⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟛 𝟠⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
بادشاہ ایک جھونپڑے میں چھپا ہوا تھا یہ واقعہ اپریل ١١٧٥ء (رمضان المبارک ٥٧٠ھ) کا ہے جب تین مسلمان حکمران نورالدین زنگی کا بیٹا الملک الصالح گمشتگین اور سیف الدین غازی سلطان صلاح الدین ایوبی کے مقابلے میں آئے تھے ان کی پشت پناہی صلیبی کررہے تھے صلیبیوں نے انہیں گھوڑے اونٹ آتش گیر سیال کے مٹکے اور دیگر اسلحہ دیا تھا صلیبیوں نے ضروری نہیں سمجھا تھا کہ وہ سلطان ایوبی کو میدان جنگ میں ہی شکست دیں اصل مقصد شکست دینا اور سرزمین عرب پر قبضہ کرکے اسلام کو ختم کرنا تھا فلسطین صلیبیوں کے قبضے میں تھا انہوں نے مسلمانوں کی دو تین کمزوریاں بھانپ لی تھیں یہ تھیں اقتدار کی ہوس زر زن اور عیش پرستی صلیبی یورپ سے یہ توقع لے کر آئے تھے کہ وہ اپنے برتر اسلحہ فوجوں کی افراط اور بحری جنگی قوت سے مسلمانوں کو تھوڑے سے عرصے میں ختم کرکے قبلہ اول اور خانہ کعبہ پر قابض ہوجائیں گے اور اسلام کا خاتمہ کردیا جائے گا
مذہب کوئی درخت نہیں جسے جڑوں سے کاٹ دیا جائے تو سوکھ کر ختم ہوجائے گا مذہب کسی ایک کتاب یا کتابوں کے انبار کا نام نہیں جسے جلا دیا جائے تو مذہب جل کر راکھ ہوجائے گا مذہب عقائد اور نظریات کا نام ہے جو انسان کے ذہن و دل میں محفوظ ہوتے ہیں اور انسان کو اپنا پابند کیے رکھتے ہیں انسانوں کو قتل کردینے سے عقائد اور نظریات ختم نہیں ہوجاتے کسی مذہب کو ختم کرنے کا ذریعہ صرف یہ ہے کہ ذہنوں اور دلوں میں تعیش پسندی اور لذت پرستی ڈال دی جائے عقائد اور نظریات کی گرفت ڈھیلی پڑنے لگتی ہے اور انسان آزاد ہوتا چلا جاتا ہے یہودیوں اور صلیبیوں نے مسلمانوں کے لیے یہی جال تیار کیا سرزمین عرب اور مصر میں لاکر بچھایا تو مسلمان امراء اس میں آنے لگے ملت اسلامیہ کی بدبختی ہے کہ مسلمان اقتدار اور عورت کی خاطر عقیدے قربان کردیا کرتا ہے
نورالدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی کے دور میں یہ میٹھا زہر مسلمان حکمرانوں اور امراء کی رگوں میں اتر چکا تھا اور صلیبی فلسطین پر قابض ہوچکے تھے متعدد مسلمان ریاستیں ایسی تھیں جن پر صلیبیوں کا قبضہ تو نہیں تھا لیکن ریاستوں کے امراء کے دلوں پر انہی کا قبضہ تھا صلیبی اور یہودی مسلمانوں کی کردار کشی میں اس حد تک کامیاب ہوچکے تھے کہ کسی بھی مسلمان سالار کے متعلق یقین سے نہیں کہا جاسکتا تھا کہ وہ سلطنت اسلامیہ کا وفادار ہے زنگی اور ایوبی کے لیے یہ غدار بہت بڑا مسئلہ بن گئے تھے ١١٧٥ ۔ ١١٧٤ء میں سلطان ایوبی اور فلسطین کے درمیان کلمہ گو بھائی حائل ہوگئے تھے صلیبی دور بیٹھے تماشا دیکھ رہے تھے سلطان ایوبی ہر میدان میں صلیبیوں کو شکست پہ شکست دیتا چلا آرہا تھا مگر صلیبیوں نے مسلمان امراء کو ہی اس کے مقابلے میں کھڑا کردیا اس کا بےحد تکلیف دہ پہلو یہ تھا کہ نورالدین زنگی کا اپنا بیٹا الملک الصالح اسماعیل اس کی وفات کے بعد سلطان ایوبی کے مخالف کیمپ میں چلا گیا وہ بادشاہ جو اپریل ١١٧٥ء میں ایک جھونپڑے میں بیٹھا تھا الملک الصالح کا اتحادی سیف الدین غازی تھا ان کا تیسرا اتحادی گمشتگین تھا آپ اس معرکے کی تفصیل پڑھ چکے ہیں جس میں سلطان ایوبی نے ان تینوں کی متحدہ فوج کو ایسی شرمناک شکست دی تھی کہ تینوں اپنی اپنی فوج کے مرکز (ہیڈکورٹر) کے خیمے سازوسامان سمیت چھوڑ کر بھاگ گئے تھے ان کے جو جنگی قیدی سلطان ایوبی کی فوج نے پکڑے تھے انہیں مسلمان سمجھ کر رہا کردیا گیا تھا یہ سلطان ایوبی کی قوم پرستی اور کشادہ ظرفی تھی جو اسے مہنگی پڑ۔ یہ قیدی واپس گئے تو انہیں فوج میں لے کر چند دنوں میں بکھری ہوئی فوجیں منظم کرلی گئیں یہ تو چند دنوں بعد کی بات ہے میدان جنگ سے الملک الصالح سیف الدین غازی اور گمشتگین کا بھاگنا بڑا عجیب تھا انہیں ایک دوسرے کا ہوش نہیں تھا گمشتگین حرن کا قلعہ دار تھا جو بغداد کی خلافت کے تحت تھا لیکن جنگ سے پہلے اس نے خود مختاری کا اعلان کردیا تھا وہ بھاگا تو حرن جانے کے بجائے حلب چلا گیا جسے الملک الصالح نے اپنا دارالخلافہ بنا رکھا تھا وہ اس خوف سے حرن نہیں گیا تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی تعاقب میں آکر اسے پکڑ لے گا
سیف الدین ایک اور شہر موصل اور اس کے مضافات کا حکمران امیر تھا وہ حکمران ہی نہیں سالار بھی تھا میدان جنگ کے داؤ پیچ سے واقف تھا جنگجو تھا اس نے اپنا ایمان بیچ ڈالا تھا جو مومن کی تلوار بھی ہوتا ہے ڈھال بھی وہ میدان جنگ میں بھی حرم کی چیدہ چیدہ لڑکیوں اور ناچنے والیوں کو ساتھ لے گیا تھا شراب کے مٹکوں کے علاوہ خوبصورت پرندے بھی اس کے ساتھ تھے وہ عیش وعشرت کا یہ سارا سامان وہیں چھوڑ کر بھاگا تھا اس کے ساتھ بھاگنے والوں میں اس کا نائب سالار اور ایک کمان دار بھی تھا اسے موصل جانا تھا لیکن سلطان ایوبی کے چھاپہ مار دشمن کے عقب میں چلے گئے تھے انہوں نے دشمن کی بکھری ہوئی فوج کے لیے پسپائی محال کردی تھی
سیف الدین اور اس کے دونوں ساتھیوں نے شاید چھاپہ ماروں کی کوئی پارٹی دیکھ لی تھی جس سے بچنے کے لیے وہ موصل کے راستے سے بھٹک گئے یہ علاقہ اس دور میں عجیب تھا ریگستان بھی تھا چٹانی بھی اور کہیں سرسبز بھی وہاں انہیں چھپنے کی جگہیں ملتی رہیں
وہ موصل سے تھوڑی ہی دور تھے رات گہری ہوگئی تھی انہیں چاندنی رات میں کچھ مکان نظر آئے سیف الدین نے پہلے ہی مکان کے دروازے پر دستک دی ایک سفید ریش بوڑھا باہر آیا اس کے سامنے تین گھوڑ سوار کھڑے تھے جو اس قدر بری طرح ہانپ رہے تھے کہ بوڑھے نے پوچھا معلوم ہوتا ہے تم بھی موصل کی فوج کے سپاہی ہو اور بھاگ کر آئے ہو میں دو دنوں سے سپاہیوں کو گزرتے دیکھ رہا ہوں وہ پانی پینے کے لیے رکتے ہیں اور موصل کو چلے جاتے ہیں
یہاں سے موصل کتنی دور ہے؟
سیف الدین نے پوچھا
اگر تمہارے گھوڑوں میں دم ہے تو سحری تک پہنچ سکتے ہو بوڑھے نے کہا یہ گاؤں موصل کا ہی ہے اگر تمہارے پاس جگہ ہو تو کیا ہم رات تمہارے ہاں گزار سکتے ہیں؟
سیف الدین نے پوچھا
جگہ دل میں ہوا کرتی ہے بوڑھے نے جواب دیا گھوڑوں سے اترو اور اندر چلو ایک کمرے میں تینوں مشعل کی روشنی میں بیٹھے تو بوڑھے نے ان کے لباس غور سے دیکھے ہمیں پہچاننے کی کوشش کررہے ہو؟
سیف الدین نے مسکرا کر پوچھا میں دیکھتا ہوں کہ تم سپاہی نہیں ہو؟
بوڑھے نے کہا تمہارا رتبہ سالاری تک ہوسکتا ہے یہ والئی موصل سیف الدین غازی ہیں نائب سالار نے کہا تم نے کسی معمولی آدمی کو پناہ نہیں دی تمہیں اس کا انعام ملے گا میں نائب سالار ہوں اور یہ کمان دار ہیں
ایک بات غور سے سن لو میرے بزرگ سیف الدین نے کہا ہوسکتا ہے ہمیں تمہارے گھر زیادہ دن رکنا پڑے ہم دن کے وقت باہر نہیں نکلیں گے کسی کو پتہ نہ چلے کہ ہم یہاں ہیں اگر کسی کو پتہ چل گیا تو تمہیں سزا ملے گی اور اگر تم نے یہ راز چھپائے رکھا تو انعام ملے گا جو مانگو گے ملے گا
میں نے والئی موصل کو پناہ نہیں دی بوڑھے نے کہا آپ بھولے بھٹکے مصیبت کے مارے میرے ہاں آئے ہیں جتنے دن رہیں گے خدمت کروں گا اگر آپ چھپ کر رہنے کے خواہش مند ہیں تو چھپائے رکھوں گا اور مجھے آپ کے ساتھ اس لیے بھی دلچسپی ہے کہ میرا بیٹا آپ کی فوج میں سپاہی ہے
اگر آپ اسے فوج سے سبکدوش کردیں تو میرے لیے یہ بہت بڑا انعام ہوگا بوڑھے نے کہا
ہاں سیف الدین نے کہا ہم اسے فوج سے سبکدوش کردیں گے ہر باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا بیٹا زندہ رہے میں نے اس کی زندگی کی آرزو کبھی نہیں کی بوڑھے نے کہا میں نے اسے اپنی قوم کی فوج میں بھیج کر خدا کے سپرد کردیا تھا میں بھی سپاہی تھا آپ ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے جب میں فوج میں بھرتی ہوا تھا اللہ آپ کے والد مرحوم قطب الدین کو جنت عطا فرمائے میں ان کے دور میں سپاہی تھا ہم نے کفار کے خلاف معرکے لڑے ہیں مگر میرے بیٹے کو آپ اپنے بھائیوں کے خلاف لڑانے لے گئے ہیں میں اس کی شہادت کا آرزو مند تھا موت کا نہیں صلاح الدین ایوبی نام کا مسلمان ہے سیف الدین نے کہا اس کے خلاف جنگ جائز ہے بلکہ فرض ہے
محترم بزرگ! نائب سالار نے کہا ان باتوں کو آپ نہیں سمجھ سکتے ہم بہتر جانتے ہیں کہ کون مسلمان اور کون کافر ہے
میرے بیٹو! بوڑھے نے کہا عبرت حاصل کرو میری عمر پچھتر سال ہوگئی ہے میرا باپ نوے برس کی عمر میں مرا تھا اور اس کا باپ پچاس برس کی عمر میں میدان جنگ میں شہید ہوا تھا دادا نے اپنے وقتوں کے قصے کہانیاں میرے باپ کو سنائے تھے میرے باپ نے وہ میرے سینے میں ڈال دئیے تھے اس طرح میں دعویٰ کرسکتا ہوں کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے بادشاہی کی ہوس نے جسے بھی بھائی سے لڑایا وہ ایک نہ ایک دن بھاگ کر کسی غریب کے جھونپڑے میں جا چھپا جو تم سے پہلے گزر گئے ہیں ان کا بھی یہی انجام ہوا تھا تمہاری تین فوجوں کو صلاح الدین ایوبی کی ایک فوج نے پسپا کیا ہے اور جس حالت میں پسپا کیا ہے وہ دو دنوں سے دیکھ رہا ہوں تمہارے ساتھ دس فوجیں ہوتیں تو وہ بھی اسی طرح بھاگتیں جو حق پر ہوتے ہیں وہ فتح حاصل کرتے ہیں اور جب انہیں شکست ہوتی ہے تو وہ بھاگتے نہیں ان کی لاشیں میدان جنگ سے اٹھائی جاتی ہیں وہ چھپتے نہیں تم صلاح الدین ایوبی کے حامی معلوم ہوتے ہو سیف الدین نے ایسے لہجے میں کہا جس میں غصے کی جھلک تھی ہمیں تم پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے میں آپ کا حامی ہوں بوڑھے نے کہا میں اسلام کا حامی ہوں میں اپنے تجربے کی روشنی میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آپ نے اپنے بھائیوں کے دشمن کو دوست سمجھا اور یہ نہ سمجھ سکے کہ وہ آپ کے مذہب کا دشمن ہے آپ کی شکست کا سبب یہی ہے آپ مجھ پر بھروسہ کریں اگر صلاح الدین ایوبی کی فوج یہاں اچانک آگئی تو آپ کو چھپائے رکھوں گا دھوکہ نہیں دوں گا
اتنے میں ایک جوان اور خوبصورت لڑکی کھانا لے کر کمرے میں آئی اس کے پیچھے ایک جوان عورت آئی اس کے ہاتھ میں بھی کھانا تھا سیف الدین کی نظرین لڑکی پر جم گئیں وہ کھانا رکھ کر چلی گئیں تو سیف الدین نے بوڑھے سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟
چھوٹی میری بیٹی ہے بوڑھے نے جواب دیا اور بڑی میری بہو میرے اس بیٹے کی بیوی جو آپ کی فوج میں ہے مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میری بہو بیوہ ہوگئی ہے
اگر تمہارا بیٹا مارا گیا تو میں تمہیں بے انداز رقم دوں گا سیف الدین نے کہا اور اپنی بیٹی کے متعلق تمہیں کوئی فکر نہیں کرنا چاہیے یہ کسی جھونپڑے میں کسی سپاہی کی دلہن بن کر نہیں جائے گی ہم نے اسے اپنی زوجیت کے لیے پسند کرلیا ہے
میں نے نہ اپنا بیٹا بیچا ہے نہ بیٹی کو بیچوں گا بوڑھے نے کہا جھونپڑے میں پل کر جوان ہونے والی بیٹی کسی سپاہی کے جھونپڑے میں ہی اچھی لگتی ہے میں آپ سے ایک بار پھر درخواست کرتا ہوں کہ مجھے لالچ نہ دیں آپ میرے مہمان ہیں میزبانی کا ہر فرض ادا کروں گا
تم سو جاؤ سیف الدین نے بوڑھے سے کہا ہمیں تم پر بھروسہ ہے اور خوشی ہے کہ ہماری ریاست میں تم جیسے صاف گو اور بااصول بزرگ موجود ہیں
بوڑھا چلا گیا تو سیف الدین نے اپنے ساتھیوں سے کہا اس قسم کے انسان دھوکہ نہیں دیا کرتے تم نے اس کی بیٹی کو غور سے دیکھا تھا؟
اچھا موتی ہے نائب سالار نے کہا حالات ذرا بہتر ہولیں تو یہ موتی اپنی جھولی میں ہوگا سیف الدین نے مسکرا کر کہا پھر چونک کر اپنے نائب سالار سے کہنے لگا تم موصل کی خبر لو فوج کو یکجا کرو صلاح الدین ایوبی کی سرگرمیاں بھانپو اور مجھے بہت جلدی بتاؤ کے میں موصل آجاؤں یا کچھ دیر رکا رہوں اور تم اس نے کمان دار سے کہا حلب والوں کو بتا دو کہ میں کہاں ہوں خود جاؤ یا کسی کو بھیجو دونوں روانہ ہوگئے سیف الدین جو شراب میں بدمست ہوکر حسین سے حسین تر لڑکیوں سے دل بہلا کر محل سے میں سونے کا عادی تھا ایک کچے سے مکان کے فرش پر سوگیا اس سے ایک روز پہلے کا واقعہ ہے کہ میدان جنگ سے ایک سپاہی بھاگا ہوا موصل کی طرف جارہا تھا وہ گھوڑا دوڑاتا تھا رکتا تھا اور آہستہ آہستہ چلانے لگتا تھا کبھی گھوڑا روک کر گھبراہٹ کے عالم میں ادھر ادھر دیکھتا تھا وہ عام راستہ سے کچھ ہٹ کر جا رہا تھا معلوم ہوتا تھا کہ اس پر خوف طاری ہے اور اس کا ذہن اس کے قابو میں نہیں ایک جگہ اس نے گھوڑا روکا اترا اور قبلہ رو ہو کر نماز پڑھنے لگا دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو زاروقطار رو پڑا وہاں سے وہ اٹھا نہیں سر ہاتھوں میں لے کر بیٹھا رہا
یہ فوجیں جب سلطان ایوبی سے شکست کھا کر بکھری اور پسپا ہوئی تھیں سلطان ایوبی کے کئی ایک جاسوس ان میں شامل ہوگئے تھے یہ سلطان ایوبی کی انٹیلی جنس کا طریقہ تھا کہ دشمن جب پسپا ہوتا تھا تو کچھ جاسوس بھاگے ہوئے سپاہیوں یا جنگ کی زد میں آئے ہوئے گاؤں کے مہاجرین کے بہروپ میں دشمن کے علاقے میں چلے جاتے اور دشمن کی تنظیم نو عزائم اور دیگر کوائف دیکھ کر اطلاعیں فراہم کرتے تھے دمشق سے جب الملک الصالح اپنی فوج کے ساتھ بھاگا تھا تو بھی جاسوسوں کی خاصی تعداد فوج اور بھاگے ہوئے شہریوں کے ساتھ چلی گئی تھی جیسا کہ پہلے وضاحت سے بیان کیا جاچکا ہے کہ سلطان ایوبی آدھی جنگ جاسوسی کے نظام سے جیت لیا کرتا تھا جاسوسی کے لیے جن آدمیوں کو منتخب کیا جاتا وہ غیرمعمولی طور پر ذہین ٹھنڈے مزاج والے فیصلے کی اہلیت اور خود اعتمادی رکھنے والے لڑاکے اور پھرتیلے ہوتے تھے
اپریل ١١٧٥ء میں سلطان ایوبی نے اپنے مسلمان دشمنوں کی متحدہ فوج کو شکست دی تو اس کی انٹیلی جنس کے سربراہ حسن بن عبداللہ نے ان جاسوسوں کو جو اس کام کے لیے تربیت یافتہ تھے دشمن کی بکھری ہوئی فوج میں شامل ہوکر حلب موصل اور حرن تک جانے اور دشمن کے آئندہ عزائم معلوم کرنے کو بھیج دیا ان میں بعض دشمن کی فوج کے لباس میں تھے اور بعض دیہاتی لباس میں ان کا جانا بہت ہی ضروری تھا کیونکہ یہ خطرہ ہر لمحہ موجود تھا کہ دشمن تنظیم نو (ری گروپنگ) کرکے جوابی حملہ کرے گا سلطان ایوبی نے دشمن کو جو نقصان پہنچایا تھا اس سے اسے اندازہ تھا کہ دشمن ری گروپنگ میں خاصے دن صرف کرے گا دشمن کی تین فوجیں تھیں سلطان ایوبی کو یہ بھی معلوم تھا کہ اس کے تینوں دشمن دلی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ نہیں تینوں میں سے ہر ایک کی خواہش یہ تھی کہ وہ سلطان ایوبی کو شکست دے کر سلطنت اسلامیہ کا مختار کل اور شہنشاہ بن جائے وہ ایک دوسرے کے بھی خلاف تھے مگر فی الحال صورت یہ تھی کہ وہ سلطان ایوبی کو اپنا مشترک دسمن سمجھتے تھے اس لیے یہ امکان موجود تھا کہ وہ تینوں فوجوں کو ایک فوج کی صورت میں منظم کرلیں گے اور جوابی حملہ کریں گے
سلطان ایوبی یہ بھی جانتا تھا کہ عیاشیوں کے دلدادہ میدان جنگ میں نہیں ٹھہر سکتے لیکن اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اس کے دشمنوں کو صلیبیوں کی مدد اور پشت پناہی حاصل ہے اور اس کے پاس صلیبی مشیر بھی موجود ہیں اس کے علاوہ مسلمان سالاروں میں دو تین ایسے تھے جو قیادت کی اہلیت رکھتے تھے ان میں مظفر الدین ابن زین الدین خاص طور پر قابل ذکر تھا وہ سلطان ایوبی کی فوج میں سالار رہ چکا تھا اس لیے سلطان ایوبی کے داؤ و پیچ کو خوب سمجھتا تھا صلیبی مشیروں اور مظفر الدین جیسے سالاروں نے سلطان ایوبی کو بہت چوکس کردیا تھا
اسے جو عنصر زیادہ پریشان کررہا تھا وہ اس کی اپنی فوج کی کیفیت تھی جو تسلی بخش کہلائی جاسکتی تھی لیکن یہ خطرہ تھا کہ وہ فوری طور پر دوسری جنگ نہیں لڑ سکے گا جانی نقصان کم نہ تھا دشمن کو شکست تو دے دی گئی تھی مگر کچھ قیمت بھی دینی پڑی تھی جو تھوڑی نہیں تھی سلطان ایوبی کے لیے ایک مشکل یہ بھی تھی کہ وہ اپنے مستقر سے دور تھا رسد اس کے ساتھ تھی لیکن طویل جنگ کی صورت میں رسد کی کیفیت مخدوش ہوسکتی تھی اس نے قریبی آبادیوں سے بھرتی شروع کرادی تھی لوگ بھرتی ہورہے تھے ان میں زیادہ تر تیغ زنی تیر اندازی اور گھوڑ سواری سے واقف تھے لیکن فوج کی صورت میں لڑانے کے لیے ٹریننگ کی ضرورت تھی ٹریننگ شروع کردی گئی تھی اور اس کے ساتھ ہی سلطان ایوبی نے پیش قدمی جاری رکھی تاکہ کام کے علاقوں پر قبضہ کرلیا جائے اسے بعض مقامات مزاحمت کے بغیر مل گئے اور وہ ایسی جگہ پہنچ گیا جہاں دور دور تک سبزہ ہی سبزہ تھا اور پانی کی افراط تھی فوج اور جانور تھک کر چور ہوچکے تھے جانوروں کی یہ حالت تھی کہ اتنا زیادہ سبزہ اور پانی دیکھ کر وہ بھول ہی گئے کہ ان کا استعمال اور فرائض کیا ہیں
سلطان ایوبی نے وہیں خیمہ زن ہونے کا حکم دیا دیکھ بھال کے دستے موزوں جگہوں پر بھیج دئیے جاسوس پہلے ہی چلے گئے تھے اسے حکم دینے کی ضرورت نہیں پڑی تھی یہ نظام ایک مشین کی طرح از خود چلتا تھا یہ مقام جہاں سلطان ایوبی نے قیام کیا تھا ترکمان کے نام سے مشہور تھا اس کا پورا نام حباب الترکمان (ترکمان کا کنواں) تھا
بھرتی اور تیز کردو سلطان ایوبی نے اپنی مرکزی کمان کی پہلی کانفرنس میں کہا اجتماعی طور پر لڑنے کی تربیت اور زیادہ تیز کردو خدا نے تم پر کرم کیا ہے کہ تمہیں بڑا ہی احمق دشمن دیا ہے اگر ان لوگوں میں کچھ سوجھ بوجھ ہوتی تو وہ پسپا ہوکر اس جگہ اکٹھے ہوجاتے جنگی جانوروں اور سپاہیوں کے لیے یہ مقام جنت سے کم نہیں یہاں تمہارے جانور اتنا چارہ کھا لیں گے کہ دس روز بغیر چارے کے لڑ سکیں گے
میرے دوستو! دشمن کو حقیر نہ سمجھنا فوج کو آرام دو لیکن تیاری کی حالت میں رہنا طبیبوں سے کہو کہ راتوں کو نہ سوئیں زخمیوں کو بہت جلد صحت یاب کریں اور بیماروں کو دن رات نگرانی میں رکھیں اور یاد رکھو ہمارا مقصد اپنے بھائیوں کو قتل کرنا یا انہیں برا بھلا کہنا اور دھتکارنا نہیں ہماری منزل فلسطین ہے اگر آپس میں دست وگریبان ہوتے رہے تو صلیبی اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں گے نظر فلسطین پر رکھو اور راستے میں جو رکاوٹ آئے اسے روندتے چلے جاؤ اسی مقام پر سلطان صلاح الدین ایوبی کو الملک الصالح کی طرف سے صلح کا پیغام ملا تھا جس کا تفصیلی تذکرہ پچھلی قسط میں کیا گیا ہے سلطان ایوبی نے اپنی شرائط پر صلح نامہ قبول کرلیا تھا اس سے اسے یہ اطمینان ہوگیا تھا کہ اس کے دشمن نے ہتھیار ڈال دئیے ہیں سلطان ایوبی نے یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ اپنے بھائیوں کو دشمن نہیں سمجھتا عالی ظرفی کا یہ مظاہرہ کیا تھا کہ اس نے دشمن کے جو جنگی قیدی پکڑے تھے انہیں مختصر سا وعظ دے کر رہا کردیا تھا الملک الصالح کے صلح نامے پر اپنی مہر ثبت کرنے سے پہلے بھی اس نے کوئی کڑی شرط نہ رکھی کیونکہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں کو ذہن نشین کرانا چاہتا تھا کہ تمہارا دشمن میں نہیں ہوں صلیبی ہیں اس پیغام نے اسے جو اطمینان دیا تھا
وہ تین چار دنوں سے زیادہ نہ رہا کیونکہ اسے الملک الصالح کا ایک اور پیغام ملا اس نے کھول کر دیکھا تو یہ اس کے نام نہیں بلکہ سیف الدین غازی کے نام تھا جو غلطی سے قاصد سلطان ایوبی کے پاس لے آیا تھا
(پچھلی قسط میں اس پیغام کا بھی تفصیلی ذکر کیا گیا ہے)
اس پیغام سے یہ ظاہر ہوا کہ سیف الدین غازی (سلطان ایوبی کا دشمن نمبر دو) نے الملک الصالح کو لکھا تھا کہ اس نے سلطان ایوبی کے ساتھ صلح کرکے غلطی کی ہے اور اپنے اتحادیوں کو دھوکہ دیا ہے سیف الدین کے اس پیغام کے جواب میں الملک الصالح نے اسے لکھا تھا کہ تم لوگ بے فکر رہو میں نے صلاح الدین ایوبی کو صلح کا دھوکہ دیا ہے تاکہ وہ اس حالت میں ہم پر نہ آدھمکے جبکہ ہماری فوجیں فوری طور پر مقابلے کے لیے تیار نہیں میں جانتا ہوں کہ صلاح الدین ایوبی کی نظر حلب پر ہے اس کی فوج بھی ابھی حملے کے لیے تیار نہیں میں نے وقت حاصل کرنے کے لیے اسے صلح کا جھانسہ دیا ہے تم لوگ اپنی اپنی فوج کو منظم کرو صلیبی مشیر میری فوج کو تیزی سے منظم اور تیار کررہے ہیں تم مجھ سے اتفاق کرو گے کہ ہم ابھی لڑنے کے قابل نہیں اس سے پہلے بتایا جاچکا ہے کہ الملک الصالح نورالدین زنگی کا بیٹا تھا جس کی عمر صرف تیرہ سال تھی نورالدین زنگی فوت ہوگیا تو انتظامیہ اور فوج کے مفاد پرست حکام بالا نے الملک الصالح کو نورالدین زنگی کا جانشین بنا کر اسے سلطان کا خطاب دیا پھر اسے اپنے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بنا لیا سلطنت اسلامیہ بکھرنے لگی سلطان ایوبی مصر سے دمشق گیا الملک الصالح اور اس کے حواری دمشق کی فوج کے کچھ حصے بھاگ کر حلب چلے گئے اور اس شہر کو دارالسلطنت بنا لیا الملک الصالح کو حواری استعمال کررہے تھے سلطان ایوبی کو صلح کا دھوکہ انہی لوگوں نے صلیبی مشیروں کے مشورے سے دیا تھا مگر پیغام سیف الدین کے پاس جانے کے بجائے سلطان صلاح الدین کے ہاتھ آگیا یہ اس دور کی تاریخ کا ایک مشہور واقعہ ہے بعض مورخین نے لکھا ہے کہ قاصد یہ پیغام غلطی سے سلطان ایوبی کے پاس لے گیا تھا لیکن مسلمان مورخین نے جن میں سراج الدین قابل ذکر ہے وثوق سے لکھا ہے کہ قاصد سلطان صلاح الدین ایوبی کا جاسوس تھا سلطان ایوبی کو اس پیغام نے پریشان کردیا لیکن اس نے پریشانی سے متاثر ہوکر فوری طور پر کوچ اور حملے کا حکم نہ دیا دشمن کی طرح اسے بھی اپنی فوج کی کیفیت کو بہتر بنانے کی ضرورت تھی اس کے پیش نظر سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ اس کا دشمن اپنے مستقر کے قریب تھا اور وہ خود مستقر سے بہت دور رسد کا راستہ طویل اور غیر محفوظ ہوگیا تھا اس کے علاوہ اندھا دھند پیش قدمی کا قائل نہ تھا جاسوسوں کی مستند رپورٹوں کے بغیر وہ آگے نہیں بڑھتا تھا اس کے بجائے وہ دشمن کو آگے آنے کی مہلت دیتا تھا چنانچہ اس نے حسن بن عبداللہ سے کہا کہ وہ کچھ اور جاسوس دشمن کے علاقے میں بھیج دے جو بہت جلدی معلومات حاصل کرکے بھیجیں اس کے علاوہ اس نے کچھ اور ضروری انتظامات کیے اس نے اپنی مرکزی کمان سے کہا کہ وہ حملہ نہیں کرے گا بلکہ دشمن کو حملے کی مہلت دے گا تاکہ وہ اپنے اڈے سے دور نکل آئے ان ہدایات کے بعد وہ دور دور کی زمین کا جائزہ لینے لگا جہاں اسے دشمن کو لڑانا تھا
ذکر اس سپاہی کا ہورہا تھا جو میدان جنگ سے بھاگ کر موصل کی سمت جارہا تھا وہ موصل یعنی سیف الدین غازی کی فوج کا سپاہی تھا اس فوج کا بہت سارا حصہ تو اجتماعی طور پر پسپا ہوا تھا جو سپاہی چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں تھے وہ بکھر کر اکیلے اکیلے بھاگے تھے یہ سپاہی اکیلے بھاگنے والوں میں سے تھا وہ پریشانی کے عالم میں تھا اس نے ایک جگہ گھوڑا روکا نماز پڑھی اور دعا کرتے رو پڑا پھر وہ اٹھا نہیں سر ہاتھوں میں لے کر بیٹھا رہا ایک گھوڑ سوار اس کے قریب جا رکا سپاہی عالم خیال میں ایسا محو تھا کہ گھوڑے کے قدموں کی آہٹ بھی اسے بیدار نہ کرسکی سوار گھوڑے سے اترا اور سپاہی کے کندھے پر ہاتھ رکھا تب اس نے بدک کر اوپر دیکھا یہ تو میں بتا سکتا ہوں کہ تم میدان جنگ سے پسپا ہوکر آئے ہو سوار نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا لیکن تم اس طرح کیوں بیٹھے ہو؟
اگر زخمی ہو تو میں کچھ مدد کروں؟
میرے جسم پر کوئی زخم نہیں سپاہی نے جواب دیا اور دل پر ہاتھ رکھ کر کہا میرے دل میں گہرا زخم آیا ہے
یہ گھوڑ سوار جو اس کے پاس آ بیٹھا تھا سلطان ایوبی کے ان جاسوسوں میں سے تھا جنہیں دشمن کی پسپائی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دشمن کے علاقوں میں جانے کو بھیجا گیا تھا اس کا نام داؤد تھا ٹرینگ کے مطابق وہ اس سپاہی کا غور سے جائزہ لے رہا تھا اسے وہ استعمال کرسکتا تھا اپنی ذہانت سے وہ سمجھ گیا کہ یہ سپاہی جذباتی لحاظ سے اکھڑا ہوا ہے اور یہ شکست کی دہشت کا اثر ہے اس نے سپاہی کے ساتھ ایسی باتیں کیں کہ سپاہی کے دل میں جو غبار تھا
وہ باہر آگیا سپاہ گری میرا خاندانی پیشہ ہے سپاہی نے کہا میرا باپ سپاہی تھا دادا بھی سپاہی تھا سپاہ گری ہمارا ذریعہ معاش بھی ہے اور ہماری روح کی غذا بھی میں اللہ کا سپاہی ہوں اپنے مذہب اور اپنی قوم کے لیے لڑتا ہوں مجھے معلوم تھا کہ صلیبی ہمارے مذہب کے بدترین دشمن ہیں اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ ہمارا قبلہ اول صلیبیوں کے قبضے میں ہے میرے باپ نے مجھے دوستی اور دشمنی کی تاریخ زبانی سنائی تھی میں اسلامی جذبے سے فوج میں شامل ہوا تھا تھوڑا عرصہ گزرا ہمیں بتایا جانے لگا کہ صلاح الدین ایوبی صلیبیوں کا دوست ہے اور بدکار آدمی ہے اس سے پہلے ہم سنتے تھے کہ صلاح الدین ایوبی صلیبیوں کے خلاف لڑ رہا ہے اور صلیبی اس سے ڈرتے ہیں اور وہ صلیبیوں سے قبلہ اول آزاد کرائے گا ہماری فوج کے امام نے بھی ہمیں صلاح الدین ایوبی کے خلاف بہت بری بری باتیں بتائیں
ہم اپنی ریاست کے والئی سیف الدین غازی کو سچا سمجھتے رہے ایک روز ہماری فوج کو کوچ کا حکم ملا ہم ادھر آئے تو جنگ ہوئی جنگ کے دوران ہمیں پتہ چلا کہ ہم مسلمان فوج کے خلاف لڑ رہے ہیں یہ صلاح الدین ایوبی کی فوج تھی اس فوج کے سپاہی نعرے لگا رہے تھے حق کے خلاف نہ لڑو مسلمانو تمہارے دشمن صلیبی ہیں ہم نہیں ہمارا ساتھ دو قبلہ اول کو آزاد کراؤ عیاش حکمرانوں کے لیے نہ لڑو، میں نے اس فوج کے جھنڈے دیکھے جن پر کلمہ طیبہ لکھا ہوا تھا میرے دوست! میں نے ان سپاہیوں کو جس طرح لڑتے دیکھا اس سے صاف پتہ چلتا تھا کہ اللہ ان کے ساتھ ہے ہمارے ساتھ نہیں ہمیں کچھ پتہ نہیں چلتا تھا کہ تیر کدھر سے آرہے ہیں اور شعلے کہاں سے اٹھ رہے ہیں
ایک جگہ چٹان پھٹی ہوئی تھی میرے دل پر موت کا نہیں خدا کا خوف ایسا طاری ہوا کہ میرے بازوؤں میں طاقت نہ رہی کہ تلوار کا وزن اٹھا سکتے گھوڑے کی باگیں کھینچنے کی ہمت نہ رہی میں نے گھوڑا پھٹی ہوئی چٹان کے اندر کرلیا میں بزدل نہیں ہوں مگر میرا سارا جسم کانپ رہا تھا باہر تلواریں ٹکرا رہی تھیں گھوڑوں کا شور تھا اور مجھے نعرے سنائی دے رہے تھے رمضان شریف میں بھائیوں کے خلاف نہ لڑو مجھے یاد آیا کہ ہمیں حکم ملا تھا کہ جنگ میں روزے معاف ہوتے ہیں مجھے پتہ چلا کہ صلاح الدین ایوبی کے سپاہی روزے سے تھے میں اس وقت تک ان میں سے تین سپاہیوں کو قتل کرچکا تھا ان کا خون میری تلوار پر جم گیا تھا سپاہی اپنی تلوار پر خون دیکھ کر خوش ہوا کرتا ہے مگر میں اپنی تلوار کو دیکھنے سے گھبرا رہا تھا کیونکہ میری تلوار کے ساتھ میرے بھائیوں کا خون تھا
'مجھ میں اب وہاں سے باہر نکلنے اور لڑنے کی ہمت نہیں تھی میں وہیں دبکا رہا صلاح الدین ایوبی کے ایک سوار نے مجھے دیکھ لیا اور مجھے للکارا اس نے برچھی مجھ پر سیدھی کی میں نے خون آلود تلوار اس کے گھوڑے کے قدموں میں پھینک دی اور کہا میں تمہارا مسلمان بھائی ہوں نہیں لڑوں گا گمسان کی جنگ کچھ دور تھی یہ سوار شاید چھاپہ مار تھا اور چھپے ہوئے سپاہیوں کو ڈھونڈ رہا تھا وہ آگے آگیا اور مجھ سے پوچھا تمہیں احساس ہوگیا ہے کہ تم خدا کے سچے مسلمانوں کے خلاف لڑ رہے ہو؟
میں نے اپنے گناہ کا اقرار کیا اور کہا کہ یہ گناہ مجھ سے کرایا گیا ہے مجھے گمراہ کیا گیا ہے اس نے مجھ سے برچھی لے لی تلوار تو میں پہلے ہی پھینک چکا تھا اس نے ایک طرف اشارہ کرکے کہا خدا سے اپنے گناہ کی بخشش مانگو اور ادھر کو نکل جاؤ پیچھے نہ دیکھنا میں اللہ کے حکم سے تمہارے جان بخشی کرتا ہوں
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
میری آنکھوں میں آنسو آگئے تھے وہ محفوظ راستہ تھا میں میدان جنگ سے دور نکل آیا رات کو میں ایک جگہ رکا اور سوگیا خواب میں مجھے وہ تین سپاہی نظر آئے جنہیں میں نے جنگ میں قتل کیا تھا ان کے جسموں سے خون بہہ رہا تھا وہ میرے اردگرد آہستہ آہستہ گھوم رہے تھے ان کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا وہ مجھے کچھ نہیں کہہ رہے تھے خاموش تھے میرے دل پر ایسا خوف طاری ہورہا تھا جس سے جسم سے جان نکلتی جارہی تھی میں نے بچوں کی طرح چیخنا شروع کردیا اور میری آنکھ کھل گئی اتنی ٹھنڈی رات میں بھی میرے جسم سے پسینہ پھوٹ رہا تھا خوف سے مرا جارہا تھا میں نفل پڑھنے لگا اور روتا رہا میں تین چار دنوں سے بھٹک رہا ہوں رات کو میں سو نہیں سکتا دن کو کہیں چین نہیں آتا رات کو خواب میں ان تین سپاہیوں کو دیکھتا ہوں جو میری تلوار سے قتل ہوئے اور دن کے وقت ان ویرانوں میں وہ مجھے اپنے اردگرد گھومتے محسوس ہوتے ہیں نظر نہیں آتے اگر وہ سوار جس نے مجھے چٹان میں چھپا ہوا دیکھ لیا تھا مجھے قتل کردیتا تو اچھا ہوتا اس نے میری جان بخشی کرکے مجھ پر بہت بڑا ظلم کیا ہے اگر میرے پاس تلوار ہوتی تو میں اپنے آپ کو ختم کرلیتا میں نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تین مجاہدوں کو قتل کیا ہے
تم زندہ رہو گے داؤد نے اسے کہا یہ خدا کی رضا ہے کہ تم مرو گے نہیں میدان جنگ سے تم زندہ نکل آئے ہو تمہارے پاس خودکشی کرنے کے لیے کوئی ہتھیار نہیں اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خدا نے تم سے کوئی نیکی کا کام کرانے کے لیے زندہ رکھا ہے خدا نے تمہیں موقع دیا ہے کہ گناہ کا کفارہ ادا کردو تم مجھے یہ بتاؤ کہ صلاح الدین ایوبی کے متعلق مجھے جو بری بری باتیں بتائی گئی تھیں وہ سچی ہیں یا جھوٹی؟
بالکل جھوٹی داؤد نے جواب دیا بات صرف یہ ہے کہ صلاح الدین ایوبی صلیبیوں کو یہاں سے نکال کر خدا کی حکمرانی قائم کرنا چاہتا ہے اور سیف الدین اور اس کے دوست اپنی اپنی بادشاہی کے خواہش مند ہیں انہوں نے صلیب کے پجاریوں کے ساتھ گہری دوستی کرلی ہے اور ان کی مدد سے یہ سب صلاح الدین ایوبی کے خلاف لڑنے آئے تھے داؤد نے اسے پوری تفصیل سے بتایا کہ صلاح الدین ایوبی کیا ہے اور کیا ارادے رکھتا ہے موصل کے حکمران سیف الدین کے متعلق اسے بتایا کہ وہ اتنا عیاش ہے کہ میدان جنگ میں بھی عیاشی کا سامان ساتھ لے گیا تھا
مجھے یہ بتاؤ کہ میں صلاح الدین ایوبی کے ان تین سپاہیوں کو خون کا خراج کس طرح ادا کرسکتا ہوں سپاہی نے داؤد سے پوچھا اگر یہ بوجھ میرے دل سے نہ اترا تو میں بہت بری موت مروں گا اگر مجھے کہو تو میں والئی موصل سیف الدین کو قتل کردوں ایسی بھی کوئی ضرورت نہیں داؤد نے کہا تم پسند کرو گے کہ میں تمہارے ساتھ چلوں؟
تم کون ہو؟
سپاہی نے پوچھا میں نے یہ تو تم سے پوچھا ہی نہیں کہ تمہارا نام کیا ہے اور تم کہاں سے آئے ہو کہاں جارہے ہو؟
میرا نام حارث ہے میں موصل جارہا ہوں داؤد نے جھوٹ بولا وہیں کا رہنے والا ہوں جنگ کی وجہ سے میں راستے سے دور جارہا ہوں اگر تمہارا گاؤں راستے میں پڑتا ہے تو وہاں رکوں گا میرا گاؤں دور نہیں سپاہی حارث نے کہا تم میرے گھر نہیں رکو گے تو زبردستی روکوں گا تم نے میری زخمی روح کو سکون دیا ہے میں نے اتنی اچھی باتیں کبھی نہیں سنی تھیں میں گھر ہی جاؤں گا موصل کی فوج میں اب کبھی نہیں جاؤں گا مجھے امید ہے کہ تم مجھے نجات کا راستہ دکھا سکو گے
والئی موصل سیف الدین غازی بوڑھے کے کچے سے مکان میں فرش پر گہری نیند سویا ہوا تھا وہ کئی راتیں جاگا تھا آج رات وہ اتنی گہری نیند سویا کہ مکان کے باہر والے دروازے پر دستک ہوئی تو اس کی آنکھ نہ کھلی رات آدھی گزر گئی تھی سفید ریش بوڑھے کی آنکھ کھل گئی اس کی بیٹی اور بہو بھی جاگ اٹھیں بوڑھے نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا معلوم ہوتا ہے کہ صلاح الدین ایوبی کا بھگایا ہوا موصل کا کوئی اور کمان دار یا سپاہی آیا ہے راستے میں گھر نہیں ہونا چاہیے اس نے دروازہ کھولا تو باہر دو گھوڑے کھڑے تھے سوار اتر آئے تھے حارث نے سلام کیا تو بوڑھا اس کے ساتھ لپٹ گیا مگر اس نے محبت کی بے تابی کا اظہار الفاظ میں نہ کیا میرے عزیز بیٹے! مجھے خوشی ہے کہ حرام موت سے بچ آئے ہو ورنہ جب تک میں زندہ رہتا لوگوں سے یہی سنتا رہتا کہ تمہارا بیٹا اسلامی فوج کے خلاف لڑا تھا اس نے اپنے بیٹے کے ساتھی داؤد کے ساتھ ہاتھ ملایا داؤد کچھ کہنے لگا تھا بوڑھے نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ دی پھر سرگوشی میں کہا تمہارا بادشاہ اور سالار اعلیٰ سیف الدین غازی اندر سویا ہوا ہے گھوڑے خاموشی سے دوسری طرف لے جاکر باندھ دو اور اندر آجاؤ
سیف الدین غازی؟
حارث نے حیرت سے کہا یہاں کیسے آگیا ہے؟
شکست کھا کر بوڑھے نے سرگوشیوں میں جواب دیا اندر چلو گھوڑے دوسری طرف سے اندر لے جاکر باندھ دئیے گئے داؤد اور حارث کو بوڑھا اندر لے گیا حارث ہی اس کا وہ سپاہی بیٹا تھا جس کے متعلق اس نے سیف الدین کو بتایا تھا حارث داؤد کو اسی کمرے میں لے گیا جہاں اس کی بیوی اور جوان بہن تھی اس نے باپ سے کہا اس کا نام داؤد ہے اس سے بہتر اور کوئی دوست نہیں ہوسکتا
کیا تم بھی بھاگ کر آئے ہو؟
بوڑھے نے داؤد سے پوچھا
میں فوجی نہیں ہوں داؤد نے جواب دیا موصل جارہا ہوں جنگ نے مجھے راستے سے ہٹا دیا تھا حارث مل گیا تو میں اس کے ساتھ چل پڑا مجھے یہ بتاؤ کہ والئی موصل ہمارے گھر میں کیسے آیا ہے؟
حارث نے اپنے باپ سے پوچھا
سفید ریش باپ نے اسے بتایا کہ وہ کس طرح آیا ہے آج ہی رات آیا ہے اس نے کہا اس کے ساتھ ایک نائب سالار اور کمان دار تھا ان دونوں کو اس نے کہیں بھیج دیا ہے میرے کانوں میں اس کے یہ الفاظ پڑے تھے کہ فوج کو یکجا کرو اور مجھے بتاؤ کہ میں موصل آجاؤں یا ابھی چھپا رہوں میں اس وقت دروازے کے قریب تھا
ابھی تو وہ اتنا ڈرا ہوا ہے کہ مجھے کہتا تھا کہ کسی کو پتہ نہ چلنے دوں کہ یہ یہاں ہے بوڑھے نے جواب دیا میں اپنے تجربے کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ اس کا ارادہ صلاح الدین ایوبی کے خلاف لڑنے کا ضرور ہے اپنے کمان دار کو اس نے موصل کے بجائے کسی اور طرف بھیجا ہے میں اسے قتل کروں گا حارث نے کہا اس نے مسلمان کو مسلمان کے خلاف لڑایا ہے اللہ اکبر کے نعرے لگانے والوں نے ایک دوسرے کا خون بہایا ہے مجھے پاگل کیا ہے وہ غصے سے بے قابو ہوکر اٹھا دیوار کے ساتھ اس کے باپ کی تلوار لٹک رہی تھی وہ لے لی باپ نے پیچھے سے اسے دبوچ لیا داؤد نے اس کا بازو پکڑ لیا حارث بے قابو ہوا جارہا تھا باپ نے اسے کہا کہ پہلے میری بات سن لو داؤد نے بھی اسے روکا اور کہا کہ ایسے فیصلے کرنے سے پہلے سوچ لینا اچھا ہوتا ہے ہم اسے قتل کرکے ہی چین کا سانس لیں گے لیکن پہلے آپس میں صلاح مشورہ کرلیں حارث مان تو گیا لیکن پھنکار رہا تھا غصے کی شدت سے اس کی آنکھیں سرخ ہوگئی تھیں اسے قتل کرنا کوئی مشکل کام نہیں بوڑھے نے اپنے بپھرے ہوئے بیٹے کو بٹھا کر کہا وہ گہری نیند سویا ہوا ہے اسے تو میرے یہ ناتواں بازو بھی قتل کرسکتے ہیں اس کی لاش کو چھاپا بھی جاسکتا ہے مگر اس کے جو دو ساتھی چلے گئے ہیں وہ ہمیں چھوڑیں گے نہیں وہ ہمیں شک میں پکڑ لیں گے تمہاری جوان بیوی اور جوان بہن کے ساتھ بہت برا سلوک کریں گے اگر ہم انہیں بتائیں گے کہ والئی موصل چلا گیا ہے تو وہ نہیں مانیں گے کیونکہ اس نے انہیں کہا ہے کہ وہ یہیں واپس آئیں معلوم ہوتا ہے کہ آپ سیف الدین کو سچا سمجھتے ہیں حارث نے کہا آپ مسلمان کے خلاف مسلمان کی لڑائی کو بھی جائز سمجھتے ہیں
یہ بھی ایک وجہ ہے کہ میں اسے اپنے گھر میں قتل نہیں کرنا چاہتا بوڑھے نے کہا میں نے اسے صاف الفاظ میں بتادیا ہے کہ میں اسے سچا نہیں سمجھتا اس نے مجھے کہا کہ تم صلاح الدین ایوبی کے حامی معلوم ہوتے ہو اس نے مجھے یہ لالچ بھی دیا ہے کہ اگر تمہارا بیٹا جنگ میں مارا گیا تو اس کے عوض بہت رقم دوں گا میں نے اسے کہا کہ میں اپنے بیٹے کی شہادت کا خواہش مند ہوں حرام موت یا رقم کا نہیں سیف الدین میرے خیالات جان گیا ہے اگر ہم نے اسے قتل کرکے لاش غائب کردی تو اس کا نائب سالار فوراً مجھے پکڑے گا اور کہے گا کہ تم صلاح الدین ایوبی کے حامی ہو اس لیے تم نے والئی موصل کو قتل کردیا ہے
داؤد بھائی! حارث نے داؤد سے پوچھا تم بتاؤ میں کیا کروں تم نے میری جذباتی حالت دیکھی تھی تم نے کہا تھا کہ خدا نے مجھے گناہ کا کفارہ ادا کرنے کے لیے زندہ رکھا ہے اس سے بڑھ کر نیکی کا اور کام کیا ہوسکتا ہے کہ حکمران کو قتل کردوں جس نے ہزاروں مسلمانوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں قتل کرایا ہے تم دانش مند انسان ہو اس ایک آدمی کو قتل کرنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا داؤد نے کہا اس کے دوست بھی ہیں جو حلب میں ہیں اور حرن میں بھی ان کے بہت سے سالار ہیں اور ان کی تین فوجیں ہیں اکیلے سیف الدین کے قتل سے یہ سب صلاح الدین ایوبی کے آگے ہتھیار نہیں ڈال دیں گے ہتھیار ڈلوانے کا طریقہ اور ہوتا ہے اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ ان سب کو میدان جنگ میں ایسا بے بس کردیا جائے کہ یہ ہتھیار ڈال دیں اور صلاح الدین ایوبی کی شرائط ماننے پر مجبور ہوجائیں یہ کام صلاح الدین ایوبی کے سوا اور کون کرسکتا ہے؟
حارث نے کہا میرے سینے میں جو آگ بھڑک رہی ہے وہ کس طرح سرد ہوگی؟
مجھے خدا تین مجاہدین اسلام کا خون کیونکر بخشے گا؟
داؤد بہت خوش تھا کہ اسے والئی موصل یہیں مل گیا ہے وہ حارث اور اس کے باپ کو یہ بتانے سے جھجک رہا تھا کہ وہ جاسوس ہے جاسوس کو جذبات میں آکر اپنا پردہ نہیں اٹھانا چاہیے مگر پردہ اپنے اوپر ڈالے رکھنے سے وہ کچھ بھی نہیں کرسکتا تھا اس نے تو یہ سوچ لیا تھا کہ سیف الدین جہاں بھی جائے گا وہ اس کا تعاقب کرے گا اور اس کی سرگرمیوں کو غور سے دیکھے گا لیکن اتنے دن حارث کے گھر میں ٹھہرنا مشکل نظر آرہا تھا اسے باپ بیٹے کے تعاون کی ضرورت تھی یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ وہ اعتماد میں لے یا نہ لے اس نے ان کے ساتھ اپنے انداز سے باتیں شروع کردیں اس نے دیکھا کہ حارث تو سیف الدین کو قتل کرنے پر تلا ہی ہوا تھا اس کا باپ بھی صلاح الدین ایوبی کے اس دشمن کا نام حقارت سے لیتا تھا
اگر میں آپ کو ایسا طریقہ بتاؤں جس سے سیف الدین آئندہ اٹھنے کے قابل نہ رہے تو کیا آپ میرا ساتھ دیں گے؟
داؤد نے ان سے پوچھا میرے بیٹے کی طرح تم جذبات سے نہیں سوچ رہے تو میں تمہارا ساتھ دوں گا حارث کے باپ نے کہا اور میں قتل سے ہٹ کر اور کچھ نہیں سنوں گا حارث نے کہا اگر تم اپنی عقل اور اپنے جذبات کی لگام میرے ہاتھ میں دے دو تو تمہارے ہاتھوں ایسا کام کراؤں گا جو تمہاری روح کو سکون اور چین سے مالا مال کردے گا داؤد نے دونوں کو بڑی غور سے دیکھا حارث کی بیوی اور بہن ذرا الگ ہٹ کر بیٹھی سن رہی تھیں داؤں نے انہیں بھی غور سے دیکھا اور کہا مجھے قرآن دو حارث کی بہن نے اٹھ کر قرآن اٹھایا آنکھوں سے لگایا چوما اور داؤد کو دے دیا داؤد نے بھی قرآن پاک کو آنکھوں سے لگایا چوما اور قرآن کھولا اس نے ایک جگہ انگلی رکھی اور پڑھا شیطان نے ان کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے اور خدا کی یاد ان کے ذہنوں سے نکل گئی ہے یہ جماعت شیطان کا لشکر ہے اور سن رکھو کہ شیطان کا لشکر نقصان اٹھانے والا ہے جو لوگ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کرتے ہیں وہ ذلیل وخوار ہوں گے یہ اٹھائیسویں پارے کی اٹھارہویں انیسویں آیات (سورۂ الحشر) تھیں جو قرآن کھلتے ہی سامنے آگئیں داؤد نے کہا یہ اللہ پاک کا کلام ہے میں نے مرضی سے یہ صفحہ نہیں کھولا یہ الفاظ اپنے آپ میرے سامنے آئے ہیں یہ خدا کا فرمان ہے اور یہ خدا کی بشارت ہے قرآن پاک نے ہم سب کو بتا دیا ہے کہ یہ جماعت شیطانوں کا لشکر ہے لیکن میں اپنے پیر استاد کا سبق تمہیں پڑھانا چاہتا ہوں بے شک قرآن پاک نے فرمایا ہے کہ جو لوگ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کرتے ہیں وہ ذلیل وخوار ہوں گے لیکن وہ اس وقت تک ذلیل وخوار نہیں ہوں گے جب تک ہم کوشش کرکے ان کی ذلت وخواری کا سامان پیدا نہیں کریں گے یہ ہم سب پر فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم انہیں ذلیل وخوار کریں
اس نے قرآن پاک دونوں ہاتھوں پر رکھ کر آگے کیا اور سب سے کہا سب اپنا اپنا دایاں ہاتھ خدا کے اس پاک کلام پر رکھو اور کہو تم راز سے پردہ نہیں اٹھاؤ گے اور دشمن کو شکست دینے میں اپنی جانیں قربان کردو گے سب نے جن میں دونوں خواتین بھی شامل تھیں قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی قرآن نے ان کے اندر جو تاثر پیدا کر دیا تھا وہ ان کے چہروں سے ظاہر ہو رہا تھا کمرے میں ایسی خاموشی طاری ہو گئی کہ سب کے سانسوں کی بھی آواز سنائی دیتی تھی سب داؤد کی طرف دیکھ رہے تھے تم سب نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی ہے دائود نے کہا خداوند تعالیٰ نے قرآن پاک تمہاری زبان میں اتارا ہے تم اس مقدس کتاب کا ایک ایک لفظ سمجھتے ہو اگر تم نے اس قسم سے انحراف کیا تو اس کی سزا قرآن پاک میں لکھی ہوئی ہے تم بھی اسی ذلت و رسوائی میں پھینک دئیے جاؤ گے جو شیطان کے لشکر کے مقدر میں لکھی ہوئی ہے
تم کون ہو؟
بوڑھے نے حیرت زدہ آواز میں داؤد سے پوچھا تم کسی بہت بڑے عالم کے مرید معلوم ہوتے ہو میرے پاس کوئی علم نہیں داؤد نے کہا میرے پاس عمل ہے میں قرآن کی روشنی میں جان ہتھیلی پر رکھ کر یہاں آیا ہوں یہ سبق مجھے کسی عالم نے نہیں صلاح الدین ایوبی نے دیا ہے میں موصل کا نہیں دمشق کا باشندہ ہوں اور میں سلطان ایوبی کا بھیجا ہوا جاسوس ہوں یہ ہے وہ راز جس کی تم سب نے قسم کھائی ہے کہ اس سے پردہ نہیں اٹھاؤ گے مجھے تم سب کے تعاون کی ضرورت ہے مجھے یقین دلاؤ کہ جو میں کہوں گا وہ کرو گے ہم قسم کھا چکے ہیں بوڑھے نے کہا تم اپنا مقصد اور مدعا بیان کرو مجھے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہے داؤد نے کہا میں جس کے سینے سے راز نکال کر سلطان صلاح الدین ایوبی تک پہنچانا چاہتا ہوں وہ مجھے اس چھت کے نیچے مل گیا ہے جس کے نیچے میں بیٹھا ہوں خدائے ذوالجلال نے مجھے فرشتوں کی راہنمائی دی اور یہاں پہنچا دیا ہے مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ سیف الدین اور اس کے دوستوں کے ارادے اور سرگرمیاں کیا ہیں اگر یہ لوگ جنگ کی تیاریاں کریں تو انہیں تیاری سے پہلے یا تیاری کی حالت میں ختم کیا جاسکتا ہے ان کے ارادے قبل از وقت معلوم کرنا ضروری ہیں ہوسکتا ہے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی تیار نہ ہو اور یہ لوگ اچانک حملہ کردیں آپ جانتے ہیں کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا
کیا مجھے اجازت ہوگی کہ اپنی فوجوں کو دھوکے میں مسلمانوں کے خلاف لڑانے والوں کو قتل کردوں؟
حارث نے پوچھا
یہ میں بتاؤں گا داؤد نے جواب دیا بعض حالات میں قتل نہ کرنا فائدہ مند ہوتا ہے تمہیں ہر قدم ٹھنڈے مزاج سے اٹھانا ہوگا ہمیں سیف الدین پر نظر رکھنی ہے اور اس کا تعاقب کرنا ہے جس طرح یہ یہاں آکر چھپ گیا ہے اسی طرح میں اور حارث چھپے رہیں گے اور دیکھتے رہیں گے کہ یہ کیا کرتا ہے سیف الدین اسی مکان کے ایک کمرے میں گہری نیند سویا رہا صبح طلوع ہوئی بوڑھے نے جھانک کر دیکھا وہ سویا ہوا تھا سورج خاصا اوپر آگیا تھا جب اس کی آنکھ کھلی حارث کی بہن اور بیوی نے اس کے آگے ناشتہ رکھا اس نے حارث کی بہن کو غور سے دیکھا اور کہا تم ہماری جو خدمت کررہی ہو اس کا ہم اتنا صلہ دیں گے جو تمہارے تصور میں بھی نہیں آسکتا ہم تمہیں اپنے محل میں رکھیں گے اگر ہم آپ کو اسی جھونپڑے میں رکھیں تو کیا آپ خوش نہیں رہیں گے؟
لڑکی نے ہنس کر پوچھا ہم تو صحرا میں بھی رہ سکتے ہیں سیف الدین نے کہا لیکن تم پھولوں کے ساتھ سجا کر رکھنے والی چیز ہو کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ کے نصیب میں محل میں دوبارہ جانا لکھا ہے؟
لڑکی نے پوچھا
ایسی بات تم نے کیوں کہی ہے؟
آپ کی حالت دیکھ کر لڑکی نے کہا بادشاہ کا جھونپڑے میں چھپنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس کی سلطنت چھن گئی ہے اور اس کی فوج ساتھ چھوڑ گئی ہے فوج نے میرا ساتھ نہیں چھوڑا سیف الدین نے کہا میں ذرا آرام کے لیے یہاں رک گیا ہوں محل صرف میرے نصیب میں نہیں تمہارے نصیب میں بھی لکھا ہوا ہے کیا تم میرے ساتھ چلنا پسند کرو گی؟
حارث کی بیوی کمرے سے نکل گئی تھی بہن سیف الدین کے پاس بیٹھ گئی اور کہنے لگی اگر میں آپ کی جگہ ہوتی تو صلاح الدین ایوبی کو شکست دئیے بغیر محل کا نام نہ لیتی اگر آپ نے مجھے پسند کیا ہے تو میں آپ کو بتا دیتی ہوں کہ مجھے آپ کا بھاگنا اور چھپنا بالکل پسند نہیں جنگجو بادشاہوں کی طرح باہر نکلیں اپنی فوج کو اکٹھا کریں اور سلطان صلاح الدین ایوبی پر حملہ کردیں
لڑکی بھولی بھالی شکل کی تھی اس کی سادگی میں حسن تھا سیف الدین اسے بڑی دلچسپی سے دیکھ رہا تھا اور اس کے ہونٹوں پر ایسی مسکراہٹ تھی جس میں شیطانیت بھی تھی اور محبت بھی
میں شہزادی نہیں ہوں لڑکی نے کہا ان چٹانوں اور صحراؤں میں پیدا ہوئی اور یہیں جوان ہوئی ہوں میں سپاہی کی اولاد اور سپاہی کی بہن ہوں آپ کے ساتھ محل میں نہیں میدان جنگ میں جاؤں گی میرے ساتھ آپ تیغ زنی کا مقابلہ کریں گے؟
چٹانوں کے اوپر نیچے میرے ساتھ گھوڑا دوڑائیں گے؟
تم صرف خوبصورت ہی نہیں جنگجو بھی ہو سیف الدین نے اس کے بالوں پر ہاتھ پھیر کر کہا ایسے پیارے بال میں نے پہلی بار دیکھے ہیں
لڑکی نے اس کا ہاتھ آہستہ سے پرے کردیا اور کہا بال نہیں بازو ابھی آپ کو میرے بالوں کی نہیں میرے بازوؤں کی ضرورت ہے مجھے بتائیں آپ کا ارادہ کیا ہے؟
تمہارا باپ خطرناک آدمی ہے سیف الدین نے کہا وہ صلاح الدین ایوبی کا حامی ہے اور مجھے شاید پسند نہیں کرتا مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے دھوکہ دے گا
لڑکی الہڑ سی ہنسی ہنس پڑی اور بولی وہ بوڑھا آدمی ہے معلوم نہیں آپ کے ساتھ اس نے کیا باتیں کی ہیں ہمارے سامنے رات سے وہ آپ کی تعریفیں کررہا ہے اس نے صلاح الدین ایوبی کا صرف نام سنا ہے اس کے متعلق اور کچھ نہیں جانتا اس سے آپ نہ ڈریں ضعیف آدمی آپ کا کیا بگاڑ سکتا ہے مجھے آزمائیں سیف الدین نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تو لڑکی پیچھے ہٹ گئی کہنے لگی میں آپ کو اپنے جسم سے محروم نہیں کروں گی اپنے آپ کو آپ کے حوالے کردوں گی لیکن اس وقت جب آپ صلاح الدین ایوبی کو شکست دے کر آئیں گے آپ اس وقت مشکل میں ہیں مجھ سے دور رہیں مجھے یہ بتائیں کہ آپ کا ارادہ کیا ہے؟
سیف الدین عیاش اور زن پرست انسان تھا جوان اور خوبصورت لڑکی اس کے لیے عجوبہ نہیں تھی لیکن اس لڑکی میں اس نے یہ عجیب بات دیکھی کہ وہ اس کے آگے جھجک نہیں رہی تھی اس کے آگے تو ہر لڑکی سدھائے ہوئے جانور کی طرح اشاروں پر ناچا کرتی تھی اس لڑکی نے اس پر ایسا وار کیا کہ اس کی غیرت بھڑک اٹھی
سنو لڑکی! اس نے کہا تم نے میری مردانگی کا امتحان لینا چاہا ہے میں اب اس وقت تمہارے جسم کو ہاتھ لگاؤں گا جس وقت میرے ہاتھ میں صلاح الدین ایوبی کی تلوار ہوگی اور میں اسی کے گھوڑے پر سوار ہوں گا مجھ سے وعدہ کرو کہ تم میرے پاس آجاؤ گی مجھے اپنے ساتھ میدان جنگ میں لے چلیں لڑکی نے کہا
نہیں سیف الدین نے کہا مجھے ابھی فوج تیار کرنی ہے میں نے ایک آدمی کو موصل بھیج دیا ہے میں نے انہیں کہلا بھیجا ہے کہ فوجیں اکٹھی کرو اور فوراً صلاح الدین ایوبی پر حملہ کردو تاکہ وہ ہمارے شہروں کا محاصرہ کرنے آگے نہ آسکے آج شام تک میرے دونوں آدمی واپس آجائیں گے تو معلوم ہوگا کہ حلب اور حرن کی فوجیں کس حالت میں ہیں ہم شکست تسلیم نہیں کررہے جوابی حملہ کریں گے اور فوراً کریں گے
سیف الدین کی شخصیت یہی کچھ تھی زن پرستی اور ایمان فروشی نے اس کا کردار اتنا کھوکھلا کردیا تھا کہ اس نے ایک الہڑ اور سیدھی سادی لڑکی سے متاثر ہوکر اسے راز کی بھی ایک دو باتیں بتا دیں لڑکی نے اس کا ہاتھ چوم لیا اور کمرے سے نکل گئی اس کے ساتھ جو دو آدمی آئے تھے ان میں سے ایک کو اس نے موصل بھیجا ہے اور دوسرے کو حلب حارث کی بہن اپنے باپ کو حارث اور داؤد کو بتا رہی تھی اس کا ارادہ یہ ہے کہ تینوں فوجوں کو اکٹھا کرکے صلاح الدین ایوبی پر فوراً حملہ کیا جائے تاکہ وہ آگے آکر ان کے شہروں کو محاصرے میں نہ لے سکے اس کے جو دو آدمی گئے ہوئے ہیں وہ آکر اسے بتائیں گے کہ فوجیں لڑنے کی حالت میں ہیں یا نہیں سیف الدین نے اسے جو کچھ بتایا تھا وہ اس نے اپنے باپ، بھائی اور داؤد کو بتا دیا یہ لڑکی جس کا نام فوزی تھا کوئی ایسی چالاک اور ہوشیار لڑکی نہیں تھی اسے خدا نے ذہانت اور جذبہ عطا کیا تھا داؤد نے اسے بتایا کہ وہ سیف الدین کے دل سے راز نکالے فوزی کو اس نے طریقہ بھی بتایا تھا اور یہ بھی بتا دیا تھا کہ یہ شخص عیاش اور بدکار ہے اس لیے اس کے جال سے بچ کر رہنا فوزی نے یہ کام خوش اسلوبی سے کرلیا اس نے سیف الدین سے جو باتیں کہلوا لی تھیں ان سے داؤد کو یہ پتہ چل گیا کہ سیف الدین کا پیچھا کرنا ضروری ہے
آدھی رات سے کچھ دیر پہلے بوڑھے کی آنکھ کھل گئی اس نے دروازے پر دستک سنی اور گھوڑے کو ہنہناتے بھی سنا تھا اس نے دروازہ کھولا باہر سیف الدین کا نائب سالار کھڑا تھا بوڑھا اس کا گھوڑا دوسری طرف لے گیا اور نائب سالار اندر چلا گیا بوڑھے نے جاکر نائب سالار سے کھانے کے متعلق پوچھا اس نے انکار کردیا بوڑھے نے غلاموں کی طرح ان سے سلوک کیا سیف الدین نے اسے کہا کہ وہ جاکر سوجائے بوڑھا رعایا کی طرح کے آداب سے وہاں سے نکلا اس نے داؤد کو جگایا اور دونوں نے دروازے کے ساتھ کان لگا دئیے گمشتگین کے متعلق معلوم ہوا ہے کہ حلب میں الملک الصالح کے ساتھ ہے نائب سالار کہہ رہا تھا میں نے موصل میں جو حالات دیکھے ہیں وہ کوئی ایسے برے نہیں کہ ہم لڑ ہی نہ سکیں صلاح الدین ایوبی ترکمان رک گیا ہے صلیبیوں کے جاسوسوں نے بتایا ہے کہ وہ الجزیرہ دیار اور بقر اور اردگرد کے علاقوں سے لوگوں کو فوج میں بھرتی کررہا ہے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے وہ فوری طور پر پیش قدمی نہیں کرے گا پیش قدمی ضرور کرے گا جو طوفانی ہوگی اس کی فوج کی خیمہ گاہ بتا رہی ہے کہ وہ وہاں زیادہ دن قیام کرے گا وہ غالباً اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ ہم لڑنے کے قابل نہیں رہے ہماری جو فوج موصل پہنچی ہے اس کی نفری ایک تہائی سے کچھ زیادہ کم ہے یہ سپاہی مارے گئے ہیں اور ان میں لاپتہ بھی شامل ہیں تو کیا یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ ہم اسی فوج سے صلاح الدین ایوبی پر حملہ کردیں؟
سیف الدین نے پوچھا صرف ہماری فوج حملے کے لیے کافی نہیں نائب سالار نے جواب دیا الملک الصالح اور گمشتگین کو ساتھ ملانا ضروری ہے ہمارے مشیروں (صلیبیوں) نے بھی یہی مشورہ دیا ہے
تم نے انہیں بتا دیا ہے کہ میں کہاں ہوں؟
سیف الدین نے پوچھا میں نے یہ جگہ نہیں بتائی نائب سالار نے جواب دیا انہیں یہ بتایا ہے کہ آپ ترکمان کے مضافات میں گھوم پھر رہے ہیں اور صلاح الدین ایوبی کی نقل و حمل کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ اگلے معرکے کا منصوبہ تیار کیا جاسکے میرا خیال ہے کہ تین چار روز بعد آپ کو موصل چلے جانا چاہیے مجھے حلب کی خبر معلوم کرلینے دو سیف الدین نے کہا وہ (کمان دار) کل شام تک واپس آجائے گا تم جانتے ہو کہ گمشتگین شیطان کی فطرت کا انسان ہے اسے اپنے قلعے (حرن) میں چلے جانا چاہیے تھا حلب میں وہ کیا کررہا ہے؟
میں موصل جانے سے پہلے حلب جاؤں گا گمشتگین بے شک ہمارا اتحادی ہے مگر میں اسے اپنا دوست نہیں کہہ سکتا مجھے الملک الصالح کے سالاروں کو اس پر بھی قائل کرنا ہے کہ وہ صلاح الدین ایوبی کے سستانے سے فائدہ اٹھائیں اور وقت ضائع کیے بغیر حملہ کردیں میں اب یہ مشورہ بھی دوں گا کہ تینوں فوجیں ایک مرکزی کمان کے ماتحت ہونی چاہئیں اور ان کا ایک سالار اعلیٰ ہونا چاہیے ہم نے صرف اس لیے شکست کھائی ہے کہ ہماری فوجوں کی کمان الگ الگ تھی ہمیں ایک دوسرے کے منصوبے اور چالوں کا علم ہی نہیں تھا ورنہ مظفرالدین نے صلاح الدین ایوبی کے پہلو پر جو حملہ کیا تھا وہ کبھی ناکام نہ ہوتا مرکزی کمان آپ کے پاس ہونی چاہیے نائب سالار نے کہا اور ہمیں اپنے دوستوں سے بھی ہوشیار رہنا چاہیے سیف الدین نے کہا اور پوچھا صلیبی ہمیں مدد دیں گے؟
وہ اپنی فوج تو نہیں دیں گے نائب سالار نے جواب دیا اونٹ گھوڑے اور اسلحہ وغیرہ دیں گے نائب سالار نے پوچھا یہاں آپ نے کوئی خطرہ تو محسوس نہیں کیا؟
نہیں سیف الدین نے کہا بوڑھا قابل اعتماد معلوم ہوتا ہے اس کی بیٹی جال میں آگئی ہے لیکن جذباتی اور جوشیلی ہے کہتی ہے پہلے صلاح الدین ایوبی کو شکست دو اس کی تلوار لاؤ اس کے گھوڑے پر سوار ہوکر آؤ اور میں تمہارے ساتھ چلی چلوں گی نائب سالار نے قہقہہ لگایا حارث اس کا باپ اور دائود دروازے کے ساتھ کان لگائے سن رہے تھے سیف الدین اور اس کے نائب سالار کے فرشتوں کو بھی معلوم نہ تھا کہ اس گھر میں صرف ایک بوڑھا اور دو لڑکیاں ہی نہیں دو جوان مجاہد بھی ہیں جو کسی بھی موزوں موقعے پر اسے قتل کردیں گے سیف الدین کو ذرا سا بھی شک نہیں ہوا تھا کہ اس نے فوزی کو اپنے جال میں نہیں پھانسا بلکہ خود اس کے جال میں آگیا ہے داؤد اور حارث اندر رہے سیف الدین اور اس کا نائب سالار ڈیوڑھی کے ساتھ والے کمرے میں بند رہے دن کے دوران فوزی تین چار بار اس کمرے میں گئی وہ چونکہ اس سے دو ہاتھ دور رہتی تھی اس لیے سیف الدین اس کی طرف اور زیادہ کھچا آتا تھا فوزی سے اس نے پوچھا تمہارا بھائی میری فوج میں سپاہی ہے میں اسے جیش کا کمان دار بنا دوں گا
ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں فوزی نے کہا اگر وہ زندہ نہ ہوا تو ہم بے آسرا ہوجائیں گے...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*