👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑🌴⭐قسط نمبر 𝟟 𝟠⭐🌴


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟟  𝟠⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جنات کی دہشت الناصر کے دل ودماغ پر بدستور طاری تھی عرب کا یہ خوبرو جوان سلطان صلاح الدین ایوبی کے ان چھاپہ ماروں میں سے تھا جو موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا کرتے تھے صلیبیوں کا یہ کہنا تھا کہ سلطان ایوبی کے چھاپہ ماروں سے موت بھی ڈرتی ہے صحراؤں کی صعوبتوں کا کو دریاؤں کی تندی کو اور سنگلاخ دیواروں کو خاطر میں نہ لانے والے یہ جانباز آگ میں بھی کود جایا کرتے تھے یہ حقیقت ہے کہ دشمن کی رسد وغیرہ کو آگ لگا کر ان میں سے بعض شعلوں کی لپیٹ میں آکر زندہ جل جایا کرتے تھے مگر جنات اور بھوت پریت ایسی مخلوق تھی جس سے یہ سرفروش ڈر جایا کرتے تھے ان میں سے کسی نے کبھی جن اور بھوت نہیں دیکھے تھے صرف کہانیاں اور روائتیں سنی تھیں جنہیں وہ سو فیصد سچ مانتے تھے اور دل پر جنات کا خوف طاری کیے رکھتے تھے
اگر الناصر قلعہ عصیات تک اپنی مرضی سے اور ہوش میں سفر کرتا تو وہ اتنا ڈرا ہوا نہ ہوتا اگر اسے قیدی بنا کر لایا جاتا تو بھی وہ نڈر رہتا اور فرار کی ترکیبیں سوچتا لیکن اسے حشیش کے نشے میں اور اس کے ذہن میں غیر حقیقی تصورات ڈال کر لایا گیا تھا اب نشہ اتر چکا تھا اس نشے میں وہ سبزہ زار اور باغات میں سے گزر کر آیا تھا اسے یاد آنے لگا کہ زمین کے اس خطے میں کہیں کہیں سبزہ اور ہو سکتا ہے میلوں وسیع علاقہ ایسا جنت نما نہیں ہوسکتا اب اس کے پلنگ پر وہ لڑکی آبیٹھی تھی جسے وہ جن سمجھتا تھا لڑکی اس کے تصوروں سے زیادہ خوبصورت تھی الناصر اسے انسان تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہورہا تھا لڑکی نے اسے کہا کہ وہ اس پر بھروسہ کرے تو وہ اور زیادہ ڈر گیا اس نے یہ بھی سن رکھا تھا کہ جنات بڑے دلکش دھوکے دے کر مارا کرتے ہیں اسے یہ قلعہ جنات یا بدروحوں کا مسکن معلوم ہونے لگا اس کے ساتھی ابھی گہری نیند سوئے ہوئے تھے اس نے دل کو حوصلہ دے کر لڑکی سے پوچھا میں تم پر کیوں بھروسہ کروں؟ 
تم مجھ پر اتنی مہربان کیوں ہوگئی ہو؟ 
ہمیں یہاں کیوں لے آئی ہو؟ 
یہ جگہ کیا ہے؟ 
اگر تم مجھ پر بھروسہ نہیں کرو گے تو تمہارا انجام بہت برا ہوگا لڑکی نے جواب دیا تم بھول جاؤ گے کہ تم کون تھے تمہارے ہاتھ تمہارے اپنے بھائیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہوں گے اور تم اس خون کو پھول سمجھ کر خوش ہوگے میں ابھی تمہیں اس سوال کا جواب نہیں دے سکتی کہ میں تم پر اتنی مہربان کیوں ہوگئی ہوں یہ جگہ ایک قلعہ ہے جس کا نام عصیات ہے یہ فدائیوں کا قلعہ ہے یہاں فدائیوں کا پیغمبر شیخ سنان رہتا ہے فدائیوں کو تم جانتے ہو؟
ہاں جانتا ہوں الناصر نے جواب دیا بہت اچھی طرح جانتا ہوں اور اب یہ بھی جان گیا ہوں کہ تم کون ہو تم بھی فدائی ہو میں جانتا ہوں کہ فدائیوں کے پاس تم جیسی خوبصورت لڑکیاں ہوتی ہیں
میرا ان لوگوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں لڑکی نے جواب دیا میرا نام لِزا ہے تمہارے ساتھ ایک اور لڑکی تھی اس کا نام تھیریسیا ہے لزا نے جواب دیا وہ یہیں ہے تمہیں یہاں تک حشیش کے نشے میں لایا گیا ہے
وہ اس سے زیادہ نہ بول سکی کیونکہ کمرے کے دراوزے میں اچانک تھیریسیا آن کھڑی ہوئی تھی تھیریسیا نے لزا کو سر کے اشارے سے باہر بلایا لزا باہر نکل گئی یہاں کیا کررہی ہو؟
تھیریسیا نے پوچھا اس شخص کے اتنی قریب بیٹھ کر تمہیں خیال نہ آیا کہ مسلمان قابل نفرت ہوتے ہیں؟ 
کیا تم غداری کے جرم کا ارتکاب کرنا چاہتی ہو؟
لزا کا ذہن خالی ہوگیا اس کی زبان پر کوئی جواب نہ آیا وہ جذباتی لحاظ سے اپنے پیشے یعنی مسلمان امراء کی کردار کشی سے متنفر ہوگئی تھی یہ نفرت اس حد تک پہنچ گئی تھی جہاں انسان اپنے ردعمل میں بے قابو ہوجاتا ہے اور وہ انتقام کی راہ اختیار کرلیتا ہے یا فرار کی میں بھی جوان لڑکی ہوں تھیریسیا نے اسے کہا مجھے بھی یہ مسلمان چھاپہ مار جس کا نام الناصر ہے اچھا لگتا ہے یہ دلکش جوان ہے اگر تم یہ کہو کہ یہ تمہارے دل میں اتر گیا ہے تو میں حیران نہیں ہوں گی مجھے یہ احساس بھی ہے کہ تمہارے دل میں ان بوڑھے مسلمان امراء اور ان کے سالاروں کے خلاف نفرت بھر گئی ہے جن کے ہاتھوں میں تم کھلونا بنی رہی ہو مگر اپنے فرائض کو سامنے رکھو صلیب کی عظمت کو سامنے رکھو یہ مسلمان تمہارے دشمن ہیں
نہیں تھیریسیا لزا نے پریشان لہجے میں کہا مجھے اس کے ساتھ وہ دلچسپی نہیں جو تم سمجھ رہی ہو پھر اس کے پاس کیوں آ بیٹھی تھیں؟
میں اچھی طرح بیان نہیں کرسکتی لزا نے اکتائے ہوئے لہجے میں جواب دیا معلوم نہیں ذہن میں کیا آیا تھا کہ میں اس کے پاس آبیٹھی اس کے ساتھ کیا باتیں ہوئی ہیں؟
کوئی خاص بات نہیں ہوئی لزا نے کہا تم اپنے فرض میں کوتاہی کررہی ہو تھیریسیا نے کہا یہ غداری بھی ہے جس کی سزا موت ہے لیکن سن لو تھیریسیا لزا نے کہا میں اسے بوڑھے شیخ سنان کے پاس اکیلی نہیں جاؤں گی اگر اس نے زبردستی کی تو اسے یا اپنے آپ کو ختم کرلوں گی تھیریسیا تو پتھر بن چکی تھی وہ خوبصورت پتھر تھی جس کا رنگ اور جس کی چمک ہر کسی کے دل کو بھاتی ہے اور جسے ہر کوئی اپنی ملکیت میں رکھنا چاہتا ہے لیکن پتھر کی اپنی کوئی پسند یا ناپسند نہیں ہوتی لزا بھی اس مقام سے بہت دور تھی جہاں عورت اپنے جذبات اور اپنی محبت اور نفرت سے دستبردار ہوجایا کرتی ہے تھیریسیا نے اسے کہا مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ تم اتنی زیادہ جذباتی ہو جاؤ گی ورنہ ہم یہاں نہ آتیں مگر یہی ایک قلعہ تھا جو قریب تھا تریپولی تک ہمارا پہنچنا ممکن نہیں تھا میں نے تم سے وعدہ کیا ہے کہ شیخ سنان سے تمہیں بچانے کی پوری کوشش کروں گی اور یہاں سے جلدی نکلنے کی بھی کوئی صورت پیدا کرلوں گی تم اپنے قیدی میں اتنی دلچسپی کا مظاہرہ نہ کرو سچ بتا دوں تھیریسیا لزا نے کہا میں ان چھاپہ ماروں کو یہاں سے فرار کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہوں تم نہ خود یہاں سے نکل سکو گی یہ چھاپہ مار ہیں جن کی بہادری کی میں نے حیران کن کہانیاں سن رکھی ہیں انہیں اگر ذرا سا بھی موقعہ فراہم کیا گیا تو یہ فرار ہوجائیں گے اور مجھے اور تمہیں بھی ساتھ لے جائیں گے اس کے سوا اور کوئی طریقہ نہیں میں ان کی استادی اور بہادری کو مانتی ہوں تھیریسیا نے کہا لیکن تم نے یہ نہیں سوچا کہ ہم دونوں یا تم اکیلی ان کے ساتھ نکل گئی تو یہ تمہیں اپنے ساتھ لے جائیں گے ہمیں ہماری منزل پر نہیں پہنچائیں گے جھوٹے سہارے تلاش کرنے کی کوشش نہ کرو اور سنو! تھیریسیا نے کہا نہالو اور کپڑے بدل لو آج رات کے کھانے پر شیخ سنان نے ہمیں مدعو کیا ہے میں تمہیں بتاٶں گی کہ اس کے ساتھ تمہارا سلوک اور رویہ کیسا ہوگا اس پر یہ ظاہر کرنا ہے کہ تم اسے ناپسند نہیں کرتیں اور اس سے بھاگنے کی بھی نہیں سوچو گی مجھے ابھی ابھی معلوم ہوا ہے کہ حرن کا خودمختار مسلمان حاکم گمشتگین بھی آیا ہوا ہے تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ گمشتگین صلاح الدین ایوبی کا سب سے بڑا دشمن ہے اسے اپنا دوست سمجھنا ہم نے بڑی مشکل سے ان مسلمان حکمرانوں کو اپنے ہاتھ میں لیا اور انہیں صلاح الدین ایوبی کے خلاف لڑا رہے ہیں
لزا کو جب تھیریسیا اپنے ساتھ لے گئی تو الناصر گہری سوچ میں ڈوب گیا اسے کسی حد تک یقین آگیا تھا کہ لڑکیاں جنات نہیں لیکن لزا کا اس پر مہربان ہوجانا اسے پریشان کرنے لگا لزا نے اسے بتا دیا تھا کہ اسے اور اس کے ساتھیوں کو حشیش کے نشے میں یہاں تک لایا گیا ہے اس سے وہ سمجھ گیا کہ یہ لڑکیاں فدائیوں کے گروہ کی ہوسکتی ہیں اسے یہ شک بھی ہونے لگا کہ اسے حشیش کے علاوہ اس نوجوان اور خوبصورت لڑکی کے ذریعے اپنے ہاتھ میں لینے اور اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے وہ چونکہ چھاپہ مار تھا جسے دشمن کے علاقوں میں جانا ہوتا تھا اس لیے اسے فدائیوں اور ان کے طور طریقوں کے متعلق اور حشیش کے اثرات کے متعلق خاص طور پر بتایا گیا اور خبردار کیا گیا تھا
اس نے اپنے ساتھیوں کو جگایا جاگ کر وہ بھی اسی طرح حیران ہوئے جس طرح الناصر ہوا تھا
وہ تینوں الناصر کے منہ کی طرف دیکھنے لگے دوستو الناصر نے انہیں کہا ہم فدائیوں کے جال میں آگئے ہیں اس قلعے کا نام عصیات ہے یہاں فدائی اور ان کی فوج رہتی ہے یہ لڑکیاں جنات نہیں ہیں میں ابھی بتا نہیں سکتا کہ ہمارے ساتھ کیا سلوک ہوگا ہمیں احتیاط کرنی پڑے گی تم سب جانتے ہو کہ فدائی کیا کیا طریقے اختیار کرتے ہیں اگر مجھے اس کمرے سے باہر نکلنے کا موقع ملا تو قلعے سے فرار کی کوئی ترکیب سوچ لوں گا تم خاموش رہنا یہ لوگ کچھ پوچھیں تو انہیں بہت تھوڑا جواب دینا ان شیطانوں سے بچنا آسان نہیں ہوتا کیا یہ ہمیں قید میں ڈال دیں گے؟
الناصر کے ایک ساتھی نے پوچھا اگر قید میں ڈال دیں تو ہمیں خوش ہونا چاہیے الناصر نے جواب دیا مگر یہ لوگ حشیش اور لڑکیوں کے ذریعے ہمارے ذہن اس طرح بدل دیں گے کہ ہمیں یاد ہی نہیں رہے گا کہ ہم کون تھے اور ہمارا مذہب کیا تھا
مجھے فرار کے سوا کوئی اور ذریعہ نجات نظر نہیں آتا الناصر کے ایک ساتھی نے کہا ہم مرجانا پسند کریں گے ایمان خراب نہیں ہونے دیں گے ایک اور نے کہا ہوشیار رہنا الناصر نے کہا اللہ پر چھوڑو ہم اتنی جلدی ان کے قبضے میں نہیں آئیں گے شام گہری ہونے لگی تھی ایک آدمی دو جلتی قندیلیں کمرے میں رکھ گیا اس نے ان کے ساتھ کوئی بات نہ کی انہیں بھوک نے پریشان کر رکھا تھا ان کے کمرے سے دور قلعے کے ایک حصے میں سنان کا محل تھا جہاں عورت اور شراب کی رونق تھی سنان کے خصوصی کمرے میں کھانے چنے ہوئے تھے شراب کی صراحیاں رکھی تھیں رنگا رنگ کھانوں کی مہک سے درودیوار مخمور ہوئے جارہے تھے کھانے پر شیخ سنان بیٹھا تھا اس کے ایک طرف تھیریسیا اور دوسری طرف لزا بیٹھی تھی اور ان کے سامنے گمشتگین بیٹھا کھانا کھا رہا تھا
گمشتگین کے متعلق کئی بار بتایا جاچکا ہے کہ وہ حرن نام کے ایک قلعے کا گورنر (قلعہ دار) تھا نورالدین زنگی کی وفات کے بعد اس نے خودمختاری کا اعلان کرکے حرن قلعے اور گردونواح کے علاقے کو اپنی ریاست بنا لیا تھا وہ سلطان ایوبی کے مسلمان دشمنوں (الملک الصالح اور سیف الدین) کا اتحادی تھا اس نے بھی اپنی فوج متحدہ فوج میں شامل کی تھی جسے سلطان ایوبی نے شکست فاش دی تھی گمشتگین خود اپنی فوج کے ساتھ نہیں گیا تھا تینوں افواج کا سپریم کمانڈر سیف الدین تھا گمشتگین نے اپنے اتحادیوں کی طرح صلیبیوں کے ساتھ دوستانہ گانٹھ رکھا تھا صلیبیوں نے انہیں فوج کی صورت میں تو ابھی کوئی مدد نہیں دی تھی اپنے مشیر جاسوس اور تخریب کار دے رکھے تھے اور انہیں اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لیے اعلیٰ قسم کی شراب حسین لڑکیاں اور رقم دیتے رہتے تھے
گمشتگین کو خدا نے سازشی ذہن دیا تھا اپنے دشمن پر وہ زمین کے نیچے سے وار کرتا تھا اور اپنے دوستوں کے خلاف بھی دل میں دشمنی رکھتا تھا اسے پیار صرف اقتدار سے تھا وہ اپنی ریاست کا مطلق العنان بادشاہ بن کر ریاست میں توسیع کرنے کے خواب دیکھتا رہتا تھا اسے جو کوئی دوستانہ مدد دیتا تھا اسے بھی وہ شکی نگاہوں سے دیکھتا تھا سلطان صلاح الدین ایوبی کے قتل کی کوششوں میں گہری دلچسپی لیتا تھا اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ اقتدار پسند حکمران کا تختہ صرف فوج الٹ سکتی ہے سلطان ایوبی ہی ایک سالار تھا جس کے دل میں قومی جذبہ موجزن تھا اس کی جنگی قابلیت کے ساتھ اس کا ایمان اس کی قوت تھا گمشتگین اس کی اسی قوت سے ڈرتا تھا اب جبکہ اس نے اپنی فوج سیف الدین کی کمان میں دے کر ترکمان روانہ کردی تھی وہ کسی کو بتائے بغیر شیخ سنان کے پاس قلعہ عصیات میں آگیا تھا وہ یہی مشن لے کے آیا تھا کہ سلطان ایوبی کے قتل کا کوئی ایسا انتظام کیا جائے جو پہلی قاتلانہ کوشش کی طرح ناکام نہ ہو عصیات میں وہ الناصر اور تھیریسیا کے پہنچنے سے ایک روز پہلے آیا تھا اسے ابھی معلوم نہیں تھا کہ سیف الدین کی زیرکمان اس کی فوج کا سلطان ایوبی کے ہاتھوں کیا حشر ہوا ہے وہ افواج کو روانہ کرکے اپنے سازشی دورے پر نکل گیا اور عصیات جا پہنچا تھا
گمشتگین بھائی! شیخ سنان نے اسے کھانے کے دوران کہا تمہارے دوست تو ترکمان سے بھاگ گئے ہیں اس نے تھیریسیا سے کہا انہیں میدان جنگ کی تفصیل سناؤ گمشتگین کو اس خبر سے اتنا صدمہ ہوا کہ وہ کچھ بھی نہ بولا اس کا رنگ اڑ گیا اور وہ صدمے اور حیرت سے تھیریسیا کی طرف دیکھنے لگا تھیریسیا نے اسے بتایا کہ سلطان ایوبی نے قلیل سی نفری سے کس طرح متحدہ افواج پر حملہ کیا اور بھگایا ہے سیف الدین کے متعلق تھیریسیا نے بتایا کہ اس کے وہاں سے روانہ ہونے تک سیف الدین میدان جنگ سے لاپتہ تھا گمشتگین خاموشی سے سنتا رہا مجھے میرے دوستوں نے ذلیل کیا ہے گمشتگین نے غصے سے کہا میں سیف الدین کو تینوں فوجوں کی کمان دینے کے حق میں نہیں تھا مگر میری کسی نے نہ سنی معلوم نہیں میری فوج کس حالت میں ہوگی بہت بری حالت میں تھیریسیا نے کہا صلاح الدین ایوبی کے چھاپہ ماروں نے آپ کی فوجوں کو اطمینان اور خیریت سے پسپا بھی نہیں ہونے دیا سنان بھائی! تم جانتے ہو میں یہاں کیوں آیا ہوں گمشتگین نے کہا صلاح الدین ایوبی کے قتل کے لیے سنان نے کہا ہاں! گمشتگین نے کہا آپ جو مانگیں گے پیش کروں گا ایوبی کو قتل کراؤ میں نے صلیبیوں اور سیف الدین کے کہنے پر ایوبی کے قتل کے لیے چار فدائی بھیج رکھے ہیں سنان نے کہا لیکن مجھے امید نہیں کہ وہ اسے قتل کرسکیں مجھ سے الگ اپنا انعام لو گمشتگین نے کہا نئے آدمی دو لیکن یہ آدمی مجھے دے دو یہ کام میں خود کراؤں گا یہ آخری چار فدائی ہیں جو میں نے بھیجے ہیں شیخ سنان نے کہا میرے پاس قاتلوں کی کمی نہیں لیکن میں صلاح الدین ایوبی کے قتل سے دستبردار ہوتا ہوں کیوں؟
گمشتگین نے حیران ہوکر پوچھا ایوبی نے تمہیں کوئی قلعہ دے دیا ہے؟
نہیں سنان نے جواب دیا اس شخص کے قتل کے لیے میں اپنے بڑے ہی قیمتی فدائی ضائع کرچکا ہوں میرے فدائیوں نے اس پر سوتے میں خنجروں سے حملہ کیا مگر وہ خود قتل ہوگئے ایک بار اس پر تیر چلائے گئے وہ بھی خطا ہوگئے میں تو اب یہ سمجھ بیٹھا ہوں کہ صلاح الدین ایوبی پر خدا کا ہاتھ ہے اس میں کوئی ایسی قوت ہے کہ اس پر نہ خنجر اثر کرتا ہے نہ تیر میرے جاسوسوں نے مجھے بتایا ہے کہ ایوبی پر جب قاتلانہ حملہ ہوتا ہے تو حملے کو ناکام کرکے وہ گھبرانے یا غصے میں آنے کے بجائے مسکراتا ہے اور فوراً بھول جاتا ہے کہ کیا ہوا تھا
مجھے اپنی اجرت بتاؤ سنان گمشتگین نے جھنجھلا کر کہا میں ایوبی کو زندہ نہیں دیکھنا چاہتا تم نے اناڑی قاتل بھیجے ہوں گے وہ سب استاد تھے شیخ سنان نے کہا ان سے کبھی کوئی بچ کر نہیں گیا تھا وہ موت سے ڈرنے والے نہیں تھے میرے پاس ان کے بھی استاد موجود ہیں یہ ایسے طریقوں سے قتل کرتے ہیں کہ ان کا کوئی سراغ نہیں ملتا لیکن گمشتگین! میں اپنے قیمتی فدائیوں کو یوں ضائع نہیں کروں گا تم تین فوجوں سے ایوبی کو نہیں مار سکتے میرے تین چار آدمی اسے کس طرح قتل کرسکتے ہیں؟
تم ایوبی کے قتل سے جو ڈر گئے ہو،اس کی وجہ کچھ اور ہوگی اور وجہ یہ ہے کہ صلاح الدین ایوبی کے ساتھ میری کوئی ذاتی دشمنی نہیں سنان نے کہا حسن بن صباح نے تو پیغمبر بننا چاہا تھا لیکن اس کے مرنے کے بعد ہمارا فرقہ پیشہ ور قاتل بن گیا میں پیشہ ور قاتل ہوں گمشتگین ایوبی مجھے تمہارے قتل کے لیے اجرت دے گا تو میں تمہیں بھی قتل کرادوں گا لیکن صلاح الدین بزدلوں کی طرح کسی کو قتل نہیں کراتا لزا نے کہا یہی وجہ ہے کہ وہ بزدلوں کے ہاتھوں قتل نہیں ہوتا
اوہ! سنان نے لزا کو اپنے بازو کے گھیرے میں لے کر پیار سے کہا تم نے اسی عمر میں جان لیا ہے کہ جو بزدل نہیں ہوتے ان کا بزدل کچھ نہیں بگاڑ سکتے اس نے گمشتگین سے کہا تم سیف الدین اور الملک الصالح اور صلیبی صرف اس لیے ایک دوسرے کے دوست بنے ہوئے ہو کہ صلاح الدین کے دشمن ہو ورنہ تمہاری آپس میں کوئی دوستی نہیں مجھے یہ بتاؤ کہ ایوبی کو قتل کرکے تم کیا حاصل کرسکو گے؟ 
وہ مرگیا تو آپس میں لڑوگے غور سے سنو گمشتگین! ایوبی کے قتل کے بعد تمہیں اس سلطنت سے بالشت بھر زمین بھی نہیں ملے گی جو ایوبی نے قائم کرلی ہے اس کے بھائی اور اس کے سالار متحد ہیں تم اگر کسی کو قتل کرانا ہی چاہتے ہو تو سیف الدین کو قتل کرادو اور موصل پر قبضہ کرلو اسے تم خود قتل کرسکتے ہو وہ تمہیں اپنا دوست اور اتحادی سمجھتا ہے اسے زہر دلا سکتے ہو اس پر حملہ کراسکتے ہو
گمشتگین گہری سوچ میں کھوگیا پھر بولا ہاں! سیف الدین کو قتل کرادو بتاؤ کیا مانگتے ہو حرن کا قلعہ شیخ سنان نے کہا تمہارا دماغ ٹھکانے ہے سنان؟
گمشتگین نے کہا زروجواہرات کی صورت میں اپنی قیمت بتاؤ زرجواہرات کے عوض تمہیں چار آدمی دیتا ہوں سنان نے کہا لیکن یہ میرے فدائی نہیں ہیں یہ صلاح الدین ایوبی کے چھاپہ مار ہیں انہیں یہ دونوں لڑکیاں حشیش کے نشے میں ساتھ لائی ہیں میں انہیں کسی کے حوالے نہیں کرنا چاہتا تھا ایسے تجربہ کار آدمی ملتے ہی کہاں ہیں اتفاق سے آگئے ہیں تم جانتے ہو کہ حشیش اور میری پریاں انہیں اپنے رنگ میں رنگ کر ایسا قاتل بنا لیں گی کہ اپنے ماں باپ کا بھی خون بہا آئیں گے میں تمہیں مایوس نہیں کرنا چاہتا ان کو لے جاؤ تھوڑے دن انہیں اپنی جنت دکھاؤ انہیں اپنے حرم کے شہزادے بنا دو انہیں بتائے بغیر حشیش دو پھر انہیں شراب کا عادی بنا دو تمہارے اشاروں پر ناچیں گے صلاح الدین ایوبی کے چھاپہ مار اتنے کچے نہیں ہوتے جتنا تم سمجھ رہے ہو گمشتگین نے کہا تم جانتے ہو گمشتگین ہم فدائی کہلاتے ہیں انسان کے ذہن کے ساتھ کھیلتے ہیں شیخ سنان نے کہا ہم اپنے شکار کے ذہن میں دل فریب تصور ڈال کر اس کی یہ حالت کردیتے ہیں کہ وہ تصور کو حقیقت سمجھنے لگتا ہے کسی انسان کے ذہن میں عورت کا حسین تصور پیدا کردو اور اس کے ساتھ اسے نشہ دئیے جاؤ تو وہ اس تصور کا غلام ہوجاتا ہے انسان کو عورت کے تصوروں میں کھوئے رہنے کا عادی بنا دو پھر تم اس کا کردار اور اس کا ایمان بڑے ہی کم داموں خرید سکتے ہو ان چاروں کو لے جاؤ یہ نہ سوچو کہ انہیں تم اپنے مقصد کے لیے استعمال نہیں کرسکو گے سنان نے مسکرا کر کہا اپنے آپ پر نظر ڈالو عورت شراب اور عیش پرستی تمہیں کہاں سے کہاں لے آئی ہے مسلمان ہوکر تم مسلمانوں کے دشمن بنے ہو شیخ سنان نے اسے اپنی قیمت بتائی سودا طے ہوگیا کہ گمشتگین الناصر اور اس کے ساتھیوں کو اپنے ساتھ حرن لے جائے گا سنان نے اسے بتایا کہ وہ ان چاروں کو قید خانے میں نہ ڈال دے بلکہ انہیں شہزادے بنا کر رکھے گمشتگین نے یہ ہدایات سنیں اور یہ کہہ کر چلا گیا کہ ایک دو دنوں میں وہ ان چھاپہ ماروں کو لے جائے گا گمشتگین وہاں سے نکلا تو شیخ سنان کا ایک آدمی اندر آیا اس نے پوچھا کہ آج جو چار آدمی لائے گئے ہیں ان کے متعلق کیا حکم ہے حرن کا والی گمشتگین آیا ہوا ہے
سنان نے کہا وہ انہیں ساتھ لے جارہا ہے ان کے کھانے اور آرام وغیرہ کا انتظام کردو ہم انہیں نہیں رکھنا چاہتے انہیں یہ نہ بتانا کہ انہیں کہاں بھیجا جارہا ہے
یہ آدمی چلا گیا اس نے الناصر اور اس کے ساتھیوں کے لیے کھانا بھجوایا الناصر نے کھانے سے انکار کردیا اسے شک تھا کہ کھانے میں حشیش ڈالی گئی ہے بہت ہی مشکل سے اسے یقین دلایا گیا کہ کھانے میں کچھ نہیں ملایا گیا الناصر اور اس کے ساتھی بھوک سے بے بحال ہوئے جارہے تھے اپنے سامنے اتنا اچھا کھانا دیکھ کر انہوں نے کھانے کا خطرہ مول لے لیا شیخ سنان نے تھیریسیا سے کہا کہ وہ چلی جائے اور لزا کو اس کے پاس چھوڑ جائے تھیریسیا نے کہا کہ وہ تین چار دن مسلسل سفر میں رہی ہیں اس لیے آرام کریں گے سنان میں انسانیت کم اور درندگی زیادہ تھی اس نے لزا کے ساتھ پہلے تو چھیڑ چھاڑ کی جو لزا تھیریسیا کے کہنے کے مطابق برداشت کرتی رہی اور اس سے گلو خلاصی کرانے کے لیے بہانے بھی تراشتی رہی سنان نے دست درازی شروع کردی لزا کا مزاج بگڑنے لگا اچانک دروازہ کھلا دربان نے کسی کی آمد کی اطلاع دی سنان نے غصے سے کہا اس وقت کوئی اندر نہیں آسکتا مگر اندر آنے والے نے اس کے حکم کی پرواہ نہ کی وہ دربان کو ایک طرف کرکے اندر آگیا وہ ایک صلیبی تھا جو اسی وقت قلعے میں پہنچا تھا سنان اسے جانتا تھا اسے دیکھتے ہی سنان نے اس کا نام لیا اور خوشی کا اظہار کیا لیکن یہ بھی کہا تم آرام کرو صبح ملیں گے میں شاید صبح ہی آپ کے پاس آجاتا صلیبی نے کہا لیکن یہاں آتے ہی پتہ چلا ہے کہ یہ لڑکیاں آئی ہیں مجھے ان سے بہت کچھ پوچھنا ہے میں انہیں اپنے ساتھ لے جا رہا ہوں
سنان نے تھیریسیا کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا اسے لے جاؤ اور اس نے لزا کو اپنی طرف گھسیٹ کر کہا اسے میں یہیں رکھوں گا
شیخ سنان صلیبی نے قدرے دبدبے سے کہا میں دونوں کو لے جارہا ہوں تم جانتے ہو میں کس کام سے آیا ہوں اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ ان لڑکیوں کے کیا فرائض ہیں تمہاری بغل میں بیٹھنا ان کے فرائص میں شامل نہیں اس نے لڑکیوں سے کہا دونوں میرے ساتھ آؤ دونوں اچک کر اٹھیں اور صلیبی کے پاس جاکھڑی ہوئیں کیا تم میرے ساتھ دشمنی کا خطرہ مول لینا چاہتے ہو؟
شیخ سنان نے کہا تم میرے قلعے میں ہو میں تمہیں مہمان سے قیدی بھی بنا سکتا ہوں اور تم کوشش کررہے ہو کہ تمہیں مہمان سے قیدی بنا دیا جائے اس نے گرج کر کہااس لڑکی کو میرے پاس چھوڑ کر باہر نکل جاؤ سنان صلیبی نے طنزیہ لہجے میں کا کیا تم بھول گئے ہوکہ یہ قلعہ تمہیں ہم نے دیا ہے؟ 
کیا تمہارے ذہن سے یہ حقیقت بھی اتر گئی ہے کہ ہم تمہاری پیٹھ پر ہاتھ نہ رکھیں تو تم اور تمہارے فدائی کرائے کے قاتلوں کے سوا کچھ بھی نہیں رہیں گے
شخ سنان پر صرف شراب کا نشہ طاری نہیں تھا وہ اس قلعے کا بادشاہ تھا اور وہ کسی بھی بادشاہ کو کسی بھی وقت ایسے طریقے سے قتل کرا سکتا تھا کہ کسی کو شک تک نہ ہوتا کہ قاتل سنان یا اس کا کوئی فدائی ہے اس نے صلیبی افسر بھی قتل کرائے تھے یہ صلیبیوں کی آپس کی عداوت کا نتیجہ تھا ان کا کوئی جرنیل یا کوئی اور فوجی یا غیرفوجی افسر اپنے کسی حریف افسر کو قتل کرانے کی ضرورت کبھی محسوس کرتا تو اس مقصد کے لیے وہ سنان کی خدمت حاصل کیا کرتا تھا۔ عصیات کے قلعے میں رہتے تو انسان تھے لیکن یہ بدروحوں کا قلعہ معلوم ہوتا تھا اس کے تہہ خانوں میں انسان گم ہوجاتے تھے فدائی پاگل لگتے تھے کسی کو قتل کرنا ان کے لیے منہ کا نوالہ ڈال لینے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا تھا۔ اس کے محل کا یہ حسن تھا کہ چھتوں اور دیواروں میں رنگا رنگ شیشوں کے ٹکڑے جڑے ہوئے تھے۔ فانوسوں کی روشنی سے ان سے رنگا رنگ شعاعیں نکلتی تھیں۔ یہاں انسان بھول جاتا تھا کہ اس جنت کے اردگرد بے رحم اور تپتے ہوئے ٹیلے ہیں
اس ماحول اور ایسی حیثیت میں شیخ سنان اپنے آپ کو دیوتا سمجھتا تھا اس میں حیوانیت اور درندگی زیادہ تھی لزا جیسی لڑکی سے وہ دستبردار نہیں ہونا چاہتا تھا اس نے صلیبی سے کہا میں تمہیں سوچنے کی مہلت دوں گا اس قلعے میں خدا کے بھیجے ہوئے فرشتے بھی گم کردئیے جاتے ہیں خدا کو بھی پتہ نہیں چلتا میں اس لڑکی کو قلعے سے باہر نہیں جانے دوں گا تم نے مزاحمت کی تو تم بھی قلعے سے باہر نہیں جاسکو گے میرا ایک ساتھی آگے چلا گیا ہے صلیبی نے کہا وہ وہاں بتا دے گا کہ میں یہاں ہوں تم جانتے ہو کہ میں یہاں دو تین روز کے قیام کے لیے آیا ہوں پھر مجھے کہیں اور جانا ہے ہم اس معاہدے کے تحت تمہارے ہاں قیام کرتے ہیں جس کے تحت تمہیں یہ قلعہ دیا گیا تھا یہ ہماری پناہ گاہ ہے اور ہمارا عارضی پڑاؤ بھی تم ہماری ہڈیاں غائب کردو تو بھی تم سے پوچھا جائے گا کہ ہمارا ایک آدمی اور دو لڑکیاں کہاں ہیں صلیبی نے کچھ سوچا اور کہا اگر تم صلاح الدین ایوبی کو قتل کردو تو اس جیسی ایک درجن لڑکیاں تمہارے حوالے کردیں گے مگر تم ہماری رقم اور سونا ہضم کرتے رہے ایوبی کو قتل نہ کرسکے مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم نے چار فدائی ایوبی کے قتل کے لیے بھیج رکھے ہیں لیکن یہ صرف افواہ معلوم ہوتی ہے ایوبی ابھی تک زندہ ہے اور فاتح ہے یہ افواہ نہیں سنان نے نشے اور غصے سے لرزتے ہوئے کہا میں نے چار آدمی بھیج رکھے ہیں چند دنوں میں تم خبر سنو گے کہ صلاح الدین ایوبی قتل ہوگیا ہے پھر میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں ہمارے حکمرانوں سے جو انعام واکرام ملا ہے اس کے علاوہ میں تمہیں اس (لزا) جیسی دو لڑکیاں اپنی طرف سے دوں گا وہ دیکھا جائے گا سنان نے کہا میں تمہیں بتا دیتا ہوں کہ اس لڑکی کو تم میری خواب گاہ سے باہر لے جاسکتے ہو اسے قلعے سے باہر نہیں لے جاسکو گے جاؤ انہیں لے جاؤ میں نے قلعے میں صلیبیوں کے لیے جو کمرے الگ کر رکھے ہیں وہاں چلے جاؤ کھاؤ پیو عیش کرو اور مجھے سوچ کر جواب دو کہ یہ لڑکی میرے حوالے کرو گے یا نہیں
صلیبی دونوں لڑکیوں کو ساتھ لیے باہر نکل گیا یہ صلیبی جاسوسی اور تخریب کاری کے محکمے کا افسر تھا وہ مسلمانوں کے علاقوں میں گھومتا پھرتا رہا تھا اور اب واپس اپنے علاقے میں جارہا تھا عصیات کے قلعے میں صلیبیوں کے لیے عارضی قیام کا انتظام کیا گیا تھا جو صلیبی جب چاہتا اس قلعے میں آسکتا تھا تھیریسیا بھی اسی سہولت کے تحت لزا اور الناصر کے ساتھیوں کو یہاں لائی تھی اور یہ صلیبی بھی ذرا آرام کے لیے یہاں آیا تھا ایک دو روز بعد اسے آگے چلے جانا تھا قلعے میں آتے ہی اسے کسی نے بتایا کہ دو صلیبی لڑکیاں آئی ہیں جو اس وقت شیخ سنان کے پاس ہیں وہ انہیں دیکھنے کے لیے اندر چلا گیا اور سنان کے ساتھ گرما گرمی کے بعد دونوں لڑکیوں کو وہاں سے لے آیا اس کے جانے کے بعد شیخ سنان نے اپنے خاص آدمی کو بلا کر کہا یہ صلیبی اور یہ دونوں لڑکیاں ہماری قیدی نہیں ہیں لیکن انہیں ان کی مرضی سے قلعے سے نکلنے نہ دیا جائے انہیں اس حق سے محروم کردیا جائے کہ جب چاہیں قلعے میں آجائیں جب چاہیں نکل جائیں ان پر نظر بھی رکھنا اور گمشتگین جب چاہے ان چار قیدیوں کو اپنے ساتھ لے جاسکتا ہے جنہیں آج یہ لڑکیاں باہر سے لائی ہیں
صلیبی کو بتایا گیا کہ حرن کا والی گمشتگین بھی آیا ہوا ہے اور وہ صلاح الدین ایوبی کے قتل کا انتظام کرتا پھر رہا ہے اسے الناصر اور اس کے ساتھیوں کے متعلق بتایا گیا صلیبی لڑکیوں کو قلعے کے اس حصے میں لے گیا جہاں عارضی طور پر آنے والے صلیبیوں کے لیے کمرے مخصوص کیے گئے تھے
سلطان صلاح الدین ایوبی نے سیف الدین کے سالار مظفرالدین کا حملہ جس طرح پسپا اور اس کی فوج کو جس طرح تہس نہس کیا تھا وہ پوری تفصیل سے سنایا جاچکا ہے مظفرالدین میدان جنگ سے غائب ہوگیا تھا سلطان ایوبی کی فوج نے جو قیدی پکڑے ان میں سیف الدین کا ایک مشیر فخرالدین بھی تھا جو موصل میں اس کا وزیر بھی رہ چکا تھا سلطان ایوبی فخرالدین کو جنگی قیدیوں سے الگ کرکے اپنے خیمے میں لے گیا اور اسے اسی عزت واحترام سے رکھا جس کا وہ حق دار تھا مال غنیمت تقسیم کرکے سلطان ایوبی نے پہلا فیصلہ یہ کیا کہ پیش قدمی یعنی بھاگتے دشمن کا تعاقب نہیں کیا جائے گا بعض مورخین نے سلطان ایوبی کے اس فیصلے کو اس کی جنگی لغزش کہا ہے لیکن تاریخ اسلام کا یہ مجاہد بہت دور کی سوچا کرتا تھا یہ صحیح ہے کہ وہ دشمن کی فوج کا تعاقب کرتا تو اس کی فوج کو وہ ہمیشہ کے لیے ختم کردیتا اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ سلطان ایوبی کے مسلمان دشمن اس کے قدموں میں گر پڑتے تعاقب نہ کرنے کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ مظفرالدین کے ساتھ اس نے جو معرکہ لڑا تھا اس میں اسے فتح بہت مہنگی پڑی تھی اس کی فوج کا جانی نقصان بہت ہوا تھا زخمیوں کی تعداد زیادہ تھی اس لیے وہ پیش قدمی کے قابل نہیں تھا اگر وہ پیش قدمی کرنے کا فیصلہ کرتا تو وہ اپنے محفوظہ کو استعمال کرسکتا تھا لیکن اس نے ایسا فیصلہ نہ کیا جس کی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کا اور زیادہ خون بہے وہ اپنی قوم کو مزید خون ریزی سے بچانا چاہتا تھا
سلطان ایوبی اس جگہ کھڑا تھا جہاں سیف الدین کی ذاتی خیمہ گاہ تھی اس میں سے جو کچھ برآمد ہوا وہ بیان کیا جاچکا ہے سیف الدین کو اپنا خیمہ بذات خود بہت قیمتی تھا یہ ریشمی کپڑوں کا محل تھا قناتیں اور شامیانے ریشمی تھے پردے ریشمی تھے اس کے اندر کھڑے ہوکر شیش محل کا گماں ہوتا تھا سیف الدین کا ایک بھتیجا عزالدین فرخ شاہ سلطان ایوبی کی فوج میں سالار تھا یہ عجیب جنگ تھی اور عجیب دشمنی کہ بھتیجا چچا کے خلاف لڑ رہا تھا اس کے علاوہ اور بھی کئی ایک فوجی تھے جو اپنے خون کے رشتوں کے خلاف لڑ رہے تھے سلطان ایوبی نے سیف الدین کی یہ خیمہ گاہ دیکھی تو اس نے اس کے بھتیجے عزالدین کو بلایا اور مسکرا کر کہا اپنے چچا کی جائیداد کے وارث تم ہو میں اس کا خیمہ تمہیں پیش کرتا ہوں
سلطان ایوبی نے مسکرا کر اسے خیمہ پیش کیا تھا مگر عزالدین کے آنسو نکل آئے قاضی بہاؤالدین شداد نے اپنی یادداشتوں میں اس واقعہ کا ذکر جذباتی انداز میں کیا ہے اس کے مطابق سلطان ایوبی نے عزالدین کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر کہا عزالدین تمہارے جذبات کو میں اچھی طرح سمجھتا ہوں لیکن قرآن کا حکم مانو اگر میرا بیٹا شرک کا اور جہاد کے راستے میں فسق وفجور کا مرتکب ہوگا تو میری تلوار اس کا سر قلم کرنے سے گریز نہیں کرے گی تم اپنے شکست خوردہ چچا کا خیمہ دیکھ کر آنکھوں میں آنسو لے آئے ہو میں اپنے شکست خوردہ بیٹے کا کٹا ہوا سر دیکھ کر بھی آنسو نہیں بہاؤں گا
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سلطان ایوبی نے اس مقام سے ذرا آگے جاکر لمبے عرصے کے لیے پڑاؤ ڈال دیا یہ پہاڑی علاقہ تھا اس کا نام کوہِ سلطان مشہور ہوگیا تاریخ میں بھی کوہِ سلطان آیا ہے وہاں سے حلب پندرہ میل دور تھا حلب کے متعلق پہلے تفصیل سے سنایا جاچکا ہے الملک الصالح نے اس شہر کو اپنا دارالحکومت اور مستقر بنا لیا تھا اور اب یہ متحدہ افواج کا ہیڈکوارٹر بن گیا تھا یہ بھی سنایا جاچکا ہے کہ اس شہر کا دفاع اتنا مضبوط اور یہاں کے لوگ (جو سب مسلمان تھے) اتنے دلیر اور جنگجو تھے کہ سلطان ایوبی کا محاصرہ ناکام ہوگیا تھا اب سلطان ایوبی ایک بار پھر اس اہم شہر کو محاصرے میں لینا اور اس پر قبضہ کرنا چاہتا تھا لیکن اب کے وہ اپنا اڈا مضبوط کرکے آگے بڑھنے کی سکیم بنا رہا تھا
راستے میں دو قلعے تھے ایک کا نام منبج اور دوسرے کا بوزا تھا بعض تاریخوں میں منبج کو ممبس بھی لکھا گیا ہے ان دونوں قلعوں کے امراء خودمختار مسلمان تھے ایسے کئی اور قلعے اور کئی جاگیریں تھیں جن پر مسلمانوں کی حکمرانی تھی اس طرح سلطنت اسلامیہ قلعوں جاگیروں اور ریاستوں میں بنی ہوئی تھی سلطان ایوبی بکھرے ہوئے ان ذروں کو یکجا کر کے ایک سلطنت بنانا اور اسے ایک خلافت کے تحت لانا چاہتا تھا دشواری یہ تھی کہ یہ امراء اور جاگیردار اپنی الگ الگ حیثیت قائم رکھنے کے لیے خواہش مند تھے وہ اپنی بقاء کے لیے صلیبیوں تک سے مدد لے لیا کرتے تھے سلطان ایوبی نے ایک پیغام بوزا کے امیر کے نام لکھا اور دوسرا منبج کے امیر کے نام بوزا کو عزالدین کو روانہ کیا اور منبج کو سیف الدین کے مشیر فخرالدین کو فخرالدین جنگی قیدی تھا 
لیکن سلطان ایوبی نے عزت واحترام سے اس کا دل جیت لیا تھا اور فخرالدین نے سلطان ایوبی کی اطاعت قبول کرلی تھی سلطان ایوبی نے جب اسے اپنا خاص ایلچی بنا کر منبج جانے کو کہا اور اسے یہ اختیارات بھی دئیے کہ وہ اس کی نمائندگی کرتے ہوئے یہ قلعہ حاصل کرنے کی بات چیت کرے تو فخرالدین نے اسے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا کیا آپ مسلمان نہیں ہیں؟
سلطان ایوبی نے اسے کہا آپ نے مجھے یوں حیرت سے دیکھا ہے جیسے میں کسی کافر کو اپنا ایلچی اور نمائندہ بنا کر بھیج رہا ہوں کیا آپ کو مجھ پر بھروسہ نہیں یا اپنے ایمان پر اعتماد نہیں؟
میں منبج کا قلعہ لینا چاہتا ہوں آپ اس کے امیر کو میرا پیغام پہنچا دیں اور اسے قائل کریں کہ خون خرابے کے بغیر قلعہ ہمیں دے دے اور اپنی فوج ہماری فوج میں شامل کردے عزالدین اور فخرالدین روانہ ہوگئے بوزا کے امیر نے عزالدین کا استقبال تپاک سے کیا سلطان ایوبی کا پیغام پڑھا اس میں لکھا تھا
میرے عزیز بھائی! ہم ایک خدا اور ایک رسولﷺ اور ایک قرآن کے پرستار ہیں مگر ہم سب اس طرح بکھر گئے ہیں جس طرح ایک جسم کے اعضا ریگزار کی ریت پر بکھرے پڑے ہوں کیا یہ جسم حرکت کرسکتا ہے؟ 
کسی کام آسکتا ہے؟ 
اس جسم کا فائدہ صلیبیوں کو پہنچ رہا ہے جو کٹے ہوئے اعضا کو گدھوں کی طرح کھا رہے ہیں ہمیں ایک امت کی صورت متحد ہونا ہے ورنہ ہم میں سے کوئی بھی زندہ نہیں رہ سکے گا میں آپ کو ایک امت کی صورت میں متحد ہونے کی دعوت دیتا ہوں اپنی موجودہ حیثیت پر غور کریں آپ اپنی امارات کو زندہ رکھنے کے لیے اپنے دشمن کے آگے بھی ہاتھ پھیلا دیتے ہیں میں آپ تک قرآن کا فرمان پہنچا رہا ہوں اسے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں پہلی ضرورت یہ ہے کہ اپنا قلعہ سلطنت اسلامیہ کی ملکیت میں دے دیں اور میری اطاعت قبول کرلیں اس صورت میں آپ کی فوج میری فوج میں مدغم ہوجائے گی آپ قلعہ دار ہوں گے اور قلعے پر سلطنت اسلامیہ کا جھنڈا لہرائے گا اگر آپ کو یہ صورت قبول نہ ہو تو میری فوج کے محاصرے میں لڑنے کی تیاری کرلیں اور اپنے سامنے حلب موصل اور حرن کی متحدہ فوج کی بربادی اور پسپائی رکھیں آپ کو فیصلہ کرنے میں سہولت ہوگی میری پیش کش قبول کرلیں اور مجھ سے بہتر سلوک کی توقع رکھیں میری آپ کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں میں جو کچھ کررہا ہوں احکام خداوندی کے تحت کررہا ہوں
بوزا کے امیر نے یہ پیغام پڑھا تو عزالدین کی طرف دیکھا عزالدین نے کہا آپ کا قلعہ مضبوط نہیں اور آپ کی فوج بہت تھوڑی ہے اس فوج کو ہمارے ہاتھوں نہ مروائیں
بوزا کے امیر نے پیش کش قبول کرلی اور سلطان ایوبی کے نام تحریری پیغام دیا کہ وہ آئے اور قلعہ لے لے منبج کے امیر نے بھی اطاعت قبول کرلی فخرالدین نے اس سے پیغام لکھوا لیا اور واپس چلا گیا
سلطان ایوبی خود دونوں قلعوں میں گیا وہاں جو فوجیں تھیں انہیں قلعے سے نکال کر اپنی فوج میں شامل کرلیا اور اپنے دستے قلعوں میں بھیج دئیے دونوں قلعوں میں اس نے رسد وغیرہ رکھ دی لیکن فوج کو قلعہ بند نہ کیا حلب کے قریب اعزاز نام کا ایک مضبوط قلعہ تھا اس قلعے کے دفاعی انتظامات حلب والوں نے اپنے ذمہ لے رکھے تھے اس کے قلعہ دار یا امیر نے اپنی وفاداری حلب یعنی الملک الصالح کو دے رکھی تھی سلطان ایوبی حلب کا محاصرہ کرنے پہلے اس قلعے کو بھی لڑے بغیر لینا چاہتا تھا اس نے اپنے ایک سالار الحمیری کو تحریری پیغام کے ساتھ اعزاز کو روانہ کیا اعزاز کے امیر نے سلطان ایوبی کا پیغام پڑھا اس پیغام کے بھی الفاظ وہی تھے جو بوزا اور منبج کے امراء کو لکھے گئے تھے
اعزاز کے امیر نے پیغام الحمیری کی طرف پھینک کر کہا تمہارا سلطان خدا اور رسولﷺ کے نام پر ساری دنیا کا بادشاہ بننے کے خواب دیکھ رہا ہے اسے کہنا کہ تم نے حلب کا محاصرہ کرکے دیکھ لیا تھا اب اعزاز کا محاصرہ کرکے دیکھو کیا آپ مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کا خون بہانا پسند کریں گے؟
الحمیری نے کہا کیا آپ پسند کریں گے کہ ہم آپس میں لڑیں اور صلیبی ہمارا تماشاہ دیکھیں؟
اپنے سلطان سے کہو کہ جاکر صلیبیوں سے لڑے اعزاز کے امیر نے کہا کیا آپ صلیبیوں سے نہیں لڑیں گے؟
الحمیری نے پوچھا کیا آپ انہیں اپنا دشمن نہیں سمجھتے؟
اس وقت ہم سلطان صلاح الدین ایوبی کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں جس نے ہمیں للکارا ہے امیر نے کہا وہ ہم سے یہ قلعہ بزور شمشیر لینا چاہتا ہے
الحمیری اسے قائل نہ کرسکا اس نے الحمیری کی ذرہ بھر عزت نہ کی اور اسے چلے جانے کو کہا عصیات کے قلعے میں صلیبی گمشتگین کے پاس بیٹھا تھا تھیریسیا اور لزا بھی اس کے ساتھ تھیں گمشتگین اور صلیبی کی پہلے سے جان پہچان تھی صلیبی نے کہا سنا ہے آپ صلاح الدین ایوبی کو قتل کراتے کراتے سیف الدین کے قتل کا ارادہ کر بیٹھے ہیں
کیا آپ نے سنا نہیں کہ سیف الدین نے کیسی بزدلی اور جنگی نااہلی کا مظاہرہ کیا ہے؟
گمشتگین نے کہا یہ لڑکیاں بتاتی ہیں کہ اس نے ہماری تینوں فوجوں کا ایسا برا حال کرا لیا ہے کہ اب ہم بڑے لمبے عرصے کے لیے لڑنے کے قابل نہیں رہے میں بکھری ہوئی فوجوں کو اکٹھا کرکے ایوبی کو حلب سے دور روکنا چاہتا ہوں اگر سیف الدین زندہ رہا تو وہ خفت مٹانے کے لیے ایک بار پھر کمان لینے کی ضد کرے گا اور ہمیں ایک اور شکست ہوگی کیوں نہ اسے ٹھکانے لگا دیا جائے سیف الدین اتنی اہم شخصیت نہیں جتنا آپ سمجھ رہے ہیں صلیبی نے کہا جو ہم جانتے ہیں وہ آپ نہیں جانتے ہم آپ کے ہر ایک دوست اور ہر ایک دشمن کو آپ سے زیادہ جانتے ہیں اسی لیے ہم نے آپ کو اپنے مشیر اور اپنے جاسوس دے رکھے ہیں میں جو ایوبی کے علاقوں میں بھیس بدل بدل کر اور اپنے آپ کو خطروں میں ڈال کر مارا مارا پھر رہا ہوں وہ صرف آپ کی بقا اور آپ کی ریاست کی توسیع کے لیے ہے میں جو حالات دیکھ آیا ہوں ان کا تقاضا صرف یہ ہے کہ صلاح الدین ایوبی کو قتل کیا جائے نورالدین زنگی مرگیا تو آپ سب آزاد ہوگئے آپ قلعہ دار سے خودمختار حکمران بن گئے ایوبی مرگیا تو آپ اس سے دگنے علاقے کے حکمران بن جائیں گے جو آپ کے پاس ہے جنگ وجدل کا خطرہ ہمیشہ کے لیے ٹل جائے گا میں تریپولی جارہا ہوں آپ کی فوج نے گھوڑوں اور اونٹوں کا جو نقصان اٹھایا ہے وہ میں بہت جلدی پورا کردوں گا ہتھیار بھی بھجواؤں گا ہمت نہ ہاریں ایوبی مرگیا تو ہم آپ کو اتنی مدد دیں گے کہ آپ سیف الدین الملک الصالح اور دوسرے تمام خودمختار امراء پر چھا جائیں گے اور آپ کو وہی حیثیت حاصل ہوجائے گی جو آج صلاح الدین ایوبی کو حاصل ہے
اقتدار کی ہوس اور عیش پرستی نے گمشتگین کی عقل پر پردہ ڈال رکھا تھا اس کی عقل میں اتنی سی بات نہیں آ رہی تھی کہ یہ صلیبی اپنی قوم کا نمائندہ ہے اور وہ جو کچھ کہہ رہا ہے اور کررہا ہے وہ اپنے قومی مقاصد کی خاطر کہہ اور کررہا ہے یہ بہت بڑا جاسوس اور تخریب کار تھا جو یہ دیکھتا پھر رہا تھا کہ سلطان ایوبی کے طوفان کو کس طرح روکا جاسکتا ہے ہر میدان میں شکست کھا کر صلیبیوں نے یہی طریقہ بہتر جانا تھا کہ سلطان ایوبی کو قتل کرا دیا جائے اور مسلمان حکمرانوں کو ایک دوسرے کا بھی دوست نہ رہنے دیا جائے تاکہ سلطان ایوبی کے مرنے کے بعد یہ آپس میں لڑتے لڑتے ختم ہوجائیں اور صلیبیوں کو جنگ وجدل کے بعد دنیائے عرب کی حکمرانی مل جائے اسی مقصد کی تکمیل کے لیے انہوں نے مسلمان امراء کے دماغوں میں زرپرستی اور بادشاہی کا کیڑا ڈال دیا تھا
صلاح الدین ایوبی کے قتل سے تو شیخ سنان بھی دست بردار ہوگیا ہے گمشتگین نے کہا وہ کہتا ہے کہ اس نے چار اور فدائی بھیج رکھے ہیں لیکن وہ پرامید نظر نہیں آتا اتنے زیادہ قاتلانہ حملے ناکام ہونے کے بعد سنان کو ایوبی کے قتل سے دستبردار ہی ہوجانا چاہیے صلیبی نے کہا ان حملوں کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ فدائی حشیش کے نشے میں جاتے ہیں ایوبی کو صرف وہ آدمی قتل کرسکتا ہے جو ہوش میں ہو اور دل کی گہرائیوں سے محسوس کرے کہ اسے صلاح الدین ایوبی کو اپنے ذاتی یا قومی جذبے سے قتل کرنا ہے آپ شاید انسانی فطرت کو نہیں سمجھتے ایوبی پر جو قاتلانہ حملہ کرنے جاتا ہے اس پر نشے کا اثر ہوتا ہے جوں ہی آگے سے مزاحمت ہوتی ہے نشہ اتر جاتا ہے اور حملہ آور اپنی جان بچانے کی کوشش کرتا ہے اس کے بجائے آپ کسی کو جذبات سے اندھا کرکے اور اس کے دل میں ایوبی کی نفرت پیدا کرکے اس کے قتل کے لیے بھیجیں تو وہ اسے قتل کرکے ہی رہے گا
شیخ سنان نے مجھے صلاح الدین ایوبی کے چار چھاپہ مار دئیے ہیں گمشتگین نے کہا اور کہا ہے کہ انہیں تیار کرکے ان سے سیف الدین کو قتل کراؤں یہ چھاپہ مار سیف الدین کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اس لیے یہ اسے قتل کرنے میں خوشی محسوس کریں گے میں انہیں موقع فراہم کروں گا سیف الدین کو موت کے جال میں لانا میرا کام ہے
کیوں نہ انہی کو صلاح الدین ایوبی کے قتل کے لیے تیار کیا جائے؟
صلیبی نے کہا لیکن انہیں حشیش یا کوئی اور نشہ نہ دیا جائے ان پر جذباتیت کا نشہ طاری کیا جاسکتا ہے
صلیبی نے تھیریسیا اور لزا کی طرف دیکھا اور مسکرایا لزا نے کہا میں چھاپہ ماروں کے کمانڈر کو تیار کرسکتی ہوں جس کا نام الناصر ہے باقی تین کو آپ سنبھالیں تم الناصر کو سنبھالو صلیبی نے کہا دوسروں کو ابھی ان کے حال پر چھوڑ دو جہاں تک میں انسانی فطرت کو سمجھتا ہوں الناصر خود ہی اپنے ساتھیوں کو سنبھال لے گا اس نے پوچھا وہ ہیں کہاں؟ 
انہیں اس جگہ لے آؤ الناصر کو الگ کمرہ دو اور اس کے ساتھیوں کو الگ کمرے میں رکھو اور تم سب محتاط رہنا سنان نے اس لڑکی پر نظر رکھی ہوئی ہے یہ لڑکی اسے اتنی پسند آئی ہے کہ اس سے جدا نہیں ہونا چاہتا اس نے مجھے دھمکی دی ہے کہ یہ لڑکی (لزا) اس کے حوالے کردوں ورنہ میں اس کا مہمان نہیں قیدی ہوں گا اس نے مجھے سوچنے کی مہلت دی ہے اس کے متعلق آپ پریشان نہ ہوں گمشتگین نے کہا میں ان چار چھاپہ ماروں کو اپنے ساتھ لے جارہا ہوں آپ بھی اور یہ لڑکیاں بھی میرے ساتھ چلیں گی الناصر اور اس کے تینوں ساتھیوں کو ان کمروں میں سے ایک میں لے گئے جو صلیبی فوج کے افسروں کے لیے مخصوص تھا الناصر کو الگ کمرہ دیا گیا جو اس نے یہ کہہ کر قبول کرنے سے انکار کردیا کہ وہ اپنے ساتھیوں سے جدا نہیں ہوگا
اسے تھیریسیا اور لزا اپنے جال میں پھانسنے کے لیے الگ رکھنا چاہتی تھیں تم ان کے کمانڈر ہو صلیبی نے اسے کہا تمہیں اپنے ماتحتوں سے الگ رہنا چاہیے ہمارے ہاں اونچ نیچ کا رواج نہیں الناصر نے کہا ہمارا سلطان اپنی فوج کے ساتھ رہتا ہے میں معمولی سا کمان دار ہوں اپنے ساتھیوں سے الگ رہ کر تکبر کا گناہ نہیں کروں گا
ہم تمہاری تعظیم کرنا چاہتے ہیں صلیبی نے کہا اپنے ہاں جاکر جو جی میں آئے کرنا یہاں تمہیں تمہارے ماتحتوں کے ساتھ رکھ کر ہم تمہاری توہین نہیں کرنا چاہتے ہمارے چھاپہ مار کمان دار اپنے سپاہیوں کے ساتھ زندہ رہتے ہیں اور ان کے ساتھ مرتے ہیں الناصر نے کہا ہم موت کی منزل کے ہم سفر ہیں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوا کرتے اگر ہم آپ کے مہمان ہوتے تو شاید میں آپ کی بات مان جاتا ہم آپ کے قیدی ہیں ہماری قسمت ایک ہے جو اذیت اور صعوبت ایک کو ملے گی اس سے ہم سب حصہ وصول کریں گے ایک ساتھی کو زندہ رکھنے کے لیے ہم تین ساتھی اپنی جانیں قربان کردیں گے کیا تم ہماری قید سے فرار ہونے کی کوشش کروگے؟
گمشتگین نے مسکرا کر پوچھا ہم آزاد ہونے کی کوشش ضرور کریں گے یہ ہمارے فرائض میں شامل ہے الناصر نے کہا مرکر آزاد ہوجائیں یا تم سب کو مار کر ہمیں قید میں رکھنا ہے تو ہمیں زنجیریں ڈال دو دھوکے نہ دو ہم میدان کے مرد ہیں ہم سیف الدین اور گمشتگین جیسے ایمان فروش نہیں ہیں
میں گمشتگین ہوں گمشتگین نے کہا حرن کا خودمختار حکمران تم نے مجھے ایمان فروش کہا ہے
میں آپ کو ایک بار پھر ایمان فروش کہتا ہوں الناصر نے کہا میں آپ کو غدار بھی کہتا ہوں
لیکن اب میں ایمان فروش ہوں نہ غدار گمشتگین نے الناصر کو دھوکہ دینے کے لیے جھوٹ بولا دیکھ لو جنگ ترکمان میں لڑی جارہی ہے اور میں یہاں ہوں اگر میں تمہارا دشمن ہوتا تو تمہیں اس طرح آزاد نہ رہنے دیتا جس طرح اب ہو سیف الدین اور الصالح سے الگ ہوچکا ہوں تمہیں عزت اور تعظیم سے اس قلعے سے لے جارہا ہوں اور عزت سے رخصت کروں گا تم ہو تو معمولی سے کمان دار لیکن تمہارے سینے میں صلاح الدین ایوبی کی عظمت اور جذبہ ہے
لیکن میں اپنے ساتھیوں سے الگ نہیں رہوں گا الناصر نے کہا مجھ سے یہ گناہ نہ کرائیں نہ سہی صلیبی نے کہا اپنے ساتھیوں کے ساتھ رہو اس وقت اس کے ساتھی ایک کشادہ اور خوش نما کمرے میں تھے جہاں نرم وگداز بستر بچھے ہوئے تھے وہاں ایک خادم بھی تھا جس سے ان تینوں نے پوچھا تھا کہ یہ قلعے کا کون سا حصہ ہے اور یہاں کیا ہوتا ہے خادم نے انہیں بتایا کہ یہ مہمانوں کے کمرے ہیں یہاں صرف وہ مہمان رکھے جاتے ہیں جو اونچے رتبے کے باعزت لوگ ہوتے ہیں یہ تینوں چھاپہ مار دیکھ رہے تھے کہ ان کے ساتھ قیدیوں والا سلوک نہیں ہورہا وہ بہت تھکے ہوئے تھے
ایسے نرم بستروں پر انہیں فوراً نیند آگئی اور وہ گہری نیند سوگئے صلیبی اور گمشتگین نے الناصر کو بہت دیر اپنے ساتھ رکھا اس کے ساتھ عزت سے پیش آتے ہوئے ایسی باتیں کرتے رہے جن سے الناصر کے جذبے کی تیزی اور تندی کچھ کم ہوگئی یہ ان دونوں کی کامیابی کا پہلا قدم تھا لزا اس کمرے سے نکل گئی تھی الناصر اس وقت اس کمرے سے نکلا جب اس کے ساتھی گہری نیند سوگئے تھے وہ برآمدے میں جارہا تھا ایک نسوانی آواز نے اسے سرگوشی میں پکارا وہاں اندھیرا تھا وہ رک گیا ایک تاریک سایہ آگے آیا یہ لزا تھی جس نے الناصر کا بازو پکڑ کر کہا اب تمہیں یقین آگیا ہے کہ میں جن نہیں انسان ہوں؟
مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ یہ کیا ہورہا ہے الناصر نے جھنجھلاہٹ سے کہا میں قیدی ہوں اور میری یوں عزت کی جارہی ہے جیسے میں شہزادہ ہوں تمہاری حیرت بجا ہے لزا نے کہا ذرا سمجھنے کی کوشش کرو گمشتگین نے تمہیں بتا دیا ہے کہ اس نے صلاح الدین ایوبی کی دشمنی ترک کردی ہے اب وہ ایوبی کے کسی فوجی کو جنگی قیدی نہیں سمجھتا تم اور تمہارے ساتھی خوش قسمت ہیں کہ تم یہاں آئے ہو اور گمشتگین یہاں تھا دوسری وجہ میری ذات ہے تم میری حیثیت اور رتبے کو نہیں جانتے میں تمہاری نظر میں بدکار لڑکی ہوں جو حکمرانوں اور اعلیٰ حکام کی تفریح کا ذریعہ بنتی ہوں یہ سب غلط ہے اور تمہارا وہم ہے
قلعے کا یہ حصہ خوش نما تھا کھلا میدان تھا جس کے وسط میں چٹانیں تھیں ان کے اردگرد سبزہ تھا سبزے میں پھول دار پودے اور درخت تھے قلعہ بہت وسیع وعریض تھا لزا الناصر کو باتوں میں الجھا کر کمروں سے دور چٹان کے دامن میں لے گئی جہاں پھولوں کی مہک تھی وہ جب ادھر جارہے تھے اس وقت صلیبی اور تھیریسیا ایک دیوار کے ساتھ کھڑے چھپ کر دیکھ رہے تھے
لزا اسے قابو میں لے لے گی صلیبی نے کہا لڑکی جذباتی ہے تھیریسیا نے کہا اپنے فرائض سے گھبرا کر اسی کے پاس جا بیٹھی تھی اتنی کچی بھی نہیں اس عمر میں اسے باہر کی ڈیوٹی پر نہیں بھیجنا چاہیے تھا صلیبی نے کہا ہم ساتھ ہیں کوئی گڑبڑ نہیں کرے گی لزا الناصر سے کہہ رہی تھی تم نے مجھ سے پوچھا تھا کہ میں تم پر اتنی مہربان کیوں ہوگئی ہوں تم نے مجھے اپنا دشمن سمجھ کر یہ بات پوچھی تھی میں تمہیں یقین نہیں دلا سکتی کہ دشمنی تمہارے اور میرے بادشاہوں کے درمیان ہے میری اور تمہاری کیا دشمنی ہوسکتی ہے؟
اور دوستی بھی کیا ہوسکتی ہے؟
الناصر نے پوچھا لزا نے گہری آہ بھری بازو الناصر کے کندھوں پر رکھ کر کہا تم پتھر ہو میں نے سنا تھا کہ مسلمانوں کے دل ریشم کی طرح نرم ہوتے ہیں مذہب کو ذرا دیر کے لیے الگ رکھ دو اپنے آپ کو مسلمان اور مجھے عیسائی نہ سمجھو ہم دونوں انسان ہیں ہمارے سینوں میں دل ہیں کیا تمہارے دل میں کوئی خواہش کوئی پسند اور کسی چیز سے پیار نہیں ہے؟ 
ہے اور ضرور ہے تم مرد ہو تم اپنے دل پر قابو پاسکتے ہو مجھ میں اتنی ہمت نہیں میرا دل بے قابو ہوگیا ہے تم میرے دل میں اتر گئے ہو ہم تمہیں نشے کی حالت میں قلعے میں لائیں تو شیخ سنان نے حکم دے دیا کہ ان چاروں کو تہہ خانے میں بند کردو اگر تمہیں وہاں لے جاتے تو وہاں سے لاش بن کر نکلتے میں تم جیسے خوبصورت جوان کا یہ انجام برداشت نہیں کرسکتی تھی میں نے شیخ سنان سے کہا کہ یہ تمہارے نہیں ہمارے قیدی ہیں اور یہ تحویل میں رہیں گے اس بوڑھے کے ساتھ مجھے اور تھیریسیا کو بہت دیر جھک جھک کرنی پڑی اس نے ایک شرط بتائی کہنے لگا تم انہیں تہہ خانے سے بچانا چاہتی ہو تو میری خواب گاہ میں آجاؤ میرے دل میں اس بوڑھے کے خلاف نفرت پیدا ہوگئی میں نے پس وپیش کی تو اس نے کہا یہ چاروں تہہ خانے میں جائیں گے یا تم میری خواب گاہ میں آؤ گی مجھے بڑی شدت سے محسوس ہوا کہ میں تمہیں آج سے نہیں بچپن سے چاہتی ہوں اور میں تمہاری خاطر اپنا جسم اپنی جان اور اپنی آبرو قربان کردینے کی ہمت رکھتی ہوں کیا تم نے اپنی آبرو قربان کردی ہے؟
الناصر نے تڑپ کر پوچھا نہیں لزا نے کہا میں نے اسے وعدے پر ٹالا ہے اس نے مجھے یہ کہہ کر مہلت دے دی ہے کہ ہم قلعے میں آزاد رہیں گے لیکن ہم اس کے قیدی ہوں گے میں تمہاری آبرو کی حفاظت کروں گا الناصر نے کہا کیا تم نے میری محبت کو قبول کرلیا ہے؟
لزا نے بھولے بھالے لہجے میں پوچھا الناصر نے کوئی جواب نہ دیا یہ تو اسے ٹریننگ میں بتایا گیا تھا کہ صلیبی لڑکیاں حسن وجوانی اور حسین فریب کا جال کس طرح بچھایا کرتی ہیں لیکن یہ زبانی ہدایات تھیں جن کی حیثیت وعظ سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں تھی اسے ایسے جال سے بچنے کی عملی ٹریننگ نہیں دی گئی تھی نہ دی جاسکتی تھی اب ایک صلیبی لڑکی نے جال بچھایا تو انسانی فطرت کی کمزوریاں الناصر کی ذات سے ابھر آئیں اور اس کی عقل ودانش پر غالب آنے لگیں وہ ریگزاروں اور بیابانوں میں موت کے ساتھ کھیلنے والا انسان تھا اس کے احساسات ریت میں دبے رہتے تھے اس نے لزا جیسی دلکش لڑکی کبھی نہیں دیکھی تھی جہاں تک دیکھنے کا تعلق تھا لزا کے حسن اور طلسماتی اثر والے جسم نے اس پر کچھ اثر نہیں کیا تھا مگر اب لزا کے کھلے بکھرے ہوئے ریشم جیسے ملائم بال اس کے ایک گال سے کبھی اس کے بازو سے مس کرجاتے تھے اس کے وجود میں لہر سی دوڑ جاتی اور وہ ہر بار اپنے جسم کے اندر لرزہ سا محسوس کرتا تھا
کئی بار ایسے ہوا تھا کہ دشمن کے تیر اس کے جسم کو چھوتے ہوئے گزر گئے تھے برچھیوں کی انیوں نے اس کی کھال چیر دی تھی وہ کبھی ڈرا نہیں تھا جسم کو چھو کر گزرتے تیروں اور برچھیوں نے اس کے جسم پر ایک ثانیے کے لیے بھی لرزہ طاری نہیں کیا تھا موت کئی بار اس کے ساتھ لگ کر گزر گئی تھی اس کے احساسات میں ذرا سی بھی ہلچل پیدا نہیں ہوئی تھی وہ اپنے ہاتھوں لگائی ہوئی آگ کے شعلوں میں سے بھی گزرا تھا مگر کمزور سی ایک لڑکی کے بالوں کے لمس سے اس کے وجود میں بھونچال آگیا اس نے اس لمس سے بچنے کی ویسی کوشش نہ کی جیسی وہ تیروں اور برچھیوں سے بچنے کے لیے کیا کرتا تھا اور جب لزا اس کے اور زیادہ قریب ہوگئی تو الناصر نے محسوس کیا کہ لڑکی ابھی اس سے دور ہے
لزا کو ٹریننگ دی گئی تھی کہ اپنے شکار کو کس طرح ہپناٹائز کیا جاسکتا ہے اس نے کرلیا الناصر کو ایسی پیاس محسوس ہونے لگی جو صحرا کی پیاس سے بہت مختلف تھی پانی اس پیاس کو نہیں بجھا سکتا تھا جوں جوں رات گزرتی جارہی تھی الناصر کی اصلیت ختم ہوتی جارہی تھی پہلے تو الناصر کا جسم کانپا تھا پھر اس کا ایمان لرز گیا جذبے کی بنیادیں ہل گئیں اور جذبات کے جھکڑ اور زیادہ تند ہوگئے ہاں الناصر نے مخمور آواز میں کہا میں نے تمہاری محبت کو قبول کرلیا ہے لیکن اس کا انجام کیا ہوگا؟
کیا تم مجھے یہ کہو گی کہ میں تمہارے ساتھ چلوں؟ 
اپنا مذہب چھوڑ دوں اور تم میرے ساتھ شادی کر لوگی؟
میں نے ایسی کوئی بات نہیں سوچی لزا نے کہا اگر تم نے میرا ساتھ دینے کا ارادہ کرلیا ہے اور تم ہمیشہ کے لیے مجھے اپنی رفیقہ بنانا چاہتے ہو تو میں اپنا مذہب چھوڑ دوں گی تم مجھ سے قربانی مانگو لیکن مجھے وہ محبت دو جو ناپاک نہ ہو عارضی محبت تو میں جہاں سے چاہوں حاصل کرسکتی ہوں تمہیں میری روح نے چاہا ہے الناصر پر طلسم طاری ہوچکا تھا رات آدھی سے زیادہ گزر گئی تھی الناصر وہاں سے اٹھنا نہیں چاہتا تھا لزا نے اسے کہا کہ وہ اپنے کمرے میں چلا جائے پکڑے جانے کی صورت میں انجام اچھا نہیں ہوگا
الناصر کمرے میں داخل ہوا تو اس کے ساتھی گہری نیند سوئے ہوئے تھے وہ لیٹ گیا لیکن اسے نیند نہ آئی لزا اپنے کمرے میں داخل ہوئی تو تھیریسیا کی آنکھ کھل گئی اتنی دیر؟
تھیریسیا نے کہا تو کیا پتھر ایک پھونک سے موم ہوجایا کرتے ہیں؟
لزا نے کہا ایک دو نئے طریقے بتائے اور دونوں سو گئیں الناصر ابھی تک جاگ رہا تھا تنہائی میں اس نے لزا کی باتوں اور اظہارِ محبت پر غور کیا تو اس کا ذہن تقسیم ہوگیا اسے اپنی ٹریننگ یاد آئی جس میں اسے صلیبی لڑکیوں کے جادو بھرے جھانسوں کے متعلق بتایا گیا تھا لزا اسے حسین فریب نظر آنے لگا لیکن اس کے ذہن میں یہ خیال بھی غالب آجاتا تھا کہ یہ فریب نہیں جہاں تک جسم اور چہرے مہرے کا تعلق تھا الناصر میں بہت کشش اور جاذبیت تھی اپنے ان اوصاف سے وہ خود بھی آگاہ تھا انسانی فطرت کی کمزوریاں بھی الناصر کو وہم اور وسوسوں اور خوش فہمیوں میں مبتلا کررہی تھی وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچا اور اس کی آنکھ لگ گئی
اسے ایک آدمی نے جگایا اور کہا کہ اسے تھیریسیا نے اپنے کمرے میں بلایا ہے وہ چلا گیا اس کمرے میں تھیریسیا اکیلی تھی
بیٹھو الناصر تھیریسیا نے کہا میں تمہارے ساتھ بہت ضروری بات کرنا چاہتی ہوں الناصر اس کے سامنے بیٹھ گیا تو تھیریسیا نے کہا میں تم سے یہ نہیں پوچھوں گی کہ رات لزا تمہیں باہر لے گئی یا تم اسے لے گئے تھے میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ یہ لڑکی بہت بھولی اور معصوم ہے میں جانتی ہوں کہ وہ تمہیں پسند کرتی ہے لیکن میں اسے اور تمہیں اجازت نہیں دے سکتی کہ اس طرح رات بھر باہر بیٹھے رہو لزا کو گمراہ کرنے کی کوشش نہ کرو میں نے ایسی کوشش نہیں کی الناصر نے کہا ہم دونوں باتیں کرتے کرتے ذرا دور نکل گئے تھے میں لزا کو یہ نہیں کہہ سکتی کہ وہ تمہاری محبت میں ایسی پاگل نہ بنے کہ اسے کسی کا ہوش ہی نہ رہے تھیریسیا نے کہا میں تم سے امید رکھوں گی کہ اس کی کم عمری اور جذباتیت سے فائدہ نہ اٹھاؤ لزا تمہاری طرح شہزادی ہے الناصر نے کہا اور میں تمہارا قیدی ہوں میں ایک حقیر انسان ہوں لزا کا مذہب کچھ اور ہے اور میرا کچھ اور شہزادی اور قیدی میں اتنی محبت نہیں ہوسکتی
تم عورت کی فطرت سے شاید واقف نہیں تھیریسیا نے کہا شہزادی اپنے قیدی کو دل دے بیٹھے تو اسے شہزادہ سمجھ کر اپنے آپ کو اس کا قیدی بنا لیا کرتی ہے محبت مذہب کی زنجیریں توڑ دیا کرتی ہے میں اس کے ساتھ بات کرچکی ہوں وہ کہتی ہے کہ میرا جینا اور میرا مرنا الناصر کے لیے ہے وہ کہے گا کہ اپنا مذہب چھوڑ دو تو میں گلے سے صلیب اتار کر پھینک دوں گی تم نہیں جانتے الناصر لزا نے صرف تمہاری خاطر شیخ سنان کو ناراض کردیا ہے وہ تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو قید میں ڈال دینا چاہتا ہے لیکن لزا نے اس کے ساتھ دشمنی مول لے کر تمہیں اپنے ساتھ رکھا ہے سنان نے لزا کو جو شرط بتائی ہے وہ صرف اس لڑکی کے لیے قابل قبول ہوسکتی ہے جسے کسی کی محبت نے اندھا کر رکھا ہو اگر ہم اس قلعے سے جلدی نہ نکل سکے تو لزا یہ شرط مان لے گی میں ایسا نہیں ہونے دوں گا الناصر نے کہا میں لزا کی آبرو کی خاطر کٹ مروں گا کیا تمہارے دل میں لزا کی اتنی ہی محبت ہے جتنی اس کے دل میں ہے؟
اگر وہ لڑکی ہوکر میری محبت کا اعتراف کرتی ہے اور اس کے اظہار سے نہیں ڈرتی تو میں انکار کیوں کروں؟ 
میں مرد ہوں میرے دل میں لزا کی محبت ہے
میں تم سے صرف یہ التجا کرتی ہوں کہ اسے دھوکہ نہ دینا تھیریسیا نے کہا تم ہمارے قیدی نہیں ہو گمشتگین تمہیں اپنا مہمان سمجھ رہا ہے
الناصر کا ذہن جو لزا کے متعلق دو حصوں میں بٹ گیا تھا صاف ہوگیا اس پر لزا کی محبت کا نشہ طاری ہوگیا اور وہ اسے دیکھنے کے لیے بے تاب ہوگیا اس نے تھیریسیا سے پوچھا کہ وہ کہاں ہے تھیریسیا نے اسے بتایا کہ وہ رات بھر جاگتی رہی ہے دوسرے کمرے میں سوئی ہوئی ہے تھیریسیا کا تیر نشانے پر لگا اس نے لزا کے طلسم کو الناصر کی عقل پر پوری طرح طاری کردیا یہی اس کا مقصد تھا یہ لڑکیاں انتہا درجے کی چالاک تھیں یہی ان کی تربیت تھی وہ انسانی کمزوریوں کے ساتھ کھیلنا خوب جانتی تھیں الناصر وہاں سے اٹھا تو وہ ہوا میں اڑ رہا تھا اپنے کمرے میں گیا تو ساتھیوں نے اس سے پوچھا کہ وہ کہاں گیا تھا اس نے جھوٹ بولا اور انہیں تسلی دی کہ سب ٹھیک ہوجائے گا وہ اپنے فرض سے پرے ہٹنے لگا تھا
صلیبی گمشتگین کے پاس بیٹھا ہوا تھا گمشتگین اسے کہہ رہا تھا کہ وہ الناصر اور اس کے ساتھیوں کو ایک دو دنوں میں حرن لے جانا چاہتا ہے اتنے میں تھیریسیا آگئی اس نے ان دونوں سے کہا ان چھاپہ ماروں کا کمانڈر ہمارے جال میں آگیا ہے اس نے بتایا کہ کس طرح الناصر کے دل پر لزا کا قبضہ مکمل اور پختہ کردیا ہے اس نے کہا اس آدمی کو صلاح الدین ایوبی کے قتل کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ آدمی کتنے وقت میں اپنی اصلیت کو بھول کر اپنے سلطان کے قتل کے لیے تیار ہوتا ہے میں ان چاروں کو ایک دو دنوں میں حرن لے جانا چاہتا ہوں گمشتگین نے کہا کیا تم دونوں یا اکیلی لزا میرے ساتھ چلے گی اور میرے ساتھ رہے گی؟ 
قتل کے لیے الناصر کو لزا ہی تیار کرے گی میں لڑکیوں کو اپنے ساتھ لے جارہا ہوں صلیبی نے کہا میں زیادہ دن رک نہیں سکتا مجھے اپنے حکمرانوں کو جلدی یہ اطلاع دینی ہے کہ حلب موصل اور حرن کی فوجیں بالکل بے کار ہیں اور ان فوجیوں کے سالار سوائے بھاگنے کے اور کچھ نہیں جانتے ہیں میں انہیں صورت حال سے آگاہ کرکے صلاح الدین ایوبی کو شکست دینے کا کوئی اور طریقہ اختیار کرنے کا مشورہ دوں گا ہوسکتا ہے کہ ہماری طرف سے آپ لوگوں کو جو مدد ملتی ہے وہ بند کردی جائے ایسا نہ کہو گمشتگین نے منت سماجت کے لہجے میں کہا مجھے ایک موقعہ دو میں ایوبی کو قتل کرا دوں گا پھر دیکھنا میں کس طرح فاتح بن کر دمشق میں داخل ہوتا ہوں یہ دونوں لڑکیاں یا صرف لزا مجھے دے دو اس نے چھاپہ ماروں کے کمان دار پر قبضہ کرلیا ہے وہ اسے تیار کرلے گی الناصر صلاح الدین ایوبی کے پاس بلا روک ٹوک جاسکتا ہے کیونکہ یہ اس کا چھاپہ مار ہے وہ ایوبی کو آسانی سے قتل کرسکتاہے اور یہ بھی تو سوچو لزا کو آپ لے گئے تو الناصر میرے کسی کام کا نہیں رہے گا کچھ مباحثے کے بعد صلیبی نے کہا حرن جانے کے بجائے ہم یہیں رکے رہتے ہیں یہ دونوں لڑکیاں الناصر کو تیار کرلیں گی اور ہوسکتا ہے کہ اس کے تینوں ساتھیوں کو بھی تیار کیا جاسکے ان کے دلوں میں صلاح الدین ایوبی کی نفرت پیدا کرنی ہے الناصر کے متعلق میری رائے یہ ہے کہ بہت کچا آدمی ہے تھیریسیا نے کہا لزا اس کی عقل پر قابض ہوچکی ہے وہ تین ملاقاتوں کے بعد وہ لزا کے اشاروں پر ناچنے لگے گا آج ان چاروں کو اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلاؤ کھانے کا وقت ہوا تو الناصر اور اس کے ساتھیوں کو بھی کھانے کے کمرے میں بلا لیا گیا ان کے ساتھ دوستانہ بے تکلفی پیدا کرلی گئی کھانا ابھی رکھا نہیں گیا تھا کہ شیخ سنان کے ایک خادم نے آکر صلیبی سے کہا کہ اسے سنان نے بلایا ہے صلیبی چلا گیا اس لڑکی کے متعلق تم نے کیا سوچا ہے؟
شیخ سنان نے پوچھا...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی