👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑🌴⭐قسط نمبر 𝟚 𝟠⭐🌴


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟚  𝟠⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
قید خانے میں اسحاق کو ایک اچھے کمرے میں رکھا گیا تھا اسے نہایت اچھا کھانا باعزت طریقے سے دیا جاتا تھا وہ اچھی طرح سمجھتا تھا کہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کیوں ہو رہاہے عمرودرویش اسے اپنی پوری سکیم بتا کر گیا تھا اسحاق تنہائی میں بیٹھا اسی کے متعلق سوچتا رہتا تھا اسے دو خطرے نظر آرہے تھے ایک یہ کہ عمرودرویش نے قید خانے کی اذیتوں سے تنگ آکر سوڈانیوں کے ہاتھوں میں کھیلنا شروع کردیا ہوگا دوسرا خطرہ یہ کہ عمرودرویش کہیں اپنے ہی منصوبے کی نذر نہ ہوگیا ہو اسحاق اپنے فرار کے متعلق بھی سوچتا رہتا تھا لیکن اسے کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی سوڈانیوں کے لیے وہ قیمتی قیدی تھا جس پر انہوں نے اضافی پہرے لگا رکھے تھے جب سے عمرو درویش اس سے الگ ہوا تھا اسے کسی نے نہیں کہا تھا کہ وہ اپنی قوم کو سوڈان کا وفادار بنائے سوڈانی سالار جو اس کے پیچھے پڑا رہتا تھا اس کے سامنے بھی نہیں آیا تھا
سورج غروب ہو چکا تھا چار گھوڑے سوڈان کے دارالحکومت میں داخل ہوئے اور سیدھے فوج کے مرکز کے سامنے جا رکے عمرودرویش کو معلوم تھا کہ اسے کہاں جانا اور کس سے ملنا ہے اسے ذہنی تخریب کاری کی تربیت یہیں سے ملی تھی اس نے محافظ دستے کے کمانڈر کو اس سوڈانی سالار کا نام بتایا جس نے اسے اس کام کے لیے تیار کیا تھا اسے فوراً سالار کے گھر پہنچا دیا گیا ناکام لوٹے ہو یا کوئی اچھی خبر لائے ہو؟
سوڈانی سالار نے دیکھتے ہی کہا اچھی خبر سنیں عمرودرویش نے آشی کی طرف اشارہ کرکے کہا آپ مجھ پر اعتبار نہ کریں 
آشی تھکن سے چور پلنگ پر گر پڑی وہ مسکرا رہی تھی اس نے عمرو درویش سے کہا انہیں ساری بات خود ہی بتاؤ اور ذرا جلدی کرو ہمارے پاس اتنا وقت نہیں ہماری مہم اتنی جلدی کامیاب ہوئی جس کی مجھے بالکل امید نہیں تھی عمرو درویش نے کہا اور پوری تفصیل سے سنایا کہ اس نے کس طرح پانی کو آگ لگائی اور طور کے جلوے دکھائے ہیں
اور اس کے بولنے کا جو انداز تھا اس نے تو مجھے حیران ہی کر دیا تھا آشی نے عمرو درویش کے متعلق کہا لوگ اس کے شعبدوں سے اتنے متاثر نہیں ہوئے جتنے اس کی زبان سے کیا آپ کو ابھی تک کوئی بتانے نہیں آیا کہ وہاں ہم نے کس حد تک کامیابی حاصل کر لی ہے؟
عمردرویش نے پوچھا
کوئی بھی نہیں آیا سوڈانی سالار نے کہا میں تم دونوں کے متعلق پریشان تھا
عمرودرویش کو یہ سن کر اطمینان ہوا کہ ابھی تک کوئی جاسوس نہیں پہنچا جاسوس جو مسلمانوں کی حراست سے فرار ہو کر آرہا تھا وہ بھی دور تھا اس کی رفتار وہ نہیں تھی جو عمرو درویش کی تھی اس رفتار سے اسے صبح کے وقت پہنچنا تھا عمرودرویش کا دھوکہ اسی جاسوس کی غیر حاضری میں ہی چل سکتا تھا اس کے پہنچتے ہی اصل صورت حال کو بے نقاب ہوتے ہی عمرو درویش کو قید خانے میں بند ہونا تھا
اب مجھے اسحاق کی ضرورت ہے عمرودرویش نے کہا میں آدھے سے زیادہ مسلمانوں کے ذہن صاف کر چکا ہوں میں نے انہیں اس پر آمادہ کر لیا ہے کہ وہ سوڈان کے وفادار ہوجائیں میں نے صلاح الدین ایوبی کے خلاف نفرت اور دشمنی پیدا کر دی ہے میں نے ثابت کر دیا ہے کہ صلا ح الدین ایوبی فرعونوں کا جانشیں ہے اب مسلمانوں کو اپنا کوئی قائد کہہ دے کہ ہمیں سوڈان کا وفادار ہونا چاہیے اس علاقے کی تمام تر آبادی آپ کی ہوگی میں نے وہاں معلوم کر لیا ہے اور میں خود بھی جانتا ہوں کہ یہ قائد اسحاق کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا اسے وہاں کے مسلمان پیر اور پیغمبر مانتے ہیں 
مگر اسحاق سے منوائے کون؟
سوڈانی سالار نے کہا میں اسے اس خطے کی امارت کا لالچ دے چکا ہوں اسے ایسی ایسی اذیتیں دی ہیں جو گھوڑا بھی برداشت نہیں کر سکتا آشی بھی ناکام ہوچکی ہے
اب مجھے کوشش کرنے دیں عمرودرویش نے کہا اسے قید خانے سے نکال کر اسی کمرے میں بھیج دیں جہاں آپ نے اسے ایک بار رکھا تھا اور مجھے بھی رکھا تھا آپ اس کے دشمن ہیں میں اس کا ساتھی ہوں
کیا وہاں آشی کو ایک بار پھر آزماؤ گے ؟
سوڈانی سالار نے پوچھا
نہیں عمرودرویش نے جواب دیا میں اپنی زبان کا جادو آزماؤں گا اسے اگر ابھی اس کمرے میں لے جائیں تو مجھے امید ہے کہ صبح تک میں اسے اپنے جال میں پھانس لوں گا میرے پاس وقت زیادہ نہیں اس علاقے سے میری غیر حاضری لمبی نہیں ہونی چاہیے آپ جانتے ہیں کہ وہاں مصری جاسوس بھی ہیں میں نے وہاں جو جادو چلایا ہے اسے مصری جاسوس میری غیر حاضری میں بیکار کر سکتے ہیں 
سوڈانی سالار نے ان دو چھاپہ ماروں کے متعلق پوچھا جو عمرودرویش کے ساتھ تھے اس نے بتایا کہ یہ اس کے محافظ اور مرید ہیں اور یہ اس کے ساتھ رضاکارانہ طور پر آئے ہیں
وہ ایک عمارت کا خوشنما کمرہ تھا جس میں اسحاق کو لایا گیا سالار خود اسحاق کو قید خانے میں سے لانے کے لیے گیا تھا اس نے اسحاق سے کہا میں تمہارے قومی جذبے اور ایمان کا قائل ہوگیا ہوں تمہارا ایک دوست عمرودرویش تم سے ملنے کا خواہشمند ہے میں چاہتا ہوں کہ تمہاری ملاقات اچھے ماحول میں ہو
مجھے قید خانے سے زیادہ غلیظ اور جہنمی ماحول اور تمہارے محلات سے زیادہ دلفریب ماحول اپنی راہ سے ہٹا نہیں سکتے اسحاق نے کہا مجھے تہہ خانے میں لے چلو یا بالا خانے میں میں اپنا ایمان نہیں بیچوں گا...


مجھے قید خانے سے زیادہ غلیظ اور جہنمی ماحول اور تمہارے محلات سے زیادہ دلفریب ماحول اپنی راہ سے ہٹا نہیں سکتے اسحاق نے کہا مجھے تہہ خانے میں لے چلو یا بالا خانے میں میں اپنا ایمان نہیں بیچوں گا
سوڈانی سالار ہنس پڑا اور اسے اس کمرے میں لے گیا جہاں عمرودرویش اس کے انتظار میں موجود تھا سوڈانی سالار بھی کمرے میں رہا تمہارا چہرہ بتا رہا ہے کہ تم نے ان کافروں کے ہاتھ اپنا ایمان بیچ ڈالا ہے اسحاق نے عمرودرویش سے کہا تمہارے چہرے کی رونق اور آنکھوں کی چمک بتا رہی ہے کہ تم بہت دنوں سے قید خانے سے باہر گھوم رہے ہو مجھ سے کیوں ملنا چاہتے ہو؟
میں تمہارے چہرے پر بھی یہی رونق اور آنکھوں میں یہی چمک دیکھنا چاہتا ہوں جو تم میرے چہرے پر اور آنکھوں میں دیکھ رہے ہو عمرو درویش نے کہا ذرا مجھے مہلت دو ذرا سی دیر کے لیے اپنا دل اور اپنا ذہن مجھے دے دو تحمل اور اطمینان سے میری بات سنو
سوڈانی سالار پاس کھڑا تھا
وہ خطرہ مول نہیں لینا چاہتا تھا اسحاق اس کا نہایت اہم قیدی تھا اور عمرودرویش بھی قیدی ہی تھا یہ عمرودرویش کا دھوکہ بھی ہو سکتا تھا وہ ان دونوں کو ایک ایسے کمرے میں آزاد نہیں چھوڑ سکتا تھا جو قید خانے کا کمرہ نہیں تھا اس نے چار سنتریوں کا انتظام کردیا تھا دو کمرے کے سامنے کھڑے تھے اور دو پچھلے دروازے کے سامنے برچھیوں اور تلواروں کے علاوہ انہیں تیر و کمان بھی دئیے گئے تھے تاکہ فرار کی کوشش کامیاب نہ ہوسکے عمرودرویش چاہتا تھا کہ سالار وہاں سے چلا جائے مگر سالار وہاں سے ہٹتا نظر نہیں آ رہا تھا اس کی موجودگی میں عمرودرویش اسحاق کو بتا نہیں سکتا تھا کہ اس کا منصوبہ کیا ہے
آشی کو سوڈانی سالار نے نہانے دھونے اور آرام کے لیے اسی عمارات کے ایک کمرے میں بھیج دیا تھا وہ سوڈانی سالار کو اس کمرے سے لے جا سکتی تھی مگر اس کے ادھر آنے کا کوئی امکان نہیں تھا سوڈانی سالار الگ ہوکر بیٹھ گیا وہ جاسوس جو صحیح صورت حال بتانے آرہا تھا شہر سے تھوڑی ہی دور رہ گیا تھا وقت تیزی سے گزر رہا تھا عمرودرویش کے دونوں چھاپہ مار اسی عمارت کے ایک برآمدے میں عمرودرویش کے اشارے کا انتظار کر رہے تھے کچھ دیر بعد آشی باہر آئی وہ نہا دھو کر کپڑے بدل کر آئی تھی اس کا حسن نکھر آیا تھا چہرے سے سفر کی تھکن بھی دھل گئی تھی وہ چھاپہ ماروں کے پاس جا رکی 
سالار چلا گیا ؟
آشی نے ان سے پوچھا
نہیں ایک چھاپہ مار نے جواب دیا وہ اندر ہے اسے چلے جانا چاہیے آشی نے کہا اور وہ اس کمرے کی طرف چل پڑی عمرودرویش نے اسے کمرے میں داخل ہوتے دیکھا تو اسے امید کی کرن نظر آئی سوڈانی سالار نے اسے دیکھا تو اس کے ہونٹوں پر وہی مسکراہٹ آ گئی جو اس جیسے مردوں کے ہونٹوں پر آشی جیسی دلکش لڑکی کو دیکھ کر آیا کرتی ہے آشی ٹہلتے ٹہلتے سالار کے پیچھے چلی گئی اس نے عمرودرویش کو گہری نظروں سے دیکھا عمرودرویش کو موقع مل گیا اس نے آشی کو اشارہ کیا کہ سالار کو یہاں سے غائب کرو
اسحاق بھائی! عمرودرویش نے پوچھا کیا ہم سوڈان کے بیٹے نہیں ہیں میں سب سے پہلے اسلام کا بیٹا ہوں اسحاق نے جواب دیا اور میں اب بھی مصری فوج کا کماندار اور سلطان صلاح الدین ایوبی کا وفادار ہوں اگر سوڈان کی زمین میری ماں ہے تو میں اپنی ماں کو اسلام کے دشمنوں کے حوالے نہیں کر سکتا عمرودرویش میں تمہاری طرح اسلام کی عظمت اور اپنی غیرت کو فروخت نہیں کر سکتا آشی نے پیچھے سے سوڈانی سالار کے کندھوں پر دونوں بازو رکھے اور منہ اس کے کان سے لگا کر کہا چند دنوں میں آپ کا دل مرگیا ہے؟
سوڈانی سالار نے گھوم کر دیکھا تو آشی کے گال اور بکھرے ہوئے بال سالار کے گالوں سے ٹکڑا گئے آشی مسکرا رہی تھی اس نے مخمور اور تشنہ لہجے میں کہا میں اتنی خطرناک اور تھکا دینے والی مہم سے واپس آئی ہوں کل پھر انہی جنگلیوں کے پاس چلی جاؤں گی جن کے پاس پینے کو پانی کے سوا کچھ بھی نہیں میں تو شراب کی بو کو بھی ترس گئی ہوں 
اوہ سوڈانی سالار نے چونک کر کہا میں تو اس قصے میں تمہیں بھول ہی گیا تھا میں کسی سے کہہ دیتا ہوں تم اسی کمرے میں چلو
اونہہ! آشی نے کہا اکیلے کیا خاک مزہ آئے گا؟ 
آپ بھی چلیے یہاں کوئی خطرہ نہیں دونوں طرف سنتری کھڑے ہیں کچھ دیر بعد یہیں آ جانا آشی اس فن کی استاد تھی بچپن سے اب تک اسے مردوں کو اپنے جال میں پھانسنے اور انگلیوں پر نچانے کی تربیت دی گئی تھی اس نے یہی فن اپنے آقاؤں اور استادوں کے خلاف آزمانا شروع کر دیا سوڈانی سالار اس کی مسکراہٹ کے فریب میں آگیا اور اس کے ساتھ چل پڑا باہر جا کر اس نے ایک ملازم کو شراب لانے کو کہا اور آشی کے ساتھ کمرے میں چلاگیا آشی نے اسے اپنے بازوؤں کے گھیرے میں لے لیا اور ذرا سی دیر میں بوڑھے سالار پر جوان لڑکی کا طلسم طاری ہوگیا اتنے میں شراب آگئی آشی نے سالار کو جام پہ جام پلانے شروع کردئیے
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
نیت صاف ہو تو خدا بھی مدد کرتاہے عمرودرویش نے اسحاق سے کہا میں نے جو سوچا تھا وہ ہر لحاظ سے اور ہر پہلو سے عملی شکل میں آگیاہے ساری بات شہر سے نکل کر سناؤں گا دو چھاپہ مار ساتھ لایا ہوں دو سنتری ادھر کھڑے ہیں دو ادھر ہمیں صرف اس طرف کے سنتریوں کو ختم کرنا ہے جس طرف سے نکلنا ہے چار گھوڑے تیار کھڑے ہیں چار گھوڑے سنتریوں کے تیار کھڑے ہیں تاکہ فرار کی صورت میں وہ ہمارا تعاقب کر سکیں اپنے ہاں مصر کے کچھ لوگ آئے ہیں ایک آدمی بہت دانشمند معلوم ہوتا ہے اس نے اپنا نام نہیں بتایا قاہرہ میں اطلاع پہنچ گئی ہے کہ یہاں کیا ہوا ہے سالار کو لڑکی لے گئی ہے میں ذرا باہر کا جائزہ لے لوں لڑکی کو بھی ساتھ لے کر جانا ہے
کیوں ؟
اسحاق نے پوچھا اس بدکار کے ساتھ تمہارا کیا تعلق ہے باہر چل کر بتاؤں گا عمرو درویش نے کہا یہ کوئی ایسا ویسا تعلق نہیں لڑکی مسلمان ہے
عمرودرویش باہر نکلا سنتریوں نے اسے سوڈانی سالار کے ساتھ اس کمرے میں آتے دیکھا تھا اس لیے انہوں نے اسے احترام کی نظروں سے دیکھا وہ اپنے چھاپہ ماروں کے پاس گیا اور انہیں بتایا کہ سنتریوں کو سنبھالنے کا وقت آگیا ہے پھر اس نے اس کمرے کا دروازہ آہستہ سے ذرا کھولا سالار کے ہوش شراب میں ڈوب چکے تھے اس نے جھوم کر پوچھا کون ہے؟
میں دیکھتی ہوں آشی نے کہا ہوا سے دروازہ کھل گیا ہے اس نے سالار کو سہارا دے کر پلنگ پر لٹا دیا سالار نے بازو پھیلا کر لڑکھڑاتی آواز میں کہا تم بھی آؤ نشے کو دوگنا کردو آشی باہر نکل آئی اور آواز پیدا کیے بغیر دروازہ باہر سے بند کر دیا عمرودرویش اور آشی نے دونوں چھاپہ ماروں کو ساتھ لیا اور اسحاق والے کمرے کی طرف چلے گئے سوڈانی جاسوس شہر میں داخل ہو چکا تھا اور وہ جاسوسی کے مرکز کی طرف جارہا تھا عمرودرویش نے دونوں سنتریوں سے کہا دونوں اندر چلیں اور قیدی کو قید خانے میں لے جاؤ سالار نے حکم دیا ہے کہ ہاتھ باندھ کر لے جانا دونوں سنتری اکٹھے اندر گئے ان کے پیچھے دروازہ بند ہوگیا دونوں چھاپہ مار بیک وقت ان پر جھپٹے دونوں کی گردنیں ایک ایک چھاپہ مار کے بازو کے شکنجے میں آگئیں چھاپہ ماروں نے خنجر پہلے ہی نکال لیے تھے انہوں نے سنتریوں کے دلوں پر وار کیے اور انہیں ختم کر دیا سوڈانی جاسوس اپنے ٹھکانے پر پہنچ گیا اور نائب سالار کو صحیح رپورٹ دے رہا تھا
عمرودرویش نے اسحاق سے کہا فوراً نکلو باہر چار گھوڑے عمرودرویش کے کھڑے تھے اور چار سنتریوں کے دوسری طرف کے سنتریوں کو معلوم ہی نہ ہوسکا کہ اندر کیا ہورہاہے
یہ سب گھوڑوں پر بیٹھے رات نے فرار پر پرداہ ڈالے رکھا شہر گہری نیند سویا ہوا تھا فرار ہونے والوں نے گھوڑوں کو فوراً ایڑ نہ لگائی آشی بھی ان کے ساتھ تھی سوڈانی جاسوس نے اپنی رپورٹ دی تو نائب سالار اسے سوڈانی سالار کے پاس لے گیا انہیں بتایا گیا کہ وہ کہاں ہے دونوں ادھر آئے تو راستے میں انہوں نے پانچ گھوڑ سوار جاتے دیکھے وہ ایک دوسرے کے قریب سے گزر گئے اندھیرے کی وجہ سے کوئی کسی کو نہ پہچان سکا نائب سالار نے اس برآمدے میں جا کر ادھر ادھر دیکھا جہاں کچھ دیر پہلے دو سنتری کھڑے تھے اس نے کمرے کا دروازہ کھولا تو اسے دونوں سنتریوں کی لاشیں پڑی نظر آئیں خون بہہ بہہ کر ہر طرف پھیل گیا تھا نائب سالار نے اندر جا کر دوسرا دروازہ کھولا ادھر دو سنتری آرام سے کھڑے تھے بھاگ دوڑ شروع ہوگئی ایک کمرے میں سالار پلنگ پر پڑا نشے میں بدمست آشی کو پکار رہا تھا نائب سالار نے اسے بلایا اور اُٹھایا آشی نے اسے بہت ہی زیادہ پلادی تھی اسے جب بتایا گیا کہ دو سنتری کمرے میں مرے پڑے ہیں تو ذرا ہوش میں آیا جب وہ بات سننے اور سمجھنے کی حالت میں آیا اس وقت عمرودرویش اسحاق دو چھاپہ مار اور آشی شہر سے بہت دور نکل گئے تھے تعاقب بیکار تھا 
صبح کے وقت اسے صحیح صورت حال کا علم ہوا اگلی رات آدھی گزر گئی تھی جب عمرودرویش اپنے قافلے کے ساتھ اپنے پہاڑی علاقے میں داخل ہوا علی بن سفیان ان کے انتظار میں بے تاب ہورہا تھا ضروری یہ تھا کہ اسحاق اور عمرودرویش کو فوراً مصر بھیج دیا جائے لیکن ایک ضرورت یہ بھی تھی کہ انہیں اس علاقے میں گھمایا جائے تاکہ جن لوگوں نے سوڈانیوں کی شعبدہ بازیاں دیکھی ہیں انہیں اصل حقیقت معلوم ہوجائے البتہ فوری طور پہ یہ انتظام کر دیا گیا کہ کچھ آدمیوں کو دیکھ بھال کے لیے مقرر کر دیا گیا تاکہ سوڈانی فوج حملہ کرے تو قبل از وقت اطلاع مل جائے دوسری ضرورت یہ تھی کہ مصری فوج کے کچھ اور چھاپہ مار اس علاقے میں بلا لیے جائیں جو سوڈانی فوج کے حملے کی صورت میں عقب سے شب خون ماریں اور فوج کو اس علاقے سے دور رکھیں اس طرح عمرودرویش علی بن سفیان اور اس کے چھاپہ ماروں نے وہ معرکہ جیت لیا جو کمانڈروں بادشاہوں اور قوم کی نظروں سے اوجھل رہ کر لڑا گیا تھا یہ ایک انفرادی جنگ تھی جو ایمان اور قومی جذبے کی قوت سے لڑی گئی تھی سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس درپردہ جنگ پر ہمیشہ توجہ مرکوز رکھی تھی اس کا انٹیلی جنس کا نظام بہت ہوشیار تھا
اس وقت جب سوڈانی مسلمانوں نے یہ معرکہ جیت لیا تھا سلطان ایوبی مسلمان امراء گمشتگین سیف الدین اور الملک الصالح کی متحدہ افواج کو شکست فاش دے کر ان کے تعاقب میں جارہا تھا اس نے چند ایک اہم مقامات اور چھوٹے چھوٹے قلعوں پر قبضہ کر لیا تھا وہ حلب کی طرف بڑھ رہا تھا جو ایک اہم شہر اور الملک الصالح کی فوج کا مرکز تھا سلطان ایوبی اس شہر کو محاصرے میں لے کر محاصرہ اُٹھا چکا تھا وہاں کے مسلمانوں نے اس کا مقابلہ ایسی بے جگری سے کیا تھا کہ سلطان ایوبی عش عش کر اُٹھا تھا محاصرہ اُٹھانے کی وجہ اس سے پہلے سنائی جا چکی ہے
اس کے بعد مسلمان افواج کی آپس جو جنگ ہوئی اس کی تفصیلات بھی سنائی جا چکی ہیں سلطان ایوبی نے تینوں مسلمان فوجوں کو بے تحاشہ نقصان پہنچا کر اس طرح پسپا کیا کہ فوجیں بکھر گئیں سلطان ایوبی نے تعاقب جاری رکھا اس کی زیادہ تر توجہ حلب کی فوج پر تھی کیونکہ یہ بہادری سے لڑنے والی فوج تھی یہ حلب کی سمت پسپا ہو رہی تھی سلطان ایوبی اسے راستے میں ہی تباہ کردینا چاہتا تھا کیونکہ وہ حلب پر قبضہ کرنے کو پیش قدمی کر رہا تھا اس نے تعاقب کا انداز یہ نہ رکھا کہ اپنی فوج کو اس کے پیچھے ڈال دیا بلکہ اس نے اپنے برق رفتار دستے کسی دوسرے راستے سے آگے بھیج دئیے اور کچھ چھاپہ مار دونوں پہلوؤں پر بھیج دئیے حلب کی فوج افراتفری کے عالم میں حلب کو جارہی تھی آگے جا کر اس کے کمانڈروں نے دیکھا کہ سلطان ایوبی کی فوج نے راستہ روک رکھا ہے حلب کی فوج رُک گئی اس کے سپاہیوں میں لڑنے کی ہمت نہیں رہی تھی ان کا سازوسامان بھی کم رہ گیا تھا رسد اور خوراک بھی کم تھی یہ فوج رُکی تو پہلوؤں پر سلطان ایوبی کے چھاپہ ماروں نے شب خون اور چھاپے مارنے شروع کردئیے سلطان ایوبی کے کمانڈروں نے اعلان کرنے شروع کردئیے حلب والو! ہتھیار ڈال دو
سلطان ایوبی محاذ سے پیچھے تھا اسے اطلاعیں مل رہی تھیں کہ حلب کی فوج ہتھیار ڈالنے کی حالت میں آرہی ہے اس نے کہا اگر یہ فوج صلیبیوں کی ہوتی تو میں اس کے ایک بھی سپاہی کو زندہ نہ چھوڑتا مگر یہ میرے اپنے بھائیوں کی فوج ہے یہ لوگ ہتھیار ڈال دیں گے تو میں انہیں بخش دوں گا مجھے خوشی پھر بھی نہیں ہوگی مرنے کے بعد میری روح بھی بے چین رہے گی کہ میرے دور میں مسلمانوں کی تلواریں آپس میں ٹکرائی تھیں اگر ہمارے یہ بھائی اب بھی دوست اور دشمن کی پہچان کر لیں تو اس شرم ناک غلطی کا ازالہ ہو سکتا ہے
دوسرے ہی دن خدا نے سلطان ایوبی کی دعا سن لی اس نے دو گھوڑ سوار اپنی طرف آتے دیکھے ان میں سے ایک نے سفید جھنڈا اُٹھا رکھا تھا ان کے دائیں بائیں سلطان ایوبی کی اپنی فوج کے دو کماندار تھے قریب آکر گھوڑے رُک گئے ایک کماندار نے گھوڑے سے اتر کر سلام کیا اور کہا حلب کے حاکم الملک الصالح نے صلح کا پیغام بھیجا ہے یہ دو ایلچی جنگ بندی اور صلح کا پیغام لائے ہیں
ایک ایلچی نے پیغام سلطان ایوبی کے ہاتھ میں دیا سلطان ایوبی نے پیغام پڑھ کر کہا الملک الصالح سے کہنا صلاح الدین ایوبی نے جنگ سے پہلے صلح کا پیغام بھیجا تھا تو تم نے فرعونوں کی طرح میرے ایلچی کی بے عزتی کرکے میرا پیغام ٹھکرا دیا تھا آج خدائے عزوجل نے مجھے یہ طاقت بخشی اور تجھے یہ ذلت دی کہ میں تمہاری فوج کو اس طرح پیس سکتا ہوں جس طرح دو پتھروں کے درمیان والے پیسے جاتے ہیں لیکن میرے دشمن تم نہیں ہو تم اس باپ کے بیٹے ہو جس نے صلیبیوں کو گھٹنوں بٹھا رکھا تھا اور تم صلیبیوں سے دوستی گانٹھ کر اپنے باپ کی فوج کے خلاف لڑنے آئے تھے
اسے کہنا کہ میں نے تمہیں معاف کیا دعا ہے کہ اللہ بھی تمہیں معاف کردے سلطان ایوبی نے اپنی شرائط پر صلح کی پیش کش منظور کرلی الملک الصالح کو اس شرط پر اپنی فوج حلب کو لے جانے کی اجازت دے دی کہ جب اس کی فوج حلب آئے تو حلب کی فوج کوئی مزاحمت نہ کرے ایک اور دلچسپ واقعہ ہوا الملک الصالح اپنی فوج نکال کر لے گیا سیف الدین بھی پسپا ہوکر موصل چلا گیا تھا اور گمشتگین نے اپنے قلعے حرن میں جانے کی بجائے حلب کا رُخ کیا سلطان ایوبی اپنی فوج کو اور آگے لے گیا اور ایک مقام ترکمان کو عارضی کیمپ بنالیا ایک روز حلب کا ایک قاصد اس کے پاس آیا اور الملک الصالح کا ایک پیغام سلطان ایوبی کو دیا سلطان ایوبی نے پیغام کھول کر پڑھا تو چونک اُٹھا لیکن یہ پیغام اس کے نام نہیں بلکہ سیف الدین کے نام تھا الملک الصالح نے سیف الدین کو لکھا تھا
آپ کا خط مل گیا ہے جس میں آپ نے اس پر خفگی کا اظہار کیا ہے کہ میں نے صلاح الدین ایوبی کے آگے ہتھیار ڈال کر صلح کر لی ہے بے شک میں نے ایسا ہی کیا ہے لیکن میرے لیے اور کوئی راستہ نہ تھا میری فوج اس کی فوج کے گھیرے میں آگئی تھی میرے سپاہی تھکے ہوئے ڈرے ہوئے اور زخمی تھے میرے سالاروں نے مجھے مشورہ دیا کہ صلاح الدین ایوبی کو صلح کا دھوکہ دیا جائے اور اپنی فوج کو اس کے چنگل سے نکالا جائے میں نے یہی بہتر جانا اور صلاح الدین ایوبی کو صلاح کا پیغام دے دیا 
محترم غازی سیف الدین! آپ مطمئن رہیں میں نے وقت حاصل کرنے کے لیے صلح کی ہے ورنہ میرے پاس آج ایک بھی سپاہی نہ ہوتا میں اب حلب میں اپنی فوج کی تنظیم نو کرارہا ہوں نئی بھرتی شروع کرادی ہے میں نے صلاح الدین ایوبی کی یہ شرط تسلیم کر لی ہے کہ اس کی فوج جب حلب میں آئے گی تو ہماری فوج مزاحمت نہیں کرے گی لیکن وہ جب یہاں آئے گا تو اس کی فوج کو ایسی مزاحمت ملے گی جو اس کے تصور میں بھی نہیں آسکتی آپ اپنی فوج کو ازسرنو تیار کرلیں ہمیں صلا ح الدین ایوبی کے خلاف لڑنا اور اس کی طاقت کو ختم کرنا ہے
اس پیغام میں اور بھی بہت کچھ لکھا تھا مؤرخوں نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ الملک الصالح نے سلطان ایوبی کو صلح کا دھوکہ دیا تھا اور اس پر بھی کہ الملک الصالح نے سیف الدین کے خط کے جواب میں جو جواب لکھا غلطی سے سلطان ایوبی کو مل گیا تھا یا یہ قاصد سلطان ایوبی کا جاسوس تھا یورپی مؤرخوں نے لکھا ہے کہ یہ قاصد کی غلطی تھی دو نے لکھا ہے کہ پیغام سربمہر کیا گیا تو باہر غلطی سے سلطان ایوبی کا نام لکھ دیا گیا تھا مسلمان مؤرخوں جن میں سراج الدین خاص طور قابل ذکر ہے لکھتاہے کہ سلطان ایوبی کا نظام جاسوسی ایسا باکمال تھا کہ الملک الصالح کا قاصد اس کا جاسوس تھا وہ الملک الصالح کا اتنا اہم پیغام سلطان ایوبی کے پاس لے آیا قاضی بہاؤالدین شداد اپنی یاداشتوں میں لکھتا ہے کہ اس پیغام نے سلطان ایوبی کو اس قدر پریشان کیا کہ کئی گھٹنے اس نے کسی کے ساتھ بات بھی نہ کی خیمے میں اکیلا پڑا رہا البتہ اسے یہ خوشی ضرور ہوئی کہ اسے دشمن کے عزائم کا علم ہوگیا اس نے حکم دیا کہ الجزیزہ دیار اور بقر سے فوراً لوگوں کو بھرتی کیا جائے اس نے اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف ایک اور خونزیز جنگ کی تیاریاں شروع کردیں...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی