⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟝 𝟠⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ترکمان کا معرکہ ختم ہوچکا تھا یا سلطان صلاح الدین ایوبی کے کم از کم ان نائب سالاروں اور کمانڈروں کی نگاہ میں یہ معرکہ ختم ہوچکا تھا جنہوں نے الملک الصالح سیف الدین اور گمشتگین کی متحدہ افواج کو ان کی توقعات کے خلاف بے ترتیب اور بزدلانہ پسپائی پر مجبور کردیا تھا سلطان ایوبی کے فاتح کمانڈروں کے سامنے دشمن کی لاشیں پڑی تھیں زخمی تڑپ رہے تھے منہ زور گھوڑے اور زخمی گھوڑے اور اونٹ زخمیوں اور لاشوں کو کچل رہے تھے دشمن کے جو سپاہی بھاگ نہیں سکے تھے وہ ہتھیار پھینک کر الگ جمع ہوتے جارہے تھے بے انداز تلواریں ڈھالیں برچھیاں کمانیں تیروں سے بھرے ہوئے ترکش خیمے فوجیوں کا ذاتی سامان جس میں نقدی اور قیمتی اشیاء بھی تھیں دور دور تک بکھری ہوئی تھیں
سلطان صلاح الدین ایوبی اس مقام پر کھڑا تھا جو اس کے دشمن اتحادیوں کے سپریم کمانڈر سیف الدین غازی کا ہیڈکوارٹر اور اس کی رہائش گاہ تھی پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ سیف الدین اپنی افواج کو بکھرتا اور سلطان ایوبی کی فوج کو یقینی فتح کی طرف بڑھتا دیکھ کر کسی کو بتائے بغیر بھاگ گیا تھا اس کا فرار خفیہ تھا اور شرمناک بھی اس کے ساتھ اس کے حرم کی منتخب لڑکیاں تھیں ناچنے گانے والیاں اور ان کے سازندے تھے سونے کے سکوں اور دیگر نقدی کی بوریاں بھری ہوئی تھیں یہ رقم افواج کی تنخواہ تھی اور یہ سلطان ایوبی کے آدمیوں کو خریدنے کے لیے بھی استعمال ہوتی تھی سیف الدین کی یہ رہائش گاہ دلکش کپڑوں کے خیموں قناتوں اور شامیانوں سے بنی تھی یہ کپڑے کی دیواروں اور چھتوں کا محل تھا اس دور کے جنگجو حکمران ایسے محل اور تمام تر آسائشیں اور عشرت کا سامان ساتھ رکھتے تھے سیف الدین بھی انہیں حکمرانوں میں سے تھا اس نے شراب کی صراحیاں رنگا رنگ پیالے اور مٹکے بھی ساتھ رکھے ہوئے تھے
سلطان ایوبی کپڑوں کے اس دلفریب محل کو دیکھ رہا تھا اس کی نظر پلنگ پر پڑی وہاں تلوار پڑی تھی
سیف الدین ایسا بوکھلا کر بھاگا تھا کہ تلوار ساتھ لے جانا بھول گیا تھا سلطان ایوبی نے تلوار اٹھا لی نیام سے نکالی تلوار چمک رہی تھی سلطان ایوبی اس تلوار کو دیکھتا رہا اپنے ساتھ کھڑے دو سالاروں کی طرف دیکھ کر اس نے کہا مسلمان کی تلوار پر جب عورت اور شراب کا سایہ پڑ جاتا ہے تو یہ لوہے کا بے کار ٹکڑا بن جاتی ہے اس تلوار کو فلسطین فتح کرنا تھا مگر صلیب نے اسے اپنے گناہوں میں ڈبو کر اپنی طرح لکڑی کا ڈنڈا بنا ڈالا ہے جو تلوار شراب سے بھیگ جائے وہ لہو کے رنگ سے محروم رہتی ہے
اس سے ملحق ایک وسیع اور خوش نما خیمے میں جوان حسین اور نیم عریاں لڑکیاں ڈری سہمی ہوئی بیٹھی تھیں انہیں اپنا انجام کچھ اور نظر آرہا تھا فاتح فوج کے قبضے میں آکر وہ جانتی تھیں کہ ان کے ساتھ کیا سلوک ہوگا ایسی دلکش لڑکیوں کو دیکھ کر کون درندہ نہیں بن جاتا لیکن انہیں جب سلطان ایوبی کا یہ حکم سنایا گیا کہ وہ آزاد ہیں اور وہ جہاں جانا چاہیں بتا دیں تاکہ وہاں تک انہیں حفاظت اور باعزت بھیجا جاسکے تو وہ اور زیادہ خوف زدہ ہوگئیں انہیں اپنی حفاظت میں لے لیا گیا سلطان ایوبی میدان جنگ میں عورت کے وجود کو برداشت نہیں کیا کرتا تھا ان لڑکیوں سے پوچھا گیا کہ ان کی تعداد کتنی تھی تو انہوں نے بتایا کہ ان میں سے دو لاپتہ ہیں ان کے متعلق یہ بھی بتایا گیا کہ وہ مسلمان نہیں تھی اور وہی دو سیف الدین پر چھائی رہتی تھیں یہی کہا جاسکتا تھا کہ وہ سیف الدین کے ساتھ بھاگ گئی ہیں
اس دور کی جنگوں میں عموماً یوں ہوتا تھا کہ جنگ ختم ہوتے ہی فاتح فوج مال غنیمت پر ٹوٹ پڑتی تھی زیادہ تر فوجی شکست خوردہ فوج کے اعلیٰ کمانڈر کی رہائش گاہ یعنی مرکز پر دھاوا بولتے تھے کیونکہ وہاں خزانہ شراب اور عورتیں ہوتی تھیں ایک طوفانی ہڑ بونگ اور بعض اوقات دنگا فساد برپا ہوجاتا تھا سلطان صلاح الدین ایوبی کے احکام سخت تھے کسی افسر کو بھی اس کا عہدہ کتنا ہی اونچا کیوں نہ ہو اجازت نہیں تھی کہ مال غنیمت کو ہاتھ لگائے مال غنیمت سمیٹنے اور ایک جگہ جمع کرنے کا کام کسی ایک دستے کے سپرد کیا جاتا تھا اس کی تقسیم سلطان ایوبی خود کرتا تھا ترکمان کے معرکے کے بعد سلطان ایوبی نے مال غنیمت کے متعلق کوئی حکم نہ دیا اس نے اپنے اور دشمن کے زخمیوں کو اٹھانے مرہم پٹی کرنے اور جنگی قیدیوں کو الگ کرنے کا حکم دے دیا تھا سلطان ایوبی میدان جنگ میں نظم ونسق اور ڈسپلن کی سختی سے پابندی کراتا تھا اس معرکے میں دشمن بے ترتیبی سے بھاگا تھا سلطان ایوبی کے بعض دستوں نے تعاقب بھی کیا تھا لیکن اس کی ٹریننگ ایسی تھی کہ تعاقب میں بھی دستے اور جیش ترتیب میں اور ایک دوسرے کے ساتھ راستے میں رہتے تھے سلطان ایوبی نے تعاقب رکوا دیا اور دائیں اور بائیں پہلو کو اسی طرح تیار رکھا تھا جس طرح جنگ سے پہلے تھے حملے میں اس نے دوسرے دستے چھاپہ مار اور ریزرو کی کچھ نفری استعمال کی تھی معرکہ ختم ہونے کے بعد بھی اس نے پہلوؤں کے دستوں کو سمیٹا نہیں تھا اس کے علاوہ اس نے اپنے محفوظہ (سٹرائیک فورس) کو فوراً واپس بلا کر اسے اپنی کمان میں لے لیا تھا
دشمن کے سازوسامان اور جانوروں وغیرہ کے متعلق کیا حکم ہے؟
ایک سالار نے سلطان ایوبی سے پوچھا اور کہا لڑائی ہمارے حق میں ختم ہوچکی ہے میں ابھی اس خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہوا سلطان ایوبی نے کہا لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی میرے سبق اتنی جلدی بھول نہ جایا کرو ہم نے دشمن کی مرکزیت اور جمعیت کو بکھیرا ہے کیا ہمارے کسی دستے نے اس کے پہلوؤں پر حملہ کیا تھا؟
نہیں کیا تھا مجھے شک ہے کہ اس کے دونوں نہیں تو ایک پہلو محفوظ ہے وہ آخر تین فوجیں تھیں ان کے سالار ایمان فروش ہوسکتے ہیں ایسے اناڑی نہیں ہوسکتے کہ ان کے جو دستے لڑائی میں شامل نہیں ہوئے انہیں وہ جوابی حملے کے لیے استعمال نہ کریں ہوسکتا ہے ان کا محفوظہ بھی محفوظ اور تیار ہو ان کی مرکزی کمان ختم ہوچکی ہے سلطان محترم سالار نے کہا انہیں حکم دینے والا کوئی نہیں رہا صلیبیوں کا خطرہ بھی ہے سلطان ایوبی نے کہا گو مجھے کسی طرف سے بھی اطلاع نہیں ملی کہ صلیبی فوج کہیں قرب وجوار میں موجود ہے لیکن یہ علاقہ چٹانی ہے یہاں ٹیلے اور وسیع نشیب بھی ہیں بعض جگہوں پر جنگل بھی ہیں اور کچھ حصہ ریگستانی بھی ہے نظر دور تک نہیں دیکھ سکتی دشمن اور سانپ پر کبھی بھروسہ نہیں کرنا چاہیے مرتے مرتے ڈنک مار دیتا ہے مجھے سیف الدین کے سالار مظفرالدین کی کوئی خبر نہیں تم سب جانتے ہو کہ مظفرالدین اتنی آسانی سے بھاگنے والا سالار نہیں میں اس کا انتظار کررہا ہوں اپنی آنکھیں کھلی رکھو دستوں کو یکجا کرلو مظفرالدین اگر میرے سبق بھول نہیں گیا تو وہ مجھ پر ایک جوابی حملہ تو ضرور کرے گا سلطان ایوبی کا خطرہ بے بنیاد نہیں تھا آپ نے قرونِ حماة کی جنگ میں سیف الدین کے ایک سالار مظفرالدین بن زین الدین کا ذکر پڑھا ہے مظفرالدین سلطان ایوبی کی فوج میں سالار رہ چکا تھا اور اس کی مرکزی کمان میں اس کے ساتھ بھی رہا تھا اس لیے اسے اچھی طرح علم تھا کہ سلطان ایوبی جنگی منصوبہ کن عناصر کو سامنے رکھ کر تیار کرتا اور میدان جنگ میں اس میں کس طرح ردوبدل کرتا ہے مظفرالدین کچھ تو ذہنی لحاظ سے پیدائشی جنگجو تھا زیادہ تر تربیت سلطان ایوبی سے حاصل کی اس لیے اس میں وہ جوہر تھے جو اسے میدان جنگ سے منہ نہیں موڑنے دیتے تھے وہ سیف الدین کا قریبی رشتہ دار (غالباً چچا زاد بھائی) تھا جب سلطان ایوبی مصر سے دمشق آیا اور مسلمان امراء اس کے خلاف صف آرا ہوگئے تو مظفرالدین سلطان ایوبی کو بتائے بغیر اس کی فوج سے نکل کر اس کے دشمن کے کیمپ میں چلا گیا تھا ترکمان کے اس معرکے سے پہلے قرونِ حماة کے معرکے میں مظفرالدین نے سلطان ایوبی کے پہلو پر ایسا شدید حملہ کیا تھا جس کا مقابلہ سلطان ایوبی نے پہلو کے دستوں کی قیادت اپنے ہاتھ میں لے کر کیا تھا بہاؤالدین شداد کی تحریر کے مطابق اگر سلطان ایوبی خود قیادت نہ کرتا تو مظفرالدین جنگ کا پانسہ پلٹ دیتا سلطان ایوبی مظفرالدین کو فن حرب و ضرب کا استاد مانتا تھا اب ترکمان میں اسے جاسوسوں نے اس کے متحدہ دشمنوں کی افواج کے متعلق جو معلومات دی تھیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ مظفرالدین بھی ان افواج کے ساتھ ہے یہ معلوم نہیں ہوسکا تھا کہ وہ قلب میں ہے دائیں ہے بائیں ہے یا وہ محفوظہ کا سالار ہے سلطان ایوبی نے چند ایک جنگی قیدیوں سے اس کے متعلق پوچھا تھا انہوں نے یہ تصدیق تو کردی تھی کہ مظفرالدین لشکر کے ساتھ ہے مگر یہ کسی کو علم نہیں تھا کہ کہاں ہے ہوسکتا ہے قیدیوں نے اس پر پردہ ڈال لیا ہو کہ مظفرالدین کہاں ہے سلطان ایوبی نے اپنے سالاروں سے کہا میں تسلیم نہیں کرسکتا کہ وہ لڑے بغیر بھاگ گیا ہوگا وہ میرا شاگرد ہے میں اس کی جنگی اہلیت سے بھی واقف ہوں اور اس کی فطرت سے بھی وہ حملہ کرے گا اگر اسے یقین ہوا کہ وہ شکست کھا جائے گا پھر بھی وہ حملہ کرے گا اسے حملہ کرنا چاہیے ورنہ مجھے مایوسی ہوگی صلاح الدین ایوبی یہ نہ کہے کہ مظفرالدین بھی بھاگ گیا ہے یہ آواز سیف الدین کے سالار مظفرالدین کی تھی جو ترکمان کے میدان جنگ سے دو اڑھائی میل دور سنائی دے رہی تھی میں لڑے بغیر واپس نہیں جاؤں گا اس وقت جب سلطان ایوبی سیف الدین کے رہائشی خیموں میں کھڑا تھا سیف الدین کا کوئی کمانڈر یہ پیغام لے کر مظفرالدین کے پاس پہنچا تھا کہ سلطان ایوبی کو کسی طرح قبل از وقت پتہ چل گیا تھا کہ اس پر حملہ آرہا ہے اس لیے ہم دھوکے میں آگئے اب یہاں لڑنا بے کار ہے بہتر یہ ہے کہ تم بھی واپس چلے جاؤ اور اپنے دستوں کو کسی اور بہتر جگہ لڑانے کے لیے بچا کر لے جاؤ سیف الدین نے اس پیغام میں اپنے متعلق بتایا تھا کہ وہ کسی کو بتائے بغیر میدان جنگ سے جارہا ہے
ہم آپ کا ہر حکم بجا لائیں گے مظفرالدین کے ایک نائب سالار نے اسے کہا لیکن اس حالت میں جبکہ ہماری فوج کے لڑنے والے حصے مارے گئے زخمی یا قیدی ہوگئے یا بھاگ گئے ہیں اس تھوڑی سی فوج سے جوابی حملہ کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا میں ان دستوں کو ناکافی نہیں سمجھتا جو میرے پاس ہیں مظفرالدین نے کہا یہ اس فوج کا ایک چوتھائی ہیں جو ہم ساتھ لائے تھے سلطان ایوبی اس سے بھی کم نفری سے لڑتا اور کامیاب ہوا کرتا ہے میں اس کے پہلو پر حملہ کروں گا میں اب اسے وہ چال نہیں چلنے دوں گا جو اس نے قرونِ حماة میں چلی تھی تم سب حملے کے لیے تیار رہو عالی مقام سیف الدین غازی والئی موصل تین فوجوں کی نفری سے ہار گئے ہیں نائب سالار نے کہا میں اپنے مشورے کو دہراؤں گا کہ اس تھوڑی سی نفری سے حملہ کرنا اسے مروانے والی بات ہے
میدان جنگ میں اپنے حرم اور شراب کے مٹکے ساتھ رکھنے والوں کے پاس تین کے بجائے دس فوجیں ہوں تو بھی ان کا انجام یہی ہوتا ہے جو والئی موصل سیف الدین کا ہوا ہے مظفرالدین نے کہا میں بھی شراب پیتا ہوں لیکن یہاں پانی بھی نہ ملے تو میں پرواہ نہیں کرتا سلطان ایوبی مجھے ایمان فروش اور غدار کہتا ہے لیکن میں اس لیے اس سے لڑنے سے منہ نہیں موڑوں گا کہ وہ مسلمان ہے یہ دو سالاروں کی ٹکر ہوگی یہ دو پہلوانوں کا دنگل ہوگا یہ تیغ زنوں کا مقابلہ ہوگا اپنے دستوں کو تیار کرو اور یاد رکھو صلاح الدین ایوبی کے جاسوسوں کی نظریں زمین کے نیچے بھی دیکھ سکتی ہیں اپنے دستوں کو آج رات اور پرے لے چلو اور ہر طرف دور دور تک اپنے آدمی چھوڑ دو وہ جسے مشکوک حالت میں گھومتا پھرتا دیکھیں اسے پکڑ لیں اس نے ایک جگہ منتخب کرلی تھی جہاں دستوں کو چھپایا جاسکتا تھا حملے کے لیے اس نے کوئی دن اور وقت مقرر نہ کیا اپنے نائب سالاروں سے کہا سلطان ایوبی میں لومڑی کی چالاکی اور خرگوش کی پھرتی ہے مجھے میرے مخبروں نے بتایا ہے کہ اس نے ابھی مال غنیمت سمیٹا نہیں اور اس نے اپنی فوج کے پہلوؤں کو بھی نہیں سمیٹا اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ پیش قدمی نہیں کرے گا اور یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہمارے جوابی حملے کا خطرہ محسوس کررہا ہے میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں وہ کس انداز سے سوچا کرتا ہے میں اسے یہ دھوکہ دوں گا کہ ہم سب بھاگ گئے ہیں اور اب حملے کا خطرہ ٹل گیا ہے یہ عقل اور فہم وفراست کی جنگ ہوگی وہ دو دنوں سے زیادہ انتظار نہیں کرے گا اس کی طرح میں بھی اپنے جاسوسوں کو اس کی نقل وحمل دیکھنے کے لیے استعمال کروں گا جونہی وہ مال غنیمت سمیٹنے لگے گا اور اس کی توجہ دائیں بائیں سے ہٹ جائے گی ہم اس کے پہلو پر حملہ کردیں گے
یہی وہ خطرہ تھا جسے سلطان ایوبی محسوس کررہا تھا سیف الدین کے لشکر پر جس طرح سلطان ایوبی نے بے خبری میں اس کی توقعات اور اس کے خوابوں کے خلاف حملہ کیا تھا اس کی تفصیلات پچھلی نشست میں سنائی جاچکی ہیں آپ نے پڑھا ہے کہ سلطان ایوبی نے ایک تو اپنے دستے سیف الدین کی فوج کے دائیں بائیں سے اس کے عقب میں بھیج دئیے تھے ان کے علاوہ اس نے اپنے چھاپہ مار بھی روانہ کردئیے تھے یہ اس کی کمانڈو فورس تھی جس کے ہر کمانڈر اور سپاہی میں غیرمعمولی ذہانت دلیری اور پھرتی تھی اور یہ تربیت یافتہ جاسوس بھی تھے اس فورس نے چار چار سے لے کر بارہ بارہ کی ٹولیوں میں تقسیم ہوکر دشمن کو بہت نقصان پہنچایا تھا ان میں ایک ٹولی بارہ سپاہیوں کی تھی جس کے صرف تین سپاہی اور ٹولی کا کمانڈر الناصر زندہ تھے
الناصر اپنی ٹولی کے ساتھ ترکمان کے معرکے سے ہی سیف الدین کی متحدہ فوج کے دور پیچھے چلا گیا تھا اس کا نشانہ عموماً دشمن کی رسد ہوتی تھی اب کے بھی وہ اپنی ٹولی کو گھوڑوں پر لے گیا تھا اس کے پاس فیتے والے (آتشیں) تیر تھے تھوڑا سا آتش گیر مادہ تھا برچھیاں تلواریں اور خنجر تھے رسد بہت دور تھی الناصر کو زمین نے یہ سہولتیں مہیا کی تھیں کہ یہ میدان یا ریگزار نہیں بلکہ دور دور تک چٹانیں ٹیلے اور نشیبی علاقے تھے جن میں چھپنا آسان تھا دن کے دوران ہدف کے قریب گھوڑے چھپائے جاسکتے تھے اتحادیوں کی افواج کی رسد جس میں فوج کے لیے اناج اور جانوروں کے لیے خشک گھاس اور دانہ وغیرہ تھا پیچھے آرہا تھا اس سامان میں تیروکمان اور برچھیاں وغیرہ بھی تھیں الناصر نے پہلی ہی رات رسد پر کامیاب چھاپہ مارا تھا بہت سی رسد آتشیں تیروں سے جل گئی تھی
دن کو وہ اپنی ٹولی کے ساتھ ایک جگہ چھپا رہا تھا مگر سویا نہیں تھا اس نے دیکھ لیا تھا کہ دشمن کے فوجی کھڈ نالوں میں اور ٹیلوں کی اوٹ میں اس کی پارٹی کو ڈھونڈ رہے تھے اس نے اپنے سپاہیوں کو ادھر ادھر موزوں بلندیوں پر بٹھا دیا تھا انہوں نے کمانوں میں تیر ڈال رکھے تھے دشمن کے فوجی دور سے ہی واپس چلے گئے تھے سورج غروب ہونے کے بعد اس نے چھپ کر رسد کا قافلہ دیکھا قافلے نے پڑاؤ ڈال دیا تھا مگر اس رات شب خون آسان نظر نہیں آتا تھا دشمن نے اردگرد گشتی پہرے کا بڑا سخت انتظام کردیا تھا یہ پہرہ پیدل بھی تھا اور گھوڑ سوار بھی اس کے باوجود الناصر نے شب خون کا ارادہ کرلیا دشمن کی ابھی بہت سی رسد باقی تھی یہ سلطان ایوبی کا ایک تباہ کن طریقہ کار تھا دشمن کی رسد کو چھاپہ ماروں سے تباہ کرا دیا کرتا تھا اس کے لیے اس نے ایسے فوجی تیار کررکھے تھے جو جذبے کے لحاظ سے جنونی اور خبطی تھے ان کی دلیری غیر معمولی اور ذہانت اوسط درجہ سپاہیوں سے خاصی زیادہ تھی ان جانبازوں کی دیانت داری کا یہ عالم تھا کہ اتنی دور جاکر بھی جہاں انہیں دیکھنے والا کوئی نہیں ہوتا تھا وہ فرض شناسی کا جانبازانہ مظاہرہ کرتے تھے
الناصر نے رات کو گھوڑے وہیں بندھے رہنے دئیے جہاں دن کو چھپائے تھے اپنی پارٹی کو پیدل لے گیا ایک جگہ سے وہ دشمن کی رسد کے پڑاؤ میں داخل ہوگیا اس نے سامان کے انباروں پر آتش گیر مادہ چھڑک کر آگ لگا دی اپنی ٹولی کو بکھیر دیا سپاہیوں نے شعلوں کی روشنی میں بھاگتے دوڑتے سپاہیوں کو تیروں کا نشانہ بنانا شروع کردیا دشمن کے فوجی انہیں تلاش کرنے لگے چھاپہ مار کب تک چھپ سکتے تھے ایک ایک کرکے پکڑے اور مارے گئے ان میں سے وہی تین زندہ رہے جو الناصر کے ساتھ تھے انہوں نے بہت تباہی مچائی تھی رسد کے ساتھ جو پہرہ دار اور دیگر لوگ تھے انہوں نے ان سب کو گھیرے میں لینے کی کوشش کی الناصر نے اپنے تین ساتھیوں کو الگ نہ ہونے دیا وہ شعلوں سے دور ہٹ کر اندھیرے میں گھوڑا گاڑیوں اور خیموں کی اوٹ میں چھپتے اپنے قریب سے گزرتے سپاہیوں سے بچتے کسی اور ہی سمت کو نکل گئے الناصر نے آسمان کی طرف دیکھا اسے کوئی ستارہ نظر نہ آیا چھاپہ ماروں کو ستاروں سے سمت معلوم کرنے کی ٹریننگ دی جاتی تھی مگر اس رات آسمان گردوغبار کی طرح کے بادلوں میں چھپا ہوا تھا الناصر رسد کے پڑاؤ سے دور نکل گیا اسے دشمن کی جلتی ہوئی رسد اور سازوسامان کے شعلوں کی سرخی دکھائی دے رہی تھی اسے معلوم نہیں تھا کہ اس کے باقی نو سپاہی زندہ ہیں یا شہید ہوچکے ہیں اس نے دل ہی دل میں ان کی سلامتی کے لیے دعا کی اور اپنے تین ساتھیوں کو ساتھ لیے اندازے کے مطابق اس طرف چل پڑا جہاں اس کی ٹولی کے گھوڑے بندھے ہوئے تھے
وہ رات بھر چلتا رہا دشمن کی رسد کے شعلے نظروں سے اوجھل ہوگئے فضا میں شعلوں کی جو سرخی نظر آتی تھی وہ بھی غائب ہوگئی اگر یہ سرخی نظر آتی رہتی تو وہ اپنے ٹھکانے تک پہنچ سکتا تھا یہ بھی نہ رہی اور وہ اندھا دھند چلتا گیا زمین کے خدوخال بدل گئے تھے درخت تو کوئی تھا نہیں اس نے پاؤں تلے سخت زمین کے بجائے ریت محسوس کی ٹیلے اور چٹانیں بھی نہیں تھیں ریت نے اس کے اور اس کے ساتھیوں کے پاؤں وزنی کردئیے پانی اور کھانے کی اشیاء گھوڑوں کے ساتھ تھیلوں میں بندھی تھیں اور گھوڑے نہ جانے کہاں تھے اس نے پیاس محسوس کی وہ بہت تھک گیا تھا اس کے تینوں ساتھی بھی پیاس کی شکایت کرچکے تھے ان سب کی رفتار بھی ختم ہوتی جارہی تھی الناصر نے وہیں رک جانا اور آرام کرلینا مناسب سمجھا اس کے ساتھیوں نے اس امید پر چلتے رہنے کا مشورہ دیا کہ کہیں پانی مل جائے گا اس خطے میں پانی کی قلت تو نہیں تھی لیکن وہ اس خطے کے اس حصے میں جانکلے تھے جو ریگزار تھا وہاں پانی کا نام ونشان نہ تھا وہ کچھ دیر اور چلے اور تھک ہار کر بیٹھ گئے الناصر کی آنکھ کھلی تو اس کے تینوں سپاہی بے ہوشی کی نیند سوئے ہوئے تھے سورج افق سے اٹھ آیا تھا الناصر نے چاروں طرف دیکھا وہ ریت کے سمندر میں کھڑا تھا اس کا دل ڈوبنے لگا وہ تو صحراؤں میں جناپلا اور صحراؤں میں اس نے لڑائیاں لڑی تھیں وہ ریگزار سے ڈرنے والا نہیں تھا اس کی گھبراہٹ کی وجہ یہ تھی کہ اسے توقع نہیں تھی کہ یہاں ریگستان ہوگا گھبراہٹ کی وجہ یہ بھی تھی کہ افق تک پانی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے تھے پیاس سے وہ حلق میں جلن اور چبھن محسوس کررہا تھا اپنے ساتھیوں کی حالت کا وہ اندازہ کرسکتا تھا اس نے سورج کے مطابق اس سمت دیکھا جدھر ترکمان تھا اسے پہاڑیوں کی ٹیڑھی سی لکیر نظر آئی وہ سیدھا اس سمت نہیں جاسکتا تھا کیونکہ راستے میں دشمن کی فوج تھی
اس نے اپنے ساتھیوں کو جگایا وہ اٹھے تو ان کے چہروں پر بھی گھبراہٹ اور تذبذب کے آثار پیدا ہوگئے ہم دو دن اور بھوکے اور پیاسے رہ سکتے ہیں اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا اور ان دو دنوں میں ہم اگر منزل تک نہ پہنچ سکے تو پانی تک ضرور پہنچ جائیں گے تینوں نے اپنے اپنے خیال اور اندازے کا اظہار کیا مگر وہ بہت دور نکل گئے تھے اگر ان کے پاس گھوڑے ہوتے تو مشکل ذرا آسان ہوجاتی نیند نے ان کے جسموں کو کچھ تازگی دے دی تھی
ساتھیو! الناصر نے کہا خدائے ذوالجلال نے ہمیں جس امتحان میں ڈال دیا ہے اس میں پورا اترنا اور کوئی گلہ شکوہ نہ کرنا ہمارا فرض ہے
یہاں رکے رہنا تو کوئی علاج نہیں ایک ساتھی نے کہا پیشتر اس کے کہ سورج ہمارے سروں پر آکر ہمیں جلانے لگے چل پڑو اللہ تعالیٰ راستہ دکھائے گا
وہ چل پڑے سمت کا انہوں نے محض اندازہ کیا تھا انہیں دور کا چکر بھی کاٹنا تھا سورج اوپر آتا رہا ریت گرم ہوتی گئی اور تھوڑی دور یوں نظر آتا جیسے یہ ریت نہیں پانی ہو زمین سے لرزتا ہوا دھواں سا اوپر کو اٹھ رہا تھا وہ چاروں صحرا کے قہر سے واقف تھے اور عادی بھی انہیں سراب بھی نظر آنے لگے مگر صحرا کے اس دھوکے سے واقف ہونے کی بدولت انہوں نے ہر سراب کو نظر انداز کیا
ساتھیو! الناصر نے کہا ہم ڈاکو نہیں ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں سزا نہیں دے گا اگر ہم مرگئے تو یہ موت نہیں شہادت ہوگی دل میں خدا کو یاد کرتے چلو اگر کوئی ایسا مسافر مل گیا جس کے پاس پانی ہوا تو میں ڈاکہ ڈالنے سے گریز نہیں کروں گا ایک سپاہی نے کہا سب ہنس پڑے اور سب نے محسوس کیا کہ ہنسنے کے لیے بھی انہیں طاقت صرف کرنی پڑی تھی پھر سورج ان کے سروں پر آگیا اوپر سے سورج اور نیچے سے ریت ان سب کو جلانے لگی الناصر ایک جنگی ترانہ گنگنانے لگا ترانہ ختم ہوگیا تو انہوں نے ایک آواز میں لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ کا مترنم ورد شروع کردیا ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی ریت کے چمکتے ہوئے ذرے ان کے نقوش کو مٹاتے جارہے تھے
سورج دوسری سمت نیچے اترنے لگا چاروں کی آواز دھیمی ہوتی جارہی تھی قدم وزنی اور رفتار گھٹ گئی تھی ہونٹ خشک ہوگئے اور منہ بند نہیں ہوتے تھے ان کے سائے جب دوسرے طرف بڑھنے لگے تو ان کا ایک ساتھی خاموش ہوگیا کچھ دیر بعد دوسرے کی بھی زبان جواب دے گئی الناصر اور اس کا تیسرا ساتھی سرگوشیوں میں لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ کا ورد کررہے تھے کچھ دور گئے تو سرگوشیاں بھی خاموش ہوگئیں
ساتھیو الناصر نے جسم کی بچی کھچی طاقت صرف کرکے کہا حوصلہ نہ ہارنا ہمارے جسموں میں ایمان کی بہت نمی ہے ہم ایمان کی طاقت سے زندہ رہیں گے اس نے اپنے ساتھیوں کے چہرے کو باری باری دیکھا وہاں خون کا نام ونشان نہیں تھا سب کی آنکھیں اندر کو چلی گئیں تھیں سورج غروب ہوگیا جوں جوں شام تاریک ہوتی گئی ریت ٹھنڈی ہوگئی الناصر نے ساتھیوں کو رکنے نہیں دیا خنکی میں ذرا تیز چلا جاسکتا تھا اگر وہ کوئی عام مسافر ہوتے تو کب کے گر چکے ہوتے وہ فوجی اور چھاپہ مار تھے ان کے جسم عام انسانوں کی نسبت کہیں زیادہ صعوبتیں برداشت کرسکتے تھے وہ چلتے گئے اور کچھ فاصلہ طے کر کے الناصر نے انہیں رکنے اور سوجانے کو کہا صبح کے قریب الناصر جاگا آسمان صاف تھا ستاروں کو دیکھ کر اس نے اندازہ کیا کہ رات کتنی رہتی ہے ایک ستارے کو دیکھ کر اس نے سمت طے کی اور اپنے ساتھیوں کو جگا کر انہیں ساتھ لیا اور سب چل پڑے ان کی رفتار اچھی تھی مگر پیاس انہیں بولنے نہیں دے رہی تھی
یہ ریگستان اتنا وسیع نہیں ہوسکتا الناصر نے بڑی مشکل سے یہ الفاظ زبان سے نکالے آج ختم ہوجائے گا ہم آج پانی تک پہنچ جائیں گے پانی جو دن کو سراب تھا اندھیرے میں امید بن گیا اور وہ اس امید کی طاقت پر چلتے گئے صبح کا اجالا سپید ہوا پھر افق سے سورج ابھرا ان جانباز مسافروں کو سب سے پہلا صدمہ یہ ہوا کہ پانی کی امید دم توڑ گئی ریت تو نہیں تھی زمین سخت تھی اس میں دراڑیں پڑی ہوئی تھیں یہ پھٹی پھٹی زمین تھی پاؤں کی جہاں ٹھوکر لگتی تھی وہاں سے ریت اور مٹی اڑتی تھی آٹھ دس میل دور زمین سے ابھرے ہوئے ستون اور مینار سے نظر آتے تھے یہ مٹی کے ٹیلے اور ریتلی چٹانوں کی چوٹیاں تھیں درخت ایک بھی نظر نہیں آتا تھا زمین کی حالت بتاتی تھی کہ صدیوں سے پیاسی ہے اور یہ کسی انسان کا خون پینے سے گریز نہیں کرے گی الناصر نے اپنے ساتھیوں کے چہروں کا جائزہ لیا اس سے اسے اندازہ ہوگیا کہ اس کے اپنے چہرے کی حالت کیسی ہے اس کے ایک ساتھی کی زبان کچھ باہر نکل آئی تھی ہونٹوں پر ہلکی ہلکی سوجن تھی یہ علامتیں خوفناک تھیں صحرا نے خراج وصول کرنا شروع کردیا تھا سلطان ایوبی کے اس جانباز کا خون پیاسی زمین کی بھینٹ چڑھنے لگا تھا دوسرے دو سپاہیوں کی ظاہری حالت یہ تو نہیں تھی لیکن صاف نظر آرہا تھا کہ میناروں جیسے ٹیلوں تک نہیں پہنچ سکیں گے الناصر ان کا کمانڈر تھا اپنی ذمہ داری کا اسے اتنا زیادہ احساس تھا کہ اس کا دماغ اس کے قابو میں تھا اس کی جسمانی حالت اپنے ساتھیوں سے بہتر نہیں تھی اس نے بولنے کی کوشش کی یہ اس کی قوت ارادی تھی کہ اس کے منہ سے چند الفاظ نکل آئے اس نے اپنے ساتھیوں کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کی مگر یہ ایک ناکام کوشش تھی
جوں جوں سورج اوپر اٹھتا آرہا تھا زمین کے غیرمرئی شعلے بلند ہوتے جارہے تھے ان چاروں کی رفتار کا اب یہ حال تھا کہ وہ قدم اٹھاتے نہیں پاؤں گھسیٹتے تھے جس سپاہی کی زبان باہر نکل آئی تھی اس کی برچھی اس کے ہاتھ سے گر پڑی پھر اس نے کمربند سے تلوار کھولی اور پھینک دی اس نے یہ حرکات بے خیالی میں کی تھیں اس کے ہاتھ اپنے آپ کام کررہے تھے اور وہ ناک کی سیدھ میں چلا جارہا تھا یہ صحرا کا ایک ظالمانہ اثر ہوتا ہے کہ بھٹکا ہوا پیاسا مسافر نیند میں مختلف حرکات کرنے کے انداز سے اپنے جسم سے بوجھ پھینکنا شروع کردیتا ہے مختلف اشیاء پھینکنے کے بعد وہ اپنے جوتے بھی اتار پھینکتا ہے وہ کہیں رکتا نہیں چلتا جاتا اور چیزیں پھینکتا جاتا ہے صحرائی مسافر جب جگہ جگہ ایسی اشیاء پڑی دیکھتے ہیں تو وہ اس توقع پر آگے بڑھتے ہیں کہ کچھ ہی دور آگے ایک لاش پڑی ہوگی یا اس بدنصیب کی ہڈیوں کا ڈھانچہ ہوگا جو راستے میں اپنی آخری متاع بکھیرتا گیا ہے
صحرا نے الناصر کے ایک ساتھی کو اس مرحلے میں داخل کردیا تھا جہاں وہ دنیا کی اشیاء اور اپنے فرائض سے دستبردار ہورہا تھا الناصر نے اس کی برچھی اور تلوار اٹھالی اور اس سپاہی سے بڑے پیار سے کہا اتنی جلدی نہ ہارو میرے عزیز دوست! اللہ کا سپاہی مرجاتا ہے ہتھیار نہیں پھینکا کرتا اپنی عزت اور عظمت کو ریت میں نہ پھینکو اس کے ساتھی نے اسے دیکھا الناصر اسے دیکھتا رہا سپاہی نے اچانک قہقہہ لگایا اور سامنے دیکھتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ کیا بڑی جاندار آواز میں بولا پانی وہ دیکھو باغ پانی مل گیا اور وہ آگے کو دوڑ پڑا وہاں پانی تھا نہ پانی کا سراب وہ زمین ایسی تھی جہاں سراب نظر نہیں آیا کرتے سراب ریت کی چمک کا ہوتا ہے اس پر صحرا کا دوسرا ظالمانہ اثر ہونے لگا تھا یہ تھے واہمے اور ایسے تصورات جو حقیقی روپ میں دکھائی دیتے ہیں پانی کی جھیلیں اور باغ نظر آتے ہیں عمارتیں دکھائی دیتی ہیں یوں بھی نظر آتا ہے جیسے ایک دو میل دور شہر ہے قافلے جاتے یا اپنی طرف آتے دکھائی دیتے ہیں ناچنے اور گانے والیاں بھی نظر آتی ہیں اس بے رحم ویرانے نے الناصر کے ایک ساتھی کو فریب دینے شروع کردئیے تھے صحرا اس کی جان سے کھیلنے لگا تھا یہ شاید صحرا کی رحم دلی بھی ہے کہ کسی مسافر کی جان لینے سے پہلے اسے بڑے ہی حسین اور دلفریب تصوروں میں الجھا دیتا ہے تاکہ مرنے والا اذیت سے محفوظ رہے
الناصر کا ساتھی آگے کو دوڑ پڑا وہی سپاہی جو قدم گھسیٹ رہا تھا تازہ دم آدمی کی طرح دوڑ رہا تھا مگر یہ دوڑ اس چراغ کی مانند تھی جو بجھنے سے پہلے آخری بار ٹمٹمایا ہو الناصر اس کے پیچھے دوڑا اور اسے پکڑ لیا اس کے دوسرے دو ساتھیوں میں ابھی کچھ دم باقی تھا وہ بھی دوڑے اور اپنے ساتھی پر قابو پالیا وہ ان سے آزاد ہونے کو تڑپ رہا تھا اور چلا رہا تھا چلو جھیل تک چلو وہ دیکھو کتنے غزال جھیل سے پانی پی رہے ہیں
ساتھیوں نے اسے پکڑے رکھا اور وہ آہستہ آہستہ قدم گھسیٹتے چلتے گئے الناصر نے وہ کپڑا جو اس کے سر پر رکھا تھا اس کے چہرے پر بھی ڈال دیا تاکہ وہ کچھ دیکھ ہی نہ سکے سورج سر کے عین اوپر آگیا تھا جب ایک اور سپاہی نے بڑی ہی بلند آواز سے کہا باغ میں رقاصہ ناچ رہی ہے لعنت بھیجو پانی پر چلو ناچ دیکھیں حسن دیکھو چلو دوستو، وہاں پانی مل جائے گا لوگ کھانا کھا رہے ہیں میں سب کو جانتا ہوں چلو چلو اور وہ دوڑ پڑا جس سپاہی کو پہلے واہمہ نظر آیا تھا وہ کچھ دیر خاموش رہا تھا
اس لیے ساتھیوں نے اسے چھوڑ دیا تھا وہ اپنے ساتھی کو دوڑتا دیکھ کر اس کے پیچھے دوڑ پڑا اور چلانے لگا رقاصہ بہت خوبصورت ہے میں نے اسے قاہرہ میں دیکھا تھا وہ مجھے جانتی ہے میں اس کے ساتھ کھانا کھاؤں گا اس کے ساتھ شربت پیوں گا ۔
اسکا سر ڈول گیا وہ صحرا کی صعوبتیں برداشت کرسکتا تھا اپنے ساتھیوں کی یہ حالت اس کی برداشت سے باہر تھی انہیں سنبھالنا اس کے بس سے باہر ہوا جارہا تھا اس کی اپنی جسمانی حالت بھی دگرگوں ہوگئی تھی اس کے ساتھ اب ایک ہی ساتھی رہ گیا تھا جس کا دماغ ابھی ٹھکانے تھا جسمانی لحاظ سے وہ بے شک ختم ہوچکا تھا
ان کے جو دو ساتھی باغ اور رقص کے واہمے کے پیچھے دوڑے تھے چند قدم دوڑ کر گر پڑے انہیں گرنا ہی تھا ان کے جسموں میں رہا ہی کیا تھا الناصر اور اس کے ساتھی نے انہیں بٹھا کر اپنے سہارے لے لیا اور ان پر کپڑوں کا سایہ کردیا ان کی آنکھیں بند ہوگئی تھیں اور سر ڈول رہے تھے
تم اللہ کے سپاہی ہو الناصر نے دھیمی سی آواز میں کہنا شروع کیا تم قبلہ اول اور خانہ کعبہ کے پاسبان ہو تم نے اسلام کے دشمنوں کی کمر توڑ دی ہے تم سے کفار ڈرتے اور کانپتے ہیں تم شعلوں کو روندنے والے مرد مومن ہو اس صحرا کو پیاس کو اور سورج کے قہر کو تم کیا سمجھتے ہو تم پر اللہ کی رحمت برس رہی ہے تمہیں فرشتے بہشت کی ٹھنڈک پہنچا رہے ہیں تمہارا جسم پیاسا ہے روح پیاسی نہیں ایمان والے پانی کی ٹھنڈک سے نہیں ایمان کی حرارت سے زندہ رہتے ہیں
دونوں نے آنکھیں کھول دیں اور الناصر کو دیکھا الناصر نے مسکرانے کی کوشش کی اس نے جذبات کے غلبے سے جو باتیں کہی تھیں وہ اثر کرگئیں دونوں سپاہی تصوروں اور واہموں کی دنیا سے نکل کر حقیقت میں آگئے وہ اٹھے اور نہایت آہستہ آہستہ چل پڑے صبح روانگی کے وقت انہیں ٹیلوں اور ریتلی چٹانوں کے جو ستون اور مینار نظر آئے تھے وہ قریب آگئے تھے اب وہ بہت بڑے بڑے ہوگئے تھے امید رکھی جاسکتی تھی کہ وہاں پانی ہوگا وہاں نشیب اور کھڈ نالے بھی ہوسکتے تھے الناصر نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ پانی کے قریب آگئے ہیں اور آج شام سے پہلے پانی مل جائے گا مگر وہ زمین اور وہ ماحول ایسی اور اتنی گرم حقیقت تھی کہ پانی کی امید شبنم کے قطرے کی طرح اڑ گئی وہ ٹیلوں اور ٹیکریوں کے اور قریب چلے گئے اچانک ایک سپاہی دوڑ اٹھا وہ نعرے لگا رہا تھا میرا گاؤں آگیا ہے میں سب کے لیے کھانا پکوانے جارہا ہوں کنوئیں سے میرے گاؤں کی لڑکیاں پانی نکال رہی ہیں
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس کے پیچھے دوسرا سپاہی دوڑ پڑا اور چلانے لگا مرغابیاں مرغابیاں وہ دوڑتے دوڑتے منہ کے بل گرا اور ہاتھ سے مٹی اور ریت اٹھا کر منہ میں ڈال لی
الناصر اور اس کا تیسرا ساتھی دوڑے اس کے منہ سے مٹی نکالی کپڑے سے منہ صاف کیا اور اسے اٹھایا مگر وہ چلنے کے قابل نہیں تھا دوسرا سپاہی بھی گر پڑا تھا اور پیٹ کے بل رینگتے ہوئے کہہ رہا تھا کنوئیں سے پانی پی لوں پھر تمہارے لیے کھانا پکواؤں گا
الناصر نے اپنے ہاتھ دعا کے لیے اٹھائے اور آسمان کی طرف منہ کرکے کہا اے خدائے ذوالجلال ہم تیرے نام پر لڑنے اور مرنے آئے تھے کوئی گناہ نہیں کیا کہیں ڈاکہ نہیں ڈالا اگر کفار سے لڑنا گناہ ہے تو ہمیں بخش دے بخش دے صحراؤں کو آگ لگانے والے خدا میری جان لے لے میرے خون کو پانی بنا دے میرے ساتھی پی کر زندہ رہیں انہوں نے تیرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قبلہ اول کے غاصبوں کے خلاف لڑائی لڑی ہے
میرے خون کو پانی بنا اور انہیں پلا دے اس کے ساتھی آہستہ آہستہ اٹھے اور ہاتھ آگے کو پھیلا کر یوں چلنے لگے جیسے انہیں کچھ نظر آرہا ہو جس تک وہ پہنچنا چاہتے ہوں الناصر اور اس کے ساتھی نے جو ذہنی لحاظ سے ابھی ٹھیک تھا اپنے ساتھیوں کو دیکھا تو وہ بھی قدم گھسیٹنے لگے اس وقت الناصر کی آنکھوں کے آگے اندھیرا آیا اور چھٹ گیا جیسے سیاہ گھٹا کا ٹکڑا چاند کے آگے سے گزر گیا ہو اندھیرا گزر جانے کے بعد اسے محسوس ہوا جیسے اسے سبزہ زار سا نظر آیا ہو مگر اس کے سامنے ٹیلوں اور چٹانوں کے مینار اور ستون تھے اس نے ایک لمحے کے لیے سبزہ دیکھا ضرور تھا اس نے اپنے آپ کو سنبھال لیا وہ سمجھ گیا کہ صحرا اسے بھی فریب دینے لگا ہے
وہ ٹیلوں کے اندر جارہے تھے یہ ٹیلے چوڑے تھے کوئی اونچا تھا کہیں کہیں کوئی ریتلی چٹان بھی نظر آتی تھی وہ اور آگے گئے تو کسی ندی یا دریا کا خشک پاٹ آگیا صاف پتہ چلتا تھا کہ صدیوں سے یہاں سے پانی نہیں گزرا الناصر آگے آگے اور اس کے ساتھی اس کے پیچھے پیچھے جارہے تھے الناصر چلتے چلتے رک گیا اس نے اپنے سر کو زور سے جھٹکا دیا مگر اسے جو کچھ دکھائی دیا تھا وہ بدستور نظر آتا رہا خشک پاٹ کے بائیں کنارے پر ریتلی چٹان تھی جو اوپر جاکر آگے کو جھک آئی تھی شاید ایک دو صدیاں پہلے اس کے دامن سے پانی ٹکراتا رہا تھا وہاں سے یہ پانی کی ماری ہوئی تھی اس کی شکل برآمدی کی سی بنی ہوئی تھی چھت خاصی اونچی تھی اور وہاں سایہ تھا اس سائے میں دو گھوڑے کھڑے تھے اور ان کے قریب دو جوان لڑکیاں بیٹھی تھیں وہ اٹھ کھڑی ہوئیں ان کے رنگ گورے اور نقش ونگار بہت دلکش تھے
الناصر نے ان سے دور رک کر اپنے ساتھیوں سے پوچھا تمہیں بھی وہ دو لڑکیاں اور دو گھوڑے نظر آرہے ہیں؟
اس کے وہ دو ساتھی جو واہموں اور تصوروں کا شکار ہوچکے تھے خاموش رہے ایک نے کہا دھند ہے کچھ بھی نظر نہیں آرہا اور وہ گر پڑا اس کا وہ ساتھی جو ذہنی لحاظ سے ابھی ٹھیک تھا سرگوشی میں بولا میں انہیں دیکھ رہا ہوں اللہ ہم پر رحم کرے الناصر نے کہا ہم دونوں کے بھی دماغ ماؤف ہوگئے ہیں ہمیں بھی وہ چیزیں نظر آنے لگی ہیں جو حقیقت میں نہیں ہیں جہنم کے اس ویرانے میں اتنی خوبصورت لڑکیاں نہیں آسکتیں اگر ان کا لباس صحرائی خانہ بدوشوں جیسا ہوتا تو ہم کہہ سکتے تھے کہ یہ تصور نہیں حقیقت ہے اس کے ساتھی نے کہا آگے چلو سائے میں بیٹھ جاتے ہیں یہ لڑکیاں نہیں ہمارے ذہنوں کا فتور ہے
مگر میں ہوش میں ہوں الناصر نے کہا میں تمہیں پہچان رہا ہوں تمہاری بات سمجھ گیا ہوں میرا دماغ میرے قابو میں ہے میں بھی ہوش میں ہوں اس کے ساتھی نے کہا اگر ہم حقیقت میں لڑکیاں دیکھ رہے ہیں تو جنات ہوں گے لڑکیاں اس طرح بے حس وحرکت کھڑی انہیں دیکھ رہی تھیں، جیسے بت ہوں الناصر دلیر آدمی تھا، وہ آہستہ آہستہ ان کی طرف بڑھا لڑکیاں غائب نہ ہوئیں وہ ان سے چار پانچ قدم دور تھا جب ایک لڑکی نے جو دوسری سے عمر میں کچھ بڑی لگتی تھی دایاں بازو الناصر کی طرف کیا لڑکی کی مٹھی بند تھی اس نے شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی آگے کو کر دی الناصر رک گیا اس نے اتنی خوبصورت لڑکیاں پہلے کبھی نہیں دیکھی تھیں سر کی اوڑھنی سے ان کے جو بال شانوں پر پڑے نظر آتے تھے وہ باریک ریشم کے تار لگتے تھے دونوں لڑکیوں کی آنکھوں کا رنگ بھی دلکش اور عجیب تھا آنکھیں ہیروں کی طرح چمکتی تھیں
تم سپاہی ہو بڑی لڑکی نے کہا کس کے سپاہی ہو؟
سب کچھ بتاؤں گا الناصر نے کہ مجھے یہ بتا دو کہ تم صحرا کا دھوکہ ہو یا جنات کی مخلوق میں سے ہو ہم جو کچھ بھی ہیں تم بتاؤ کون ہو اور ادھر کیا کرنے آئے ہو لڑکی نے پوچھا ہم صحرا کا فریب نہیں تم ہمیں دیکھ رہے ہو ہم تمہیں دیکھ رہی ہیں ہم سلطان صلاح الدین ایوبی کے چھاپہ مار سپاہی ہیں الناصر نے کہا راستہ بھول کر ادھر آنکلے ہیں اگر تم جنات میں سے ہو تو تمہیں حضرت سلیمان علیہ السلام کا واسطہ میرے ان ساتھیوں کو پانی پلا دو اور اس کے عوض میری جان لے لو یہ میری ذمہ داری میں ہیں
اپنے ہتھیار ہمارے آگے پھینک دو لڑکی نے اپنا بازو نیچے کرتے ہوئے کہا حضرت سلیمان علیہ السلام کے نام پر مانگی ہوئی چیز سے ہم انکار نہیں کرسکتے اپنے ساتھیوں کو سائے میں لے آؤ الناصر نے اپنے وجود میں ایک لہر دوڑتی محسوس کی جیسے سر سے داخل ہوئی اور پاؤں سے نکل گئی ہو وہ انسانوں کا مقابلہ کرنے والا جانباز تھا اس کے شب خون اس کے ساتھیوں کو حیران کردیا کرتے تھے مگر ان لڑکیوں کے آگے وہ بزدل بن گیا اس کے دل پر ایسے خوف کی گرفت تھی جو اس نے کبھی محسوس نہیں کی تھی وہ جنات کی کہانیاں سنتا رہا تھا جنات سے کبھی آمنا سامنا نہیں ہوا تھا اسے ہر لمحہ توقع تھی کہ یہ دو لڑکیاں اور دو گھوڑے غائب ہوجائیں گے یا شکلیں بدل لیں گے ان کے خلاف وہ کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ وہ بے بس اور مجبور ہوگیا اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ سائے میں چلیں ان میں سے ایک تو بے ہوش پڑا تھا اسے گھسیٹ کر سائے میں لے گئے اپنے متعلق بتاؤ تم کیا کرکے آئے ہو؟
لڑکی نے پوچھا پانی پلاؤ الناصر نے التجا کی سنا ہے جنات ہر چیز حاضر کردیا کرتے ہیں
گھوڑوں کے ساتھ مشکیزے ہیں
لڑکی نے کہا ایک کھول لو
الناصر نے ایک گھوڑے کی زین کے ساتھ بندھا ہوا مشکیزہ کھولا پانی سے بھرا ہوا تھا اس نے سب سے پہلے بے ہوش ساتھی کے منہ میں پانی ٹپکایا اس نے آنکھ کھولی اور اٹھ بیٹھا۔ الناصر نے مشکیزہ اس کے منہ سے لگا دیا لیکن اسے زیادہ پانی نہ پینے دیا باری باری سب نے پانی پی لیا الناصر کا دماغ صاف ہوگیا اس نے سوچا کہ یہ لڑکیاں تصور یا واہمہ ہوتا تو دماغ میں جان آجانے سے یہ واہمہ غائب ہوجاتا لیکن لڑکیاں وہاں موجود تھیں اور سب سے بڑی حقیقت یہ تھی کہ اس نے پانی پیا تھا اگر پانی محض تصور ہوتا تو اس سے اس کے جسم میں تازگی نہ آتی اس نے لڑکیوں کو ایک بار پھر دیکھا اور بڑی غور سے دیکھا اب وہ اسے اور زیادہ حسین نظر آئیں، وہ یقیناً انسان نہیں تھیں
الناصر کی ذہنی جذباتی اور جسمانی کیفیت یہ تھی کہ اسے اپنے اوپر کوئی اختیار نہیں رہا تھا وہ محسوس کررہا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے سوچنے کے قابل نہیں رہا اس کے ساتھیوں کے چہروں پر زندگی عود کر آئی تھی۔ یہ اس تھوڑے سے پانی کا کرشمہ تھا جو ان کے جسموں میں گیا تھا مگر الناصر کی طرح ان پر بھی خوف طاری ہوگیا تھا لڑکیاں انہیں خاموشی سے دیکھ رہی تھیں۔ باہر کی دنیا جل رہی تھی، زمین ایسے شعلے اگل رہی تھی جو محسوس ہوتے تھے، نظر نہیں آتے تھے لیکن جہاں یہ لوگ بیٹھے تھے وہ ان شعلوں سے محفوظ تھے اوپر ریتلی چٹان کی چھت تھی اور جگہ خاصی کشادہ تھی
بڑی لڑکی نے بازو الناصر کی طرف بڑھایا درمیانی انگلی اور شہادت کی انگلی آگے کرکے بازو کو گھوڑوں کی طرف گھما کر کہا وہ تھیلا کھول لاؤ اور اپنے ساتھیوں کو دو
الناصر ایسے انداز سے گھوڑے کی زین کے ساتھ بندھا ہوا چمڑے کا تھیلا کھول لایا جیسے اس نے یہ حرکت کسی جادو کے زیر اثر کی ہو اس نے تھیلا کھولا تو اس میں کھجوروں کے علاوہ کھانے کی کچھ ایسی چیزیں پڑی تھیں جو صرف امیر لوگ کھایا کرتے تھے خشک گوشت بھی تھا جو کھانے کے قابل تھا اس نے لڑکیوں کو دیکھا بڑی لڑکی نے کہا کھاؤ الناصر نے یہ چیزیں اپنے ساتھیوں میں تقسیم کردیں ان سب کے پیٹ پیٹھ سے لگے ہوئے تھے۔ انہوں نے کھانا شروع کردیا کھانا مقدار کے لحاظ سے تھوڑا تھا جو بظاہر ایک آدمی کے لیے کافی تھا لیکن چارو سیر ہوگئے انہیں ماحول نکھرا ہوا دکھائی دینے لگا لڑکیوں کا حسن پہلے سے کہیں زیادہ پرکشش اور پراسرار ہوگیا تم ہمارے ساتھ کیا سلوک کرو گی؟
الناصر نے بڑی لڑکی سے کہا جن اور انسان کا کوئی مقابلہ نہیں تم آگ ہو، ہم مٹی اور پانی ہیں ہم سب کا خالق خدا ہے ہمیں اپنے خالق کی مخلوق سمجھ کر ہم پر رحم کرو ہمیں ترکمان کے راستے پر ڈال دو تم چاہو تو پلک جھپکتے ہمیں ترکمان پہنچا سکتے ہو الناصر نے اسے اپنی تمام کارگزاری سنا دی۔ اس کی ٹولی نے جس دلیری سے شب خون مارے اور جو نقصان کیا تھا وہ پوری تفصیل سے سنایا پھر یہ بتایا کہ وہ کس طرح واپسی کے راستے سے بھٹک گئے ہیں
'تم اپنے سپاہیوں سے بہتر سپاہی معلوم ہوتے ہو لڑکی نے کہا کیا تمہاری فوج کا ہر ایک سپاہی یہ کام کرسکتا ہے جو تم نے کیا ہے؟
نہیں الناصر نے جواب دیا ہم چاروں کو تم انسان نہ سمجھو ہمیں استادوں نے جو تربیت دی ہے وہ ہر ایک سپاہی برداشت نہیں کرسکتا ہم صحرائی ہرن کی طرح دوڑ سکتے ہیں عقاب کی طرح ہماری آنکھیں بہت دور تک دیکھ سکتی ہیں اور ہم چیتے کی طرح حملہ کرتے ہیں ہم میں سے کسی نے بھی چیتا نہیں دیکھا استادوں نے بتایا تھا کہ چیتا کیا ہوتا ہے اور وہ کس طرح حملہ کرتا ہے اس جسمانی پھرتی کے علاوہ ہمارے دماغ دوسرے سپاہیوں کی نسبت زیادہ اچھی طرح سوچ سکتے ہیں ہمیں استادوں نے یہ ہنر بھی سکھایا ہے کہ دشمن کے ملک میں جاکر فوجی راز کس طرح حاصل کیے جاتے ہیں۔ ہم بھیس بدل لیتے ہیں آواز بدل لیتے ہیں اندھے بن سکتے ہیں ضرورت پڑے تو ہم آنسو بہا سکتے ہیں اور جب پکڑے جانے کا خطرہ ہو تو ہم اپنی زندگی سے دستبردار ہوکر لڑتے اور نکلنے کی کوشش کرتے ہیں ہم قید نہیں ہوتے، شہید ہوا کرتے ہیں
اگر ہم جن نہ ہوتی تو تم ہمارے ساتھ کیا سلوک کرتے؟
لڑکی نے پوچھا
تم یقین نہیں کرو گی الناصر نے کہا ہم وہ پتھر ہیں جنہیں عورت کا حسن توڑ نہیں سکتا مجھے یقین ہو جائے کہ تم انسان ہو اور پتہ چل جائے کہ راستہ سے بھٹک گئی ہو تو تم دونوں کو اپنی پناہ میں لے لوں گا اور اپنے ایمان کی طرح قیمتی سمجھوں گا مگر تم انسان نہیں ہو تمہاری حالت بتا رہی ہے کہ تم انسان نہیں ہو تم جیسی لڑکیاں اس جہنم میں نہیں آسکتی اب میں تم سے التجا کرتا ہوں کہ ہمیں پناہ میں لے لو
ہم انسانوں کی مخلوق سے نہیں لڑکی نے کہا ہمیں معلوم تھا کہ تم کیا کررہے ہو، ہمیں معلوم تھا کہ تم راستے سے بھٹک گئے ہو اگر تم گناہ گار ہوتے تو جس صحرا سے تم گزر کر آئے ہو وہ تمہارا خون پی جاتا اور تمہارے جسم کے گوشت کو ریت بنا کر تمہاری ہڈیاں ننگی کردیتا اس صحرا نے بھٹکے ہوئے گناہ گاروں کو کبھی نہیں بخشا ہم دونوں تمہارے ساتھ تھیں تمہیں جو صعوبتیں برداشت کرنی پڑی ہیں وہ اس لیے تم پر ڈالی گئی ہیں کہ تم خدا کو بھول نہ سکو اور تمہارے دل سے گناہ کا خیال اور ارادہ نکل جائے ہمیں معلوم تھا کہ ہم جیسی خوبصورت لڑکیوں کو دیکھ کر تم بھوک اور پیاس کو بھول جاؤ گے اور تمہارے دل پر شیطان کا قبضہ ہوجائے گا
تم ہمارے ساتھ ساتھ کیوں رہیں؟
الناصر نے پوچھا ہمیں اس نے بھیجا ہے جو صحراؤں میں راستہ بھول جانے والے نیک بندوں کو راہ دکھاتا ہے بڑی لڑکی نے کہا تم پر خدا نے جو رحمت نازل کی ہے اس کا تم حساب نہیں کرسکتے۔ اس نے ہمیں کہا تھا کہ مرد نزع کے عالم میں بھی شیطان کے اثر سے آزاد نہیں ہوتا اس ناپاک قبضے سے آزاد کرانے کے لیے خدا نے تمہیں عذاب میں ڈالا ہے پھر ہمیں حکم ملا کہ ان کے سامنے آجاؤ اور انہیں پناہ میں لے لو ہم جانتے تھے کہ تم نے دشمن کو کس طرح اور کتنا نقصان پہنچایا ہے
پھر مجھ سے کیوں پوچھا تھا؟
الناصر نے پوچھا یہ دیکھنے کے لیے کہ تم کتنا جھوٹ اور کتنا سچ بولتے ہو لڑکی نے کہا تم سچے ہو ہم جھوٹ نہیں بولا کرتے الناصر نے کہا شب خون مارنے والے خدا کو گواہ بنایا کرتے ہیں اپنی فوج اور اپنے سالاروں کی نظروں سے اوجھل ہوکر ہم اس حقیقت کو دل میں بٹھا لیتے ہیں کہ ہمیں خدا دیکھ رہا ہے ہم خدا کو دھوکہ نہیں دے سکتے الناصر خاموش ہوگیا اور پوچھا تم نے میرے اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ ہمارے ساتھ کیا سلوک کرو گی جو ہمیں حکم ملا ہے، اس کے خلاف ہم کچھ نہیں کرسکتے لڑکی نے جواب دیا ہمارا سلوک برا نہیں ہوگا ہم دیکھ رہے ہیں ک تم اب بول نہیں سکتے تمہاری اور تمہارے ساتھیوں کی آنکھیں بند ہورہی ہیں مگر تمہارے دلوں میں جو خوف ہے وہ تمہیں سونے نہیں دے رہا دل سے خوف نکال دو اور سوجاؤ پھر کیا ہوگا؟
الناصر نے پوچھا جو اللہ کا حکم ہوگا لڑکی نے جواب دیا ہم تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتے اگر بھاگنے کی کوشش کرو گے تو ان ریتلے ستونوں کی طرح ستون بن جاؤ گے تمہیں دور سے یہ ستون نظر آئے ہوں گے ان کے اوپر کوئی چھت نہیں یہ مینار لگتے ہیں اصل میں انسان ہیں انسان تھے۔ ہمیں حکم نہیں کہ تمہیں دکھاؤں اگر حکم ہوتا تو کسی بھی مینار پر تم تلوار کی ضرب لگاتے تو اس میں سے خون پھوٹتا الناصر اور اس کے ساتھیوں کی آنکھیں خوف سے باہر آنے لگیں ان کی سانسیں رک گئیں یہ روئے زمین کا جہنم ہے لڑکی نے کہا ادھر وہی آتا ہے جو راہ سے گمراہ ہوجاتا ہے اور وہ کہ جو بھولے بھٹکے مسافروں کو راستہ دکھاتا ہے اور کسی کو نظر نہیں آیا کرتا انہیں غزال جیسے خوبصورت جانوروں یا ہم جیسی خوبصورت لڑکیوں کے روپ میں آکر انہیں راہ پر ڈالتا پانی پلاتا اور انہیں اس دوزخ کی اذیت سے بچا لیتا مگر انسان گناہوں کا اتنا شیدائی ہے کہ غزال کو دیکھتا ہے تو اس پر تیر چلاتا ہے کہ اسے مارے اور اس کا گوشت کھائے اور جب ہم جیسی عورت کو دیکھتا ہے تو اسے تنہا اور مجبور سمجھ کر اسے عیش وعشرت کا ذریعہ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ بھول جاتا ہے کہ اس کا آخری وقت آن پہنچا ہے وہ لڑکی سے کہتا ہے کہ آؤ میرے ساتھ، تمہارے ساتھ شادی کروں گا تم میرے حرم کی ملکہ ہوگی ریت اور مٹی کے یہ بے ڈھنگ اور لمبوترے مینار ایسے ہی آدمی تھے تم ان میں شامل نہیں ہوگے سوجاؤ اگر ہمیں دیکھ کر تمہارے دل میں گناہ انگڑائی لے تو اسے بھی سلا دینا ورنہ تمہارا انجام یہی ہوگا جو تم دیکھ رہے ہو انسان کی یہ کمزوری ہے کہ جس لذت کی وہ پیداوار ہے اسی لذت کا شیدائی ہوکر تباہ ہوتا ہے اور برے برے انجام کو پہنچتا ہے انسان کی اس کمزوری نے قوموں کے نام ونشان مٹان دئیے ہیں
لڑکی کے بولنے کے انداز میں جادو کا سا اثر تھا
یہ کسی پہلو اس دنیا کی لڑکی نہیں تھی اس کے سینے میں ایک مقدس پیغام تھا۔ الناصر اور اس کے ساتھیوں پر تقدس طاری ہوگیا اور وہ خود فراموشی کے عالم میں سنتے رہے، پھر وہ اونگھنے لگے اور ایک ایک کرکے لڑھک گئے چاروں گہری نیند سوگئے تو بڑی لڑکی نے چھوٹی لڑکی کی طرف دیکھا دونوں مسکرائیں اور انہوں نے سکون کی لمبی آہ بھری الناصر کو کچھ خبر نہیں تھی کہ جس طرح اس کا مشن کامیاب ہوچکا ہے اسی طرح اس کی فوج ایک ہی ہلے میں اپنے مشن میں کامیاب ہوچکی ہے اتحادی فوج کو سلطان ایوبی بکھیر کر بھگا چکا تھا اتحادی فوج کا سالار اعلیٰ سیف الدین میدان جنگ سے لاپتہ ہوچکا تھا اور اب سلطان ایوبی سیف الدین کے ایک سالار مظفرالدین کا انتظار کررہا تھا اسے خطرہ محسوس ہورہا تھا کہ اگر مظفرالدین میدان جنگ میں ہوا تو وہ جوابی حملہ ضرور کرے گا سلطان ایوبی کا اندازہ غلط نہیں تھا۔ مظفرالدین وہیں تھا۔ اس کے پاس اس فوج کا چوتھائی حصہ تھا جو سلطان ایوبی کے حملے کی تاب نہ لا کر بھاگ چکی تھی اس چوتھائی حصے کو جنگ میں شریک ہونے کا موقع ہی نہیں ملا تھا یہ شکست خوردہ فوج کا محفوظہ تھا جو محفوظ تھا اور سلطان ایوبی اس کی موجودگی سے بے خبر تھا یہ اس کی چھٹی حس تھی جو اسے بتا رہی تھی کہ خطرہ ابھی موجود ہے اس نے اپنے جاسوسوں کو میدان جنگ کے اردگرد دور دور تک پھیلا دیا تھا تاکہ کسی بھی جگہ کوئی فوج ہو اس کی اطلاع فوراً پہنچائیں
وہاں ہر فوجی کے ذہن میں یہی خیال تھا کہ سیف الدین کی فوج مکمل طور پر ختم ہوچکی ہے اور یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ اس فوج کا کوئی سپاہی یا افسر زندہ موجود ہوگا ان میں سے جو زندہ موجود تھے، وہ سلطان ایوبی کی فوج کی حراست میں جنگی قیدی تھے پہلے بتایا جا چکا ہے کہ وہ خطہ ایسا تھا کہ جس کے خدوخال کئی کئی دستوں کو ایک ایک نشیب میں چٹانوں کے جھرمٹ میں یا جنگل میں چھپا سکتے تھے سلطان ایوبی کے جاسوسی نظام کو یہی دشواری پیش آ رہی تھی۔ حالانکہ یہ وہ نظام تھا جو دشمن کے پیٹ میں جاکر راز نکال لایا کرتا تھا
مظفرالدین نے میدان جنگ سے دو اڑھائی میل دور ایسی جگہ اپنے دستے چھپا رکھے تھے جو اس خطے کا نشیبی علاقہ تھا وہاں جنگل بھی تھا اور اردگرد چٹانیں بھی۔ وہ اپنے خیمے میں بیٹھا سلطان ایوبی پر حملے کا منصوبہ بنا رہا تھا وہ بہت جلدی میں تھا اس کا ایک نائب سالار خیمے میں داخل ہوا اس کے ساتھ ایک اور آدمی تھا کوئی نئی خبر ہے؟
مظفرالدین نے پوچھا صلح الدین ایوبی کی فوج میں کوئی تبدیلی نہیں آئی نائب سالار نے کہا تفصیل اس سے سن لو یہ سب کچھ دیکھ آیا ہے یہ آدمی جاسوس تھا اس نے کہا صلاح الدین ایوبی کی فوج نے ابھی ہماری اس فوج کا سامان نہیں اٹھایا جو بھاگ گئی ہے زخمیوں کو اٹھالے گئے ہیں لاشیں بھی اٹھالی گئی ہیں ہماری لاشوں کو بھی وہ اپنی لاشوں کے ساتھ الگ الگ قبروں میں دفن کررہے ہیں
مجھے ان کی خبر سناؤ جو ابھی زندہ ہیں
مظفرالدین نے کہا مرنے والوں کو قبروں میں اترنا ہے وہ اتر رہے ہیں کیا ایوبی نے اپنی فوج میں کوئی ردوبدل کیا ہے؟
اس کا دایاں بازو وہیں ہے یا ادھر ادھر ہوگیا ہے؟
قابل صد احترام سالار جاسوس نے کہا میں سپاہی نہیں کمان دار ہوں میں جو خبر دے رہا ہوں وہ کچھ سوچ اور کچھ سمجھ کر دے رہا ہوں۔ میرا مقصد یہ نہیں کہ آپ کو خوش کروں اور آپ کی خفگی سے ڈروں میرا مقصد بالکل آپ ہی کی طرح یہی ہے کہ سلطان ایوبی کی فتح کو شکست میں بدلا جائے۔ آپ کچھ جلدی میں معلوم ہوتے ہیں جلدی ضروری کریں
جلد بازی سے بچیں۔ میں جو کہہ رہا ہوں، مجھے کہنے دیں مجھے پابند نہ کریں۔ میں جانتا ہوں کہ آپ کی نظر سلطان ایوبی کے دائیں پہلو پر ہے کیونکہ یہی ہدف آپ کی آسان زد اور رسائی میں ہے مگر میں نے اس کی فوج کے دوسرے حصوں کو بھی پیش نظر رکھ کر دیکھا ہے کہ ہم اس کے دائیں پہلو پر حملہ کریں گے تو سلطان ایوبی فوج کے دوسرے حصوں کو کس طرح استعمال کرے گا وہ ہمیں گھیرے میں لینے کی کوشش کرے گا مظفرالدین نے کہا گھیراؤ وسیع رکھے گا ہمیں گھمائے پھرائے گا اور گھیرا تنگ کرتا جائے گا میں اس کی چالوں کے متعلق پیش گوئی کرسکتا ہوں
صلاح الدین ایوبی نے محفوظہ کے ان دستوں کو جن سے اس نے ہمارے قلب پر حملہ کیا اور کامیابی حاصل کی ہے پھر سے سمیٹ لیا اور اگلے دستوں سے ایک کوس پیچھے تیار رکھا ہوا ہے آپ ٹھیک سمجھے ہیں کہ سلطان ایوبی ہمارے حملہ آور دستوں کو گھیرے میں لینے کی کوشش کرے گا میں قبروں کا جو ذکر کررہا تھا، وہ بے معنی نہیں تھا سلطان ایوبی کا دایاں بازو جس جگہ ہے اس سے ڈیڑھ ایک کوس پیچھے ہماری اور ایوبی کی فوج کی لاشوں کے لیے قبریں کھودی گئی ہیں ان کی تعداد ڈیڑھ ہزار کے لگ بھگ ہوگی یہ ڈیڑھ ہزار گڑھے ہیں
آپ قبر کی لمبائی چوڑائی اور گہرائی سے واقف ہیں آپ ایسی سمت سے حملہ کریں کہ ایوبی کے دستے پیچھے ہٹیں آپ انہیں قبروں کے قریب لے جائیں دست بدست لڑنے کے بجائے تیروں کا اندھا دھند استعمال کریں اور انہیں مجبور کردیں کہ قبروں پر چلے جائیں آپ تصور کرسکتے ہیں کہ گھوڑے کھلی ہوئی قبروں میں کس طرح گریں گے ان میں سے جن قبروں میں لاشیں اتار کر ان پر ڈھیریاں بنا دی گئی ہیں، وہ بھی ان کے لیے رکاوٹ بنیں گی ایوبی کے دائیں بازو کی قوت کتنی اور کس قسم کی ہے؟
مظفرالدین نے پوچھا کم از کم ایک ہزار سوار اور ڈیڑھ ہزار پیادے ہیں جاسوس کمان دار نے جواب دیا یہ دستے تیاری کی حالت میں ہیں آپ انہیں بے خبری میں نہیں لے سکتے اس نے اس نقشے پر جو مظفرالدین کے آگے پڑا تھا، ایک جگہ انگلی رکھ کر کہا یہ ہے دشمن (ایوبی) کا دایاں بازو میرے اندازے کے مطابق اس کا پھیلاؤ آٹھ سو قدم ہے اس کے سامنے کی زمین گڑھوں والی ہے نیچی نیچی گول گول ٹیکریاں بھی ہیں اس کے دائیں کا علاقہ صاف ہے حملے کے لیے یہ راستہ موزوں نظر آتا ہے مگر حملہ سامنے سے کیا جائے دشمن پیچھے ہٹے گا میرا حملہ سامنے کے بے کار راستے سے بھی ہوگا دائیں جانب سے صاف راستے سے بھی مظفرالدین نے کہا میں قبروں کے گڑھوں اور ڈھیریوں کو استعمال کروں گا اس نے اپنے نائب سالار سے کہا کوئی بھی آدمی کہیں بھی نظر آئے اسے پکڑ لو یہ علاقہ جنگ کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے ادھر سے کوئی مسافر نہیں گزرے گا۔ ادھر سے وہی گزرے گا جو جاسوس ہوگا
دو مسافروں کو شاید معلوم نہیں تھا کہ یہ علاقہ جنگ کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے ایک اونٹ پر سوار تھا وہ بوڑھا تھا۔ اس کی داڑھی سفید تھی اونٹ پر کچھ سامان بھی لدا ہوا تھا دوسرے نے اونٹ کی مہار پکڑ رکھی تھی وہ دونوں دیہاتی لباس میں تھے وہ اس جگہ سے گزر رہے تھے جہاں سے مظفرالدین کے چھپے ہوئے دستے نظر آرہے تھے۔ ایک فوجی نے انہیں پکارا وہ نہ رکے ان کی رفتار تیز ہوگئی ایک گھوڑ سوار ان کے پیچھے گیا تو وہ رک گیا سوار نے انہیں ساتھ چلنے کو کہا
ہم مسافر ہیں جوان آدمی نے کہا آپ کا کیا بگاڑا ہے؟
ہمیں جانے دیں حکم ہے کہ یہاں سے جو گزرے اسے روک لیا جائے گھوڑ سوار نے کہا اور انہیں اپنے ساتھ لے گیا انہیں ایک خیمے کے سامنے جا کھڑا کیا اور خیمے میں اطلاع دی گئی ایک کمان دار باہر آیا اس نے ان سے پوچھا کہ وہ کہاں سے آئے ہیں اور کہاں جارہے ہیں انہوں نے جو جواب دیا اس سے کمان دار مطمئن ہوگیا لیکن اس نے انہیں بتایا کہ انہیں آگے نہیں جانے دیا جائے گا۔ انہیں عزت سے رکھا جائے گا قید میں نہیں ان کے اس سوال کا جواب نہ دیا جاسکا کہ انہیں کب تک یہاں رکھا جائے گا۔ یہ پہلے مسافر تھے جنہیں مظفرالدین کے حکم کے مطابق روکا گیا تھا انہیں دو سپاہیوں کے حوالے کرکے کہا گیا کہ وہ ان کے خیمے میں رہیں گے ان کی کسی نے نہ سنی انہیں جس خیمے میں رکھا گیا وہاں یہی دو سپاہی رہتے تھے رات کو سپاہی سو گئے سفید ریش بوڑھا جاگ رہا تھا۔ خیمے میں اندھیرا تھا بوڑھے نے خراٹوں سے اندازہ کیا کہ دونوں سپاہی سو گئے ہیں اس نے اپنے ساتھی کو ٹھوکر ماری دونوں لیٹے لیٹے سرکنے لگے جب خیمے کے دروازے تک پہنچے تو باہر کو سرک گئے باہر خاموشی تھی خیمے سے کچھ دور جاکر بوڑھے نے اپنے ساتھی سے کہا کہ وہاں س سے الگ ہوجائے اور کسی اور سمت سے خیمہ گاہ سے باہر نکلے دونوں الگ ہوگئے ان کی یہ توقع پوری نہ ہوئی کہ وہاں سارا کیمپ سویا ہوا ہوگا سنتری جاگ رہے تھے ایک سنتری نے اندھیرے میں سائے کو حرکت کرتے دیکھا تو اسے بلانے کے بجائے اس کے پیچھے چل پڑا وہ بوڑھا تھا اس نے سنتری کو دیکھ لیا اور وہ کہیں چھپ گیا سنتری آیا۔ اسے ڈھونڈنے لگا وہاں کچھ سامان پڑا تھا اس ڈھیر میں کہیں چھپا رہا پھر اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں سے دبے پاؤں نکل گیا بالکل اسی طرح ایک اور سنتری نے اس کے ساتھی کو دیکھ لیا مظفرالدین نے جاسوسوں پر نظر رکھنے اور انہیں پکڑنے کے بڑے ہی سخت احکام دے رکھے تھے اسے معلوم تھا کہ سلطان ایوبی کے جاسوس بہت تیز اور ہوشیار ہیں چنانچہ مظفرالدین نے اس کے جاسوسوں کو پکڑنے کے لیے خاص قسم کی ہدایات دی تھیں انہی ہدایات کے مطابق سنتری بوڑھے اور اس کے ساتھی کو پکارتے نہیں تھے، ان کا تعاقب کررہے تھے
بوڑھے کا ساتھی بھی چھپ گیا ادھر بوڑھا بھی ایک سنتری کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہا تھا تھوڑی دیر بوڑھا اور ایک جگہ چھپا سنتری اس کے پیچھے آرہا تھا سنتری غلط فہمی میں آگے نکل گیا۔ بوڑھے نے خنجر نکال لیا اس نے ارادہ کرلیا تھا کہ وہ اس سنتری سے نجات حاصل کرنے کے لیے اسے خنجر سے ہلاک کردے گا بوڑھا اٹھا ابھی دیکھ ہی رہا تھا کہ کدھر کو نکلے کہ اچانک ایک آدمی اس کے قریب آ رکا۔ بوڑھے نے ذرہ بھر توقف نہ کیا خنجر اس آدمی کے دل میں اتار دیا فوراً بعد دوسرا وار کیا اس آدمی کے منہ سے آواز نکلی اور خاموش ہوگئی وہ آدمی گر پڑا بوڑھا وہاں سے بھاگنے کی راہ دیکھ رہا تھا کہ کسی نے پیچھے سے اسے دبوچ لیا بوڑھے نے جسم کو اتنی زور سے جھٹکا دیا کہ اسے دبوچنے والا اس سے الگ ہوکر گرا وہ تیز بھاگا مگر کسی چیز سے ٹھوکر کھا کر گر پڑا اسے نے جسے گرایا تھا وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا وہ تیز دوڑا اور بوڑھے کو پیچھے سے پکڑ لیا ساتھ ہی اس نے شور مچا دیا مشعلیں جل اٹھیں۔ تین چار سنتری دوڑے آئے انہوں نے مشعلوں کی روشنی میں دیکھا کہ یہ تو کوئی سفید ریش بزرگ ہے مگر ان سب سے آزاد ہونے کے لیے ایسی پھرتی اور ایسی طاقت کا مظاہرہ کررہا تھا جو اس عمر میں کم ہی کسی انسان میں ہوتی ہے۔ وہ اکیلا تھا سنتری زیادہ تھے وہ ان سے آزاد نہ ہوسکا مگر اس کی کوشش میں اس کی سفید داڑھی اتر کر گر پڑی سب نے دیکھا کہ اس کے چہرے پر چھوٹی چھوٹی سیاہ داڑھی تھی جو سلیقے سے تراشی ہوئی تھی اور وہ ایک جوان آدمی تھا سفید داڑھی مصنوعی تھی
اسے پکڑ کر اس جگہ لے گئے جہاں اس نے ایک سنتری کو خنجر کے دو وار کرکے مار ڈالا تھا مشعل کی روشنی میں سب نے دیکھا کہ وہ کوئی سنتری نہیں بلکہ اسی آدمی کا ساتھی تھا وہ مرچکا تھا۔ اس آدمی نے جو سفید داڑھی لگا کر بوڑھا بنا ہوا تھا، اپنے ہی ساتھی کو سنتری سمجھ کر ہلاک کردیا تھا۔ یہ دونوں ساتھی الگ الگ ہوکر کیمپ سے نکلنے کی کوشش کررہے تھے مگر سنتریوں نے انہیں دیکھ لیا یہ دونوں تعاقب سے بچنے کی کوشش میں اکٹھے ہوگئے سفید داڑھی والے نے اسے سنتری سمجھا اور نہایت عجلت میں اسے خنجر سے مار ڈالا۔ لاش کی تلاشی لی گئی اس کے کپڑوں کے اندر سے خنجر برآمد ہوا ان کے اونٹ پر جو سامان تھا وہ کھول کر دیکھا گیا تو کوئی سامان نہیں تھا بوریوں میں گھاس پھونس بھر کر سامان کا دھوکہ دیا گیا تھا
اس آدمی کو ایک نائب سالار کے خیمے میں لے گئے نائب سالار جاگ اٹھا۔ اس نے اس آدمی سے بہت کچھ پوچھا لیکن اس نے خاموشی اختیار کیے رکھی اس کی سفید داڑھی جو اس کے چہرے سے اتری تھی نائب سالار کو دکھائی گئی اس کے متعلق بھی اس نے خاموشی اختیار کی مگر یہ ایسے ثبوت تھے جنہیں وہ جھٹلا نہیں سکتا تھا اسے کہا گیا کہ وہ تسلیم کرلے کہ وہ سلطان ایوبی کا جاسوس ہے اور اس کا ساتھی بھی جاسوس تھا
اس نے یہ الزام تسلیم کرنے سے انکار کردیا اسے مارا پیٹا گیا بہت پریشان کیا گیا لیکن اس نے اعتراف نہ کیا کہ وہ جاسوس ہے۔ رات گزر گئی صبح اسے مظفرالدین کے سامنے لے جایا گیا اور اسے رات کا واقعہ سنایا گیا اس کی مصنوعی داڑھی اور اس کے اونٹ کا سامان بھی مظفرالدین کے آگے رکھا گیا علی بن سفیان کے شاگرد ہو یا حسن بن عبداللہ کے؟
مظفرالدین نے اس سے پوچھا (علی بن سفیان سلطان ایوبی کی ملٹری انٹیلی جنس کا سربراہ اور حسن بن عبداللہ اس کا نائب تھا)
میں ان دونوں میں سے کسی کو نہیں جانتا ملزم نے جواب دیا میں جانتا ہوں ان دونوں کو مظفرالدین نے کہا میں سلطان صلاح الدین ایوبی کا شاگرد ہوں استاد اپنے شاگرد کو دھوکہ نہیں دے سکتا میرا آپ کے ساتھ اور سلطان ایوبی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ملزم نے جواب دیا
سنو میرے بدقسمت دوست مظفرالدین نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا میں تمہارے ساتھ بحث نہیں کروں گا میں یہ بھی نہیں کہوں گا کہ تم نالائق اور نکمے ہو تم نے اپنا فرض خوش اسلوبی سے ادا کیا ہے پکڑا جانا کوئی عیب نہیں تمہاری بدقسمتی کہ تمہارا ساتھی تمہارے ہی ہاتھوں مارا گیا ہے مجھے صرف یہ بتا دو کہ تمہارا کوئی ساتھی یہاں سے ہوگیا ہے اور وہ ایوبی کو اطلاع دے چکا ہے کہ اس جگہ فوج ہے؟
اور یہ بتا دو کہ اس وقت تمہاری فوج کی ترتیب کیا ہے اور دستے کہاں کہاں ہیں ان سوالوں کا جواب دو اور میں تمہارے ساتھ قرآن کے نام پر وعدہ کرتا ہوں کہ جنگ ختم ہوتے ہی تمہیں رہا کردوں گا اس وقت تک پوری عزت سے تمہیں اپنے پاس رکھوں گا...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*