⚔️اور نیل بہتا رہا🕍قسط 39👇


🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ* 
✍🏻تحریر:  *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【➒➌】デ۔══━一
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
میں تمھارے لشکر کے ہر سپاہی کو دو دینار، اور سالار کو سو دینار، اور خلیفہ کو ایک ہزار دینار پیش کرتا ہوں، یہ مجھ سے وصول کر لو اور واپس چلے جاؤ، رومی فوج کے قہر اور غضب سے ڈرو۔
تاریخ نویسوں نے مختلف واقعات اور شخصیات پر تبصرے بھی لکھے ہیں اور تجزیے بھی کیے ہیں ، وہ کچھ حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ ایک طرف تو مقوقس مسلمانوں کو اچھا سمجھتا تھا اور صلح کے لیے بے تاب نظر آتا تھا ،لیکن جب کسی مسلمان سے سامنا ہو جاتا تو رعب اور دھمکی کی زبان میں بات کرتا تھا، اسے غالبا یہ توقع تھی کہ مسلمان اگر کسی لالچ میں نہیں آتے تو شاید ڈر کر واپس چلے جائیں۔
تاریخ میں آیا ہے کہ عبادہ بن صامت نے حساب کیا تو یہ تیس ہزار دینار بنتے تھے جو مسلمانوں کو مصر سے چلے جانے کے عوض پیش کیے جا رہے تھے۔
میں کچھ بھی قبول نہیں کرسکتا ہے۔۔۔۔ عبادہ بن صامت نے کہا ۔۔۔۔۔میں اپنے سپہ سالار کا بڑا واضح سا پیغام لے کر آیا ہوں آپ کی دھمکیوں کا مجھ پر کچھ اثر نہیں ہو سکتا ہمارا تعلق براہ راست اپنے اللہ کے ساتھ ہے ہم یہ نہیں دیکھا کرتے کہ ہماری تعداد کتنی تھوڑی اور دشمن کی فوج کتنی زیادہ ہے۔
اللہ نے قرآن میں ہمیں بشارت دی ہے کہ ایسا اکثر ہوا ہے کہ چھوٹی چھوٹی جماعتیں اللہ کے حکم سے بڑی بڑی فوجوں پر غالب آتی ہیں، اللہ صبر و استقلال والوں کے ساتھ ہے,,,,,,,, آپ نے لشکر کی ضروریات کی جو بات کی ہے یہ ہمارے لیے بے معنی ہے، ہم دنیا کی تنگدستی یا خوشحالی کی پرواہ نہیں کیا کرتے کیونکہ ہمارا تعلق براہ راست اللہ کے ساتھ ہے,,,,,,,,,,,,,
ہمارے سپہ سالار نے جو ہمارا امیر بھی ہے آپ کو صاف الفاظ میں بتایا ہے کہ ہماری تین شرطیں ہیں ان میں سے جو چاہو قبول کر لو باقی سب گفت و شنید فضول باتیں ہیں، ان سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا مجھے میرے امیر نے اور میرے امیر کو امیر المومنین نے اور امیر المومنین کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بتایا تھا میں وہ آپ کے آگے رکھ رہا ہوں، اسلام قبول کر لو اور یہاں اسلامی حکومت قائم کر دو تو ہم واپس چلے جائیں گے، یہ نہیں تو جزیہ ادا کرو اور ہم آپ کو اور آپ کے ہر فرد و بشر کو اپنی پناہ اور اپنی حفاظت میں لے لیں گے، اور اگر اسلام بھی قبول نہیں اور جزیہ بھی قبول نہیں تو ہمارے تمہارے درمیان فیصلہ تلوار کرے گی۔
تمام مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مقوقس نے اس گفت و شنید کے بعد عبادہ بن صامت کے آگے کچھ تجویزیں رکھیں لیکن عبادہ بن صامت نے کوئی ایک بھی تجویز نہ مانی انہوں نے کہا کہ انہیں اتنا اختیار حاصل ہی نہیں، نہ سپہ سالار کو نہ ہی امیرالمومنین کو اختیار حاصل ہے کہ اسلام کی شرائط میں ذرا سی بھی لچک پیدا کریں۔
مقوقس اپنے مشیروں اور جرنیلوں سے مخاطب ہوا اور ان سے پوچھا کہ ان کی ان تین شرطوں میں سے کون سی شرط قبول کرتے ہو؟،،،،،، سب نے متفقہ طور پر کہا کہ انہیں نہ اسلام قبول ہے نہ وہ جزیہ دینے کے لئے تیار ہیں۔
عبادہ بن صامت اٹھے اور اپنے وفد کو ساتھ لے کر واپس چل پڑے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس کے بعد تاریخ مقوقس اور اس کے مشیروں کی گفتگو کچھ مختصر سی سناتی ہے وفد کے جانے کے بعد مقوقس نے اپنے مشیروں اور جرنیلوں کے ساتھ باتیں کیں۔
میں اب بھی کہتا ہوں کے مسلمانوں کے ساتھ ہماری صلح ہو جانی چاہیے۔۔۔ مقوقس نے کہا۔۔۔ تم نے دیکھ لیا ہے کہ یہ کسی لالچ میں بھی نہیں آتے اور کسی دھمکی سے بھی نہیں ڈرتے۔
آپ کو ان کی کون سی شرط قبول ہے۔۔۔ مقوقس کے جرنیل جارج نے پوچھا۔
میں اس سوال کا جواب نہیں دوں گا۔۔۔ مقوقس نے کہا ۔۔۔میں اپنی رائے دوں گا اور تم سب اس پر غور کرو آج میں تمہیں صاف صاف بتا دیتا ہوں کہ ان مسلمانوں سے لڑنا تمہارے بس کی بات نہیں تم نے خود دیکھ لیا ہے، لہذا جنگ جاری رکھنے کو ذہن سے نکال دو اسلام قبول نہ کرو لیکن تیسری شرط ماننی پڑے گی۔
فرمانروائے مصر!،،،،، ایک مشیر نے حیرت سے کہا ۔۔۔آپ کا مطلب یہ ہے کہ ہم جزیہ دینا قبول کرلیں اور پھر مسلمانوں کے غلام ہوکر زندگی بسر کریں۔
یہ غلامی اتنی سی ہی ہوگی کہ تم مسلمانوں کی اطاعت قبول کر لو گے۔۔۔ مقوقس نے کہا۔۔۔ تمہیں مسلمان غلام نہیں سمجھیں گے بلکہ تمہیں پورے حقوق اور عزت نفس دیں گے ،اگر تم لڑو گے اور مسلمان تم پر فتح پا لیں گے تو پھر تمہارے ساتھ مسلمانوں کا رویہ بالکل ہی مختلف ہوگا نہ تمہاری جان محفوظ ہوگی نہ تمہارے مال و اموال محفوظ ہونگے، اس صورت میں تم مسلمانوں کے صحیح معنوں میں غلام ہو جاؤ گے۔
اس سے موت بہتر ہے ۔۔۔جنرل تھیوڈور نے کہا۔۔۔ اور اٹھ کھڑا ہوا۔
تھیوڈور اٹھا تو باقی سب بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور پھر سب مقوقس کو اکیلا چھوڑ کر وہاں سے چلے گئے مقوقس نے انہیں روکنے کی کوشش نہ کی وہ سمجھ گیا کہ مسلمانوں کے ساتھ صلح سمجھوتہ کی کوشش میں وہ تنہا رہ گیا ہے، جرنیلوں نے یہ فیصلہ دے دیا تھا کہ اب تلوار ہی فیصلہ کرے گی مقوقس کو ان کا ساتھ دینا پڑا ورنہ بغاوت بھی ہو سکتی تھی، قبطی عیسائی پہلے ہی بغاوت پر آمادہ تھے۔
جرنیلوں نے اپنے ماتحت کمانڈروں کو بلایا اور انہیں کہا کہ جنگ ہوگی اور محاصرے پر حملہ کیا جائے گا جرنیلوں نے یہ بات یہیں تک نہ رہنے دی بلکہ اپنے ماتحت کمانڈروں سے یہ بھی کہا کہ اب وہ اس جنگ کو پہلے والی جنگ نہ سمجھیں کہ جہاں مسلمانوں نے ذرا دباؤ ڈالا تو ہماری فوج بھاگ اٹھی ۔ اب یہ ذہن میں رکھ لو کہ ہمارا اپنا بادشاہ مقوقس ہمیں مسلمانوں کا غلام بنانے کا ارادہ کر چکا ہے وہ مسلمانوں کے ساتھ صلح کرنے کے لئے سودےبازی کر رہا ہے۔
جرنیلوں نے اپنے جونیئر کمانڈروں کو کچھ اور باتیں سنا کر بھڑکا دیا اور کہا کہ اپنے اپنے دستوں کو بتادوں کہ تم جنگی قیدی ہوگئے تو بھیڑ بکریوں کی طرح مسلمانوں کے غلام ہو جاؤ گے، تمھیں انسانیت کے درجے سے گرا کر تمام حقوق سے محروم کر دیا جائے گا اور پھر تم ان کے مویشی ہو گے ،مسلمان یہی سلوک تمہاری بیٹیوں اور بہنوں سے کریں گے۔
جونیئر کمانڈروں نے اپنی فوج کو یہ باتیں اور اپنے فرمانروائے مقوقس کے ارادے سنا کر بھڑکا دیا فوجیوں سے یہ باتیں شہریوں کے کانوں تک پہنچی، انہیں باتیں اس قدر اشتعال انگیز سنائی گئی کہ وہی لوگ جو مسلمان کے نام سے بھی ڈرتے اور اطاعت قبول کر لینے تک کی بات کرتے تھے یکلخت مسلمانوں کے دشمن ہو گئے ،اور انہوں نے اپنی فوج سے کہا کہ وہ فوج کے دوش بدوش لڑیں گے۔
بعض مؤرخوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ جب مسلمانوں کا وفد چلا گیا تھا تو مقوقس نے عمرو بن عاص کو ایک اور پیغام بھیجا تھا کہ اسے کسی فیصلے پر پہنچنے کے لئے ایک مہینے کی مہلت دی جائے، لیکن عمرو بن عاص نے جواب دیا تھا کہ تین دنوں سے زیادہ مہلت نہیں دی جاسکتی ۔
عمرو بن عاص کا یہ شک صحیح ثابت ہو رہا تھا کہ مقوقس وقت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے اور وہ کمک کا انتظار کر رہا ہے۔
اگر رومی فوج کی اس تعداد کو دیکھا جاتا جو قلعہ بابلیون میں موجود تھی تو مقوقس کو کمک کی ضرورت ہی نہیں تھی، لیکن وہ کمک کے لئے اس لیے بے تاب تھا کہ اسکندریہ سے آنے والی کمک تازہ دم ہو گی اسکندریہ میں رومی فوج کے ایسے دستے موجود تھے جو ابھی تک مجاہدین اسلام کے مقابلے میں نہیں آئے تھے، بزنطیہ سے کسی کمک کے آنے کا تو امکان ہی نہیں تھا۔
یہ خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ ہرقل کا بنایا ہوا اسقف اعظم قیرس بابلیون میں موجود تھا وہ بھی اب ہرقل کے مخالفین میں شامل ہو گیا تھا ۔ اس نے بنیامین سے صلح کر لی تھی مسلمانوں کے معاملے میں وہ بڑا سخت متعّصب تھا ،اور کٹر اسلام دشمن، اس نے قلعے کے اندر قبطیوں کو اس قدر بھڑکایا کہ وہ آگ بگولہ ہوگئے۔
اب شہر کی یہ کیفیت تھی جیسے لوگ اچانک بڑی گہری نیند سے جاگ اٹھے ہوں فوج کو تو جنگ کی تیاری کرنی ہی تھی شہری بھی تیروکمان ،تلواریں ،برچھیاں لے کر لڑنے کے لئے تیار ہو رہے تھے، ان تیاریوں کو دیکھ کر لگتا تھا کہ اس قدر بڑا ہجوم سیلاب کی طرح اپنے سامنے آئے ہوئے پہاڑوں کو بھی بہا لے جائے گا ۔ مقوقس اپنے محل میں خاموش بیٹھا تھا کبھی وہ باہر نکل کر لوگوں کو دیکھتا اور کبھی محل کے اوپر جا کر بالکونی میں کھڑا ہوجاتا اور اپنی فوج اور لوگوں کو تیاریوں میں ادھر ادھر بھاگتے دوڑتے دیکھتا۔
فرمانروائے مصر!،،،،، قیرس نے ایک روز مقوقس کے پاس آکر کہا۔۔۔ اب ہم مسلمانوں کا نام و نشان مٹا دیں گے۔
کیا تم محسوس نہیں کررہے قیرس!،،،،، مقوقس نے کہا ۔۔۔کیا یہ افواج اور یہ لوگ میرے خلاف بغاوت نہیں کر رہے؟
نہیں!،،،،، قیرس نے جواب دیا ۔۔۔۔میں جانتا ہوں آپ صلح چاہتے ہیں اور یہ لوگ ایسے بیدار ہوگئے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف جان کی بازی لگا کر لڑنا چاہتے ہیں ان کی تیاریاں آپ کے خلاف نہیں، انہیں شک کی نظروں سے نہ دیکھیں، گرجوں میں دعائیں مانگی جا رہی ہیں، مایوس نہ ہوں فرمانروائے مصر۔
تاریخ میں آیا ہے کہ مقوقس نے کچھ بھی نہ کہا نہ کوئی حوصلہ افزا بات کہی نہ کوئی حوصلہ شکن اشارہ دیا، اس کے ہونٹوں پر لطیف سی مسکراہٹ آ گئی، لیکن اس مسکراہٹ میں مسرت کی ذرا سی بھی جھلک نہیں تھی، البتہ طنز سے ضرور نظر آتی تھی۔ قلعے کے اندر رومی فوجی اپنی کثیر تعداد کے بھروسے اور لوگوں کے تعاون کے بھروسے پر جوش و خروش سے جنگی تیاریاں کر رہے تھے اور ان کا ایک بھروسہ یہ بھی تھا کہ نیل کے جزیرے روضہ سے فوراً فوج پہنچ جائیں گی، اور ان کی تعداد اور زیادہ ہو جائے گی۔
قلعے کے باہر خندق سے ذرا ہٹ کر قلیل تعداد مجاہدین اسلام صرف اللہ کی ذات باری پر بھروسہ کیے بیٹھے تھے، فن حرب و ضرب کے ماہرین کہتے ہیں کہ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ یہ اتنے قلیل تعداد مسلمان چند منٹ بھی کثیر تعداد رومی فوج کے سامنے ٹھہر سکیں گے۔ جبکہ رومی فوج کو شہریوں کی مدد بھی حاصل ہو گئی تھی اور ان کی عورتیں بھی لڑنے کے لئے تیار تھیں۔
مجاہدین اسلام کو اللہ کی اس بشارت کا بھروسہ تھا کہ تم اگر ایمان کے پکے ہو تو تم میں سے دس، سو کفار پر اور تم میں سے سو ایمان والے ایک ہزار کفار پر غالب آئیں گے۔
ایک رات جب قلعے کے باہر کی دنیا محو خواب تھی، رومی فوج دریا کی طرف سے نہایت خاموشی سے قلعے سے نکلی کشتیوں میں بیٹھی اور اس جگہ جا پہنچی جہاں سے وہ مجاہدین اسلام پر حملہ کر سکتی تھی۔
تاریخ میں یہ واضح نہیں کہ رومی فوج دریا والے دروازے سے ہی نکلی تھی یا دوسرے دروازوں میں سے بھی، یہ پتہ چلتا ہے کہ رومی فوج نے رات ہی رات خندق پر پل ڈال دیے تھے جو اس مقصد کے لئے ہر وقت تیار رکھے جاتے تھے۔
رومیوں کی یہ کارروائی اس قدر خفیہ اور خاموش تھی کہ مسلمانوں کو خبر تک نہ ہوئی وہ سنتری بھی بے خبر رہے جو پہرے پر تھے۔
مجاہدین اسلام پر اچانک قیامت ٹوٹ پڑی رومی فوج کا یہ حملہ اچانک اور غیر متوقع تھا اور بڑا ہی تیز اور شدید نظر یہی آتا تھا کہ مجاہدین اسلام کو جاگنے کی بھی مہلت نہیں ملے گی اور رومی انہیں ابدی نیند سلا دینگے۔ لیکن مجاہدین نے زمین وآسمان اور اس تاریک رات کو اور پھر تاریخ کو حیرت میں ڈال دیا کہ حملہ ہوتے ہی وہ اس طرح سنبھل گئے جیسے پہلے ہی تیار بیٹھے تھے، دیکھتے ہی دیکھتے مشعلیں جل اٹھیں اور مجاہدین نے رات کو دن بنا دیا۔
یہ سپہ سالار عمرو بن عاص کا کمال تھا جنہوں نے اپنے سالاروں کو اور تمام لشکر کو کہہ رکھا تھا کہ دشمن کے ملک میں آکر چند لمحوں کے لئے بھی غافل نہیں ہونا، اور سونا بھی اس طرح جیسے ایک آنکھ کھلی ہو، جیسے کسی بھی لمحے حملہ ہو جائے گا۔
مجاہدین اسلام کا تو یہ ایمان تھا کہ انہیں اپنے سالاروں سے جو احکام ملتے ہیں وہ دراصل اللہ کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک کے احکام ہوتے ہیں۔
اور ان احکام کی خلاف ورزی اللہ کے عذاب میں پھینک دیتی ہے۔
حملہ آور رومی فوج کو سب سے پہلا جھٹکا تو یہ پڑا کے مسلمان اس طرح بیدار ہو کر مقابلے میں آگئے تھے جیسے انھیں پہلے پتہ چل گیا ہو کہ حملہ آ رہا ہے پھر رومی فوج کے جرنیلوں نے غلطی یہ کی تھی کہ بہت سے شہری رضاکارانہ طور پر حملے میں شامل ہونا چاہتے تھے انہیں بھی فوج کے ساتھ حملے کے لئے بھیج دیا گیا تھا، وہ تیر اور تلوار اور برچھی چلا سکتے تھے لیکن جنگ کی صورت میں وہ کسی ترتیب میں ہو کر لڑنے کے قابل نہیں تھے ،بلکہ اپنی فوج کے لئے ایک رکاوٹ بن گئے مسلمانوں نے جب بیدار ہوکر قہر اور غضب سے اس یلغار کو روکا تو سب سے پہلے رضاکار شہریوں میں بھگدڑ بپا ہوئی۔
عمرو بن عاص نے اپنے سالاروں کو پہلے ہی ذہن نشین کر رکھا تھا کہ اچانک حملہ ہو جانے کی صورت میں لشکر کو کس ترتیب میں کرکے مقابلہ کرنا ہوگا اس سے یہ ظاہر ہوا کہ مسلمان ایک ترتیب اور تنظیم میں تھے اور ان کے مقابلے میں رومی فوج اور شہری ایک ہجوم کی صورت میں آئے، اور جب مسلمانوں نے قدم جما کر مقابلہ کیا تو رومی بکھرنے لگے۔
رومی سپاہیوں کو پہلا دھچکا تو یہ لگا کہ مسلمان تو جیسے پہلے ہی سے بیدار تھے، اور پھر انہوں نے مشعلیں جلا لی تھی رومی سپاہیوں کے لیے یہ خلاف توقع صورتحال ایک مصیبت بن گئی مجاہدین نے ان کی بوکھلاہٹ سے پورا پورا فائدہ اٹھایا تھوڑی سی دیر میں مجاہدین اسلام نے رومی فوج کو دفاعی جنگ لڑنے پر مجبور کر دیا۔
عمرو بن عاص نے اپنے لشکر کو خاص طور پر یہ ٹریننگ دے رکھی تھی کہ دشمن قلعے سے باہر آکر حملہ کرے تو کس طرح لڑنا ہے ،اور کیا کیا چال چلنی ہے، مختصر یہ کہ دشمن باہر آئے تو ایک دستہ اس کے عقب میں جانے کی کوشش کریں تاکہ قلعے میں داخل ہو جائیں، اور اگر قلعے کے دروازے پہلے ہی بند ہو جائیں تو دشمن کی باہر آئی ہوئی فوج کو گھیرے میں لے کر آخری سپاہی تک ختم کر دیا جائے۔
مجاہدین کو اس قسم کی لڑائی اور عقب میں جانے کی چال کا خاص طور پر تجربہ حاصل ہو چکا تھا، اس سے پہلے وہ چند قلعےے ایسے ہی چال چل کر لے چکے تھے، اب قلعہ بابلیون کے باہر مجاہدین اسلام نے دیکھ لیا کہ رومی فوج خندق پر پل پھینک کر آگے نکل آئی ہے تو مجاہدین نے رومیوں کے پیچھے جاکر پلوں پر قبضہ کرنے کی کوشش شروع کر دی۔
سپہ سالار نے پہلے ہی ایک سالار اور اس کے دستے کو اس کام کے لئے مقرر کردیا تھا کچھ وقت بعد رومیوں نے دیکھا کہ مسلمان ان کے عقب میں آ رہے ہیں اس سے ان کی بوکھلاہٹ اور زیادہ بڑھ گئی انھوں نے خندق پار کر کے قلعے میں واپس جانے کی کوشش شروع کردی، لیکن مجاہدین نے انھیں جانے نہ دیا ۔
خندق کا ایک آدھ پل ہی رہ گیا تھا جو ابھی مسلمانوں کے قبضے میں نہیں آیا تھا وہاں سے کچھ رومی زندہ پیچھے کو نکل گئے۔ خندق سے باہر رہنے والے رومیوں میں سے شاید ہی کوئی زندہ بچا ہو، بعض رومیوں نے خندق میں چھلانگیں لگا دی لیکن تیرانداز مجاہدین نے مشعلوں کی روشنی میں انہیں تیروں کا نشانہ بنا لیا اور اس طرح بہت سی لاشیں خندق میں بھرے پانی میں ڈوبنے اور تیرنے لگی۔
بہت تھوڑے رومی فوجی اور شہری قلعے میں واپس جا سکے، قلعے والوں نے جب دیکھا کہ ان کے فوجی تو پیچھے کو بھاگ رہے ہیں تو مقوقس کے حکم سے قلعے کے تمام دروازے بند کر دیے گئے تاکہ مجاہدین قلعے میں داخل نہ ہوسکے ،مسلمانوں کو روکے رکھنے کے لیے مقوقس نے اپنی بہت سی فوج قربان کر دی۔
مؤرخوں نے اس لڑائی کو گھمسان کی لڑائی اور بڑی ہی خونریز لڑائی لکھا ہے، اور بعض غیر مسلم مؤرخوں نے اسلام کے خلاف تعصب کو الگ رکھ کر یہ بھی لکھا ہے کہ ایک طرف صرف جذبہ اور عزم تھا، اور دوسری طرف تعداد اور ہجوم پر بھروسہ تھا، جہاں ایک کے پاؤں اکھڑے پورا ہجوم اکھڑ گیا لیکن مسلمانوں نے اپنے جذبے کو اور انکے سالاروں نے اپنی عقل کو بہت تحمل سے استعمال کیا۔
اتنی زیادہ گھمسان کی خونریز لڑائی رات ہی رات ختم ہو گئی، صبح ہوئی اور سورج کی کرنیں زمین پر اپنا نور پھیلانے لگی تو جدھر نظر جاتی تھی لاش نظر آتی تھی کوئی زخمی ان لاشوں سے اٹھتا اور ایک دو قدم چل کر پھر گر پڑتا تھا، نیل کا پانی کناروں سے باہر آ گیا تھا ،جھیلوں اور تالابوں کی صورت میں دور دور تک بکھرا ہوا تھا، اور یہ پانی مرنے والوں کے خون سے لال ہو گیا تھا۔ پانی میں بھی لاشیں گریں تھیں۔ خندق کا پانی بھی سرخی مائل ہو گیا تھا اور اس ہیبت ناک منظر سے مسلمانوں کے نعرے اٹھ اٹھ کر گونج رہے تھے۔
بابلیون کے قلعہ بند شہر کے لوگ اور رومی فوج کے بھاگے ہوئے فوجی قلعے کی دیواروں پر کھڑے رات کی لڑائی کا انجام دیکھ رہے تھے ،اوپر سے تو یہ بھیانک منظر اور ہی زیادہ خوفناک اور ہیبت ناک لگتا تھا۔ کہاں ان لوگوں کا یہ عزم کے مسلمانوں کو شکست دینے کے لئے عورتیں بھی لڑیں گی، مگر ہوا یوں کے مرد بھی جم کر نہ لڑ سکے اور کٹ مرے یا جو بچے وہ بھاگ کر شہر میں پناہ گزین ہوئے، اگر شہر کے دروازے بروقت بند نہ کیے جاتے تو دیواروں کے اندر بھی یہی منظر ہوتا کہ رومیوں کی لاشیں بکھری ہوئی ہوتیں۔
مقوقس کو اس کے مخبر نے بتایا کہ شہر کے لوگ اور فوجی دیواروں پر جاکر باہر کا منظر دیکھ رہے ہیں، اور ان کے حوصلے جو پہلے ہی کمزور تھے بالکل ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں ۔
مقوقس نے یہ سنا تو غصے سے باہر نکلا اور حکم دیا کہ کوئی شہری یا فوجی دیوار پر نہ جائے سوائے ان فوجیوں کے جو قلعے کے دفاع کے لئے اوپر موجود رہتے ہیں، یہ حکم ملتے ہی مقوقس کے محافظ دستے کے بہت سے آدمی دوڑے گئے اور دیوار پر جا کر لوگوں کو ہانک کر اور دھکیل کر دیوار سے اتارا اور سارے شہر میں مقوقس کا یہ حکم پہنچایا کہ کوئی آدمی بغیر ڈیوٹی کے دیوار پر نہیں جا سکتا۔
سب دیواروں سے اتر گئے تو مقوقس نے اپنے جرنیلوں اور ایک دو مشیروں کو بلایا قیرس بھی آگیا ان سب کو ساتھ لے کر مقوقس دیوار پر چلا گیا اور باہر کا منظر دیکھا۔
دیکھ رہے ہو اپنی جنگ کا انجام۔۔۔ مقوقس نے کہا ۔۔۔تم نے ان پر سوتے میں حملہ کیا تھا لیکن یہ خون آلود انجام بتاتا ہے جیسے تم سوئے ہوئے تھے اور مسلمانوں نے تم پر حملہ کیا تھا ۔میں جانتا تھا ایسا ہی ہوگا تم اپنے آپ کو فریب دیتے رہے ہو حقیقت کو دیکھو ہماری فوج لڑنے کے قابل نہیں رہی۔ ہاں اگر اسکندریہ سے کمک آجائے تو پھر شاید ہم مسلمانوں کو للکارنے کا خطرہ مول لے سکتے ہیں۔
مقوقس کے ساتھ جو جرنیل اور مشیر تھے وہ خاموشی سے سنتے رہے ان کے پاس کہنے کو کچھ بھی نہ تھا۔
میں اب بھی کہتا ہوں ان سے صلح کر لو۔۔۔ مقوقس نے کہا۔۔۔ لیکن اب ہمیں جزیہ قبول کر کے صلح خریدنی پڑے گی، میں جانتا ہوں تم سب نے لوگوں کو اور فوج کو گرمایا تھا کہ میں انہیں مسلمانوں کا غلام بنانا چاہتا ہوں۔ تمہاری بہتری اسی میں ہے کہ اب جاؤ اور لوگوں سے کہو کہ جزیہ قبول کریں اور مسلمانوں کے ساتھ صلح کرلیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مقوقس کا یہ فیصلہ بلاجواز نہیں تھا اور اس کے جرنیلوں کی خاموشی اور مشیروں کا سر جھکا لینا بھی بے معنیٰ نہیں تھا۔
سب دیوار سے دیکھ رہے تھے کہ باہر ان کی فوج اور شہریوں کی لاشیں ہی نہیں بکھری ہوئی، بلکہ مجاہدین اسلام کا لشکر خندق سے آگے آگیا تھا خندق ہی ایک رکاوٹ تھی جو گزشتہ رات مسلمانوں نے رومیوں کے بچھائے ہوئے پلوں سے عبور کر لی تھیں۔
خندق قلعے کی دیوار سے بہت دور تھی دیوار اور خندق کے درمیان ہرے بھرے کھیت اور پھلوں کے باغات تھے، ان پر اب مجاہدین اسلام کا قبضہ ہوگیا تھا ،مقوقس بھی جانتا تھا اور اس کے جرنیل بھی جانتے تھے کہ مسلمان جب کسی قلعے پر یلغار کرتے دیتے ہیں تو قلعہ لے کر ہی دم لیتے ہیں۔
ان سب نے یہی بہتر سمجھا کہ اپنے لوگوں کو اور فوج کو اس حقیقت سے آگاہ کر دیا جائے کہ مسلمانوں کے ساتھ ان کی شرط پر صلح کر لینے میں ہی اپنی عافیت ہے ۔
لوگوں کو ہم قائل کر لیں گے۔۔۔ قیرس نے مقوقس سے کہا ۔۔۔آپ اس سلسلے میں جو کارروائی کرنا چاہتے ہیں وہ کریں۔
لوگوں اور فوجیوں کو قائل کرنا تو کوئی مسئلہ ہی نہ تھا ،اس وقت اپنے حملے کا انجام دیکھ کر ان کے حوصلے بری طرح ٹوٹ گئے تھے۔ اور سارے شہر پر خوف و ہراس طاری تھا۔ پہلے جو لوگ نہیں مانتے تھے کہ مسلمانوں میں کوئی پراسرار قوت موجود ہے اب وہ بھی مان گئے ۔
گزشتہ رات سے پہلے وہ اپنے آپ کو قلعے کی دیواروں کے اندر محفوظ سمجھتے تھے لیکن اب ان دیواروں سے بھی انہیں خوف آنے لگا تھا۔
مقوقس اپنے جرنیلوں اور مشیروں کو اپنے محل میں لے گیا اور سپہ سالار عمرو بن عاص کے نام ایک پیغام لکھوایا۔
میں امن اور خیرسگالی چاہتا ہوں مجھے ملاقات کا ایک موقع دیں، میرے دو چار رفیق ساتھ ہوں گے، اور آپ اپنے دوچار رفیقوں کو ساتھ رکھیں، اور ہم دونوں مل بیٹھ کر صلح سمجھوتے کا کوئی راستہ نکالیں گے، ہو سکتا ہے ہم کسی بہتر فیصلے پر پہنچ جائیں۔
پیغام ایک قاصد کو دے کر اسی وقت روانہ کردیا گیا۔
عمرو بن عاص اس وقت قلعے کے اردگرد گھوم پھر رہے تھے جب مقوقس کا پیغام ان تک پہنچا ،انہوں نے اپنے تمام سالاروں کو بلایا اور الگ لےجا کر انہیں مقوقس کا پیغام پڑھ کر سنایا ،پھر ان سے پوچھا کہ وہ کیا مشورہ دیتے ہیں۔
صاف انکار کر دیں!،،،،،، سالار زبیر بن العوام نے کہا ۔۔۔آپ کا خیال بالکل صحیح ہے کہ یہ شخص وقت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔
عمرو بن عاص نے دوسرے سالاروں کی طرف دیکھا سب نے زبیر بن عوام کی پرزور تائید کی اور متفقہ طور پر کہا کہ ملاقات نہ کی جائے۔
کیا تم لوگ میری مجبوری نہیں سمجھتے ۔۔۔عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔کیا تم نہیں جانتے کہ امیر المومنین نے مجھے کیا احکام بھیج رکھے ہیں، امیر المومنین کا بڑا ہی واضح حکم ہے کہ مصر کا حاکم ان تین شرطوں میں سے کوئی ایک مان لے تو اس کے ساتھ صلح کرلو، لیکن اپنی شرط پر سو فیصد عمل درآمد کر آؤ۔ اب مقوقس نے ہماری ایک شرط مان لی ہے میں امیر المومنین کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا،،،،،،
اس کے علاوہ یہاں اپنی حالت بھی دیکھ لو کہ ہم کس کیفیت میں مبتلا ہیں ہمارے اردگرد پانی ہے بے شک ہم نے خندق عبور کر لی ہے، لیکن اس قلعے کو سر کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوگا ۔کھیتوں اور باغات میں بھی پانی ہی پانی ہے ہم ابھی کسی دوسرے شہر کی طرف پیش قدمی بھی نہیں کر سکتے ،ہمیں پانی خشک ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا،،،،،،
اب دشمن کی کیفیت کا اندازہ کرو اس کے ساتھ ہی دشمن کا ذہن پڑھنے کی کوشش کرو ،اس وقت رومی فوج کے حوصلے ٹوٹ پھوٹ چکے ہیں ،ہم نے ان کے جو قیدی پکڑے ہیں انہوں نے بتایا ہے کہ فوج کے ساتھ شہر کے لوگ بھی حملے میں شامل تھے، اس سے ہمیں یہ فائدہ ملا ہے کہ شہر کے لوگوں پر بھی ہمارے مجاہدین کی دھاک بیٹھ گئی ہے۔ لیکن یہ لوگ قلعے کی پناہ میں بیٹھے ہیں پیشتر اس کے کہ ان کے حوصلے بحال ہوجائیں ہمیں ان کی یہ شرط قبول کر لینی چاہیے کہ یہ جزیہ ادا کریں گے، اگر یہ لوگ سنبھل گئے تو پھر یہ اس شرط سے بھی پھر جائیں گے۔
تمام سالار اپنے سپہ سالار سے متفق ہوگئے اور مقوقس کے پیغام کا جواب یہ دیا کہ وہ باہر آکر جہاں چاہے ملاقات کرے۔
تاریخ میں یہ واضح نہیں کہ ان کی ملاقات کہاں ہوئی سوائے اس کے کہ مقوقس اور مجاہدین کے سپہ سالار عمرو بن عاص کی ملاقات ہوئی ۔ مقوقس کے ساتھ دو جرنیل اور دو مشیر تھے، اور عمرو بن عاص کے ساتھ تین یا چار سالار تھے۔ عمرو بن عاص نے مقوقس کو کوئی اور بات کرنے کا موقع نہ دیا سوائے اس کے کہ وہ اطاعت قبول کر لے اور جزیہ ادا کرے۔
مقوقس تو یہی سوچ کر آیا تھا اور یہ اس کا فیصلہ تھا کہ مسلمانوں کی اطاعت قبول کی جانی ہے ،اور جزیہ ادا کیا جائے گا۔ چنانچہ جو جزیہ طے پایا وہ دو دینار فی کس تھا ۔ یہ صرف بالغ مردوں کو ادا کرنا تھا نابالغ لڑکوں اور لڑکیوں عورتوں اور بوڑھے مردوں کو جزیہ سے مستثنیٰ رکھا گیا۔
مقوقس حیران رہ گیا کہ اتنا تھوڑا جزیہ مقرر کیا گیا ہے ۔عمرو بن عاص نے مقوقس سے یہ بھی منوا لیا کہ مسلمانوں کی کوئی جماعت جہاں کہیں بھی چاہے گی کچھ دن قیام کر سکے گی اور اگر دو تین مسلمان کسی مجبوری کے تحت کبھی کسی مصری کے گھر ٹھہریں گے تو گھر والے تین دن ان کی میزبانی کریں گے۔
اس معاہدے میں عمرو بن عاص نے مقوقس کے مطالبے کے بغیر ہی یہ بھی شامل کیا کہ مصریوں کی زمین ،مال و اموال ،ان کے گرجے ،اور دیگر عبادت گاہیں، اور خشکی یا دریا میں کوئی بھی ملکیت ہو گی یہ انہی کی رہے گی اور مسلمان ان کی حفاظت کریں گے۔ مصریوں کی تجارت پر کوئی پابندی عائد نہیں ہوگی، مصری تاجر جہاں چاہیں مال لاسکیں گے اور کسی بھی ملک کو اپنا مال بھیج سکیں گے۔
مقوقس نے اس معاہدے پر اپنی مہر ثبت کر دی لیکن اس نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اس معاہدے کی منظوری شاہ ہرقل سے لینی ضروری ہے۔ اس وقت تک دونوں طرف کی فوج جہاں ہیں وہیں رہیں منظوری جلدی آ جائے گی ۔
یہ ملاقات اور معاہدہ مجاہدین اسلام کی بہت بڑی فتح تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مقوقس واپس اپنے قلعہ بابلیون میں گیا تو اپنے ساتھ گئے ہوئے جرنیلوں اور مشیروں سے صلاح مشورہ کیا کہ ہرقل کو کس طرح اطلاع دی جائے، عام طریقہ تو یہ تھا کہ ہرقل کے نام پیغام ایک ایلچی لے جایا کرتا تھا لیکن مقوقس نے کہا کہ یہ مسئلہ اتنا اہم ہے کہ ہرقل نہ جانے کیسے کیسے سوال کرے اور ایلچی جواب نہ دے سکے۔
سب نے بیک زبان اسے مشورہ دیا کہ وہ خود بزنطیہ چلا جائے اور ہرقل کو مطمئن کر دے۔ ہرقل کو مقوقس ہی مطمئن کر سکتا تھا۔
مقوقس نیل کے راستے اسکندریہ کو روانہ ہوگیا اسکندریہ سے اسے بزنطیہ جانا تھا لیکن مؤرخ لکھتے ہیں کہ نہ جانے کیا وجہ ہوئی اور اس نے کیا سوچا کہ مقوقس اسکندریہ رک گیا، اور وہاں صلح کے معاہدے کی پوری تفصیلات لکھ کر اپنے ایک ایلچی کو دی کہ وہ بزنطیہ جائے اور ہرقل کے حوالے کر دے۔ معاہدے کی وہ اصل تحریریں بھی ساتھ بھیج دیں جس پر عمرو بن عاص اور مقوقس نے دستخط کرکے اپنی اپنی مہر لگائی تھیں۔
کچھ دنوں بعد ایلچی بزنطیہ پہنچا ہرقل مصر کی صورتحال معلوم کرنے کے لئے اتنا بے تاب تھا کہ اسے اطلاع ملی کے مصر سے ایلچی پیغام لایا ہے، تو ہرقل خود باہر کو دوڑ پڑا اور پیغام ایلچی کے ہاتھ سے چھین کر اندر لے گیا اور پڑھنے لگا اس نے جب معاہدہ دیکھا تو اسکے تن بدن کو آگ لگ گئی اور جب اس نے معاہدے کی تفصیلات پڑھی تو وہ غصے سے باؤلا ہونے لگا۔
ایلچی کو اندر بلایا۔
کیا تم مجھے کچھ بتا سکتے ہو۔۔۔ ہرقل نے غصے سے کانپتی ہوئی آواز میں پوچھا ۔۔۔کیا یہ معاہدہ صرف بابلیون کے لیے ہے یا اس بدبخت مقوقس نے پورے کا پورا مصر مسلمانوں کی جھولی میں ڈال دیا ہے، اور کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ جزیہ وصول کرکے مسلمان واپس چلے جائیں گے یا مصر کے بادشاہ بن بیٹھیں گے۔
نہیں قیصر روم!،،،،،،، ایلچی نے جواب دیا۔۔۔ مجھے فرمانروائے مصر نے کوئی ایسی بات نہیں بتائی سوائے اس کے کہ یہ پیغام آپ کے حضور پیش کر دوں۔
کہاں ہے وہ؟،،،،، ہرقل نے پوچھا۔۔۔ اور خود ہی جواب دیا بابلیون میں ہوگا۔
نہیں قیصر روم!،،،،، ایلچی نے جواب دیا۔۔۔ اسکندریہ میں آپ کے جواب کا وہیں انتظار کریں گے ۔
ابھی روانہ ہو جاؤ۔۔۔ ہرقل نے حکم دیا ۔۔۔تمہیں بادبانی جہاز تیار ملے گا فوراً اسکندریہ پہنچو اور مقوقس سے کہو کہ اسی جہاز پر آئے اور میرے پاس پہنچے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
نہ جانے کتنے دنوں بعد مقوقس بزنطیہ پہنچا اور ہرقل سے ملا ہرقل نے رسمی طور پر بھی مقوقس کو شاہی احترام نہ دیا ۔
مقوقس آخر اتنے بڑے ملک کا فرمانروا تھا لیکن ہرقل کا رویہ ایسا تھا جیسے مقوقس اس کا غلام ہو۔
ہرقل نے اس سے پہلی بات یہ پوچھی کہ اس معاہدے کے بعد مسلمان مصر سے چلے جائیں گے یا نہیں ؟
ہاں !،،،،، مقوقس نے بھی قدرے بے رخی سے جواب دیا۔۔۔ وہ مصر سے چلے جائیں گے۔
تم مجھے دھوکا دے رہے ہو۔۔۔ ہرقل نے کہا۔۔۔ معاہدے میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کی کوئی بھی جماعت جہاں چاہے گی جاسکے گی، اور جہاں چاہے گی قیام کرے گی، اور دو چار مسلمان کسی مجبوری کے تحت کسی مصری کے گھر رکیں گے تو اس مصری پر ان کی میزبانی فرض ہوگی، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان نہیں جائیں گے۔
اس کے بعد ہرقل نے مقوقس سے اتنے زیادہ سوال پوچھے اور اتنی وضاحت مانگی کے مقوقس پریشان ہو گیا اور ( مورخین کے مطابق) اس نے سوچا کہ ہرقل کو حقیقت سے آگاہ کر ہی دیا جائے۔
قیصر روم !،،،،،،مقوقس نے کہا۔۔۔ آپ ان عربوں کی جوانمردی ،شجاعت اور کٹ مرنے کے عزم سے ناواقف نہیں ، آپ کا ان کے ساتھ مقابلہ ہو چکا ہے اور آپ نے اس کا انجام بھی دیکھا ہے ،کیا آپ مجھ سے اتفاق نہیں کریں گے کہ ان مسلمانوں کو شکست دینا کم از کم ہماری اس فوج کے لیے ممکن نہیں، میرے سامنے سوائے صلح کے اس معاہدے کے کوئی اور راستہ نہیں تھا ، میں نے قلعہ بابلیون کو ان سے بچانے کی کوشش کی ہے۔ اگر مسلمانوں نے بزور شمشیر بابلیوں لے لیا تو پھر سارا مصر ان کے قدموں میں پڑا ہو گا۔
دیکھو مقوقس!،،،،، ہرقل نے کہا۔۔۔ تم پہلے بھی مجھے شام کی شکست اور وہاں سے پسپائی کا طعنہ دے چکے ہو، اب تم مسلمانوں کی اطاعت قبول کرچکے ہو انہیں جزیہ ادا کرنے کا فیصلہ کرچکے ہو اور مصر میں ان کی موجودگی اور حکومت کو بھی برداشت کر رہے ہو ،پھر بھی تم مجھے شام کی شکست کا طعنہ دے رہے ہو؟
مقوقس نے اس کا یہ وہم رفع کرنے کے لیے بہت کچھ کہا کہ وہ اس پر طنز نہیں کر رہا بلکہ ایک حقیقت بیان کر رہا ہے، لیکن ہرقل اس کی کوئی دلیل قبول نہیں کر رہا تھا ۔
کیا تم یہ سمجھتے رہے کہ میں مصر سے اتنی دور ہوں اور مجھے وہاں کے حالات کی کچھ خبر ہی نہیں ۔۔۔ہرقل نے کہا۔۔۔ مجھے پل پل کی خبر ملتی رہی ہے ۔ شام کے حالات کچھ اور تھے اور مصر کے حالات کچھ اور ہیں۔ مصر میں ہماری ایک لاکھ فوج موجود ہے اور اس میں صرف ساڑھے بارہ ہزار فوج ہی لڑی ہے، اگر اس فوج کی قیادت عقلمندی سے کی جائے تو ان مٹھی بھر مسلمانوں کو مصر کے ریگستان میں روندا اور مسلا جا سکتا ہے یا انہیں نیل میں ڈوبو دیا جائے اور نیل بہتا رہے گا,,,,,,,,,,,, مصر میں ہماری فوج بڑے مضبوط قلعوں میں محفوظ ہے، یہ ذرا جتنے مسلمان اس فوج کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے، مجھے یقین ہے مقوقس کوئی ایسا راز ہے جو تم مجھے نہیں بتا رہے؟
مقوقس کو بھی غصہ آ گیا اور اس نے ایک دو جلی کٹی سی کہہ دیں، تم اپنا سب سے بڑا اور شرمناک جرم سن لو،،،،،، ہرقل نے کہا۔۔۔ جنہیں تم نے میرے قتل کے لیے بھیجا تھا وہ میرے ہاتھوں قتل ہوگئے اب تم غداری کے مرتکب ہو رہے ہو ،تم نے بزدلی کا مظاہرہ کیا، اور مصر عربوں کے لئے خالی چھوڑ دیا ہے۔
ہرقل نے جب اس لڑکی کو اور اس کے ساتھ جانے والے دونوں آدمیوں کو جو اسے قتل کرنے گئے تھے جلاد سے قتل کروادیا تھا تو اس نے اپنے مشیروں اور دو جرنیلوں کو بلا کر یہ واقعہ سنایا تھا اور کہا تھا کہ وہ اس سازش کے جواب میں مقوقس کو قتل کروا سکتا ہے، لیکن ایسا نہیں کرے گا ،اور انتقام اس طرح لے گا کہ مقوقس کو رعایا کے سامنے ذلیل و خوار ہونے کے لئے چھوڑ دے گا۔
اب ہرقل کو وہ موقع مل گیا۔ اس نے تو جیسے تہیہ کر لیا تھا کہ مقوقس کی بات اور کوئی دلیل نہیں سنے گا ،وہ جانتا تھا کہ روم کی فوج جو مصر میں ہے وہ نفسیاتی لحاظ سے اور حوصلے کے لحاظ سے لڑنے کے قابل نہیں ،لیکن اس نے مقوقس سے انتقام لینے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
ہرقل نے اسی وقت حاکم شہر اور کوتوال کو بلایا وہ دوڑتے ہوئے پہنچے ۔
ہرقل نے حکم دیا کہ اس کو ہتھکڑیاں اور بیڑیاں ڈال دی جائیں اور اسے بستی یا شہر میں گھما پھرا کر اور پھر ایک جگہ رک کر لوگوں کو اکٹھا کیا جائے، اور اعلان کیا جائے کہ یہ شخص غدار ہے اور اس نے مصر مسلمانوں کے مٹھی بھر لشکر کے حوالے کردیا ہے ،اس کے بعد اسے سلطنت روم سے نکال دیا جائے، اس کی ہتھکڑیاں کھول دی جائیں لیکن بیڑیاں پاؤں میں رہیں، اور اسے اور زیادہ ذلیل و خوار کر کے سلطنت بدر کردیا جائے۔
ہرقل کے حکم کی تعمیل ہوئی مقوقس کو ہرقل کے حکم کے مطابق ذلیل و خوار کر کے سلطنت بدر کردیا گیا,,,,,,,, ہرقل نے انتقام لے لیا۔"
ہرقل نے صلح کا معاہدہ منسوخ کردیا اور اس کی اطلاع سپہ سالار عمرو بن عاص کو بھیج دی گئی جو دسمبر 640 عیسوی میں بھیجی گئی تھی۔
عمرو بن عاص نے قلعہ بابلیون پر یلغار کرنے کا منصوبہ تیار کر لیا جو بظاہر ناممکن تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
کوتوال اور حاکم شہر جب ہرقل کے حکم کی تعمیل کے لیے مقوقس کو ہتھکڑیاں اور بیڑیاں لگانے کے لئے باہر لے گئے تو ہرقل کی ملکہ مرتینا تقریباً دوڑتی ہوئی اس کمرے میں گئی جہاں ہرقل اپنی عدالت یا دربار لگایا کرتا تھا۔ اس نے دیکھا کہ ہرقل نڈھال بیٹھا ہے اور اس کے چہرے کا رنگ زرد تھا ۔چوبدار اور دو محافظ بت بنے چاک و چوبند کھڑے تھے۔ ملکہ کے سر کے اشارے سے وہ بڑی تیزی سے باہر نکل گئے۔
آفرین شہنشاہ ہرقل!،،،،،،،، ملکہ مرتینا نے اپنا ایک بازو ہرقل کے گلے میں ڈال کر اور پھر اس کا ایک رخسار چوم کر کہا۔۔۔ زندہ باد!،،،،، غدار کو یہی سزا ملنی چاہیے تھی ۔ موت تو کوئی سزا ہی نہیں ہوتی۔ انسان دنیا کے جھنجٹ سے آزاد ہو جاتا ہے، یہ شخص مقوقس مصر کا بادشاہ بنا ہوا تھا اب ذلیل و خوار ہوتا پھرے گا، اس کے چہرے پر لکھا نظر آئے گا کہ یہ غدار ہے۔
مرتینا!،،،،،،، ہرقل نے آہ لے کر کہا۔۔۔ اسے اتنی کڑی سزا دے کر مجھے خوشی نہیں ہوئی۔ روم کی سرزمین نے کبھی غدار پیدا نہیں کیا تھا۔
لعنت بھیجو اس پر!،،،،، ملکہ مرتینا نے کہا۔۔۔۔ اس نے آپ کو نہیں سلطنت روم کو دھوکا دیا ہے، دل پر غم اور افسوس کا اتنا بوجھ نہ ڈالیں آپ کا تو رنگ ہی پیلا پڑ گیا ہے، اگر آپ اجازت دیں تو میں ہرقلیوناس کو مصر بھیج دیتی ہوں۔
وہ وہاں جا کر کیا کرے گا ؟،،،،،،ہرقل نے نحیف سی آواز میں کہا ۔۔۔وہاں میرے آزمائے ہوئے جرنیل بھی گھٹنے ٹیک رہے ہیں۔
میں جانتی ہوں آپ کا مطلب کیا ہے ۔۔۔مرتینا نے کہا۔۔۔ وہ لڑ نہیں سکے گا، لڑا بھی تو نہیں سکے گا، لیکن جرنیلوں پر نظر رکھے گا کہ کوئی کھلم کھلا یا درپردہ مسلمانوں کے ساتھ اس طرح صلح سمجھوتہ نہ کرے جس طرح مقوقس نے کیا تھا ۔
میرا بیٹا ہرقلیوناس یہ کام خوش اسلوبی سے کرے گا۔
مجھے جانا چاہیے۔۔۔ ہرقل نے کہا۔۔۔ یا قسطنطین وہاں جائے۔ تم جانتی ہو قسطنطین تجربے کار جرنیل ہے لیکن میری صحت اتنی بگڑی گئی ہے کہ نہ میں جا سکتا ہوں نہ میں قسطنطین کو بھیجنا چاہتا ہوں ،یہاں کے معاملات اور امور قسطنطین ہی چلا رہا ہے ،اور میں چاہتا بھی یہی ہوں کہ میرا یہی بیٹا سلطنت روم کی باگ ڈور سنبھالے ۔
ملکہ مرتینا کے چہرے پر ناگواری اور بیزاری کا تاثر آگیا لیکن وہ کوشش کر کے ہونٹوں پر مسکراہٹ لے آئی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی