👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑🌴⭐قسط نمبر 𝟞 𝟠⭐🌴


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟞  𝟠⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ان سوالوں کا جواب دو اور میں تمہارے ساتھ قرآن کے نام پر وعدہ کرتا ہوں کہ جنگ ختم ہوتے ہی تمہیں رہا کردوں گا اس وقت تک پوری عزت سے تمہیں اپنے پاس رکھوں گا مجھے آپ کی قسم پر اعتبار نہیں ملزم نے کہا کیونکہ آپ قرآن سے منحرف ہوچکے ہیں
کیا میں مسلمان نہیں؟
مظفرالدین نے تحمل سے کہا آپ یقیناً مسلمان ہیں ملزم نے جواب دیا لیکن آپ قرآن کے نہیں صلیب کے وفادار ہیں میں اپنی توہین اس شرط پر برداشت کرلوں گا کہ میں نے جو پوچھا ہے وہ مجھے بتا دو مظفرالدین نے کہا تمہاری جان میرے ہاتھ میں ہے
آپ خدا کے ہاتھ سے میری جان چھین نہیں سکتے ملزم نے کہا آپ ہماری فوج میں رہ چکے ہیں آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ہماری فوج کا ہر سپاہی اپنی جان خدا کے سپرد کرچکا ہے میں آپ کو یہ بتا دیتا ہوں کہ میں اپنی فوج کا جاسوس ہوں اور میرا ساتھی بھی جاسوس تھا میں آپ کے کسی اور سوال کا جواب نہیں دوں گا میں زندہ ہوں میری کھال اتارنی شروع کر دیں
میرے منہ سے اپنے سوالوں کا جواب نہیں سن سکو گے اور میں آپ کو یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ شکست آپ کے مقدر میں لکھ دی گئی ہے اس کے ٹخنوں میں رسی ڈالو اور اس درخت کے ساتھ الٹا لٹکا دو مظفرالدین نے ایک درخت کی طرف اشارہ کرکے حکم دیا اور اپنے خیمے میں چلا گیا وہ دونوں ابھی تک نہیں آئے حسن بن عبداللہ سلطان ایوبی سے کہہ رہا تھا
ان کے پکڑے جانے کا تو کوئی خطرہ نہیں تھا ہمارے جاسوسوں کو یہاں پکڑنے والا کون ہے انہیں بہت دور بھی نہیں جانا تھا ہوسکتا ہے وہ پکڑے گئے ہوں سلطان ایوبی نے کہا وہ جو صبح کے گئے ہوئے شام کے بعد تک نہیں آئے وہ پکڑے گئے ہوں گے ان کا نہ آنا ظاہر کرتا ہے کہ یہاں پکڑنے والے موجود ہیں 
آج رات کچھ آدمی اور بھیج دو اور ذرا دور کے علاقے کی دیکھ بھال کراؤ وہ انہی دونوں جاسوسوں کے متعلق بات کررہے تھے سلطان ایوبی نے ہمیشہ اپنے جاسوسی کے نظام پر بھروسہ کیا اور دشمن کو اسی نظام کی رہنمائی میں ناکوں چنے چبوائے تھے مگر اب اس کا یہ نظام اس کے لیے بے کار ہوتا جارہا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کا مدمقابل اس کا شاگرد مظفرالدین تھا گزشتہ رات سلطان ایوبی کے ایک جاسوس کی لاش ترکمان سے کچھ دور ویرانے میں پڑی ملی تھی اس کے پہلو میں تیر اترا ہوا تھا مظفرالدین نے اپنے نائب سالاروں سے کہا تھا
اگر تم صلاح الدین ایوبی کے جاسوسوں کے خلاف اقدام کرسکو تو وہ اندھا اور بہرہ ہوجائے پھر تم اسے شکست دینے کی سوچ سکتے ہو اب سلطان ایوبی کے دو اور جاسوس لاپتہ ہوگئے تھے سلطان ایوبی ان دونوں واقعات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہتا تھا اس کے حکم پر حسن بن عبداللہ نے چھ چھاپہ مار جاسوس روانہ کردئیے
صبح کی آذان کی پہلی اللہ اکبر گونجی تو سلطان ایوبی کی آنکھ کھلی وہ خیمے سے باہر نکلا تو اس کے خادم نے مشعل جلا کر اس کے خیمے کے آگے رکھ دی ادھر سے ایک گھوڑ سوار گھوڑا دڑاتا آیا سلطان ایوبی کے سامنے رک کر وہ گھوڑے سے اترا اور کہا سلطان کا اقبال بلند ہو اپنے دائیں پہلو کے علاقے کے سامنے کسی فوج کی حرکت سنی گئی ہے دیکھ بھال کے لیے دو آدمی آگے گئے تھے انہوں نے تصدیق کی ہے کہ فوج آرہی ہے سلطان ایوبی نے مرکزی کمان کے سالاروں کے نام لے کر کہا کہ انہیں فوراً بلاؤ وہ زمین پر بیٹھ گیا اور تیمم کیا اس کے پاس وضو کے لیے وقت نہیں تھا وہیں قبلہ رو ہوکر اس نے مصلےٰ بچھائے بغیر نماز پڑھی مختصر الفاظ میں دعا مانگی اور اپنا گھوڑا منگوایا یہ مظفرالدین کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا سلطان ایوبی نے اپنے سالاروں سے کہا یہ صلیبی نہیں ہوسکتے ان کے آنے کی سمت یہ نہیں ہوسکتی اگر یہ اطلاع صحیح ہے کہ دشمن ہمارے دائیں پہلو کے دستوں کے سامنے اور دائیں سے آرہا ہے تو خیال رکھنا یہ دو طرفہ حملہ ہوگا اپنے کسی دستے کو پیچھے نہ ہٹنے دینا پیچھے ڈیڑھ ہزار قبروں کے گڑھے ہیں تمام لاشوں کو ابھی دفن نہیں کیا گیا یہ گڑھے ہمارے سواروں کی قبریں بن جائیں گے
سلطان ایوبی گھوڑے پر سوار ہوا اس کے محافظ دستے کے بارہ محافظ اس کے پیچھے چل پڑے وہ سوار تھے اس نے آدھی درجن تیز رفتار سوار قاصد بھی ساتھ لے لیے تھے اور ساتھ دو سالار بھی تھے اس نے گھوڑے کو ایڑی لگا دی اور ایک ایسی چٹان پر جا چڑھا جہاں سے وہ اپنے دائیں بازو کے سامنے کا علاقہ اور اپنے دستوں کو دیکھ سکتا تھا صبح کا دھندلکا چھٹنے لگا تھا وہ چٹان سے اترا اور دائیں بازو کے دستوں کے کمان داروں کو بلا کر حکم دیا کہ سواروں کو گھوڑوں پر سوار کردو اور پیادہ دستوں کے تیر اندازوں کو سامنے والے علاقے کے کھڈوں میں اور بلندیوں کے پیچھے مورچہ بند ہونے کو دوڑا دو اب سے دائیں پہلو کے دستوں کی اعلیٰ کمان میرے پاس ہوگی اس نے کمان داروں اور نائب سالاروں سے کہا اپنے قاصد اپنے ساتھ رکھ لو اور میرے ساتھ رابطہ رکھو سلطان ایوبی کی ٹریننگ میں نقل وحرکت کی برق رفتاری پر زیادہ زور دیا جاتا تھا کسی چال کے حکم کی تعمیل حیران کن رفتار سے ہوتی تھی مظفرالدین کی فوج ابھی اتنی قریب نہیں آئی تھی کہ سلطان ایوبی کے دستوں کی حرکات دیکھ سکتی مظفرالدین نے گھوڑ سواروں سے حملہ کیا جوں ہی اس کا پہلا سوار دستہ سلطان ایوبی کے دستوں کے سامنے والے علاقے میں آیا اس کی ترتیب خراب ہوگئی کیونکہ وہاں کھڈ اور ڈھیروں کی طرح نیکریاں تھیں ان کھڈوں میں سلطان ایوبی کے تیر انداز بیٹھ گئے تھے انہوں نے اپنے قریب سے اور اپنے اوپر سے گزرتے اور سرپٹ دوڑتے گھوڑوں پر تیر برسانا شروع کردئیے سوار گرنے لگے جس گھوڑے کو تیر لگتا تھا وہ بے لگام ہوکر ادھر ادھر بھاگنے دوڑنے لگتا تھا یہ تو ہر معرکے میں ہوتا تھا مظفرالدین کے لیے یہ صورت حال عجیب نہیں تھی البتہ اسے یہ پریشانی ہوئی کہ اس کی توقع کے خلاف سلطان ایوبی کے دائیں بازو کے دستے بیدار تھے اور مقابلے کے لیے تیار اس یلغار میں سلطان ایوبی کے بے شمار تیر انداز کچلے گئے اس قربانی سے سلطان ایوبی نے یہ فائدہ حاصل کیا کہ مظفرالدین کے حملے کی شدت ختم ہوگئی اب سلطان ایوبی جم کر لڑ سکتا تھا مظفرالدین یہ جو توقع لے کر حملہ آور ہوا تھا کہ وہ اچانک آ پڑے گا اور سلطان ایوبی کو وہ اپنی چالوں کا پابند کرکے اسے میدان جنگ میں اپنی پسند کے مطابق لڑاتا رہے گا اس کی یہ توقع ختم ہوگئی تھی
سلطان ایوبی اپنی چالیں چلنے کے لیے آزاد تھا اس کے چند ایک تیر اندازوں نے مظفرالدین کے گھوڑوں کے قدموں میں بیٹھ کر جانیں قربان کردی تھیں لیکن اپنے سلطان کو وہ بڑا ہی قیمتی جنگی فائدہ دے گئے تھے مظفرالدین کا حملہ آور دستہ کئی ایک گھوڑے اور ان کے سوار مروا کر آگے نکل آیا آگے سلطان ایوبی خود تھا اس نے حملہ آوروں کا پھیلاؤ دیکھا تو اس کے مطابق اپنے سواروں کو ایک حکم دے دیا حملہ آور قریب آئے تو سلطان ایوبی کے بائیں سواروں نے گھوڑے بائیں کو موڑے اور ایڑی لگا دی دائیں کے سواروں نے بھی ایسا ہی کیا حملہ آوروں کے سامنے کوئی مزاحمت نہ رہی مزاحمت کرنے والے دائیں اور بائیں بھاگ گئے تھے
حملہ آوروں کے کچھ گھوڑے دائیں کو مڑے کچھ بائیں کو زیادہ تر ناک کی سیدھ میں چلے آئے سلطان ایوبی کے دائیں بائیں کو بھاگنے والے سواروں نے اندر کو گھوڑے موڑے اب حملہ آوروں کے گھوڑوں کے پہلو ان کے سامنے تھے انہوں نے ایڑی لگا دی دونوں طرف سے سواروں نے ہلہ بولا تو ان کی برچھیوں کا کوئی وار خالی نہ گیا حملہ آور تو آگے کو دوڑے جارہے تھے وہ اپنے پہلوؤں کی حفاظت کرنے کے قابل ہی نہیں تھے
ان کی عافیت اسی میں تھی کہ وہ آگے کو نکل جائیں آگے ڈیڑھ ہزار قبریں تھیں حملہ آور کے پیچھے سلطان ایوبی کے سوار آرہے تھے صورت تعاقب کی بن گئی تھی حملہ آوروں کے گھوڑے کھلی قبروں سے گزرنے لگے مظفرالدین گھبرا جانے والا سالار نہیں تھا اس نے کم سے کم تعداد سے حملہ کرایا تھا اس سے اس نے میدان جنگ کا ذائقہ چکھ لیا اور صورت حال معلوم کرلی اس نے فوراً سواروں کی دوسری موج چھوڑ دی سلطان ایوبی کے سواروں نے گھوڑے روک لیے تھے کیونکہ وہ قبروں سے دور رہنا چاہتے تھے وہ اگلے حکم کی تعمیل کرنے ہی لگے تھے کہ مظفرالدین کے سواروں کا دوسرا دستہ ان کے سر پر آگیا انہیں سنبھلنے کی مہلت نہ ملی یہ عقبی حملہ تھا اس میں سلطان ایوبی کے سواروں کا بہت جانی نقصان ہوا کئی سوار آگے کو بھاگے اور ان کے گھوڑے قبروں میں گرے اس کے ساتھ ہی مظفرالدین نے دائیں طرف سے بھی حملہ کردیا سلطان ایوبی کے لیے صورت حال پریشان کن ہوگئی اس نے قاصد کو اس حکم کے ساتھ دوڑایا کہ محفوظہ عقب سے حملہ کرے سلطان ایوبی نے دائیں بازو کے دستوں کو جس طرح تقسیم کیا تھا وہ بے کار ہوگئی مظفرالدین اسی کے اصولوں پر لڑ رہا تھا مظفرالدین کی کمزوری یہ تھی کہ اس کے پاس کمک نہیں تھی سلطان ایوبی نے قاصوں کے ذریعے اپنے دستوں کے کمانڈروں سے رابطہ رکھ کر انہیں دائیں بائیں بکھیرنا شروع کردیا اور جب عقب سے اس کے محفوظہ نے حملہ کیا تو مظفرالدین کے اوسان خطا ہوگئے اس کا اپنا مرکز خطرے میں پڑ گیا لیکن اس نے نکل بھاگنے کی نہ سوچی مورخوں کے مطابق دن کے پچھلے پہر تک دونوں فوجوں نے معرکہ لڑا وہ بڑا ہی خون ریز اور بڑا ہی سخت تھا کمان سلطان ایوبی کے ہاتھ میں تھی ورنہ صورت حال کچھ اور ہوتی جہاں تک لڑنے کے جذبے کا اور جنگی قابلیت کا تعلق تھا مظفرالدین نے سلطان ایوبی کی زبان سے دادو تحسین کے کلمے کہلوا لیے تھے اسے شکست اس لیے ہوئی کہ اس کے پاس یہی کچھ تھا جو اس نے آخری بازی پر لگا دیا تھا وہ بازی ہار گیا معرکے کے آخری مرحلے میں سلطان ایوبی نے ریزرو سوار دستے سے ہلہ بولا مظفرالدین کی پوزیشن بہت کمزور ہوچکی تھی اس نے پسپائی میں خیریت سمجھی سلطان ایوبی نے بہت سے قیدی پکڑے جن میں مظفرالدین کا ایک مشیر فخرالدین بھی تھا یہ کوئی معمولی سا انسان نہیں تھا سیف الدین کا وزیر تھا ترکمان کے معرکے میں جب سیف الدین بھاگا تو فخرالدین مظفرالدین کے پاس چلا گیا تھا اور اس کی حوصلہ افزائی کی تھی کہ وہ سلطان ایوبی پر حملہ کرے
یہ معرکہ شوال ٥٧١ (اپریل ١١٧٢ء) میں لڑا گیا تھا بے شک مظفرالدین کو شکست ہوئی تھی اور سلطان ایوبی کے مسلمان دشمنوں کی کمر ٹوٹ گئی تھی مگر سلطان ایوبی کا اتنا زیادہ نقصان ہوا تھا کہ اگلے دو ماہ تک وہ ترکمان سے ہلنے کے قابل نہ رہا اس کا دایاں بازو ختم ہوگیا تھا جیسے اس کا اپنا بازو مفلوج ہوگیا ہو اس کے پاس نئی بھرتی آ رہی تھی لیکن وہ رنگروٹوں کے ساتھ پیش قدمی نہیں کرسکتا تھا اس نے اسی روز دمشق اور مصر قاصد دوڑا دئیے کہ کمک بھیجو اگر اس کا اتنا زیادہ نقصان نہ ہوتا تو وہ آگے جاکر حلب موصل اور حرن وغیرہ پر یلغار کرتا اور اپنے ان مسلمان دشمنوں کو جو فلسطین کے راستے میں حائل ہوگئے تھے راہ راست پر لے آتا یا ختم کردیتا یہ میری فتح نہیں سلطان ایوبی نے اس معرکے کے بعد اپنے سالاروں سے کہا یہ صلیبیوں کی فتح ہے وہ ہمیں کمزور کرنا چاہتے تھے وہ اس مقصد میں کامیاب ہوگئے ہیں انہوں نے میری پیش قدمی کی رفتار سست کرکے فلسطین پر اپنے قبضے کے عرصے کو کچھ اور طویل کرلیا ہے ہمارے یہ مسلمان بھائی کب سمجھیں گے کہ کفار ان کے دوست نہیں ہوسکتے اور ان کی دوستی میں بھی دشمنی ہوتی ہے میں کہہ نہیں سکتا کہ تاریخ لکھنے والے ہماری آنے والی نسلوں کو کن الفاظ میں سنائیں گے کہ ہم آپس میں لڑے تھے اسے ابھی یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کے بھائی جو اس سے شکست کھا کر بھاگ گئے ہیں اس کے قتل کا ایک اور منصوبہ بنا رہے ہیں اس مقصد کے لیے اس کا تیسرا دشمن گمشتگین حشیشین کے سردار شیخ سنان کے ہاں گیا ہوا تھا اس وقت شیخ سنان عصیات نام کے ایک قلعے میں مقیم تھا اسے یہ قلعہ صلیبیوں نے دیا تھا جس میں اس نے اپنی فوج رکھی ہوئی تھی اس قلعے میں اس کے پیشہ ور قاتلوں کا گروہ بھی تھا
عصیات اور ترکمان کے درمیان اس جہنم نما علاقے میں جہاں سلطان ایوبی کے چار چھاپہ مار بھولے بھٹکے پہنچ گئے تھے سورج افق کے قریب چلا گیا تھا چھاپہ ماروں کے کمانڈر الناصر کی آنکھ کھلی وہ اٹھ بیٹھا دونوں لڑکیاں جاگ رہی تھیں الناصر کے دل پر گھبراہٹ طاری ہوگئی ان لڑکیوں میں سے ایک نے اس کے ساتھ ایسی باتیں کی تھیں جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اس کے ساتھیوں کے ساتھ برا سلوک نہیں کریں گی پھر بھی الناصر ڈر گیا انہیں جگاؤ بڑی لڑکی نے کہا ہمیں دور جانا ہے ہمیں راستے پر ڈال کر جاؤ گی؟
الناصر نے پوچھا تم سب ہمارے ساتھ چلو گے لڑکی نے جواب دیا ہمارے بغیر تم منزل تک نہیں پہنچ سکو گے
الناصر نے اپنے ساتھیوں کو جگایا بڑی لڑکی نے چھوٹی لڑکی سے کچھ کہا وہ اٹھی اور دوسرے گھوڑے کے ساتھ بندھے ہوئے تھیلے سے کچھ نکالا پانی کا مشکیزہ کھولا مشکیزے کا منہ کھول کر اس نے تھیلے میں سے جو چیز نکالی تھی وہ مشکیزے میں ڈال دی اسے ہلایا اور مشکیزہ الناصر کو دے کر کہا پانی پی لو منزل تک شاید پانی نہ ملے
الناصر اور اس کے ساتھیوں نے پانی پی لیا بڑی لڑکی نے چاروں کو کچھ کھانے کو دیا کچھ دیر گزر گئی تو لڑکی نے تھیلے اور مشکیزے گھوڑے کی زینوں کے ساتھ باندھ دئیے سورج نیچے جارہا تھا
تم نے اس جگہ کو جہنم کہا تھا الناصر نے بلند آواز سے کہا یہاں تو سبزہ زار ہے تم نے اتنی جلدی یہاں کس طرح پہنچا دیا ہے؟
اس کے تینوں ساتھی حیرت سے ادھر ادھر دیکھ رہے تھے کیا تم تینوں کو بھی سبزہ زار نظر آرہا ہے؟
لڑکی نے پوچھا ہم سبزہ زار میں بیٹھے ہیں ایک نے کہا کیا تم ہماری جان تو نہیں لے لو گی؟
دوسرے نے کہا تم جنات میں سے ہو نہیں لڑکی نے مسکرا کر کہا ہم تمہیں اس سے زیادہ حسین خطے میں لے جارہے ہیں بڑی لڑکی نے الناصر اور اس کے ایک ساتھی کو پہلو بہ پہلو بٹھا کر دونوں کے گرد اپنے بازو لپیٹ دئیے اور بولی میری آنکھوں میں دیکھو دوسری لڑکی نے الناصر کے دوسرے دو ساتھیوں کو اسی طرح آمنے سامنے بٹھا کر اپنے بازو ان کے گرد ڈالے اور انہیں اپنی آنکھوں میں دیکھنے کو کہا چاروں چھاپہ ماروں کے کانوں میں بڑی لڑکی کے مترنم آواز داخل ہورہی تھی یہ تمہاری بہشت ہے ان پھولوں کے رنگ دیکھو ان کی مہک سونگھو ان میں جو پرندے اڑ رہے ہیں وہ دیکھو کتنے خوبصورت ہیں یہ تمہارا انعام ہے تمہارے پاؤں تلے مخمل جیسی گھاس ہے چشمے دیکھو ان کا شفاف پانی میٹھا ہے
لڑکی کی آواز جادو کی طرح ان چاروں کی عقل پر اور آنکھوں اور تمام حصوں پر غالب آتی جارہی تھی الناصر نے بعد میں حسن بن عبداللہ کو بیان دیا تھا اس میں اس نے بتایا کہ لڑکیوں کی آنکھوں میں دیکھ کر انہیں پانی کے شفاف چشمے نظر آنے لگے ان کے ریشم جیسے بال جو ان کے شانوں پر بکھرے ہوئے تھے کسی بڑے ہی دلکش پودے کی پھول دار بیلیں بن گئیں اور انہوں نے اپنے آپ کو ایک باغ میں پایا جس کے حسن کو اور جس کے پھولوں کے رنگوں کو بیان نہیں کرسکتا وہاں ریت اور مٹی کے لمبے لمبے ٹیلے نہیں تھے ریگزار نہیں تھا ہرے بھرے درخت اور پودے تھے اور نیچے مخمل جیسی گھاس کا فرش تھا رنگ برنگے پرندے پھدک اور چہچہا رہے تھے اور وہ اس بہشت میں چلے جارہے تھے
یہ پوسٹ اصلاح معاشرہ گروپ سے لی گئی ہے
اصلاح معاشرہ گروپ میں شامل ہونے کے لیے واٹس ایپ نمبر صفر تین صفر پانچ چار آٹھ پانچ چھ نو تین دو پر جواٸن لکھ کر میسج کریں
وہ چاروں مخمل جیسی جس گھاس پر چلے جارہے تھے وہ درحقیقت ریت تھی کہیں کہیں زمین سخت بھی تھی اور وہ چاروں ایک گیت گنگناتے جارہے تھے دونوں لڑکیاں ان سے چند قدم پیچھے گھوڑوں پر جارہی تھیں ان کا رخ ترکمان کی طرف نہیں تھا جہاں سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج تھی اور جو ان چاروں چھاپہ ماروں کی منزل تھی بلکہ ان کا رخ عصیات کے قلعے کی طرف تھا جہاں حشیشین کا سردار شیخ سنان رہتا تھا الناصر اور اس کے ساتھیوں کو کچھ علم نہیں تھا کہ وہ کدھر جارہے ہیں ان کا یہ احساس مردہ ہوچکا تھا کہ وہ جا نہیں رہے انہیں لے جایا جارہا ہے ان کے پیچھے پیچھے جاتی لڑکیاں آپس میں باتیں کررہی تھیں یہ باتیں چھاپہ ماروں کے کانوں تک نہیں پہنچ رہی تھیں سورج غروب ہوچکا تھا 
تم نے پانی میں انہیں حشیش کی جو مقدار پلائی ہے اس کا اثر کل شام تک رہے گا بڑی لڑکی نے کہا اور میں نے انہیں جو کھلایا ہے وہ تم نے دیکھا ہے ان سے تم بے فکر ہو جاؤ مجھے امید ہے کہ سورج نکلنے سے پہلے ہم عصیات پہنچ جائیں گے میں تو انہیں دیکھ کر ڈر گئی تھی چھوٹی لڑکی نے کہا یہ تمہارا کمال ہے کہ تم نے ان پر قابو پالیا اور ان پر یہ ظاہر کیا کہ ہم جنات ہیں یہ مسلمان جنات کے وجود کو مانتے ہیں یہ عقل کا کھیل تھا بڑی لڑکی نے کہا میں نے ان کی ذہنی حالت پر قبضہ کیا تھا ان کے چہرے اور ان کی چال ڈھال دیکھ کر میں سمجھ گئی تھی کہ صلاح الدین ایوبی کے فوجی ہیں اور راستے سے بھٹک گئے ہیں میں یہ بھی سمجھ گئی تھی کہ ہمیں دیکھ کر یہ چاروں ڈر گئے ہیں اگر ہم ڈر جاتیں اور عورتوں کی طرح بزدلی کا مظاہرہ کرتیں تو یہ چاروں ہمارے ساتھ وہ سلوک کرتے جو تم ساری عمر نہ بھول سکتی اس ویرانے میں کسی کو ہم جیسی لڑکیاں مل جائیں تو وہ انہیں بہنیں اور بیٹیاں نہیں سمجھا کرتا میں نے ان کی جسمانی حالت دیکھی پھر میں نے مسلمانوں کی یہ کمزوری سامنے رکھی کہ جنات کے معاملے میں یہ قوم توہم پرست ہے میں نے اپنے آپ کو جن بنا لیا اس جہنم میں ہم جیسی لڑکیوں کی موجودگی کو ان کی عقل تسلیم نہیں کرسکتی تھی ہمیں وہ تصور سمجھ سکتے تھے یا جنات میں نے ان سے جن انداز سے بات کی اس سے انہیں یقین ہوگیا کہ ہم جنات ہیں میں اس قوم کی جذباتی کمزوریوں سے واقف ہوں تمہیں ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے ذرا جلدی سیکھ لو ہم نے سیف الدین جیسے چالاک آدمی کو اپنے اشاروں پر نچا دیا ہے یہ تو سپاہی ہیں معلوم نہیں میں کیوں اس فن میں کامیاب نہیں ہورہی چھوٹی لڑکی نے کہا میرا دل ساتھ نہیں دیتا کوشش کرتی ہوں کہ تم جیسے کمالات دکھا سکوں لیکن دل سے آواز آتی ہے کہ یہ فریب ہے
پھر تم ان مردوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنی رہو گی بڑی لڑکی نے کہا تم پہلی بار باہر نکلی ہو میں نے دیکھا ہے کہ تم کامیاب نہیں ہوئی تم صرف داشتہ بنی رہی اس طرح تم صلیب کی کوئی خدمت نہیں کرسکتی تم اپنے جسم کو وقت سے بہت پہلے بوڑھا کر لوگی اور یہ مرد تمہیں اٹھا کر باہر پھینک دیں گے ہمارا مقصد یہ نہیں کہ مسلمان امراء اور حکمرانوں کے لیے تفریح کا سامان بنیں ہمیں ایک جادو بن کر ان کی عقل پر غالب آنا ہے ان چاروں فوجیوں میں تم نے توہم پرستی کی جو کمزوری دیکھی ہے وہ ہمارے صلیبی استادوں اور یہودیوں نے پیدا کی ہے تم نے دیکھا ہے کہ میں نے انہیں کتنی جلدی اپنے قبضے میں لے لیا ہے میں نے ان چاروں سے ایک بات کہی تھی یہ مجھے میرے استاد نے بتائی تھی وہ یہ تھی کہ انسان ایک لذت کی پیداوار ہے اور وہ ہمیشہ اس لذت کا خواہاں رہتا ہے اس خواہش کو دبانے کی کوشش بھی کرتا ہے ہمارا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں میں لذت پرستی ابھاری جائے کیونکہ یہی انسان کی وہ کمزوری ہے جو اسے تباہی تک پہنچاتی ہے تمہیں وہ رات یاد نہیں جب سیف الدین نے ہماری موجودگی میں اپنے ایک سالار سے کہا تھا کہ وہ اس پر غور کرنا چاہتا ہے کہ صلاح الدین ایوبی سے صلح کرلی جائے میں نے اسی رات اس کے دماغ سے یہ خیال نکال دیا تھا
عصیات پہنچ لیں تو یہ استادی مجھ میں بھی پیدا کرو چھوٹی لڑکی نے کہا مجھے اس کام سے نفرت سی ہوتی جارہی ہے میں ان مسلمان حاکموں کا کھولنا بنی رہی ہوں تم دامن بچا لیتی رہی میں نہیں بچا سکی کبھی کبھی کہیں بھاگ جانے کا ارادہ دل میں تڑپتا ہے مگر کوئی راستہ نظر نہیں آتا اور کوئی پناہ نہیں ملتی سب کچھ سیکھ جاؤ گی بڑی لڑکی نے کہا تمہیں میرے ساتھ تربیت کے لیے ہی بھیجا گیا تھا میں نے تمہاری کمزوریاں دیکھ لی ہیں یہ دور ہوجائیں گی
الناصر اپنے ساتھیوں کے ساتھ چلا جارہا تھا لڑکیوں نے گھوڑے ان سے آگے کرلیے تاکہ یہ چاروں راستے سے ہٹ نہ جائیں وہ ایک آواز میں گیت گاتے جارہے تھے ریت مٹی اور پتھر ان کے لیے گھاس بنے ہوئے تھے انہیں کسی دوسری طرف روانہ کردینا تھا چھوٹی لڑکی نے کہا انہیں عصیات لے جا کر کیا کروگی؟
اپنے پیر استاد شیخ سنان کے لیے اس سے بہتر اور کوئی تحفہ نہیں ہوسکتا بڑی لڑکی نے کہا یہ صلاح الدین ایوبی کے چھاپہ مار ہیں اور جاسوس بھی مجھے خاص طور پر بتایا گیا تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کا ایک جاسوس پکڑ کر اس کے ذہن کو اپنے قبضے میں لے لے تو سمجھو کہ تم نے اس کی فوج کے ایک ہزار سپاہی بے کار کردئیے ہیں ایوبی نے اپنے چھایہ ماروں اور جاسوسوں کو جو تربیت دے رکھی ہے اس سے وہ اوسط درجہ انسانوں سے بہت اوپر چلے گئے ہیں جسمانی لحاظ سے ان میں غیر معمولی پھرتی اور قوت برداشت ہوتی ہے اور ذہنی لحاظ سے یہ اپنے فرض کے دیوانے ہوتے ہیں ان چاروں نے جو شب خون مارے اور اس تھکن کے بعد صحرا میں جو مصیبت بھوک اور پیاس برداشت کی ہے وہ کوئی اور انسان برداشت نہیں کرسکتا ہماری فوج میں یہ جذبہ نہیں ہے ان چاروں کو میں شیخ سنان کے حوالے کروں گی اس کے آدمی جو اس فن کے ماہر ہیں ان چاروں کے اسی جذبے اور جسمانی خوبیوں کو اپنی طرف منتقل کرلیں گے تمہیں شاید معلوم نہ ہو کہ صلاح الدین ایوبی کو قتل کرنے کی کئی کوششیں ہوچکی ہیں مگر کامیاب ایک بھی نہیں ہوئی ان چاروں کو حشیش اور استادی کے ذریعے ایوبی کے قتل کے لیے تیار کیا جاسکتا ہے یہ اس کے اپنے چھاپہ مار ہیں اس تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں کیا صلاح الدین ایوبی پر اس طرح قابو نہیں پایا جاسکتا جس طرح سیف الدین گمشتگین وغیرہ کو اپنے قبضے میں لیا گیا ہے؟
چھوٹی لڑکی نے پوچھا نہیں بڑی لڑکی نے جواب دیا جو انسان لذت سے دست بردار ہوکر ایک مقدس مقصد کو دل میں بٹھائے اسے ہم جیسی حسین لڑکیاں اور سونے کے انبار راستے سے نہیں ہٹا سکتے ایوبی ایک بیوی کا قائل ہے نورالدین زنگی میں بھی یہی خرابی تھی کہ سلطان ہوکر بھی اس نے گھر میں ایک ہی بیوی رکھی اور مرتے دم تک اس کا وفادار رہا یہی خرابی صلاح الدین ایوبی میں ہے کوشش کی جاچکی ہے اس پتھر کو موم نہیں کیا جاسکا فلسطین پر قبضہ برقرار رکھنے کا یہی طریقہ رہ گیا ہے کہ ایوبی قتل کرادیا جائے مجھے ایسے آدمی اچھے لگتے ہیں جو ایک عورت کے وفادار رہتے ہیں چھوٹی لڑکی نے کہا میں صلیب کی پرستار ہوں اور صلیب کا مقصد سمجھنے کے باوجود کبھی کبھی سوچا کرتی ہوں کہ میں کسی ایک آدمی کے دل میں اتر جاؤں اور وہ میرے جسم اور میری روح کا حصہ بن جائے جذبات سے نکلو بڑی لڑکی نے اسے ڈانت کر کہا اپنے اس عظیم مقصد کو سامنے رکھو جو تمہیں صلیب نے دیا ہے اپنے حلف کو یاد کرو جو تم نے صلیب ہاتھ میں لے کر اٹھایا تھا میں جانتی ہوں تم جوان ہو اور جذبات پر قابو پانا آسان نہیں ہوتا لیکن صلیب ہم سے یہ قربانی مانگ رہی ہے
پراسرار قافلہ چلتا رہا الناصر اور اس کے ساتھی لڑکیوں کے گھوڑوں کے پیچھے پیچھے گاتے گنگناتے اور قہقہے لگاتے جارہے تھے جوں جوں رات گزرتی جارہی تھی ان کی منزل قریب آتی جارہی تھی
یہ لڑکیاں کون تھیں؟
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ اسی قبیل کی لڑکیاں تھیں جن کے متعدد قصے آپ پڑھ چکے ہیں صلیبی اور یہودی غیرمعمولی طور پر حسین اور دلکش بچیوں کو استادوں کے حوالے کرکے انہیں خصوصی تربیت دیتے تھے انہیں ذہنی تخریب کاری کردار کشی اور اپنے دشمن کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے ڈھنگ سکھاتے تھے انہیں سراپا لذت بنا دیا جاتا تھا لڑکپن میں انہیں یہ ٹریننگ دی جاتی تھی کہ اپنے دشمن کی سوچوں پر کس طرح قبضہ کیا جاتا ہے ان لڑکیوں میں شوخی اور بے حیائی پیدا کی جاتی تھی انہیں جذبات سے عاری کردیا جاتا تھا 
یہودی چونکہ مسلمانوں کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے تھے اس لیے وہ اپنی بچیاں صلیبیوں کے حوالے کردیا کرتے تھے صلیبی اپنی لڑکیوں کو بھی استعمال کرتے تھے اور ان علاقوں میں جن پر ان کا قبضہ تھا مسلمانوں کے قافلوں پر حملے کرتے اور کوئی خوبصورت بچی مل جائے تو اسے اٹھا لے جاتے تھے اسے اپنے مقاصد کے لیے تیار کرلیتے تھے
یہ دو لڑکیاں کچھ عرصہ پہلے تحفے کے طور پر صلیبیوں نے والئی موصل سیف الدین کو بھیجی تھیں آپ نے دیکھ لیا ہے کہ سیف الدین سلطان صلاح الدین ایوبی کا دشمن تھا ان دونوں لڑکیوں کو اس مقصد کے لیے بھیجا گیا تھا کہ ایک تو جاسوسی کرتی رہیں اور دوسرا یہ کہ سیف الدین کو کبھی یہ نہ سوچنے دیں کہ وہ سلطان ایوبی کے ساتھ صلح کرلے تیسرا مقصد یہ تھا کہ سلطان ایوبی کے خلاف جو مسلمان امراء متحد ہوگئے تھے انہیں اندر سے ایک دوسرے کے خلاف رکھا جائے یہ کام صرف ان دو لڑکیوں کے ہی ذمے نہیں تھا وہاں صلیبیوں کی پوری مشینری در پردہ کام کررہی تھی انہوں نے ایک مسلمانوں کا ایمان خرید لیا تھا یہ مسلمان ان کے لیے کام کررہے تھے
سیف الدین اتحادی فوج کا سالار اعلیٰ بن کر ترکمان کے مقام پر سلطان ایوبی پر حملہ کرنے گیا تو بادشاہوں کے دستور کے مطابق اپنے حرم کی چیدہ چیدہ لڑکیاں اور ناچنے والیاں بھی میدان جنگ میں ساتھ لے گیا یہ دو صلیبی لڑکیاں بھی اس کے ساتھ گئیں انہیں وہ مسلمان اور معصوم سمجھتا تھا مگر بڑی لڑکی اس کے اعصاب پر آسیب کی طرح غالب آگئی تھی حرم کی باقی لڑکیوں کو اس نے اپنا غلام بنا لیا تھا
سیف الدین نے جنگل میں جا منگل بنایا وہاں آندھی آئی جس کی آپ تفصیل پڑھ چکے ہیں اس آندھی میں فوزی نام کی ایک لڑکی اپنے بھائی کی لاش گھوڑے پر ڈالے سلطان ایوبی تک پہنچی اور اسے بتایا کہ تین اتحادی افواج اس پر حملہ کرنے کے لیے پہنچ چکی ہیں سلطان ایوبی نے تیزی سے حرکت کی اور سیف الدین کے لشکر پر حملہ کردیا آپ پڑھ چکے ہیں کہ سیف الدین کا لشکر بے خبری میں مارا گیا وہاں معرکہ جو لڑا گیا وہ یک طرفہ تھا میدان جنگ صلاح الدین ایوبی کے ہاتھ تھا سیف الدین اتحادی افواج کی کمان نہ سنبھال سکا صاف نظر آنے لگا کہ وہ بھاگ جائے گا یہ دو صلیبی لڑکیاں اس کے ساتھ تھیں وہ اکیلی نہیں تھیں صلیبیوں کے چند ایک مسلمان ایجنٹ سیف الدین کی فوج میں اچھے عہدوں پر تھے لڑکیوں کا ان کے ساتھ رابطہ تھا لڑکیاں انہیں اطلاعیں اور خبریں دیتی تھیں اور وہ انہیں صلیبیوں تک پہنچا دیتے تھے
انہوں نے دیکھا کہ جنگ کی صورتحال ایسی ہوگئی ہے کہ اتحادیوں کے سامنے پسپائی کے سوا کوئی راستہ نہیں تو ان دونوں لڑکیوں کو وہاں سے نکالنے کا ارادہ کیا صلیبیوں کی یہ لڑکیاں بہت قیمتی تھیں سیف الدین میدان جنگ میں بھاگا دوڑا پھر رہا تھا حرم کی لڑکیاں اس کی رہائش گاہ میں ایک خیمے میں اکٹھی ہوگئی تھیں یہ دو صلیبی لڑکیاں الگ کھڑی تھیں ان کے آدمی آگئے انہیں دو گھوڑے دئیے گھوڑوں کی زینوں کے ساتھ پانی کے چار چھوٹے مشکیزے اور دو تین تھیلوں میں کھانے کا سامان باندھ دیا خنجر بھی دئیے لیکن ان کا نہایت کارگر ہتھیار حشیش تھی اور اسی قسم کا ایک اور نشہ جس کا کوئی ذائقہ نہیں تھا کسی کو دھوکے میں پلایا جاتا تو اسے پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ پانی یا شربت میں اسے کچھ اور پلا دیا گیا ہے یہ دونوں نشہ آور اشیاء انہیں اس لیے ساتھ باندھ دی گئی تھیں کہ انہیں کسی مرد کے ساتھ کے بغیر سفر کرنا تھا راستے میں اگر وہ کسی کے ہتھے چڑھ جائیں تو اسے دھوکے میں یہ نشہ پلا کر بیکار کرنا تھا
رات کے وقت جب میدان جنگ میں کشت وخون ہورہا تھا یہ دونوں لڑکیوں کو گھوڑوں پر بٹھا کر دو آدمی ساتھ گئے ترکمان سے بہت دور تک یہ آدمی ساتھ رہے پھر لڑکیوں کو راستہ سمجھا کر واپس آگئے لڑکیوں کی منزل عصیات کا قلعہ تھا بڑی لڑکی ذہین تجربہ کار اور دلیر تھی وہ چھوٹی لڑکی کو ساتھ لے کر روانہ ہوگئی صبح تک وہ سرسبز علاقے سے دور نکل گئی تھیں اور اس علاقے میں داخل ہوگئیں جو اس خطے کا جہنم تھا لڑکیوں کو معلوم تھا کہ اس مقام پر آکر خشک پاٹ کے اندر اندر جانا ہے علاقہ ڈراؤنا تھا اور تنور کی طرح گرم تھا سورج سر پر آیا تو انہیں چٹان نظر آئی جو نیچے سے اندر کو گئی ہوئی تھی وہ اس کے نیچے رک گئیں کھانا کھا کر انہوں نے کچھ دیر آرام کیا اتنے میں انہیں الناصر اور اس کے تین ساتھی آتے دکھائی دئیے انہیں دیکھ کر بڑی لڑکی سمجھ گئی کہ یہ آدمی کس جسمانی اور ذہنی کیفیت میں ہیں اپنی تربیت کے مطابق اس نے کامیاب اداکاری کی جس سے الناصر ان دونوں کو واہمہ یا جن سمجھ بیٹھا لڑکی کی اداکاری کامیاب تھی اس نے انہیں پہلے تو پانی اور کھانا دیا پھر انہیں حشیش اور دوسرا نشہ پلا دیا اس نے اور اس کے ساتھ کی لڑکی نے انہیں نشہ پلا کر پھولوں سبزہ زار پرندوں اور مخمل جیسی گھاس کی جو باتیں کی تھیں وہ ان چاروں کے ذہن میں بہشت کا تصور پیدا کرنے کی کوشش تھیں یہ حسن بن صباح کا طریقہ تھا کہ لوگوں کو حشیش پلا کر ان کے ذہنوں میں بڑے حسین تصورات پیدا کیا کرتا اور انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا تھا اب ایک سو سال بعد شیخ سنان اس کا جانشین تھا یہ گروہ اب حشیشین یا فدائی کہلاتا تھا بڑی لڑکی کو اس کام کی تربیت حاصل تھی اسے یوں کہہ لیں کہ حشیش اور باتوں کی مدد سے اپنے شکار یا معمول کو ہپناٹائز کرلیا جاتا تھا جتنی دیر حشیش کا نشہ رہتا وہ آدمی اسی تصور کو حقیقت سمجھتا رہتا تھا جو اس کے ذہن میں پیدا کیا جاتا تھا
الناصر اور اس کے ساتھیوں کو اس لڑکی نے اپنے قبضے میں لے کر ایک مقصد تو یہ حاصل کرنا چاہا تھا کہ یہ چاروں ان پر دست درازی نہ کریں یا انہیں اپنے ساتھ نہ لے جائیں دوسرا مقصد اس وقت اس کے سامنے آیا تھا جب اسے پتہ چلا کہ یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے ان چھاپہ مار جاسوسوں میں سے ہیں جن کی اس نے بہت شہرت سنی اور جن سے اسے ڈرایا بھی گیا تھا اس کے تخریب کار ذہن نے سوچ لیا کہ ان آدمیوں کو شیخ سنان کے حوالے کیا جائے یہ اس کے کام آسکتے تھے ان دنوں سلطان ایوبی کو قتل کرنے کا ایک منصوبہ تیار ہورہا تھا اسی مقصد کے لیے حرن کا خودمختار حکمران گمشتگین قلعہ عصیات میں شیخ سنان کے پاس گیا ہوا تھا ترکمان میں مظفرالدین کے حملے کو ناکام کرکے سلطان ایوبی نے اپنے سالاروں سے کہا کہ اب جنگ ختم ہوئی ہے اس نے مال غنیمت سمیٹنے کا حکم دے دیا مال غنیمت بے انداز تھا غازی سیف الدین کے رہائشی کیمپ سے بے انداز سونا اور نقدی ملی تھی دشمن کی لاشوں سے بھی نقدی اور انگوٹھیوں وغیرہ کی شکل میں سونا ملا دیگر سازو سامان اور اسلحہ کا کوئی شمار نہ تھا سلطان ایوبی نے فوج کے کام کا سامان فوج میں تقسیم کیا دوسرا حصہ دمشق اور ان علاقوں کے غریبوں میں تقسیم کرنے کا حکم دیا جو مصر اور شام کی سلطنت (وحدت) میں آچکے تھے تیسرا حصہ مدرسہ نظام الملک کو دے دیا ایک یورپی مورخ لین پول کے مطابق ایوبی نے اسی مدرسے میں تعلیم حاصل کی تھی یہ مورخ لکھتا ہے کہ تاریخ میں واضح شہادت ملتی ہے کہ سلطان ایوبی نے مال غنیمت میں سے اپنے لیے کچھ بھی نہ رکھا
دوسرا مسئلہ جنگی قیدیوں کا تھا یہ سب مسلمان تھے سلطان ایوبی نے انہیں اکٹھا کرکے کہا کہ تم مسلمان ہو اور مسلمانوں کے خلاف لڑنے آئے تھے تمہاری شکست کی وجہ یہی ہے تمہارے حکمران تمہارے مذہب کے بدترین دشمن کے ساتھ دوستی کرکے اس کے ہاتھ مضبوط کررہے ہیں تمہاری دنیا بھی خراب ہوئی اور عاقبت بھی اپنے گناہ بخشوانے کا یہی ایک طریقہ ہے کہ اسلام کے سپاہی بن جاؤ اور اپنے قبلہ اول کو آزاد کراؤ سلطان ایوبی کی یہ تقریر جوشیلی اور جذباتی تھی جنگی قیدیوں میں بہت سے نعرے لگانے لگے انہوں نے اپنے آپ کو سلطان ایوبی کی فوج کے لیے پیش کردیا اس طرح سلطان ایوبی کی فوج میں تربیت یافتہ سپاہیوں اور عہدے داروں کا اضافہ ہوگیا اس کے باوجود سلطان ایوبی نے پیش قدمی ملتوی کردی فوج کی تنظیم نو کی ضرورت تھی اس نے دمشق اور قاہرہ سے کمک بھی منگوا بھیجی تھی زخمیوں کے علاج کا اس نے وہیں انتظام کردیا تھا دراصل مظفرالدین کے تصادم نے اس کی حالت کچھ زیادہ ہی خراب کردی تھی
عصیات کا قلعہ آج کے لبنان کی سرحد کے اندر تھا ایک مصری وقائع نگار محمد فرید ابو حدید کی تحریر کے مطابق قلعہ عصیات حسن بن صباح کے فرشتے حشیشین کا مرکز اور مستقر تھا اس قلعے میں شیخ سنان کی حکمرانی تھی جو حسن بن صباح کا جانشین تھا اس قلعے میں اس نے کچھ فوج بھی رکھی ہوئی تھی عصیات ذرا بڑا قلعہ تھا اس سے دور دور تین چار چھوٹے قلعے بھی تھے جو شیخ سنان کے حشیشین کے پاس تھے انہیں یہ قلعے صلیبیوں نے دے رکھے تھے صلیبیوں کی کوشش یہ تھی کہ حشیشین کو مسلمان قائدین کے قتل کے لیے اور مسلمان قوم کی کردار کشی کے لیے استعمال کیا جائے لیکن حشیشین جو اسلام کا ایک فرقہ بن کر ابھرنا چاہتے تھے کرائے کے قاتل بن کے رہ گئے تھے انہوں نے صلیبی لیڈروں کو بھی قتل کیا تھا انہیں نقدی دے کر کوئی بھی استعمال کرسکتا تھا سلطان ایوبی کے دور میں صلیبیوں نے انہیں اتنی مراعات دیں کہ انہیں قلعے تک دے دئیے وہ ان کے ہاتھوں نورالدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی کو قتل کرانے کی کوشش کرتے رہے
نورالدین زنگی کی موت کے متعلق میجر جنرل محمد اکبر خان رنگروٹ نے بعض مورخوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ حشیشین کی کارستانی تھی اسے دھوکے میں کچھ کھلا دیا گیا تھا جس سے وہ چند دنوں بعد فوت ہوگیا اب صلاح الدین ایوبی کو قتل کرنے کے منصوبے بن رہے تھے حشیشین صلیبیوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے تھے
اس صبح سورج ابھی نہیں نکلا تھا جب الناصر اور اس کے تین ساتھی دو صلیبیوں لڑکیوں کے ساتھ عصیات کے قلعے کے دروازے پر جا رکے بڑی لڑکی نے کوئی خفیہ الفاظ بولے تھوڑی دیر بعد قلعے کا دروازہ کھل گیا اور یہ قافلہ اندر چلا گیا الناصر اور اس کے ساتھیوں کو کسی کے حوالے کرکے لڑکیاں شیخ سنان کے پاس چلی گئیں وہ ہر پہلو سے بادشاہ تھا اس کا انداز اور شان وشوکت بادشاہوں جیسی تھی اسے یہ احساس ہی نہیں تھا کہ وہ بوڑھا ہوچکا ہے اسے جب بڑی لڑکی بتا رہی تھی کہ وہ کہاں سے آئی ہے اور ان کے دوست سیف الدین پر کیا بیتی ہے شیخ سنان کی نظریں چھوٹی لڑکی پر جمی ہوئی تھیں
یہاں آؤ  شیخ سنان نے بڑی لڑکی سے توجہ ہٹا کر چھوٹی کو اپنے پاس بلایا اور کہا تم ضرورت سے زیادہ خوبصورت ہو میرے پاس بیٹھو لڑکی کو بازو سے پکڑ کر اپنے پاس بٹھا لیا اور انگلیاں اس کے بالوں میں پھیرنے لگا بولا تم بہت تھکی ہوئی آج میرے پاس آرام کرنا اس لڑکی نے شیخ سنان کو پہلی بار دیکھا تھا لڑکی نے اسے گھور کر دیکھا جیسے بوڑھے کی یہ حرکت اسے پسند نہ آئی ہو وہ سرک کر اس سے دور ہٹ گئی شیخ سنان نے اسے پھر بازو سے پکڑا اور اس طرح جھٹکا دے کر اپنے قریب کر لیا جیسے لڑکی نے پرے سرک کر اس کی توہین کردی ہو اس نے بڑی لڑکی سے کہا اسے ہمارے متعلق کسی نے نہیں بتایا کہ ہم کون ہیں اور ہماری توہین کتنا بڑا جرم ہے؟
میں آپ کی لونڈی نہیں چھوٹی لڑکی بھڑک کر بولی میرے فرائض میں یہ شامل نہیں کہ جو مجھے گھسیٹ کر اپنے ساتھ لگا لے میں اپنا آپ اسی کے حوالے کردوں وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور بولی میں صلیب کی غلام ہوں حشیشین کی خریدی ہوئی لونڈی نہیں بڑی لڑکی نے اسے ڈانٹ دیا اور خاموش رہنے کو کہا مگر وہ خاموش نہ ہوئی وہ کہنے لگی مجھے مسلمانوں کے حرم میں اس شخص نے نہیں دیکھا میں نے کوئی کوتاہی نہیں کی میں نے تمہارے ساتھ سیف الدین اور اس کے مشیروں کی عقل پر پردہ ڈالے رکھا ہے لیکن میرے فرائض میں یہ شامل نہیں کہ اس بوڑھے کے کمرے میں رہوں اگر تم اتنی خوبصورت نہ ہوتی تو ہم تمہاری یہ گستاخی کبھی معاف نہ کرتے شیخ سنان نے کہا اور بڑی لڑکی کو ہدایات دینے کے انداز سے کہنے لگا اسے لے جاؤ اور اسے عصیات کے قلعے کے آداب سکھاؤ بڑی لڑکی اسے باہر چھوڑ آئی اس نے شیخ سنان سے کہا آپ کی ناراضگی بجا ہے لیکن ہم اپنے اوپر والوں کی اجازت کے بغیر ہر کسی کا حکم نہیں مان سکتیں میں چونکہ آپ کو جانتی ہوں اس قلعے میں پہلے بھی آچکی ہوں اب آپ کے کام کے چار آدمی پھانس لائی ہوں آپ کو اس طرف توجہ دینی چاہیے اس نے شیخ سنان کو الناصر اور اس کے ساتھیوں کے متعلق پوری تفصیل سنائی میں ان آدمیوں سے پورا کام لوں گا شیخ سنان نے کہا لیکن میں اس لڑکی کو اپنے کمرے میں ضرور رکھوں گا یہ کام مجھ پر چھوڑیں لڑکی نے کہا وہ کہیں بھاگ تو نہیں چلی کیوں نہ میں اسے آمادہ کر لوں کہ وہ ہنسی خوشی آپ کے پاس آئے آجائے گی
الناصر اور اس کے ساتھیوں کو شیخ سنان کے دو آدمی اپنے ساتھ لے گئے تھے وہ بے شک نشے میں تھے لیکن ساری رات پیدل چلتے رہے تھے انہیں ایک کمرے میں لے گئے وہ پلنگوں پر گرے اور سوگئے ادھر لڑکیاں بھی رات بھر کی جاگی ہوئی تھی وہ بھی اس کمرے میں جاکر سوگئیں جو انہیں دیا گیا تھا دوپہر کے بعد الناصر کی آنکھ کھلی اس نے ادھر ادھر دیکھا اس کے ساتھی سوئے ہوئے تھے اس نے گردوپیش کو پہچاننے کی کوشش کی یہ ایک کمرہ تھا اس میں پلنگ تھے اور پلنگوں پر اس کے تین ساتھی گہری نیند سوئے ہوئے تھے اسے سبزہ زار پھولوں والے پودے رنگ برنگے پرندے اور مخمل کی طرح کی گھاس یاد آئی لڑکیاں یاد آئیں صحرا اور صحرا کا بے رحم سفر یاد آیا اسے وہ خواب سمجھنے لگا صحرا کا سفر اسے حقیقت کی طرح یاد تھا لڑکیوں سے ملاقات اور اس کے بعد کے واقعات اسے خواب یا واہمے لگے مگر وہ اب کہاں ہیں؟ 
یہ سوال اسے مضطرب کرنے لگا اس نے اپنے ساتھیوں کو نہ جگایا اٹھا اور دروازے میں جاکھڑا ہوا یہ کوئی قلعہ تھا اسے سپاہی آتے جاتے نظر آ رہے تھے وہ کس فوج کے تھے؟ 
یہ کون سا قلعہ تھا؟ 
اس نے کسی سے پوچھنا مناسب نہ سمجھا یہ قلعہ دشمن کا ہوسکتا تھا تو کیا وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ قید ہوگیا ہے؟ 
لیکن یہ کمرہ قید خانے کا نہیں تھا وہ جاسوس اور چھاپہ مار تھا اس نے کسی سے پوچھے بغیر یہ معمہ اپنی عقل سے حل کرنے کا ارادہ کیا اسے کوئی خطرہ محسوس ہونے لگا تھا دروازے سے ہٹ کر وہ پلنگ پر جا بیٹھا باہر اسے قدموں کی آہٹ سنائی دی اس نے آنکھیں بند کرلیں اور خراٹے لینے لگا دو آدمی کمرے میں داخل ہوئے ابھی سوئے ہوئے ہیں ایک آدمی نے دوسرے سے کہا سویا رہنے دو دوسرے نے کہا معلوم ہوتا ہے انہیں کچھ زیادہ پلا دی گئی ہے ان کے متعلق کیا بتایا گیا ہے؟
دو صلیبی لڑکیاں انہیں پھانس کر لائی ہیں پہلے نے جواب دیا یہ صلاح الدین ایوبی کے چھاپہ مار جاسوس ہیں بہت دلیر اور عقل مند بتائے جاتے ہیں انہیں تیار کرنا ہے وہ دونوں چلے گئے الناصر کے جسم کا رواں رواں بیدار ہوگیا اسے یقین ہونے لگا کہ وہ بہت بڑے دھوکے کا شکار ہوگیا ہے اسے اب یہ معلوم کرنا تھا کہ یہ کون سا قلعہ ہے کس علاقے میں ہے اور اسے اور اس کے ساتھیوں کو کس مقصد کے لیے تیار کیا جائے گا وہ اس تلخ حقیقت کو جان گیا تھا کہ کسی قلعے سے فرار ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہوتا ہے
لڑکیوں کے کمرے میں یہ کیفیت تھی کہ چھوٹی لڑکی تھوڑی سی دیر سو کر جاگ اٹھی تھی اور کھڑکی کھول کر اس میں بیٹھی تھی اس نے سفر کے دوران بڑی لڑکی کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار کیا تھا وہ نوجوان تھی ابھی پختہ کار نہیں ہوئی تھی اپنے جیسی دوسری لڑکیوں کی طرح وہ ابھی اپنے جذبات کو دبا نہیں سکی تھی اسے پہلی بار باہر بھیجا گیا تھا اس کے ساتھ یہ بڑی لڑکی تھی جو تجربہ کار تھی اس نے بھی دیکھا تھا کہ چھوٹی لڑکی اس زندگی میں کامیاب نہیں ہو رہی اسے مردوں کو انگلیوں پر نچانے کا فن نہیں آیا تھا اس نے دراصل اس فن کو قبول ہی نہیں کیا تھا بوڑھے بوڑھے سالاروں نے اور سیف الدین نے اسے کھلونا بنائے رکھا تھا اب وہ میدان جنگ سے بھاگ کر آئی اور اتنی کٹھن اور صبر آزما مسافت طے کی رات بھر سفر کیا مگر آتے ہی شیخ سنان جیسے بوڑھے نے اسے کہہ دیا کہ میرے کمرے میں رہو بے شک اسے بچپن سے اس غلیط طرز زندگی کی تربیت دی گئی تھی لیکن جوانی میں آکر اس کے اپنے جذبات کا سرچشمہ پھوٹا تو اتنے لمبے عرصے کی تربیت کے اثرات دھل گئے جن انسانوں کو اسے پھانسنے اور صلیب کے جال میں الجھائے رکھنے کے لیے تیار کیا گیا تھا ان انسانوں سے اسے نفرت ہوگئی اور اپنے پیشے کو وہ حقارت کی نظروں سے دیکھنے لگی وہ کھڑکی کے سامنے بیٹھی بڑے ہی تلخ خیالوں میں الجھی ہوئی تھی اس کے آنسو نکل آئے اسے نہ کوئی پناہ دکھائی دے رہی تھی نہ کوئی راہ فرار بڑی لڑکی جاگ اٹھی اپنی ساتھی کو کھڑکی میں بیٹھا دیکھ کر اس کے پاس جا بیٹھی اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر بولی ابتداء میں جذبات کی یہی حالت ہوتی ہے ہم جو کچھ کررہی ہیں یہ اپنی عیاشی کے لیے نہیں صلیب کی حکمرانی کے قیام کے لیے کررہی ہیں اپنے سامنے یہ مقصد رکھو کہ اسلام کا نام ونشان مٹانا ہے ہمارے سپاہی اپنے محاذ پر لڑتے ہیں ہمیں اپنے محاذ پر لڑنا ہے اپنے ذہن کو وسعت دو اپنے جسم سے دستبردار ہو جاؤ تمہاری روح پاک ہے مسلمان اپنی لڑکیوں کو اس طرح استعمال کیوں نہیں کرتے جس طرح ہمیں کیا جارہا ہے؟
چھوٹی لڑکی نے پوچھا ہمارے بادشاہ اور ان کی فوجیں مسلمانوں کی طرح کیوں نہیں لڑتیں؟ 
چوروں کی طرح مسلمانوں کو قتل کیوں کرایا جاتا ہے؟ 
صلاح الدین ایوبی کے ان چار چھاپہ ماروں کی طرح صلیب کی فوج کیوں ایسے چھاپہ مار تیار نہیں کرتی؟ 
صرف اس لیے کہ ہماری قوم میں بزدلی ہے چوری چھپے وار کرنے والے بزدل ہوا کرتے ہیں بڑی لڑکی سٹپٹا اٹھی اور بولی ایسی باتیں کسی اور کے سامنے نہ کر بیٹھنا ورنہ قتل ہو جاؤ گی اس وقت ہم شیخ سنان کے پاس ہیں اس سے ہمیں بہت بڑا کام لینا ہے اسے ناراض نہ کرو مجھے اس شخص سے نفرت ہوگئی ہے چھوٹی لڑکی نے کہا یہ کسی ملک کا بادشاہ نہیں کرائے کے قاتلوں کا سرغنہ ہے میں اسے اس قابل نہیں سمجھتی کہ میرے جسم کو ہاتھ بھی لگائے بڑی لڑکی نے اسے بہت دیر کی بحث کے بعد اس پر آمادہ کرلیا کہ وہ شیخ سنان کے ساتھ اچھی طرح باتیں کرے اس نے چھوٹی کو یقین دلایا کہ وہ شیخ کو اس کا لالچ اور وعدہ دئیے رکھے گی اس نے چھوٹی لڑکی سے کہا تم نے میرے کمالات دیکھے نہیں؟
میں ان بادشاہوں کو مٹھی میں لے کر انہیں گمراہ کرنا جانتی ہوں شیخ سنان کو تو میں کچھ بھی نہیں سمجھتی کیا تم ایسی صورت پیدا کرسکتی ہو کہ ہم یہاں سے جلدی نکل جائیں؟
چھوٹی لڑکی نے پوچھا کوشش کروں گی بڑی لڑکی نے جواب دیا پہلے تو اپنے متعلق یہ اطلاع بھجوانی ہے کہ ہم یہاں ہیں اتنے میں دو آدمی کمرے میں آئے انہوں نے لڑکیوں سے ان چار آدمیوں کے متعلق پوچھا بڑی لڑکی نے انہیں بتایا کہ وہ کون ہیں اور انہیں کس طرح اور کیوں لایا گیا ہے وہ کس حال میں ہیں؟
بڑی لڑکی نے پوچھا ابھی سوئے ہوئے ہیں ایک آدمی نے جواب دیا انہیں قید میں ڈال دو گے؟
چھوٹی لڑکی نے پوچھا قید میں ڈالنے کی کوئی ضرورت نہیں اس آدمی نے جواب دیا یہاں سے بھاگ کر کہاں جائیں گے کیا ہم انہیں دیکھ سکتی ہیں؟
چھوٹی لڑکی نے پوچھا کیوں نہیں اسے جواب ملا وہ تمہارا شکار ہے انہیں دیکھو بلکہ ضرورت بھی یہی ہے کہ تم ان کے پاس جاؤ اور انہیں اپنے جال میں لیے رکھو
کچھ دیر بعد چھوٹی لڑکی بڑی کے روکنے کے باوجود اس کمرے میں چلی گئی جہاں الناصر اور اس کے ساتھی سوئے ہوئے تھے الناصر دراصل جاگ رہا تھا چھوٹی لڑکی کو دیکھ کر وہ اٹھ بیٹھا اور پوچھا مجھے جو کچھ کرنا ہوگا وہ کرکے دکھاؤں گا
لڑکی اس کے قریب آگئی دھیمی آواز میں بولی میں جن نہیں انسان ہوں مجھ پر بھروسہ کرو
الناصر نے اسے قہر بھری نظروں سے دیکھا لڑکی اس کے ساتھ پلنگ پر بیٹھ گئی...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی