اس کے بولنے کا اندازہ ایسا تھا جو سننے والے کی روح میں اتر جاتا تھا اس نے مہدی الحسن کو یقین دلایا کہ رات کو اس بدروح کی ملاقات سے اس پر کوئی خوف طاری نہیں ہوگا اور اسے نقصان کے بجائے شاید کچھ فائدہ بھی ملے ایک احتیاط بھی ضروری ہے حکیم نے اسے کہا کسی کے ساتھ اس بدروح کے متعلق یا اس کی ملاقات کے متعلق کوئی بات نہ کرنا اگر تم نے یہ راز فاش کردیا تو نقصان کا خطرہ ہے تم اپنی دنیا کے انسانوں کو دھوکہ دے سکتے ہو عالم غیب میں گئی ہوئی روح کا راز فاش کرو گے تو میں بتا نہیں سکتا کہ تمہارے جسم کے کون سے دو اعضاء ہمیشہ کے لیے بیکار ہوجائیں گے دونوں ٹانگیں سوکھ جائیں گی یا دونوں بازو یا دونوں آنکھیں بینائی سے محروم ہوجائیں گی اب میں تمہیں جو بات بتانے لگا ہوں یہ بھی ایک راز ہے یہ راز تمہیں اس لیے دے رہا ہوں کہ تم عبرت حاصل کرسکو یہاں کی فوج کے دو اعلیٰ رتبے کے کمان دار رات کے وقت مارے گئے ہیں کسی کو معلوم نہیں کہ وہ کس طرح مرے ہیں مجھے دو تین بدروحوں نے بتایا ہے کہ انہیں بدروحوں نے مارا ہے انہوں نے بدروحوں کے راز فاش کردئیے تھے
وہ کس طرح؟
مہدی الحسن گنوار گڈریا اور صحرائی خانہ بدوش بنا ہوا تھا لیکن وہ دراصل جاسوس تھا وہ ان دو کمان داروں کی موت کا سراغ لینا چاہتا تھا اس نے حکیم سے تفصیل پوچھی میں ایسی راز کی بات کسی کو بتا نہیں سکتا حکیم نے کہا جتنی اجازت تھی اتنی بتا دی ہے تم بالکل خاموش رہنا اپنے اس راز کے ساتھ واسطہ رکھو جو میں تمہیں بتا رہا ہوں یہ بھی نہ سوچنا کہ میں تمہاری ذات میں کسی لالچ اور کسی اجرت کے بغیر اتنی دلچسپی کیوں لے رہا ہوں میں ان روحوں اور بدروحوں کی خواہشات کا پابند ہوں اگر میں انہیں ناراض کردوں تو میرا علم بیکار ہوجائے اور بدروحیں میرا بھی وہی حشر کردیں جو وہ اپنے دشمنوں کا کرتی ہیں اس روح نے جو تمہیں دیکھ کر روتی ہے مجھے کہا ہے کہ میں اس کے ساتھ تمہاری تھوڑی سی دیر کی ملاقات کرا دوں تو میرا فرض ہے کہ اس کی خواہش پوری کروں اگر میں اس سے نہ ملوں تو کیا ہوگا؟
وہ بدروح بن کر تمہاری روح پر اپنا سایہ کرے گی حکیم نے جواب دیا تم نے مجھے اپنی جو تکلیف بتائی تھی وہ کوئی جسمانی تکلیف نہیں یہ روحانی عارضہ ہے اس نے تم پر ابھی اپنا پورا اثر نہیں ڈالا تھا تم کوئی نیک انسان ہو تمہاری نیکی تمہارے کام آئی ہے تم نے میرے ساتھ اس تکلیف کا ذکر کردیا خدائے ذوالجلال جس پر رحمت فرمانا چاہتے ہیں اس کے لیے وہ کسی انسان کو سبب بنا دیتے ہیں یہ کرشمہ اللہ کی ذات کا ہے کہ تم نے مجھے وہاں دیکھ لیا اور ہم دونوں ملے اس رحمت سے ڈرو نہیں اگر تم اس بدروح کی ملاقات کی خواہش کردوگے تو وہ اس دنیا میں تمہیں بہت فائدہ دے گی ایک فائدہ یہ ہوسکتا ہے کہ وہ نہایت خوبصورت لڑکی کے روپ میں گوشت پوست کا زندہ جسم بن کر تمہیں جب چاہو گے ملا کرے گی تم اسے بیوی بنا کر گھر رکھ سکتے ہو اور اگر وہ زیادہ مہربان ہوگئی تو مجھے یقین ہے کہ وہ تمہیں کسی فرعون کے مدفون خزانے کا بھید بتا دے اور ایسا ذریعہ پیدا کردے کہ تم یہ خزانہ نکال کر اس بدروح کو ساتھ لے کر مصر سے کہیں دور چلے جاؤ اور کسی خطے کے بادشاہ بن جاؤ 
ملاقات کب ہوگی؟
آج رات چلے جاؤ حکیم نے کہا حکیم نے اسے ایک اور تعویذ دیا اور اسے بہت سی ہدایات دیں خطروں سے بھی آگاہ کیا اور فائدے بھی بتائے اور زور دے کر کہا کہ ڈرنا نہیں وہاں پہنچنے کا وقت بھی بتایا جو رات تاریک ہوجانے کے کچھ دیر بعد کا تھا مہدی الحسن عجیب وغریب سے تاثرات لے کر وہاں سے اٹھا اور اپنی روزمرہ کی ڈیوٹی پر چلا گیا دن وہاں گزارا اور سورج غروب ہونے سے بہت پہلے واپس چلا گیا رات تاریک ہوئی تو وہ پھر وہاں موجود تھا مگر اب ڈیوٹی پر نہیں بدروح کی ملاقات کے لیے گیا تھا
ایسی تاریک تنہائی اور ایسے سنسان ماحول میں اسے خوف زدہ ہونا چاہیے تھا لیکن حکیم کی باتیں اسے حوصلہ دے رہی تھیں اس نے بازو کے ساتھ دو تعویذ باندھ رکھے تھے اور وہ اپنے طور پر کوئی ورد بھی کررہا تھا وہ اس جگہ پہنچ گیا جو اسے حکیم نے بتائی تھی یہ پہاڑیوں کے اندر تھی درخت بھوتوں کی طرح نظر آرہے تھے ماحول اس قدر خاموش تھا کہ مہدی الحسن کو اپنے دل کی دھڑکن بھی سنائی دے رہی تھی
اسے رونے کی وہی آواز سنائی دی جو اس نے دن کو سنی تھی وہ اس آواز کی طرف چل پڑا کچھ دیر خاموشی طاری رہی وہ ذرا سا چل کر رک گیا اب کے رونے کی آواز اس کے عقب سے آنے لگی یہ بھی دور تھی وہ اس طرف چل پڑا اس جگہ سے وہ واقف تھا اس لیے آسانی سے چلا جارہا تھا
یہ آواز بھی خاموش ہوگئی مہدی الحسن نے بلند آواز سے کہا مجھے اپنا آپ دکھاؤ گی یا اسی طرح ڈراتی رہوگی؟
اسے اپنے یہی الفاظ صاف سنائی دئیے اگر اسے یہ علم نہ ہوتا کہ یہ اس کی اپنی صدائے بازگشت ہے تو وہ ڈر کے مارے بھاگ جاتا یہ صحرائی پہاڑیاں تھیں جو دیواروں کی طرح کھڑی تھیں ان میں زیادہ تر عمودی اور کچھ ڈھلانی تھیں مہدی الحسن کو اپنی آواز تین چار بار سنائی دی اس کی آواز ماحول اور فضا میں گھومتی اور تیرتی محسوس ہوتی تھی
اس آواز کی گونج تاریک فضا میں تحلیل ہوگئی تو اسے ایک نسوانی آواز سنائی دی مجھ سے ڈرو نہیں آگے آؤ یہ آواز دور سے آئی تھی
یہ اسے کئی بار سنائی دی اور آہستہ آہستہ ختم ہوگئی آواز پھر آئی اب بے وفائی نہ کرنا میں دو ہزار سال سے تمہاری راہ دیکھ رہی ہوں مہدی الحسن کو یہ الفاظ کئی بار سنائی دئیے پھر مہدی الحسن کی آواز ابھری اور بار بار سنائی دینے کے بعد خاموش ہوگئی اس طرح دونوں طرف سے آوازیں ابھرتی بھٹکتی اور گونجتی رہیں بدروح کی آواز میں التجا تھی جس سے مہدی الحسن کا خوف دور ہوگیا وہ ان پہاڑیوں میں اندر تک چلا گیا اسے سامنے روشنی کی چمک دکھائی دی جو آسمانی بجلی کی طرح چمکی اور بجھ گئی اس چمک میں اس نے دیکھ لیا کہ وہ کہاں ہے اسے اس دمک میں اس سرنگ کا دہانہ نظر آیا تھا جس میں گزر کر وہ ایک بار دوسری طرف گیا تھا وہ وہیں رک گیا کچھ دیر بعد روشنی پھر چمکی اور اس میں اسے سرنگ کے دہانے میں کوئی انسان کھڑا نظر آیا روشنی جانے کہاں سے آرہی تھی یہ اتنی لمبی چوڑی تھی کہ دہانے میں کھڑا انسان صاف نظر آتا تھا وہ اس سے کم وبیش پچاس قدم دور تھا اس نے غور سے دیکھا چہرہ بڑی ہی خوبصورت لڑکی کا تھا صرف چہرہ نظر آتا تھا باقی سارا جسم سفید کفن میں لپٹا ہوا تھا مہدی الحسن ڈرنے لگا اسے نسوانی آواز سنائی دی مجھ سے ڈرو نہیں دوہزار سال سے تمہاری راہ دیکھ رہی ہوں
وہ آگے بڑھا چند قدم چلا ہوگا کہ کفن سے ایک بازو باہر آیا جو مہدی الحسن کی طرف بڑھا ہاتھ کی ہتھیلی اس طرح آگے ہوئی جیسے اشارہ کیا ہو کہ آگے نہ آنا۔ مہدی الحسن وہیں رک گیا روشنی بجھ گئی وہ اس انتظار میں کھڑا رہا کہ روشنی ایک بار پھر چمکے گی اور اسے کفن میں لپٹی ہوئی یہ لڑکی نظر آئے گی مگر اسے آواز سنائی دی تم پر اعتبار کون کرے چلے جاؤ چلے جاؤ مجھ پر اعتبار کرو مہدی الحسن نے کہا اور آگے کو دوڑا وہ پکارتا جارہا تھا میں تمہاری خاطر آیا ہوں میرے قریب آؤ وہ سرنگ کے دہانے میں جا رکا اسے سرنگ کے اندر سے آواز سنائی دی کل آنا چلے جاؤ تم فانی دنیا کے انسان ہو تمہارے وعدے بھی فانی ہیں
مہدی الحسن سرنگ کے اندر چلا گیا اور آگے ہی آگے چلتا گیا اسے سرنگ کا دوسرا دہانہ دکھائی دیا سرنگ کے اندر کی نسبت باہر تاریکی کم تھی اس لیے سرنگ کا دہانہ نظر آرہا تھا سرمئی سی اس روشنی میں ایک لمبوترا سایہ دکھائی دیا جو فوراً غائب ہوگیا یہ کفن میں لپٹی ہوئی لڑکی جیسا تھا مہدی الحسن دوڑ پڑا ٹھوکر کھا کر گرا اور اٹھ کر پھر دوڑا اگلے دہانے میں جاکر اس نے آوازیں دیں مگر اسے اپنی ہی پکار کی صدائے بازگشت کے سوا کوئی جواب نہ ملا رونے کی آواز بھی نہ ابھری بدروح نے بھی اسے نہ پکارا وہ مایوس ہوکر واپس چل پڑا ابھی وہ سرنگ کے وسط ہی میں تھا کہ اسے سرنگ کے سامنے والے دہانے میں روشنی دکھائی دی مگر اس روشنی میں کفن میں لپٹی ہوئی لاش نہیں تھی
روشنی بجھ گئی مہدی الحسن سرنگ سے نکل گیا اسے سامنے اور ذرا بائیں کو بلندی پر روشنی کا دھوکہ ہوا مگر وہ کسی اور طرح کی روشنی تھی جیسے کسی نے کھڈ میں چٹان کے پیچھے آگ جلا رکھی ہو مہدی الحسن نے کچھ سوچا اور ادھر کو چل پڑا جدھر سے آیا تھا وہ اس پہاڑی علاقے سے نکل گیا اس کا اونٹ باہر بندھا تھا وہ اونٹ پر سوار ہوا اور قاہرہ کی سمت روانہ ہوگیا اس کی ذہنی کیفیت ایسی تھی جس میں ڈر اور خوف نہیں بلکہ اضطراب اور ہیجان تھا وہ ان دو روشنیوں کے متعلق سوچ رہا تھا
ایک وہ جس میں اسے کفن میں لپٹی ہوئی لاش نظر آئی تھی اور دوسری وہ جو اسے بلندی پر دکھائی دی تھی بلندی والی روشنی آگ کی تھی
وہ اپنے ٹھکانے پر پہنچ گیا رات بہت گزر گئی تھی پھر بھی اسے نیند نہ آئی بار بار کفن میں لپٹی ہوئی لڑکی کا چہرہ اس کے سامنے آتا تھا اور یہ ارادہ اسے تڑپا دیتا کہ وہ رات وہیں گزارے اور اس لڑکی کو قریب سے دیکھ کر لوٹے عادت کے مطابق وہ صبح وقت پر اٹھا مشین کی طرح روزمرہ کے کام کیے علی بن سفیان کے پاس جاکر نئی ہدایات لیں جن میں ایک یہ تھی کہ اس علاقے میں اس کی ڈیوٹی ختم کردی گئی تھی اسے شہر کے باہر کسی اور جگہ جانے کو کہا گیا مجھے ابھی وہیں جانے دیں جہاں اتنے دنوں سے جارہا ہوں مہدی الحسن نے کہا مجھے توقع ہے کہ ان پہاڑیوں میں مجھے کچھ مل جائے گا میں دو تین روز بعد آپ کو بتا سکوں گا کہ یہ علاقہ صاف ہے یا نہیں علی بن سفیان اس کے مشوروں کو نظر انداز نہیں کرتا تھا وہ کوئی عام قسم کا جاسوس نہیں تھا اس شعبے کا عہدے دار تھا اور تجربے کے لحاظ سے وہ قابل اعتماد تھا۔ کچھ دیر کی بحث اور غوروخوض کے بعد علی بن سفیان نے اپنے اسی علاقے میں جانے کی اجازت دے دی مہدی الحسن بدروح سے ملے بغیر اس علاقے کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا یہ شاید پہلا موقع تھا کہ اس نے فرض پر اپنی ذاتی خواہش کو ترجیح دی تھی علی بن سفیان کو ذرا سا بھی شک ہوتا کہ وہ کسی اور چکر میں اپنی ڈیوٹی بدلنے سے گریز کررہا ہے تو اسے کبھی نہ جانے دیتا ایک تجربہ کار جاسوس اور سراغ رساں اپنے آپ کو ایسے خطرے میں ڈال رہا تھا جس میں اس کی جان ضائع ہوسکتی تھی
مہدی الحسن حکیم کے پاس گیا اور اسے رات کی واردات سنائی۔حکیم نے آنکھیں بند کرلیں اور منہ ہی منہ میں کچھ بڑ بڑاتا رہا تھوڑی دیر بعد اس نے آنکھیں کھولیں اور مہدی الحسن کی آنکھوں میں جھانکا آج رات پھر جاؤ حکیم نے اسے کہا اس پاک جہان کی مخلوق اس ناپاک دنیا کے کسی انسان کے قریب آنے سے ڈرتی ہے تم کوئی ایسی ویسی حرکت نہ کرنا شاید آج بھی ذرا سی دیر نظر آکر وہ غائب ہوجائے تم بے صبر نہ ہوجانا وہ تمہیں ملنے کو بے تاب ہے ضرور ملے گی اگر اس ملاقات میں تمہارا فائدہ نہ ہوتا تو میں تمہیں وہاں نہ بھیجتا تمہاری جان کو بھی کوئی خطرہ نہیں مہدی الحسن چلا گیا اس علاقے میں گھوما پھرا سرنگ کے اندر گیا دوسری طرف گیا سرنگ کے دہانے سے نیچے اترگیا اسے زمین پر کپڑے کی ایک پٹی پڑی نظر آئی اس نے اٹھالی یہ نصف انچ چوڑی اور کوئی نصف گز لمبی ہوگی اسے وہ دیکھتا رہا اور اپنے پاس رکھ لی وہ پھر سرنگ میں داخل ہوا اور باہر آگیا اس نے اس بلندی کی طرف دیکھا جہاں رات اسے آگ کا دھوکہ ہوا تھا ادھر ڈھلان تھی وہ سرنگ سے نکل کر ڈھلان پر چڑھنے لگا۔ اسے ایک مردانہ آواز سنائی دی اوپر نہ جانا جس کے لیے تم آئے ہو وہ تمہیں رات کو ملے گی یہ آواز گونج بن کر بار بار سنائی دینے لگی ہماری دنیا میں آکر کھوج نہ لگاؤ وہی آواز پھر سنائی دی
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مہدی الحسن رک گیا اسے ایسے محسوس ہونے لگا جیسے یہ آواز اس کے اردگرد گھوم رہی ہے وہ اوپر نہ گیا حیرت زدہ ہوکر ادھر ادھر دیکھتا رہا اس نے سوچا کہ وہ کوئی حرکت نہ کر بیٹھے جس سے یہاں کی کوئی بدروح اسے نقصان پہنچا دے وہ اس جگہ سے باہر چلا گیا اور ایک جگہ بیٹھ کر سوچنے لگا کہ اس جگہ کی حقیقت کیا ہے دن اسی سوچ میں گزر گیا اور وہ رات کو یہیں واپس آنے کے لیے چلا گیا سورج غروب ہونے کے بعد جب وہ اس پہاڑی خطے میں جانے لگا تو وہی بھیس بدلا جس میں وہ وہاں جایا کرتا تھا۔ دن کے وقت جب وہ ڈیوٹی پر جاتا تھا تو اپنا لمبا خنجر ساتھ لے جاتا تھا حکیم نے اسے بڑی سختی سے کہا تھا کہ وہ رات کو جب بدروح سے ملنے جائے تو اپنے ساتھ کوئی ہتھیار نہ لے جائے گزشتہ رات وہ خنجر اپنے ساتھ نہیں لے گیا تھا اب شام کو وہ بدروح کی ملاقات کے لیے جارہا تھا۔ اس نے گڈریوں کا بھیس بدل لیا خنجر دیوار کے ساتھ لٹک رہا تھا اس نے خنجر کو دیکھا اور گہری سوچ میں کھو گیا ہدایت کے مطابق اسے خنجر ساتھ نہیں لے جانا تھا لیکن اس نے گہری سوچ سے بیدار ہوکر خنجر دیوار سے اتار لیا اپنے کپڑوں کے اندر کمر کے ساتھ باندھ لیا اور باہر نکل گیا
اس جگہ پہنچ کر اس نے اونٹ کو بٹھا دیا اور اس جگہ چلا گیا جہاں سے سرنگ کا دہانہ نظر آتا تھا اسے اپنے عقب میں کسی کے قدموں کی آواز سنائی دی جو فوراً خاموش ہوگئی اس کے فوراً بعد اوپر سے پتھر لڑھکنے کی آواز آئی جو ایسی بلند تو نہیں تھی لیکن ایسے سکون اور ایسی وادیوں میں جو عمودی پہاڑیوں میں گھری ہوئی تھیں یہ آواز لڑھکتے پتھر ساکن ہوجانے کے بعد بھی سنائی دیتی رہی پھر گونج بن کر فضا میں تیرنے لگی جیسے کوئی سسکیاں اور ہچکیاں لے رہا ہو ذرا اور وقت گزرا تو مہدی الحسن کو رونے کی آوازیں سنائی دیں
میرے سامنے آؤ مہدی الحسن نے بلند آواز سے کہا میری دنیا ناپاک ہے میں ناپاک نہیں ہوں تم مجھے پھر چھوڑ کر چلے جاؤ گے یہ نسوانی آواز کہیں قریب سے آئی
مہدی الحسن کی آواز اور یہ نسوانی آواز یوں بار بار سنائی دینے لگی جیسے ایک دوسرے کے تعاقب میں دوڑ رہی ہوں روشنی چمکی اور بجھ گئی جس سے مہدی الحسن کو سرنگ کا دہانہ نظر آیا وہ دبے پاؤں تیز قدم آگے چلا گیا اور سرنگ کے دہانے سے ذرا نیچے ایک بڑے پتھر کے پیچھے چھپ گیا۔ اس نے ادھر اوپر دیکھا جہاں گزشتہ رات اسے آگ کا دھوکہ ہوا تھا وہ دھوکہ آج بھی موجود تھا۔ سرنگ کا دہانہ ذرا بلند تھا وہ پیٹ کے بل سرکتا اوپر چلا گیا اور وہ چند لمحوں بعد دہانے کے اندر تھا وہاں سے اس نے چھپ کر ادھر اوپر دیکھا جدھر اسے آگ کا دھوکہ نظر آیا تھا اب چوکہ وہ خود بھی بلندی پر تھا اس لیے اسے وہاں آگ کی ایسی روشنی دکھائی دی جس کا شعلہ کہیں چھپا ہوا تھا
اسے سرنگ کے اندر سے کسی عورت کی آواز سنائی دی
 دو ہزار سال سے تمہاری راہ دیکھ رہی ہوں آگے آؤ 
مہدی الحسن سرنگ کی دیوار کے ساتھ ساتھ اور اندر کو چل پڑا اسے خیال آیا کہ حکیم نے اسے کہا تھا کہ اپنے ساتھ کوئی ہتھیار نہ لے جانا ورنہ اس لڑکی کی روح سامنے نہیں آئے گی اس کے پاس ڈیڑھ فٹ لمبا خنجر تھا اور بدروح بول رہی تھی وہ اور آگے چلا گیا اور سرنگ کے وسط میں پہنچ گیا سرنگ فراخ تھی اسے کوئی آتا محسوس ہوا وہ دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھ گیا اس کے قریب سے کوئی گزرنے لگا اتنے گھپ اندھیرے میں بھی اس نے اندازہ لگا لیا کہ یہ وہی لڑکی ہے اور یہ کفن میں لپٹی ہوئی ہے لڑکی رک گئی اور اس نے رونے کی آواز نکالی۔ مہدی الحسن نے یہ آواز پہلے کئی بار سنی تھی اس کا دل بہت زور زور سے دھڑکنے لگا کفن میں لپٹی ہوئی لاش آگے کو سرکی عین اس وقت دہانے پر روشنی چمکی اور بجھ گئی مہدی الحسن اٹھا اور بجلی کی تیزی سے پیچھے سے لاش کو دبوچ لیا لاش کی آواز سنائی دی اوہ بدبخت تمہیں کس وقت مذاق سوجھا ہے چھوڑو مجھے شکار انتظار میں کھڑا ہے
مہدی الحسن نے جس شک میں جان کی بازی لگا کر اسے پکڑا تھا وہ شک صحیح ثابت ہوا اس نے سوچ لیا تھا کہ یہ بدروح ہوئی تو اس کے ہاتھ نہیں آئے گی اور اس کی جان نکال لے گی اور اگر یہ کوئی دھوکہ ہوا تو اسے بڑا موٹا شکار مل جائے گا
کفن میں لپٹی ہوئی اس عورت کی آواز سنتے ہی مہدی الحسن سرگوشی میں بولا اونچی آواز نکالی تو خنجر ایک پہلو میں گھونپ کر دوسرے پہلو سے نکال دوں گا میں تمہارا دل اور کلیجہ منہ کے راستے نکال کر کھا جاؤں گی عورت نے کہا میں روح ہوں مہدی الحسن نے اسے ایک بازو سے دبوچے رکھا اور دوسرے ہاتھ سے خنجر نکال کر اس کی نوک عورت کے پہلو میں رکھ دی سرنگ کے سامنے والے دہانے پر ایک بار پھر روشنی چمکی مہدی الحسن کا ادھر جانا پرخطر تھا میں اسی لیے تمہیں اپنے قریب نہیں آنے دیتی تھی کہ تم فریبی اور فانی دنیا کے انسان ہو عورت نے رندھی ہوئی اور اثرانگیز آواز میں کہا دو ہزار سال سے تمہاری راہ دیکھ رہی ہوں تمہارا انتظار ختم ہوگیا ہے مہدی الحسن نے کہا اب تم روحوں کی پاک دنیا میں واپس نہیں جاؤ گی تم اب میری ناپاک دنیا کی عورت ہو
میں عورت نہیں اس نے کہا میں جوان لڑکی ہوں میں حسین لڑکی ہوں میں اونچا نہیں بولوں گی میری بات غور سے سن لو میں جانتی ہوں تم کون ہو اور یہاں کیوں آئے ہو تم مجھے اتنے اچھے لگتے ہو کہ میں نے تمہیں حاصل کرنے کا فیصلہ کرلیا اور یہ طریقہ اختیار کیا ہے
تو چلو میرے ساتھ مہدی الحسن نے کہا نہیں لڑکی نے کہا تم میرے ساتھ چلو میں تمہارے ساتھ گئی تو ہم دونوں بھوکے مریں گے تم میرے ساتھ آئے تو فرعونوں کا خزانہ ہمارا ہوگا پھر تمہیں ویرانوں میں بھٹکتے پھرنے اور تھوڑی سی تنخواہ کے عوض جاسوسی کرتے پھرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی تم یہاں کیا کررہی ہو؟
خزانہ نکال رہے ہیں لڑکی نے کہا میں بہت سے آدمیوں کے ساتھ ہوں
وہ سب کہاں ہیں؟
میرے ساتھ چلو سب تمہارا استقبال کریں گے لڑکی نے کہا مجھے روشنی میں دیکھو گے تو خزانوں کو اور اپنی دنیا کو بھول جاؤ گے مہدی الحسن جو خوشبو اس لڑکی کے جسم سے سونگھ رہا تھا وہ اس پر خمار طاری کررہی تھی اس نے اس لڑکی کو جب اپنے بازوؤں میں دبوچا تھا تو اس نے محسوس کرلیا تھا کہ یہ جسم ایمان خریدنے کا اثر رکھتا ہے لڑکی کی آواز میں ترنم تھا اس پر نشہ طاری ہوچکا تھا اس لمحے سرنگ کے دہانے کی طرف وہ نہیں جانا چاہتا تھا کیونکہ ادھر کے متعلق اسے یقین تھا کہ ادھر آدمی ہوں گے اور روشنی کا انتظام تو ادھر تھا ہی اٹھو اس نے لڑکی کو اٹھایا اور کہا کفن اتار دو
لڑکی نے کفن اتار دیا مہدی الحسن نے کفن سے لمبی اور چوڑی پٹیاں پھاڑیں ایک سے لڑکی کے ہاتھ پیٹھ پیچھے باندھ دئیے دوسری پٹی سے اس کی ٹانگیں ٹخنوں کے قریب سے باندھیں تیسری پٹی اس کے منہ پر باندھ کر اسے کندھے پر ڈال لیا خنجر ہاتھ میں رکھا اور وہ سرنگ کے پچھلے دہانے کی طرف چل پڑا۔ اسے وہاں سے بہت جلدی نکلنا تھا
گزشتہ رات جب مہدی الحسن یہاں آیا تھا تو وہ بدروح سے ہی ملنے آیا تھا سرنگ کے دہانے پر وہ روشنی کی چمک میں اسے نظر آئی اور غائب ہوگئی تھی مہدی نے دہانے پر جاکر ایک تو دہانے کے سامنے بلندی پر روشنی سی دیکھی تھی اور پھر وہ سرنگ کے اندر گیا تو اس نے دوسرے دہانے میں سے ایک سایہ سا باہر جاتے دیکھا تھا دن کے وقت وہ پھر سرنگ میں سے گزر کر دوسری طرف گیا تو اسے کپڑے کی ایک باریک سی پٹی زمین پر پڑی نظر آئی تھی اسے پٹی دیکھتے ہی یاد آگیا کہ میت پر کفن ایسی ہی پٹیوں سے باندھا جاتا ہے وہ چونکہ علی بن سفیان کا تربیت یافتہ جاسوس تھا اس لیے وہ ذرا ذرا سی چیزوں اور لطیف سے اشاروں کو بہت اہمیت دے رہا تھا۔ وہ جب آج رات بدروح کی ملاقات کے لیے چلا تھا تو اس نے حکیم کے منع کرنے کے باوجود خنجر ساتھ لے لیا تھا یہ آزمائش کا ایک طریقہ تھا
خنجر کے باوجود بدروح آگئی اس نے دلیری یہ کی کہ آج دہانے پر روشنی نظر آتے ہی وہ دہانے میں چلا گیا اور وہاں سے اس نے بلندی پر دیکھا وہاں آگ کا چھپا ہوا شعلہ تھا دہانے پر چمک وہیں سے آتی تھی مہدی الحسن کو دو واقعات یاد آگئے صلیبیوں کے ایجنٹوں نے مصر کے ایسے ہی پہاڑی علاقوں میں مصر کے دیہاتیوں کو توہمات میں الجھانے اور انہیں اثر میں لینے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ ایک پہاڑی پر بڑے شعلے والی مشعل جلا کر چھپا رکھی تھی اس کے سامنے لکڑی کا ایسا تختہ رکھتے تھے جس پر براق چپکا ہوا تھا دوسرے واقعہ میں چمکیلی دھات کی چادر استعمال کی گئی تھی ابرق یا دھات کی چمک سامنے والی پہاڑی پر پڑتی تھی مشعل اور چادر کے درمیان ایک اور تختہ رکھتے تو چمک بجھ جاتی تھی
یہ مشعل اور چمکیلی چادر ایسی جگہ رکھی جاتی جہاں سے یہ لوگوں کو نظر نہیں آتی تھیں
ان دونوں وارداتوں میں صلیبی ایجنٹ پکڑے گئے اور ان کا یہ طریقہ بے نقاب ہوگیا تھا ورنہ سیدھے سادے لوگ اسے غیب کی چمک سمجھتے تھے ان دونوں وارداتوں پر چھاپہ مارنے والوں میں مہدی الحسن بھی تھا وہ سمجھ گیا کہ سرنگ کے بالکل بالمقابل پہاڑی پر جو آگ کا دھوکہ سا ہوتا ہے وہ مشعل چھپی ہوئی ہے اور سرنگ کے دہانے پر اسی کی چمک پھینکی جاتی ہے
اسے ٹریننگ کے دوران بتایا گیا تھا کہ جو انسان مرجاتا ہے وہ ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے تعلق توڑ جاتا ہے خدا اس کی روح کو یوں بھٹکنے کے لیے نہیں چھوڑ دیتا کہ وہ انسانوں کے پیچھے دوڑتی پھرے جو مرجاتے ہیں وہ نہ جسمانی طور پر واپس آتے ہیں نہ روح یا بدروح کی شکل میں مہدی الحسن کو ٹریننگ میں یہ اٹل حقیقت ذہن نشین کرائی گئی تھی کہ انسان کو خدا نے اتنی زیادہ جسمانی اور روحانی قوت عطا کی ہے جو پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کرسکتی ہے ایمان جتنا مضبوط ہوگا یہ قوت اتنی ہی زیادہ ہوگی جنات اور بھوت اور چڑیلیں انسان کے اپنے ذہن کی تخلیق ہیں صلیبی ہمارا ایمان کمزور کرنے کے لیے ہم پر واہمے اور توہمات طاری کررہے ہیں
یہ سبق قوم کے ہر فرد کو ملنا چاہیے تھا لیکن یہ ممکن نہ تھا سلطان ایوبی نے لڑاکا جاسوسوں (کمانڈوز) کے جو دستے تیار کیے تھے انہیں بڑی کاوش سے ذہن نشین کرایا گیا تھا کہ ایمان کی قوت کیا ہوتی ہے انہیں توہمات سے دور رکھا گیا تھا انہیں عملی سبق بھی دئیے گئے تھے صلیبیوں نے تمہارے سامنے حضرت عیسیٰ کو زمین پر اتارا تھا مہدی الحسن کو علی بن سفیان کا ایک سبق یاد آگیا تھا تمہارے سامنے خدا کو بھی انہوں نے زمین پر اتارا تھا وہ بدروحوں کو بھی لائے تم نے یہ فریب کاری اپنی آنکھوں دیکھی تھی اور یہ بھی دیکھا تھا کہ یہ فریب کاری کیسی کاریگری سے کی جارہی تھی تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ یہ شعبدہ بازی تھی یہ اسلامی نظریات کو مجروح اور مسخ کرنے کی کوششیں تھیں جو تم نے ناکام کیں۔ خدا پہلے ہی زمین پر موجود ہے قرآن کا فرمان ہے کہ کوئی پیغمبر واپس نہیں آئے گا رسول اکرمﷺ کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوگیا ہے خدائے ذوالجلال نے ہمیں اپنا نور دکھا دیا ہے صلیبی اس کوشش میں مصروف ہیں کہ مسلمان کے سینے میں اللہ رسولﷺ اور قرآن کا یہ نور بجھ جائے سلطان ایوبی نے اپنی فوج اور خصوصاً اپنے جانباز دستوں کے دلوں میں یہ اصول پیوست کررکھا تھا
اللہ کے نام پر تم جو بھی خطرہ مول لو گے وہ تمہارے لیے خطرہ نہیں رہے گا کیونکہ تمہیں خدا کی خوشنودی اور مدد حاصل ہوگی اگر آج تم توہم پرستی کا شکار ہوگئے تو تمہاری اگلی نسل کا ایمان اتنا کمزور ہوگا کہ وہ کفر کے آگے ہتھیار ڈال دے گی ایسے ہی کچھ اور سبق تھے جو مہدی الحسن کو یاد آگئے تھے اسے اپنی اہمیت کا بھی احساس ہوگیا تھا جیسا کہ بتایا جاچکا ہے کہ وہ معمولی عہدے یا درجے کا جاسوس نہیں تھا اس کی قابلیت اور تجربہ بھی غیرمعمولی تھا دشمن کے تخریب کار اسے قتل کرسکتے تھے اسی علاقے میں اسے دور سے تیر مار سکتے تھے لیکن اس کے پائے کے جاسوسوں کو دشمن زندہ پکڑنے یا اپنے جال میں پھانس کر اس پر اپنا طلسم طاری کرنے کی کوشش کرتا تھا صلیبیوں اور حشیشین کے پاس ایسے طریقے تھے جن سے وہ کسی بھی انسان کے ذہن پر قبضہ کرکے اسے اپنے حق میں استعمال کرسکتے تھے مہدی الحسن ان کے کام کا انسان تھا یہ ضروری نہیں تھا کہ انہوں نے صرف اس کو پکڑنے کے لیے اس پہاڑی علاقے میں یہ ڈھونگ رچایا تھا اس علاقے میں کسی جگہ انہوں نے اپنا اڈہ بنا رکھا تھا مہدی الحسن کو انہوں نے گڈریے کے روپ میں بھی پہچان لیا تھا چنانچہ اسے پھانسنے کا یہ طریقہ اختیار کیا گیا مہدی الحسن لڑکی کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اسے کندھے پر اٹھائے سرنگ کے دوسرے دہانے کی طرف جارہا تھا اسے سارے سبق یاد آگئے تھے اور اس کے گرد سلطان ایوبی کی آواز گونج رہی تھی جس طرح ایک غدار پوری قوم کو ذلت و رسوائی میں ڈال سکتا ہے اسی طرح ایک حریت پسند جانباز پوری قوم کو بڑے سے بڑے خطرے سے بچا سکتا ہے
مہدی الحسن کے دل میں یہ احساس ایک بڑا ہی مضبوط جذبہ بن کر بیدار ہوگیا کہ اس کی قوم جو گہری نیند سورہی ہے وہ اسی کے بھروسے پر سو رہی ہے وہ جاسوسوں کی زمین دوز جنگ کا جانباز تھا اسے معلوم تھا کہ قوم بہت بڑے لشکر کا اور گھوڑ سواروں کے طوفان کا اور تیروں کی بوچھاڑوں کا مقابلہ کرسکتی ہے لیکن دشمنوں کے جاسوسوں اور تخریب کاروں کا مقابلہ صرف ایک یا دو جاسوس ہی کرسکتے ہیں مہدی الحسن مصر اور اپنی قوم کا واحد پاسبان اور سلامتی کا ضامن بن گیا مگر ایک سوال اسے پریشان کررہا تھا کیا حکیم بھی دشمن کے تخریب کاروں کے گروہ کا فرد ہے؟
اس کا ذہن تسلم کرنے پر آمادہ نہیں تھا کہ اتنا عالم معزز اور صاحب حیثیت طبیب جس کی عزت حکام بالا بھی کرتے تھے دشمن کا ساتھی ہوسکتا ہے اس یاد آیا کہ اسے جو سبق دئیے گئے تھے اور اس کے اپنے جو تجربے اور مشاہدے تھے ان سے اس پر یہ حقیقت واضح ہوئی تھی کہ ایمان فروشی کا عہدے اور رتبے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اس نے دیکھا یہ تھا کہ ایمان کا سودا عموماً اونچے رتبے کے لوگ کرتے ہیں اور زیادہ بڑا بننے کے لالچ میں آکر بعض انسان ایمان گروی رکھ دیتے ہیں
اس کے سامنے اب مسئلہ یہ تھا کہ لڑکی کو ساتھ لے کر وہ کس طرف سے باہر نکلے اور اپنے اونٹ تک پہنچے لڑکی سے وہ اس لیے رہنمائی نہیں لینا چاہتا تھا کہ وہ اسے غلط راستے پر ڈال کر کسی اور جال میں پھانس سکتی تھی وہ جس راستے سے آیا تھا اس راستے کو وہ اب مسدود سمجھتا تھا روشنی پھینکنے والوں نے دہانے پر دو تین بار روشنی پھینکی تھی مگر لڑکی کو مہدی الحسن نے سرنگ میں دبوچ رکھا تھا لڑکی کی وہ آواز بھی بند ہوگئی تھی جو مہدی الحسن کو بدروح کا تاثر دیتی تھی ان حالات میں اسے یہ خطرہ نظر آرہا تھا کہ ادھر اس گروہ کے آدمی نیچے اتر آئے ہونگے سرنگ کی دوسری طرف اسے معلوم نہیں تھا کہ کسی طرف سے باہر جانے کا راستہ ہے یا نہیں وہ لڑکی کو اٹھائے سرنگ سے باہر نکل گیا ایک طرف دہانے سے کچھ دور جا کر اس نے لڑکی کو زمین پر بٹھا دیا اور اس کے منہ سے پٹی کھول کر کہا کیا تم بتاؤ گی کہ میں کس طرف سے جاؤں جدھر تمہارا کوئی آدمی نہ ہو؟
اگر تم اکیلے جاؤ تو بتا سکتی ہوں تم میرے ساتھ چلو گی مہدی الحسن نے کہا مجھے پھانسے کی کوشش کروگی تو میں اپنے آپ کو زندہ نہیں رہنے دوں گا، نہ تمہیں زندہ چھوڑوں گا
میں تمہیں وہ راز بتا دوں جو تم جاننا چاہتے ہو تو اکیلے چلے جاؤ گے؟
میں وہ راز جان چکا ہوں مہدی الحسن نے کہا مجھے راستہ بتاؤ مجھے صرف ایک بار روشنی میں دیکھ لو لڑکی نے کہا پھر مجھے اپنا سمجھنا ایک بار میرے ساتھ چلے چلو میں تمہیں دھوکہ نہیں دے رہی...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*


🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ* 
✍🏻تحریر:  *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【➋➍】デ۔══━一
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
عرب کے یہ بدوّ آخر کب تک محاصرے میں بیٹھے رہیں گے۔۔۔ جرنل جارج نے کہا۔۔ انہیں کچھ عرصہ بیٹھے رہنے دو ہم ان کی رسد کے راستے مسدود کر رہے ہیں، اور جب یہ بھوکے مرنے لگیں گے تو ان کے عقب سے ان پر حملہ کریں گے۔
مصر میں اپنی فوج کی کمی نہیں۔۔۔ تھیوڈور بولا۔۔۔ ان عربوں کو ذرا نڈھال ہو جانے دو ابھی یہ فتح کے نشے سے سرشار ہیں تھوڑے ہی دنوں بعد اس خوش فہمی سے نکل آئیں گے۔
یہ رومی فوج کے افسران اعلی کا اجلاس تھا یا محفلِ مے نوشی تھی، اس میں یہ سمجھا گیا کہ مجاہدین اسلام خندق عبور نہیں کر سکیں گے اور مصر سے ہی کمک آئے گی، اور مجاہدین کی رسد کے راستے بند کر دیے جائیں گے ۔اور ان پر عقب سے حملہ کیا جائے گا ، یہ رومی افسر اپنے دفاعی انتظامات سے بجا طور پر مطمئن تھے اور ان کا دفاعی پلان بھی بالکل صحیح تھا، ہرقل نے مقوقس پر یہ جو الزام عائد کیا تھا کہ مصر میں روم کی ایک لاکھ فوج موجود ہے غلط نہیں تھا، مقوقس نے اس فوج کا تھوڑا سا حصہ ہی جنگ میں استعمال کیا تھا، تھیوڈور نے پوری فوج کو استعمال کرنے کا پلان بنا لیا تھا ۔ تصور میں لایا جاسکتا ہے کہ ایک لاکھ فوج کے مقابلے میں مسلمانوں کے سات آٹھ ہزار نفری کے لشکر کی کیا حیثیت تھی۔
آدھی رات کے وقت یہ محفل برخاست ہوئی اور تمام فوجی افسر رخصت ہوگئے۔ تھیوڈور کے سونے کے کمرے میں جو نوخیز لڑکی اس کے انتظار میں بیٹھی تھی وہ نیند پر قابو نہ پا سکی اور پلنگ پر سو گئی ، وہ فرمانروائے مصر کے حرم کی لڑکی نہیں تھی نہ ہی مقوقس نے کوئی حرم بنا رکھا تھا یہ ایک غریب ماں باپ کی بیٹی تھی اس کا گھرانہ کوئی ایسا غریب بھی نہیں تھا کہ یہ لوگ کسی کے محتاج ہوتے ، دو وقت کی روٹی باعزت طور پر میسر آ جاتی تھی، لیکن اس لڑکی نے کبھی خواب میں بھی نہ دیکھا ہوگا کہ وہ کسی رات شاہی محل کے سونے کے کمرے کی زینت بنے گی، وہ پلی بڑھی تو غربت میں تھی لیکن خدا نے اسے بے مثال حسن سے نوازا تھا اس کے چہرے پر معصومیت کا جو تاثر تھا وہ اس کے حسن کو طلسماتی بنا رہا تھا۔
تھیوڈور نے اس نوخیز لڑکی کو کہیں دیکھ لیا تھا، وہ کچھ دیر اسے دیکھتا ہی رہا تھا، تھیوڈور کے ساتھ اس کا ایک خاص معتمد بھی تھا ،اس معتمد نے اس کے کان میں کہا کہ یہ لڑکی اسے اتنی ہی اچھی لگی ہے کہ وہ دیکھے ہی جارہا ہے تو آج رات یہ اس کے سونے کے کمرے میں پہنچائی جاسکتی ہے۔ تھیوڈور کے ہونٹوں پر ابلیسی مسکراہٹ آگئی اور اس نے سر سے اشارہ کیا کہ ایسا ہو جائے تو اچھا ہے۔
یہ معصوم سی لڑکی رات کے پہلے پہر ہی تھیوڈور کے یہاں پہنچا دی گئی تھی، لڑکی کو اغوا نہیں کیا گیا تھا ،نہ اس پر جبر ہوا تھا ظاہر ہے کہ اس کے باپ کو اتنی رقم دی گئی ہو گی جو اس نے تصور میں بھی نہیں دیکھی ہوگی ۔ اس غریب باپ کو یہ خواب بھی دکھایا گیا ہوگا کہ جرنل تھیوڈور اس کی بیٹی کے ساتھ شادی کر لے گا اور اب تھیوڈور ہی مصر کا فرمانروا ہوگا۔
تھیوڈور کی عمر بڑھاپے میں داخل ہو چکی تھی، وہ سونے والے کمرے میں داخل ہوا تو لڑکی کو پلنگ پر سوتا ہوا دیکھا ، اس کی بیوی اور بیٹے بیٹیاں اپنے اپنے کمرے میں گہری نیند سوئے ہوئے تھے۔ تھیوڈور کو ایسا کوئی خدشہ نہیں تھا کہ اس کی بیوی کو پتہ چلا کہ اس کے پاس ایک لڑکی آئی ہوئی ہے تو وہ ہنگامہ برپا کردے گی۔ بیوی اپنے طور پر آزاد تھی۔ یہ اس معاشرے کا سب سے زیادہ اور اونچا طبقہ تھا جس میں شرم و حجاب کا کوئی عمل دخل نہیں تھا، اس وقت کے مرد کسی بھی عورت کو اپنے ساتھ گھر لے آنا اپنا حق سمجھتے تھے۔
لڑکی گہری نیند سوئی ہوئی تھی تھیوڈور کو وہ کچھ اور ہی زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی۔ شراب کے نشے نے تھیوڈور کو اپنے آپ میں رہنے ہی نہیں دیا تھا وہ کچھ دیر کھڑا گھومتا رہا اور لڑکی کو دیکھتا رہا ۔وہ تو اس کے لیے ایک کھلونا تھی جس طرح چاہتا اس کے ساتھ کھیل سکتا تھا۔ اس نے لڑکی کے ریشمی بالوں میں انگلیاں پھیر کر اسے جگایا۔
لڑکی گھبراکر جاگی اور اٹھ بیٹھی اس کے معصوم چہرے پر خوف کا تاثر آگیا لیکن تھیوڈور کے ہونٹوں پر کھلی ہوئی مسکراہٹ دیکھ کر خوف میں کمی آگئی۔ تھیوڈور اس کے پاس بیٹھ گیا اور ایسے پیارے انداز سے ایک دو باتیں اور کچھ حرکتیں کیں کہ لڑکی کو اس انداز میں اپنائیت سی محسوس ہونے لگی۔
مجھ سے یوں نہ ڈر لڑکی۔۔۔ تھیوڈور نے کہا۔۔۔ میرے دل نے تمہیں پسند کیا ہے ،میں تمہیں مصر کی ملکہ بناؤں گا ،کیوں تم مصر کی ملکہ بنو گی نا۔
لڑکی جواب دینے کی بجائے بچوں کی طرح ہنس پڑی وہ شاید محسوس نہ کر سکی کہ یہ شخص نشے میں ہے، اور صبح تک بھول چکا ہوگا کہ اس نے رات کیا کہا تھا۔
تھیوڈور اس پر وحشیوں کی طرح ٹوٹ پڑنے کی بجائے بڑے پیار سے اس کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتا رہا۔
چند ہی باتوں اور کچھ پیاری سی حرکتوں سے لڑکی تھیوڈور کے ساتھ بے تکلف ہو گئی۔ انہی باتوں میں عرب کے مسلمانوں کا ذکر آگیا تھیوڈور نے مسلمانوں کے خلاف نفرت کا اظہار کیا، لڑکی کے ماں باپ قبطی عیسائی تھے اور مذہب کے معاملے میں بڑے ہی جذباتی اور کٹر تھے، لڑکی کے خیالات پر بھی ان کا اثر تھا۔
میں ایک مسلمان جاسوس کو پکڑوا سکتی ہوں۔۔۔ لڑکی نے کہا۔۔۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتا ہے مجھے بھی وہ اچھا لگتا ہے میں جانتی ہوں کہ وہ عرب کے اس لشکر کا جاسوس ہے جس نے ہمارے شہر کو محاصرے میں لے رکھا ہے۔ لیکن میں اس کے خلاف زبان نہیں کھولنا چاہتی تھی کیونکہ اس نے میری جان بچائ تھی ۔
پھر اب کیوں زبان کھولی ہے؟،،،، تھیوڈور نے پوچھا۔
مجھے احساس ہے کہ میں اس کے ساتھ بے وفائی کر رہی ہوں۔۔۔ لڑکی نے کہا ۔۔۔لیکن آپ کی باتیں سن کر میں نے محسوس کیا ہے کہ اس کے ساتھ وفا کرتی ہوں تو یہ اپنے مذہب اور اپنے ملک کے ساتھ بےوفائ ہوگی جسے غداری بھی کہا جاسکتا ہے۔
لڑکی نے تھیوڈور کو بتایا کہ یہ مسلمان کب سے یہاں ہے، اور کہاں رہتا ہے ۔
شاباش!،،،،،، تھیوڈور نے کہا۔۔۔ محبت اور جذبات کی قربانی جان کی قربانی سے زیادہ بڑی ہے۔ میں تمہارے جذبے کی قدر کرتا ہوں اور تمہیں اس کا پورا صلہ ملے گا ۔
صبح یہ مسلمان جاسوس ہتھکڑیوں میں بندھا ہوا یہاں ہو گا ،اور تمہارے سامنے اس کا سر اس کے جسم سے الگ پھینک دیا جائے گا۔ لڑکی خواب و خیال میں مصر کی ملکہ بن گئی اور اپنے آپ کو تھیوڈور کے حوالے کردیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ مسلمان جاسوس کون تھا ؟
اس کا نام اسامہ بن اظہری تھا اس کی عمر چوبیس پچیس سال تھی، اس کا باپ عراق میں مثنیٰ بن حارثہ کے لشکر میں تھا جو کسریٰ ایران کی فوجوں کے خلاف لڑ رہا تھا، یہ مجاہد ایک معرکے میں شہید ہو گیا تھا، اسامہ بن اظہری کا ایک ہی بڑا بھائی تھا وہ شام کی جنگ میں ہرقل کی فوجوں کے خلاف لڑتا ہوا شہید ہوا تھا، پیچھے اسامہ رہ گیا تھا
ماں نے اسے اس لیے محاذ پر نہیں بھیجا تھا کہ وہ اکیلی رہ جاتی تھی، لیکن باپ کے بعد بڑا بھائی بھی شہید ہو گیا تو ماں نے اسامہ سے کہا کہ وہ اپنے بڑے بھائی کی جگہ چلا جائے اس طرح اسامہ رومیوں کے خلاف لڑنے والے لشکر میں شامل ہوا اور اس کی ماں بھی اس کے ساتھ چلی گئی۔
اسامہ بن اظہری کو سالاروں نے دیکھا کہ یہ تو ایک خاص قسم کی ذہانت کا مالک ہے تو انہوں نے اسے جاسوسی کی تربیت دی اسامہ بڑا خوبصورت نوجوان اور نہایت پر اثر انداز میں بات کرتا تھا، اور اس میں روپ بہروپ کا فن قدرتی طور پر موجود تھا اسے پہلی بار جاسوسی کے لئے بھیجا گیا تو وہ ایک رومی فوج کے افسر کا خدمت گار بن گیا ڈیڑھ ایک مہینے بعد واپس آیا تو نہایت قیمتی باتیں اپنے ساتھ لایا، آخر اسے اس لشکر میں بھیج دیا گیا جس کے سپہ سالار عمرو بن عاص تھے اور مصر پر فوج کشی کے لئے روانہ ہوئے تھے۔
مصر میں بھی اس نے جاسوسی کے میدان میں کچھ نمایاں کامیابیاں حاصل کیں جو سپہ سالار کے کام آئیں، اب وہ بابلیون کے اندر چلا گیا تھا ایک بار واپس آیا تو سپہ سالار کو بتایا کہ شہر کے اندر رومی فوج کی ذہنی اور جذباتی کیفیت کیا ہے، اور شہری کیا سوچ رہے ہیں، اس ضمن میں اس نے سپہ سالار کو بڑی ہی کارآمد باتیں بتائیں۔
وہ پھر کسی بہروپ میں بابلیون کے اندر چلا گیا اور ایک عیسائی تاجر کا قابل اعتماد نوکر بن گیا وہ عیسائیوں کے بہروپ میں گیا تھا اسے واپس آنا تھا لیکن مجاہدین کے لشکر نے بابلیون کو محاصرے میں لے لیا اس صورتحال میں اس کا واپس آنا بہت ہی مشکل تھا، اس نے یہ بھی سوچا کہ واپس نہ ہی جائے تو اچھا ہے، شہر کے اندر رہے اور اپنے لشکر کی مدد کا سامان پیدا کرلے اس نے تو یہاں تک سوچ لیا تھا کہ جب مجاہدین کا لشکر قلعے پر یلغار کرے گا تو وہ اپنی جان کی بازی لگا کر شہر کا کوئی نہ کوئی دروازہ کھولنے کی کوشش کرے گا۔
یہ تھا وہ مسلمان جاسوس جس کی نشاندہی یہ لڑکی تھیوڈور کے آگے کر رہی تھی لڑکی نے کہا تھا کہ اس مسلمان کو اس کے ساتھ محبت ہے اور وہ خود بھی اسے چاہتی ہے۔ یہ محبت ایک واقعہ سے شروع ہوتی تھی جو اس لڑکی کے لئے اور اس کے ماں باپ کے لئے ایک حادثہ بن چلا تھا۔ یہ واقعہ یوں ہوا کہ ایک بڑی بادبانی کشتی بابلیون سے سامنے والے جزیرے تک جا رہی تھی جہاں قلعہ روضہ تھا ۔ اسامہ کو اس تاجر نے جزیرے میں جانے کو کہا تھا جس کا وہ ملازم تھا اس تاجر کو وہاں کوئی کام تھا۔
چونکہ اس طرف دریائے نیل تھا اس لئے شہر کا وہ پہلو محاصرے سے محفوظ تھا جزیرے اور بابلیون کے درمیان دریائی آمدورفت لگی رہتی تھی، کشتی بہت بڑی تھی جس میں بہت سے مسافر جا رہے تھے سامان بھی تھا اور چند ایک گھوڑے بھی تھے یہ تین ساڑھے تین مہینے پہلے کا واقعہ تھا جب نیل میں طغیانی آئی ہوئی تھی طغیانی کا زیادہ جوش و خروش دریا کے وسط میں تھا کشتی وسط میں پہنچی تو ملاح دیکھ نہ سکے کہ طغیانی بڑھ گئی ہے اور لہریں کچھ زیادہ ہی اوپر نیچے ہو رہی ہیں ،کشتی جب اس مقام تک پہنچی تو لہروں نے اسے اٹھا اٹھا کر گرانا شروع کردیا اور ایک بار کشتی کا رخ بدل گیا اور تیز ہوا نے بادبانوں کو ملاحوں کے قابو سے نکال دیا۔
کشتی ایک پہلو سے اس قدر جھک گئی کہ یوں لگتا تھا جیسے دریا کشتی کے اندر آجائے گا ،ایک نوخیز لڑکی جو اس طرف کھڑی تھی اپنا توازن قائم نہ رکھ سکی اور دریا میں جا پڑی، اسے اب ڈوبنا ہی تھا بچنے کی کوئی صورت نہیں تھی، لڑکی کا باپ بھی اس کے ساتھ تھا لیکن وہ رونے چلانے اور لوگوں کی منت سماجت کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔
اسامہ کی فطرت میں خطرہ مول لینے والا عنصر موجود تھا اور اس کے ساتھ انسانی ہمدردی کا جذبہ بھی تھا۔ اس نے اور کچھ بھی نہ سوچا اور دریا میں لڑکی کے پیچھے کود گیا ۔ لڑکی کو موجیں اٹھا اٹھا کر پٹخ رہی تھی اور اپنے ساتھ لے جا رہی تھی، اسامہ جوان تھا جس میں طاقت تھی اور زیادہ طاقت تو اس جذبے میں تھی جو ہمدردی کا جذبہ تھا ،وہ پوری طاقت صرف کرتا کرتا تیرتا چلا گیا ،اسے تو طغیانی بھی آگے کو دھکیل رہی تھی۔
ملاحوں نے کشتی نہ روکی اس کے بادبانوں کو قابو میں رکھا اور کشتی کو دریا کے وسط سے نکال کر لے گئے ۔اسامہ لڑکی تک پہنچ گیا اور اسے اٹھا کر اپنی پیٹھ پر ڈال لیا اب بڑا ہی خطرناک مرحلہ شروع ہوا یہ تیرنا تھا تو یعنی کے جوش و خروش میں سے نکلنا۔ بہت دور جا کر وہ موجوں کی لپیٹ سے نکلا اور سامنے والے کنارے تک چلا گیا ۔
وہ کچھ ہی دیر اور تیر سکتا تھا ،اس کے بازو اکھڑنے لگے تھے۔
یہ اسامہ کی اور لڑکی کی خوش قسمتی تھی کہ کنارہ آ گیا اور اسامہ لڑکی کو نیل کے منہ سے نکال کر لے گیا۔
کناروں کے ساتھ ساتھ چھوٹی کشتیاں چلتی رہتی تھیں، ان میں سے ایک میں اسامہ لڑکی کو جزیرے میں لے گیا لڑکی کا باپ مل گیا اس نے یہ صورت قبول کر لی تھی کہ اس کی بیٹی ڈوب کر مر چکی ہے ۔اس نے اسامہ کو گلے لگایا اور اسے کہا کہ وہ بابلیون میں اس کے گھر آئے، اسامہ نے اپنے تاجر کا کام بھی کر لیا اور لڑکی اور اس کے باپ کے ساتھ واپس بابلیون آگیا۔
وہ پہلی بار لڑکی کے گھر گیا تو ان لوگوں نے اسے سر آنکھوں پر بٹھایا، لڑکی تو اس پر مری جا رہی تھی۔ اس نے لڑکی کو یقینی موت کے منہ سے چھینا تھا ،اسامہ آخر جوان سال اور غیر شادی شدہ تھا اس کے دل میں لڑکی کی ایسی محبت پیدا ہوگئی جو انسان کو مجبور اور بے بس کر دیا کرتی ہے۔ اور اسے اس کے راستے سے بھی ہٹا لیتی ہے۔ یہاں سے ان کی ملاقاتیں شروع ہوگئیں۔
اسامہ کو تاجر نے ایک چھوٹا سا الگ مکان دے رکھا تھا لڑکی اس کے پاس وہاں پہنچ جاتی تھی ،ایک روز جذبات کا ایسا غلبہ ہوا کہ اسامہ نے لڑکی سے کہا کہ وہ اسے اپنے ساتھ عرب لے جائے گا ۔
لڑکی نے حیرت زدگی کے عالم میں پوچھا کہ وہ عرب کیوں جائے گا؟ اسامہ نے تو اسے بتایا تھا کہ وہ عیسائی ھے۔
اسامہ پچھتانے لگا کے اس کے منہ سے ایسی بات نکل گئی ہے کہ اس کا پردہ اٹھ گیا ہے اس نے ادھر ادھر کی باتیں بنائیں کہ وہ اپنی اصلیت پر پردہ ڈال لے لیکن لڑکی کو شک نہیں بلکہ یقین ہو گیا تھا کہ اسامہ دراصل کچھ اور ہے، اسامہ اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہوسکا لڑکی کا حسن اور اس کی عمر ایسی تھی اور پھر لڑکی نے باتیں بھی کچھ ایسی کیں کہ اسامہ کو اپنا راز فاش کرنا پڑا۔ دونوں کی محبت ایسی تھی کہ اسامہ کو ایسی توقع تھی ہی نہیں کہ لڑکی اسے دھوکا دے گی ۔
لڑکی نے اسے قسم کھا کر کہا کہ وہ اس کے راز کو اپنے سینے میں دفن کر لے گی اسامہ نے کھل کر بات کر دی اور لڑکی نے اس کے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ مسلمان ہو جائے گی اور اس کے ساتھ عرب بھی چلی جائے گی۔ وہ تو اس کی بہت ہی ممنون تھی اس کے دل پر دریا کا ایسا خوف بیٹھ گیا تھا کہ بہتے پانی کو دیکھ کر ہی ڈر جاتی تھی۔ اسامہ کو وہ اپنا محافظ سمجھتی تھی۔
اسامہ کو لڑکی پر بھروسہ تو تھا لیکن اسے یہ احساس پریشان کرتا ہی رہتا تھا کہ اس نے اپنے آپ کو بے نقاب کردیا ہے۔ لڑکی کو اپنے قابو میں رکھنے کے لیے اسامہ نے یوں بھی کیا کہ اس کے دل میں رومیوں کی نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی اسے بتایا کہ ہرقل اور قیرس نے کس طرح قبطی عیسائیوں کا قتل عام کیا ہے۔ وہ لڑکی سے یہ بھی کہتا تھا کہ رومیوں کی بادشاہی مصر میں قائم رہی تو یہاں کسی قبطی عیسائی کو زندہ نہیں رہنے دیں گے۔ اگر مسلمانوں کو فتح حاصل ہو گئی تو ہر کوئی اپنے مذہبی امور میں آزاد ہوگا ۔
لڑکی کو رومیوں کا قبطی عیسائیوں پر ظلم و تشدد اچھی طرح معلوم تھا لیکن وہ کمسن اور نادان لڑکی تھی، جرنل تھیوڈور نے اس کی معصومیت کے ساتھ کھیلنے کے لئے کہہ دیا کہ وہ اسے مصر کی ملکہ بن آئے گا، تو وہ اس کی باتوں میں آ گئی اور جب تھیوڈور نے مصر کی اور مسلمانوں کی باتیں کیں اور پھر لڑکی کو اور زیادہ بھڑکا دیا تو لڑکی نے نادانی میں آکر اسامہ کا پردہ چاک کردیا۔
اسامہ اپنے گھر میں اکیلا گہری نیند سویا ہوا تھا اسے معلوم نہیں تھا کہ یہ رات اس کی زندگی کی آخری رات ہے، اس سے جذبات میں آکر جو غلطی ہوئی تھی اس کی سزا تھیوڈور نے لڑکی کو سنا دی تھی,,,,, سزائے موت,,,,,,,یہ سزا تو دراصل اسامہ کی ماں کو بھگتنی تھی، اس کا خاوند بھی شہید ہوگیا تھا، بڑا بیٹا بھی شہید ہوگیا ،اور اب چھوٹا بیٹا رات گزرتے ہی تھیوڈور کے جلاد کے ہاتھوں قتل ہونے والا تھا۔ پیچھے ماں کو سزا بھگتنے کے لیے اکیلے رہ جانا تھا ۔
ماں یہاں بھی اسکے ساتھ تھی اور سپہ سالار عمرو بن عاص کے کہنے پر دوسری عورتوں کے ساتھ نفل پڑھ رہی تھی اور مجاہدین کی فتح کی دعائیں مانگ رہی تھی اسے یہ تو معلوم ہی نہیں تھا کہ اس کا بیٹا شہر کے اندر پھندے میں آ چکا ہے اور اب وہ اپنے بیٹے کو کبھی بھی نہیں دیکھ سکے گی۔
یہ تھی وہ رات اور یہ تھا وہ وقت جب یہ لڑکی تھیوڈور کو بتا رہی تھی کہ وہ ایک مسلمان جاسوس کو پکڑوا سکتی ہے، اور تھیوڈور نے اس سے کہا تھا کہ اس جاسوس کو اس کے سامنے قتل کروایا جائے گا ،بالکل اس وقت مجاہدین اپنے سالار زبیر بن العوام کی قیادت میں ان کی ہدایت کے مطابق خندق کی روکاوٹوں پر درخت ڈال کر خندق عبور کر رہے تھے۔
قلعوں کی دیواروں پر چڑھنے کے لئے ایک تو کمند پھینکی جاتی تھی اور اگر دیواری کمزور ہوتی تو ان میں شگاف ڈال لیا جاتا تھا ،ایک طریقہ سیڑھیوں کے ذریعے اوپر چڑھنے کا بھی تھا بابلیون کی دیواریں بہت ہی مضبوط عام دیواروں کی نسبت زیادہ چوڑی اور اونچی بھی خاصی زیادہ تھی، اس بلندی کو دیکھتے ہوئے ہی مجاہدین نے دو سیڑھیاں باندھ لی تھیں تاکہ یہ دیوار کے اوپر تک پہنچ جائیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
پہلے بیان ہوچکا ہے کہ قلعے کے محاصرے کو آٹھ مہینے گزر گئے تھے عمرو بن عاص کبھی بھی محاصرے کو طول دینے کے حق میں نہیں ہوئے تھے، کچھ دن محاصرہ کر کے قلعے پر یلغار کر دیا کرتے تھے۔ بابلیون کی بات دوسرے قلعوں کے مقابلے میں بالکل ہی مختلف تھی ، اندر کی رومی فوج کو ہی نہیں بلکہ فوج کے جرنیلوں کو بھی یقین ہو گیا تھا کہ مسلمان خندق عبور نہیں کر سکیں گے ،وہ کہتے تھے کہ خندق عبور کرنی ہوتی تو یہ عربی مسلمان ایک دن کی بھی دیر نہ لگاتے کسی نہ کسی طور خندق عبور کرلیتے۔
رومی بجا طور پر مطمئن تھے، خندق بہت چوڑی تھی اور رومیوں نے اسے جن خاردار تاروں اور نوکیلی سلاخوں سے بھر دیا تھا انہیں عبور کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں تھی، اور نہ کوئی ذریعہ تھا کہ اسے عبور کیا جا سکتا ۔
اس یقین نے رومی جرنیلوں کو اور ان کی فوج کو اتنا مطمئن کردیا تھا کہ رات کو رومی پوری طرح بیدار رہتے ہی نہیں تھے، اور دیوار پر پہرے کی خاصی کمی ہو گئی تھی، گشتی سنتری رسمی طور پر دو چار مرتبہ اوپر چکر لگاتے تھے، اس فوج کے سپریم کمانڈر جنرل تھیوڈور پر بھی بے نیازی اور بے پرواہی کا موڈ طاری رہنے لگا تھا۔
تھیوڈور تو مکمل طور پر مطمئن تھا کہ مصر کے اندر سے ہی اس کی کمک آرہی ہے اور وہ مسلمانوں کے لشکر پر عقب سے حملہ کرے گا اس نے اپنے اعلی افسروں کو بتا ہی نہیں دیا بلکہ یقین دلادیا تھا کہ بابلیون کے باہر خندق سے کچھ دور کی زمین مسلمانوں کے لشکر کا قبرستان بنے گی۔
رات آدھی سے کچھ زیادہ گزری تھی جب سالار زبیر بن العوام نے سب سے پہلے درختوں کے تنوں پر قدم رکھا اور شاخیں پکڑ پکڑ کر اور سنبھل سنبھل کر آگے بڑھے اور خندق عبور کر لی، وہ پھر واپس آئے اور خندق سے کچھ دور جا کر مجاہدین کو اپنے پاس بلایا۔
میرے رفیقو!،،،،، سالار زبیر نے کہا۔۔۔ مجھے پار جاتے اور واپس آتے دیکھ کر یہ نہ سمجھ لینا کہ یہ کوئی آسان کام ہے تم نے دیکھا ہے کہ یہ ٹہن تاروں کے گچھے اور نوکیلی سالاخوں پر رکھے گئے ہیں، ان پر جب جسم کا بوجھ پڑتا ہے تو قدم آگے رکھنے سے یہ ٹہن دائیں بائیں ہلتے ہیں، اور کچھ نیچے کو بھی ہو جاتے ہیں، شاخوں کا سہارا لینا پڑتا ہے لیکن یاد رکھو کہ کوئی کمزور شاخ ہاتھ میں آ گئی تو وہ ٹوٹ بھی سکتی ہے، اور ٹہنیوں کے ہلنے سے اپنا توازن بگڑ بھی سکتا ہے، اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ کوئی گر پڑا تو نوکدار سلاخیں اس کے جسم میں اتر جائیں گی، پھر خندق سے اس کی لاش ہی نکلے گی ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم قدم آگے بڑھائیں ہی نہیں فتح اور کامیابی صرف اسے عطا ہوتی ہے جو دماغ کو حاضر رکھ کر خطرہ مول لیا کرتے ہیں، مت بھولو کہ اللہ تعالی تمہارے ساتھ ہے، اللہ کے اس وعدے کو بھی یاد رکھو کہ تم میری مدد کرو میں تمہاری مدد کروں گا,,,,,,,
ان مجاہدین کو جو سیڑھیاں پار لے جائینگے اور ہی زیادہ احتیاط سے ٹہنوں پر چلنا ہوگا ،ہم جب خندق کے پارچلے جائیں گے تو ایک اور خطرہ موجود ہوگا ہوسکتا ہے میدان صاف ہی ہو لیکن ہمیں یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ یہ خطرہ بھی موجود ہوگا، یہ خطرہ ان گھنے درختوں میں ہوسکتا ہے جو خندق سے قلعے تک کھڑے ہیں، ممکن ہے ان درختوں میں رات کے وقت کچھ رومی چھپے رہتے ہوں، رات بھی تاریک ہے اگر رومی ان درختوں میں ہوئے تو نیچے سے گزرنے والوں کو تیروں سے ختم کردیں گے، بہرحال کسی درخت سے ایک بھی تیر آیا تو ہم جوابی کارروائی کرکے یہ خطرہ ختم کر ڈالیں گے لیکن ذہن میں رکھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔
ان ہدایات کے بعد سالار زبیربن العوام نے چند ایک مجاہدین کو الگ کرکے کہا کہ چار چار یا پانچ پانچ آدمی ایک ایک سیڑھی اٹھائیں اور خندق عبور کریں، مجاہدین نے فوراً اس حکم کی تعمیل کی اور تین سیڑھیاں اٹھا کر خندق کی طرف چلے ،سالار زبیر بن العوام ان کے آگے آگے خندق عبور کرنے لگے۔ نہایت احتیاط سے ٹہنوں پر قدم رکھتے آہستہ آہستہ بڑھتے گئے اور اللہ نے انہیں پار پہنچا دیا پار جا کر رکے اور زبیربن العوم نے دو مجاہدین کو آگے بھیجا ان کا مقصد یہ تھا کہ درختوں میں اگر رومی فوجی موجود ہوئے تو وہ ان دونوں کو پکڑنے کی کوشش کریں گے یا اوپر سے تیر چلائیں گے، اس خطرے کی نشاندہی کے لیے ان دو مجاہدین کی قربانی پیش کردی گئی تھی۔
دونوں مجاہدین تاریکی میں گم ہوگئے اور کچھ دیر درختوں کے نیچے نیچے گھوم پھر کر بخیروعافیت واپس آگئے، انہیں یقین ہو گیا کہ راستہ صاف ہے ،اب پھلوں کے باغات کے یہ درخت مجاہدین کے محافظ بن گئے یہ نہایت اچھی آڑ مہیا کرتے تھے۔
جس سے دیوار پر کھڑے کسی رومی کو نظر نہیں آ سکتا تھے کہ کوئی دیوار کے قریب آ رہا ہے رات تاریک تھی لیکن انسان سائے کی طرح نظر آسکتا تھا۔
سیڑھیاں خندق کے اگلے کنارے کے قریب رکھوا کر زبیر بن العوام نے اپنے جانباز دستے کو اشارہ کیا کہ اب وہ آگے آجائیں، اشارہ ملتے ہی پورا دستہ ایک دوسرے کے پیچھے خندق عبور کر گیا، سالار زبیر نے ان میں سے چند ایک جانبازوں کو الگ کرکے کہا کہ وہ سیڑھیاں اٹھالیں اور قلعے کی دیوار تک پہنچ جائیں۔ باقی دستے کو وہیں رکے رہنے کو کہا اور پہلے دی ہوئی ایک ہدایت کو دہرایا۔
ایک بار پھر سن لو ۔۔۔زبیر بن العوام نے کہا۔۔۔ ہم جب اوپر جائیں گے تو ایک بار نعرہ تکبیر بلند ہوگا اس نعرے پر جو مجاہدین میرے ساتھ جا رہے ہیں اوپر چڑھیں گے ،پھر سب مل کر اللہ اکبر کا نعرہ لگائیں گے اور تم سب یعنی سارا دستہ دوڑ کر سیڑھیاں چڑھے گا اور اوپر آجائے گا۔
خندق عبور کرنے سے پہلے زبیر بن العوام نے سپہ سالار عمرو بن عاص کو بھی ان نعروں کے متعلق بتا دیا تھا ۔انہوں نے کہا تھا کہ جب تیسری بار نعرہ تکبیر بلند ہو گا تو پھر باقی دستے اوپر آئیں گے اور یہ دستے مزید سیڑھیاں اپنے ساتھ لائیں گے تاکہ دیوار پر چڑھنے میں زیادہ وقت نہ لگے پھر یہ طے ہوا تھا کہ یہ دستے اگر نیچے جانے میں کامیاب ہوگئے تو قلعے کے دو تین دروازے کھولنے کی کوشش کی جائے گی اور باقی لشکر ان دروازوں سے اندر آئے گا۔
یہ نعرے بجائے خود ایک خطرہ تھا۔ پہلے ہی نعرے پر رومی فوجی بیدار ہو کر اوپر آ سکتے تھے ۔
اس وقت چند ایک جانبازوں کو اوپر ہونا تھا جن پر زیادہ تعداد میں رومی ٹوٹ پڑتے تو انہیں کاٹ کر دیوار سے پھینک دیتے، لیکن خطرہ مول لینے کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
تین سیڑھیاں قریب قریب دیوار کے ساتھ لگ گئیں، ان کی لمبائی دیوار کی بلندی تک تھی۔ خاموشی قائم رکھنی تھی جو سیڑھیاں لگاتے قائم نہ رہ سکی ۔سیڑھیوں کی آواز پیدا ہوئی لیکن اوپر کوئی حرکت نہ دیکھی گئی۔
سالار زبیر بن العوام نے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر اللہ تبارک وتعالی سے مدد مانگی اور پھر آپ نے وہ الفاظ دہرائے جو انہوں نے کہے تھے کہ اللہ میری قربانی کو مجاہدین اسلام کی فتح کا سبب بنائے ۔ اس دعا کے بعد انہوں نے سیڑھی پر قدم رکھا اور جن مجاہدین کو انہوں نے اپنے ساتھ لے جانا تھا انھیں سیڑھیاں چڑھنے کا اشارہ دیا سب سے پہلے زبیر دیوار پر پہنچے اور ادھر ادھر دیکھا کوئی حرکت نظر نہ آئی مجاہدین سیڑھیاں چڑھتے آئے اور سالار زبیر کے دائیں بائیں کھڑے ہوگئے ۔
انہوں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اب تو ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا جاسکتا تھا پہلے تو یہ دیکھنا تھا کہ اس نعرے پر رومی بیدار ہوتے ہیں یا نہیں؟
رومی فوج کوئی ایسے غافل بھی تو نہیں تھے کہ رات کی خاموشی میں اتنے بلند نعرے سے بھی بیدار نہ ہوتے۔ دیوار پر جن فوجیوں کا پہرا تھا وہ برجیوں میں سوئے ہوئے تھے۔ باری باری جاگتے اور تھوڑا سا چکر لگا کر واپس چلے جاتے تھے۔ اتنا بلند نعرہ انہیں جگانے کے لیے کافی تھا ۔ وہ برچھیاں اور تلواریں لیے دوڑے، دیوار خاصی چوڑی تھی لڑنے اور پینترے بدلنے کے لئے کافی تھی۔
رومی فوجی قریب آئے تو مجاہدین نے انھیں آڑے ہاتھوں لیا، رومی فوجیوں کی کمزوری یہ تھی کہ وہ یہی دیکھ کر خوفزدہ ہوگئے تھے کہ یہ مسلمان اتنی اونچی دیوار پر کس طرح چڑھ آئے ہیں ، دوسرا یہ کہ ان مسلمانوں کی تعداد یقیناً زیادہ ہوگی ، انہیں معلوم نہیں تھا کہ یہی چند ایک مجاہدین ہیں جو اوپر آئے ہیں۔ اور ان کی اصل طاقت یہ ہے کہ یہ جانوں کی بازی لگاکر اور شہادت کو قبول کرکے آئے ہیں۔
پھر بھی یہ رومی بےجگری سے لڑے ، جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ پہرے پر تھے اور یہ ان کی ذمہ داری تھی کہ نظر رکھیں کہ دیوار پر کوئی چڑھ نہ سکے اگر وہ مقابلے سے منہ موڑ کر بھاگ جاتے تو انہیں اس جرم میں جلاد کے حوالے کردیا جاتا کہ اپنے فرائض اور ذمہ داری کو بھول کر سوئے ہوئے تھے انہوں نے لڑ کر مرنا بہتر سمجھا۔
یہ ایک خونریز معرکہ تھا مجاہدین جان توڑ کر لڑ رہے تھے اور انہوں نے تمام رومیوں کو کاٹ پھینکا۔ نیچے سالار زبیر کا باقی دستہ نعرہ سن کر پہنچ گیا اور تمام جاں باز سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔
ادھر سپہ سالار عمرو بن عاص نے حکم دے دیا کہ تمام سیڑھیاں خندق کے پار پہنچائی جائیں اور تین چار اور دستے خندق پار کرجائیں ۔
عمرو بن عاص نعروں کے ہی انتظار میں بےتاب ہوئے جا رہے تھے۔ انہوں نے تیسرے نعرے کا انتظار نہ کیا مزید سیڑھیاں اور دوچار دستے آگے بھیج دیے۔ دیوار کے ساتھ کئی سیڑھیاں لگ گئی۔ یہ سب سیڑھیاں دو دو کی صورت میں بندھی ہوئی تھی ۔خاموشی کی ضرورت بھی نہیں تھی مجاہدین بڑی تیزی سے سیڑھیاں چڑھتے جا رہے تھے اور اس وقت سالار زبیر کے حکم سے تیسرا نعرہ تکبیر بلند کیا گیا۔
ان گرجدار اللہ اکبر کے پرجوش نعروں نے قبروں میں مردوں کو بھی جگا دیا ہو گا۔ نیچے شہر کے اندر سوئی ہوئی رومی فوج تو ہڑبڑا کر جاگ اٹھی ، جنرل تھیوڈور اس نوخیز اور معصوم لڑکی کو پہلو میں لیے گہری نیند سویا ہوا تھا، اسے کچھ خبر نہیں تھی کہ باہر کیا قیامت ٹوٹ پڑی ہے، اس کے دروازے پر دو تین بار دستک ہوئی تو اس کی آنکھ کھلی تو اس نے لیٹے لیٹے بڑے غصے سے پوچھا کہ یہ کون دروازہ توڑ رہا ہے، اور کیا مصیبت آن پڑی ہے، لڑکی بھی بیدار ہو کر اٹھ بیٹھی۔ عربی لشکر دیوار پر آگیا ہے۔۔۔ باہر سے آواز آئی۔۔۔ اوپر بڑی سخت لڑائی ہو رہی ہے۔
وہ تھیوڈور کے محافظ دستے کا کمانڈر تھا تھیوڈور غصے میں کچھ نہ کچھ بولتا باہر نکلا اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ بیداری میں یہ خبر سن رہا ہے، شاید اسے وہ خواب سمجھ رہا تھا اسے تو یقین تھا کہ دیوار تو دور ہے کوئی انسان خندق ہی عبور نہیں کر سکتا۔
محافظ دستوں کے کمانڈر نے اسے پوری طرح صورت حال سنائی، تھیوڈور کو کچھ آوازیں سنائی دے رہی تھی وہ اپنے محل نما مکان سے باہر نکلا تو اسے قیامت کا شوروغل سنائی دیا، اس کا اپنا پورا خاندان پہلے ہی جاگ اٹھا تھا، تھیوڈور دوڑتا کمرے میں گیا اور لڑائی والا لباس پہنا اس کے اوپر زرّہ اور سر پر آہنی خود رکھ کر تلوار اٹھائی اور لڑکی کی طرف دیکھے بغیر باہر نکل گیا ۔
دوسرے جرنیل بھی بیدار ہوگئے تھے اور باقی افسر پہلے ہی شور شرابہ سن کر اٹھے اور اپنے اپنے دستوں تک جا پہنچے تھے، لیکن دیوار پر اب یہ صورتحال تھی کہ وہاں مجاہدین کو بالادستی حاصل تھی، یوں کہہ لیں کہ دیوار پر مجاہدین کا قبضہ تھا اندر سے دیوار پر چڑھنے کے لیے چند ایک جگہوں پر پکی سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں، مجاہدین اوپر ان سیڑھیوں کے دائیں بائیں گھات لگا کر بیٹھ گئے تھے جونہی رومی فوج اوپر آتے مجاہدین انہیں کاٹ پھینکتے، اوپر برجیوں اور برجوں میں جو فوجی سوئے ہوئے تھے انہیں تو مقابلے کی مہلت ہی نہ ملی پوری طرح بیدار بھی نہیں ہوئے تھے کہ مجاہدین کی پرچھیوں اور تلواروں کی نذر ہوگئے۔
ان میں سے چند ایک گھبراہٹ کے عالم میں یہ خبر سناتے گئے کہ مسلمانوں کا پورا لشکر دیوار پر آ گیا ہے، اور نیچے آکر کسی کو زندہ نہیں چھوڑے گا ،اس طرح انہوں نے سارے شہر میں افراتفری اور نفسا نفسی کا عالم پیدا کر دیا۔
اندر سے اوپر جانے والی سیڑھیوں کا یہ حال تھا کہ رومی فوجیوں کی لاشوں سے اٹ گئی تھیں۔ نہ کوئی اوپر جا سکتا اور نہ اوپر سے کوئی نیچے آ سکتا تھا ،نیچے مشعلیں جل اٹھی ان کی روشنی میں جب فوجیوں اور شہریوں نے دیکھا کہ سیڑھیوں سے خون نیچے بہتا رہا ہے تو ان کے حوصلے بالکل ہی پست ہو گئے اور ان پر دہشت طاری ہو گئی۔
مجاہدین اسلام ایک معجزہ کر کے تاریخ کے دامن میں ڈال رہے تھے، غیر مسلم مؤرخوں نے بھی ان مجاہدین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ ناممکن کو ممکن کر کے دکھا رہے تھے۔
یہ سالار زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کی دعا تھی جو اللہ نے قبول کی اور پوری ہوئی تھی، انہوں نے اللہ سے گڑگڑا گڑگڑا کر دعا کی تھی کہ میری قربانی مجاہدین اسلام کی فتح کا سبب بنے، یہ ان خواتین کی دعاؤں کا بھی اثر تھا جو وہ خندق سے کچھ دور نفل پڑھ پڑھ کر اللہ کے حضور دعا مانگ رہی تھیں۔
ان خواتین میں اسامہ بن اظہری کی ماں بھی تھی جو صرف اپنے بیٹے کی زندگی کی ہی دعا نہیں مانگ رہی تھی بلکہ اس کی زبان پر یہی ایک التجا تھی کہ اللہ اپنے جانبازوں کو فتح عطا کر، لیکن اسے اپنا بیٹا یاد آتا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے تھے، اس نے صرف ایک بار کہا یا اللہ میرا ایک ہی بیٹا رہ گیا ہے وہ بھی تیرے نام پر قربانی کے لئے پیش کر دیا ہے میں اکیلی رہ گئی ہوں۔
یہ دعائیں بھی بے اثر نہیں جا رہی تھیں۔
اسامہ بھی جاگ اٹھا تھا اور باہر نکل آیا تھا اس نے لوگوں سے سنا کے مجاہدین دیوار پر آگئے ہیں اور اب کوئی رومی فوجی اوپر نہیں جا سکتا، نیچے جب مشعلیں جلیں تو اوپر دیوار پر مجاہدین نے بھی مشعلیں جلا لیں اس سے نیچے کے لوگوں پر اور زیادہ دہشت طاری ہو گئی۔
اسامہ کو تو معلوم ہی نہیں تھا کہ تھیوڈور کے فیصلے کے مطابق یہ اس کی زندگی کی آخری رات ہے، لیکن اللہ کے فیصلے نے زمین پر رہنے والوں کے تمام فیصلے رد کر دیے تھے ،اسامہ کی ماں کے سینے سے نکلی ہوئی یہ فریاد کہ میں اکیلی رہ جاؤں گی اللہ نے سن لی تھی۔
وہ تھیوڈور جس نے اسامہ کی سزائے موت کا فیصلہ سنا دیا تھا شہر کے اندر بھٹکتا پھر رہا تھا ،اپنی فوج پر اس کی کمانڈ ختم ہو چکی تھی وہ اپنے جرنیلوں اور دیگر افسروں کو ڈھونڈتا اور پکارتا پھر رہا تھا ، لیکن اس کے اپنے ہی فوجی اور شہری بھاگتے دوڑتے اس کے ساتھ ٹکراتے گزرتے جا رہے تھے ،کسی نے دیکھا تک نہیں کہ یہ فوج کا سپریم کمانڈر اور مقوقس کی جگہ اس کی حیثیت فرمانروائے مصر جیسی ہے۔
اسامہ اوپر جاکر اپنے لشکر سے جا ملنا چاہتا تھا لیکن جن سیڑھیوں سے چڑھنے لگتا انہیں لاشوں سے اٹا ہوا دیکھا اوپر جانا ممکن نہیں تھا ،آخر وہ ایک سیڑھی سے لاشوں کے اوپر چلتا گرتا اٹھتا اوپر چلا ہی گیا دو تین مجاہد تلوار اٹھائے اس کی طرف لپکے تو اس نے ہاتھ اوپر کر کے کہا کہ میں تمہارا ہی آدمی ہوں اسامہ بن اظہری ، وہ اب آزاد تھا وہ سپہ سالار کو ڈھونڈنے لگا اسے اب اس بڑے شہر کا گائیڈ بننا تھا ، اس نے معلوم کر لیا تھا کہ اسلحہ خانہ کہاں ہے، خزانہ کہاں ہے ،اور اسی طرح کچھ اہم اور ڈھکی چھپی جگہیں تھی جو اس نے دیکھ لی تھی، وہ یہ ساری جگہیں سپہ سالار عمرو بن عاص کو بتانا اور ان کی رہنمائی کرنا چاہتا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اب دیوار کے چاروں طرف مجاہدین کافاتحانہ شوروغل اور تکبیر کے نعرے بڑھتے اور بلند سے بلند تر ہوتے جارہے تھے، تمام مورخوں نے لکھا ہے کہ رومی فوج کا دم خم بڑی ہی تیزی سے ٹوٹ پھوٹ رہا تھا ، یہ تو ہونا ہی تھا فوج اور شہر کے لوگوں پر جس وجہ سے زیادہ دہشت طاری ہوئی وہ یہ تھی کہ جرنیلوں تک نے انہیں یقین دلایا تھا کہ اب مسلمان تو کیا دنیا کی کوئی طاقت خندق عبور نہیں کر سکتی، رومی فوجی اور شہری حیرت زدہ تھے کہ مسلمان آخر کس طرف سے آئے ہیں۔
مجاہدین اسلام کے متعلق رومی فوج میں یہاں تک کہا سنا جارہا تھا کہ انھیں جنات کی طاقت حاصل ہے یا جنات ان کے ساتھ رہتے ہیں۔
یہ تاثر مجاہدین کی پہلی فتوحات سے پیدا ہوا تھا اب بابلیون میں لوگ اسے سچ ماننے لگے اور ان میں جو سب سے زیادہ خوفزدہ تھے انہوں نے یقین کے ساتھ کہنا شروع کردیا تھا کہ مسلمانوں کو جنات کی مدد حاصل ہے ان کے مقابلے میں کوئی نہ آئے۔
کئی فوجی قلعے کے دریا والے دروازے کی طرف چلے گئے، وہ اس دروازے سے بھاگ نکلنا چاہتے تھے انہیں امید تھی کہ کشتیاں تیار ہوں گی اور وہ انہیں دریا کے وسط والے جزیرے تک پہنچا دیں گی، لیکن وہ دروازہ کھولا نہیں جارہا تھا وہاں جو رومی فوج پہرے پر موجود تھے وہ کہتے تھے کہ یہ دروازہ کھلا تو مسلمان اس طرف سے اندر آ جائیں گے۔
ایک روایت یہ ہے کہ زبیر بن العوام چند ایک مجاہدین کے ساتھ نیچے چلے گئے اور قلعے کے دو تین دروازے کھول دیے لیکن یہ روایت صحیح معلوم نہیں ہوتی کیونکہ معروف اور مستند تاریخ نویس طبری نے کچھ قابل اعتماد حوالے دے کر اور کچھ استدلال کا سہارا لے کر لکھا ہے کہ جرنیلوں نے اپنی فوج کی افراتفری شہریوں کی نفسانفسی دیکھی اور پھر یہ دیکھا کہ مسلمانوں کا پورا لشکر دیوار پر آ گیا ہے اور رومی فوج دیوار پر جا ہی نہیں سکتی اور بھاگنے کے راستے دیکھ رہی ہے تو جرنیلوں نے اعلان کروایا کہ جو کوئی دروازہ کھولنے کی کوشش کرے گا اسے قتل کردیا جائے گا۔
طبری نے یہ بھی لکھا ہے کہ جنرل تھیوڈور کے حکم سے نیچے سے اعلان کیا گیا کہ وہ مقابلہ نہیں کریں گے اور صلح کی بات کرنا چاہتے ہیں۔
ڈر کے مارے کوئی قاصد اوپر نہیں جا رہا تھا۔ طبری کی تحریر سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ سپہ سالار عمرو بن عاص بھی دیوار پر آگئے تھے انہوں نے تھیوڈور کا اعلان سنا تو اس کے جواب میں اعلان کردیا کہ جرنیل اوپر آ جائیں اور بات کریں۔
ہم یہاں کا سارا خزانہ تمہارے حوالے کردیں گے۔۔۔ تھیوڈور نے اعلان کردیا۔۔۔ یہ لے کر دیوار سے باہر کو اسی راستے اتر جاؤ جس طرح چڑھے تھے اور خندق کی حدود سے بھی نکل جاؤ اس کے علاوہ کچھ اور چاہتے ہو تو ہم وہ بھی پیش کر دیں گے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟡  𝟠⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
قبرستان بہت ہی وسیع تھا تمام قبریں ابھی تازہ تھیں مٹی کی ڈھیریاں بے ترتیب تھیں کوئی اونچی کوئی نیچی۔ بعض قبریں ایک دوسرے سے مل گئی تھیں میدان جنگ کی قبریں ایسی ہی ہوا کرتی ہیں حماة سے حلب تک ایسے تین قبرستان تیار ہوگئے تھے یہ سرسبز اور شاداب خطہ اداس ہوگیا تھا اس کی فضا خون کی بو سے بوجھل ہوگئی تھی جہاں پرندے چہچہاتے تھے وہاں گدھ منڈلا رہے تھے
ایسا ایک قبرستان حلب کے مضافاتی قلعہ اعزاز کے قریب تھا قبروں کی مٹی ابھی نمناک تھی سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوجوں کا امام چند ایک فوجیوں کے ساتھ وہاں کھڑا فاتحہ پڑھ رہا تھا اس نے جب منہ پر ہاتھ پھیرے تو آنسو اس کی داڑھی تک پہنچ چکے تھے
یہ خطہ اب بانجھ ہوجائے گا یہاں اب کوئی پتا ہرا نہیں ہوگا اس نے کہا یہاں ایک ہی رسولﷺ کی اطاعت کرنے والے ایک ہی کلمہ اور ایک ہی قرآن پڑھنے والے ایک دوسرے کے قاتل ہوگئے تھے جس زمین پر بھائی کے ہاتھوں بھائی کا خون گرتا ہے وہ زمین سوکھ جاتی ہے یہاں تکبیر کے نعرے ٹکرائے تھے یہ سب مسلمان تھے ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل ہوئے حق کے نام پر جانیں قربان کرنے والے شہید ہوئے اور باطل کے ساتھی اس رتبے سے محروم رہے یہ سب روزِ محشر اکٹھے اٹھائے جائیں گے خدائے ذوالجلال انہیں یہ تو ضرور کہیں گے کہ خون جو تم نے ایک دوسرے کا بہایا ہے اتنا تم مل کر اسلام کے دشمن کا بہاتے تو فلسطین ہی نہیں سپین بھی ایک بار پھر تمہارا ہوتا گھوڑوں کے قدموں کی ہنگامہ خیز آوازیں سنائی دیں امام کے ساتھ کھڑے کسی فوجی نے کہا سلطان آرہے ہیں امام نے گھوم کر دیکھا سلطان صلاح الدین ایوبی آرہا تھا اس کے ساتھ سالار اور محافظ دستے کے چھ سوار تھے قبرستان کے قریب آکر سلطان ایوبی نے گھوڑا روکا اترا اور امام کے قریب آکر فاتحہ پڑھ کر اس نے امام سے ہاتھ ملایا
سلطانِ محترم! امام نے سلطان ایوبی سے کہا یہ صحیح ہے کہ یہ بھی مسلمان تھے جو ہمارے خلاف لڑے لیکن میں انہیں اس قابل نہیں سمجھتا کہ ان کی قبروں پر فاتحہ پڑھی جائے انہیں شہیدوں کے ساتھ دفن نہیں کرنا چاہیے تھا ہمارے مجاہدین حق کی خاطر لڑ رہے تھے انہیں آپ نے دشمن کے مقتولین کے ساتھ دفن کرا دیا ہے میں انہیں بھی شہید سمجھتا ہوں جو باطل کی خاطر ہمارے خلاف لڑے تھے
سلطان ایوبی نے کہا یہ اپنے حکمرانوں کی فریب کاری کے شہید ہیں ہم نے اپنے سپاہیوں کو اللہ کا پیغام دیا تھا ان کے خلاف لڑنے والے سپاہیوں کو ان کے بادشاہوں نے جذباتی نعرے اور جھوٹا پیغام دے کر ان کے دلوں میں باطل کو حق بتا کر بٹھا دیا ان کے اماموں نے انعام واکرام لے کر سپاہیوں کو گمراہ کیا اور اللہ اکبر کے نعرے لگا کر اللہ اور رسولﷺ کے احکام کی خلاف ورزی کرائی میں ان کی لاشوں کو ایک ہی گڑھے میں دبا کر یا کہیں پھینک کر ان کی توہین نہیں کرنا چاہتا تھا ہمارے دشمن مسلمانوں کے جن سپاہیوں کو احساس ہوگیا تھا کہ انہیں گمراہ کیا گیا ہے وہ ہمارے ساتھ ہیں اور یہ جو مرگئے ہیں ان تک روشنی نہیں پہنچی تھی کیونکہ بادشاہی کے دلدادہ حکمرانوں نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی تھی
پہلے سنایا جاچکا ہے کہ مسلمان امراء سلطان صلاح الدین ایوبی کے دشمن ہوگئے تھے وہ خلافت سے آزاد ہوکر خودمختار حکمران بننا چاہتے تھے ان میں ایک نورالدین زنگی مرحوم کا بیٹا الملک الصالح تھا دوسرا موصل کا امیر سیف الدین غازی اور تیسرا گمشتگین جو حرن کا قلعہ دار تھا لیکن اس نے خودمختاری کا اعلان کردیا تھا ان تینوں نے اپنی فوجوں کی متحدہ ہائی کمان بنا لی اور سلطان ایوبی کیخلاف محاذ آرا ہوگئے تھے صلیبی ان کی پشت پناہی کررہے تھے صلیبیوں کو ان کے ساتھ صرف یہ دلچسپی تھی کہ مسلمان آپس میں ٹکرا ٹکرا کر ختم ہوجائیں یا اتنے کمزور ہوجائیں کہ ان (صلیبیوں) کے خلاف لڑنے کے قابل نہ رہیں حکمرانی کے نشے صلیبیوں کی دی ہوئی مالی اور جنگی امداد شراب اور یہودیوں کی حسین وجمیل لڑکیوں نے ان امراء کو ایسا اندھا کیا کہ وہ سلطان ایوبی کے راستے میں اس وقت حائل ہوگئے جب نورالدین زنگی فوت ہوچکا تھا اور سلطان ایوبی مصر سے یہ عزم لے کر آیا تھا کہ صلیبیوں کو عالم اسلام سے بے دخل کرکے قبلہ اول کو سلطنت اسلامیہ میں شامل کرلے گا ڈیڑھ سال تک حماة سے حلب تک کے اس سرسبز خطے میں مسلمان مسلمان کا خون بہاتا رہا آخر فتح حق کی ہوئی سلطان ایوبی نے فتح پائی اس کے دشمنوں نے اس کی اطاعت قبول کرلی لیکن سلطان ایوبی کے چہرے پر مسرت کی ہلکی سی بھی جھلک نظر نہیں آتی تھی قوم کی عسکری قوت کا بیشتر حصہ تباہ ہوچکا تھا اس لحاظ سے یہ صلیبیوں کی فتح اور مسلمانوں کی شکست تھی صلیبی اپنے عزائم میں کامیاب ہوگئے تھے سلطان ایوبی اب کئی برسوں تک بیت المقدس کی طرف پیش قدمی کے قابل نہیں رہا تھا
جون ١١٧٦ء کے اس روز جب سلطان ایوبی قلعہ اعزاز کے قریب وسیع قبرستان میں اپنے امام کے پاس کھڑا تھا تو (اس دور کے وقائع نگاروں کے مطابق) اس کا چہرہ بجھا بجھا سا تھا اس نے امام سے کہا ہر نماز کے بعد دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں بخش دے جن کی آنکھوں پر کفر کی پٹی باندھ کر اپنے بھائیوں کے خلاف لڑایا گیا تھا سلطان گھوڑے پر سوار ہوا اور اس نے قبرستان پر نگاہ ڈالی خدا کو اتنے زیادہ خون کا حساب کون دے گا؟ 
یہ گناہ میرے حساب میں نہ لکھ دیا جائے
اپنے سالاروں کی طرف دیکھ کر اس نے کہا ہماری قوم خودکشی کے راستے پر چل پڑی ہے کفار امت رسول اللّٰہﷺ کی قوت اور جذبے سے اس قدر خائف ہیں کہ اس قوت کو دلکش حربوں سے کمزور کررہے ہیں۔ ان کے پاس یہی ایک ذریعہ رہ گیا ہے ہمارے بعض بھائیوں نے ان کے اس ذریعے کو قبول کرلیا ہے اور تاریخ میں خانہ جنگی کا باب کھول دیا ہے اگر ہم نے اس باب کو یہیں بند نہ کیا تو میں مستقبل کو جہاں تک دیکھ سکتا ہوں مجھے امت رسول اللّٰہﷺ خانہ جنگی سے خودکشی کرتی نظر آتی ہے کفار آج کے دور کی طرح مالی اور جنگی امداد دے دے کر امت کو آپس میں لڑاتے رہیں گے چند ایک افراد پر جب تخت وتاج کے حصول کا جنون سوار ہوتا ہے تو وہ قوم کو آلۂ کار بنا کر قوم کو لے ڈوبتے ہیں بادشاہی کے یہ بھوکے لوگ قوم کا خون اسی طرح بہاتے رہیں گے یہ اتنا وسیع قبرستان دیکھو قبریں گنو تو گن نہیں سکو گے ہم پیچھے جو لاشیں دفن کر آئے ہیں ان کا بھی شمار نہیں میں اتنے خون کا حساب کس سے لوں؟ 
خدا کو میں کیا جواب دوں گا؟
خانہ جنگی کا سلسلہ ختم ہوگیا ہے ایک سالار نے کہا اب آگے کی سوچیں ہمیں بیت المقدس پکار رہا ہے قبلہ اول ہماری راہ دیکھ رہا ہے اور مجھے مصر پکار رہا ہے سلطان صلاح الدین ایوبی نے گھوڑا چلا دیا اور کہنے لگا وہاں سے بڑی تشویش ناک خبریں آرہی ہیں وہاں میرا قائم مقام میرا بھائی ہے وہ مجھے پریشانی سے بچانے کے لیے حالات کی سنگینی مجھ سے چھپا رہا ہے علی بن سفیان اور کوتوال غیاث بلبیس بھی مجھے تفصیل سے کوئی بات نہیں بتا رہے صرف اتنی خبر بھیجتے ہیں کہ دشمن کی زمین دوز تخریبی سرگرمیاں جاری ہیں ان کا سدباب کیا جارہا ہے پرسوں کے قاصد نے بتایا ہے کہ قاہرہ میں تخریب کاری زور پکڑتی جارہی ہے معلوم ہوتا ہے شیخ سنان کو ہم نے عصیات سے بے دخل کردیا ہے مگر اس کا قاتل گروہ قاہرہ میں سرگرم ہے دو کمان دار ایسے طریقے سے قتل ہوگئے ہیں کہ ان کے جسموں پر زخم اور چوٹ کا کوئی نشان نہیں مرنے کے بعد لاشوں کی حالت سے یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ زہر دیا گیا تھا یہ حشیشین کا خاص طریقہ ہے تو کیا آپ فوج کو یہیں رہنے دیں گے یا ساتھ لے جائیں گے؟
ایک سالار نے کہا اس کے متعلق میں نے ابھی فیصلہ نہیں کیا سلطان ایوبی نے کہا شاید کچھ نفری لے جاؤں فوج کی ضرورت یہاں زیادہ ہے صلیبیوں نے مصر میں تخریب کاری اس لیے تیز کردی ہے کہ میں فلسطین کی طرف پیش قدمی کرنے کے بجائے مصر چلا جاؤں میں ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہونے دوں گا البتہ میرا مصر جانا ضروری ہے
سلطان ایوبی کے خدشے بے بنیاد نہیں تھے صلیبیوں کی ذہنیت اور عزائم کو اس سے بڑھ کر اور کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا اس وقت جب وہ قبرستان سے فاتحہ پڑھ کر اپنے جنگی ہیڈکوارٹر کی طرف جارہا تھا شیخ سنان تریپولی پہنچ چکا تھا آپ پڑھ چکے ہیں کہ حسن بن صباح کے بعد اس فرقے کے جس پیرومرشد نے شہرت حاصل کی وہ شیخ سنان تھا یہ شخص حشیشین (فدائیوں) کا سربراہ تھا سلطان ایوبی اور صلیبیوں کی جنگوں کے دوران فدائیوں کا قاتل گروہ شیخ سنان کی زیر قیادت بہت ہی زیادہ سرگرم ہوگیا تھا سلطان ایوبی پر متعدد بار قاتلانہ حملے کیے گئے اور ہر حملے کا انجام یہ ہوا کہ قاتل مارے گئے اور جو بچے وہ پکڑے گئے صلیبیوں نے شیخ سنان کو عصیات نام کا ایک قلعہ دے رکھا جو مئی ١١٧٦ء میں سلطان ایوبی نے محاصرے میں لے کر شیخ سنان سے ہتھیار ڈلوائے اور اس سے قلعہ خالی کراکے اسے بخش دیا تھا اس محاصرے کی تفصیلات سنائی جاچکی ہیں
شیخ سنان جو ١١٧٦ء کے ایک روز تریپولی (لبنان) پہنچا اس کے ساتھ اس کے فدائی اور فوج تھی کسی کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا سلطان ایوبی نے انہیں نہتہ کرکے رخصت کیا تھا تریپولی اور گردونواح کا وسیع علاقہ ایک صلیبی کمانڈر کے قبضے میں تھا شیخ سنان اس کے پاس پہنچا اور پناہ مانگی دو روز بعد ریمانڈ نے ادھر ادھر سے دوسرے صلیبی بادشاہوں اور کمانڈروں کو تریپولی بلایا تاکہ سلطان ایوبی کے خلاف آئندہ لائحہ عمل تیار کیا جائے صلیبیوں کی انٹیلی جنس کا ماہر ڈائریکٹر جرمن نژاد ہرمن بھی اس کانفرنس میں موجود تھا
آپ مجھے اس بنا پر نہیں کوس سکتے کہ میں صلاح الدین ایوبی سے شکست کھا کر آیا ہوں شیخ سنان نے صلیبیوں کی اس کانفرنس میں کہا آپ جانتے ہیں کہ ہم فوج کی طرح نہیں لڑ سکتے سلطان ایوبی کا مقابلہ تمہاری فوج بھی نہیں کرسکتی میرے فدائی اس کے محاصرے میں کیسے لڑ سکتے ہیں ضرورت یہ ہے کہ آپ ایوبی کے دشمن مسلمان امراء کو اپنی فوجیں دیں وہ سب مل کر اس کے سامنے نہیں ٹھہر سکے شیخ سنان! ریمانڈ نے کہا یہ ہم تک رہنے دیں کہ ایوبی کے خلاف ہمیں کیا کرنا چاہیے ہم آپ کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ آپ نے اس کے قتل کے لیے جو چار آدمی بھیجے تھے وہ بھی ناکام ہوگئے ہیں مارے گئے ہیں اور پکڑے گئے ہیں صلاح الدین ایوبی پر آپ کا ایک بھی قاتلانہ حملہ کامیاب نہیں ہوا اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ اپنے بے کار آدمی بھیجتے رہے ہیں جن کے مرجانے یا گرفتار ہوجانے سے آپ کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا ہم آپ کو جو مراعات اور رقم دیتے رہے وہ ضائع ہوگئی ہے
صرف ایک صلاح الدین کے قتل نہ ہونے سے آپ کی رقم ضائع نہیں ہوئی شیخ سنان نے کہا میں نے مصر میں صلاح الدین ایوبی کی حکومت کے جو دو حاکم قتل کرائے ہیں انہیں اپنی رقم کے حساب میں رکھیں آپ کے تین طاقتور مخالف سوڈان میں تھے انہیں میں نے قبروں میں اتارا اور وہاں آپ کا راستہ صاف کیا ہے صلاح الدین ایوبی کے مخالف مسلمان امراء میں سے جو حلب میں الملک الصالح کے ساتھ تھے دو صلاح الدین کے حامی ہوگئے تھے آپ کے اشارے پر میں نے انہیں قتل کرایا ہے اور اب مصر میں حاکموں کے خفیہ قتل کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے وہ کس نے شروع کیا ہے؟ 
کیا آپ اسے بھی ناکام کہیں گے؟
ایوبی کب قتل ہوگا؟
فرانسیسی صلیبی گے آف نورینان نے میز پر مکا مار کر پوچھا صلاح الدین ایوبی کے قتل کی بات کرو، آپ نے نورالدین زنگی کو جو زہر دیا تھا وہ صلاح الدین ایوبی کو کب دو گے؟
جس روز اس قسم کے حالات پیدا ہوجائیں گے جیسے نورالدین زنگی کے وقت پیدا ہوئے تھے شیخ سنان نے کہا زنگی زلزلے کی تباہ کاری کے متاثرین کی امداد کے لیے اکیلا بھاگتا دوڑتا رہتا تھا نہ اسے ہوش تھا نہ اس کے عملے کو کہ اس کے لیے جو کھانا پکتا ہے وہ کون پکاتا ہے اور کوئی اس کی نگرانی بھی کرتا ہے یا نہیں اس موقعے سے میرے ان آدمیوں نے جو میں نے آپ کے کہنے پر اس کے قتل کے لیے بھیج رکھے تھے فائدہ اٹھایا اور اس کے کھانے میں وہ زہر ملا دیا جو گلے کی بیماری بن گیا اور وہ تین چار دنوں بعد مرگیا اس کے طبیب آج بھی کہتے ہیں کہ نورالدین زنگی خناق سے مرا ہے مگر صلاح الدین ایوبی کے کھانے تک پہنچنا ممکن نہیں کیا آپ اس باورچی کو خرید نہیں سکتے جو اس کا کھانا پکاتا ہے؟
ایک اعلیٰ کمانڈر نے پوچھا اس کا جواب ہمارا دوست ہرمن دے سکتا ہے شیخ سنان نے کہا اور ہرمن کی طرف دیکھ کر مسکرایا
پچھلی کہانیوں میں ہرمن کا ذکر چند بار آیا ہے وہ جرمنی کا رہنے والا تھا علی بن سفیان کی طرح جاسوسی اور سراغ رسانی کا ماہر تھا تخریب کاری اور کردار کشی میں خصوصی مہارت رکھتا تھا مصر میں سلطان ایوبی کے خلاف جو سازشیں اور وسیع پیمانے پر ایک بغاوت جو ہوئی تھی وہ اسی نے کرائی تھی سلطان ایوبی کے ان دو چار اعلیٰ حکام کو بھی ہرمن نے اس کے خلاف کردیا تھا جو سلطان ایوبی کے معتمد تھے وہ مسلمان حکام اور عوام کی نفسیات اور کمزوریوں کو خوب سمجھتا تھا اور انہیں استعمال کرنے کا فن جانتا تھا اسے ایک صلیبی بادشاہ فلپ آگسٹس اپنے ساتھ لایا تھا وہ سوڈان مصر اور عرب کے ہر حصے کی زبان مقامی لب ولہجے سے بول سکتا تھا
شیخ سنان ٹھیک کہتے ہیں ہرمن نے کہا اس سوال کا جواب مجھے دینا چاہیے کہ صلاح الدین ایوبی کے باورچی کو کیوں نہیں خریدا جاسکتا اگر صلاح الدین پر ہوتا تو وہ اب تک زہر سے مارا جاچکا ہوتا وہ اس کی پروا نہیں کرتا کہ اس کے کھانے کی کسی نے نگرانی کی ہے یا نہیں اس نے اپنی جان کو خدا کے سپرد کررکھا ہے اس عقیدے کا وہ پکا ہے کہ اس کی موت کا جو دن مقرر ہے اس روز اسے اپنی جان خدا کے حضور پیش کرنی ہے اور اسے کوئی انسان روک نہیں سکتا اس کے محافظ دستے کا کمانڈر خفیہ محکمے کا ایک ذمہ دار آدمی اور اس کا ایک معتمد خاص اس کا کھانا کھا کر دیکھتے ہیں بعض اوقات طبیب آجاتا ہے اور وہ بھی کھانا دیکھتا ہے اس اتنی کڑی نگرانی کے علاوہ دوسری دشواری یہ ہے کہ صلاح الدین ایوبی کے باورچی اور دیگر تمام ملازم اس کے مرید ہیں ان کے دلوں میں اس کی اندھی عقیدت ہے ایوبی انہیں اپنے نوکر نہیں سمجھتا ان کے ساتھ دوستوں اور بھائیوں جیسا سلوک کرتا ہے پوری طرح جائزہ لیا جاچکا ہے صلاح الدین ایوبی کے اس ذاتی حلقے میں سے کسی کو خریدنا یا اس حلقے میں اپنا کوئی آدمی داخل کرنا ممکن نہیں اس کے پاس افراد ایسے ہیں جو اس کے گرد حصار کھینچے ہوئے ہیں یہ ہیں علی بن سفیان غیاث بلبیس حسن بن عبداللہ اور زاہدان یہ سب اتنے ماہر سراغ رساں ہیں کہ ان کی نظریں انسان کے ضمیر اور روح کو بھی دیکھ لیتی ہیں اسلام کا خاتمہ فلپ آگسٹس نے کہا میں سو بار کہہ چکا ہوں کہ ہمیں اسلام کا خاتمہ کرنا ہے یہ ایسا مذہب ہے جو انسان کی روح کو قبضے میں لے لیتا ہے جس کسی نے اسلام کو اپنی روح میں اتار لیا اسے دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی آپ سب نے دیکھ لیا ہے کہ صلاح الدین ایوبی کے گرد جن مسلمانوں کا گھیرا ہے وہ مذہب کے اتنے پکے ہیں کہ تم زروجواہرات سے اور اتنی خوبصورت لڑکیوں سے ان کا گھیرا نہیں توڑ سکتے وہ مسلمان کچے ایمان کے ہیں جنہیں تم خرید لیتے ہو انہوں نے اسلام کو اپنی روح میں نہیں اترنے دیا تم نے دیکھا ہے کہ ہمارے کتنے بڑے بڑے لشکروں کو صلاح الدین ایوبی کے کتنے تھوڑے تھوڑے سپاہیوں نے کتنا نقصان پہنچایا ہے جہاں ہمارے گھوڑے تھکن اور پیاس سے رہ جاتے ہیں وہاں صلاح الدین ایوبی کے سپاہی تھکن اور پیاس سے بے نیاز رہتے ہیں اس قوت کو یہ لوگ ایمان کہتے ہیں ہمیں ان کا ایمان کمزور کرنا ہے ہرمن! ان کے ایک دو امراء یا اعلیٰ حکام کو ہاتھ میں لینا بے شک ضروری ہے اس سے آپ نے بہت فائدہ اٹھایا ہے لیکن کوئی ایسا طریقہ اختیار کرو جس سے اس قوم کے دل میں اپنے مذہب کے خلاف بیزاری پیدا ہوجائے پختہ عمر کے آدمیوں کے نظریات بدلنا آسان نہیں ہوتا ان کی نسل کو بچپن اور لڑکپن میں اپنا نشانہ بنالو کچے ذہن کو تم اپنے سانچے میں ڈھال سکتے ہوں ان کے حیوانی جذبے کو بھڑکاؤ یہودی یہ کام کررہے ہیں ہرمن نے کہا اور اس محاذ پر میں جو کچھ کررہا ہوں اس کے نتائج آہستہ آہستہ سامنے آرہے ہیں ایک دن یا چند ایک دنوں میں آپ کسی کے نظریات اور عقیدے نہیں بدل سکتے اس عمل میں وقت لگتا ہے ایک دور گزر جاتا ہے
یہ عمل جاری رہنا چاہیے فلپ آگسٹس نے کہا میں یہ توقع نہیں رکھوں گا کہ نتائج ہماری زندگی میں سامنے آئیں مجھے پوری امید ہے کہ ہم نے کردارکشی کا یہ عمل جاری رکھا تو وہ وقت آئے گا کہ مسلمان برائے نام مسلمان رہ جائیں گے ان کے ہاں مذہبی فرائض محض رسمی بن جائیں گے اور ان پر ہمارا رنگ چڑھ جائے گا ان کی سوچوں پر صلیب غالب آجائے گی شیخ سنان! ریمانڈ نے شیخ سنان سے کہا اگر آپ ہم سے عصیات کے قلعے کے بدلے ایک اور قلعے کا مطالبہ کریں گے تو ہم ابھی یہ مطالبہ پورا نہیں کرسکیں گے ہمارا معاہدہ قائم رہے گا قلعے کے سوا دوسری تمام مراعات آپ کو حاصل رہیں گی اگر آپ ان مراعات اور مالی وظیفوں کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو قاہرہ میں اور خصوصاً تمام تر مصر میں صلاح الدین ایوبی کی فوج اور انتظامیہ کی اہم شخصیتوں کا قتل جاری رکھیں اور صلاح الدین ایوبی کے قتل کی بھی کوششیں جاری رکھیں صلاح الدین ایوبی کے قتل کے متعلق میں آپ کو صاف الفاظ میں بتا دیتا ہوں کہ میں اس میں اور کوئی آدمی ضائع نہیں کروں گا شیخ سنان نے کہا اس شخص کا قتل ممکن نظر نہیں آتا میں بڑے قیمتی فدائی ضائع کرچکا ہوں مجھے یہ کہنے کی بھی اجازت دیں کہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے مجھے نئی زندگی دی ہے میں نے اس کے آگے ہتھیار ڈالے تو مجھے یہ توقع تھی کہ میں نے اس پر جتنے قاتلانہ حملے کرائے ہیں ان کا انتقام لینے کے لیے وہ مجھے اور میرے چیدہ چیدہ فدائیوں کو قتل کردے گا لیکن اس نے میری اور میرے آدمیوں کی جان بخشی کردی میں تو یہ سمجھا تھا کہ وہ ہمیں دھوکہ دے رہا ہے جونہی ہم پیٹھ پھیریں گے وہ ہم پر تیروں کا مینہ برسا دے گا یا ہم پر گھوڑے دوڑا دے گا آپ مجھے دیکھ رہے ہیں میں اپنے تمام آدمیوں اور پوری فوج کے ساتھ آپ کے سامنے زندہ موجود ہوں آپ مجھے مراعات سے محروم کردیں میں صلاح الدین ایوبی کے قتل سے دستبردار ہوگیا ہوں البتہ قاہرہ میں میرے آدمیوں کی کارگزاری سے آپ کو مایوسی نہیں ہوگی قاہرہ میں ایسے حالات پیدا کردئیے گئے جو صلاح الدین ایوبی کو قاہرہ جانے پر مجبور کردیں گے ہرمن نے کہا بہت جلد سوڈانی مصر کی سرحدی چوکیوں پر حملوں کا سلسلہ شروع کردیں گے مصر پر کوئی بڑا حملہ نہیں کیا جائے گا حملے کا دھوکہ دیا جائے گا تاکہ صلاح الدین ایوبی شام سے مصر چلا جائے
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ہرمن جاسوسی اور سراغ رسانی کا ماہر تھا لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ اس کانفرنس میں جو خاص ملازم شراب اور کھانے کی چیزیں لا اور لے جارہے تھے ان میں وکٹر نام کا ایک فرانسیسی سلطان ایوبی کا جاسوس تھا اور انہی خاص ملازموں میں راشد چنگیز نام کا ایک ترک مسلمان بھی تھا جس نے اپنے آپ کو یونان کا عیسائی ظاہر کرکے یہ نوکری حاصل کی تھی یہ بھی سلطان ایوبی کا جاسوس تھا ہرمن نے ان خاص ملازموں کو جو کانفرنسوں اور کمانڈروں کی محفلوں اور دعوتوں میں حاضر رہتے اور کھانا کھلاتے تھے گہری چھان بین کے بعد اس ملازمت کے لیے منتخب کیا تھا پہلے بتایا جاچکا ہے کہ سلطان ایوبی نے جاسوسوں کا جال پھیلا رکھا تھا اسے صلیبیوں کے دور اندر کی باتوں کا قبل از وقت علم ہوجاتا تھا اب شیخ سنان کی اس کانفرنس کی تمام باتیں اس کے دو جاسوسوں نے سن لی تھیں جنہیں چند دنوں تک سلطان ایوبی تک پہنچ جانا تھا ان دنوں قاہرہ میں زمین دوز تخریب کاری بڑھ گئی تھی مصر کی فوج کے نائب سالار سے ایک درجہ کم عہدے کا ایک کمان دار شہر کے باہر مردہ پایا گیا وہ شام کے بعد گھر سے نکلا تھا ساری رات گھر نہ آیا صبح اس کی لاش دیکھی گئی اس کے جسم پر کوئی زخم نہیں تھا کوئی چوٹ نہیں تھی سراغ رسانوں نے جائے واردات پر ایک تو مرنے والے کے نقوش پا دیکھے اور دو نقوش کسی اور کے تھے اس کمان دار کے چال چلن کی سب تعریف کرتے تھے اس کا اٹھنا بیٹھنا غلط یا مشکوک قسم کے لوگوں کے ساتھ نہیں تھا اس کی ایک بیوی تھی جو اس سے ہر لحاظ سے مطمئن تھی اس کی موت کا باعث معلوم کرنے کی بہت کوشش کی گئی اگر یہ قتل تھا تو قاتل کا کوئی سراغ نہیں مل رہا تھا
تین چار دنوں بعد اسی عہدے کا ایک اور فوجی کمان دار بالکل اسی طرح ایک صبح اپنے کمرے میں مردہ پایا گیا وہ فوجی بارکوں کے ایک کمرے میں رہتا تھا اس کے متعلق بھی رپورٹیں بالکل صاف تھیں اس کے دوستوں کے حلقے میں اپنے ہی دستے کے کچھ آدمی تھے ان میں سے کسی کے ساتھ اس کا لڑائی جھگڑا نہیں تھا قتل کی بظاہر وجہ کوئی نہیں تھی اسے قتل کہا ہی نہیں جاسکتا تھا کیونکہ جسم پر زخم یا چوٹ کا کوئی ہلکا سا بھی نشان نہیں تھا یہ لاش سرکاری طبیب نے دیکھی لاش کے ہونٹوں کے کونوں پر ذرا ذرا سی جھاگ تھی اس نے یہ جھاگ لکڑی کے ایک لمبوترے ٹکڑے کے سرے پر لگالی اس نے ایک کتا منگوایا اور یہ جھاگ گوشت کے ایک ٹکڑے پر لگا کر ٹکڑا کتے کو کھلا دیا
اس نے کتے کو اپنے گھر لے کر جاکر باندھ دیا اور اسے دیکھتا رہا کتے نے کوئی غیرمعمولی حرکت نہ کی اسے جو کھانے کو دیا گیا وہ کھاتا رہا طبیب ساری رات جاگ کر کتے کو دیکھتا رہا آدھی رات کے بعد کتا اٹھا اور جہاں تک رسی اجازت دیتی تھی وہ بڑے آرام سے ٹہلتا رہا وہ بہت دیر ٹہل کر رکا اور گر پڑا طبیب نے دیکھا، کتا مرچکا تھا طبیب نے رپورٹ دی کہ دونوں کمان داروں کو ایسا زہر دیا گیا ہے جس سے کوئی تلخی نہیں ہوتی انسان نہایت اطمینان سے مرجاتا ہے
سراغرسانوں نے دونوں کمان داروں کے متعلق گہری تفتیش کی یہ معلوم کرنے کی بہت کوشش کی گئی کہ زندگی کے آخری روز وہ کس کس سے ملے کہاں گئے اور انہوں نے کس کے ساتھ کچھ کھایا پیا مگر کوئی سراغ نہ ملا۔ شادی شدہ کمان دار کی بیوی سے بھی پوچھ گچھ کی گئی لیکن اس پر شک کی کوئی وجہ نہیں تھی دونوں کمان داروں میں مشترکہ وصف یہ تھا کہ پکے مسلمان تھے میدان جنگ میں ان کی کمانڈ اور دلیری کی تعریف سلطان ایوبی نے بھی کی تھی دونوں سرحدی دستوں کے کمانڈر رہ چکے تھے اور انہوں نے کئی ایک سوڈانیوں کو سرحد پار کرتے گرفتار کیا تھا سوڈانیوں نے انہیں بہت رشوت پیش کی تھی جو انہوں نے قبول نہیں کی تھی اب دونوں کو نائب سالاری کی ترقی ملنے والی تھی وہ اس قابل تھے کہ کسی بھی جگہ حملے کی قیادت آزادانہ کرسکیں
علی بن سفیان نے رائے دی کہ قتل کی یہ دونوں وارداتیں صلیبی تخریب کاروں کی ہیں اور قاتل فدائی ہیں اس نے کہا کہ دشمن نے اب اہم شخصیتوں کے قتل کا سلسلہ شروع کردیا ہے تمام کمان داروں اور حکام کو خبردار کردیا گیا کہ کسی اجنبی یا مشکوک آدمی کے ہاتھ سے کوئی چیز نہ کھائیں اور ایسے آدمیوں پر نظر رکھ کر انہیں پکڑنے کی کوشش کریں جو دوستی لگانے اور کھانے پینے کی کوئی چیز پیش کرنے کی کوشش کریں سراغ رساں مصروف ہوگئے دوسرے کمان دار کے قتل کے سات آٹھ روز بعد ایک رات فوج کے خیموں کو آگ لگ گئی ہزاروں خیمے ایک جگہ لپٹے پڑے تھے ان کے انباروں کے اوپر چھپر تھے وہاں پہرہ بھی تھا پھر بھی آگ لگ گئی یہ آگ تخریب کاری کا نتیجہ تھی وہاں اتفاقیہ آگ لگنے کا کوئی امکان نہیں تھا کیونکہ ان چھپروں کے قریب آگ جلانے کی ممانعت تھی اس کی سختی سے پابندی کی جاتی تھی اس کے علاوہ پراسرار سے کچھ اور واقعات ہوئے تھے سرحدی دستوں کو اور زیادہ چوکس کردیا گیا تھا۔ سوڈان کی طرف سرحد کے اندر چوری چھپے آنے والوں کی تعداد اور رفتار بڑھ گئی تھی اس کا اندازہ ان لوگوں کی گرفتاریوں سے ہوتا تھا
علی بن سفیان نے اپنی انٹیلی جنس کو اور زیادہ پھیلا دیا اور پہلے سے زیادہ ہوشیار کردیا تھا قاہرہ سے کچھ دور دریائے نیل کے کنارے پہاڑی علاقہ تھا اس کے اندر کہیں فرعونوں کے زمانے کے کھنڈر تھے اس سے پہلے ایسے واقعات ہوئے تھے کہ صلیبی اور سوڈانی تخریب کاروں نے ایسے کھنڈروں کو خفیہ اڈوں کے طور پر استعمال کیا تھا مصر میں ایسے کھنڈروں کی تعداد کچھ کم نہیں تھی اس پہاڑی علاقے کو نظر میں رکھنے کے لیے علی بن سفیان نے اپنے جاسوسوں کو خصوصی ہدایات کے ساتھ مقرر کررکھا تھا اب کے صلیبی تخریب کاروں نے یہ کامیابی بھی حاصل کرلی تھی کہ انہوں نے دو تین مہینوں کے عرصے میں علی بن سفیان کے چھ سات جاسوس جو قاہرہ میں مختلف جگہوں پر مختلف بہروپوں میں رہتے تھے غائب کردئیے تھے
یہ وہ جاسوس تھے جو صلیبیوں کے جاسوسوں کو پکڑنے کے ماہر تھے لیکن وہ خود پکڑے گئے یا مارے گئے۔ خطرہ یہ تھا کہ وہ پکڑے گئے تو صلیبی انہیں حشیشین کے حوالے کرکے انہیں مصر کی ہی حکومت اور فوج کے خلاف استعمال کریں گے اصل خطرہ تو یہ تھا کہ دشمن کے جاسوسوں نے قاہرہ کے جاسوسوں کو پہچان لیا تھا۔ جاسوسی اور سراغ رسانی کی اس جنگ میں دشمن جیت رہا تھا علی بن سفیان نے اب ذرا اونچے عہدوں کے ایسے جاسوس جو اپنے فن میں خصوصی مہارت رکھتے تھے استعمال کرنے شروع کردئیے تھے ان میں ایک مہدی الحسن تھا جو یروشلم اور تریپولی تک بڑی کامیاب جاسوسی کرتا آیا تھا وہ بہت دلیر اور دانشمند جاسوس تھا
علی بن سفیان نے یہ پہاڑی علاقہ اسے دے رکھا تھا اس علاقے کے اندر صرف ایک راستہ تھا پیچھے دریا اور باقی ہر طرف پہاڑیاں اور چٹانیں بھی تھیں اندرونی علاقے میں سبزہ اور درخت تھے کہیں کہیں پانی کی جھیلیں بھی تھیں اطلاع ملی تھی کہ اس کے اندر مشکوک سے آدمی آتے جاتے دیکھے گئے ہیں فرعونوں کی کسی عمارت کے کھنڈر سامنے نظر نہیں آتے تھے کسی نے کبھی دیکھے بھی نہیں تھے لیکن یہ یقین ضرور تھا کہ اس کوہسار کے اندر فرعونوں نے کچھ نہ کچھ بنایا ضرور تھا جو اب تک موجود ہے بہرحال یہ جگہ ایسی تھی جو تخریب کاروں کا خفیہ اڈا بننے کے لیے موزوں تھی
مہدی الحسن وہاں ایک دو اونٹ اور چند ایک بھیڑ بکریاں لے جاکر صحرائی خانہ بدوشیا گڈرئیے کے بہروپ میں جایا کرتا تھا اس کے جانور ادھر ادھر چرتے چگتے رہتے اور وہ گھومتا پھرتا رہتا تھا اس نے کچھ دور اندر تک علاقہ دیکھا تھا وہاں اسے کچھ بھی نظر نہیں آیا تھا بہت آگے جاکر ایک پہاڑی ایسی تھی جس کے دامن سے بیس پچیس فٹ اوپر ایک قدرتی سرنگ کا دہانہ تھا مہدی الحسن اس سرنگ کے اندر گیا تھا یہ اتنی اونچی اور فراخ تھی کہ اس میں سے اونٹ گزر سکتا تھا یہ پہاڑی کی طرف تک چلی گئی تھی۔ مہدی الحسن دوسری طرف گیا وہاں تنگ سی ایک وادی تھی جہاں کوئی اڈا نہیں ہوسکتا تھا سرنگ بہت لمبی تھی اس کے اندر دائیں بائیں دیواروں میں غاریں سی بنی ہوئی تھیں اتنے بڑے بڑے پتھر بھی تھے کہ ایک پتھر کے پیچھے آدمی بیٹھ کر چھپ سکتا تھا اس مصری جاسوس نے علی بن سفیان کو رپورٹ دی تھی کہ وہ جہاں تک جاسکا ہے اسے کوئی مشکوک جگہ نظر نہیں آئی اور اتنے دن اسے کوئی ایک بھی آدمی اندر جاتا یا باہر آتا دکھائی نہیں دیا علی بن سفیان نے اسے کہا کہ وہ سارا دن وہیں گزارا کرے اور وہ زیادہ اندر تک نہ جایا کرے کیونکہ پکڑے یا مارے جانے کا خطرہ تھا علی بن سفیان نے اسے یہ بھی کہا کہ کبھی کبھی وہ اونٹ پرسوار ہوکر رات کو بھی چلا جایا کرے اگر کوئی آدمی اسے مل جائے تو اسے بتائے کہ وہ قاہرہ جارہا ہے اپنے آپ کو کسان ظاہر کرے اس ہدایت کے تحت مہدی الحسن رات کو بھی وہاں گیا تھا ایک رات اسے کسی کے بھاگتے قدموں کی آواز سنائی دی یہ کوئی جنگلی جانور بھی ہوسکتا تھا اور یہ کوئی انسان بھی ہوسکتا تھا مہدی الحسن آگے نہ گیا کچھ دیر وہاں رکا رہا پھر واپس آگیا وہ دوسرے دن سورج نکلنے سے پہلے دو تین اونٹ اور بھیڑ بکریاں لے کر وہاں چلا گیا انہیں کھلا چھوڑ کر خود ادھر ادھر گھومنے پھرنے لگا وہاں سبزہ تھا جھاڑیاں اور گھاس تھی اور جنگلی پودے بھی کچھ آگے جاکر اسے ایک آدمی دکھائی دیا جو زمین پر جھکا ہوا تھا اس نے قیمتی چغہ پہن رکھا تھا اور اس کی لمبی داڑھی تھی سر پر عمامہ بھی قیمتی تھا مہدی الحسن آہستہ آہستہ اس کی طرف چلنے لگا جھکے ہوئے آدمی نے اس کی طرف دیکھ۔ مہدی الحسن نے اپنی چال ڈھال میں جاہلانہ پن نمایاں رکھا اور آہستہ آہستہ اس آدمی کے قریب جاکھڑا ہوا چغہ والے کے ہاتھ میں ایک تھیلا تھا جس میں ہرے پتے بھرے ہوئے تھے اور اس کے دوسرے ہاتھ میں ایک پودے کی ہری شاخ تھی آپ کیا ڈھونڈ رہے ہیں؟
مہدی الحسن نے گنواروں کے سے لہجے میں احمقوں کی طرح ہنس کر پوچھا کوئی چیز گم ہوگئی ہے؟ 
میں بھی تلاش کروں؟
میں حکیم ہوں اس آدمی نے کہا جڑی بوٹیاں ڈھونڈ رہا ہوں ان کی دوائیاں بناؤں گا
مہدی الحسن نے اس کا چہرہ دیکھ کر پہچان لیا وہ قاہرہ کا حکیم تھا اور خاصی شہرت رکھتا تھا مہدی الحسن نے اس کے اس جواب کو غلط نہ سمجھا کہ وہ جڑی بوٹیاں ڈھونڈ رہا ہے اس علاقے میں جڑی بوٹیاں موجود تھیں حکیم نے اس سے پوچھا کہ وہ یہاں کیا کر رہا ہے اس نے بتایا کہ وہ یہاں سے تھوڑی ہی دور اپنے ایک کنبے کے ساتھ خیمے میں رہتا ہے اور یہاں جانوروں کو چرانے اور پانی پلانے لایا ہے ان بوٹیوں سے آپ کس مرض کی دوائیاں بنائیں گے؟
مہدی الحسن نے پوچھا تم کسی مرض کو نہیں سمجھ سکتے حکیم نے جواب دیا بعض مرض ایسے ہوتے ہیں کہ مریض کو بھی معلوم نہیں ہوتا کہ اسے کیا ہے
یہ حکیم مشہور تھا دور دور سے اس کے پاس مریض آتے تھے اتفاق سے مہدی الحسن کو یہاں مل گیا یہ انسانی فطرت کی کمزوری ہے کہ انسان پر مرض کا وہم بھی طاری ہوجاتا ہے اور انسان بڑی لمبی عمر کا اور ایسی جسمانی طاقت کا متمنی رہتا ہے جو کبھی کم نہ ہو مہدی الحسن کو شاید معمولی سی کوئی تکلیف تھی اس نے اس کا ذکر حکیم سے کیا اس نے نبض پر ہاتھ رکھا پھر اس کی آنکھوں میں جھانکا اور یوں چونکا جیسے اسے ان آنکھوں میں کوئی عجیب چیز نظر آئی ہو اس نے مہدی الحسن کو سر سے پاؤں تک دیکھا حکیم کے چہرے پر حیرت کا تاثر تھا تم میرے دوا خانے میں آسکتے ہو؟
حکیم نے پوچھا شہر میں آجاؤ میں بہت غریب آدمی ہوں مہدی الحسن نے کہا آپ کو پیسے کہاں سے دوں گا تم ابھی میرے ساتھ چلو حکیم نے کہا میرا اونٹ ادھر چر رہا ہے تمہارے پاس بھی اونٹ ہے مجھے پیسوں کی ضرورت نہیں امیر لوگ بہت پیسے دے جاتے ہیں غریبوں کا علاج مفت کرتا ہوں تمہاری بیماری اس وقت تو معمولی ہے لیکن یہ اچانک بڑھ جائے گی مجھے کوئی اور شک بھی ہے
مہدی الحسن دراصل ڈیوٹی پر تھا معمولی سے مرض کی خاطر وہ ڈیوٹی نہیں چھوڑنا چاہتا تھا اس نے حکیم سے کہا کہ وہ شام کو اس کے دوا خانے میں آئے گا اسے راستہ اور جگہ بتا دے مہدی الحسن کو اچھی طرح معلوم تھا کہ اس کا دواخانہ کہاں ہے وہ انجان بنا رہا اور حکیم نے اسے سمجھا دیا کہ دواخانہ کہاں ہے
مہدی الحسن شام کے بعد اس بہروپ میں حکیم کے دواخانے میں چلا گیا اس نے اونٹ ساتھ رکھا تھا تاکہ حکیم کو شک نہ ہو اسے خود حکیم پر کوئی شک نہ تھا وہ جانتا تھا کہ حکیم جڑی بوٹیاں تلاش کرتے رہتے ہیں اسے فی الواقع خیال پیدا ہوگیا تھا کہ جسے وہ معمولی سی تکلیف سمجھتا ہے وہ خطرناک بیماری بن سکتی ہے حکیم نے اسے اچھی طرح دیکھا اور کہا میں دوائی دے دیتا ہوں اگر اس سے افاقہ نہ ہو تو وہ کوئی اور بندوبست کرے گا کیونکہ اسے کوئی اور شک ہے مہدی الحسن نے پوچھا اور کیا شک ہے؟
اللہ نہ کرے میرا شک درست ہو حکیم نے کہا تم خوبصورت ہو صحرا میں گھومتے پھرتے رہتے ہو جس جگہ تم مجھے ملے تھے وہ جگہ ٹھیک نہیں وہاں بدروحیں رہتی ہیں ان میں بعض فرعونوں کے وقتوں کی بڑی حسین لڑکیوں کی بدروحیں ہیں انہیں فرعونوں نے زبردستی اپنے پاس رکھا اور عیاشی کا ذریعہ بنایا تھا پھر انہیں مروا ڈالا تھا کیونکہ اس کی جگہ انہیں دوسری لڑکیاں مل گئی تھیں روح بوڑھی نہیں ہوتی ہمیشہ جوان رہتی ہے جن لڑکیوں کو قتل کیاگیا تھا ان کی روحیں اس سرسبز خطے میں بھٹکتی رہتی ہیں مجھے شک ہے کہ تمہاری شکل وصورت فرعونوں کے دور کے کسی ایسے جوان سے ملتی جلتی ہے جسے اس دور کی کوئی لڑکی چاہتی تھی مگر وہ کسی فرعون کا شکار ہوگئی تم اس جگہ جاتے رہتے ہو اس لڑکی کی بدروح نے تمہیں دیکھ لیا ہے اور تمہاری روح کے ساتھ دل بہلا رہی ہے
یہ مجھے نقصان تو نہیں پہنچائے گی؟
مہدی الحسن نے حکیم کی بات سے متاثر ہوکر پوچھا بدروح کی دوستی اچھی تو نہیں ہوتی کیا آپ اس بدروح سے نجات دلا سکتے ہیں؟
میرا شک غلط ہوسکتا ہے حکیم نے کہا پہلے دوائی دوں گا افاقہ نہ ہوا تو بدروح کا کچھ کروں گا میرے پاس اس کا بھی علاج ہے تعویذ دوں گا عمل کروں گا ضرورت پڑی تو اس بدروح کے ساتھ تمہاری ملاقات کرا دوں گا بدروح سے نجات حاصل کرنے کا یہ بھی ایک طریقہ ہوتا ہے بدروح کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی مہدی الحسن قابل اور ذہین جاسوس تھا لیکن وہ عالم فاضل نہیں تھا اپنی قوم کے ہر فرد کی طرح جنات چڑیلوں اور بدروحوں کے وجود پر یقین رکھتا تھا اس نے ان کی جو کہانیاں اور روائتیں سنی تھیں انہیں سچ مانتا تھا حکیم کا ایک ایک لفظ اس کے دل میں اتر گیا اور اس پر بدروح کا خوف طاری ہوگیا وہ حکیم کے پاس جاسوسی کے لیے نہیں علاج کے لیے ہی گیا تھا حکیم نے اسے تسلی دی کہ وہ کوئی فکر نہ کرے لیکن وہ فکرمند ہوگیاحکیم نے اسے دوائی کی صرف ایک خوراک دی اور کہا کہ رات سونے سے پہلے کھا لے...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟠  𝟠⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس لڑکی کے متعلق تم نے کیا سوچا ہے؟
شیخ سنان نے پوچھا میں جب جاؤں گا تو اسے اپنے ساتھ لے جاؤں گا صلیبی نے جواب دیا تمہارے جانے تک لڑکی میرے پاس رہے گی سنان نے کہا میں آج ہی چلا جاؤں گا
جاؤ شیخ سنان نے کہا اور لڑکی کو یہیں چھوڑ جاؤ تم اسے قلعے سے باہر نہیں لے جاسکو گے سنان صلیبی نے کہا اس قلعے کی اینٹ سے اینٹ بج جائے گی مجھے للکارنے کی جرأت نہ کرو معلوم ہوتا ہے تمہارا دماغ ابھی ٹھکانے نہیں آیا شیخ سنان نے کہا آج رات لڑکی کو تم خود میرے پاس لے آنا خود جاؤ یا رہو اگر تم رات لڑکی کو نہ لائے تو تم تہہ خانے میں اور لڑکی میرے پاس ہوگی جاؤ ٹھنڈے دل سے سوچ لو صلیبی کھانے کے کمرے میں داخل ہوا سب بے تابی سے اس کا انتظار کررہے تھے وہ پھنکار رہا تھا کہنے لگا سنو دوستو! شیخ سنان نے مجھے للکار کر کہا ہے کہ آج رات لزا اس کے پاس ہوگی اس نے مجھے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ لزا کو میں خود اس کے پاس لے جاؤں اور اگر میں نہ لے گیا تو وہ مجھے تہہ خانے میں ڈال دے گا اور لزا کو لے جائے گا آپ اگر تہہ خانے میں چلے گئے تو کیا ہم مرجائیں گے؟
الناصر نے کہا وہ لزا کو نہیں لے جاسکے گا لیکن یہ لڑکی تمہاری کیا لگتی ہے الناصر؟
اس کے ایک ساتھی نے پوچھا تم اپنے آپ کو ہمارا قیدی نہ سمجھو گمشتگین نے کہا یہ مصیبت ہم سب کے لیے آ رہی ہے تم ہمارے نہیں شیخ سنان کے قیدی ہو صلیبی نے کہا تم ہمارا ساتھ دو ہم باہر جاکر تمہیں آزاد کردیں گے اب یہاں سے نکلنے کی سوچو مجھے شیخ سنان نے اجازت دے رکھی ہے کہ ان چاروں کو اپنے ساتھ لے جاؤں گمشتگین نے کہا میں انہیں آج لے جارہا ہوں جلدی جلدی کھانا کھالو مجھے شام سے پہلے روانہ ہونا ہے
گمشتگین کا دماغ بہت تیز تھا اس نے کھانے کے دوران سب کو بتا دیا کہ اس نے کیا سوچا ہے کھانا کھا کر اس نے اپنے خادموں اور باڈی گارڈوں کو بلایا اور کہا کہ وہ فوراً قلعے سے روانہ ہورہا ہے سامان فوراً باندھ لیا جائے اسی وقت اس کا قافلہ تیار ہونے لگا اس کے اپنے گھوڑے کے علاوہ چار گھوڑے باڈی گارڈوں کے تھے چار اونٹ تھے جن پر کھانے پینے کے سامان کے علاوہ خیمے لادے گئے سفر لمبا تھا اس لیے خیمے ساتھ رکھے گئے تھے انہیں ان کے بانسوں پر لپیٹا گیا تھا گمشتگین شیخ سنان کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ وہ جارہا ہے اور چاروں چھاپہ ماروں کو بھی ساتھ لے جارہا ہے ان کے متعلق سودا طے ہوچکا تھا گمشتگین نے زروجواہرات کی صورت میں قیمت ادا کردی تھی
مجھے امید ہے کہ میں نے صلیبیوں کے کہنے پر جو چار آدمی بھیج رکھے ہیں وہ صلاح الدین ایوبی کا کام تمام کرکے ہی آئیں شیخ سنان نے کہا تم سیف الدین کو ان چھاپہ ماروں سے قتل کراؤ تم لوگ لڑ نہیں سکتے اپنے دشمنوں کو چوری چھپے قتل کراؤ تمہارا صلیبی دوست اور اس کی پریاں کہاں ہیں؟
اپنے کمرے میں ہیں گمشتگین نے کہا اس نے چھوٹی لڑکی کے متعلق کوئی بات تو نہیں کی؟
اسے کہہ رہا تھا کہ آج رات شیخ سنان کے پاس چلی جانا گمشتگین نے جواب دیا وہ آپ سے بہت ڈرا ہوا معلوم ہوتا تھا یہاں بڑے بڑے جابر آدمی ڈر جاتے ہیں شیخ سنان نے کہا کمبخت لڑکی کو مجھ سے یوں چھپا رہا تھا جیسے وہ اس کی اپنی بیٹی ہے
گمشتگین اس سے رخصت ہوا اس کا قافلہ تیار کھڑا تھا وہ گھوڑے پر سوار ہوا دو گمشتگین کے آگے ہوگئے اور دو اس کے پیچھے ان کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں گھوڑوں کے پیچھے الناصر اور اس کے ساتھی اور اس کے پیچھے سامان سے لدے ہوئے اونٹ تھے قلعے کا دروازہ کھلا قافلہ باہر نکل گیا اور دروازہ بند ہوگیا
قافلہ قلعے سے دور ہی دور ہوتا گیا اور سورج افق کے عقب میں چھپنے لگا سورج نے غروب ہوکر قافلے اور قلعے کو چھپا لیا قلعے میں قندیلیں اور فانوس جل اٹھے شام پوری طرح تاریک ہوگئی تو شیخ سنان نے اپنے دربان سے پوچھا وہ صلیبی لڑکی کو لے کر نہیں آیا؟
اسے نفی میں جواب ملا اس نے تین چار بار پوچھا تو بھی اسے نفی میں جواب ملا اس نے اپنے خصوصی خادم کو بلا کر کہا اس صلیبی سے جاکر کہو کہ چھوٹی لڑکی کو لے کر جلدی آئے خادم ان کمروں میں گیا جہاں صلیبی ٹھہرا کرتے تھے وہاں کوئی نہیں تھا لڑکیاں بھی نہیں تھیں تمام کمرے خالی تھے اس نے ادھر ادھر دیکھا قلعے کے باغ میں گھوم پھر کر دیکھا چٹان کے اردگرد گھوم کر دیکھا وہاں سے بھی مایوس لوٹا اور شیخ سنان سے کہا کہ صلیبی اور لڑکیاں نہیں ملیں سنان نے آسمان سر پر اٹھا لیا اپنی فوج کے کمانڈر کو بلا کر حکم دیا کہ قلعے کے کونوں کھدروں کی تلاشی لو اور صلیبی کو برآمد کرو فوج میں کھلبلی مچ گئی جسے دیکھو بھاگ دوڑ رہا تھا قلعے میں ہر طرف قندیلیں اور مشعلیں متحرک نظر آتی تھیں صلیبی کہیں سے بھی نہ ملا شیخ سنان نے ان آدھ درجن پہرہ داروں کو بلایا جو دروازے پر ڈیوٹی پر تھے ان سے پوچھا کہ گمشتگین کے قافلے کے علاوہ کس کے لیے دروازہ کھولا گیا تھا انہوں نے بتایا کہ حکم کے بغیر کسی کے لیے دروازہ نہیں کھولا جاتا اور گمشتگین کے علاوہ کسی اور کے لیے کھولا ہی نہیں گیا انہوں نے گمشتگین کے قافلے کی تفصیل بھی بتائی اس قافلے کے ساتھ صلیبی اور لڑکیاں نہیں تھیں
شیخ سنان اپنے کمرے میں پھنکار رہا تھا رات کا پہلا پہر گزر گیا تھا گمشتگین کا قافلہ چلا جارہا تھا اس نے اپنا گھوڑا روک کر شتر بانوں سے کہا اونٹوں کو بٹھاؤ اور انہیں باہر نکالو مر ہی نہ جائیں
اونٹوں کو بٹھا کر ان پر لدے ہوئے خیمے اتارے گئے خیمے کھولے گئے تو ان میں سے صلیب تھیریسیا اور لزا نکلیں وہ پسینے میں نہائے ہوئے تھے گمشتگین انہیں خیموں میں لپیٹ کر قلعہ عصیات سے نکال لایا تھا وہ قلعے سے بہت دور نکل گئے تھے فدائیوں سے ایسی توقع نہیں رکھی جاسکتی تھی کہ وہ تعاقب میں آئیں گے یہ فرقہ جنگجو نہیں تھا کسی کے ساتھ آمنے سامنے کی لڑائی کا خطرہ مول نہیں لیا کرتا تھا پھر بھی گمشتگین نے قافلے کو قیام نہ کرنے دیا لڑکیوں کو اونٹوں پر سوار کردیا گیا صلیبی چھاپہ ماروں کے ساتھ پیدل چل پڑا اس کا گھوڑا اور لڑکیوں کے گھوڑے قلعے میں رہ گئے تھے صلیبی اس خطے کی زبان روانی سے بولتا تھا
اس نے الناصر کے ساتھ باتیں شروع کردیں ان باتوں میں دوستی اور پیار کا رنگ غالب تھا الناصر کے دل سے خطرے نکل گئے وہ تو لزا کے قریب ہونا چاہتا تھا لزا کے قریب ہونے کا موقعہ آدھی رات کے بعد ملا جب ایک جگہ قافلے کو قیام کے لیے روکا گیا گمشتگین کے لیے خیمہ کھڑا کردیا گیا باقی سب کے لیے الگ الگ خیمے نصب کیے گئے چھاپہ مار اور باڈی گارڈز وغیرہ کھلے آسمان تلے لیٹ گئے وہ بہت تھکے ہوئے تھے فوراً ہی سوگئے الناصر کو نیند نہیں آرہی تھی وہ سوچ رہا تھا کہ لزا کو خیمے سے جگا لائے یا وہ خود آجائے گی وہ بھول گیا تھا کہ وہ چھاپہ مار ہے اور اس کی فوج کہیں لڑ رہی ہے اسے یہ خیال بھی نہ آیا کہ اسے اپنی فوج میں جانا ہے اور فرار کا یہ موقعہ نہایت اچھا ہے جب سب بے ہوشی کی نیند سوگئے ہیں گھوڑے بھی ہیں ہتھیار بھی ہیں اور خوردونوش کا سامان بھی ہے اس کے ساتھی اسی پر بھروسہ کیے سو گئے تھے وہ اپنے کمانڈر کی ہدایات کے پابند تھے انہیں معلوم نہیں تھا کہ ان کا کمانڈر اپنی عقل اپنا ایمان اور اپنا جذبہ ایک نوجوان لڑکی کے سپرد کرچکا ہے عورت اپنی تمام تر تباہ کاری کے ساتھ اس کے اعصاب پر سوار ہوچکی تھی
اسے ایک سایہ چلتا نظر آیا جو کسی مرد کا نہیں تھا وہ آہستہ آہستہ اٹھ کر بیٹھا پاؤں پر سرکا اور سوئے ہوئے ساتھیوں سے دور ہٹ گیا سایہ ادھر ہی آرہا تھا ذرا دیر بعد دو سائے ایک دوسرے میں جذب ہوگئے لزا الناصر کو سوئے ہوئے قافلے سے کچھ دور ایک ٹیلے کی اوٹ میں لے گئی اس رات وہ پہلے سے زیادہ جذباتی معلوم ہوتی تھی الناصر کی جذباتی کیفیت میں دیوانگی آگئی تھی لزا جذباتیت کا اظہار زبان سے کم اور حرکات سے زیادہ کررہی تھی اس نے اچانک پرے ہٹ کر کہا الناصر! ایک بات بتاؤ تمہاری زندگی میں کبھی کوئی عورت داخل ہوئی ہے؟
ماں اور بہن کے سوا میں نے کسی عورت کو کبھی ہاتھ نہیں لگایا الناصر نے جواب دیا تم نے میری زندگی دیکھ لی ہے میں نوجوانی میں نورالدین زنگی کی فوج میں شامل ہوگیا تھا جہاں تک یادیں پیچھے جاتی ہیں میں اپنے آپ کو میدان جنگ میں ریگستان میں اپنے ساتھیوں سے دور دشمن کے علاقوں میں خون بہاتا اور بھیڑیوں کی طرح شکار کی تلاش میں پھرتا دیکھتا ہوں میں جہاں بھی ہوتا ہوں اپنے فرض سے کوتاہی نہیں کرتا میرا فرض میرا ایمان ہے وہ چونک اٹھا ذرا سی دیر کچھ سوچ کر اس نے پوچھا لزا تم نے شاید میرے ایمان کی بنیاد ہلا دی ہے مجھے بتاؤ تم لوگ مجھے اور میرے ساتھیوں کو کہاں لے جارہے ہو مجھے یہ بتاؤ کہ تمہارے دل میں میری محبت ہے یا مجھے دیکھ کر تم حیوان بن جاتے ہو؟
لزا نے ایسے لہجے میں پوچھا جس میں پیار اور مذاق کی ہلکی سی بھی جھلک نہیں تھی اس کا انداز گزشتہ رات کی نسبت بدلا ہوا تھا
تم نے مجھے کہا تھا کہ محبت کو ناپاک نہ کرنا الناصر نے کہا میں تم پر ثابت کروں گا کہ میں حیوان نہیں تم مجھے یہ بتاؤ کہ تمہاری قوم میں ایک سے ایک بڑھ کر خوبرو جنگجو تنومند اور اونچے رتبے والا مرد موجود ہے تم کسی بادشاہ کے سامنے چلی جاؤ تو وہ تخت سے اتر کر تمہارا استقبال کرے گا پھر تم نے مجھ میں کیا دیکھا ہے؟
لزا نے کوئی جواب نہ دیا الناصر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا مجھے جواب دو لزا لزا نے سر گھٹنوں پر رکھ دیا الناصر کو اس کی سسکیاں سنائی دیں وہ پریشان ہوگیا اس نے بار بار اس سے پوچھا کہ وہ کیوں رو رہی ہے وہ روتی رہی الناصر نے اسے اپنے بازوؤں میں لے لیا تو لزا نے سر اس کے سینے پر رکھ دیا الناصر سمجھ نہ سکا کہ جس طرح اس کی اپنی ذات سے انسانی فطرت کی بنیادی کمزوری ابھر کر اس کی عقل پر غالب آگئی تھی اسی طرح لزا بھی ایک کمزوری کی گرفت میں آگئی تھی یہ وہ کمزوری تھی جو ملکہ کو اپنے غلام کے آگے جھکا دیتی ہے اور جو دولت کے انبار کو پتھروں کا ڈھیر سمجھ کر اپنے دل کی تسکین کے لیے کسی کٹیا میں جا بیٹھتی ہے لزا محبت کی پیاسی تھی وہ محبت جو روح کو مطمئن کردے اسے جسمانی محبت ملی تھی اور ان مردوں سے ملی تھی جن سے اسے نفرت تھی اس نے عصیات کے قلعے کی طرف جاتے ہوئے اور قلعے میں پہنچ کر بھی تھیریسیا کے آگے اپنے جذبات کا اظہار کردیا تھا وہ کچھ سوچے سمجھے بغیر الناصر کے پاس جابیٹھی تھی اور اسے کہا تھا مجھ پر بھروسہ کرنا اس وقت اس کے دل میں کوئی فریب کاری نہیں تھی یہ اس کے دل کی آواز تھی وہ اپنی روح کی رہنمائی میں الناصر کے پاس چلی گئی تھی اگر اسے تھیریسیا وہاں سے اٹھا نہ لے جاتی تو لزا نہ جانے الناصر سے اور کیا کچھ کہتی پھر اسے الناصر کو پھانسنے کو کہا گیا اس نے یہ کمال بھی کر دکھایا مگر اس کا دل ساتھ نہیں دے رہا تھا یہ اس کا فرض تھا جو اس نے ادا کیا تھا وہ اپنے دل اور فرض کے درمیان بھٹک گئی تھی الناصر کو معلوم نہیں تھا کہ تھوڑی دیر پہلے جب قافلہ رکا تو خیمے نصب کیے جارہے تھے تو گمشتگین نے لزا کے کان میں کہا تھا
سب سو جائیں تو میرے خیمے میں آجانا تمہاری قوم کی بھیجی ہوئی بہترین شراب پیش کروں گا تمہیں بڑی استادی سے شیخ سنان سے بچا کر لایا ہوں لزا نے اسے کوئی جواب نہیں دیا تھا اس سے ہٹی تو صلیبی نے اسے کہا خدا نے تمہیں اس بوڑھے درندے سے بچا لیا ہے تھیریسیا سوجائے تو میرے خیمے میں آجانا جشن منائیں گے لزا کو اپنی خوبصورتی اور اپنے جسم سے نفرت ہونے لگی وہ اپنے خیمے میں چلی گئی تھی تھیریسیا سو گئی لزا کی آنکھ نہ لگی وہ اٹھی اور دبے پاؤں الناصر کی طرف چل پڑی الناصر اسی کے خیال اور انتظار میں جاگ رہا تھا وہ الناصر کو کوئی جواب دینے ہی لگی تھی کہ الناصر نے چونک کر کہا سنو تمہیں کوئی آہٹ سنائی دے رہی ہے؟ 
گھوڑے آرہے ہیں دھمک بڑی صاف ہے لزا نے کہا سب کو جگا دیں شیخ سنان نے ہمارے تعاقب میں سپاہی بھیجے ہوں گے الناصر دوڑ کر ٹیلے پر چڑھ گیا اسے بہت سے مشعلیں نظر آئیں جو گھوڑوں کی چال کے ساتھ اوپر نیچے اوپر نیچے ہورہی تھیں گھوڑوں کے قدموں کی آوازیں بلند ہوتی جارہی تھیں الناصر دوڑتا نیچے آیا لزا کو اپنے ساتھ لیا اور سوئے ہوئے قافلے کی طرف دوڑا سب کو جگا دیا اس نے اپنے چھاپہ ماروں کو ساتھ لیا اور ٹیلے کے قریب لے گیا لزا کو اپنے ساتھ رکھا سب کے پاس برچھیاں اور تلواریں تھیں گمشتگین کے باڈی گارڈ اور شتربان بھی برچھیوں اور تلواروں سے مسلح ہوکر مقابلے کے لیے تیار ہوگئے وہ پندرہ سولہ سوار تھے
چھ سات کے ہاتھوں میں مشعلیں تھیں انہوں نے آتے ہی قافلے کو گھیرے میں لے لیا ایک نے للکار کر کہا دونوں لڑکیاں ہمارے حوالے کردو شیخ سنان نے کہا ہے کہ دونوں لڑکیاں دے دو گے تو خیریت سے جاسکو گے الناصر تجربہ کار چھاپہ مار تھا اس نے اپنے چھاپہ مار پہلے ہی گھیرے سے دور کرکے چھپا لیے تھے اس نے اشارہ کیا اور وہ تین چھاپہ ماروں کے ساتھ ان سواروں پر ٹوٹ پڑا جو اس کے سامنے تھے چھاپہ ماروں نے پیچھے سے برچھیاں ان کے جسموں میں داخل کردیں سوار گرے تو الناصر نے اپنے ساتھیوں سے بلند آواز سے کہا ان کے گھوڑوں پر سوار ہو جاؤ ایک گھوڑا اس نے پکڑ لیا اس پر سوار ہوا تو اپنے پیچھے لزا کو بٹھا لیا اسے کہا کہ بازو مضبوطی سے اس کی کمر کے گرد لپیٹ لے سنان کے فدائیوں نے ہلہ بول دیا انہوں نے مشعلیں پھینک دی تھیں یہ جلتی رہیں الناصر اور اس کے چھاپہ ماروں نے بہت مقابلہ کیا ایک گھوڑے کے سرپٹ دوڑنے کی آواز آئی جو دور ہٹتی گئی وہ گمشتگین تھا جو جان بچا کر بھاگ گیا تھا فدائیوں نے الناصر کے گھوڑے پر لڑکی دیکھ لی تھی اسے وہ زندہ پکڑنے کی کوشش کررہے تھے تین تین چار چار گھوڑے اسے گھیرے میں لیتے اور سوار برچھیوں سے اس کے گھوڑے کو زخمی کرنے کے لیے برچھیوں کے وار کرتے تھے الناصر تجربہ کار لڑاکا سوار تھا اس نے اپنے گھوڑے کو بچائے رکھا اور دو فدائی گرا لیے اسے دوڑتا گھوڑا یکلخت روکنا اور تیزی سے موڑنا پڑتا تھا لزا کے پاؤں رکابوں میں نہیں تھے ایک بار الناصر کو گھوڑا تیز رفتار پر ہی موڑنا پڑا لزا سنبھل نہ سکی اور گر پڑی فدائی گھوڑوں سے کود آئے لزا الناصر کی طرف دوڑی لیکن دو فدائیوں نے اسے پکڑ لیا الناصر نے گھوڑے کو ایڑی لگائی اور برچھی تانی فدائیوں نے لزا کو آگے کردیا الناصر کو اپنے ساتھیوں کے متعلق کچھ علم نہیں تھا اسے بھاگتے دوڑتے گھوڑوں کی اور برچھیاں اور تلواریں ٹکرانے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں وہ تین چار فدائیوں میں اکیلا تھا اس کا ہر وار خالی جارہا تھا کیونکہ وہ ان کے قریب آتا تھا تو فدائی لزا کو آگے کردیتے تھے آخر وہ بھی گھوڑے سے کود گیا بے جگری سے لڑا زخمی ہوا اور اس نے دو فدائیوں کو گرا لیا اس نے ایک بار چلا کر کہا خاموش رہو لزا یہ تمہیں نہیں لے جاسکیں گے
الناصر نے یہ کرکے بھی دکھا دیا کہ فدائی لزا کو نہ لے جاسکے اس نے فدائیوں کو بری طرح زخمی کرکے پھینک دیا اس معرکے میں وہ قیام گاہ سے دور ہٹ گئے تھے الناصر نے ایک گھوڑا پکڑا لزا کو اس پر سوار کیا خود اس کے پیچھے سوار ہوا اور گھوڑے کو ایڑی لگا دی لیکن بھاگا نہیں معرکہ خاموش ہوگیا تھا اس نے جاکر دیکھا وہاں صرف لاشیں تھیں اور دو تین فدائی زخموں سے تڑپ رہے تھے اس کے تینوں ساتھی مارے گئے تھے صلیبی بھی مرا پڑا تھا تھیریسیا لاپتہ تھی الناصر نے زیادہ انتظار نہ کیا آسمان کی طرف دیکھا قطبی ستارے کا اندازہ کیا اور گھوڑے کو اس رخ پر ڈال دیا بہت دور جاکر اس نے گھوڑا روک لیا اب بتاؤ تم کہاں جانا چاہتی ہو اس نے لزا سے پوچھا میں تمہیں صرف اس لیے اپنے ساتھ نہیں لے جاؤں گا کہ تم تنہا رہ گئی ہو اور مجبور ہو کہو تو تمہیں تمہارے علاقے میں لے چلتا ہوں قید ہوگیا تو پرواہ نہیں کروں گا تم امانت ہو
اپنے ساتھ لے چلو لزا نے کہا الناصر! مجھے اپنی پناہ میں لے لو گھوڑا رات بھر چلتا رہا صبح طلوع ہوئی تو الناصر نے علاقہ پہچان لیا یہیں کہیں اس نے ایک بار اپنے جیش کے ساتھ شب خون مارا تھا الناصر کے کپڑے خون سے لال ہوگئے تھے دونوں نے گھوڑے سے اتر کر پانی پیا گھوڑے کو پانی پلایا الناصر نے زخم دیکھے کوئی زخم گہرا نہیں تھا خون رک گیا تھا اس نے اس ڈر سے زخم نہ دھوئے کہ خون جاری ہوجائے گا لزا ٹہلتی ٹہلتی ایک طرف نکل گئی الناصر اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے چٹان کے دوسری طرف گیا لزا بیٹھی ہوئی تھی الناصر کی طرف اس کی پیٹھ تھی وہاں ہڈیاں بکھری ہوئی تھیں جو انسانوں کی معلوم ہوتی تھیں کھوپڑیاں تھیں پسلیوں کے پنجر تھے ہاتھوں ٹانگوں اور بازوؤں کی ہڈیاں بھی تھیں ان کے درمیان تلواریں اور برچھیاں پڑی تھیں
لزا ایک کھوپڑی کو سامنے رکھے بیٹھی تھی کسی عورت کی کھوپڑی معلوم ہوتی تھی چہرے پر کہیں کہیں کھال تھی سر کے لمبے لمبے بال کچھ سر کے ساتھ تھے باقی ادھر ادھر بکھرے ہوئے تھے سینے کا پنجرہ کھال کے بغیر تھا پسلیوں میں ایک خنجر اترا ہوا تھا گلے کی ہڈی پر سونے کا ہار پڑا تھا اس پنجرے کے اردگرد چیتھڑے پڑے تھے جو ریشمی کپڑے کے تھے الناصر آہستہ آہستہ چلتا لزا کے پیچھے جاکھڑا ہوا لزا کھوپڑی میں کھو گئی تھی اچانک اس نے اپنے دونوں ہاتھ کانوں پر رکھے اور بڑی ہی زور سے چیخ ماری وہ تیزی سے اٹھ کر گھومی الناصر نے اسے بازوؤں میں لے کر سینے سے لگا لیا لزا نے اپنا چہرہ الناصر کے سینے میں چھپا لیا اس کا جسم تھرتھر کانپ رہا تھا الناصر اسے چشمے تک لے گیا جب وہ اپنے آپ میں آئی تو الناصر نے اس سے پوچھا کہ اس نے چیخ کیوں ماری تھی؟
مجھے اپنا انجام نظر آگیا تھا لزا نے اداس لہجے میں کہا تم نے وہ خشک لاش دیکھی ہوگی کسی عورت کی ہے یہ کوئی مجھ جیسی ہوگی اس نے میری طرح حسن کے جادو چلائے ہونگے ہر کسی کے لیے سہانا فریب بنی رہی ہوگی اور کہتی ہوگی کہ اس کے حسن کو زوال نہیں اور وہ سدا جوان اور ہمیشہ زندہ رہے گی تم نے اس کی پسلیوں کے پنجرے میں خنجر پھنسا ہوا دیکھا ہے؟ 
گلے میں ہار دیکھا ہے؟ 
یہ ہار اور یہ خنجر جو کہانی سناتے ہیں وہ میری کہانی ہے اور دوسری جو کھوپڑیاں بکھری پڑی ہیں اور ان کے ساتھ جو تلواریں اور برچھیاں پڑی ہیں وہ سو بار سنی ہوئی کہانی سناتی ہیں میں نے یہ کبھی توجہ سے نہیں سنی تھی آج اس عورت کی کھوپڑی دیکھی تو مجھے یوں نظر آیا جیسے یہ میری اپنی کھوپڑی ہو اس خشک کھوپڑی پر گوشت چڑھ گیا تو میرا چہرہ بن گیا میں نے ایک گدھ کو دیکھا جو میرے چہرے سے آنکھیں نکال رہا تھا ایک بھیڑیئے کو دیکھا جو میرے گلابی گالوں کو نوچ رہا تھا ان مردار خوروں نے میرا چہرہ کھا لیا اور پیچھے کھوپڑی رہ گئی مجھے ایسے نظر آیا جیسے کھوپڑی کے جبڑے اور خوفناک دانت ہل رہے ہوں مجھے آواز سنائی دی یہ ہے تمہارا انجام اور میرے دل کو کسی خوفناک چیز نے دانتوں میں جکڑ لیا کچھ دنوں بعد وہاں جاکر دیکھنا جہاں ہم پر فدائیوں نے حملہ کیا تھا 
الناصر نے کہا وہاں بھی تمہیں یہی منظر نظر آئے گا لاشوں کے پنجر کھوپڑیاں تلواریں اور برچھیاں اور شاید ان سے کچھ دور تھیریسیا کی کھونپڑی بھی پڑی مل جائے اس کے سینے میں بھی خنجر اترا ہوا ہوگا وہ سب عورت کے لیے مرے ہیں یہ سب بھی عورت کے لیے مرے ہیں اگر میں نے اپنی روش نہ چھوڑی تو ایک روز صحرا میں گدھ اور بھیڑئیے میرے اس جسم کا گوشت نوچ رہے ہوں گے جس پر مجھے ناز ہے اور جسے حاصل کرنے کے لیے کوئی جان پیش کرتا ہے کوئی دولت لزا نے کہا مگر انسان عبرت حاصل نہیں کرتا ان کی تباہی اور بربادی نہیں دیکھتا جو اس سے پہلے اس زمین پر اپنے اوپر حسن دولت اور جسمانی طاقت کا نشہ طاری کرکے تکبر اور غرور سے چلتے پھرتے تھے میں نے اپنے آپ کو پہچان لیا ہے اپنی اصلیت جان لی ہے تم بھی سن لو الناصر! خدا نے تمہیں مردوں کی طاقت اور مردانہ حسن دیا ہے تمہیں جو عورت دیکھے گی وہ تمہارے قریب آنے کی خواہش کرے گی دیکھ لو تم بھی جاکر اپنا انجام دیکھ لو وہ ایسے انداز سے بول رہی تھی جیسے اس پر آسیب کا اثر ہو اس کی شوخیاں اور فریب کاریاں ختم ہوچکی تھیں وہ کسی تارک الدنیا فقیر کے لہجے میں بول رہی تھی
میں تمہیں اپنی اصلیت بتا دوں؟
اس نے الناصر سے پوچھا میں تمہیں دکھا دوں کہ میری پسلیوں کے پنجرے میں کیا ہے؟
اس نے اپنے سینے پر ہاتھ مارا اور چپ ہوگئی اس کا ہاتھ سونے کے اس ہار پر جالگا تھا جس میں جواہرات بھی تھے اس نے ہار کو مٹھی میں لیا زور سے جھٹکا دیا ہار ٹوٹ کر اس کے ہاتھ میں آگیا اس نے ہار چشمے میں پھینک دیا انگلیوں سے انگوٹھیاں اتاریں جن میں ہیرے جڑے ہوئے تھے یہ بھی چشمے میں پھینک دئیے کہنے لگی میں ایک فریب ہوں الناصر! میں نے تمہیں بھی فریب دیا تھا
میرے دل میں تمہاری محبت بھی پیدا ہوگئی تھی مگر اس پر میرے فرض کی بدروح کا بھی اثر تھا یہ بہت اچھا ہوا کہ فدائیوں نے ہم پر حملہ کردیا اور یہ اور زیادہ اچھا ہوا کہ میں نے اپنی زندگی میں اپنی کھوپڑی دیکھ لی ورنہ میں بتا نہیں سکتی کہ جہاں ہم تمہیں لے جارہے تھے وہاں تم پر کیا روپ چڑھا دیا جاتا میری محبت کا کیا حشر ہوتا تم ایک بہت بڑے فریب کا شکار ہونے جارہے تھے میں اب جھوٹ نہیں بولوں گی تمہیں اس مقصد کے لیے لے جایا جارہا تھا کہ میں اپنی خوبصورتی اور محبت کے جھانسے سے تمہاری عقل پر قبضہ کرلوں اور تمہارے ہاتھوں صلاح الدین ایوبی کو قتل کرایا جائے گمشتگین قلعہ عصیات میں اس لیے گیا تھا کہ شیخ سنان اسے صلاح الدین ایوبی کے قتل کے لیے کرائے کے قاتل دے دے سنان نے بتایا کہ اس نے چار فدائی بھیج رکھے ہیں اگر یہ بھی ناکام ہوگئے تو وہ آئندہ اس کام کے لیے کوئی فدائی نہیں بھیجے گا کیونکہ وہ بہت سے کارآمد فدائی ضائع کرچکا ہے آخر یہ سودا طے ہوا کہ گمشتگین تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو اپنے ساتھ لے جائے اور سیف الدین کے قتل کے لیے تیار کرے اتنے میں ہمارا افسر آگیا اس نے فیصلہ کیا کہ ایوبی کا قتل ضروری ہے
یہ کبھی ممکن نہیں ہوسکتا کہ میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے سائے کو بھی میلی نگاہ سے دیکھوں الناصر نے کہا دنیا کی کوئی طاقت مجھے اتنا بے عقل نہیں بنا سکتی لزا ہنس پڑی کہنے لگی میں نے دل سے اپنے فرائض کو قبول نہیں کیا ورنہ ہم فولاد کو بھی پانی بنا دیا کرتی ہیں اس نے الناصر کو تفصیل سے بتایا کہ اس کے فرائض اور جذبات میں کتنا تضاد ہے اس نے یہ بھی بتایا کہ وہ سیف الدین کے پاس رہی ہے اس نے پوچھا کیا تم مجھ جیسی ناپاک لڑکی کو قبول کرلو گے؟
میں سچے دل سے اسلام قبول کرلوں گی اگر تم نے سچے دل سے توبہ کرلی ہے تو میرے لیے یہ گناہ ہوگا کہ میں تمہیں قبول نہ کروں الناصر نے کہا لیکن سلطان صلاح الدین ایوبی کی اجازت کے بغیر میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا دل سے بوجھ اتار دو اگر تم پاکیزہ زندگی بسر کرنا چاہتی ہو تو ایسی زندگی تمہیں صرف ہمارے مذہب میں ملے گی اس نے پوچھا کیا تمہیں معلوم ہے کہ جو فدائی ہمارے سلطان کے قتل کے لیے گئے ہیں وہ کس بھیس میں گئے ہیں اور قاتلانہ حملہ کس طرح کریں گے؟
کچھ علم نہیں لزا نے جواب دیا میرے سامنے اس سے زیادہ کوئی بات نہیں ہوئی کہ چار فدائی بھیجے گئے ہیں ہمیں اڑ کر ترکمان پہنچنا ہوگا الناصر نے کہا مجھے سلطان اور اس کے محافظوں کو خبردار کرنا ہے اس نے لزا کو اپنے آگے گھوڑے پر بٹھا لیا اور ایڑی لگا دی اتنی حسین لڑکی اس کے سینے سے لگی ہوئی تھی اس کے ریشم جیسے بال اس کے گالوں میں لہرا رہے تھے مگر اس کے ذہن میں سلطان ایوبی سما گیا تھا فرض نے اس کے جذبات کو سلا دیا تھا مقصد نے اسے مرد میدان اور انسان کامل بنا دیا تھا اور لزا کی تو جیسے روح ہی بدل گئی تھی وہ اس قوی اور تنو مند جوان کے قبضے میں اور اس کے رحم وکرم پر تھی لیکن اسے جیسے احساس ہی نہیں تھا کہ وہ مرد ہے اور یہ ایک نوجوان لڑکی اگر کوئی واعظ برسوں وعظ سناتا رہتا تو لزا پر کچھ اثر نہ ہوتا الناصر نے خاموش زبان سے یہ حقیقت اس کے دل میں اتار دی کہ وہ پاکیزہ زندگی بسر کرنا چاہتی ہے تو ایسی زندگی اسے اسلام میں ملے گی سلطان صلاح الدین ایوبی کو قلعہ اعزاز کے قلعہ دار کا جواب آگ بگولہ کیے ہوئے تھا
اسے یہ قلعہ سر کرنا تھا اور فوراً بعد حلب کو محاصرے میں لے کر یہ شہر لینا تھا اسے بوزا اور منبج کے دو قلعے لڑے بغیر مل گئے تھے ان میں جو دستے تھے انہیں اس نے اپنی فوج میں شامل کرکے ان کی جگہ اپنے دستے بھیج دئیے تھے اور وہ اعزاز اور حلب کی طرف پیش قدمی کی سکیم بنا رہا تھا اس نے حسب معمول دیکھ بھال کے لیے اپنے فوجی اس علاقے میں بھیج رکھے تھے جہاں اسے آگے بڑھنا اور محاصرہ کرنا تھا جاسوسوں نے اسے حلب اور اعزاز کے دفاعی انتظامات بتا دئیے تھے سلطان ایوبی خود بھی آگے چلا جاتا تھا اور اپنی آنکھوں زمین کے خدوخال اور دیگر جنگی کوائف کا جائزہ لیتا تھا ایسے دوروں کے دوران وہ اپنا جھنڈا ساتھ نہیں رکھتا تھا اور اپنے محافظوں (باڈی گارڈز) کو بھی ساتھ نہیں لے جاتا تھا تاکہ دشمن کو پتہ نہ چل سکے کہ یہ صلاح الدین ایوبی ہے وہ گھوڑا بھی کسی دوسرے کا استعمال کرتا تھا اس کے گھوڑے کو جس کے سفید رنگ پر کہیں کہیں گہرے لال دھبے تھے دشمن کے سالار پہچانتے تھے
اسے کہا گیا تھا کہ وہ محافظوں کے بغیر اتنی دور نہ نکل جایا کرے لیکن اس نے اپنی حفاظت کی کبھی پرواہ نہیں کی تھی اب تو اس پر جنون سا طاری تھا وہ اپنے مسلمان دشمنوں کو ناکوں چنے چبوا چکا تھا ان کے تابوت میں آخری کیل گاڑنی رہ گئی تھی وہ علاقہ ایسا تھا کہ چٹانیں اور ٹیلے بھی تھے اور کہیں کہیں درختوں کے جھنڈ بھی کچھ حصے میں گہرے کھڈ بھی تھے ایسے علاقے میں سلطان ایوبی کا محافظوں کے بغیر گھومنا پھرنا خطرناک تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سلطانِ محترم! اس کی انٹیلی جنس کے سربراہ حسن بن عبداللہ نے ایک روز اسے جھنجھلا کر کہا خدانخواستہ آپ پر قاتلانہ حملہ کامیاب ہوگیا تو سلطنت اسلامیہ آپ جیسا کوئی دوسرا پاسبان پیدا نہیں کرسکے گی ہم قوم کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے آنے والی نسلیں ہماری قبروں پر لعنت بھیجیں گے کہ ہم آپ کی حفاظت نہ کرسکے تھے
اگر خدا کو یہی منظور ہے کہ مجھے کسی فدائی یا صلیبی کے ہاتھوں قتل ہونا ہے تو میں ایسی موت کو کیسے روک سکتا ہوں سلطان ایوبی نے کہا بادشاہ جب اپنی جان کی حفاظت میں مگن ہوجاتے ہیں تو وہ ملک اور قوم کی آبرو کی حفاظت کے قابل نہیں رہتے اگر مجھے قتل ہونا ہے تو مجھے اپنا فرض جلدی جلدی ادا کرلینے دو مجھے محافظوں کا قیدی نہ بتاؤ مجھ پر بادشاہی کا نشہ طاری نہ کرو تم جانتے ہو مجھ پر کتنے قاتلانہ حملے ہوچکے ہیں اللہ تعالیٰ نے مجھے ہر بار بچا لیا ہے اب بھی بچا لے گا
اس کا ذاتی عملہ اس کی سلامتی کے لیے پریشان رہتا تھا پچھلی کہانیوں میں وہ تمام قاتلانہ حملے بیان کیے گئے ہیں جو اس پر ہوئے تھے ہر حملے کے وقت وہ اکیلا تھا لیکن اس کا محافظ دستہ قریب ہی تھا جو ہر بار وہاں پہنچ گیا اب سلطان ایوبی نے یہ طریقہ اختیار کرلیا تھا کہ وہ اپنے ذاتی عملے اور محافظوں کو کسی جگہ کھڑا کرکے خود ٹیلوں اور چٹانوں میں غائب ہوجاتا تھا  حسن بن عبداللہ نے یہ انتظام کررکھا تھا کہ محافظ دستے کے چند ایک آدمی دور دور رہ کر سلطان ایوبی پر نظر رکھتے تھے یہ کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ بہت دنوں سے چار آدمی ویرانوں میں گھوم پھر رہے ہیں اور وہ سلطان ایوبی پر نظر رکھتے ہیں یہی وہ چار فدائی تھے جن کے متعلق قلعہ عصیات میں شیخ سنان نے گمشتگین کو بتایا تھا کہ سلطان ایوبی کے قتل کے لیے بھیجے گئے ہیں ان چاروں نے دیکھ لیا تھا کہ سلطان ایوبی محافظوں کے بغیر گھومتا پھرتا رہتا ہے چنانچہ انہوں نے یہ منصوبہ ترک کردیا تھا کہ جنگ زدہ علاقے کے پناہ گزینوں کے روپ میں سلطان ایوبی کے پاس جائیں گے اور اسے قتل کردیں گے سلطان ایوبی انہیں بڑا اچھا موقعہ دے رہا تھا ان چار فدائیوں کی سکیم اچھی تھی ان کی کمزوری یہ تھی کہ وہ اپنے ساتھ تیروکمان نہیں لائے تھے کیونکہ پکڑے جانے کا خطرہ تھا اگر ان کے پاس ایک بھی کمان ہوتی تو وہ کسی بھی جگہ چھپ کر سلطان ایوبی کو نشانہ بنا سکتے تھے وہاں چھپنے کی جگہیں بہت تھیں آسانی سے فرار ہوا جاسکتا تھا ان کے پاس لمبے خنجر تھے ادھر سے الناصر لزا کو گھوڑے پر بٹھائے تیزی سے آرہا تھا لزا نے اسے بتا دیا تھا کہ چار فدائی سلطان ایوبی کے قتل کے لیے گئے ہوئے ہیں الناصر بہت جلدی سلطان ایوبی تک پہنچنا اور اسے خبردار کرنا چاہتا تھا مگر سفر لمبا تھا اور گھوڑے پر دو سواروں کا بوجھ تھا گھوڑا اتنی لمبی مسافت دوڑتے ہوئے طے نہیں کرسکتا تھا اس نے راستے میں گھوڑے کو آرام دیا پانی پلایا اور پھر چل پڑا ادھر سلطان ایوبی اپنی حفاظت سے بالکل ہی بے نیاز ہوگیا تھا اور چار فدائی چھپ کر اسے دیکھ رہے تھے اس علاقے میں کوئی فوج نہیں تھی کوئی آبادی بھی نہیں تھی فدائی جنگ کے درندوں کی طرح شکار کی تلاش میں رہتے اور رات وہیں گزار لیتے تھے
سورج غروب ہوگیا الناصر اور لزا کا گھوڑا چلتا رہا اس کی چال بتا رہی تھی کہ اس کی رفتار کم ہوگی بڑھے گی نہیں الناصر نے بوجھ کم کرنے کے لیے گھوڑے سے چھلانگ لگا دی اور لگام پکڑ کر پیدل چلنے لگا رات گزرتی جارہی تھی لزا نے الناصر سے تین چار بار کہا کہ وہ اور زیادہ سواری نہیں کرسکتی اس کی ہڈیاں بھی دکھنے لگی تھیں وہ کچھ دیر آرام کرنا چاہتی تھی لیکن الناصر جو خود تھکن پیاس اور بھوک سے بے حال ہوا جارہا تھا نہ رکا اس نے لزا سے کہا تمہاری اور میری جان سے سلطان صلاح الدین ایوبی بہت زیادہ قیمتی ہے اگر میں رک گیا اور سلطان ایوبی قتل ہوگیا تو میں سمجھوں گا کہ میں اپنے سلطان کا قاتل ہوں صبح طلوع ہوئی الناصر اب قدم گھسیٹ رہا تھا لزا گھوڑے پر سر رکھے سوئی ہوئی تھی گھوڑا معمولی سی چال چل رہا تھا ایک جگہ پانی اور گھاس دیکھ کر گھوڑا رک گیا لزا نے نیند سے چونک کر کہا خدا کے لیے اسے مت گھسیٹو اسے ذرا کھا پی لینے دو گھوڑے نے پانی پی لیا تو الناصر اس کی لگام پکڑ کر چل پڑا گھوڑا دوڑنے کے قابل نہیں رہا تھا الناصر بھی تھک ہار کر سوار ہوگیا لزا کا رنگ پیلا پڑ چکا تھا اس کے منہ سے بات بھی نہیں نکلتی تھی الناصر کو یہ تو معلوم ہی نہیں تھا کہ سلطان ایوبی کہاں ہوگا وہ ترکمان کو جارہا تھا سلطان ایوبی آگے چلا گیا تھا جسے بعد میں کوہ سلطان کا نام دیا گیا تھا مگر وہ اب وہاں بھی نہیں تھا اس مقام سے بھی آگے چلا گیا تھا
الناصر کو ترکمان اور کوہِ سلطان کی چٹانیں نظر آنے لگی تھیں اور وہ سوچ رہا تھا کہ کس طرف سے جائے سورج بہت اوپر آگیا تھا
اس وقت سلطان ایوبی ایک چٹانی ویرانے میں اپنے عملے کے ساتھ وہاں کا جائزہ لے رہا تھا اس نے عملے کو ایک جگہ رکنے کو کہا اور اکیلا ہی ایک طرف نکل گیا اس کے ذہن میں شاید اپنی فوج کی پیش قدمی کی کوئی سکیم تھی گھوڑے سے اتر کر وہ ایک چٹان پر چڑھ گیا چاروں فدائی اس چٹان سے تھوڑی ہی دور ایک جگہ چھپ کر اسے دیکھ رہے تھے وہ کچھ دیر اوپر کھڑا ادھر ادھر دیکھتا رہا نیچے آنے دو ایک فدائی نے اپنے ساتھیوں سے کہا اس کے محافظ قریب ہی کہیں چھپے ہوئے ہوں گے دوسرے نے کہا آج بچ کر نہ جائے ایک اور بولا صرف ایک آدمی آگے جائے گا چوتھے نے کہا وار پیچھے سے کرنا ضرورت پڑی تو باقی آگے جائیں گے سلطان ایوبی چٹان سے اترا اور گھوڑے پر سوار ہوکر کسی اور طرف چلا گیا فدائی اس کے پیچھے پیچھے گئے حملے کے لیے یہ جگہ موزوں نہیں تھی الناصر ابھی بہت دور تھا سلطان ایوبی ایک بار پھر گھوڑے سے اترا ایک اور چٹان پر چڑھا تھوڑی دیر بعد وہاں سے اترا اور گھوڑے کی لگام پکڑ کر پیدل چل پڑا فدائی اس سے ذرا ہی دور چھپے ہوئے تھے سلطان ایوبی ایک جگہ سے گھوم گیا آگے میدان تھا وہ گھوڑے پر سوار ہونے ہی لگا تھا کہ اسے دوڑتے قدموں کی آہٹ سنائی دی ایک فدائی ایک فٹ لمبا خنجر ہاتھ میں لیے اس سے دو تین قدم دور رہ گیا تھا سلطان ایوبی نے دیکھ لیا سلطان ایوبی نے اپنا خنجر نکالا فدائی نے وار کردیا سلطان ایوبی نے اس کی خنجر والی کلائی کے آگے اپنی کلائی رکھ کر وار روکنے کی کوشش کی مگر فدائی تنومند تھا وار بڑی ہی طاقت سے کیاگیا تھا سلطان ایوبی نے وار کیا جو فدائی بچا گیا چٹان کی اوٹ سے ایک اور فدائی نکلا اس نے بھی وار کیا جو سلطان ایوبی نے بچا تو لیا لیکن اس کے کولہے کی کھال کو چیر گیا سلطان ایوبی گھوڑے کی اوٹ میں ہوگیا ایک فدائی ادھر آیا تو سلطان ایوبی نے بائیں ہاتھ کا گھونسہ اس کے منہ پر مارا وہ پیچھے کو گرنے لگا تو سلطان ایوبی نے خنجر اس کے دل کے مقام پر اتار کر زور سے ایک طرف کو جھٹکا دیا یہ فدائی ختم ہوگیا دوسرے نے اس کے پیچھے سے وار کیا لیکن سلطان ایوبی بروقت سنبھل گیا فدائی کے خنجر کی نوک سلطان ایوبی کے ایک بازو میں لگی یہ زخم بھی گہرا نہیں تھا
باقی دو فدائی بھی سامنے آگئے سرپٹ دوڑتے گھوڑوں کے ٹاپو سنائی دئیے جو آن واحد میں سلطان ایوبی کے قریب آگئے فدائی بھاگے ایک کو تو سواروں نے گھوڑوں تلے کچل ڈالا دوسرے کو مار ڈالا سلطان ایوبی کی پکار پر آخری فدائی کو زندہ پکڑ لیا گیا اللہ تعالیٰ نے سلطان صلاح الدین ایوبی کو اس حملے سے بھی بچا لیا اس پر جس وقت حملہ ہوا اس کا عملہ اس سے ساتھ آٹھ سو گز دور ایک بلندی پر کھڑا تھا اتفاق سے ان میں سے کسی نے دیکھ لیا ورنہ یہ حملہ ناکام ہونے والا نہیں تھا
یہ قاتلانہ حملہ مئی ١١٧٦ء (ذی القعد ٥٧١ ہجری) کا ہے اس کے متعلق مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے قاضی بہاؤالدین شداد نے اپنی ڈائری میں اتنا ہی لکھا ہے کہ صلاح الدین ایوبی قلعہ اعزاز کے محاصرے کے لیے جارہا تھا کہ چار فدائیوں نے اس پر قاتلانہ حملہ کیا اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسے بچا لیا میجر جنرل (ریٹائرڈ) محمد اکبر خان (رنگروٹ) نے متعدد حوالوں سے لکھا ہے کہ سلطان ایوبی قلعہ اعزاز کے محاصرے کے دوران دن کے وقت اپنے ایک سالار جاوالا سدی کے خیمے میں سویا ہوا تھا جب ایک فدائی نے خیمے میں جاکر اس پر خنجر سے وار کیا اتفاق سے سلطان ایوبی کے سر پر وہ مخصوص پگڑی تھی جو وہ میدان جنگ میں پہنا کرتا تھا اسے تربوش کہتے تھے حملہ آور کا خنجر تربوش میں لگا اور سلطان ایوبی جاگ اٹھا فوراً ہی چار پانچ فدائی اندر آگئے اور ان کے ساتھ ہی سلطان ایوبی کے باڈی گارڈ بھی اندر آگئے جنہوں نے فدائیوں کو ہلاک کرڈالا جنرل موصوف نے لکھا ہے کہ یہ فدائی کچھ عرصے سے دھوکے میں سلطان ایوبی کے محافظ دستے میں شامل ہوگئے تھے
یورپی مورخوں نے لکھا ہے کہ حملہ آور سلطان ایوبی کے اپنے باڈی گارڈ تھے ان مورخین نے سلطان ایوبی کے خلاف یہ شہادت مہیا کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ اپنی فوج میں بالکل مقبول نہیں تھا یہاں تک کہ اس کے باڈی گارڈ تک اس کے وفادار نہیں تھے اس وقت کے وقائع نگاروں کی غیر مطبوعہ تحریروں سے یہی کہانی سامنے آتی ہے جو سنائی گئی ہے فدائی نہ اس کے محافظ دستے میں تھے نہ کسی دھوکے سے حملہ آور ہوئے تھے 
انہیں سلطان ایوبی اکیلا مل گیا تھا
جو فدائی پکڑا گیا تھا اس نے بیان دیا کہ وہ چاروں قلعہ عصیات سے آئے ہیں اسے حسن بن عبداللہ کے حوالہ کردیا گیا جس نے اس سے قلعہ عصیات کے متعلق تمام تر معلومات لے لیں یہ بھی پوچھ لیا کہ اندر کتنی فوج ہے اور اس کے لڑنے کی اہلیت کیسی ہے یہ معلومات سلطان ایوبی کو دی گئیں کل رات کے آخری پہر ہم عصیات کی طرف کوچ کریں گے سلطان ایوبی نے کہا اس نے اپنی ہائی کمانڈ کے سالاروں کو بلایا اور کہا فدائیوں کا یہ اڈا اکھاڑنا ضروری ہوگیا ہے اس پر فوراً قبضہ کرنا ہے فوج کا تیسرا حصہ کافی ہوگا اس نے بتایا کہ کتنی نفری جائے گی اور اس کی ترتیب کیا ہوگی اس شام سلطان ایوبی کو اطلاع دی گئی کہ الناصر نام کا ایک چھاپہ مار واپس آیا ہے حسن بن عبداللہ الناصر سے ساری رپورٹ لے چکا تھا اسے سلطان ایوبی کے سامنے پیش کرنا ضروری تھا الناصر کو بڑی ہی بری حالت میں پیش کیا گیا مسلسل سفر بھوک اور پیاس نے اسے ادھ مؤا کردیا تھا اس کے ساتھ لزا تھی اس کا رنگ اڑا ہوا اور جسمانی حالت دگرگوں تھی الناصر نے سلطان ایوبی کو پوری تفصیل سے سنایا کہ اس پر کیا گزری ہے اس نے کوئی بات پوشیدہ نہ رکھی لزا کے متعلق بھی سب کچھ بتایا سلطان ایوبی نے لزا سے پوچھا کہ وہ اپنے متعلق فیصلے میں آزاد ہے لزا شاید اپنے آپ کو قیدی سمجھ رہی تھی اور اسے بہت برے سلوک کی توقع تھی لیکن یہاں معاملہ الٹ تھا اس نے الناصر کے ساتھ رہنے کی خواہش ظاہر کی اسے بتایا گیا کہ اسے دمشق بھیج دیا جائے گا جہاں وہ نورالدین زنگی کی بیوہ کی تحویل میں رہے گی اور الناصر اسے کچھ عرصے کے بعد ملے گا دراصل اس قسم کی لڑکیوں کو ان کی جذباتی باتوں سے متاثر ہوکر قابل اعتماد نہیں سمجھا جاتا تھا دمشق میں انہیں عزت اور آرام سے رکھا جاتا تھا اور ان کی خفیہ نگرانی کی جاتی تھی الناصر کو زخموں کے علاج اور آرام کے لیے پچھلے کیمپ میں بھیج دیا گیا شیخ سنان کا غصہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا گمشتگین اسے دھوکہ دے گیا تھا اس نے گمشتگین کے قافلے کے تعاقب میں جو آدمی بھیجے تھے ان میں سے صرف دو واپس آئے تھے وہ تھیریسیا کو اٹھا لائے تھے لزا کو الناصر بچا لے گیا تھا شیخ سنان تھیریسیا سے انتقام لے رہا تھا اسے اس نے قید میں ڈال رکھا تھا تھی تو وہ بھی بہت ہی خوبصورت لڑکی لیکن شیخ سنان کی نظر لزا پر تھی
دن کا پچھلا پہر تھا عصیات کے قلعے کی دیواروں پر کھڑے سنتریوں نے دور گرد کے بادل اٹھتے دیکھے گرد آگے ہی آگے آ رہی تھی سنتری دیکھتے رہے حتیٰ کہ گرد میں سینکڑوں گھوڑے نظر آنے لگے پھر پیادہ فوج نظر آئی سنتریوں نے نقارے بجا دئیے کمانڈروں نے اوپر جاکر دیکھا شیخ سنان کو اطلاع دی وہ بھی سامنے والی دیوار پر چڑھ گیا اس وقت فوج قلعے کے قریب آکر محاصرے کی ترتیب میں ہورہی تھی شیخ سنان نے مقابلے کا حکم دے دیا قلعے کی دیواروں پر تیرانداز پہنچ گئے لیکن انہوں نے کوئی تیر نہ چلایا کیونکہ وہ باہر کی فوج کا رویہ دیکھنا چاہتے تھے سلطان ایوبی کو قلعے کے اندر کی معلومات مل چکی تھیں الناصر اس کے ساتھ تھا دو منجینقیں نصب کردی گئی الناصر نے انہیں بتایا کہ شیخ سنان کا محل کہاں ہے اور کتنی دور ہے اس کی رہنمائی میں منجنیقوں نے پہلے بڑے پتھر پھینکے جو ٹھکانے پر پڑے سنان کے محل کی دیواروں میں شگاف پڑ گئے قلعے سے تیروں کا مینہ برس پڑا سلطان ایوبی کے حکم سے منجنیقوں سے آتش گیر مادے کی سربمہر ہانڈیاں اندر پھینکی گئیں یہ سنان کے محل کے قریب گر کر ٹوٹیں سیال مادہ دور دور تک پھیل گیا اسے آگ لگانے کے لیے فیتے والے آتشیں تیر چلائے گئے لیکن آتش گیر سیال پر نہ گرے تیر ٹھکانے پر پھینکنا آسان نہیں تھا انہیں قلعے کی دیوار کے اوپر سے اندر جانا تھا اتفاق سے قریب کہیں آگ جل رہی تھی ایک ہانڈی اس کے اتنا قریب پھٹی کہ آگ نے اس کے مادہ کو شعلہ بنا دیا دوسرے ہی لمحے سنان کا محل شعلوں کی لپیٹ میں آگیا وہاں بے شمار آتش گیر مادہ گر اور بہہ بہہ کر پھیل گیا تھا
شیخ سنان پر شعلوں نے دہشت طاری کردی اس کی فوج صلیبیوں اور مسلمانوں کی لڑاکا فوج نہیں تھی یہ نشے اور کابلی کی ماری ہوئی فوج تھی سنان نے حقیقت کو تسلیم کرلیا اور اس نے قلعے پر سفید جھنڈا چڑھا دیا سلطان ایوبی نے جنگ بندی کا حکم دے دیا اور کہا کہ شیخ سنان سے کہو کہ باہر آئے ہر طرف خاموشی طاری ہوگئی ذرا دیر بعد قلعے کا دوازہ کھلا اور شیخ سنان دو تین سالاروں کے ساتھ باہر آیا سلطان ایوبی اس کے استقبال کے لیے آگے نہیں بڑھا اس کی نگاہ میں سنان مجرم تھا وہ جب سلطان ایوبی کے سامنے آیا تو سلطان نے اسے اور اس کے سالاروں کو اتنا بھی نہ کہا کہ بیٹھ جاؤ سنان سلطان ایوبی نے کہا کیا چاہتے ہو؟
جان امان شیخ سنان نے شکست خوردہ آواز میں کہا اور قلعہ؟
سلطان ایوبی نے پوچھا مجھے آپ کا فیصلہ منظور ہوگا اپنی فوج کے ساتھ قلعے سے فوراً نکل جاؤ سلطان ایوبی نے کہا تم کوئی سامان اپنے ساتھ نہیں لے جاسکو گے اپنی فوج کو سمیٹو کسی کمان دار اور کسی سپاہی کے پاس کوئی اسلحہ نہ ہو یہاں سے خالی ہاتھ نکلو تہہ خانے میں جو قیدی ہیں انہیں وہیں رہنے دو اور یاد رکھو سلطنت اسلامیہ کی حدود میں نہ ٹھہرنا صلیبیوں کے پاس جاکر دم لینا تم نے اب کے جو چار فدائی میرے قتل کے لیے بھیجے تھے وہ بھی مارے گئے ہیں میں نے تمہیں بخش دیا ہے سفید جھنڈا تم نے چڑھایا ہے میں قرآن کے فرمان کا پابند ہوں میں کہہ نہیں سکتا خدا تمہیں معاف کریگا یا نہیں اپنے آپ کو مسلمان کہنا چھوڑ دو ورنہ میں تمہیں اور تمہارے فرقے کو بحیرۂ روم میں ڈبو کر دم لوں گا جب سورج غروب ہورہا تھا دور افق پر انسانوں کی لمبی قطار سرجھکائے چلی جارہی تھی شیخ سنان اسی قطار میں تھا اس قطار میں اس کے سپاہی اور اس کے سالار بھی تھے اور اس قطار میں اس کے پیشہ ور قاتل بھی تھے وہ اپنے ساتھ کچھ بھی نہیں لے جاسکے تھے ان کے گھوڑے اور اونٹ قلعے میں رکھ لیے گئے سورج غروب ہونے تک سلطان ایوبی کی فوج قلعے پر قبضہ مکمل کرچکی تھی تہہ خانے سے قیدیوں کو نکال لیا گیا تھا قلعے سے جو زروجواہرات برآمد ہوئے تھے ان کا کوئی شمار نہ تھا
سلطان ایوبی نے قلعہ ایک سالار کے حوالے کیا اور رات کو ہی کوہِ سلطان کو روانہ ہوگیا وہ اب زیادہ انتظار نہیں کرنا چاہتا تھا چند ہی دنوں میں اس نے پیش قدمی کی اور اعزاز کے قلعے کا جا محاصرہ کیا حلب والوں نے اس قلعے کو دفاعی لحاظ سے بہت مستحکم کررکھا تھا یہ دراصل حلب کا دفاع تھا اس میں جو فوج تھی وہ تازہ دم تھی میدان جنگ میں نہیں گئی تھی سلطان ایوبی کو ایسی خوش فہمی نہیں تھی کہ وہ اس قلعے کو فوراً سر کرلے گا یہ خطرہ بھی تھا کہ عقب سے حلب کی فوج حملہ کردے گی اس خطرے کو روکنے کا انتظام کرلیا گیا تھا سلطان ایوبی کو یہ فائدہ حاصل تھا کہ حلب کی فوج ترکمان کی لڑائی سے نقصان اٹھا کر آئی تھی اس کا لڑنے کا جذبہ مجروح ہوچکا تھا
قلعہ اعزاز کے دفاع میں لڑنے والوں نے بے جگری سے مقابلہ کیا تمام دن اور ساری رات انہوں نے سلطان ایوبی کی فوج کو قلعے کے قریب نہ آنے دیا دیواریں توڑنے والی پارٹیوں نے بہت کوشش کی کہ کسی جگہ سے دیوار کے قریب چلے جائیں اور دیوار توڑ سکیں لیکن تیر اندازوں نے انہیں قریب نہ آنے دیا اگلے دن بڑی منجنیقوں سے قلعے کے دروازے پر وزنی پتھر مارے گئے آتش گیر مادہ کی ہانڈیاں بھی دروازے پر پھینک کر آتشیں تیر چلائے گئے شعلوں نے دروازے کو چاٹنا شروع کردیا اوپر سے اعزاز کے تیر اندازوں نے منجنیقیں چلانے والوں پر بہت تیر برسائے یہ تیر بڑی کمانوں سے پھینکے جارہے تھے اس لیے دود تک آ جاتے تھے ان سے منجنیقیوں کے کئی آدمی زخمی اور شہید ہوئے لیکن اس قربانی کے بغیر قلعہ سر کرنا ممکن نہیں تھا ایک شہید ہوتا تو دوسرا اس کی جگہ لے لیتا تھا
دروازہ جل رہا تھا اور اس پر لگاتار پتھر پڑ رہے تھے بہت دیر بعد پتھر دروازے میں سے اندر جانے لگے شعلوں نے لکڑی کو کھا لیا تھا لوہے کا فریم باقی تھا جو پتھروں سے ٹیڑھا ہورہا تھا رات کو شعلے بجھ گئے دروازے کا آہنی ڈھانچہ رہ گیا اس میں سے پیادے گزر سکتے تھے گوڑھے گزارنا مشکل تھا یہاں جانبازی کی ضرورت تھی پیادہ دستوں کو حکم دیا گیا کہ دروازے کے ڈھانچے میں سے گزر کر اندر جائیں یہ سلطان ایوبی کے کریک ٹروپس تھے انہوں نے ہلہ بول دیا اعزاز کے سپاہیوں نے ان دستوں کا یہ حشر کیا کہ آگے جو گئے تھے انہیں وہیں ڈھیر کردیا پیچھے والے اپنے ساتھیوں کی لاشوں کے اوپر سے اندر گئے یہ معرکہ بڑا ہی خون ریز تھا اس سے یہ فائدہ اٹھایا گیا کہ دروازے کا آہنی ڈھانچہ توڑ لیا گیا جو پیادے زندہ تھے وہ اندر جاکر بکھر گئے اور خوب لڑے پھر گھوڑ سواروں کو اندر جانے کا حکم ملا سلطان ایوبی نے قلعے کے اندر آتش زنی کا حکم دے دیا ایک دستہ جگہ جگہ آگ لگانے لگا اعزاز کی فوج ہتھیار ڈالنے پر آمادہ نظر نہیں آتی تھی یہ قلعہ حلب سے نظر آتا تھا رات کو حلب والوں نے دیکھا کہ جہاں قلعہ ہے وہاں سے آسمان سرخ ہورہا ہے شعلے بلند ہورہے تھے یہ اطلاع تو حلب میں پہنچ چکی تھی کہ سلطان ایوبی نے اعزاز کو محاصرے میں لے رکھا ہے حلب کی ہائی کمانڈ نے اس امکان پر بھی غور کیا تھا کہ سلطان ایوبی پر عقب سے حملہ کیا جائے مگر سالاروں نے بتایا کہ فوج لڑنے کے قابل نہیں اس وقت سیف الدین حلب میں ہی تھا اور گمشتگین بھی وہیں چلا گیا تھا ان دونوں کے درمیان اعزاز اور حلب کے دفاع کے سلسلے میں ترش کلامی ہوئی جو اس حد تک بڑھی کہ گمشتگین نے سیف الدین کو قتل کی دھمکی دے دی سیف الدین نے اتحاد توڑ دیا اس کی جو بچی کھچی فوجی تھی وہ حلب سے نکال لے گیا یہ لوگ دراصل ایک دوسرے کے بھی دشمن تھے الملک الصالح کی عمر اب تیرہ برس سے کچھ اوپر ہوگئی تھی وہ سوچنے سمجھنے کے قابل ہوگیا تھا اس نے گمشتگین کا رویہ دیکھا تو اس نے محسوس کرلیا کہ اس کا یہ دوست سازشی ہے اس نے گمشتگین کو قید خانے میں ڈال دیا تاریخ میں تحریر ہے کہ گمشتگین نے ان حالات میں کہ حلب اور اعزاز محاصرے میں تھے الملک الصالح کے خلاف کوئی نئی سازش تیار کی تھی جس کا انکشاف ہوگیا اور اسے قید میں ڈال کر دو تین روز بعد قتل کردیا گیا آخر اعزاز کے محافظوں نے ہتھیار ڈال دئیے سلطان ایوبی کو اس کی بہت بڑی قیمت دینی پڑی اس کے جن دستوں نے قلعے کے اندر معرکہ لڑا تھا ان کی نفری آدھی رہ گئی تھی اعزاز والوں نے ثابت کردیا تھا کہ وہ بزدل نہیں سلطان ایوبی نے فوراً حلب کو محاصرے میں لے لیا حلب قریب ہی تھا حلب کے اندر جذبے کی یہ کیفیت تھی کہ رات اعزاز کے شعلوں نے انہیں دہشت زدہ کردیا تھا انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ ان کی فوج میں اتنا دم نہیں رہا کہ شہر کا دفاع کرسکے انہی شہریوں نے کچھ عرصے پہلے سلطان ایوبی کے چھکے چھڑا دئیے تھے اور اسے محاصرہ اٹھانا پڑا تھا مگر اب یہ شہر جیسے مر ہی گیا تھا محاصرے کے دوسرے دن الملک الصالح کا ایک ایلچی سلطان ایوبی کے پاس آیا وہ جو پیغام لایا وہ صلح کی پیش کش نہیں تھی یہ ایک ایسا جذباتی پیغام تھا جس نے سلطان ایوبی کو جھنجھوڑ ڈالا پیغام یہ تھا کہ نورالدین زنگی مرحوم کی بچی سلطان ایوبی سے ملنا چاہتی ہے اس بچی کا نام شمس النساء تھا یہ الملک الصالح کی چھوٹی بہن تھی عمر دس گیارہ سال تھی الملک الصالح جب دمشق سے حلب گیا تو اپنی بہن کو بھی ساتھ لے گیا تھا ان کی ماں رضیع خاتون بنت معین الدین (بیوہ نورالدین زنگی) دمشق میں ہی رہی تھی وہ سلطان ایوبی کی حامی تھی
سلطان ایوبی نے حلب کے ایلچی کو جواب دیا کہ بچی کو لے آئے بچی آگئی اس کے ساتھ الملک الصالح کے دو سالار تھے سلطان ایوبی نے بچی کو سینے سے لگا لیا اور وہ بہت رویا بچی کے ہاتھ میں الملک الصالح کا تحریری پیغام تھا جس میں اس نے شکست قبول کرلی تھی اور سلطان ایوبی کو سلطان تسلیم کرلیا تھا اس نے سلطان ایوبی کی اطاعت بھی قبول کرلی تھی اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ گمشتگین کو قتل کردیا گیا ہے اس لیے حرن بھی سلطان ایوبی کی ملکیت تصور کیا جائے تم لوگ بچی کو کیوں ساتھ لائے ہو؟
سلطان ایوبی نے سالاروں سے پوچھا یہ پیغام تم خود نہیں لاسکتے تھے؟
جواب سالاروں کو دینا چاہیے تھا لیکن انہوں نے بچی کی طرف دیکھا بچی نے سلطان ایوبی سے کہا ماموں جان! مجھے بھائی صالح نے بھیجا ہے آپ اعزاز کا قلعہ ہمیں دے دیں اور ہمیں حلب میں رہنے دیں ہم آئندہ آپ سے لڑائی نہیں کریں گے سلطان ایوبی نے بچی کے ساتھ آئے ہوئے سالاروں کو غضب ناک نظروں سے دیکھا وہ شرط منوانے کے لیے زنگی مرحوم کی بچی کو ساتھ لائے تھے
میں اعزاز کا قلعہ اور حلب تمہیں دیتا ہوں شمس النساء سلطان ایوبی نے بچی کو گلے لگا کر کہا اور حکم جاری کردیا کہ اعزاز کے قلعے سے اپنی فوج نکال لی جائے اور حلب کا محاصرہ اٹھا لیا جائے  اس نے حلب کے سالاروں سے کہا میں نے اعزاز اور حلب اس معصوم بچی کو دیا ہے تم بزدل بے غیرت اور ایمان فروش اس قابل بھی نہیں کہ تمہیں فوج میں رہنے دیا جائے
٢٤جون ١١٧٦ء (١٤ ذی الحج ٥٧١ ہجری) معاہدے پر دستخط ہوگئے سلطان ایوبی نے اعزاز اور حلب کو سلطنت اسلامیہ میں شامل کرلیا اور الملک الصالح کو نیم خودمختاری کی حیثیت دے دی اس کے فوراً بعد سیف الدین نے بھی سلطان ایوبی کی اطاعت قبول کرلی اور مسلمانوں کی آپس کی لڑائیوں کا دور ختم ہوگیا مگر قوم میں غدار اور ایمان فروش بدستور سرگرم رہے...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget