⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟘 𝟠⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
داستان ایمان فروشوں کی کے اس سلسلے کی پہلی کہانی میں اسی فوج اور اس کے سالار اعلیٰ ناجی کا تفصیلی تذکرہ کیا گیا تھا سلطان ایوبی سے پہلے ناجی مصر کا مختار کل تھا حالانکہ یہاں خلافت کی گدی بھی تھی اور یہ باقاعدہ امارت تھی کیا خلیفہ اور کیا امیر صحیح معنوں میں بادشاہ تھے صلیبیوں نے مصر کو سلطنت اسلامیہ سے کاٹنے کے لیے یہاں تخریب کاری اور سازشوں کے اڈے قائم کرلیے تھے ناجی ان کا اتحادی بن گیا تھا اس نے مصر کی سوڈانی فوج کو اپنے قبضے میں لے رکھا تھا اس فوج کی تعداد پچاس ہزار تھی
سلطان ایوبی نے مصر کی امارت سنبھالی تو اس کی پہلی ٹکر ناجی سے ہوئی سلطان ایوبی نے نورالدین زنگی مرحوم سے منتخب اور جانباز دستوں کی کمک منگوا کر مصر کی پچاس ہزار سوڈانی فوج توڑ دی اس کے بعض سالاروں کو قید میں ڈال دیا اور نئی فوج تیار کرلی تھوڑے ہی عرصے بعد اس نے یہ حکم نامہ جاری کیا کہ سوڈان کی اس معزول فوج کے جو لوگ حلف وفاداری کے ساتھ خلوص نیت سے مصری فوج میں شامل ہونا چاہیں انہیں بھرتی کرلیا جائے سوڈان کے وہ تمام مسلمان جو اس فوج میں تھے واپس آگئے وہ جان گئے تھے کہ انہیں غیر مسلم سازش کا آلۂ کار بنایا گیا تھا سلطان ایوبی کی فوج میں شامل ہوکر انہوں نے جب صلیبیوں کے خلاف دو تین معرکے لڑے اور سلطان ایوبی کو انہوں نے قریب سے دیکھا تو ان کا ایمان تازہ ہوگیا فوجی ٹریننگ کے ساتھ ساتھ انہیں دین و ایمان اور ملی وقار کے وعظ بھی سنائے جاتے اور انہیں بتایا جاتا تھا کہ ان کا دشمن ان کے مذہب کا دشمن ہے جس کی نظر میں اسلام کی بیٹیوں کی کوئی عزت اور عصمت نہیں اب سلطان ایوبی کی جو فوج عرب میں لڑ رہی تھی اس میں خاصی نفری سوڈانی مسلمانوں کی تھی
قاہرہ کی انٹیلی جنس اس صورتحال سے بے خبر تھی کہ سوڈان کی حکومت وہاں کے مسلمانوں کو کئی ایک طریقوں سے قائل کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ مصری فوج میں جانے کے بجائے سوڈان کی فوج میں بھرتی ہوں سوڈانیوں نے مسلمانوں پر تشدد کرکے بھی دیکھ لیا تھا اس کے نتیجے میں سوڈان کا ایک اعلیٰ فوجی افسر خفیہ طریقے سے قتل ہوگیا تھا سوڈان نے اس علاقے میں باقاعدہ فوج بھیجی تھی مسلمانوں نے اسے پہاڑیوں اور وادیوں میں بکھیر کر مار ڈالا یا بھگا دیا تھا مسلمانوں کو علاقے کا فائدہ حاصل تھا چٹانیں اور پہاڑیاں انہیں آڑ مہیا کرتی اور تحفظ دیتی تھیں یہ مسلمان جنگجو بھی تھے
سلطان ایوبی نے ان کے ساتھ علی بن سفیان کے شعبے کی وساطت سے رابطہ قائم رکھا ہوا تھا مصری تاجروں کے قافلوں کے ذریعے ان مسلمانوں کو اتنا اسلحہ دے دیا تھا جس سے وہ سال بھر کے محاصرے میں لڑ سکتے تھے انہیں چھوٹی منجنیقیں اور آتش گیر مادہ بھی پہنچا دیا گیا تھا جو لوگوں نے گھروں میں چھپا رکھا تھا سلطان ایوبی کے منصوبے میں یہ شامل تھا کہ جنگی کارروائی سے یا دیگر ذرائع سے اس علاقے کو مصر میں شامل کرنا ہے تاکہ یہ مسلمان صحیح معنوں میں آزاد ہوجائیں یہ علاقہ سرحد سے آدھے دن کی مسافت پر تھا علی بن سفیان نے وہاں اپنے جاسوس بھیج رکھے تھے جو محض مخبر نہیں تھے تجربہ کار لڑاکے اور چھاپہ مار (کمانڈو) تھے
یہ مسلمان عسکری نوعیت کا خزانہ اور بڑی کارآمد جنگی قوت تھے حالانکہ اس کی تعداد بمشکل پانچ ہزار تھی انہیں چھوڑ کر سوڈان کے پاس حبشی رہ جاتے تھے جن کے ہاں کوئی عسکری تاریخ اور جنگی روایت نہیں تھی وہ ملازموں کی حیثیت سے لڑتے تھے میدان جنگ میں ان کا رویہ یہ ہوتا تھا کہ ان کے دشمن کے پاؤں اکھڑنے لگیں تو شیر ہوجاتے تھے اور اگر دشمن کا دباؤ بڑھ جائے تو محتاط ہوکر لڑتے اور پیچھے ہٹنے لگتے تھے ان کی ٹریننگ کے لیے صلیبی پہنچ گئے تھے یا مصری فوج کے دو تین غدار سالار زروجواہرات کی لالچ میں سوڈان چلے گئے تھے صلیبیوں اور ان کے مصری سالاروں کی بدولت سوڈان کی فوج میں کچھ اہلیت پیدا ہوگئی تھی یہی وجہ تھی کہ سوڈانی حکومت مصر پر کھلا حملہ کرنے سے گھبراتی تھی اور یہی وجہ تھی کہ وہ مسلمانوں کو اپنی فوج میں شامل کرنے کی کوشش کررہی تھی صلیبی مشیر جانتے تھے کہ پچاس ہزار حبشیوں کی نسبت پانچ ہزار مسلمان کافی ہیں
علی بن سفیان کو اطلاع ملی کہ مسلمانوں کے سوڈانی علاقے میں یہ واقعہ ہوا ہے کہ سوڈان کے قید خانے کے ایک سپاہی نے سوڈانی فوج کے کمان دار کو قتل کردیا اور مسلمانوں کے علاقے میں پناہ لے لی ہے یہ خبر لانے والے جاسوس نے علی بن سفیان کو پورا واقعہ سنایا اس نے اس سپاہی سے تصدیق کرلی تھی سپاہی سے اس نے یہ بھی معلوم کرلیا تھا کہ اسحاق نام کا کمان دار قید خانے میں زندہ ہے اور اسے اس مقصد کے لیے تیار کرنے کے لیے قید خانے میں اذیتوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے کہ وہ مسلمانوں کو سوڈان کا وفادار بنا دے جاسوس نے یہ بھی بتایا کہ اس علاقے پر اسحاق کا اثرورسوخ ہے
یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اسحاق کو قید خانے سے رہا کرایا جائے علی بن سفیان نے جاسوس سے پوری رپورٹ لے کر مصر کے قائم مقام امیر العادل سے کہا آپ جانتے ہیں کہ قید خانوں میں کیسا کیسا تشدد کیا جاتا ہے ہم بھی تشدد کرتے ہیں پتھر بھی بول پڑتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ اسحاق سوڈانیوں کے رنگ میں رنگا جائے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ہمارے دو تین اور مسلمان کمان دار قید خانے میں ہیں سب پر تشدد کیا جارہا ہے میں تو یہاں تک مشورہ دینے کو تیار ہوں کہ اپنے کچھ چھاپہ مار مسلمانوں کے علاقے میں بھیج دئیے جائیں میں یہ خدشہ دیکھ رہا ہوں کہ اپنے کمان دار کے قتل کا انتقام لینے کے لیے سوڈانی فوج مسلمانوں پر حملہ کردے گی دوسرے ملک میں چھاپہ مار بھیجنے کے لیے ہمیں ہر پہلو پر غور کرنا پڑے گا العادل نے کہا اس کا نتیجہ کھلی جنگ بھی ہوسکتا ہے
ہمارے پاس غور کرنے کے لیے وقت نہیں علی بن سفیان نے کہا ہمیں فوری طور پر کارروائی کرنی پڑیں گی کسی ذہین قاصد کو پیغام دے کر محترم سلطان کی طرف بھیجا جائے اور ان سے حکم لیا جائے اور دوسری یہ کہ میں خود سوڈان میں داخل ہوکر مسلمانوں کے علاقے میں چلا جاؤں وہاں کے حالات کا جائزہ لینا ضروری ہے صحیح خاکہ صرف میری آنکھ دیکھ سکتی ہے ہوسکتا ہے وہاں فوج حملہ نہ کرے وہاں صلیبی موجود ہیں وہ مسلمانوں کو توہم پرستی میں مبتلا کرکے ان کے نظریات اور عقیدوں کا رخ پھیر سکتے ہیں مسجدوں میں اپنے مولوی بھیج کر لوگوں کو گمراہ کرسکتے ہیں وہ ایسی چالیں مصر کے اندر آکر بھی کرچکے ہیں مجھے یہی ڈر ہے کہ مسلمانوں کے عقیدے اور ملی جذبے پر حملہ ہوگا آپ جانتے ہیں کہ ہماری قوم میں یہ خامی ہے کہ دشمن کی جذباتی اور ہیجابی باتوں میں جلدی آجاتی ہے دشمن دیکھ چکا ہے کہ مسلمان کو میدان جنگ میں مارنا آسان نہیں عقیدوں اور نظرئیوں کی معرکہ آرائی میں دشمن ایسے ہتھیار استعمال کرتا ہے کہ مسلمان ڈھیر ہوجاتے ہیں اگر آپ اجازت دیں تو میں وہاں چلا جاؤں اور آپ ابھی ایک قاصد سلطان محترم کی طرف روانہ کردیں
آپ کی غیرحاضری میں آپ کی ذمہ داریاں کون سنبھالے گا؟
غیاث بلبیس علی بن سفیان نے جواب دیا اس کے ساتھ میرا ایک معاون زاہدین رہے گا آپ کو میری غیرحاضری محسوس نہیں ہوگی بہت بری طرح محسوس ہوگی العادل نے کہا آپ دشمن کے ملک میں جارہے ہیں اگر واپس نہ آسکے تو مصر اندھا اور بہرہ ہوجائے گا
میں نہ ہوا تو قوم مر نہیں جائے گی علی بن سفیان نے مسکرا کر کہا افراد قوموں کی خاطر مرتے رہیں تو قومیں زندہ رہتی ہیں سلطان صلاح الدین ایوبی یہ سوچ لیں کہ وہ مارے گئے تو قوم تباہ ہوجائے گی تو وہ گھر بیٹھ جائیں اور سلطنت اسلامیہ پر صلیبی ہاتھ صاف کرجائیں مجھے سلطان کا یہ اصول بہت پسند ہے وہ کہا کرتے ہیں کہ دشمن کا انتظار گھر بیٹھ کر نہ کرو اس پر نظر رکھو وہ تیاری کی حالت میں ہو تو اس کے پہلو یا عقب میں چلے جاؤ میں اسی اصول پر سوڈان جارہا ہوں دشمن نے مسلمانوں کے علاقے میں کامیابی حاصل کرلی تو ہم اپنے کون سے کارنامے پر فخر کریں گے آپ چلے جائیں العادل نے کہا یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ احتیاط لازمی ہے میں سلطان کے نام پیغام لکھ کر بھیج دیتا ہوں
علی بن سفیان سوڈان میں داخل ہونے کی تیاری کرنے چلا گیا العادل نے کاتب کو بلایا اور سلطان ایوبی کے نام پیغام لکھوانے ل۔ اس نے سوڈان سے مسلمانوں کے علاقے کی اطلاع تفصیل سے لکھوائی یہ بھی لکھوایا کہ یہ پیغام آپ تک پہنچنے سے پہلے علی بن سفیان سوڈان میں جاچکا ہوگا العادل نے علی بن سفیان کے مشورے بھی لکھوائے اور سلطان صلاح الدین ایوبی سے پوچھا کہ کیا کرنا چاہیے قاصد کو پیغام دے کر العادل نے اسے کہا کہ اسے ہر چوکی سے گھوڑا بدلنا ہے اور گھوڑے کی رفتار کسی بھی حالت میں سست نہیں ہوگی کھانا پینا دوڑتے گھوڑے پر ہوگا اگر راستے میں دشمن کے چھاپہ ماروں کا خطرہ ہوا تو قاصد پیغام ضائع کردے گا ان ہدایات کے ساتھ قاصد کو روانہ کردیا گیا
عمرو درویش شہر سے بہت دور نکل گیا تھا اس کے اردگرد کوئی آبادی نہیں تھی سورج غروب ہورہا تھا عمرو درویش رات کے قیام کے لیے کوئی موزوں جگہ دیکھ رہا تھا دور اسے درخت نظر آئے جہاں پانی بھی ہوسکتا تھا لیکن اس کے پاس پانی کا ذخیرہ موجود تھا اونٹوں کو پانی کی ضرورت نہیں تھی وہ نخلستان سے دور قیام کرنا چاہتا تھا تاکہ صحرائی ڈاکوؤں سے بچا رہے اس کے ساتھ آشی تھی جو سیاہ برقعے میں مستور تھی
یہ قیمتی لڑکی تھی کسی ڈاکو کی نظر پڑ جانے سے اس کا بچنا ناممکن تھا اسے ایک جگہ نظر آگئی اس نے اونٹ روکے اور وہیں خیمہ گاڑ لیا اسے دو شتر سوار اپنی طرف آتے نظر آئے آشی کو اس نے خیمے میں بھیج کر پردے گرا دئیے اور خود باہر کھڑا ہوگیا اس کے چغے میں تلوار چھپی ہوئی تھی۔ خنجر بھی تھا اور خیمے میں دو کمانیں اور بہت سے تیر بھی تھے شتر سواروں کو اپنی طرف آتا دیکھ کر وہ سوچنے لگا کہ یہ ڈاکو ہوئے تو کیا وہ ان کا مقابلہ کرسکے گا اسے یہ اطمینان تھا کہ آشی صرف دل بہلانے والی لڑکی نہیں وہ لڑ بھی سکتی ہے تیر اندازی کی اسے تربیت حاصل تھی وہ صلیبیوں کی تیار کی ہوئی تخریب کار لڑکی تھی شتر سوار آرہے تھے عمرو درویش نے منہ انہی کی طرف رکھا اور آشی سے کہا کمان میں تیر ڈال لو اگر یہ ڈاکو نکلے تو پردے کے پیچھے سے تیر چلا دینا شتر سوار خیمے کے قریب آکر رکے ایک نے اونٹ کی پیٹھ سے ہی پوچھا تم کون ہو؟
کہاں جارہے ہو؟
عمرو درویش نے ہاتھ آسمان کی طرف کرکے جھومتی ہوئی آواز میں کہا جس کے سینے میں آسمان کا پیغام ہو اس کی کوئی منزل نہیں ہوتی میں کون ہوں؟
مجھے بھی معلوم نہیں کبھی کچھ ہوا کرتا تھا
آسمان سے ایک پیغام آیا میرے سینے میں اتر گیا ذہن سے یہ نکل گیا کہ میں کون ہوں میں کہاں جارہا ہوں؟
میرے سینے میں جو روشنی اتر آئی ہے وہ بتا سکتی ہے اس میں میرے ارادوں کا کوئی دخل نہیں میں آگے جارہا تھا صبح کو شاید پیچھے چل پڑوں دونوں اونٹوں سے اتر آئے ایک نے کہا آپ تو کوئی پیر پیغمبر معلوم ہوتے ہیں ہم دونوں مسلمان ہیں کیا آپ غیب کی خبر دے سکتے ہیں ہم گناہ گاروں کو سیدھا راستہ دکھا سکتے ہیں؟
میں بھی مسلمان ہوں عمرو درویش نے وجد کی سی کیفیت میں کہا تم بھی مسلمان ہو مجھے تمہاری تباہی نظر آرہی ہے میں بھی تمہاری طرح پوچھتا پھرتا تھا کہ سیدھا راستہ کون سا ہے کسی کو معلوم نہیں تھا
خون میں ڈوبی ہوئی لاشوں میں مجھے سبز رنگ کا ایک چغہ اور اس میں سفید داڑھی والا ایک انسان کھڑا نظر آیا اس نے مجھے لاشوں سے اٹھایا اور سیدھا راستہ دکھایا پھر وہ لاشوں کے خون میں غائب ہوگیا تم پہاڑیوں میں رہتے ہو تو صحراؤں میں چلے جاؤ مصر کا نام دل سے اتار دو وہ فرعونوں کا ملک ہے وہاں جو بادشاہ آتا ہے اسے مصر کی مٹی اور وہاں کی ہو
اب تو وہاں کا بادشاہ صلاح الدین ایوبی ہے ایک شتر سوار نے کہا وہ پکا مسلمان ہے اس کا نام مسلمانوں جیسا ہے عمرو درویش نے ایسے لہجے میں کہا جیسے خواب میں بول رہا ہو وہی تمہاری تباہی لا رہا ہے تم جس مٹی سے پیدا ہوئے وہ اس کی عزت پر خون بہاؤ تم سوڈان کے بیٹے ہو مگر سوڈان کا بادشاہ کافر ہے شترسوار نے کہا وہ مسلمان ہوجائے گا عمرو درویش نے کہا وہ مسلمانوں کی راہ دیکھ رہا ہے اس کی فوج کافروں کی فوج ہے اس لیے وہ اسلام کا نام نہیں لیتا تم سب جاؤ تلواریں برچھیاں تیروکمان لے کر جاؤ اونٹوں اور گھوڑوں پر سوار ہوکر جاؤ اسے بتاؤ کہ تم اس کے محافظ ہو تم سوڈان کے محافظ ہو اس نے بلند آواز سے کہا جاؤ اٹھو یہاں سے چلے جاؤ دونوں اونٹوں پر سوار ہوئے اور چلے گئے کچھ دور جاکر ایک سوار نے دوسرے سے کہا دھوکہ نہیں دے گا
میرا بھی یہی خیال ہے دوسرے نے کہا پکا معلوم ہوتا ہے سبق بھولا نہیں آشی جیسا خوبصورت انعام ہمیں مل جائے تو ہم اپنے ماں باپ کے بھی خلاف ہوجائیں شتر سوار نے کہا واپس چلتے ہیں دوسرے نے کہا بتائیں گے کہ سب ٹھیک ہے لڑکی شاید خیمے میں ہوگی آدمی ہوشیار معلوم ہوتا ہے اس نے لڑکی کو چھپا دیا تھا اس نے کہا میرا خیال ہے انہیں کسی حفاظت کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے دوسرے نے کہا سپاہی ہے اس کے پاس ہتھیار بھی ہیں تیروکمان بھی لڑکی بھی ہوشیار ہے
یہ دونوں سوڈانی جاسوس تھے جنہیں یہ معلوم کرنے کے لیے عمرو درویش کے پیچھے بھیجا گیا تھا کہ یہ کام سکیم کے مطابق کررہا ہے یا نہیں عمرو درویش نے بڑی اچھی اداکاری کی تھی جس سے یہ دونوں مطمئن ہوکر چلے گئے یہ ڈاکو نہیں تھے عمرو درویش نے خیمے میں جاکر آشی سے کہا چلے گئے ہیں یہ ڈاکوؤں سے زیادہ خطرناک تھے آشی نے کہا تم نے انہیں بڑے اچھے طریقے سے ٹالا ہے پھر بولی جنہوں نے تمہیں ادھر بھیجا ہے ان کے جاسوس تھے آشی نے کہا یہ تمہیں دیکھنے آئے تھے کہ تم انہیں دھوکہ تو نہیں دے رہے
تم انہیں جانتی ہو؟
میں انہی کے درخت کی ایک ٹہنی ہوں آشی نے کہا ان سے کٹ کر گر پڑی تو سوکھ جاؤں گی مجھے تم سے بھی محتاط رہنا پڑے گا
لڑکی ہنس پڑی اور بولی تم نے خود ہی مجھے انعام کے طور پر مانگا تھا
رات وہ خیمے میں گہری نیند سوئے ہوئے تھے آشی کی آنکھ کھل گئی باہر بھیڑئیے غرا رہے تھے اونٹ ڈر کر اٹھ کھڑے ہوئے اور عجیب طریقے سے بولنے لگے آشی نے عمرو درویش کو جگایا اور اسے بتایا کہ وہ خوف کے مارے مر رہی ہے عمرو درویش نے باہر کی آواز سنی تو آشی سے کہا یہ بھیڑئیے ہیں قریب نہیں آئیں گے اونٹ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں کوئی ڈر نہیں بھیڑئیے ان سے ڈر کر بھاگ جائیں گے
اچانک بھیڑئیے آپس میں لڑ پڑے ایسی خوفناک آوازیں تھیں کہ آشی چیخ مار کر عمرو درویش پر جا پڑی وہ بیٹھا ہوا تھا اس نے آشی کو اس طرح اپنی آغوش اور بازوؤں کی پناہ میں لے لیا جس طرح ماں ڈرے ہوئے بچے کو چھپا لیا کرتی ہے لڑکی کا سارا جسم کانپ رہا تھا اس کے منہ سے بات نہیں نکل رہی تھی بھیڑئیے لڑتے لڑتے دور چلے گئے تھے
عمرو درویش لڑکی کو پرے کرنے لگا اور کہا وہ چلے گئے ہیں سوجاؤ نہیں آشی نے اس کی آغوش سے سر نہ اٹھایا دھیمی سی آواز میں بولی ذرا دیر اور یہیں پڑے رہنے دو
عمرو درویش کو یہ صورت پسند نہیں تھی اس کا خیال تھا کہ وہ اسے اپنے حسین جال میں پھانسنے کی کوشش کررہی ہے وہ اور زیادہ پتھر بن گیا لڑکی کا جسم بڑا ہی گداز اور بال بہت ہی ملائم تھے اس نے اتنی حسین لڑکی کو کبھی چھو کر بھی نہیں دیکھا تھا اب محسوس کرنے لگا کہ لڑکی اسی طرح اس کی آغوش میں پڑی رہی تو وہ اس انگیخت کا مقابلہ نہیں کرسکے گا وہ آخر انسان تھا اور تنومند مرد تھا اس نے اپنے نفس کا مقابلہ شروع کردیا کچھ دیر بعد لڑکی نے سر اٹھایا تاریکی میں اس کے چہرے کے تاثرات نظر نہیں آرہے تھے اس نے ہاتھوں سے عمرو درویش کا چہرہ ٹٹول کر دونوں ہاتھوں میں تھام لیا اور کہا تم نے ایک رات مجھ سے پوچھا تھا کہ تمہارا ماں باپ کون ہیں اور کہاں ہیں یہی سوال تمہارے دوسرے ساتھی نے جو تم سے پہلے اس کمرے میں آیا تھا مجھ سے پوچھا تھا مجھے ان کے متعلق کچھ بھی معلوم نہیں تھا مگر یہ سوال مجھے پریشان کرتا رہا اور بہت ہی پرانی یادیں بیدار کرتا رہا مجھے کچھ یاد آتا تھا لیکن ذہن کے اندھیرے میں گم ہوجاتا تھا آج یاد آگیا ہے تم نے مجھے اپنے بازوؤں میں لے کر مجھے اپنی آغوش میں چھپا لیا تو میرے ذہن میں روشنی سی چمکی اس نے مجھے بہت ہی پرانا وقت دکھا دیا میں اس وقت بہت چھوٹی تھی مجھے باپ نے اسی طرح سینے سے لگا کر مجھے اپنے بازوؤں میں چھپا لیا تھا
وہ چپ ہوگئی وہ یادوں کی کڑیاں ملانے کی کوشش میں مصروف تھی اچانک بچوں کی سی شوخی سے بولی ہاں وہ میرا باپ تھا ایسا ہی ریگستان تھا معلوم نہیں رات تھی یا دن تھا ہم ایک قافلے کے ساتھ جارہے تھے بہت سے گھوڑ سوار آئے اور قافلے پر ٹوٹ پڑے ان کے پاس تلواریں اور برچھیاں تھیں یہ ڈراؤنا سا خواب ہے جو آج تمہاری آغوش اور بازوؤں کی گرمی سے ذہن میں زندہ ہوگیا ہے مجھے باپ نے تمہاری طرح پناہ میں لے لیا تھا یہ بھی یاد آگیا ہے میرے باپ کے بازو ڈھیلے پڑ گئے تھے اور وہ پیچھے کو گر پڑا تھا اس نے ایک بار پھر مجھے بازوؤں میں جکڑ لیا ماں بھی یاد آگئی ہے وہ میرے اوپر گری تھی شاید مجھے بچانے کے لیے گری تھی پھر یاد آتا ہے کہ وہ ایک طرف لڑھک گئی تھی مجھے خون بھی یاد آتا ہے کسی نے مجھے بازو سے پکڑ کر اٹھا لیا تھا اور کسی نے کہا تھا خالص ہیرا ہے جوان ہوئی تو دیکھنا مجھے اپنی چیخیں بھی یاد آگئی ہیں میں آج رات کی طرح چیخی تھی
دماغ پر زیادہ زور نہ دو عمرو درویش نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا میں ساری کہانی بوجھ گیا ہوں تم مسلمان کی اولاد ہو تم عرب یا فلسطین کی رہنے والی ہو صلیبی مسلمانوں کے قافلوں کو لوٹ لیا کرتے تھے اب بھی جو علاقے ان کے قبضے میں ہیں وہاں وہ مسلمانوں کے قافلوں کو لوٹ لیتے ہیں وہ زروجواہرات اور تم جیسی خوبصورت بچیوں کو لے جاتے ہیں میں جان گیا ہوں تم یہاں تک کیسے پہنچی ہو میں جب کچھ سوچنے سمجھنے لگی تو میں نے اپنے جیسی بہت سی بچیوں کو دیکھا آشی نے کہا ہمیں بہت اچھا کھانا اور بہت خوبصورت کپڑے پہنائے جاتے تھے گورے گورے آدمی اور عورتیں ہم سے بہت پیار کرتی تھیں انہوں نے میرے ذہن سے ساری یادیں مٹا دی تھیں میں وہیں بڑی ہوئی تھی وہ یروشلم تھا لڑکپن سے ہمیں بے حیائی کے سبق ملنے لگے شراب بھی پلائی جاتی تھی عربی زبان سکھائی گئی پھر سوڈانی زبان سکھائی گئی میں جب جوان ہوئی تو مجھے اس استعمال میں لایا جانے لگا جس میں تم نے مجھے دیکھا ہے تیغ زنی اور تیر اندازی کی ہمیں بہت مشق کرائی گئی تھیں آج تم نے مجھے خوفزدگی کی حالت میں پناہ میں لیا تو مجھے اچانک اپنا باپ یاد آگیا میرے متعلق اس کے جذبات پاک تھے اور تمہارے جذبات بھی پاک ہیں اسی لیے میں نے تمہیں کہا تھا کہ مجھے کچھ دیر اور اپنی آغوش میں پڑا رہنے دو مجھے اپنے باپ کی آغوش کا لطف آرہا تھا جب تک میں زندہ ہوں تمہاری غلام رہوں گی میں اب سوڈانیوں اور صلیبیوں کے لیے کام نہیں آسکوں گی یہ تمہاری پاکیزہ خیالی اور نیک نیتی کا کرشمہ ہے میں مسلمان ہوں تم نے میری رگوں میں مسلمان باپ کا خون گرما دیا ہے اب میں تمہیں یہ کام نہیں کرنے دوں گی جس کے لیے تم جا رہے ہو تم نے میرے اندر ایمان کی قندیل روشن کر دی ہے
چند دن مجھے یہ کام کرنا پڑے گا عمرو درویش نے کہا میں کسی اور مقصد کے لیے جا رہا ہوں
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
عمرو درویش جب خیمہ اکھاڑ کر سوڈانی مسلمانوں کے پہاڑی علاقے کو روانہ ہونے کی تیاری کر رہا تھا تو وہ اس حسین جمیل لڑکی کے متعلق سوچ رہا تھا جو اس کی ہمسفر تھی لڑکی مسلمان تھی اس کی حیثیت کی وجہ سے عمرو درویش اسے صلیبیوں کا آلۂ کار بنے رہنے سے باز رکھنا چاہتا تھا مگر وہ چار پانچ سال کی عمر میں صلیبیوں کے ہاتھ لگی تھی انہوں نے بیس سال کا عرصہ صرف کرکے اس پر جو رنگ چڑھا دیا تھا وہ اتارنا آسان نہیں تھا بیشک لڑکی نے اپنے ذہن میں اس حقیقت کو خود ہی دریافت کرلیا تھا کہ وہ مسلمان ماں باپ کی بیٹی ہے اور اس نے اپنے دل میں صلیبی آقاؤں کے خلاف نفرت پیدا کرکے عمرو درویش سے کہا تھا کہ میں تمہاری مدد کروں گی مگر عمرو درویش سوچ رہا تھا کہ اس لڑکی پر اعتبار کرے یا نہ کرے رات ایک ہی خیمے میں گزار کر صبح لڑکی نے عمرو درویش سے پوچھا مجھے شک ہے کہ تم مجھے ابھی تک اپنا دشمن سمجھ رہے ہو عورت کے جال میں الجھ کر مسلمان قوم نے بہت نقصان اٹھایا ہے آشی! عمرو درویش نے جواب دیا تم بہت ہی خوبصورت ہو تمہاری تربیت ایسی کی گئی ہے کہ تمہاری چال ڈھال بول چال اور انداز انسان کے اندر حیوان کو بیدار کردیتا ہے میں جوان ہوں کئی سال میدان جنگ میں اور کچھ عرصہ سوڈان کے قید خانے میں جنگی قیدی کی حیثیت سے گزارا ہے اتنی لمبی مدت گھر کی چاردیواری نہیں دیکھی رات خیمے میں تم میرے ساتھ تنہا تھیں میں رات بھر خدا ذوالجلال سے مدد مانگتا رہا کہ میں حیوانیت کا مقابلہ کرسکوں میں کامیاب رہا خداوند دو عالم نے میری بہت مدد کی پھر میں یہ سوچتا رہا کہ تمہیں اپنا دشمن سمجھوں یا دوست میں اب بھی یہی سوچ رہا ہوں میں ابھی تمہارا یہ شک رفع نہیں کرسکتا کہ تمہیں اپنا دشمن سمجھتا ہوں تمہیں ثابت کرنا ہے کہ تم قابل اعتماد ہو میں تمہیں ایک بار پھر کہتی ہوں کہ تم نے میرے سینے میں ایمان کی شمع روشن کردی ہے آشی نے کہا اور میں تمہیں یہ بھی بتا دوں کہ تم اگر اس مہم میں جس پر تمہیں سوڈانیوں نے بھیجا ہے سوڈانیوں کو دھوکہ دینا چاہو گے تو میں تمہارا ساتھ دوں گی میری جان بھی چلی جائے تو پیچھے نہیں ہٹوں گی یہ میں نے ہی تمہیں بتایا تھا کہ یہ جو دو آدمی تمہارے مرید بن کر گئے ہیں دراصل سوڈانیوں کے جاسوس ہیں
مجھے سوچنے دو آشی! عمرو درویش نے کہا میں جان گیا ہوں کہ میرے اردگرد جاسوسوں کا جال بچھا ہوا ہے میں تمہیں بھی اسی جال کا ایک حصہ سمجھتا ہوں تم ابھی اسی طرح کرنا جس طرح تمہیں بتایا گیا ہے میں بھی اسی سبق اور ہدایت پر عمل کروں گا جو مجھے دی گئی ہے میں نے تمہیں کہا تھا کہ میں کسی اور مقصد کے لیے جارہا ہوں مگر میں اس مہم سے انحراف بھی نہیں کرسکتا میں انحراف کا نتیجہ جانتا ہوں کیا ہوگا دو تین تیروں کے رخ ہر لمحہ میری طرف رہتے ہیں میں انہیں اس وقت دیکھ سکوں گا جب یہ سینے میں اتر جائیں گے میں ہر حال میں تمہارا ساتھ دوں گی آشی نے کہا میں ثابت کروں گی کہ میری رگوں میں مسلمان باپ کا خون ہے
وہ اونٹوں پر سوار مسلمانوں کے علاقے کی طرف جارہے تھے تیسرے اونٹ پر ان کا خیمہ اور دیگر سامان لدا ہوا تھا آشی جو نیم عریاں رہتی تھی سیاہ کپڑوں میں ملبوس اور اس کا چہرہ مستور تھا دیکھنے والا کہہ نہیں سکتا تھا کہ یہ آبرو باختہ لڑکی صلیبیوں کا ایک خوبصورت تیر ہے جو پتھر جیسے انسان کے دل میں اتر جائے تو وہ موم ہوکر صلیبیوں کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے دور ایک گھوڑ سوار اسی سمت جارہا تھا جدھر یہ دونوں جارہے تھے عمرو درویش نے اس سوار کو کئی بار دیکھا تھا وہ سوچ رہا تھا کہ یہ سوڈانیوں کے ان جاسوسوں میں سے ہی ہوگا جو اس کے ساتھ سائے کی طرح لگے ہوئے ہیں یہ شک اسے پریشان کررہا تھا کہ یہ صحرائی راہزنوں کا کوئی آدمی ہوا تو وہ کیا کرے گا آشی! اس نے اپنی ہمسفر سے کہا اس سوار کو دیکھ رہی ہو جو افق پر جارہا ہے؟
بہت دیر سے دیکھ رہی ہوں ہمارے پاس ہتھیار ہیں آشی نے دلیرانہ جواب دیا رات کو سوتے وقت ہم پر آپڑے تو میں کچھ نہیں کہہ سکتی دن کے وقت ہم ان کا مقابلہ کریں گے تمہارے ساتھ میں ہی ایک دولت ہوں وہ مجھے زندہ نہیں لے جاسکیں گے
صحرا کے ان خطروں میں وہ چلتے گئے سورج اوپر آکر مغرب کی طرف نیچے جاتا رہا اور انہیں پہاڑیاں نظر آنے لگیں بلند پہاڑیاں تو دور تھیں یہ علاقہ جہاں سے شروع ہوتا تھا وہ جگہ دور نہیں تھی اونٹ چلتے گئے اور وہ علاقہ آگیا جہاں عمرو درویش کو اپنی مہم کا آغاز کرنا تھا مسلمانوں کا پہلا گاؤں تھوڑی ہی دور تھا عمرو درویش خود بھی اسی علاقے کا رہنے والا تھا گھوڑ سوار جو دور دور جارہا تھا رخ بدل کر ادھر آگیا اور ان سے آن ملا تمہارا قیام اس جگہ ہوگا گھوڑ سوار نے عمرو درویش سے کہا تم مجھے نہیں جانتے میں تمہیں جانتا ہوں اسے دیکھ کر آشی نے چہرے سے نقاب اٹھا دیا تھا اور وہ مسکرا رہی تھی سوار نے اس سے پوچھا سفر اچھا گزرا؟
بہت اچھا آشی نے بے باک مسکراہٹ سے جواب دیا تم دونوں گھبرانا نہیں سوار نے کہا تمہارے سفر کے دوران تمہاری حفاظت کا ایسا انتظام ساتھ ساتھ رہا ہے جسے تم دونوں دیکھ نہیں سکے ورنہ اتنی خوبصورت لڑکی یہاں تک نہ پہنچ سکتی تم کون ہو؟
عمرو درویش نے اس سے پوچھا سوڈانی مسلمان سوار نے جواب دیا اس نے کہا اب یہ نہ سوچو کہ تم کون ہو اور میں کون ہوں تم بھی میری طرح اسی علاقے کے مسلمان ہو تم اچھی طرح جانتے ہو کہ یہاں ذرا سی بھی غلطی ہوگئی تو یہاں کے مسلمان ہماری بوٹیاں اڑا دیں گے سوار نے آگے ہوکر راز داری سے کہا اور یہ بھی یاد رکھنا کہ تم نے اپنے کام میں کوئی گڑبڑ کی تو بغیر اطلاع قتل ہو جاؤ گے تمہیں اچھی طرح معلوم ہے یہاں تمہیں کیا کرنا ہے آج رات تم آرام کرو گے کل تمہارے پاس یہاں کے لوگ آنے لگیں گے آشی کو معلوم ہے کہ اسے کیا کرنا ہے
عمرو درویش کو سب کچھ معلوم تھا اسے اس علاقے کے مسلمانوں کو گمراہ کرنا تھا سلطان ایوبی کے خلاف نفرت پھیلانی تھی اور مسلمانوں کو سوڈان کا وفادار بنا کر انہیں اس سوڈانی فوج میں بھرتی ہونے کے لیے تیار کرنا تھا جسے مصر پر حملہ اور قبضہ کرنے کے لیے تیار کیا جارہا تھا سلطان ایوبی مصر سے غیرحاضر تھا وہ اس وقت سپین میں برسرپیکار تھا صلییبیوں کا یہ منصوبہ تھا کہ سوڈانی فوج کو تیار کرکے مصر پر حملہ کیا جائے مگر سوڈانی مسلمانوں کے جنگجو قبیلے سوڈان کے باشندے ہونے کے باوجود صلاح الدین ایوبی کے معتقد اور مرید تھے
عمرو درویش ان کے عقیدوں کو تہس نہس کرنے آیا تھا سورج غروب ہوگیا تھا جب عمرو درویش نے اس سوار کی مدد سے خیمہ گاڑ لیا سوار نے جانے سے پہلے کہا کل شاید مجھے تمہارے ساتھ الگ بات کرنے کا موقعہ نہ ملے لوگ صبح سویرے یہاں آجائیں گے اس نے ایک پہاڑی کی طرف اشارہ کرکے کہا شام کو دھندلاہٹ میں بھی وہ اوپر تمہیں چھاتے کی طرح درخت نظر آتا ہوگا اسے یاد رکھنا کل رات تمہیں ادھر مشعل کا اشارہ کرنا ہے کل جو کپڑا تمہیں استعمال کرنا ہے اسے صبح تیار کرلینا میں جارہا ہوں اب ذرا ذرا سی حرکت میں بھی احتیاط کرنا
وہ لڑکی کو اشارے سے باہر لے گیا اور اسے کہا تمہیں زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے یہاں کے مسلمان وحشی ہیں ہم تمہاری حفاظت کے لیے موجود ہیں لیکن تمہیں اپنی حفاظت خود زیادہ کرنی ہوگی اس آدمی کو اپنے قبضے میں رکھنا اس نے لڑکی کے شانوں پر بکھرے ہوئے بالوں کو چھیڑ کر اور ہونٹوں پر شیطانی مسکراہٹ لاکر کہا ان حسین زنجیروں میں تو تم شیر کو بھی جکڑ سکتی ہو تم بھی تو یہیں کے مسلمان ہو آشی نے طنزیہ کہا تم وحشی نہیں ہو؟
تمہیں دیکھ کر کون وحشی نہیں ہوجاتا اس نے کہا اور گھوڑے پر سوار ہوکر شام کے گہرے ہوتے اندھیرے میں غائب ہوگیا یہ سوار ان مسلمانوں میں سے تھا جنہوں نے ایمان بیچ ڈالا تھا اور دشمن کے اس زمین دوز حملے کی قیادت کررہا تھا جو سیدھے سیدھے مسلمانوں کے عقیدے پر کیا جارہا تھا وہ اسی علاقے کے کسی گوشے کا رہنے والا تھا کسی کو معلوم نہ تھا کہ وہ قوم کی آستیں کا سانپ ہے اس حملے میں وہ اکیلا نہیں تھا یہ آٹھ دس مسلمانوں کا گروہ تھا وہ گھوڑے پر سوار ایک گاؤں کی طرف چلا جارہا تھا راستے میں اسے ایک اور آدمی مل گیا وہ اسی کی راہ دیکھ رہا تھا
سب ٹھیک ہے؟
اس نے سوار سے پوچھا
ہے تو سب ٹھیک سوار نے جواب دیاvکسی بھی وقت معاملہ چوپٹ ہوسکتا ہے اگر صلیبیوں نے مجھے پکے سبق پڑھائے ہیں تو میں کہہ سکتا ہوں کہ لڑکی کے تیور بدلے ہوئے لگتے ہیں وہ کچھ بجھی بجھی اور خاموش خاموش نظر آتی ہے
آشی تو کہتے ہیں بہت ہوشیار اور تیز لڑکی ہے شاید سفر کی تھکن سے تیزی ماند پڑ گئی ہو سوار نے کہا عمرو درویش بھی تو وحشی ہے وہ باتیں کرتے گاؤں میں داخل ہوئے ایک جگہ دو آدمی کھڑے باتیں کر رہے تھے
سوار اور ساتھی ان کے پاس رک گئے بتایا کہ وہ سفر میں ہیں اور اپنے گاؤں کو جارہے ہیں اپنے گاؤں کا نام بھی بتایا اور حیرت زدہ لہجے میں کہا یہاں سے تھوڑی دور ایک بزرگاترا ہوا ہے صرف خدا کے ساتھ باتیں کرتا ہے دن کے وقت بھی دائیں اور بائیں دو مشعلیں جلا کر رکھتا ہے ہم اسے دیکھ کر اس کے پاس بیٹھ گئے وہ قرآن پڑھ رہا تھا زبانی پڑھتا ہے اس نے ہماری طرف توجہ نہیں دی ہم نے اسے بلایا وہ نہیں بولا اس کے خیمے کے قریب سے زمین سے دھوئیں کا بادل اٹھا بادل اوپر جاکر غائب ہوگیا اور اس میں سے ایک لڑکی نکلی جس کے حسن کو ہم بیان نہیں کرسکتے ہم ڈر گئے کیونکہ لڑکی انسان نہیں جن معلوم ہوتی تھی اس نے بزرگ کے آگے سجدہ کیا سجدہ سے اٹھ کر کان بزرگ کے منہ کے ساتھ لگایا بزرگ کے ہونٹ ہلے لڑکی ہمارے سامنے آن کھڑی ہوئی ہم ڈر کر بھاگنے لگے لیکن زمین نے ہمیں پکڑ لیا شاید لڑکی کی آنکھوں نے ہمیں جکڑ لیا اس نے ہمیں کہا یہ خدا کا ایلچی ہے تم سب کے لیے پیغام لایا ہے اسے پریشان نہ کرو یہ اس وقت خدا کے ساتھ باتیں کررہا ہے کل آؤ اگر اس نے تم پر کرم کیا تو تم سب کو طور کا جلوہ دکھائے گا میں ابھی ابھی کوہ طور سے آئی ہوں اس نے بلایا تھا اس نے میرے کان میں کہا ہے کہ ان سے کہو کہ تمہاری تقدیر بدل دوں گا بے صبر ہو جاؤ گے تو کہیں اور چلا جاؤں گا ہم لڑکی کے ساتھ بات نہیں کرسکے ہمارے جسم پر اس کا قبضہ ہوگیا تھا ہم کچھ بھی نہیں بول سکے بزرگ کی طرف دیکھا تو اس کے سر پر نور کا ہالہ تھا ہم وہاں سے چلے آئے
ان کا لہجہ سنسنی خیز تھا صاف پتہ چلتا تھا کہ ان پر حیرت اور خوف طاری ہے انسانی فطرت کی یہ کمزوری ہے کہ حیرت انگیز بات جذبات کو ہلا دیتی ہے سنسنی سرور دیتی ہے یہی حال ان دو سننے والوں کا ہوا انہوں نے دو گھروں کے دروازوں پر دستک دے کر دو تین آدمیوں کو بلا لیا اور جو انہوں نے سنا تھا وہ انہیں سنا دیا سوار اور اس کے ساتھی نے دل پسند اور لذیذ سے اضافے بھی کردئیے لڑکی کا حسن ایسے الفاظ میں بیان کیا کہ سننے والے خدا اور قرآن کے بجائے اور اس بزرگ کے بجائے اپنے دماغوں پر لڑکی کو سوار کرنے لگے ان آدمیوں نے سوار اور اس کے ساتھی کو مہمان ٹھہرا لیا دوسرے گھروں کے آدمی بھی آگئے
ابھی سورج نہیں نکلا تھا جب اس گاؤں کے تمام آدمی سوار اور اس کے ساتھی کی رہنمائی میں اس جگہ کو روانہ ہوگئے جہاں عمرو درویش اور آشی نے خیمہ لگا رکھا تھا خیمے کے سامنے چھوٹے سے قالین پر عمرو دریش آلتی پالتی مارے بیٹھا آنکھیں بند کیے کچھ بڑبڑا رہا تھا ایک ڈنڈا اس کے دائیں طرف اور ایک بائیں طرف زمین پر گڑھا ہوا تھا اس کے اوپر والے سروں پر تیل میں بھیگے ہوئے کپڑے لپٹے ہوئے تھے جو جل رہے تھے یہ مشعلیں تھیں جب گاؤں والے وہاں پہنچے تو عمرودرویش سے آٹھ دس قدم دور تین آدمی کھڑے تھے گاؤں کے لوگ آئے تو ان تینوں کے پاس رک گئے ان تین میں سے ایک نے کہا میں آگے جاکر بزرگ سے بات کرتا ہوں وہ تین چار قدم آگے گیا تو یوں پیچھے کو پیٹھ کے بل گرا جیسے آگے سے اسے کسی نے دھکا دیا ہو وہ اٹھ کر لوگوں میں جاکھڑا ہوا خوف سے وہ کانپ رہا تھا اس نے خوفزدہ آواز میں کہا آگے نہ جانا مجھے کسی نے آگے سے دھکا دیا ہے یہ کوئی جن تھا جو مجھے نظر نہیں آیا دوسرے دو نے کہا ہم آگے جاتے ہیں تم ڈر کر گر پڑے تھے وہ دونوں اکٹھے آگے گئے تین چار قدم گئے تو دونوں پہلے آدمی کی طرف پیٹھ کے بل گرے جلدی سے اٹھے لوگ ڈر گئے۔m سب کو یقین ہوگیا کہ اس بزرگ نے پہرے پر جنات کھڑے کررکھے ہیں جو کسی کو آگے نہیں جانے دیتے خیمے سے ایک لڑکی نکلی یہ آشی تھی اس نے سیاہ ریشمی لباس پہن رکھا تھا ٹھوڑی اور منہ باریک پردے میں تھے آنکھیں ننگی تھیں سر سیاہ کپڑے سے ڈھانپ رکھا تھا بال شانوں سے ہوتے ہوئے سینے پر پڑے ہوئے تھے وہ تھی مستور لیکن لباس ایسا تھا کہ نیم عریاں لگتی تھی اس پہاڑی علاقے کے لوگوں نے اس قسم کی لڑکی پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی وہ اسے جنات میں سے سمجھ رہے تھے اس کی چال بھی نرالی اور دلکش تھی آشی نے عمرودرویش کے آگے سجدہ کیا سجدے سے اُٹھ کر کان اس کے منہ کے ساتھ لگادیا اس کے ہونٹ ہلے آشی اُٹھ کھڑی ہوئی تم لوگ وہیں کھڑے رہو آشی نے لوگوں سے کہا کوئی آدمی آگے آنے کی جرأت نہ کرے خدا کے ایلچی نے پوچھا ہے کہ تم یہاں کیوں آئے ہو تم وہیں کھڑے کھڑے بات کر سکتے ہو ان تین آدمیوں میں سے جو آگے گئے اور گر پڑے تھے ایک آدمی بلند آواز سے بولا اے خدا کی طرف سے آنے والے کیا تو آنے والے وقت کی خبر دے سکتا ہے؟
پوچھ کیا پوچھتا ہے؟
عمرودرویش نے مخمور سی آواز میں کہا کیا ہم اس خطے کو اسلام کی ریاست بنا سکیں گے جو سوڈان کی غلام نہ ہو؟
اس آدمی نے پوچھا عمرودرویش نے غصے سے زمین پر ہاتھ مارا آشی دوڑ کر اس کے پاس جا بیٹھی اور کان اس کے منہ کے ساتھ لگا دیا عمر دوریش کے ہونٹ ہلے آشی اُٹھ کر لوگوں سے مخاطب ہوئی خدا کے ایلچی نے کہا ہے کہ آگ لگ جائے تو اس خطے کو تم اسلامی ریاست بنالو گے جو سوڈان کی غلام نہیں ہوگی آشی نے کہا کسی کے پاس پانی ہو تو اس کپڑے پر انڈیل دو عمرودرویش سے ذرا پرے ایک کپڑا اس طرح پڑا تھا جس طرح کسی نے لباس اتار کر گٹھڑی کی صورت رکھ دیا ہو انہیں تین آدمیوں میں سے جو آگے بڑھے اور گر پڑے تھے ایک آگے بڑھا اسکے ہاتھ میں چمڑے کا چھوٹا سا مشکیزہ تھا اس نے کہا میرے پاس پانی ہے میں سفر میں ہوں اس لیے پانی ساتھ رکھا ہوا ہے اس نے آگے جا کر مشکیزے کا منہ کھولا اور کپڑے پر پانی کا چھڑکاؤ کر دیا
آشی نے زمین سے مشعل اُٹھا کر عمرودرویش کے ہاتھ میں دے دی عمرودرویش نے آسمان کی طرف منہ کرکے ہونٹ ہلائے جیسے سرگوشی کی ہو پھر اس نے مشعل کا شعلہ کپڑے کے ساتھ لگا دیا کسی کو توقع نہیں تھی کہ پانی سے بھیگا ہوا کپڑا جل اُٹھے گا مگر ہوا یوں کہ جوں ہی مشعل کا شعلہ کپڑے کے قریب گیا تو کپڑا بھڑک اُٹھا اور تمام تر کپڑا ایک شعلہ بن گیا کسی ایک آدمیوں کے منہ سے حیرت زدہ آوازیں نکلیں اللہ ان کی نظروں کے سامنے پانی جل رہا تھا خدا کے اشارے کو سمجھ لو عمرودرویش نے کہا اور مجھے غور سے دیکھو میں کون ہوں میں تم میں سے ہوں اس نے اپنے گاؤں کا نام لے کر کہا میں اسی علاقے کا رہنے والے ہاشم درویش کا بیٹا ہوں میں نبی نہیں میں پیغمبر نہیں خدا اپنا آخری پیغمبر بھیج چکا ہے اس نے اپنی انگلیاں چوم کر اور آنکھوں سے لگا کر کہا میں بھی تمہاری طرح خدا کے آخری رسولﷺ کا پروانہ ہوں مجھے خدا نے روشنی دکھائی اور حکم دیا ہے کہ روشنی ان کے پاس لے جاؤ جو اندھیرے میں ہیں
وہ ایسے لہجے میں بول رہا تھا جیسے اس پر وجد کی کیفیت طاری ہو اس نے کہا میرے گاؤں میں جاکر پوچھو میں صلاح الدین ایوبی کا کماندار ہوں میں اس فوج کے ساتھ تھا جس نے سوڈان پر حملہ کیا تھا اس فوج کا حملہ ناکام ہوا ہم سب کو افسوس ہوا تم سب کو افسوس ہوا ہوگا لیکن خدائے ذوالجلال نے مجھے مصر کی فوج کی لاشوں سے اُٹھایا اور مجھے اشارہ دیا کہ صلاح الدین ایوبی کی فوج کو کیوں شکست ہوئی میرا افسوس خوشی میں بدل گیا میں نے ایک درخت کی شاخوں میں خدا کا نور دیکھا یہ ایک روشنی تھی جیسے ایک ستارہ آسمان اُتر کر درخت کی شاخوں میں اٹک گیا ہو اس ستارے میں سے آواز آئی آگے دیکھ پیچھے دیکھ دائیں دیکھ بائیں دیکھ میں نے ہر طرف دیکھا آواز آئی کوئی انسان تجھے زندہ نظر آتا ہے؟
مجھے ہر طرف لاشیں نظر آئیں یہ سب میرے ساتھیوں کی لاشیں تھیں حالت سب کی بہت بری تھی زخمی بہت کم تھے زیادہ سپاہی پیاس سے مرے تھے یہ سب لڑے تھے ستارے کی روشنی سے آواز آئی کیا تو نے دیکھا نہیں تھا کہ تمہاری تلواریں کند ہو گئی تھیں؟
کیا تو نے دیکھا نہیں تھا کہ تمہارے تیروں کی کوئی رفتار ہی نہیں تھی؟
تو نے دیکھا نہیں تھا کہ تمہارے گھوڑے کے پاؤں زمین میں دھنس گئے تھے؟
تب مجھے یاد آیا کہ میں نے سب کچھ دیکھا تھا جو روشنی کی صدا نے مجھے بتایا تھا میری تلوار کی کاٹ اتنی بھی نہیں رہی تھی کہ خراش بھی ڈال سکتی میں نے اپنے تیر دیکھے تھے جو ہوا میں یوں جاتے تھے جیسے ہوا کے جھونکوں سے گھاس کے خشک تنکے اُڑ رہے ہوں ہمارے گھوڑے چلتے نہیں تھے ریگزار نے سورج کی ساری آگ لے لی اور مجھے اور میرے ساتھیوں کو بھسم کردیا میں بھی جلی ہوئی لاش تھا ستارے سے ایک شرارہ آیا میری آنکھوں میں اُترا اور میرے وجود میں اتر گیا آواز آئی ہم نے تجھے دوسری زندگی عطا کی ہم سے پوچھ ہم نے یہ کرم کیوں کیا؟
میں نے پوچھا آواز نے جواب دیا ہمیں مسلمانوں سے محبت ہے مسلمان میرے رسولﷺ کا کلمہ پڑھتے ہیں ہمارے حضور رکوع و سجود کرتے ہیں جن کی یہ لاشیں ہیں انہیں ہم نے عبرت کا سامان بنایا ہے کہ یہ بھٹک گئے تھے اور جو بھٹک رہے ہیں انہیں ہم سیدھا راستہ دکھانا چاہتے ہیں ہم نے تجھے منتخب کیا ہے کہ تو ہر صبح قرآن کی تلاوت کرتا ہے جا ہم نے تجھے روشنی دی ہے یہ میرے مسلمان بندوں کو دکھا میں اچھی طرح نہیں سمجھا میں نے کہا اے میرے رب کے نور مجھے پوری بات بتا اور بتا کے میری بات کون مانے گا کس طرح مانے گا مجھے بتا کہ ہماری تلواریں کیوں کند ہو گئی تھیں؟
تیروں کی رفتار کہاں گئی تھی؟
روشنی کی آواز نے کہا وہ تلوار کند ہو جاتی ہے جس کا وار اپنی ماں پر کیا جاتا ہے وہ تیر کھجور کا سوکھا پتہ بن جاتا ہے جو اپنی ماں کے سینے پر چلایا جاتا ہے تو نہیں جانتا کہ ماں کون ہے وہ سرزمین جس نے تجھے جنم دیا ہے اور جس کی مٹی میں تو کھیل کر جوان ہوا ہے تیری ماں ہے جا سوڈان کے مسلمانوں سے کہہ کہ سوڈان کی زمین تمہاری ماں ہے اس سے محبت کرو اس کی مٹی میں جنت ہے اس جنت کو فتح کرنے کے لیے باہر کا کوئی مسلمان بھی آئے گا تو وہ دوزخ میں جائے گا تو نے دوزخ دیکھ لیا ہے جا اپنے کلمہ گو سوڈانی بھائیوں کو بتا کہ تمہاری ماں تمہاری جنت اور تمہارا کعبہ سوڈان ہے
اے برگزیدہ ہستی کہ جس کا احترام ہم سب پر فرض ہے ایک آدمی نے کہا کیا تو یہ کہہ رہا کہ ہم سوڈان کے اس بادشاہ کے وفادار ہوجائیں جو ہمارے رسولﷺ کو نہیں مانتا؟
یہ آدمی ان تینوں میں سے ایک تھا جو آگے بڑھے اور گر پڑے تھے
خدا کی آوازنے کہا ہے کہ یہ بادشاہ جو کافر ہے مسلمان ہوجائے گا عمرودوریش نے جھومتی ہوئی اثر انگیز آواز میں کہا وہ مسلمانوں کی راہ دیکھ رہا ہے اس کی فوج کافروں کی ہے اس لیے وہ خدا اور رسولﷺ کا نام نہیں لیتا تم سب جاؤ تلواریں برچھیاں تیرو کمان لے کر جاؤ اونٹوں اور گھوڑوں پر سوار ہو کر جاؤ اسے بتاؤ کہ تم اس کے محافظ ہو تم سوڈان کے بیٹے ہو میں نے خدا سے کہا کہ میری زبان سے یہ بات کوئی نہیں مانے گا میرے مسلمان بھائی مجھے قتل کردیں گے خدا کی آواز جو درخت کے پتوں میں اٹکی ہوئی روشنی سے آرہی تھی نے کہا ہمارے سوا پانی کو کون آگ لگا سکتاہے جا ہم نے یہ طاقت تجھے اس شہادت کے لیے دے دی کہ لوگ تیری آواز کو ہماری آواز سمجھیں کوئی انسان پانی کو آگ نہیں لگا سکتا پھر روشنی سے آواز آئی اگر تیری آواز کو لوگ پھر بھی باطل جانیں تو انہیں رات کو اپنے پاس بلا میں انہیں وہی جلوہ دکھاؤں گا جو موسیٰ کو طور پر دکھایا تھا
کیا تم طور کا جلوہ دیکھ کر حق کی آواز کو مانو گے؟
عمردرویش نے پوچھا
ہاں اے خدا کے ایلچی ان تین آدمیوں میں سے ایک نے کہا اگر تو ہمیں طور کا جلوہ دکھا دے تو ہم تیری آواز کو خدا کی آواز مان لیں گے جاؤ عمردرویش نے زمین پر غصے سے ہاتھ مار کر کہا چلے جاؤ اس وقت آنا جب سورج اپنے شعلے پہاڑوں کے پیچھے لے جائے گا اور آسمان پر ستاروں کی قندیلیں روشین ہوجائیں گی جاؤ لوگ جب واپس گئے تو ان کے دلوں میں کوئی شک نہیں تھا جاتے جاتے وہ چار چار پانچ پانچ کی ٹولیوں میں ہوگئے انسانی فطرت کی کمزوریاں اُبھر آئیں عقیدے دب گئے جذبے سرد ہوگئے جذبات بھڑک اُٹھے یہ سیدھے سادھے پسماندہ لوگ تھے سنسنی خیزی نے ان کی عقل کا رخ پھیر دیا عمرودرویش کے الفاظ میں کچھ اثر تھا یا نہیں لوگوں نے اس اثر کو قبول کیا جو اس کی آواز میں اور اس کے بولنے کے انداز میں تھا ان لوگوں میں سے اگر کسی نے شک کا اظہار کیا تو کسی نہ کسی نے کہہ دیا کیا تم پانی کو آگ لگا سکتے ہو؟
ابھی رات کو طور کا جلوہ دیکھنا باقی تھا یہ لوگ آشی کو جن سمجھ رہے تھے جس کا انہوں نے صاف الفاظ میں اظہار کیا یہ وہ مسلمان تھے جنہوں نے سوڈان کی غیر مسلم شہنشاہی کو خوفزدہ کر رکھا تھا سوڈان کی فوجوں کو انہوں نے اس پہاڑ ی خطے میں بے بس کرکے پسپا کردیا تھا وہ خدا اور رسولﷺ کے پرستاروں اور صلاح الدین ایوبی کے شیدائی تھے سوڈان کے باشندے ہوتے ہوئے وہ اپنے کوہستانی خطے کو آزاد اسلامی ریاست کہتے تھے مگر الفاظ کی سنسنی اور چاشنی اور وجد آفرینی نے انہیں راہ سے بے راہ کر دیا اور ان کی سوچیں بھٹکنے لگیں جنہوں نے فوجوں کو پسپا کیا تھا ان کے عقیدے پر صرف ایک انسان نے دلکش وار کیا تو ان کے ہتھیار گر پڑے یہ لوگ جدھر گئے افواہیں پھیلاتے گئے انہوں نے جو دیکھا اور جو سنا تھا اسے اور زیادہ دلنشیں بنانے کے لیے اضافے کرتے گئے مجھے یہ خدشہ پریشان کر رہا ہے کہ سوڈانی مسلمان سنسنی خیز توہمات کے آگے ہتھیار ڈال دیں گے یہ آواز سلطان صلاح الدین ایوبی کی تھی جو سوڈان سے دور بہت ہی دور فلسطین کی دہلیز پر ایک چٹان کے دامن میں اپنے مشیروں اور سالاروں کے درمیان بیٹھا تھا العادل کا بھیجا ہوا قاصد اس کے پاس پہنچ گیا تھا اس نے العادل کا پیغام پڑھ لیا تھا مصر کی انٹیلی جنس (شعبہ جاسوسی اور سراغرسانی ) نے سوڈانی مسلمانوں کے حقوق پوری اطلاع مصر کے قائم مقام امیر العادل کو دی تھی جو العادل نے سلطان ایوبی کے نام ایک پیغام میں لکھ بھیجی تھی اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ علی بن سفیان تاجروں کے بھیس میں سوڈان جا رہا ہے پیغام میں العادل نے سلطان ایوبی سے پوچھا تھا کہ سوڈانی مسلمانوں کے پہاڑی خطے میں اپنے چھاپہ مار بھیجے جائیں یا نہیں اس نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا تھا کہ ہم چھاپہ مار چوری چھپے بھیجیں گے اگر سوڈانی حکومت کو پتہ چل گیا تو کھلی جنگ ہوسکتی ہے جب کہ ہماری زیادہ تر فوج عرب میں لڑ رہی ہے پیغام میں تفصیل سے لکھا گیا تھا کہ سوڈانی حکومت مسلمانوں کو اپنا وفادار بنانے کے لیے ہمارے جنگی قیدیوں کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے سلطان ایوبی نے یہ پیغام پڑھ کر اپنی ہائی کمانڈ کے سالاروں اور مشیروں کو سنایا اور کہا سوڈان کے یہ مسلمان سوڈان کی فوج کے لیے قہر الٰہی ہیں تم سب دیکھ رہے ہو کہ ان میں جتنے ہماری فوج میں ہیں وہ کس بے جگری اور جذبے سے لڑتے ہیں مگر دشمن جب انہیں طلسماتی الفاظ میں الجھاتا اور ذہن کی خیالی عیاشی کی طرف مائل کرتا ہے تو وہ ریت کے بت بن جاتے ہیں العادل نے لکھا تو نہیں کہ صلیبی سوڈان کے مسلمان علاقے میں کردار کشی اور ذہنی تخریب کاری کر رہے ہیں لیکن تم سب صلیبیوں کو جانتے ہو وہ اس فن کے ماہر ہیں مجھے معلوم ہے کہ سوڈانیوں کے پاس صلیبی مشیر موجود ہیں وہ ذہنی تخریب کاری ضرور کریں گے
سلطان ایوبی نے العادل کے قاصد کو کھانے اور آرام کے لیے بھیج دیا اور کاتب کو بلا کر پیغام کا جواب لکھوانے لگا ؛ اس نے لکھوایا۔۔۔
میرے عزیز بھائی !خدائے عزوجل تمہارا حامی و ناصر ہو تمہارے پیغام نے سوڈان کے مسلمانوں کے متعلق صورت حال واضح کردی ہے تمہیں حیران نہیں ہونا چاہیے تم جانتے ہو کہ کفار اسلام کا خاتمہ چاہتے ہیں وہ ہر حربہ اور ہر ہتھکنڈہ استعمال کررہے ہیں میں اس اقدام کی تعریف کرتا ہوں کہ علی بن سفیان سوڈان چلا گیا ہے اور تم نے اسے جانے کی اجازت دی ہے اللہ علی بن سفیان کی مدد کرے وہ نہایت ہوشیار اور مستعد سراغرساں ہے پتھروں کے اندر سے بھید بھی نکال لاتا ہے وہ واپس آکر تمہیں بتائے گا کہ وہاں کی صورت حال کیا ہے اور اس کے مطابق کیا کاروائی کرنی چاہیے تم نے مجھ سے پوچھا ہے کہ سوڈان کے مسلمانوں کو چھاپہ ماروں کی مدد دی جائے یا نہیں تم نے اس خطرے کا بھی اظہار کیا ہے چھاپر مار بھیجے تو سوڈانی جوابی کاروائی کریں گے جو کھلی جنگ کی بھی صورت اختیار کر سکتی ہے تم نے اچھا کیا ہے کہ میری اجازت ضروری سمجھی ہے لیکن میں تمہیں خبردار کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر کبھی حالات ہنگامی ہوجائیں تو میری اجازت لینے میں وقت ضائع نہ کرنا۔ تمہیں یہ معلوم ہو گیا تھا کہ سوڈان کے قید خانے کے ایک سپاہی سوڈانی فوج کے دو کمانداروں کو قتل کرکے مسلمانوں کے ہاں پناہ لی اور اسلام قبول کر لیا ہے اور تمہیں یہ بھی معلوم ہو گیا تھا کہ سوڈانی ہمارے قیدیوں کو ہمارے خلاف تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہمارے اسحاق نامی ایک کماندار کی بیوی اور بیٹی تک کو انہوں نے دھوکے سے اغوا کرنے کی کوشش ہے تو تمہیں سمجھ جانا چاہیے تھا کہ سوڈانی مسلمانوں میں کچھ غدار بھی ہیں ان حالات میں تمہیں فوری طور پر چھاپہ ماروں کی کچھ نفری تاجروں اور مسافروں کے بھیس میں سوڈانی سرحد میں داخل کر دینی چاہیے تھی تا ہم علی بن سفیان کا چلے جانا قابل تعریف ہے
میرے عزیز بھائی! یہ الگ مسئلہ ہے کہ ہمارے پاس فوج تھوڑی ہے اور ہم دوسرا محاذ کھولنے کے قابل نہیں لیکن قرآن کے اس فرمان سے گریز نہ کرو کہ کسی بھی خطے میں مسلمانوں پر کفار ظلم و تشدد کر رہے ہوں یا انہیں لالچ سے یا دھوکے سے عقیدوں سے گمراہ کر رہے ہوں اور ان کا قومی وقار اور دین و ایمان خطرے میں ڈال دیا گیا ہو تو تمام دنیا کے مسلمانوں پر جہاد فرض ہوجاتا ہے میں کئی بار کہہ چکا ہوں کہ سلطنت اسلامیہ کی کوئی سرحد نہیں اسلام کے تحفظ کے لیے ہم کسی بھی ملک کی سرحد میں داخل ہو سکتے ہیں تم جانتے ہو کہ ہم نے سوڈانی مسلمانوں کو اپنے چھاپہ مار دے رکھے ہیں جو ان کے ساتھ کاشت کاروں کے روپ میں رہتے ہیں ہم سوڈانی مسلمانوں کو جنگی سامان بھی دے چکے ہیں اگر تم ضرورت محسوس کرو تو انہیں اور زیادہ مدد دو
اگر سوڈانی اپنی سرحد بند کرنے کے لیے مصر پر فوج کشی کریں تو گھبرا نہ جانا تم تھوڑی سی فوج سے کئی گناہ فوج کا مقابلہ کر سکتے ہو تم ان کا ایک حملہ تباہ کر چکے ہو دوسرا بھی تباہ کر لو گے سامنے کی ٹکر نہ لینا دشمن کو وہاں گھسیٹ لینا جہاں تم کم تعداد سے زیادہ نقصان کر سکو چھاپہ ماروں کا استعمال زیادہ کرنا اور دشمن کی رسد کاٹنے کا انتظام کرنا تمہاری آدھی جنگ علی بن سفیان کے جاسوس جیت لیں گے لیکن مجھے توقع نہیں کہ سوڈانی حملے کی حماقت کریں گے اگر ان صلیبی مشیروں نے عقل سے کام لیا تو وہ حملے کی بجائے اپنے پہاڑی علاقے کے مسلمانوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کریں گے اگر مسلمان ان کے وفادار ہوگئے اور ان کی فوج میں شامل ہوگئے تو وہ ہر خطرہ مول لے سکتے ہیں اس لیے تمہاری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ مسلمان ان کی ذہنی تخریب کاری کا شکار نہ ہوں میں وہی بات دہراؤں گا جو سو بار کہہ چکا ہوں مسلمان میدانِ جنگ میں شکست دیا کرتا ہے شکست کھایا نہیں کرتا مگر اس کے جذبات میں جب حیوانی جذبہ بیدار کر دیا جاتا ہے تو وہ تلوار اتار پھینکتا ہے ملت اسلامیہ کو جب بھی زوال آیا اسی جذبے کی بدولت آئے گا ہمارا دشمن ہماری قوم میں یہی آگ بھڑکا رہا ہے اس طرح ہم بیک وقت دو محاذوں پر لڑ رہے ہیں ایک زمین کے اوپر اور دوسرا زمین کے نیچے ہمارا دشمن ہمیں زہر میں بجھے ہوئے تیروں سے نہیں مار سکا وہ اب ہمیں زبان کی مٹھاس اور الفاظ کے جادو سے بیکار اور مفلوج کر رہاہے یہ بڑا ہی خطرناک محاذ ہے ہوشیار رہنا میرے عزیز بھائی
یہاں کے حالات سازگار ہیں دشمن بری طرح بکھرا ہوا ہے میں اسے مرکزیت اور اجتماع کی مہلت نہیں دوں گا اللہ کی مدد ملتی رہی تو میں حلب لے لوں گا مقابلہ شاید اب بھی سخت ہو لیکن میں نے کچھ اور انتظامات کر لیے ہیں صلیبی ابھی سامنے نہیں آئے شاید ابھی سامنے آئیں گے بھی نہیں وہ بھائیوں کو آپس میں لڑا کر تماشا دیکھ رہے ہیں اگر ان کا دشمن آپس میں ہی لڑ لڑ کر مر جائے تو انہیں سامنے آنے کی کیا ضرورت ہے اللہ تمہاری مدد کرے مجھے اُمید ہے کہ تم گھبراؤ گے نہیں خدا حافظ
جس وقت سلطان صلاح الدین ایوبی نے یہ پیغام قاصد کو دے کر روانہ کیا اس وقت عمرودرویش کے خیمے میں وہ تین آدمی بیٹھے ہوئے تھے جو لوگوں کے ہجوم میں آگے ہو کر عمرو درویش کی طرف بڑھے تھے مگر اس طرح پیچھے کو گر پڑے تھے جیسے کسی نے انہیں آگے سے دھکا دیا ہو لوگ چلے گئے عمرو درویش باہر سے اُٹھ کر خیمے کے اندر چلا گیا تھا اور یہ تین آدمی کچھ دور تک لوگوں کے ساتھ گئے اور ان کی نظر بچا کر ایک ایک کرکے واپس آئے اور عمرو درویش کے خیمے میں چلے گئے تھے یہ اسی گروہ کے آدمی تھے اور وہ اسی علاقے کے مسلمان تھے سوڈانی حکومت سے انہیں بہت انعام ملتا تھا
میرا خیال تھا کہ کپڑا نہیں جلے گا عمرو درویش نے کہا اس کے نیچے آتش گیر سیال کم رکھا گیا اور اوپر پانی زیادہ انڈیل دیا گیا تھا تمہیں ابھی یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ یہ تیل پانی پر ڈال دیا جائے تو بھی تیل جل اُٹھتا ہے اس آدمی نے کہا جس نے کپڑے پر مشکیزے سے پانی چھڑکا تھا ہم پہلے آزما چکے تھے
لوگوں پر اس کا اثر کیا ہوا ہے؟
عمرو درویش نے پوچھا ہم کچھ دور تک ان کے ساتھ گئے تھے ایک نے جواب دیا وہ پانی کو آگ لگانے کو تمہارا معجزہ سمجھتے ہیں کوئی یقین نہیں کرتا کہ دنیا کا کوئی انسان پانی کو آگ لگا سکتا ہے تم نے جس انداز سے باتیں کی ہیں وہ ان کے دلوں میں اتر گئیں ہیں خدا کی قسم!
نہ دوست عمرو درویش نے اسے ٹوک دیا اور سنجیدہ لہجے میں بولا خدا کی قسم نہ کھاؤ ہم اس حق سے محروم ہو گئے ہیں کہ اس سچے خدا کی قسم کھائیں جس کے احکام کی ہم خلاف ورزی کر رہے ہیں
معلوم ہوتا ہے ابھی تمہارے دل میں سچا خدا موجود ہے ایک آدمی نے کہا عمرو درویش تم اپنا خدا اور اپنا ایمان فروخت کر آئے ہو دوسرے آدمی نے پاس بیٹھی ہوئی آشی کے ران پر ہاتھ پھیر کر کہا اور قیمت دیکھ کیسی ملی ہے یہ صلیب کے بادشاہوں کا ہیرا ہے جو سوڈان کے حاکموں نے تمہیں دیا ہے
عمرو درویش نے آشی کی طرف دیکھا تو آشی نے اسے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے آنکھیں سکیڑیں اس کے ماتھے پر شکن بھی پیدا ہوئے عمرو درویش اس اشارے کو سمجھ گیا اور ہنس کر بولا مجھے یاد نہیں رہا تھا میں اتنی زیادہ قیمت کے قابل نہیں تھا
جانے دو ان باتوں کو آنے والی رات کی باتیں کرو سب انتظام تیار ہے ایک آدمی نے کہا تم نے ہمارا کمال دیکھ لیا ہے دیکھا ہم کس طرح پیچھے کو گرے تھے؟
اور تم اس کی بھی تعریف کرو کہ ہم نے کسی اور کو بولنے نہیں دیا رات کو تم طور کا جلوہ دکھاؤ گے ایک اور آدمی نے کہا یاد کرلو کہ تمہیں کیا کرنا ہے ہمارے آدمی تیار ہیں ہمیں چلے جانا چاہیے تیسرے آدمی نے کہا اب خیمے سے باہر نہ نکلنا وہ تینوں چلے گئے
سورج غروب ہوتے ہی لوگ آنا شروع ہوگئے دن کے وقت جو لوگ عمرو درویش کی باتیں سن گئے اور پانی کو آگ لگانے کا معجزہ دیکھ گئے تھے انہوں نے جہاں تک وہ پہنچ سکے خدا کے ایلچی کی تشہیر کر دی تھی کہ آج رات کو عمرو درویش کوہِ طور کا وہی جلوہ دکھائے گا جو خدا نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دکھایا تھا سوڈان کے جاسوس بھی وہاں موجود تھے انہوں نے افواہیں پھیلانے کا کام جانفشانی سے کیا اس کے نتیجے میں شام کے بعد عمرو درویش کے خیمے کے سامنے لوگوں کا ہجوم دن کی نسبت زیادہ تھا خیمے کے عقب میں اور دائیں بائیں کسی کو کھڑا ہونے کی اجازت نہ تھی
عمرو درویش ابھی خیمے میں تھا باہر دو مشعلیں جل رہی تھیں جن کے ڈنڈے زمین میں گھڑے ہوئے تھے
لوگ خدا کے ایلچی کو دیکھنے کے لیے بے چین ہو رہے تھے خیمے کے پردے کو جنبش ہوئی آشی سامنے آئی اس کا لباس سیاہ تھا یہ ایک فراک سا تھا جو کندھوں سے پاؤں تک تھا...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*