⚔️اور نیل بہتا رہا🕍قسط 42👇


🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ* 
✍🏻تحریر:  *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【➋➍】デ۔══━一
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
عرب کے یہ بدوّ آخر کب تک محاصرے میں بیٹھے رہیں گے۔۔۔ جرنل جارج نے کہا۔۔ انہیں کچھ عرصہ بیٹھے رہنے دو ہم ان کی رسد کے راستے مسدود کر رہے ہیں، اور جب یہ بھوکے مرنے لگیں گے تو ان کے عقب سے ان پر حملہ کریں گے۔
مصر میں اپنی فوج کی کمی نہیں۔۔۔ تھیوڈور بولا۔۔۔ ان عربوں کو ذرا نڈھال ہو جانے دو ابھی یہ فتح کے نشے سے سرشار ہیں تھوڑے ہی دنوں بعد اس خوش فہمی سے نکل آئیں گے۔
یہ رومی فوج کے افسران اعلی کا اجلاس تھا یا محفلِ مے نوشی تھی، اس میں یہ سمجھا گیا کہ مجاہدین اسلام خندق عبور نہیں کر سکیں گے اور مصر سے ہی کمک آئے گی، اور مجاہدین کی رسد کے راستے بند کر دیے جائیں گے ۔اور ان پر عقب سے حملہ کیا جائے گا ، یہ رومی افسر اپنے دفاعی انتظامات سے بجا طور پر مطمئن تھے اور ان کا دفاعی پلان بھی بالکل صحیح تھا، ہرقل نے مقوقس پر یہ جو الزام عائد کیا تھا کہ مصر میں روم کی ایک لاکھ فوج موجود ہے غلط نہیں تھا، مقوقس نے اس فوج کا تھوڑا سا حصہ ہی جنگ میں استعمال کیا تھا، تھیوڈور نے پوری فوج کو استعمال کرنے کا پلان بنا لیا تھا ۔ تصور میں لایا جاسکتا ہے کہ ایک لاکھ فوج کے مقابلے میں مسلمانوں کے سات آٹھ ہزار نفری کے لشکر کی کیا حیثیت تھی۔
آدھی رات کے وقت یہ محفل برخاست ہوئی اور تمام فوجی افسر رخصت ہوگئے۔ تھیوڈور کے سونے کے کمرے میں جو نوخیز لڑکی اس کے انتظار میں بیٹھی تھی وہ نیند پر قابو نہ پا سکی اور پلنگ پر سو گئی ، وہ فرمانروائے مصر کے حرم کی لڑکی نہیں تھی نہ ہی مقوقس نے کوئی حرم بنا رکھا تھا یہ ایک غریب ماں باپ کی بیٹی تھی اس کا گھرانہ کوئی ایسا غریب بھی نہیں تھا کہ یہ لوگ کسی کے محتاج ہوتے ، دو وقت کی روٹی باعزت طور پر میسر آ جاتی تھی، لیکن اس لڑکی نے کبھی خواب میں بھی نہ دیکھا ہوگا کہ وہ کسی رات شاہی محل کے سونے کے کمرے کی زینت بنے گی، وہ پلی بڑھی تو غربت میں تھی لیکن خدا نے اسے بے مثال حسن سے نوازا تھا اس کے چہرے پر معصومیت کا جو تاثر تھا وہ اس کے حسن کو طلسماتی بنا رہا تھا۔
تھیوڈور نے اس نوخیز لڑکی کو کہیں دیکھ لیا تھا، وہ کچھ دیر اسے دیکھتا ہی رہا تھا، تھیوڈور کے ساتھ اس کا ایک خاص معتمد بھی تھا ،اس معتمد نے اس کے کان میں کہا کہ یہ لڑکی اسے اتنی ہی اچھی لگی ہے کہ وہ دیکھے ہی جارہا ہے تو آج رات یہ اس کے سونے کے کمرے میں پہنچائی جاسکتی ہے۔ تھیوڈور کے ہونٹوں پر ابلیسی مسکراہٹ آگئی اور اس نے سر سے اشارہ کیا کہ ایسا ہو جائے تو اچھا ہے۔
یہ معصوم سی لڑکی رات کے پہلے پہر ہی تھیوڈور کے یہاں پہنچا دی گئی تھی، لڑکی کو اغوا نہیں کیا گیا تھا ،نہ اس پر جبر ہوا تھا ظاہر ہے کہ اس کے باپ کو اتنی رقم دی گئی ہو گی جو اس نے تصور میں بھی نہیں دیکھی ہوگی ۔ اس غریب باپ کو یہ خواب بھی دکھایا گیا ہوگا کہ جرنل تھیوڈور اس کی بیٹی کے ساتھ شادی کر لے گا اور اب تھیوڈور ہی مصر کا فرمانروا ہوگا۔
تھیوڈور کی عمر بڑھاپے میں داخل ہو چکی تھی، وہ سونے والے کمرے میں داخل ہوا تو لڑکی کو پلنگ پر سوتا ہوا دیکھا ، اس کی بیوی اور بیٹے بیٹیاں اپنے اپنے کمرے میں گہری نیند سوئے ہوئے تھے۔ تھیوڈور کو ایسا کوئی خدشہ نہیں تھا کہ اس کی بیوی کو پتہ چلا کہ اس کے پاس ایک لڑکی آئی ہوئی ہے تو وہ ہنگامہ برپا کردے گی۔ بیوی اپنے طور پر آزاد تھی۔ یہ اس معاشرے کا سب سے زیادہ اور اونچا طبقہ تھا جس میں شرم و حجاب کا کوئی عمل دخل نہیں تھا، اس وقت کے مرد کسی بھی عورت کو اپنے ساتھ گھر لے آنا اپنا حق سمجھتے تھے۔
لڑکی گہری نیند سوئی ہوئی تھی تھیوڈور کو وہ کچھ اور ہی زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی۔ شراب کے نشے نے تھیوڈور کو اپنے آپ میں رہنے ہی نہیں دیا تھا وہ کچھ دیر کھڑا گھومتا رہا اور لڑکی کو دیکھتا رہا ۔وہ تو اس کے لیے ایک کھلونا تھی جس طرح چاہتا اس کے ساتھ کھیل سکتا تھا۔ اس نے لڑکی کے ریشمی بالوں میں انگلیاں پھیر کر اسے جگایا۔
لڑکی گھبراکر جاگی اور اٹھ بیٹھی اس کے معصوم چہرے پر خوف کا تاثر آگیا لیکن تھیوڈور کے ہونٹوں پر کھلی ہوئی مسکراہٹ دیکھ کر خوف میں کمی آگئی۔ تھیوڈور اس کے پاس بیٹھ گیا اور ایسے پیارے انداز سے ایک دو باتیں اور کچھ حرکتیں کیں کہ لڑکی کو اس انداز میں اپنائیت سی محسوس ہونے لگی۔
مجھ سے یوں نہ ڈر لڑکی۔۔۔ تھیوڈور نے کہا۔۔۔ میرے دل نے تمہیں پسند کیا ہے ،میں تمہیں مصر کی ملکہ بناؤں گا ،کیوں تم مصر کی ملکہ بنو گی نا۔
لڑکی جواب دینے کی بجائے بچوں کی طرح ہنس پڑی وہ شاید محسوس نہ کر سکی کہ یہ شخص نشے میں ہے، اور صبح تک بھول چکا ہوگا کہ اس نے رات کیا کہا تھا۔
تھیوڈور اس پر وحشیوں کی طرح ٹوٹ پڑنے کی بجائے بڑے پیار سے اس کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتا رہا۔
چند ہی باتوں اور کچھ پیاری سی حرکتوں سے لڑکی تھیوڈور کے ساتھ بے تکلف ہو گئی۔ انہی باتوں میں عرب کے مسلمانوں کا ذکر آگیا تھیوڈور نے مسلمانوں کے خلاف نفرت کا اظہار کیا، لڑکی کے ماں باپ قبطی عیسائی تھے اور مذہب کے معاملے میں بڑے ہی جذباتی اور کٹر تھے، لڑکی کے خیالات پر بھی ان کا اثر تھا۔
میں ایک مسلمان جاسوس کو پکڑوا سکتی ہوں۔۔۔ لڑکی نے کہا۔۔۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتا ہے مجھے بھی وہ اچھا لگتا ہے میں جانتی ہوں کہ وہ عرب کے اس لشکر کا جاسوس ہے جس نے ہمارے شہر کو محاصرے میں لے رکھا ہے۔ لیکن میں اس کے خلاف زبان نہیں کھولنا چاہتی تھی کیونکہ اس نے میری جان بچائ تھی ۔
پھر اب کیوں زبان کھولی ہے؟،،،، تھیوڈور نے پوچھا۔
مجھے احساس ہے کہ میں اس کے ساتھ بے وفائی کر رہی ہوں۔۔۔ لڑکی نے کہا ۔۔۔لیکن آپ کی باتیں سن کر میں نے محسوس کیا ہے کہ اس کے ساتھ وفا کرتی ہوں تو یہ اپنے مذہب اور اپنے ملک کے ساتھ بےوفائ ہوگی جسے غداری بھی کہا جاسکتا ہے۔
لڑکی نے تھیوڈور کو بتایا کہ یہ مسلمان کب سے یہاں ہے، اور کہاں رہتا ہے ۔
شاباش!،،،،،، تھیوڈور نے کہا۔۔۔ محبت اور جذبات کی قربانی جان کی قربانی سے زیادہ بڑی ہے۔ میں تمہارے جذبے کی قدر کرتا ہوں اور تمہیں اس کا پورا صلہ ملے گا ۔
صبح یہ مسلمان جاسوس ہتھکڑیوں میں بندھا ہوا یہاں ہو گا ،اور تمہارے سامنے اس کا سر اس کے جسم سے الگ پھینک دیا جائے گا۔ لڑکی خواب و خیال میں مصر کی ملکہ بن گئی اور اپنے آپ کو تھیوڈور کے حوالے کردیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ مسلمان جاسوس کون تھا ؟
اس کا نام اسامہ بن اظہری تھا اس کی عمر چوبیس پچیس سال تھی، اس کا باپ عراق میں مثنیٰ بن حارثہ کے لشکر میں تھا جو کسریٰ ایران کی فوجوں کے خلاف لڑ رہا تھا، یہ مجاہد ایک معرکے میں شہید ہو گیا تھا، اسامہ بن اظہری کا ایک ہی بڑا بھائی تھا وہ شام کی جنگ میں ہرقل کی فوجوں کے خلاف لڑتا ہوا شہید ہوا تھا، پیچھے اسامہ رہ گیا تھا
ماں نے اسے اس لیے محاذ پر نہیں بھیجا تھا کہ وہ اکیلی رہ جاتی تھی، لیکن باپ کے بعد بڑا بھائی بھی شہید ہو گیا تو ماں نے اسامہ سے کہا کہ وہ اپنے بڑے بھائی کی جگہ چلا جائے اس طرح اسامہ رومیوں کے خلاف لڑنے والے لشکر میں شامل ہوا اور اس کی ماں بھی اس کے ساتھ چلی گئی۔
اسامہ بن اظہری کو سالاروں نے دیکھا کہ یہ تو ایک خاص قسم کی ذہانت کا مالک ہے تو انہوں نے اسے جاسوسی کی تربیت دی اسامہ بڑا خوبصورت نوجوان اور نہایت پر اثر انداز میں بات کرتا تھا، اور اس میں روپ بہروپ کا فن قدرتی طور پر موجود تھا اسے پہلی بار جاسوسی کے لئے بھیجا گیا تو وہ ایک رومی فوج کے افسر کا خدمت گار بن گیا ڈیڑھ ایک مہینے بعد واپس آیا تو نہایت قیمتی باتیں اپنے ساتھ لایا، آخر اسے اس لشکر میں بھیج دیا گیا جس کے سپہ سالار عمرو بن عاص تھے اور مصر پر فوج کشی کے لئے روانہ ہوئے تھے۔
مصر میں بھی اس نے جاسوسی کے میدان میں کچھ نمایاں کامیابیاں حاصل کیں جو سپہ سالار کے کام آئیں، اب وہ بابلیون کے اندر چلا گیا تھا ایک بار واپس آیا تو سپہ سالار کو بتایا کہ شہر کے اندر رومی فوج کی ذہنی اور جذباتی کیفیت کیا ہے، اور شہری کیا سوچ رہے ہیں، اس ضمن میں اس نے سپہ سالار کو بڑی ہی کارآمد باتیں بتائیں۔
وہ پھر کسی بہروپ میں بابلیون کے اندر چلا گیا اور ایک عیسائی تاجر کا قابل اعتماد نوکر بن گیا وہ عیسائیوں کے بہروپ میں گیا تھا اسے واپس آنا تھا لیکن مجاہدین کے لشکر نے بابلیون کو محاصرے میں لے لیا اس صورتحال میں اس کا واپس آنا بہت ہی مشکل تھا، اس نے یہ بھی سوچا کہ واپس نہ ہی جائے تو اچھا ہے، شہر کے اندر رہے اور اپنے لشکر کی مدد کا سامان پیدا کرلے اس نے تو یہاں تک سوچ لیا تھا کہ جب مجاہدین کا لشکر قلعے پر یلغار کرے گا تو وہ اپنی جان کی بازی لگا کر شہر کا کوئی نہ کوئی دروازہ کھولنے کی کوشش کرے گا۔
یہ تھا وہ مسلمان جاسوس جس کی نشاندہی یہ لڑکی تھیوڈور کے آگے کر رہی تھی لڑکی نے کہا تھا کہ اس مسلمان کو اس کے ساتھ محبت ہے اور وہ خود بھی اسے چاہتی ہے۔ یہ محبت ایک واقعہ سے شروع ہوتی تھی جو اس لڑکی کے لئے اور اس کے ماں باپ کے لئے ایک حادثہ بن چلا تھا۔ یہ واقعہ یوں ہوا کہ ایک بڑی بادبانی کشتی بابلیون سے سامنے والے جزیرے تک جا رہی تھی جہاں قلعہ روضہ تھا ۔ اسامہ کو اس تاجر نے جزیرے میں جانے کو کہا تھا جس کا وہ ملازم تھا اس تاجر کو وہاں کوئی کام تھا۔
چونکہ اس طرف دریائے نیل تھا اس لئے شہر کا وہ پہلو محاصرے سے محفوظ تھا جزیرے اور بابلیون کے درمیان دریائی آمدورفت لگی رہتی تھی، کشتی بہت بڑی تھی جس میں بہت سے مسافر جا رہے تھے سامان بھی تھا اور چند ایک گھوڑے بھی تھے یہ تین ساڑھے تین مہینے پہلے کا واقعہ تھا جب نیل میں طغیانی آئی ہوئی تھی طغیانی کا زیادہ جوش و خروش دریا کے وسط میں تھا کشتی وسط میں پہنچی تو ملاح دیکھ نہ سکے کہ طغیانی بڑھ گئی ہے اور لہریں کچھ زیادہ ہی اوپر نیچے ہو رہی ہیں ،کشتی جب اس مقام تک پہنچی تو لہروں نے اسے اٹھا اٹھا کر گرانا شروع کردیا اور ایک بار کشتی کا رخ بدل گیا اور تیز ہوا نے بادبانوں کو ملاحوں کے قابو سے نکال دیا۔
کشتی ایک پہلو سے اس قدر جھک گئی کہ یوں لگتا تھا جیسے دریا کشتی کے اندر آجائے گا ،ایک نوخیز لڑکی جو اس طرف کھڑی تھی اپنا توازن قائم نہ رکھ سکی اور دریا میں جا پڑی، اسے اب ڈوبنا ہی تھا بچنے کی کوئی صورت نہیں تھی، لڑکی کا باپ بھی اس کے ساتھ تھا لیکن وہ رونے چلانے اور لوگوں کی منت سماجت کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔
اسامہ کی فطرت میں خطرہ مول لینے والا عنصر موجود تھا اور اس کے ساتھ انسانی ہمدردی کا جذبہ بھی تھا۔ اس نے اور کچھ بھی نہ سوچا اور دریا میں لڑکی کے پیچھے کود گیا ۔ لڑکی کو موجیں اٹھا اٹھا کر پٹخ رہی تھی اور اپنے ساتھ لے جا رہی تھی، اسامہ جوان تھا جس میں طاقت تھی اور زیادہ طاقت تو اس جذبے میں تھی جو ہمدردی کا جذبہ تھا ،وہ پوری طاقت صرف کرتا کرتا تیرتا چلا گیا ،اسے تو طغیانی بھی آگے کو دھکیل رہی تھی۔
ملاحوں نے کشتی نہ روکی اس کے بادبانوں کو قابو میں رکھا اور کشتی کو دریا کے وسط سے نکال کر لے گئے ۔اسامہ لڑکی تک پہنچ گیا اور اسے اٹھا کر اپنی پیٹھ پر ڈال لیا اب بڑا ہی خطرناک مرحلہ شروع ہوا یہ تیرنا تھا تو یعنی کے جوش و خروش میں سے نکلنا۔ بہت دور جا کر وہ موجوں کی لپیٹ سے نکلا اور سامنے والے کنارے تک چلا گیا ۔
وہ کچھ ہی دیر اور تیر سکتا تھا ،اس کے بازو اکھڑنے لگے تھے۔
یہ اسامہ کی اور لڑکی کی خوش قسمتی تھی کہ کنارہ آ گیا اور اسامہ لڑکی کو نیل کے منہ سے نکال کر لے گیا۔
کناروں کے ساتھ ساتھ چھوٹی کشتیاں چلتی رہتی تھیں، ان میں سے ایک میں اسامہ لڑکی کو جزیرے میں لے گیا لڑکی کا باپ مل گیا اس نے یہ صورت قبول کر لی تھی کہ اس کی بیٹی ڈوب کر مر چکی ہے ۔اس نے اسامہ کو گلے لگایا اور اسے کہا کہ وہ بابلیون میں اس کے گھر آئے، اسامہ نے اپنے تاجر کا کام بھی کر لیا اور لڑکی اور اس کے باپ کے ساتھ واپس بابلیون آگیا۔
وہ پہلی بار لڑکی کے گھر گیا تو ان لوگوں نے اسے سر آنکھوں پر بٹھایا، لڑکی تو اس پر مری جا رہی تھی۔ اس نے لڑکی کو یقینی موت کے منہ سے چھینا تھا ،اسامہ آخر جوان سال اور غیر شادی شدہ تھا اس کے دل میں لڑکی کی ایسی محبت پیدا ہوگئی جو انسان کو مجبور اور بے بس کر دیا کرتی ہے۔ اور اسے اس کے راستے سے بھی ہٹا لیتی ہے۔ یہاں سے ان کی ملاقاتیں شروع ہوگئیں۔
اسامہ کو تاجر نے ایک چھوٹا سا الگ مکان دے رکھا تھا لڑکی اس کے پاس وہاں پہنچ جاتی تھی ،ایک روز جذبات کا ایسا غلبہ ہوا کہ اسامہ نے لڑکی سے کہا کہ وہ اسے اپنے ساتھ عرب لے جائے گا ۔
لڑکی نے حیرت زدگی کے عالم میں پوچھا کہ وہ عرب کیوں جائے گا؟ اسامہ نے تو اسے بتایا تھا کہ وہ عیسائی ھے۔
اسامہ پچھتانے لگا کے اس کے منہ سے ایسی بات نکل گئی ہے کہ اس کا پردہ اٹھ گیا ہے اس نے ادھر ادھر کی باتیں بنائیں کہ وہ اپنی اصلیت پر پردہ ڈال لے لیکن لڑکی کو شک نہیں بلکہ یقین ہو گیا تھا کہ اسامہ دراصل کچھ اور ہے، اسامہ اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہوسکا لڑکی کا حسن اور اس کی عمر ایسی تھی اور پھر لڑکی نے باتیں بھی کچھ ایسی کیں کہ اسامہ کو اپنا راز فاش کرنا پڑا۔ دونوں کی محبت ایسی تھی کہ اسامہ کو ایسی توقع تھی ہی نہیں کہ لڑکی اسے دھوکا دے گی ۔
لڑکی نے اسے قسم کھا کر کہا کہ وہ اس کے راز کو اپنے سینے میں دفن کر لے گی اسامہ نے کھل کر بات کر دی اور لڑکی نے اس کے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ مسلمان ہو جائے گی اور اس کے ساتھ عرب بھی چلی جائے گی۔ وہ تو اس کی بہت ہی ممنون تھی اس کے دل پر دریا کا ایسا خوف بیٹھ گیا تھا کہ بہتے پانی کو دیکھ کر ہی ڈر جاتی تھی۔ اسامہ کو وہ اپنا محافظ سمجھتی تھی۔
اسامہ کو لڑکی پر بھروسہ تو تھا لیکن اسے یہ احساس پریشان کرتا ہی رہتا تھا کہ اس نے اپنے آپ کو بے نقاب کردیا ہے۔ لڑکی کو اپنے قابو میں رکھنے کے لیے اسامہ نے یوں بھی کیا کہ اس کے دل میں رومیوں کی نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی اسے بتایا کہ ہرقل اور قیرس نے کس طرح قبطی عیسائیوں کا قتل عام کیا ہے۔ وہ لڑکی سے یہ بھی کہتا تھا کہ رومیوں کی بادشاہی مصر میں قائم رہی تو یہاں کسی قبطی عیسائی کو زندہ نہیں رہنے دیں گے۔ اگر مسلمانوں کو فتح حاصل ہو گئی تو ہر کوئی اپنے مذہبی امور میں آزاد ہوگا ۔
لڑکی کو رومیوں کا قبطی عیسائیوں پر ظلم و تشدد اچھی طرح معلوم تھا لیکن وہ کمسن اور نادان لڑکی تھی، جرنل تھیوڈور نے اس کی معصومیت کے ساتھ کھیلنے کے لئے کہہ دیا کہ وہ اسے مصر کی ملکہ بن آئے گا، تو وہ اس کی باتوں میں آ گئی اور جب تھیوڈور نے مصر کی اور مسلمانوں کی باتیں کیں اور پھر لڑکی کو اور زیادہ بھڑکا دیا تو لڑکی نے نادانی میں آکر اسامہ کا پردہ چاک کردیا۔
اسامہ اپنے گھر میں اکیلا گہری نیند سویا ہوا تھا اسے معلوم نہیں تھا کہ یہ رات اس کی زندگی کی آخری رات ہے، اس سے جذبات میں آکر جو غلطی ہوئی تھی اس کی سزا تھیوڈور نے لڑکی کو سنا دی تھی,,,,, سزائے موت,,,,,,,یہ سزا تو دراصل اسامہ کی ماں کو بھگتنی تھی، اس کا خاوند بھی شہید ہوگیا تھا، بڑا بیٹا بھی شہید ہوگیا ،اور اب چھوٹا بیٹا رات گزرتے ہی تھیوڈور کے جلاد کے ہاتھوں قتل ہونے والا تھا۔ پیچھے ماں کو سزا بھگتنے کے لیے اکیلے رہ جانا تھا ۔
ماں یہاں بھی اسکے ساتھ تھی اور سپہ سالار عمرو بن عاص کے کہنے پر دوسری عورتوں کے ساتھ نفل پڑھ رہی تھی اور مجاہدین کی فتح کی دعائیں مانگ رہی تھی اسے یہ تو معلوم ہی نہیں تھا کہ اس کا بیٹا شہر کے اندر پھندے میں آ چکا ہے اور اب وہ اپنے بیٹے کو کبھی بھی نہیں دیکھ سکے گی۔
یہ تھی وہ رات اور یہ تھا وہ وقت جب یہ لڑکی تھیوڈور کو بتا رہی تھی کہ وہ ایک مسلمان جاسوس کو پکڑوا سکتی ہے، اور تھیوڈور نے اس سے کہا تھا کہ اس جاسوس کو اس کے سامنے قتل کروایا جائے گا ،بالکل اس وقت مجاہدین اپنے سالار زبیر بن العوام کی قیادت میں ان کی ہدایت کے مطابق خندق کی روکاوٹوں پر درخت ڈال کر خندق عبور کر رہے تھے۔
قلعوں کی دیواروں پر چڑھنے کے لئے ایک تو کمند پھینکی جاتی تھی اور اگر دیواری کمزور ہوتی تو ان میں شگاف ڈال لیا جاتا تھا ،ایک طریقہ سیڑھیوں کے ذریعے اوپر چڑھنے کا بھی تھا بابلیون کی دیواریں بہت ہی مضبوط عام دیواروں کی نسبت زیادہ چوڑی اور اونچی بھی خاصی زیادہ تھی، اس بلندی کو دیکھتے ہوئے ہی مجاہدین نے دو سیڑھیاں باندھ لی تھیں تاکہ یہ دیوار کے اوپر تک پہنچ جائیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
پہلے بیان ہوچکا ہے کہ قلعے کے محاصرے کو آٹھ مہینے گزر گئے تھے عمرو بن عاص کبھی بھی محاصرے کو طول دینے کے حق میں نہیں ہوئے تھے، کچھ دن محاصرہ کر کے قلعے پر یلغار کر دیا کرتے تھے۔ بابلیون کی بات دوسرے قلعوں کے مقابلے میں بالکل ہی مختلف تھی ، اندر کی رومی فوج کو ہی نہیں بلکہ فوج کے جرنیلوں کو بھی یقین ہو گیا تھا کہ مسلمان خندق عبور نہیں کر سکیں گے ،وہ کہتے تھے کہ خندق عبور کرنی ہوتی تو یہ عربی مسلمان ایک دن کی بھی دیر نہ لگاتے کسی نہ کسی طور خندق عبور کرلیتے۔
رومی بجا طور پر مطمئن تھے، خندق بہت چوڑی تھی اور رومیوں نے اسے جن خاردار تاروں اور نوکیلی سلاخوں سے بھر دیا تھا انہیں عبور کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں تھی، اور نہ کوئی ذریعہ تھا کہ اسے عبور کیا جا سکتا ۔
اس یقین نے رومی جرنیلوں کو اور ان کی فوج کو اتنا مطمئن کردیا تھا کہ رات کو رومی پوری طرح بیدار رہتے ہی نہیں تھے، اور دیوار پر پہرے کی خاصی کمی ہو گئی تھی، گشتی سنتری رسمی طور پر دو چار مرتبہ اوپر چکر لگاتے تھے، اس فوج کے سپریم کمانڈر جنرل تھیوڈور پر بھی بے نیازی اور بے پرواہی کا موڈ طاری رہنے لگا تھا۔
تھیوڈور تو مکمل طور پر مطمئن تھا کہ مصر کے اندر سے ہی اس کی کمک آرہی ہے اور وہ مسلمانوں کے لشکر پر عقب سے حملہ کرے گا اس نے اپنے اعلی افسروں کو بتا ہی نہیں دیا بلکہ یقین دلادیا تھا کہ بابلیون کے باہر خندق سے کچھ دور کی زمین مسلمانوں کے لشکر کا قبرستان بنے گی۔
رات آدھی سے کچھ زیادہ گزری تھی جب سالار زبیر بن العوام نے سب سے پہلے درختوں کے تنوں پر قدم رکھا اور شاخیں پکڑ پکڑ کر اور سنبھل سنبھل کر آگے بڑھے اور خندق عبور کر لی، وہ پھر واپس آئے اور خندق سے کچھ دور جا کر مجاہدین کو اپنے پاس بلایا۔
میرے رفیقو!،،،،، سالار زبیر نے کہا۔۔۔ مجھے پار جاتے اور واپس آتے دیکھ کر یہ نہ سمجھ لینا کہ یہ کوئی آسان کام ہے تم نے دیکھا ہے کہ یہ ٹہن تاروں کے گچھے اور نوکیلی سالاخوں پر رکھے گئے ہیں، ان پر جب جسم کا بوجھ پڑتا ہے تو قدم آگے رکھنے سے یہ ٹہن دائیں بائیں ہلتے ہیں، اور کچھ نیچے کو بھی ہو جاتے ہیں، شاخوں کا سہارا لینا پڑتا ہے لیکن یاد رکھو کہ کوئی کمزور شاخ ہاتھ میں آ گئی تو وہ ٹوٹ بھی سکتی ہے، اور ٹہنیوں کے ہلنے سے اپنا توازن بگڑ بھی سکتا ہے، اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ کوئی گر پڑا تو نوکدار سلاخیں اس کے جسم میں اتر جائیں گی، پھر خندق سے اس کی لاش ہی نکلے گی ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم قدم آگے بڑھائیں ہی نہیں فتح اور کامیابی صرف اسے عطا ہوتی ہے جو دماغ کو حاضر رکھ کر خطرہ مول لیا کرتے ہیں، مت بھولو کہ اللہ تعالی تمہارے ساتھ ہے، اللہ کے اس وعدے کو بھی یاد رکھو کہ تم میری مدد کرو میں تمہاری مدد کروں گا,,,,,,,
ان مجاہدین کو جو سیڑھیاں پار لے جائینگے اور ہی زیادہ احتیاط سے ٹہنوں پر چلنا ہوگا ،ہم جب خندق کے پارچلے جائیں گے تو ایک اور خطرہ موجود ہوگا ہوسکتا ہے میدان صاف ہی ہو لیکن ہمیں یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ یہ خطرہ بھی موجود ہوگا، یہ خطرہ ان گھنے درختوں میں ہوسکتا ہے جو خندق سے قلعے تک کھڑے ہیں، ممکن ہے ان درختوں میں رات کے وقت کچھ رومی چھپے رہتے ہوں، رات بھی تاریک ہے اگر رومی ان درختوں میں ہوئے تو نیچے سے گزرنے والوں کو تیروں سے ختم کردیں گے، بہرحال کسی درخت سے ایک بھی تیر آیا تو ہم جوابی کارروائی کرکے یہ خطرہ ختم کر ڈالیں گے لیکن ذہن میں رکھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔
ان ہدایات کے بعد سالار زبیربن العوام نے چند ایک مجاہدین کو الگ کرکے کہا کہ چار چار یا پانچ پانچ آدمی ایک ایک سیڑھی اٹھائیں اور خندق عبور کریں، مجاہدین نے فوراً اس حکم کی تعمیل کی اور تین سیڑھیاں اٹھا کر خندق کی طرف چلے ،سالار زبیر بن العوام ان کے آگے آگے خندق عبور کرنے لگے۔ نہایت احتیاط سے ٹہنوں پر قدم رکھتے آہستہ آہستہ بڑھتے گئے اور اللہ نے انہیں پار پہنچا دیا پار جا کر رکے اور زبیربن العوم نے دو مجاہدین کو آگے بھیجا ان کا مقصد یہ تھا کہ درختوں میں اگر رومی فوجی موجود ہوئے تو وہ ان دونوں کو پکڑنے کی کوشش کریں گے یا اوپر سے تیر چلائیں گے، اس خطرے کی نشاندہی کے لیے ان دو مجاہدین کی قربانی پیش کردی گئی تھی۔
دونوں مجاہدین تاریکی میں گم ہوگئے اور کچھ دیر درختوں کے نیچے نیچے گھوم پھر کر بخیروعافیت واپس آگئے، انہیں یقین ہو گیا کہ راستہ صاف ہے ،اب پھلوں کے باغات کے یہ درخت مجاہدین کے محافظ بن گئے یہ نہایت اچھی آڑ مہیا کرتے تھے۔
جس سے دیوار پر کھڑے کسی رومی کو نظر نہیں آ سکتا تھے کہ کوئی دیوار کے قریب آ رہا ہے رات تاریک تھی لیکن انسان سائے کی طرح نظر آسکتا تھا۔
سیڑھیاں خندق کے اگلے کنارے کے قریب رکھوا کر زبیر بن العوام نے اپنے جانباز دستے کو اشارہ کیا کہ اب وہ آگے آجائیں، اشارہ ملتے ہی پورا دستہ ایک دوسرے کے پیچھے خندق عبور کر گیا، سالار زبیر نے ان میں سے چند ایک جانبازوں کو الگ کرکے کہا کہ وہ سیڑھیاں اٹھالیں اور قلعے کی دیوار تک پہنچ جائیں۔ باقی دستے کو وہیں رکے رہنے کو کہا اور پہلے دی ہوئی ایک ہدایت کو دہرایا۔
ایک بار پھر سن لو ۔۔۔زبیر بن العوام نے کہا۔۔۔ ہم جب اوپر جائیں گے تو ایک بار نعرہ تکبیر بلند ہوگا اس نعرے پر جو مجاہدین میرے ساتھ جا رہے ہیں اوپر چڑھیں گے ،پھر سب مل کر اللہ اکبر کا نعرہ لگائیں گے اور تم سب یعنی سارا دستہ دوڑ کر سیڑھیاں چڑھے گا اور اوپر آجائے گا۔
خندق عبور کرنے سے پہلے زبیر بن العوام نے سپہ سالار عمرو بن عاص کو بھی ان نعروں کے متعلق بتا دیا تھا ۔انہوں نے کہا تھا کہ جب تیسری بار نعرہ تکبیر بلند ہو گا تو پھر باقی دستے اوپر آئیں گے اور یہ دستے مزید سیڑھیاں اپنے ساتھ لائیں گے تاکہ دیوار پر چڑھنے میں زیادہ وقت نہ لگے پھر یہ طے ہوا تھا کہ یہ دستے اگر نیچے جانے میں کامیاب ہوگئے تو قلعے کے دو تین دروازے کھولنے کی کوشش کی جائے گی اور باقی لشکر ان دروازوں سے اندر آئے گا۔
یہ نعرے بجائے خود ایک خطرہ تھا۔ پہلے ہی نعرے پر رومی فوجی بیدار ہو کر اوپر آ سکتے تھے ۔
اس وقت چند ایک جانبازوں کو اوپر ہونا تھا جن پر زیادہ تعداد میں رومی ٹوٹ پڑتے تو انہیں کاٹ کر دیوار سے پھینک دیتے، لیکن خطرہ مول لینے کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
تین سیڑھیاں قریب قریب دیوار کے ساتھ لگ گئیں، ان کی لمبائی دیوار کی بلندی تک تھی۔ خاموشی قائم رکھنی تھی جو سیڑھیاں لگاتے قائم نہ رہ سکی ۔سیڑھیوں کی آواز پیدا ہوئی لیکن اوپر کوئی حرکت نہ دیکھی گئی۔
سالار زبیر بن العوام نے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر اللہ تبارک وتعالی سے مدد مانگی اور پھر آپ نے وہ الفاظ دہرائے جو انہوں نے کہے تھے کہ اللہ میری قربانی کو مجاہدین اسلام کی فتح کا سبب بنائے ۔ اس دعا کے بعد انہوں نے سیڑھی پر قدم رکھا اور جن مجاہدین کو انہوں نے اپنے ساتھ لے جانا تھا انھیں سیڑھیاں چڑھنے کا اشارہ دیا سب سے پہلے زبیر دیوار پر پہنچے اور ادھر ادھر دیکھا کوئی حرکت نظر نہ آئی مجاہدین سیڑھیاں چڑھتے آئے اور سالار زبیر کے دائیں بائیں کھڑے ہوگئے ۔
انہوں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اب تو ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا جاسکتا تھا پہلے تو یہ دیکھنا تھا کہ اس نعرے پر رومی بیدار ہوتے ہیں یا نہیں؟
رومی فوج کوئی ایسے غافل بھی تو نہیں تھے کہ رات کی خاموشی میں اتنے بلند نعرے سے بھی بیدار نہ ہوتے۔ دیوار پر جن فوجیوں کا پہرا تھا وہ برجیوں میں سوئے ہوئے تھے۔ باری باری جاگتے اور تھوڑا سا چکر لگا کر واپس چلے جاتے تھے۔ اتنا بلند نعرہ انہیں جگانے کے لیے کافی تھا ۔ وہ برچھیاں اور تلواریں لیے دوڑے، دیوار خاصی چوڑی تھی لڑنے اور پینترے بدلنے کے لئے کافی تھی۔
رومی فوجی قریب آئے تو مجاہدین نے انھیں آڑے ہاتھوں لیا، رومی فوجیوں کی کمزوری یہ تھی کہ وہ یہی دیکھ کر خوفزدہ ہوگئے تھے کہ یہ مسلمان اتنی اونچی دیوار پر کس طرح چڑھ آئے ہیں ، دوسرا یہ کہ ان مسلمانوں کی تعداد یقیناً زیادہ ہوگی ، انہیں معلوم نہیں تھا کہ یہی چند ایک مجاہدین ہیں جو اوپر آئے ہیں۔ اور ان کی اصل طاقت یہ ہے کہ یہ جانوں کی بازی لگاکر اور شہادت کو قبول کرکے آئے ہیں۔
پھر بھی یہ رومی بےجگری سے لڑے ، جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ پہرے پر تھے اور یہ ان کی ذمہ داری تھی کہ نظر رکھیں کہ دیوار پر کوئی چڑھ نہ سکے اگر وہ مقابلے سے منہ موڑ کر بھاگ جاتے تو انہیں اس جرم میں جلاد کے حوالے کردیا جاتا کہ اپنے فرائض اور ذمہ داری کو بھول کر سوئے ہوئے تھے انہوں نے لڑ کر مرنا بہتر سمجھا۔
یہ ایک خونریز معرکہ تھا مجاہدین جان توڑ کر لڑ رہے تھے اور انہوں نے تمام رومیوں کو کاٹ پھینکا۔ نیچے سالار زبیر کا باقی دستہ نعرہ سن کر پہنچ گیا اور تمام جاں باز سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔
ادھر سپہ سالار عمرو بن عاص نے حکم دے دیا کہ تمام سیڑھیاں خندق کے پار پہنچائی جائیں اور تین چار اور دستے خندق پار کرجائیں ۔
عمرو بن عاص نعروں کے ہی انتظار میں بےتاب ہوئے جا رہے تھے۔ انہوں نے تیسرے نعرے کا انتظار نہ کیا مزید سیڑھیاں اور دوچار دستے آگے بھیج دیے۔ دیوار کے ساتھ کئی سیڑھیاں لگ گئی۔ یہ سب سیڑھیاں دو دو کی صورت میں بندھی ہوئی تھی ۔خاموشی کی ضرورت بھی نہیں تھی مجاہدین بڑی تیزی سے سیڑھیاں چڑھتے جا رہے تھے اور اس وقت سالار زبیر کے حکم سے تیسرا نعرہ تکبیر بلند کیا گیا۔
ان گرجدار اللہ اکبر کے پرجوش نعروں نے قبروں میں مردوں کو بھی جگا دیا ہو گا۔ نیچے شہر کے اندر سوئی ہوئی رومی فوج تو ہڑبڑا کر جاگ اٹھی ، جنرل تھیوڈور اس نوخیز اور معصوم لڑکی کو پہلو میں لیے گہری نیند سویا ہوا تھا، اسے کچھ خبر نہیں تھی کہ باہر کیا قیامت ٹوٹ پڑی ہے، اس کے دروازے پر دو تین بار دستک ہوئی تو اس کی آنکھ کھلی تو اس نے لیٹے لیٹے بڑے غصے سے پوچھا کہ یہ کون دروازہ توڑ رہا ہے، اور کیا مصیبت آن پڑی ہے، لڑکی بھی بیدار ہو کر اٹھ بیٹھی۔ عربی لشکر دیوار پر آگیا ہے۔۔۔ باہر سے آواز آئی۔۔۔ اوپر بڑی سخت لڑائی ہو رہی ہے۔
وہ تھیوڈور کے محافظ دستے کا کمانڈر تھا تھیوڈور غصے میں کچھ نہ کچھ بولتا باہر نکلا اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ بیداری میں یہ خبر سن رہا ہے، شاید اسے وہ خواب سمجھ رہا تھا اسے تو یقین تھا کہ دیوار تو دور ہے کوئی انسان خندق ہی عبور نہیں کر سکتا۔
محافظ دستوں کے کمانڈر نے اسے پوری طرح صورت حال سنائی، تھیوڈور کو کچھ آوازیں سنائی دے رہی تھی وہ اپنے محل نما مکان سے باہر نکلا تو اسے قیامت کا شوروغل سنائی دیا، اس کا اپنا پورا خاندان پہلے ہی جاگ اٹھا تھا، تھیوڈور دوڑتا کمرے میں گیا اور لڑائی والا لباس پہنا اس کے اوپر زرّہ اور سر پر آہنی خود رکھ کر تلوار اٹھائی اور لڑکی کی طرف دیکھے بغیر باہر نکل گیا ۔
دوسرے جرنیل بھی بیدار ہوگئے تھے اور باقی افسر پہلے ہی شور شرابہ سن کر اٹھے اور اپنے اپنے دستوں تک جا پہنچے تھے، لیکن دیوار پر اب یہ صورتحال تھی کہ وہاں مجاہدین کو بالادستی حاصل تھی، یوں کہہ لیں کہ دیوار پر مجاہدین کا قبضہ تھا اندر سے دیوار پر چڑھنے کے لیے چند ایک جگہوں پر پکی سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں، مجاہدین اوپر ان سیڑھیوں کے دائیں بائیں گھات لگا کر بیٹھ گئے تھے جونہی رومی فوج اوپر آتے مجاہدین انہیں کاٹ پھینکتے، اوپر برجیوں اور برجوں میں جو فوجی سوئے ہوئے تھے انہیں تو مقابلے کی مہلت ہی نہ ملی پوری طرح بیدار بھی نہیں ہوئے تھے کہ مجاہدین کی پرچھیوں اور تلواروں کی نذر ہوگئے۔
ان میں سے چند ایک گھبراہٹ کے عالم میں یہ خبر سناتے گئے کہ مسلمانوں کا پورا لشکر دیوار پر آ گیا ہے، اور نیچے آکر کسی کو زندہ نہیں چھوڑے گا ،اس طرح انہوں نے سارے شہر میں افراتفری اور نفسا نفسی کا عالم پیدا کر دیا۔
اندر سے اوپر جانے والی سیڑھیوں کا یہ حال تھا کہ رومی فوجیوں کی لاشوں سے اٹ گئی تھیں۔ نہ کوئی اوپر جا سکتا اور نہ اوپر سے کوئی نیچے آ سکتا تھا ،نیچے مشعلیں جل اٹھی ان کی روشنی میں جب فوجیوں اور شہریوں نے دیکھا کہ سیڑھیوں سے خون نیچے بہتا رہا ہے تو ان کے حوصلے بالکل ہی پست ہو گئے اور ان پر دہشت طاری ہو گئی۔
مجاہدین اسلام ایک معجزہ کر کے تاریخ کے دامن میں ڈال رہے تھے، غیر مسلم مؤرخوں نے بھی ان مجاہدین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ ناممکن کو ممکن کر کے دکھا رہے تھے۔
یہ سالار زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کی دعا تھی جو اللہ نے قبول کی اور پوری ہوئی تھی، انہوں نے اللہ سے گڑگڑا گڑگڑا کر دعا کی تھی کہ میری قربانی مجاہدین اسلام کی فتح کا سبب بنے، یہ ان خواتین کی دعاؤں کا بھی اثر تھا جو وہ خندق سے کچھ دور نفل پڑھ پڑھ کر اللہ کے حضور دعا مانگ رہی تھیں۔
ان خواتین میں اسامہ بن اظہری کی ماں بھی تھی جو صرف اپنے بیٹے کی زندگی کی ہی دعا نہیں مانگ رہی تھی بلکہ اس کی زبان پر یہی ایک التجا تھی کہ اللہ اپنے جانبازوں کو فتح عطا کر، لیکن اسے اپنا بیٹا یاد آتا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے تھے، اس نے صرف ایک بار کہا یا اللہ میرا ایک ہی بیٹا رہ گیا ہے وہ بھی تیرے نام پر قربانی کے لئے پیش کر دیا ہے میں اکیلی رہ گئی ہوں۔
یہ دعائیں بھی بے اثر نہیں جا رہی تھیں۔
اسامہ بھی جاگ اٹھا تھا اور باہر نکل آیا تھا اس نے لوگوں سے سنا کے مجاہدین دیوار پر آگئے ہیں اور اب کوئی رومی فوجی اوپر نہیں جا سکتا، نیچے جب مشعلیں جلیں تو اوپر دیوار پر مجاہدین نے بھی مشعلیں جلا لیں اس سے نیچے کے لوگوں پر اور زیادہ دہشت طاری ہو گئی۔
اسامہ کو تو معلوم ہی نہیں تھا کہ تھیوڈور کے فیصلے کے مطابق یہ اس کی زندگی کی آخری رات ہے، لیکن اللہ کے فیصلے نے زمین پر رہنے والوں کے تمام فیصلے رد کر دیے تھے ،اسامہ کی ماں کے سینے سے نکلی ہوئی یہ فریاد کہ میں اکیلی رہ جاؤں گی اللہ نے سن لی تھی۔
وہ تھیوڈور جس نے اسامہ کی سزائے موت کا فیصلہ سنا دیا تھا شہر کے اندر بھٹکتا پھر رہا تھا ،اپنی فوج پر اس کی کمانڈ ختم ہو چکی تھی وہ اپنے جرنیلوں اور دیگر افسروں کو ڈھونڈتا اور پکارتا پھر رہا تھا ، لیکن اس کے اپنے ہی فوجی اور شہری بھاگتے دوڑتے اس کے ساتھ ٹکراتے گزرتے جا رہے تھے ،کسی نے دیکھا تک نہیں کہ یہ فوج کا سپریم کمانڈر اور مقوقس کی جگہ اس کی حیثیت فرمانروائے مصر جیسی ہے۔
اسامہ اوپر جاکر اپنے لشکر سے جا ملنا چاہتا تھا لیکن جن سیڑھیوں سے چڑھنے لگتا انہیں لاشوں سے اٹا ہوا دیکھا اوپر جانا ممکن نہیں تھا ،آخر وہ ایک سیڑھی سے لاشوں کے اوپر چلتا گرتا اٹھتا اوپر چلا ہی گیا دو تین مجاہد تلوار اٹھائے اس کی طرف لپکے تو اس نے ہاتھ اوپر کر کے کہا کہ میں تمہارا ہی آدمی ہوں اسامہ بن اظہری ، وہ اب آزاد تھا وہ سپہ سالار کو ڈھونڈنے لگا اسے اب اس بڑے شہر کا گائیڈ بننا تھا ، اس نے معلوم کر لیا تھا کہ اسلحہ خانہ کہاں ہے، خزانہ کہاں ہے ،اور اسی طرح کچھ اہم اور ڈھکی چھپی جگہیں تھی جو اس نے دیکھ لی تھی، وہ یہ ساری جگہیں سپہ سالار عمرو بن عاص کو بتانا اور ان کی رہنمائی کرنا چاہتا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اب دیوار کے چاروں طرف مجاہدین کافاتحانہ شوروغل اور تکبیر کے نعرے بڑھتے اور بلند سے بلند تر ہوتے جارہے تھے، تمام مورخوں نے لکھا ہے کہ رومی فوج کا دم خم بڑی ہی تیزی سے ٹوٹ پھوٹ رہا تھا ، یہ تو ہونا ہی تھا فوج اور شہر کے لوگوں پر جس وجہ سے زیادہ دہشت طاری ہوئی وہ یہ تھی کہ جرنیلوں تک نے انہیں یقین دلایا تھا کہ اب مسلمان تو کیا دنیا کی کوئی طاقت خندق عبور نہیں کر سکتی، رومی فوجی اور شہری حیرت زدہ تھے کہ مسلمان آخر کس طرف سے آئے ہیں۔
مجاہدین اسلام کے متعلق رومی فوج میں یہاں تک کہا سنا جارہا تھا کہ انھیں جنات کی طاقت حاصل ہے یا جنات ان کے ساتھ رہتے ہیں۔
یہ تاثر مجاہدین کی پہلی فتوحات سے پیدا ہوا تھا اب بابلیون میں لوگ اسے سچ ماننے لگے اور ان میں جو سب سے زیادہ خوفزدہ تھے انہوں نے یقین کے ساتھ کہنا شروع کردیا تھا کہ مسلمانوں کو جنات کی مدد حاصل ہے ان کے مقابلے میں کوئی نہ آئے۔
کئی فوجی قلعے کے دریا والے دروازے کی طرف چلے گئے، وہ اس دروازے سے بھاگ نکلنا چاہتے تھے انہیں امید تھی کہ کشتیاں تیار ہوں گی اور وہ انہیں دریا کے وسط والے جزیرے تک پہنچا دیں گی، لیکن وہ دروازہ کھولا نہیں جارہا تھا وہاں جو رومی فوج پہرے پر موجود تھے وہ کہتے تھے کہ یہ دروازہ کھلا تو مسلمان اس طرف سے اندر آ جائیں گے۔
ایک روایت یہ ہے کہ زبیر بن العوام چند ایک مجاہدین کے ساتھ نیچے چلے گئے اور قلعے کے دو تین دروازے کھول دیے لیکن یہ روایت صحیح معلوم نہیں ہوتی کیونکہ معروف اور مستند تاریخ نویس طبری نے کچھ قابل اعتماد حوالے دے کر اور کچھ استدلال کا سہارا لے کر لکھا ہے کہ جرنیلوں نے اپنی فوج کی افراتفری شہریوں کی نفسانفسی دیکھی اور پھر یہ دیکھا کہ مسلمانوں کا پورا لشکر دیوار پر آ گیا ہے اور رومی فوج دیوار پر جا ہی نہیں سکتی اور بھاگنے کے راستے دیکھ رہی ہے تو جرنیلوں نے اعلان کروایا کہ جو کوئی دروازہ کھولنے کی کوشش کرے گا اسے قتل کردیا جائے گا۔
طبری نے یہ بھی لکھا ہے کہ جنرل تھیوڈور کے حکم سے نیچے سے اعلان کیا گیا کہ وہ مقابلہ نہیں کریں گے اور صلح کی بات کرنا چاہتے ہیں۔
ڈر کے مارے کوئی قاصد اوپر نہیں جا رہا تھا۔ طبری کی تحریر سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ سپہ سالار عمرو بن عاص بھی دیوار پر آگئے تھے انہوں نے تھیوڈور کا اعلان سنا تو اس کے جواب میں اعلان کردیا کہ جرنیل اوپر آ جائیں اور بات کریں۔
ہم یہاں کا سارا خزانہ تمہارے حوالے کردیں گے۔۔۔ تھیوڈور نے اعلان کردیا۔۔۔ یہ لے کر دیوار سے باہر کو اسی راستے اتر جاؤ جس طرح چڑھے تھے اور خندق کی حدود سے بھی نکل جاؤ اس کے علاوہ کچھ اور چاہتے ہو تو ہم وہ بھی پیش کر دیں گے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی