⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟙 𝟡⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
لڑکی نے مہدی الحسن کی مردانگی کو بھڑکانے کے جتن کیے زروجواہرات کے لالچ بھی دئیے مگر اسے راستہ نہ بتایا مہدی الحسن نے پٹی سے اس کا منہ بند کردیا اور خود ہی ایک محفوظ راستہ سوچ لیا یہ راستہ پہاڑیوں کے اوپر تھا اس نے لڑکی کو وہیں بیٹھے رہنے دیا اور اوپر چڑھنے لگا نیچے کسی کی آواز سن کر وہ وہیں دبک گیا کوئی مرد اس لڑکی کو پکار رہا تھا مہدی الحسن آہستہ آہستہ نیچے آگیا اور لڑکی کے قریب ایک بڑے پتھر کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گیا اس آدمی نے لڑکی کو شاید دیکھ لیا تھا
تم بولتی کیوں نہیں؟
اس آدمی نے پوچھا اور اوپر آنے لگا لڑکی کا منہ بند تھا وہ آدمی اس کے قریب آ بیٹھا اور بولا کیا ہوا ہے تمہیں؟
ادھر نہیں گئی؟
مہدی الحسن اس کے عقب میں تھا فاصلہ دوچار قدم تھا اس نے اٹھ کر اس آدمی کی پیٹھ میں خنجر کا بھرپور وار کیا فوراً بعد دوسرا وار کیا جوان آدمی کے دونوں وار دور تک اتر گئے اس آدمی کی آواز بھی نہ نکلی مہدی الحسن نے اسے گھسیٹ کر اس پتھر کے نیچے پھینک دیا جس کے پیچھے وہ چھپا تھا اس نے لڑکی کو کندھے پر ڈالا اور پہاڑی پر چڑھ گیا یہ کوئی اونچی پہاڑی نہیں تھی اوپر سے چوڑی تھی وہ اس پر چلنے لگا اس کے لیے آسان طریقہ تھا کہ رات بھر کہیں چھپا رہتا اور دن کی روشنی میں نکل جاتا لیکن اس کی کوشش یہ تھی کہ بہت جلد قاہرہ پہنچ جائے تاکہ حکیم کی گرفتاری اور اس علاقے کو محاصرے میں لینے کا انتظام صبح سے پہلے ہوجائے اس نے ادھر ادھر دیکھا جہاں مشعل کی روشنی تھی اب چونکہ وہ خود بلندی پر تھا اس لیے اسے بالمقابل بلندی پر مشعل صاف نظر آرہی تھی ایک آدمی دونوں ہاتھوں میں آئینے کی طرح چمکتی چادر (دھات کی یا ابرق کی) اٹھائے ادھر ادھر عکس مار رہا تھا اس کے ساتھ ایک اور آدمی تھا مہدی الحسن کے لیے اوپر اوٹ تھی وہ اس کی مدد سے روشنی سے بچتا آگے ہی آگے بڑھتا گیا حتیٰ کہ مشعل اس کی نظروں سے اوجھل ہوگئی اسی پہاڑی خطے میں دور اندر جہاں تک کوئی مسافر اور کوئی گڈریا نہیں پہنچ سکتا تھا ایک پہاڑی کے دامن میں غار کا تنگ سا دہانہ تھا اس کے پیچھے غار اتنا وسیع تھا جو غار نہیں بلکہ بہت ہی کشادہ کمرہ تھا اس میں بہت سے آدمی بیٹھے تھے دو لڑکیاں بھی تھیں اب تک اسے واپس آ جانا چاہیے تھا ایک آدمی نے کہا آجائے گی ایک اور نے کہا یہاں کون سا خطرہ ہے آج وہ اسے لے کے ہی آئے گی آدمی کام کا ہے ایک نے کہا کمبخت بہت تجربہ کار ہے ہم اسے تیار کرلیں گے
اتنے میں ایک آدمی دوڑتا اندر آیا اور بولا گوپل مرا پڑا ہے اور لڑکی کا کچھ پتہ نہیں چل رہا کہ کہاں ہے گوپل کو خنجروں سے ہلاک کیا گیا ہے وہ (مہدی الحسن) کہاں ہے؟
کسی نے پوچھا کہیں نظر نہیں آ رہا اسے جواب ملا اس کا اونٹ یہیں ہے وہ خود کہیں نظر نہیں آ رہا سب باہر کو دو مشعلیں اٹھا کر دوڑ پڑے اور سرنگ کے دہانے تک گئے وہاں ان کے ساتھی کی لاش پڑی تھی سرنگ میں جاکر دیکھا لڑکی کا کفن پڑا تھا اس کے لیڈر نے سب سے کہا کہ دو آدمی باہر چلے جاؤ اگر باہر سے کوئی خطرہ آئے تو اطلاع دو اگر وہ نظر آئے تو اسے پکڑ لو مقابلہ کرے تو مار ڈالو اور باقی آدمی پھیل جاؤ وہ یہیں کہیں ہوگا اگر وہ صبح تک نہ ملے تو یہاں سے نکلو
اس وقت مہدی الحسن لڑکی کو کندھے پر اٹھائے ایک مشکل میں پھنسا ہوا تھا وہ سرنگ والی پہاڑی سے دور نکل گیا تھا آگے پہاڑی دیوار کی طرح ہوگئی تھی نہ دائیں ڈھلان تھی نہ بائیں اور یہ بلند تھی یہ بالکل دیوار تھی جس پر بیک وقت دونوں پاؤں نہیں رکھے جاسکتے تھے وہ اس پر اس طرح بیٹھ گیا جس طرح گھوڑے پر بیٹھتے ہیں وہ آگے کو سرکنے لگا لڑکی کو کندھے پر سنبھالنا اور توازن قائم رکھنا مشکل ہو رہا تھا لڑکی نے اس کے توازن کو بگاڑنے کے لیے تڑپنا شروع کردیا مہدی الحسن کو معلوم تھا کہ یہاں سے گرا تو ہڈیاں ٹوٹ جائیں گی اس سے اس نے اندازہ لگایا کہ یہاں جو بھید ہے وہ اتنا قیمتی اور نازک ہے کہ یہ لڑکی اسے چھپائے رکھنے کی خاطر مہدی الحسن کو اپنے ساتھ گرا کر خود بھی مرنے کی کوشش کر رہی ہے یہ دیوار ختم ہونے میں نہیں آرہی تھی اور لڑکی اس سے سنبھل نہیں رہی تھی ادھر لڑکی کے گروہ کے آدمی تلاش اور تعاقب میں پھیل گئے تھے ان کے لیے یہ زندگی اور موت کا سوال تھا تخریب کاری کے اڈے کا پکڑے جانا ان کی شکست تھی اور ان میں سے جنہیں پکڑے جانا تھا ان کے لیے بڑی ہی اذیت ناک موت تھی مہدی الحسن نے لڑکی کے گرد بازو اس قدر زور سے لپیٹ لیا کہ اس کی پسلیاں ٹوٹنے لگیں وہ تو اپنی روح کی بھی طاقت استعمال کررہا تھا آخر یہی طاقت اسے دیوار سے گزار لے گئی آگے وہ چوٹی آئی وہ خاصی چوڑی تھی مہدی الحسن نے لڑکی کو زمین پر پٹخ دیا اور غضب ناک آواز میں بولا کیا تم میرا راستہ روک لو گی؟
اس نے لڑکی کو اپنے غصے کا ذائقہ چکھانے کے لیے دوچار قدم پیٹھ کے بل گھسیٹا اور کہا میرے لیے کوئی مشکل پیدا کی تو میں تمہیں اسی طرح گھسیٹ کر ساتھ لے جاؤں گا مرتی ہو تو مرجاؤ اسے دور نیچے ایک مشعل دکھائی دی وہ بہت تھک گیا تھا اور وہ محسوس کرنے لگا تھا کہ خطرے سے نکل آیا ہے مگر اس جگہ سے نکلنا ابھی ٹیڑھا مسئلہ بنا ہوا تھا اسے بہت جلدی قاہرہ پہنچنا تھا اس نے لڑکی کے پاؤں کھول دئیے ہاتھ پیٹھ پیچھے بندھے رہنے دئیے اسے آگے کرلیا اور خنجر کی نوک اس کی پیٹھ کے ساتھ لگا کر کہا چلو میرے کہے بغیر دائیں بائیں نہ گھومنا تعاقب میں جو آدمی نکلے تھے وہ سرنگ میں اور اس کے اردگرد وادیوں میں گھوم پھر رہے تھے دو آدمی اس جگہ جا کھڑے ہوئے جہاں سے مہدی الحسن اندر آتا جاتا تھا مہدی الحسن ڈھلانیں اترتا اور چڑھائیاں چڑھتا ایک ایسی چٹان پر جا پہنچا جہاں آگے کچھ بھی نہیں تھا وہ زمین کا بھیدی تھا اسے اتنا تجربہ تھا کہ اندھیرے میں بھی اجنبی زمین کے خدوخال بھانپ لیا کرتا تھا اسے یہ سمجھنے میں کچھ دیر لگی کہ نیچے دریا ہے اور یہ دریائے نیل ہے اس نے لڑکی کے ہاتھ بھی کھول دئیے اور منہ سے بھی پٹی اتار دی چٹان کی ڈھلان کھڑی تھی
لڑکی سے کہا کہ بیٹھو اور نیچے کو سرکو دونوں سرک کر نیچے گئے پانی کی آواز صاف سنائی دینے لگی چٹان کی ڈھلان ختم ہوچکی تھی وہ ابھی دریا کی سطح سے بلند تھے اس نے لڑکی سے کہا کہ دریا میں کودو لڑکی بولی میں تیرنا نہیں جانتی مہدی الحسن نے خنجر نیام میں ڈالا اور لڑکی کو اپنے بازوؤں میں لے لیا جیسے بغل گیر ہوا جاتا ہے اس نے لڑکی کو مضبوط گرفت میں لیے ہوئے دریا میں چھلانگ لگا دی دریا کا رخ قاہرہ کی طرف تھا لڑکی کو اس نے دانستہ چھوڑ دیا اس نے دیکھا کہ لڑکی تیر رہی ہے مجھے معلوم تھا کہ تم تیر سکتی ہو مہدی الحسن نے کہا تمہیں ہر ڈھنک سکھا کر ہمارے ملک میں بھیجا جاتا ہے زیادہ زور نہ لگاؤ دریا ادھر ہی جا رہا ہے جدھر ہم جارہے ہیں
ان کے ایک طرف چٹانیں اور پہاڑیاں کھڑی تھیں انہیں تلاش کرنے والے اس کوہسار کے دوسری طرف بھاگ دوڑ رہے تھے لڑکی نے تیرتے تیرتے ایک بار پھر کوشش کی کہ مہدی الحسن کو اپنے جواں جسم کا اسیر بنا لے لیکن اس نے کوئی اثر نہ لیا بہت دور آگے جاکر جب مہدی الحسن نے دیکھا کہ وہ خطرے کے علاقے سے دور آگیا ہے منہ میں دو انگلیاں ڈال کر خاص انداز سے سیٹیاں بجائیں وہ تیرتا بھی گیا اور وقفے وقفے سے سیٹیاں بھی بجاتا گیا تھوڑی دیر بعد اسے دور سے ایسی ہی سیٹی سنائی دی پھر سیٹیوں کا تبادلہ ہوا ایک کشتی ان کے قریب آگئی
مہدی الحسن کو معلوم تھا کہ جس طرح سرحد پر گشتی سنتری گھومتے پھرتے رہتے ہیں اسی طرح دریا میں بھی گشتی پہرہ ہوتا ہے خطرے کے وقت ایک دوسرے کو بلانے کے لیے وہ منہ سے اسی طرح سیٹی بجایا کرتے تھے یہ کشتی گشتی سنتریوں کی تھی مہدی الحسن نے اپنا تعارف کرایا سنتریوں نے اسے اور لڑکی کو کشتی میں بٹھا لیا علی بن سفیان گہری نیند سویا ہوا تھا اسے ملازم نے جگایا اور بتایا کہ مہدی الحسن نام کا ایک آدمی ایک لڑکی کو ساتھ لے کے آیا ہے مہدی الحسن کا نام ہی کافی تھا علی بن سفیان اچک کر اٹھا اور باہر کو دوڑا مہدی الحسن اور لڑکی کے کپڑوں سے پانی ٹپک رہا تھا دونوں کو کمرے میں بٹھایا قندیل جل رہی تھی مہدی الحسن نے پہلی بار لڑکی کا چہرہ دیکھا اور سوچا کہ لڑکی نے ٹھیک کہا تھا کہ مجھے روشنی میں دیکھو گے تو سب کچھ بھول جاؤ گے مہدی الحسن نے حکیم کا نام لے کر کہا اس کے گھر پر فوراً چھاپہ ماریں مہدی علی بن سفیان نے حیرت زدہ ہوکر پوچھا کس کی بات کر رہے ہو؟
کیا ایمان فروشی کوئی نئی خبر ہے؟
مہدی الحسن نے کہا اور لڑکی سے پوچھا حکیم تمہارا ساتھی ہے نا؟
یہاں جھوٹ بولو گی تو انجام بڑا ہی بھیانک ہوگا
لڑکی نے سرجھکا لیا علی بن سفیان نے اس کے بھیگے ہوئے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا یہاں تمہارے ساتھ وہ سلوک نہیں ہوگا جو تم سوچ رہی ہو تمہارے حسن اور جوانی کے لیے ہم پتھر ہیں اور جب ہم بے بس عورت کی عزت کرنے پر آتے ہیں تو ہم ریشم کی طرح ملائم اور نرم ہیں حکیم تمہارا ساتھی ہے؟
لڑکی نے اثبات میں سر ہلایا مہدی الحسن نے نہایت مختصر طور پر سنایا کہ وہ کیا دیکھ کر آیا ہے اور حکیم نے اسے بدروح کا کس طرح جھانسہ دیا تھا
علی بن سفیان نے ملازم اور اپنے محافظوں کو بلایا اور انہیں مختلف کمان داروں کی طرف پیغامات دے کر دوڑا دیا کوتوال غیاث بلبیس کو بھی بلوا لیا اس نے اس قسم کے ہنگامی حالات کے لیے زیادہ نفری کا ایک دستہ تیار کر رکھا تھا جو چند منٹوں میں کارروائی کے لیے تیار ہوجاتا تھا مہدی الحسن کی رپورٹ پر یہ دستہ فوراً تیار ہوگیا علی بن سفیان نے غیاث بلبیس کے سپرد یہ کام کیا کہ حکیم کے گھر چھاپہ مارے اور اسے گرفتار کرکے اس کے مکان اور دوائی خانے کو سربمہر کردے اس نے خود سواروں کو ساتھ لیا ایک گھوڑے پر مہدی الحسن کو دوسرے پر لڑکی کو بٹھایا اور واردات والے علاقے کو روانہ ہوگیا وہ جگہ بہت دور نہیں تھی لڑکی کے گروہ کے آدمی اس وقت تک تلاش سے مایوس ہوچکے تھے انہوں نے تھک ہار کر فیصلہ کیا کہ وہاں سے نکل بھاگیں انہیں خدشہ یہ تھا کہ لڑکی اگر قاہرہ پہنچ گئی تو وہ نشاندہی کردے گی گروہ میں اختلاف پیدا ہوگیا کچھ آدمی کہتے تھے کہ مہدی الحسن کا اونٹ یہیں ہے وہ اگر نکل گیا ہے تو اتنی جلدی قاہرہ نہیں پہنچ سکے گا اسی کشمکش میں انہوں نے وہاں سے بھاگنے میں وقت ضائع کردیا آخر وہ اپنا سامان سمیٹ کر غارنما کمرے سے نکلے مگر انہیں گھوڑوں کے قدموں کے دھماکے سنائی دینے لگے باہر نکلنے کا راستہ بند ہوچکا تھا
علی بن سفیان کے سواروں نے مشعلیں جلا لیں اور وادیوں میں پھیل گئے لڑکی کو ساتھ رکھا گیا تھا اس نے بتایا کہ اس کا گروہ کہاں رہتا ہے وہاں گئے تو غار کے اندر سے چار پانچ آدمی پکڑے گئے اندر مختلف قسم کے سامان کے انبار تھے جن میں آتش گیر مادہ تیروکمان اور خنجر تھے اور ایک مضبوط بکس میں سونے اور چاندی کے وہ سکے تھے جو مصر میں رائج تھے ان آدمیوں میں صرف ایک صلیبی تھا باقی قاہرہ کے مسلمان تھے ان کی نشاندہی پر گروہ کے دوسرے افراد کی تلاش شروع ہوئی ساری رات اور اگلا پورا دن تلاش جاری رہی جس کے نتیجے میں باقی افراد بھی پکڑے گئے جن میں دو ایسی ہی لڑکیاں تھیں جیسی مہدی الحسن نے پکڑی تھی
ادھر قاہرہ میں حکیم کے گھر کو گھیرے میں لے کر اس کے دروازے پر دستک دی گئی تو دروازہ ایک ملازم نے کھولا غیاث بلبیس اپنے چند ایک آدمیوں کے ساتھ اندر چلا گیا اس کے آدمی کمروں میں گھس گئے ان کے ہاتھوں میں مشعلیں تھیں حکیم کے سونے کا کمرہ اندر سے بند تھا دروازہ ایک نیم برہنہ لڑکی نے کھولا حکیم پلنگ پر نیم برہنہ پڑا تھا پلنگ کے قریب صراحی اور پیالے رکھے تھے حکیم نشے کی حالت میں بے ہوش پڑا تھا اس کے مریض اور معتقد تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ حکیم اس حالت تک بھی پہنچ سکتا ہے لڑکی اس کی بیوی نہیں تھی اور وہ مسلمان بھی نہیں تھی یہ صلیبیوں کا بھیجا ہوا تحفہ تھا اور اس کے گھر سے جو دلت برآمد ہوئی وہ یقیناً حکمت کی آمدنی نہیں تھی
حکیم اس وقت ہوش میں آیا جب وہ قید خانے کے تہہ خانے میں بندھا ہوا تھا غیاث بلبیس کو اطلاع دی گئی کہ حکیم بیدار ہوگیا ہے وہ حکیم کے پاس گیا اور اسے کہا کہ وہ اب کچھ بھی چھپانے کی کوشش نہ کرے ذرا سی پس وپیش کے بعد اس نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا اس نے دو نائب سالاروں کے نام لے کر بتایا کہ وہ مصر میں سلطان ایوبی کا تخت الٹنا چاہتے تھے یہ گروہ صلیبیوں نے تیار کیا تھا حکیم کو یہ لڑکی تحفے کے طور پر اور بے انداز رقم دے کر اس گروہ میں شامل کیا گیا تھا اس کی شرط بھی مان لی گئی تھی کہ نئی حکومت میں اسے وزارت کے درجے کا عہدہ دیا جائے گا حکیم چونکہ بڑے بڑے افسروں میں بھی مقبول تھا اور وہ قابل حکیم بھی تھا اس لیے اس کی ہر بات برحق مانی جاتی تھی اس مقبولیت اور اثرو رسوخ سے یہ فائدہ اٹھاتا رہتا کہ سلطان ایوبی کے خلاف نفرت پھیلاتا رہا
قاہرہ میں جو تخریب کاری کے واقعات ہوئے تھے ان میں حکیم ذمہ داری سے ملوث تھا اس نے اپنی حیثیت اور مقبولیت سے یہ فائدہ بھی اٹھایا کہ علی بن سفیان کے بعض جاسوسوں کو پہچان لیا تھا ان میں مہدی الحسن بھی تھا جو اس پہاڑی علاقے میں جانے لگا جس میں تخریب کاروں کا اڈہ تھا پہلے یہ فیصلہ کیا گیا کہ اسے قتل کر دیا جائے حکیم نے اسے دیکھ لیا اتفاق سے حکیم نے مہدی الحسن کے متعلق بھی معلوم کر رکھا تھا کہ قابل اور جرأت مند جاسوس ہے حکیم نے فیصلہ کیا کہ اتنے تجربہ کار آدمی کو قتل کرنے کے بجائے ایسے طریقے سے اپنے جال میں پھانسا جائے کہ وہ اس گروہ کے لیے کام کرے گروہ کے پاس ایسے طریقے موجود تھے وہ چند ایک مصری جاسوسوں کو اپنے ہاتھ میں لے کر استعمال کر رہے تھے علی بن سفیان کا شعبہ انہیں اپنے دیانت دار جاسوس سمجھتا تھا
حکیم نے مہدی الحسن کو پھانسنے کا یہ طریقہ اختیار کیا جو سنایا جاچکا ہے اسے پورا یقین تھا کہ مہدی الحسن اتنی حسین بدروح کے جھانسے میں آجائے گا آگے حشیشین اور صلیبی ماہرین کے ذہن کو اپنے قبضے میں لے لیں گے یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا اور جو طریقہ اختیار کیا گیا تھا وہ کوئی عجوبہ نہیں تھا یہ ایک عام طریقہ تھا یہ طریقہ اور یہ شعبدہ بازی صرف ان پر کامیاب نہیں ہوتی تھی جن کا ایمان مضبوط ہوتا تھا مہدی الحسن انہی ایمان والوں میں سے نکلا جو دو کمان دار پراسرار طور پر مرگئے تھے ان کے متعلق حکیم نے بتایا کہ انہیں قتل کیا گیا تھا دونوں کو حکیم نے وہ زہر دیا تھا جس سے ذرہ بھر تلخی محسوس نہیں ہوتی تھی انسان اپنے اندر کوئی تکلیف یا تبدیلی محسوس نہیں کرتا تھا اور بارہ گھنٹوں بعد اچانک مرجاتا تھا ان دونوں کو قتل کرنے کی ضرورت یہ پیش آئی تھی کہ سلطان ایوبی اور اس کی حکومت کے وفادار تھے دین دار مسلمان تھے انہیں خریدنے کی کوشش کی گئی تھی مگر وہ ایمان بیچنے کے بجائے ایمان خریدنے والوں کے لیے خطرہ بن گئے تھے حکیم پہلے ان میں سے ایک کو اس طرح ملا جیسے اتفاقیہ آمنا سامنا ہوگیا ہو باتوں باتوں میں حکیم نے اسے کسی بیماری کے وہم میں مبتلا کیا اور دوائی خانے میں بلا کر اسے دوائی کے بہانے زہر دے دیا جو حشیشین کی ایجاد تھا چند دنوں بعد دوسرے کمان دار کے ساتھ بھی حکیم نے ایسی ہی اتفاقیہ ملاقات کی اور اسے بھی کسی خفیہ بیماری کے وہم میں ڈال کر زہر دے دیا
حکیم نے یہ انکشافات از خود ہی نہیں کردئیے تھے اس کی زبان تہہ خانے کی اذیتوں نے کھلوائی تھی اس نے بتایا کہ فوج میں ایک طرف تو بے اطمینانی پھیلائی جارہی ہے اور دوسری طرف اس میں نشے اور جنسی لذت پرستی کی عادت پیدا کی جارہی ہے فوجی افسروں کو حکومت کے خلاف کیا جارہا ہے اور جو مضبوط جذبے والے ہیں انہیں پراسرار طریقے سے قتل کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے سوڈان کی فوج عنقریب مصر کی سرحدوں پر مصر کی سرحدی چوکیوں پر حملوں کا سلسلہ شروع کرنے والی ہے اس سلسلے کی نگرانی اور قیادت صلیبی کریں گے سرحدی دیہات کے لوگوں کو سوڈانی اپنے زیر اثر لیں گے
علی بن سفیان اور غیاث بلبیس نے مصر کے قائم مقام امیر العادل کو ان گرفتاریوں تفتیش اور انکشافات سے باخبر رکھا لیکن اور کسی کو اس راز میں شریک نہیں کیا گیا حکیم اور اس کے دوسرے ساتھیوں نے جن نائب سالاروں اور دیگر عہدوں کے افراد کے نام بتائے تھے انہیں گرفتار کرنا ضروری تھا لیکن العادل (سلطان ایوبی کا بھائی) گھبرا گیا اس نے اس راز کو راز ہی رکھنے کا حکم دیا اور کہا کہ یہ صورت اتنی نازک ہے کہ اسے سلطان ایوبی خود ہی آکر سنبھالے تو بہتر ہے معاملہ بڑا ہی نازک تھا اس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ سلطان ایوبی کے پاس خود جائے اور اسے مصر آنے کو کہے یا اس سے ہدایات لے لے العادل کی روانگی خفیہ رکھی گئی تمام مشتبہ نائب سالاروں وغیرہ کے ساتھ ایک ایک جاسوس سائے کی طرح لگا دیا گیا میں کوئی نئی خبر نہیں سن رہا شام میں حلب کے قریب اپنے ہیڈکوارٹر میں العادل سے ساری بات سن کر سلطان ایوبی نے کہا میں کہہ نہیں سکتا کہ قوم میں ایمان فروشی کا جو مرض پیدا ہوگیا ہے اس کا یہ علاج ہوگا میری نظریں بیت المقدس پر نہیں یورپ پر لگی ہوئی ہیں مگر میرے ایمان فروش بھائی مجھے مصر سے نہیں نکلنے دے رہے تم یہ محاذ سنبھالو میں دمشق جاتا ہوں وہاں سے مصر چلا جاؤں گا
سلطان ایوبی نے العادل کو محاذ کی تمام تر صورت حال بتائی ہدایات دیں اور کہا کہ اپنے جاسوس اتنی دور تک گئے ہوئے ہیں کہ صلیبیوں نے اگر حملہ کیا تو تمہیں کم از کم دو تین روز پہلے اطلاع مل جائے گی چھاپہ مار جیش ہر وقت تیاری کی حالت میں رہتے ہیں میں نے انہیں حملے کے ممکنہ راستوں کے اردگرد چھپا رکھا ہے تازہ اطلاعات یہ ہیں کہ صلیبی حملہ نہیں کریں گے اگر میری غیرحاضری سے وہ فائدہ اٹھانے کی سوچ لیں تو گھبرانا نہیں قلعہ بند ہوکر نہ لڑنا دشمن کو آگے آنے دینا پہلا وار دشمن کو کرنے دینا بے شک پیچھے ہٹ جانا زمین موزوں ہے بلندیوں پر قبضہ رکھنا اور خاص طور پر یاد رکھو سلطان ایوبی نے کہا الملک الصالح سیف الدین اور جن امراء نے ہماری اطاعت قبول کی ہے صلیبیوں کے حملے کی صورت میں ان پر اعتبار نہ کرنا ان کے ذہنوں سے بادشاہی کی خواہش نکلی نہیں معاہدے کے مطابق وہ کوئی فوج نہیں رکھ سکتے میں نے ان کے اندر تک جاسوس بھیج دئیے ہیں اور میں نے زندگی میں پہلی بار اپنے اصول کے خلاف یہ انتظام کردیا کہ ہمارے یہ مسلمان بھائی ذرا سی بھی مخالفانہ حرکت کریں تو انہیں قتل کردیا جائے
قاضی بہاؤالدین شداد نے اپنی یادداشتوں میں ربیع الاوّل ٥٧٢ ہجری (ستمبر ١١٧٦ء) کا مہینہ لکھا ہے جب سلطان ایوبی العادل کو محاذ پر چھوڑ کر دمشق گیا اس کا ایک اور بھائی شمس الدولہ طوران شاہ یمن سے واپس آچکا تھا یمن میں شمس الدولہ کو بھیجا تھا جو کامیاب لوٹا تھا
سلطان ایوبی نے اسے دمشق کا گورنر مقرر کیا اور اکتوبر ١١٧٦ء میں مصر کو روانہ ہوگیا قاہرہ پہنچتے ہی اس نے تمام مشتبہ افراد کو کسی کے عہدے کا لحاظ کیے بغیر گرفتار کرنے کا حکم دیا ان کی گرفتاری کے اگلے روز اس نے وہ تمام سونا اور خزانہ پریڈ کے میدان میں رکھوایا جو غار سے برآمد ہوا تھا اس وقت تک جتنی صلیبی لڑکیاں پکڑی جا چکی تھیں اور اب جو پکڑی گئیں تھیں انہیں خزانے کے انبار کے قریب کھڑا کیا گیا ان میں حکیم بھی تھا نائب سالار بھی تھے اور کمان دار بھی سب زنجیروں میں بندھے ہوئے تھے مصر میں جتنی فوج تھی اسے ان کے قریب سے گزار کر میدان میں کھڑا کیا گیا سلطان ایوبی گھوڑے پر سوار آیا اور فوج کے سامنے رکا مجھے بتایا گیا ہے کہ تمہیں حکومت کے خلاف اکسایا جارہا ہے سلطان ایوبی نے بلند اور گرج دار آواز میں کہا اگر تم میں سے کوئی مجھے یقین دلا دے کہ اسلام کی عظمت اور رسول اللّٰہﷺ کی محبت کی خاطر تمہیں میرے خلاف اور میری حکومت کے خلاف بھڑکا رہا ہے اور وہ قبلہ اول کو کفار سے آزاد کرانے کا عزم رکھتا ہے اور وہ سپین پر حملہ کرکے اس ملک کو ایک بار پھر سلطنت اسلامیہ کا عزم کیے ہوئے ہے تو وہ سامنے آئے میری تلوار لے لے اور میرے گھوڑے پر سوار ہوجائے میں اس کے حق میں سلطانی سے دستبردار ہوتا ہوں
ہر طرف سناٹا طاری ہوگیا سلطان ایوبی پیچھے کو مڑا اور ملزموں سے کہا میری جگہ لینے والا تم میں ہے وہ کون ہے؟
آگے آئے رب کعبہ کی قسم! میں سچے دل سے اپنی حکومت اس کے حوالے کردوں گا اور خود اس کے حکم کا پابند رہوں گا
خاموشی گہرا سکوت اللہ کے شیرو سلطان ایوبی فوج سے مخاطب ہوا تمہیں بغاوت پر نہ اسلام کی عظمت کے لیے اکسایا جارہا نہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام مقدس کی خاطر تمہیں جو خزانہ دکھایا گیا ہے اور جو لڑکیاں تمہارے سامنے کھڑی ہیں یہ وہ انعام ہیں جو ان لوگوں کو دیا گیا ہے یہ ان کے ایمان کی قیمت ہے میں ان سب سے کہتا ہوں کہ آگے آئیں اور کہیں کہ میں نے جو کہا ہے یہ جھوٹ ہے
کوئی آگے نہ آیا سلطان ایوبی گھوڑے سے اترا اور ملزموں سے حکیم کو بازو سے پکڑا اسے اپنے گھوڑے کے قریب لے جاکر کہا میرے گھوڑے پر سوار ہو جاؤ اور کہو کہ ایوبی جھوٹ بول رہا ہے
حکیم گھوڑے پر سوار ہوگیا مگر اس نے سر جھکا لیا کہو سلطان جھوٹ بول رہا ہے سلطان ایوبی نے غضب ناک آواز میں کہا حکیم نے سر اٹھایا اور بلند آواز سے کہا سلطان ایوبی نے جو کہا ہے سچ کہا ہے اور وہ گھوڑے سے کود آیا وقائع نگار لکھتے ہیں کہ سلطان ایوبی کو پہلی بار غصے میں دیکھا گیا حکیم گھوڑے سے اتر کر سرجھکائے کھڑا تھا سلطان ایوبی نے تلوار نکالی اور ایک ہی وار میں حکیم کا سر تن سے جدا کردیا وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور بڑی ہی بلند آواز سے چلایا اللہ کے سپاہیو! عظمت اسلام کے پاسبانو! اگر میں نے بے انصافی کی ہے تو یہ لو میری تلوار سے میری گردن اڑا دو اس نے اپنی تلوار برچھی کی طرح فوج کی طرف پھینکی تلوار کی نوک زمین میں گڑ گئی اور تلوار جھولنے لگی اسی روز سلطان ایوبی نے سوڈان کو اپنا ایلچی اس تحریری پیغام کے ساتھ روانہ کردیا کہ اگر سوڈان کی فوج نے مصر کی سرحد پر ذرا سی بھی بدامنی پیدا کی تو اسے مصر پر حملہ تصور کیا جائے گا اور اس کے جواب میں ہم سوڈان پر حملہ کرنے میں حق بجانب اور آزاد ہوں گے اور ہم سوڈان پر اسلامی پرچم لہرا کر دم لیں گے
ایک منزل کے مسافر
خون جو سلطان صلاح الدین ایوبی کی تلوار سے ٹپک رہا تھا وہ صاف کیے بغیر اس نے تلوار نیام میں ڈال لی یہ خون اس غدار حکیم کا تھا جو صلیبیوں کا جاسوس اور تخریب کار بنا ہوا تھا
فوری طور پر جنہیں غداری اور دشمن کے ساتھ سازباز کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا وہ پابجولاں قید خانے کی طرف لے جائے جارہے تھے سلطان ایوبی اپنے سالاروں نائب سالاروں فوج اور شہری انتظامیہ کے اعلیٰ حکام کے اجلاس میں بے چینی سے ادھر ادھر ٹہل رہا تھا اس کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا وہ بہت کچھ کہہ چکا تھا اور بہت کچھ کہتے کہتے رک گیا اجلاس کے حاضرین اس کی جذباتی کیفیت کو اچھی طرح سمجھتے تھے وہ سلطان ایوبی سے نظریں ملانے سے بھی ڈرتے تھے
سلطان عالی مقام! ایک سالار نے کہا ہم صلیبیوں کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گے سلطان ایوبی نے بڑی تیزی سے نیام سے تلوار نکالی تلوار خون آلود تھی اس نے تلوار حاضرین کے آگے کرکے کہا یہ خون کس کا ہے؟
یہ تم سب کا خون ہے یہ میرا خون ہے یہ ہمارے اس بھائی کا خون ہے جو ہمارے ساتھ مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھا کرتا تھا اس کے گھر میں قرآن بھی ہے اگر یہ خون غدار ہوسکتا ہے تو صلیبیوں کی ہر سازش کامیاب ہوگی صلیبیوں کی یہ سازش کامیاب ہوچکی ہے وہ اسلام کی ان افواج کو جنہیں متحد ہوکر فلسطین کو صلیبی استبداد سے آزاد کرانا تھا آپس میں لڑا کر ہمیں اتنا کمزور کرچکے ہیں کہ ایک لمبے عرصے تک فلسطین کی طرف کوچ کرنے سے معذور ہوگئے ہیں ہماری منزل بیت المقدس تھی ہمیں آج قاہرہ میں نہیں یروشلم میں ہونا چاہیے تھا مگر اسلام کی جنگی طاقت تباہ ہوگئی ہے
سلطان ایوبی نے تلوار اپنے دربان کی طرف پھینکی پھر نیام بھی اتار کر اسے دی اور کہا اگر یہ خون کسی کافر کا ہوتا تو میں نیام صاف نہ کراتا یہ ایک غدار کا خون ہے نیام میں اس کی بو بھی نہ رہے دربان تلوار اور نیام صاف کرنے کے لیے باہر گیا سلطان ایوبی نے اجلاس کے حاضرین سے کہا صلیبیوں کی سازش کامیاب ہوچکی ہے وہ چاہتے ہیں کہ میں حلب سے آگے نہ جا سکوں دیکھ لو میں آگے جانے کے بجائے قاہرہ میں آگیا ہوں اپنے آپ کو دھوکے میں نہ رکھو اب صلیبی آگے بڑھیں گے ہم جب آپس میں لڑ رہے تھے وہ ہمیں فیصلہ کن شکست دینے کی تیاریاں کر رہے تھے
ہم نے مسلمانوں کو لڑا کر صلاح الدین ایوبی کا رخ پھیر دیا ہے یہ تریپولی (لبنان) کا صلیبی حکمران ریمانڈ کہہ رہا تھا صلیبی جاسوسوں نے وہاں خبر پہنچا دی تھی کہ سلطان ایوبی حلب سے مصر چلا گیا ہے اور اس کی جگہ اس کا بھائی العادل محاذ پر آیا ہے یہ خبر یروشلم تک پہنچ گئی تھی یہ خبر عکرہ تک بھی پہنچ گئی تھی جہاں صلیب اعظم تھی اور جہاں بڑا پادری بھی تھا جسے صلیب اعظم کا محافظ کہتے تھے وہ فوراً تریپولی جمع ہوگئے تھے ان کے ہاں بھی ایسی ہی کانفرنس ہورہی تھی جیسی سلطان ایوبی نے بلا رکھی تھی
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ایوبی یروشلم کو فتح کرنے نکلا تھا ریمانڈ کہہ رہا تھا ہم نے ایک بھی تیر چلائے بغیر اسے مصر کی طرف پسپا کردیا ہے اس کے ہاتھوں ان مسلمان امراء اور حکمرانوں کو بے کار کردیا ہے جو کسی بھی وقت ہمارے خلاف ایوبی کی قوت بن سکتے تھے ہم اس سے بڑی اور کیا کامیابی حاصل کرسکتے ہیں اب ہمیں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے یہ کامیابی اتنی بڑی نہیں ہے جتنی آپ نے کہا ہے ایک صلیبی حکمران بالڈون نے کہا ہم نے حملے کے لیے زمین ہموار کی ہے اصل کام تو حملہ ہے اس کی کامیابی کو ہم بہت بڑی کامیابی کہیں گے فوجیں فوراً جمع کرو اور پیش قدمی کرو اور سلطان ایوبی کو سنبھلنے کا موقعہ نہ دو اگر ہم نے اپنے آپ کو بہت جلدی نہ سنبھالا تو میں بتا نہیں سکتا کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے سلطان ایوبی نے اپنے سالاروں اور دیگر حکام سے کہا آج ہی سے نئی بھرتی شروع کردو سوار زیادہ ہونے چاہئیں سوڈان کے ان جوانوں کو بھی بھرتی کرو جنہیں سات سال ہوئے بغاوت کے جرم میں فوج سے نکال کر قابل کاشت زمینوں پر آباد کیا گیا تھا انہوں نے مصر میں اتنی خوشحالی دیکھی ہے کہ اب دھوکہ نہیں دیں گے ایسے جوان جو گھوڑ سواری اور تیغ زنی کی سوجھ بوجھ رکھتے ہوں انہیں جنگی تربیت دو میں بہت جلدی مصر سے نکل جانا چاہتا ہوں اگر صلیبیوں کا دماغ خراب ہوگیا ہو تو دنیائے عرب ان کی دستبرد سے بچ جائے گی اور اگر ان کا دماغ ٹھکانے ہے تو انہیں میری غیرحاضری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فوراً حملہ کردینا چاہیے وہ اناڑی نہیں میرے لیے یہ حالات انہوں نے کسی مقصد کے تحت پیدا کیے تھے جن سے مجبور ہوکر میں مصر آگیا ہوں وہ ہم سے بیت المقدس کو صرف اسی صورت میں بچا سکتے ہیں کہ مقبوضہ علاقوں سے نکل کر ہمارے علاقوں میں آکر لڑیں اس جنگ کے لیے مجھے بہت سی فوج کی ضرورت ہے
میں اس وقت دوسو پچاس نائٹ (زرہ پوش سردار) میدان میں لاسکتا ہوں تریپولی کی کانفرنس میں ایک مشہور صلیبی حکمران رینالٹ آف حومین نے کہا اس حملے کی قیادت میری فوج کرے گی میں نے اس کا پلان بھی تیار کرلیا ہے اس کی بنیاد یہ ہے کہ ہم صلاح الدین ایوبی کی طرح چوروں والی جنگ نہیں لڑیں گے ہم طوفان اور سیلاب کی مانند پیش قدمی کریں گے ہم سب اپنی فوجوں کو اکٹھا کرکے کوچ کریں گے تو آپ خود محسوس کریں گے کہ انسانوں اور گھوڑوں کا یہ طوفان دنیائے عرب کو خس وخاشاک کی طرح اڑاتا مصر کو بھی روند جائے گا اور اس کا زور سوڈان میں جاکر تھمے گا اگر صلیبی متحد ہوکر آئیں تو عرب کی سرزمین ہم سب سے اتنا خون مانگے گی جس میں ریگزار کے ذرے تیریں گے سلطان ایوبی قاہرہ میں کہہ رہا تھا اب کے ہم سروں سے کفن باندھ کر جائیں گے میرے رفیقو! میری ایک حس مجھے بتا رہی ہے کہ ہمیں پوری تیاری سے اور پوری طرح سنبھل کر میدان میں اترنا پڑے گا ایوبی کو مصر میں الجھائے رکھنے کے لیے ہمیں تخریب کاری تیز کرنی ہوگی ریمانڈ نے کہا اور صلیبیوں کی انٹیلی جنس کے استاد ہرمن سے کہا ہرمن! مصر پر اپنی گرفت اور سخت کردو مجھے توقع یہ ہے کہ ایوبی چین سے بیٹھنے والا آدمی نہیں اس کی فوج کا جانی نقصان بہت ہوچکا ہے وہ فوری طور پر نئی بھرتی کرے گا کوشش کرو کہ اسے بھرتی نہ ملے اگر اس میں کامیابی نہ ہو تو مصر کی فوج کے ذخیرے تباہ کراتے رہو وہاں کی فوج پر نظر رکھو اور وہاں کے جاسوسوں سے کہو کہ صلاح الدین ایوبی کی ایک ایک حرکت کی اطلاع فوراً پہنچاتے رہیں اور ہرمن ایک صلیبی کمانڈر نے کہا مصر کی خبر ملے نہ ملے زیادہ ضروری یہ ہے کہ یہاں کی خبر باہر نہ جانے پائے ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ ایوبی جس طرح میدان جنگ میں ہمارے لیے مصیبت بن جاتا ہے وہ جاسوسی کے میدان میں بھی ہم سے ہوشیار ہے ہمارے درمیان اس کے جاسوس موجود ہیں یہاں کی مسلمان آبادی پر گہری نظر رکھو کسی پر ذرا سا شک ہو اسے قید کردو قتل کردو تمہیں پورے اختیارات دئیے جاتے ہیں
میں کسی کے دل میں نہیں اتر سکتا سلطان ایوبی کہہ رہا تھا ایمان فروشوں کے سروں پر سینگ نہیں ہوتے میں علی بن سفیان اور غیاث بلبیس کو اجازت دیتا ہوں کہ جس پر شک ہو کہ وہ صلیبیوں کا جاسوس ہے اسے قتل کردو اگر اس پر رحم کرنا چاہو تو اسے قید میں ڈال دو میں ان حالات میں جب صلیبی متحد ہوکر آتے نظر آرہے ہیں کسی کو بخش نہیں سکتا میں اب تحقیقات اور عدل انصاف کے طور طریقے بھی بدل دینا چاہتا ہوں اوہ علی بن سفیان اس نے اپنی انٹیلی جنس کے سربراہ سے کہا مجھے یقین ہے کہ تم نے مقبوضہ علاقوں میں اپنا جال بچھا رکھا ہے صلیبیوں کے ہاں اپنے کچھ اور آدمی بھیج دو اور وہاں کے جاسوسوں سے کہو کہ کوئی خبر اور اطلاع زیادہ دیر تک اپنے پاس نہ رکھیں خطرہ مول لیں اور تیر کی رفتار سے قاہرہ خبریں پہنچائیں مجھے اندھا نہ کردینا علی بن سفیان! اور کوشش کرو کہ یہاں سے کوئی خبر باہر نہ جاسکے اگر ہماری افواج کی کمان مشترکہ ہو تو ہم زیادہ بہتر اور مؤثر طریقے سے لڑ سکیں گے ریمانڈ نے کہا میں اتحاد پر زور دوں گا مشترکہ کمان پر نہیں رینالٹ نے کہا مشترکہ کمان کے کچھ نقصانات بھی ہوتے ہیں میدان جنگ میں ہمیں ایک دوسرے سے باخبر رہنا چاہیے اور ایک دوسرے کے راستے میں نہیں آنا چاہیے ہم پیش قدمی کے لیے علاقے تقسیم کرلیں گے احتیاط صرف یہ کی جائے کہ ہماری نقل وحرکت راز میں رہے
دونوں طرف جنگی تیاریوں کا ہنگامہ تھا صلیبی اب کے سلطان ایوبی کو فیصلہ کن شکست دینے کا عزم کیے ہوئے تھے سلطان ایوبی زخم خوردہ تھا آپ تفصیل سے پڑھ چکے ہیں کہ صلیبیوں کی شہ پر تین مسلمان امراء سلطان ایوبی کے خلاف افواج کو فیصلہ کن شکست دے کر ان سے ہتھیار ڈلوائے اور انہوں نے سلطان ایوبی کی اطاعت قبول کرلی تھی مگر اس فتح کو سلطان ایوبی امت رسول اللّٰہﷺ کی بدترین شکست کہتا تھا کیونکہ صلیبیوں کی سازش کامیاب ہوگئی تھی اس خانہ جنگی میں اللہ کے وہ ہزار ہا سپاہی مارے گئے یا عمر بھر کے لیے اپاہج ہوگئے جنہیں فلسطین کو صلیب سے پاک کرنا تھا
اس دوران صلیبیوں نے فوج میں اضافہ کرلیا تھا فوج کو آرام بھی دے لیا تھا اور جنگی تیاریاں مکمل کرلی تھیں ان کا یہ دعویٰ بے بنیاد نہیں تھا کہ وہ طوفان کی طرح آئیں گے اور دنیائے عرب کو خس وخاشاک کی طرح اڑا لے جائیں گے ان کے مقابلے میں سلطان ایوبی کی فوج کے تجربہ کار سپاہی اور کمان دار شہید ہوچکے تھے اور وہ نئی بھرتی کی ضرورت محسوس کررہا تھا رنگروٹوں کو لڑانا بہت بڑا خطرہ تھا مگر اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا اسے مصر میں بھی فوج کی زیادہ نفری رکھنی تھی کیونکہ سوڈان کی طرف سے خطرہ تھا اس کے علاوہ ملک کے اندر تخریب کاری اور غداری بھی زیادہ تھی
صلیبی طوفان کی طرح آنے کے پلان بنا رہے تھے اور سلطان ایوبی اپنے طریقہ جنگ سے ہٹنا نہیں چاہتا تھا اس نے طے کررکھا تھا کہ وہ شب خون مارنے اور ضرب لگاؤ اور بھاگو کے اصول پر لڑے گا اب کے صلیبیوں نے ایسا پلان تیار کرنے کی سوچی تھی جس میں سلطان ایوبی کا کمانڈو آپریشن کامیاب نہ ہوسکے وہ اس کی فوج کو گھیرے میں لے کر آمنے سامنے کی جنگ لڑانے کی ترکیبیں سوچ رہے تھے دونوں طرف یہ کوشش ہورہی تھی کہ اپنی اپنی جنگی تیاریوں منصوبوں اور نقل وحمل کو راز میں رکھیں اور ایک دوسرے کے راز معلوم کریں اس مقصد کے لیے دونوں کے ہاں ایک دوسرے کے جاسوس موجود تھے
صلیبی کمانڈروں وغیرہ کو یہ تو معلوم تھا کہ ان کے درمیان سلطان ایوبی کے جاسوس موجود ہیں لیکن ریمانڈ والئی تریپولی اور دیگر صلیبی حکمرانوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کی کانفرنس میں دو مسلمان جاسوس موجود ہیں پہلے بھی ان کا ذکر آچکا ہے ایک مسلمان راشد چنگیز تھا اور دوسرا فرانسیسی عیسائی وکٹر تھا یہ اعلیٰ قسم کے ملازم تھے جو صلیبی بادشاہوں اور اعلیٰ کمانڈروں کی دعوتوں وغیرہ میں شراب اور کھانے وغیرہ کی سروس کی نگرانی کرتے تھے راشد چنگیز نے اپنا نام عیسائیوں جیسا ظاہر کررکھا تھا ترک ہونے کی وجہ سے اس کا رنگ یورپی باشندوں جیسا تھا وہ بہت ہوشیار اور چرب زبان تھا وکٹر کے متعلق تو کسی کو شبہ ہی نہیں تھا کہ وہ عیسائی ہے وہ فرانس کا رہنے والا تھا لیکن اپنے آپ کو اس نے یونانی عیسائی بتایا تھا
صلیبیوں کی اس کانفرنس میں بھی دونوں اپنی مخصوص وردی پہنے موجود تھے کیونکہ صلیبی شراب کے بغیر کوئی کام نہیں کرتے تھے یہ دونوں شراب پیش کررہے تھے اور ان کی باتیں غور سے سن رہے تھے یہ باتیں بہت ہی قیمتی تھیں جو انہیں قاہرہ پہنچانی تھیں مگر یہ ابھی مکمل نہیں تھیں وہ صلیبیوں کا پورا پلان معلوم کرکے قاہرہ پہنچانے کا ارادہ کیے ہوئے تھے علی بن سفیان کو اپنے ان دونوں جاسوسوں پر مکمل اعتماد تھا حالانکہ وکٹر عیسائی تھا صلیبیوں کو یہی خطرہ محسوس ہورہا تھا کہ صلاح الدین ایوبی کو ان کے پلان اور نقل وحرکت کا علم ہوگیا تو وہ جگہ جگہ گھات لگا کر تھوڑی تھوڑی نفری سے ان کے طوفانی لشکر کو تباہ کردے گا چنانچہ وہاں سلطان کے جاسوسوں کو سراغ لگانے اور انہیں پکڑنے کے بڑے ہی سخت احکام جاری کردئیے گئے مصر میں بھرتی کی مہم شروع ہوگئی دو تین فوجی دستے ترتیب دئیے گئے جو ان علاقوں کے دوروں پر نکل گئے جن سے بھرتی مل سکتی تھی فوجی جاہ وجلال اور جنگی مظاہروں اور کھیل تماشوں کا انتظام کیا گیا مسجدوں کے اماموں کے لیے تیزرفتار قاصدوں کے ذریعے سلطان ایوبی کا یہ پیغام بھیجا گیا کہ وہ لوگوں کو جہاد کی اہمیت بتائیں اور انہیں یہ بتائیں کہ کفار پوری طاقت کے ساتھ عالم اسلام پر حملہ آور ہورہے ہیں اور یہ بھی کہ قبلہ اول کفار کے قبضے میں ہے اس صورت میں ہر مسلمان پر جہاد فرض ہوگیا ہے اماموں سے کہا گیا کہ وہ جوانوں کو مصر کی فوج میں بھرتی ہونے کی تلقین کریں
مذہب اور قوم کے وقار کے جذبے سے جواں سال آدمی بھرتی ہونے لگے ان کے ذہنوں میں مقصد واضح تھا مگر بہت سے جوان مال غنیمت کے لالچ سے بھرتی ہوئے یہ دیہاتی علاقوں کے لوگ تھے ان کے کانوں تک اماموں کی آواز نہیں پہنچی تھی ان تک فوجی افسر پہنچے جنہوں نے سلطان ایوبی کے اس حکم کی تعمیل کی خاطر کمک بھرتی بہت جلدی کرو لوگوں کو جہاد کے وعظ سنانے کے بجائے یہ کہا کہ صلیبیوں کے شہر فتح کیے جائیں گے جہاں اتنی دولت ہے کہ وہ سمیٹ نہیں سکیں گے چنانچہ وہ دلوں میں جہاد کا جذبہ لے کر بھرتی ہونے کے بجائے مال غنیمت کا لالچ لے کر ہنسی خوشی بھرتی ہوئے ان اناڑی اور کم فہم فوجی افسروں نے سلطان ایوبی کی توقع کے خلاف بے شمار جوانوں کو بھرتی کرلیا مگر اسے یہ نہ بتایا کہ انہوں نے مقصد پورا نہیں کیا حکم کی تعمیل کی ہے میدان جنگ میں جاکر یہ سپاہی سلطان ایوبی کے لیے بڑا ہی تکلیف دہ مسئلہ بن گئے
ادھر تریپولی سے کچھ دور صلیبی فوج ایک میدان میں اکٹھی ہونے لگی فلسطین کے دوسرے مقبوضہ شہروں میں ایلچی بھیج دئیے گئے کہ وہ صلیبی فوج کو تیار کریں تریپولی میں سب سے زیادہ سرگرمی حونین کے حکمران رینالٹ کی تھی اس کی فوج خاصی زیادہ تھی جس میں اڑھائی سو نائٹ تھے نائٹ ایک اعزاز تھا جو غیرمعمولی طور پر ذہین دلیر اور قیادت کے ماہر فوجی افسر کو دیا جاتا تھا اسے خاص قسم کی زرہ بکتر دی جاتی سلسلے کی ایک کہانی اسلام کی پاسبانی کب تک کرو گے میں اس صلیبی بادشاہ کا نام اور واقعہ پڑھا ہوگا ١١٧٤ء کے اوائل میں صلیبیوں نے سمندر سے سکندریہ پر حملہ کیا تھا لیکن سلطان ایوبی کو اپنے جاسوسوں کے ذریعے حملے کی خبر قبل از وقت مل گئی اس نے حملے کے استقبال کا ایسا بندوبست کر رکھا تھا کہ صلیبیوں کا بحری بیڑہ بری طرح تباہ ہوا اور یہ بیڑہ فوج کو ساحل پر نہیں اتار سکا تھا
اس حملے کی دوسری کڑی خشکی کے راستے حملہ کرنا تھا جس کی قیادت رینالٹ کررہا تھا چونکہ مسلمان جاسوس صلیبیوں کا پورا پلان لے آئے تھے اس لیے خشکی پر نورالدین زنگی نے اپنی فوج کی گھات لگا رکھی تھی عقب اور پہلوؤں سے بھی حملوں کا انتظام کررکھا تھا رینالٹ اس پھندے میں آگیا اس نے بہت ہاتھ پاؤں مارے گھات سے نکلنے کی کوشش کی مگر ایک رات نورالدین زنگی کے چھاپہ ماروں نے رینالٹ کے ہیڈکوارٹر پر شب خون مارا اور رینالٹ کو پکڑ لیا صلیبیوں کا نہ صرف حملہ ناکام رہا بلکہ انہیں کمرتوڑ شکست ہوئی جانی اور مالی نقصان کے علاوہ سب سے بڑا نقصان تو یہ تھا کہ ان کا رینالٹ جیسا جنگجو بادشاہ قیدی ہوگیا تھا
نورالدین زنگی کے لیے یہ بڑا ہی قیمتی قیدی تھا اس کی رہائی کے لیے وہ صلیبیوں سے بڑی ہی کڑی شرائط منوانا چاہتا تھا مگر زندگی نے وفا نہ کی دو ماہ بعد زنگی فوت ہوگیا اس کے اعلیٰ حکام اور سالاروں نے زنگی کے گیارہ سالہ بیٹے الملک الصالح کو سلطنت کی گدی پر بٹھا دیا کیونکہ اسے وہ اپنا کٹھ پتلی بنا کر من مانی کرنا چاہتے تھے انہوں نے سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف محاذ قائم کرلیا اور اسے شکست دینے کے لیے صلیبیوں کے ساتھ دوستی کرلی اس دوستی کا انہوں نے پہلا معاوضہ یہ دیا کہ رینالٹ جیسے قیمتی قیدی کو غیرمشروط طور پر رہا کردیا اور اس کے ساتھ دوسرے تمام قیدیوں کو بھی رہا کردیا وہیں سے سلطان ایوبی کی مسلسل معرکہ آرائی اپنے پیر استاد اور عزیز دوست نورالدین زنگی کے بیٹے سے شروع ہوگئی دوسرے امراء خلافت سے آزاد ہوگئے اور سب نے سلطان ایوبی کے خلاف متحدہ محاذ قائم کرلیا تھا اس کا اور جو نقصان ہوا سو ہوا ایک نقصان اب سامنے آیا کہ رینالٹ جسے ان غدار مسلمانوں نے خیرسگالی کے طور پر یا صلیبیوں کی دوستی حاصل کرنے کے لیے رہا کردیا تھا وہ ایک جنگی قوت بن کر سلطان ایوبی کے خلاف نہیں بلکہ عالم اسلام کہ تہ تیغ کرنے کے لیے فیصلہ کن حملے کے لیے آرہا تھا
الملک الصالح نے رینالٹ کے ساتھ جو جنگی قیدی رہا کیے تھے وہ بھی اسلام کے لیے بہت بڑا خطرہ بن کر آرہے تھے رینالٹ اپنی شکست اور ذلت کا انتقام بھی لینا چاہتا تھا صلیبیوں کی اس کانفرنس میں اس نے اس تجویز کی مخالفت کی کہ تمام صلیبی افواج مشترکہ کمان کے تحت ہوں اس مخالفت کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ آزاد ہوکر اپنے عزائم کے مطابق جنگ لڑنے کا ارادہ کیے ہوئے تھا صلیبیوں میں یہ کمزوری تھی کہ وہ متحدہ نہیں ہوتے تھے ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے لیکن ہر ایک کے دل میں یہ ہوتا تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ علاقے فتح کرکے ان کا بادشاہ بن جائے متعدد مورخین نے لکھا ہے کہ صلیبیوں کو اس کمزوری نے دنیائے عرب میں نقصان پہنچایا اور وہ اتنی زیادہ اور اتنی برتر جنگی طاقت کے باوجود نمایاں کامیابی حاصل نہ کرسکے مورخین لکھتے ہیں کہ سلطان ایوبی کی صفوں میں غدار نہ ہوتے تو وہ صلیبیوں کو دنیائے عرب سے بے دخل کرکے یورپ کے لیے خطرہ بن جاتا اگر آپ صلاح الدین ایوبی کو شکست دینا چاہتے ہیں تو ہم سب اپنی اپنی فوج کو مشترکہ کمان کے سپرد کردیتے ہیں ریمانڈ آف تریپولی نے کہا ورنہ ہم بکھر کر ناکام بھی ہوسکتے ہیں یہ ضروری نہیں کہ حملے کی قیادت رینالٹ کی فوج کرے یہ فیصلہ مشترکہ کمان کو کرنا چاہیے میں آپ سے الگ نہیں ہوں گا رینالٹ نے کہا لیکن میں کسی مشترکہ کمان کا پابند نہیں رہوں گا مجھے اپنی شکست کا انتقام لینا ہے نورالدین زنگی تو مرچکا ہے میں صلاح الدین ایوبی کو اسی طرح قید میں آپ سب کے سامنے لاؤں گا جس طرح زنگی مجھے قید کرکے دمشق لے گیا تھا ورنہ تاریخ ہمیشہ مجھ پر لعنت بھیجتی رہے گی میں آپ سب سے پوچھتا ہوں کہ جس وقت زنگی نے مجھ پر شب خون مار کر میرے دستوں کو بکھیر دیا اور ان سے ہتھیار ڈلوا لیے تھے اس وقت آپ میں سے کس نے زنگی پر جوابی حملہ کیا تھا؟
کون میری مدد کو پہنچا تھا؟
کوئی نہیں اب مجھے پابند نہ کریں میں نے اسی روز کے لیے فوج کو تیار کیا تھا میرے انتقام کا دن آگیا ہے میری فوج آپ کی کسی بھی فوج کی راہ میں حائل نہیں ہوگی جسے بھی میری مدد کی ضرورت ہوگی اسے خطرہ مول لے کر بھی مدد دوں گا لیکن میں آپ سب سے درخواست کرتا ہوں کہ مجھے پابند نہ کریں
نہیں کریں گے بالڈون نے کہا ہماری آج کی کانفرنس ابتدائی بات چیت تک محدود رہے گی اس میں ہم نے یہ طے کرلیا ہے کہ ہماری زمین دوز کوششوں سے مسلمانوں کی خانہ جنگی نے انہیں کمزور کر دیا ہے اور صلاح الدین ایوبی ادھر آنے کے بجائے مصر چلا گیا ہے لہٰذا ہمیں برق رفتار اور طوفانی قسم کا حملہ کرنا ہے ہم نے آج اس حملے کا فیصلہ کرلیا ہے اب دو چار دن ہم سب فرداً فرداً سوچ لیں ہم میں سے جو بھی غیرحاضر ہیں انہیں بھی بلا لیں اور ایک دن مقرر کرکے حملے کا پلان تیار کرلیں ہماری فوجیں تیار ہیں اس دوران ہرمن اپنے شعبہ جاسوسی کو اتنا زیادہ سرگرم کردے کہ زمین کی تہوں میں سے بھی صلاح الدین ایوبی کے جاسوسوں کو نکال کر قید کردے اور یہاں کے مسلمانوں پر کڑی نظر رکھے ہر مسلمان گھرانے اور ہر مسلمان فرد کی روزمرہ حرکات کو بھی دیکھے ہماری افواج کا اجتماع یہیں شروع ہوگیا جسے چھپایا نہیں جاسکتا یہ انتظام ہرمن کو کرنا ہے کہ کوئی آدمی یا عورت اس جگہ سے باہر جائے تو یہ یقین کرلیا جائے کہ وہ جاسوس نہیں ایسا ہی ہوگا ہرمن نے کہا یہاں سے کوئی پرندہ بھی باہر نہیں جائے گا
پہلے سنایا جاچکا ہے کہ اس کانفرنس میں شراب پلانے والے خادموں (مردوں اور لڑکیوں) کے نگران اور انچارج دو آدمی تھے جو صلیبیوں کی کانفرنسوں اور دعوتوں وغیرہ میں بڑی دلکش وردی میں حاضر رہتے تھے یہ قابل اعتماد آدمی تھے انہیں گہری چھان بین کے بعد ملازم رکھا گیا تھا مگر یہ دونوں سلطان صلاح الدین ایوبی کے جاسوس تھے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس قدر ہوشیار اور ذہین تھے ورنہ ہرمن جیسے استاد جاسوس اور سراغ رساں کی نظروں اور عقل کو دھوکہ دینا ممکن نہیں تھا دونوں خوبرو جوان اور دراز قد تھے وکٹر کو اپنا نام بدلنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ تھا ہی عیسائی راشد چنگیز جو ترک تھا اپنا نام عیسائیوں جیسا رکھے ہوئے تھا یہ دونوں اس کانفرنس میں بھی موجود تھے آدھی رات کے قریب کانفرنس برخاست ہوئی اور وہ دونوں اپنے کمرے میں چلے گئے ہم دونوں میں سے کوئی بھی نوکری سے غیرحاضر نہیں ہوسکتا وکٹر نے کہا یہ خبر کسی اور کے ذریعے قاہرہ بھیجنی پڑے گی ایسا کون ہوسکتا ہے
امام سے بات کریں گے راشد چنگیز نے کہا وہی بہتر جانتا ہے کہ کون سا آدمی بہتر ہے قاہرہ تک تیزرفتاری سے پہنچنے کے لیے کسی خاص آدمی کی ضرورت ہوگی مگر ان کا پورا منصوبہ معلوم ہوجائے تو قاہرہ کو اطلاع دیں گے ادھوری اطلاع پر سلطان ایوبی کوئی غلط چال نہ چل بیٹھے امام کو اتنی سی اطلاع دینا تو ضروری ہے کہ صلیبی بہت بڑے حملے کا فیصلہ کرچکے ہیں وکٹر نے کہا تاکہ سلطان اپنی فوج کو تیار کرسکے اور اپنے نقصانات جلدی جلدی پورے کرلے اور سنو اس نے چنگیز سے کہا جس وقت یہ لوگ حملے کی باتیں کررہے تھے تو میں نے تمہیں دیکھا تھا تم شراب کا پیالہ ریمانڈ کے آگے رکھتے رکھتے رک گئے تھے اور صاف پتہ چلتا تھا کہ تم ان کی باتیں غور سے سن رہے ہو میں نے تمہارا چہرہ دیکھا تھا اس پر مجھے نمایاں چمک نظر آئی تھی میں جانتا ہوں کہ اتنا قیمتی راز مل جانے سے ہیجان اور خوشی کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے لیکن تمہیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہرمن بھی وہیں موجود ہوتا ہے ہرمن علی بن سفیان کے پائے کا جاسوس ہے میں نے تمہیں دیکھ کر فوراً ہرمن کی طرف دیکھا تھا مجھے شک ہوتا ہے جیسے وہ تمہیں دیکھ رہا تھا محتاط رہو میرے بھائی! ہم دشمن کے پیٹ میں زندگی بسر کر رہے ہیں
ہرمن کے لیے ہم اجنبی نہیں راشد چنگیز نے کہا ہمارے متعلق وہ شکوک رفع کرچکا ہے اب ڈرنے کی ضرورت نہیں ڈرنے کی نہیں محتاط ہونے کی ضرورت ہے وکٹر نے کہا تم نے آج وہ ہدایات سن لی ہیں جو ہرمن کو ملی ہیں وہ اب ہر کسی کو شک کی نگاہوں سے دیکھیں گے اور اب تم یوں کرو مسجد میں چلے جاؤ سب سو گئے ہیں امام کو بتا آؤ کہ آج صلیبیوں نے کیا فیصلہ کیا ہے اگر قاہرہ کو کوئی جانے والا ہو تو اس فیصلے کی اطلاع علی بن سفیان کو دے دے اور اگر ادھر سے کوئی آئے تو ہم سے ملے بغیر واپس نہ جائے شہر کی ایک مسجد کا امام سلطان ایوبی کے لیے جاسوسی کرتا تھا یہ مسجد جاسوسی کا خفیہ اڈا بنی ہوئی تھی مسلمان جاسوس مسجد میں جاکر امام کو خبریں پہنچاتے اور اس سے ہدایات لیتے تھے وکٹر کبھی مسجد میں نہیں گیا تھا وہ کہا کرتا تھا کہ اسے نماز نہیں آتی اور مسجد کے آداب سے بھی واقف نہیں اس لیے اسے ڈر تھا کہ مسجد میں کوئی ایسا مسلمان اسے پکڑوا دے گا جو صلیبیوں کا جاسوس ہوگا یہ غلط بھی نہیں تھا صلیبیوں کے مخبروں میں مسلمان بھی تھے جو مسجدوں میں جانے والے نمازیوں پر بھی نظر رکھتے اور ان کی باتیں غور سے سنتے تھے وہ اکثر مسلمانوں کو گرفتار کراتے رہتے تھے راشد چنگیز نے چونکہ اپنے آپ کو عیسائی ظاہر کررکھا تھا اس لیے وہ دن کے دوران مسجد میں نہیں جاتا تھا صلیبی کمانڈروں وغیرہ کی شبینہ دعوتوں سے فارغ ہوکر اگر ضرورت پڑے تو آدھی رات کے بعد امام کے گھر جاتا تھا جو مسجد کے بالکل ساتھ ملا ہوا تھا اس کا ایک دروازہ مسجد کے صحن میں کھلتا تھا
راشد چنگیز نے کپڑے بدلے چغہ اور عمامہ پہنا مصنوعی داڑھی چہرے پر باندھی اور کمرے سے نکل کر اندھیرے میں غائب ہوگیا حکم کے مطابق اسے داڑھی استرے سے صاف کرانی پڑتی تھی اپنے مشن پر جانے کے لیے اس نے ایسی مصنوعی داڑھی بنا رکھی تھی جو فوراً لگائی اور اتاری جاسکتی تھی ان دنوں وہاں رات کو بھی رونق رہتی تھی ریمانڈ کی فوج کے علاوہ رینالٹ بھی اپنے بہت سے افسروں (نائٹوں) کے ساتھ وہاں گیا ہوا تھا اس کے چند ایک دستے بھی تھے یہ فوجی افسر اور دیگر صلیبی کمان دار راتیں عیش وعشرت میں گزارتے تھے پیشہ ور عورتوں کی چہل پہل لگی رہتی تھی اعلیٰ حکام کی بیویاں اور داشتہ عورتیں بھی ان کے ساتھ تھیں وہاں یہ بھی پتہ نہیں چلتا تھا کہ کون سی عورت کس کی بیوی ہے عورتوں کی عارضی اور مستقل خریدوفروخت بھی ہوتی تھی
راشد چنگیز اپنے کمرے سے نکلا تو اسے چھپ کر جانے میں بہت دشواری ہوئی کمروں اور خیموں کے اندر تو طوفان بدتمیزی بپا تھا ہی باہر بھی کہیں کہیں اسے کوئی بدمست جوڑا نظر آجاتا تھا جس سے بچ کر اسے راستہ بدلنا پڑتا آخر وہ خطرے کے علاقے سے نکل گیا اور شہر کی گلیوں میں داخل ہوگیا پھر وہ مسجد کے دروازے تک پہنچ گیا وہ جب ادھر ادھر دیکھ کر مسجد میں داخل ہونے لگا تو اس نے دبے دبے قدموں کی آہٹ سنی جو گلی میں اٹھی اور موڑ پر خاموش ہوگئی راشد چنگیز نے اس پر غورکیا لیکن یہ سمجھ کر اپنے آپ کو تسلی دی کہ کتا ہوگا اور یہ آہٹ وہم بھی ہوسکتی تھی وہ مسجد کے صحن میں گیا اور امام کے دروازے پر مخصوص دستک دی دروازہ کھلا راشد چنگیز اندر چلا گیا اور امام کو ساری رپورٹ دے دی صلیبیوں کی زیادہ تر فوج یہاں جمع ہوگی چنگیز نے کہا یہ رینالٹ کی فوج ہوگی یہاں کی فوج تو پہلے ہی یہاں موجود ہے قاہرہ تک اس فوج کے کوچ اور عزائم کی اطلاع تو پہنچ ہی جائے گی اگر ہم کوشش کریں تو اس فوج کو کوچ سے پہلے کچھ نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں اور اس کے کوچ کو التوا میں ڈال سکتے ہیں
تمہارا مطلب یہ ہے کہ چھاپہ ماروں سے کہا جائے کہ وہ فوج کی رسد کو نذر آتش کردیں امام نے کہا میں یہ کام کراسکتا ہوں لیکن کراؤں گا نہیں تم نے ایسے کئی واقعات سنے ہوں گے کہ جس مقبوضہ شہر میں ہمارے چھاپہ ماروں نے صلیبی فوج کو نقصان پہنچایا وہاں کے مسلمان باشندوں کے لیے زندگی دوزخ سے بدتر بنا دی گئی گھر گھر تلاشی ہوئی ہماری مستورات کی بے عزتی ہوئی ہماری جوان بیٹیوں کو صلیبی پکڑ کر قید اور قتل کا ظالمانہ سلسلہ شروع ہوگیا میں نے اپنے ایک قاصد کے ذریعے سلطان ایوبی تک یہ مسئلہ پہنچایا تھا سلطان محترم نے میری توقع کے بالکل مطابق جواب بھیجا ہے انہوں نے فرمایا ہے کہ مسلمان باشندوں کی عزت جان اور مال کی خاطر کسی شہر میں خفیہ تباہ کاری نہ کی جائے دشمن کی رسد کو اس کی فوج کے ساتھ آنے دیا جائے اسے میرے چھاپہ مار میدان جنگ میں نہیں آنے دیں گے میں آپ کو مکمل اطلاع دو چار دنوں میں دے سکوں گا چنگیز نے کہا اب آپ اور زیادہ محتاط ہوجائیں یہاں کے سراغ رساں غیرمعمولی طور پر سرگرم ہوگئے ہیں وہ اب یہاں کے جانوروں اور پرندوں کو بھی شکی نگاہوں سے دیکھیں گے یہ طے کرکے کہ ایک آدمی کو صبح قاہرہ روانہ کردیں گے چنگیز مسجد سے نکلا وہ چوری چھپے نہیں چل رہا تھا تاکہ کوئی شک نہ کرے وہ گلی کا موڑ مڑا تو اسے پھر کسی کے قدموں کی دبی دبی آہٹ سنائی دی اس نے گھوم کر دیکھا گلی تاریک تھی اسے کچھ بھی نظر نہ آیا اب کے یہ وہم نہیں تھا وہ آگے چل پڑا اپنے ٹھکانے کے قریب جاکر اس نے مصنوعی داڑھی اتار کر کپڑوں میں چھپا لی اس کے کپڑے ایسے تھے جو کوئی شک پیدا نہیں کرتے تھے کیونکہ ایسے کپڑے عیسائی بھی پہنتے تھے
اب وکٹر اور چنگیز کی کوشش یہ تھی کہ یہ معلوم کریں کہ صلیبی فوج کہاں کہاں حملہ کرے گی اور اس کے کوچ کا پروگرام کیا ہے زیادہ سے زیادہ فوج جمع کرنے کے انتظامات شروع ہوگئے تھے قاصدوں کی بھاگ دوڑ بھی شروع ہوگئی تھی یہ دونوں جاسوس اس سرگرمی سے بظاہر لاتعلق ہوکر اس کی ہر ایک تفصیل معلوم کرنے میں مصروف تھے ریمانڈ کی حیثیت میزبان کی تھی کیونکہ یہ اس کا دارالحکومت تھا اس نے ایک رات تمام صلیبی حکمرانوں اعلیٰ کمانڈروں اور دیگر اعلیٰ حکام کی ضیافت کا اہتمام کیا یہ رات وکٹر اور چنگیز کے لیے غیرمعمولی مصروفیت کی رات تھی چونکہ مہمانوں میں بادشاہ بھی تھے اس لیے انہیں شراب وغیرہ پیش کرنے میں زیادہ مستعد رہنا تھا انہیں معلوم تھاکہ مستعدی کی ضرورت اس وقت ہوتی ہے جب مہمان ہوش میں رہتے ہیں شراب میں بدمست ہوکر جب وہ بداخلاقی کے مظاہرے کرنے لگتے ہیں تو ملازموں کا کام آسان ہوجاتا ہے
اس ضیافت میں جتنے مرد تھے، اتنی ہی عورتیں تھیں ان میں نوجوان لڑکیاں بھی تھیں جوان عورتیں بھی اور وہ بھی بڑھاپے کو جوانی کا دھوکہ دے رہی تھیں وکٹر اور چنگیز کھانا اور شراب وغیرہ لانے والے ملازموں کی نگرانی کرتے اور بھاگتے دوڑتے رہے ایک جوان یورپی عورت نے چنگیز سے دو تین بار شراب مانگی چنگیز نے ہر بار کسی ملازم یا ملازمہ کو بلا کر کہا کہ اسے شراب دے اس وقت مہمان ریمانڈ کے محل کے ادھر ادھر بکھرے ہوئے تھے یہ عورت بہت خوبصورت تھی اس نے دیکھا کہ چنگیز ہر ملازم سے کہہ کر شراب منگواتا تو اس نے مسکرا کر کہا میں تمہارے ہاتھ سے تھوڑی سی پینا چاہتی ہوں تم نوکروں کو حکم دے کر ادھر ادھر ہوجاتے ہو میں لا دیتا ہوں چنگیز نے نوکروں کے سے لہجے میں کہا یہاں نہیں عورت نے کہا میں باہر باغ میں جارہی ہوں وہاں لانا چنگیز شراب کی ایک خوش نما صراحی لے کے اس جگہ چلا گیا جہاں وہ عورت جا بیٹھی تھی یہ محل کا باغ تھا وہاں بھی مہمان بکھرے ہوئے تھے ہر ایک کے ساتھ ایک عورت اور ہاتھ میں شراب کا پیالہ تھا صرف یہ عورت اکیلی تھی اور چنگیز ذرا حیران بھی ہوا کہ ایسی جوان اور خوبصورت عورت اکیلی کیوں ہے اس پر تو مہمانوں کو مکھیوں کی طرح بھنبھنانا چاہیے تھا وہ اس کے پیالے میں شراب ڈالنے لگا تو عورت نے پوچھا کہ وہ کہاں کا رہنے والا ہے اس نے یورپ کے کسی گاؤں کا نام لیا اور بتایا کہ وہ لڑکپن سے شاہ ریمانڈ کے شاہی سٹاف میں ہے
تم تھوڑی سی دیر میرے پاس رک سکو گے؟
عورت نے پوچھا اور پیالہ اس کی طرف بڑھا کر کہا لو میرے پیالے میں تم پیو پھر میں پیوں گی اس کی آواز میں التجا اور تشنگی تھی آپ دیکھ رہی ہیں کہ میں نوکر ہوں چنگیز نے کہا آپ شاہی خاندان کی خاتون ہیں میں اس وقت نوکری کے فرائض ادا کر رہا ہوں
اس وقت مجھے اپنا نوکر سمجھو عورت نے اس کی کلائی پکڑ لی اور پیاسی مسکراہٹ سے کہا تم شہزادے ہو یہ تو دل بتایا کرتا ہے کہ کون کیا ہے
آپ اکیلی کیوں ہیں؟
چنگیز نے پوچھا کیونکہ میرے جذبات مجھے اجازت نہیں دیتے کہ جس سے مجھے نفرت ہو اس کے ساتھ ہنسوں کھیلوں اس نے جواب دیا جو مجھے اچھا لگتا ہے اسے اپنے پاس بلالیا ہے تم نے میرے ہاتھ سے پیالہ لیا نہیں کسی نے دیکھ لیا تو مجھے سولی پر کھڑا کر دیا جائے گا چنگیز نے کہا اگر تم نے میرے پیالے سے ایک گھونٹ نہ پیا تو میں تمہیں سولی پر کھڑا کر دوں گی عورت نے کہا وہ مسکرا رہی تھی اس نے اور آگے ہوکر دھیمی آواز میں کہا پاگل تم مجھے اتنے اچھے لگتے ہو کہ دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر تمہیں ادھر بلایا ہے مجھے ٹالنے کی نہ سوچنا میں شراب نہیں پیوں گا چنگیز نے کہا نہ پیو عورت نے کہا مگر میں جب بھی اور جہاں بھی تمہیں بلاؤں تمہیں آنا پڑے گا
راشد چنگیز فہم وفراست کا مالک اور تجربہ کار انسان تھا وہ اس پر ذرہ بھر حیران نہ ہوا کہ ایک اونچے طبقے کی حسین وجمیل عورت اس کی دوستی کی خواہش کا اظہار کر رہی ہے اسے یہ خیال بھی آیا کہ یہ کسی بوڑھے جرنیل کی جوان بیوی ہوگی یا یہ کسی ایسے خاوند کی بیوی ہوگی جو اس وقت کسی اور کی بیوی کے ساتھ مگن ہوگا ایک وجہ تو صاف تھی چنگیز خوبرو آدمی تھا جس کی قدبت میں بڑی کشش تھی یہ پہلا موقعہ نہیں تھا کہ کسی عورت نے اسے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی ہو صلیبی حکمرانوں اور اعلیٰ افسروں کو دعوتوں میں شراب پیش کرنے والی لڑکیاں خاص طور پر حسین اور دلکش تھیں ان میں سے دو چنگیز کے ساتھ تعلقات پیدا کرنے کی کوشش کرچکی تھیں لیکن چنگیز نے اپنے کردار کو ان سے بچائے رکھا تھا سلطان صلاح الدین ایوبی نے اسے جو فرض دے کر بھیجا تھا اس کا تقاضا تھا کہ وہ اپنے کردار کے قلعے کو مسمار نہ ہونے دے علی بن سفیان نے اسے ٹریننگ کے دوران ذہن نشین کرایا تھا کہ ذہن عیاشی کی طرف مائل ہوجائے تو فرائض ذہن سے نکلنا شروع ہوجاتے ہیں اس کے ذہن میں عورت کو ایک ایسے زہر کی مانند بٹھایا گیا تھا جو ایمان کھا جاتا ہے ریمانڈ آف تریپولی کے محل میں اس کی حیثیت ایسی تھی کہ وہ جس ملازم یا ملازمہ کو چاہے نوکری سے نکلوا سکتا تھا اس کی اپنی حیثیت کا اثر تو جادو کا سا تھا وہ یہ بھی جانتا تھا کہ صلیبیوں کا کوئی کردار نہیں ان کی عورتیں بے حیائی اور بداخلاقی کو قابل فخر سمجھتی ہیں ان وجوہات کی بنا پر چنگیز کے لیے یہ عورت اور اس کی یہ بے تکلفی عجوبہ نہیں تھی...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*