👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑🌴⭐قسط نمبر 𝟠 𝟠⭐🌴


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟠  𝟠⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس لڑکی کے متعلق تم نے کیا سوچا ہے؟
شیخ سنان نے پوچھا میں جب جاؤں گا تو اسے اپنے ساتھ لے جاؤں گا صلیبی نے جواب دیا تمہارے جانے تک لڑکی میرے پاس رہے گی سنان نے کہا میں آج ہی چلا جاؤں گا
جاؤ شیخ سنان نے کہا اور لڑکی کو یہیں چھوڑ جاؤ تم اسے قلعے سے باہر نہیں لے جاسکو گے سنان صلیبی نے کہا اس قلعے کی اینٹ سے اینٹ بج جائے گی مجھے للکارنے کی جرأت نہ کرو معلوم ہوتا ہے تمہارا دماغ ابھی ٹھکانے نہیں آیا شیخ سنان نے کہا آج رات لڑکی کو تم خود میرے پاس لے آنا خود جاؤ یا رہو اگر تم رات لڑکی کو نہ لائے تو تم تہہ خانے میں اور لڑکی میرے پاس ہوگی جاؤ ٹھنڈے دل سے سوچ لو صلیبی کھانے کے کمرے میں داخل ہوا سب بے تابی سے اس کا انتظار کررہے تھے وہ پھنکار رہا تھا کہنے لگا سنو دوستو! شیخ سنان نے مجھے للکار کر کہا ہے کہ آج رات لزا اس کے پاس ہوگی اس نے مجھے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ لزا کو میں خود اس کے پاس لے جاؤں اور اگر میں نہ لے گیا تو وہ مجھے تہہ خانے میں ڈال دے گا اور لزا کو لے جائے گا آپ اگر تہہ خانے میں چلے گئے تو کیا ہم مرجائیں گے؟
الناصر نے کہا وہ لزا کو نہیں لے جاسکے گا لیکن یہ لڑکی تمہاری کیا لگتی ہے الناصر؟
اس کے ایک ساتھی نے پوچھا تم اپنے آپ کو ہمارا قیدی نہ سمجھو گمشتگین نے کہا یہ مصیبت ہم سب کے لیے آ رہی ہے تم ہمارے نہیں شیخ سنان کے قیدی ہو صلیبی نے کہا تم ہمارا ساتھ دو ہم باہر جاکر تمہیں آزاد کردیں گے اب یہاں سے نکلنے کی سوچو مجھے شیخ سنان نے اجازت دے رکھی ہے کہ ان چاروں کو اپنے ساتھ لے جاؤں گمشتگین نے کہا میں انہیں آج لے جارہا ہوں جلدی جلدی کھانا کھالو مجھے شام سے پہلے روانہ ہونا ہے
گمشتگین کا دماغ بہت تیز تھا اس نے کھانے کے دوران سب کو بتا دیا کہ اس نے کیا سوچا ہے کھانا کھا کر اس نے اپنے خادموں اور باڈی گارڈوں کو بلایا اور کہا کہ وہ فوراً قلعے سے روانہ ہورہا ہے سامان فوراً باندھ لیا جائے اسی وقت اس کا قافلہ تیار ہونے لگا اس کے اپنے گھوڑے کے علاوہ چار گھوڑے باڈی گارڈوں کے تھے چار اونٹ تھے جن پر کھانے پینے کے سامان کے علاوہ خیمے لادے گئے سفر لمبا تھا اس لیے خیمے ساتھ رکھے گئے تھے انہیں ان کے بانسوں پر لپیٹا گیا تھا گمشتگین شیخ سنان کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ وہ جارہا ہے اور چاروں چھاپہ ماروں کو بھی ساتھ لے جارہا ہے ان کے متعلق سودا طے ہوچکا تھا گمشتگین نے زروجواہرات کی صورت میں قیمت ادا کردی تھی
مجھے امید ہے کہ میں نے صلیبیوں کے کہنے پر جو چار آدمی بھیج رکھے ہیں وہ صلاح الدین ایوبی کا کام تمام کرکے ہی آئیں شیخ سنان نے کہا تم سیف الدین کو ان چھاپہ ماروں سے قتل کراؤ تم لوگ لڑ نہیں سکتے اپنے دشمنوں کو چوری چھپے قتل کراؤ تمہارا صلیبی دوست اور اس کی پریاں کہاں ہیں؟
اپنے کمرے میں ہیں گمشتگین نے کہا اس نے چھوٹی لڑکی کے متعلق کوئی بات تو نہیں کی؟
اسے کہہ رہا تھا کہ آج رات شیخ سنان کے پاس چلی جانا گمشتگین نے جواب دیا وہ آپ سے بہت ڈرا ہوا معلوم ہوتا تھا یہاں بڑے بڑے جابر آدمی ڈر جاتے ہیں شیخ سنان نے کہا کمبخت لڑکی کو مجھ سے یوں چھپا رہا تھا جیسے وہ اس کی اپنی بیٹی ہے
گمشتگین اس سے رخصت ہوا اس کا قافلہ تیار کھڑا تھا وہ گھوڑے پر سوار ہوا دو گمشتگین کے آگے ہوگئے اور دو اس کے پیچھے ان کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں گھوڑوں کے پیچھے الناصر اور اس کے ساتھی اور اس کے پیچھے سامان سے لدے ہوئے اونٹ تھے قلعے کا دروازہ کھلا قافلہ باہر نکل گیا اور دروازہ بند ہوگیا
قافلہ قلعے سے دور ہی دور ہوتا گیا اور سورج افق کے عقب میں چھپنے لگا سورج نے غروب ہوکر قافلے اور قلعے کو چھپا لیا قلعے میں قندیلیں اور فانوس جل اٹھے شام پوری طرح تاریک ہوگئی تو شیخ سنان نے اپنے دربان سے پوچھا وہ صلیبی لڑکی کو لے کر نہیں آیا؟
اسے نفی میں جواب ملا اس نے تین چار بار پوچھا تو بھی اسے نفی میں جواب ملا اس نے اپنے خصوصی خادم کو بلا کر کہا اس صلیبی سے جاکر کہو کہ چھوٹی لڑکی کو لے کر جلدی آئے خادم ان کمروں میں گیا جہاں صلیبی ٹھہرا کرتے تھے وہاں کوئی نہیں تھا لڑکیاں بھی نہیں تھیں تمام کمرے خالی تھے اس نے ادھر ادھر دیکھا قلعے کے باغ میں گھوم پھر کر دیکھا چٹان کے اردگرد گھوم کر دیکھا وہاں سے بھی مایوس لوٹا اور شیخ سنان سے کہا کہ صلیبی اور لڑکیاں نہیں ملیں سنان نے آسمان سر پر اٹھا لیا اپنی فوج کے کمانڈر کو بلا کر حکم دیا کہ قلعے کے کونوں کھدروں کی تلاشی لو اور صلیبی کو برآمد کرو فوج میں کھلبلی مچ گئی جسے دیکھو بھاگ دوڑ رہا تھا قلعے میں ہر طرف قندیلیں اور مشعلیں متحرک نظر آتی تھیں صلیبی کہیں سے بھی نہ ملا شیخ سنان نے ان آدھ درجن پہرہ داروں کو بلایا جو دروازے پر ڈیوٹی پر تھے ان سے پوچھا کہ گمشتگین کے قافلے کے علاوہ کس کے لیے دروازہ کھولا گیا تھا انہوں نے بتایا کہ حکم کے بغیر کسی کے لیے دروازہ نہیں کھولا جاتا اور گمشتگین کے علاوہ کسی اور کے لیے کھولا ہی نہیں گیا انہوں نے گمشتگین کے قافلے کی تفصیل بھی بتائی اس قافلے کے ساتھ صلیبی اور لڑکیاں نہیں تھیں
شیخ سنان اپنے کمرے میں پھنکار رہا تھا رات کا پہلا پہر گزر گیا تھا گمشتگین کا قافلہ چلا جارہا تھا اس نے اپنا گھوڑا روک کر شتر بانوں سے کہا اونٹوں کو بٹھاؤ اور انہیں باہر نکالو مر ہی نہ جائیں
اونٹوں کو بٹھا کر ان پر لدے ہوئے خیمے اتارے گئے خیمے کھولے گئے تو ان میں سے صلیب تھیریسیا اور لزا نکلیں وہ پسینے میں نہائے ہوئے تھے گمشتگین انہیں خیموں میں لپیٹ کر قلعہ عصیات سے نکال لایا تھا وہ قلعے سے بہت دور نکل گئے تھے فدائیوں سے ایسی توقع نہیں رکھی جاسکتی تھی کہ وہ تعاقب میں آئیں گے یہ فرقہ جنگجو نہیں تھا کسی کے ساتھ آمنے سامنے کی لڑائی کا خطرہ مول نہیں لیا کرتا تھا پھر بھی گمشتگین نے قافلے کو قیام نہ کرنے دیا لڑکیوں کو اونٹوں پر سوار کردیا گیا صلیبی چھاپہ ماروں کے ساتھ پیدل چل پڑا اس کا گھوڑا اور لڑکیوں کے گھوڑے قلعے میں رہ گئے تھے صلیبی اس خطے کی زبان روانی سے بولتا تھا
اس نے الناصر کے ساتھ باتیں شروع کردیں ان باتوں میں دوستی اور پیار کا رنگ غالب تھا الناصر کے دل سے خطرے نکل گئے وہ تو لزا کے قریب ہونا چاہتا تھا لزا کے قریب ہونے کا موقعہ آدھی رات کے بعد ملا جب ایک جگہ قافلے کو قیام کے لیے روکا گیا گمشتگین کے لیے خیمہ کھڑا کردیا گیا باقی سب کے لیے الگ الگ خیمے نصب کیے گئے چھاپہ مار اور باڈی گارڈز وغیرہ کھلے آسمان تلے لیٹ گئے وہ بہت تھکے ہوئے تھے فوراً ہی سوگئے الناصر کو نیند نہیں آرہی تھی وہ سوچ رہا تھا کہ لزا کو خیمے سے جگا لائے یا وہ خود آجائے گی وہ بھول گیا تھا کہ وہ چھاپہ مار ہے اور اس کی فوج کہیں لڑ رہی ہے اسے یہ خیال بھی نہ آیا کہ اسے اپنی فوج میں جانا ہے اور فرار کا یہ موقعہ نہایت اچھا ہے جب سب بے ہوشی کی نیند سوگئے ہیں گھوڑے بھی ہیں ہتھیار بھی ہیں اور خوردونوش کا سامان بھی ہے اس کے ساتھی اسی پر بھروسہ کیے سو گئے تھے وہ اپنے کمانڈر کی ہدایات کے پابند تھے انہیں معلوم نہیں تھا کہ ان کا کمانڈر اپنی عقل اپنا ایمان اور اپنا جذبہ ایک نوجوان لڑکی کے سپرد کرچکا ہے عورت اپنی تمام تر تباہ کاری کے ساتھ اس کے اعصاب پر سوار ہوچکی تھی
اسے ایک سایہ چلتا نظر آیا جو کسی مرد کا نہیں تھا وہ آہستہ آہستہ اٹھ کر بیٹھا پاؤں پر سرکا اور سوئے ہوئے ساتھیوں سے دور ہٹ گیا سایہ ادھر ہی آرہا تھا ذرا دیر بعد دو سائے ایک دوسرے میں جذب ہوگئے لزا الناصر کو سوئے ہوئے قافلے سے کچھ دور ایک ٹیلے کی اوٹ میں لے گئی اس رات وہ پہلے سے زیادہ جذباتی معلوم ہوتی تھی الناصر کی جذباتی کیفیت میں دیوانگی آگئی تھی لزا جذباتیت کا اظہار زبان سے کم اور حرکات سے زیادہ کررہی تھی اس نے اچانک پرے ہٹ کر کہا الناصر! ایک بات بتاؤ تمہاری زندگی میں کبھی کوئی عورت داخل ہوئی ہے؟
ماں اور بہن کے سوا میں نے کسی عورت کو کبھی ہاتھ نہیں لگایا الناصر نے جواب دیا تم نے میری زندگی دیکھ لی ہے میں نوجوانی میں نورالدین زنگی کی فوج میں شامل ہوگیا تھا جہاں تک یادیں پیچھے جاتی ہیں میں اپنے آپ کو میدان جنگ میں ریگستان میں اپنے ساتھیوں سے دور دشمن کے علاقوں میں خون بہاتا اور بھیڑیوں کی طرح شکار کی تلاش میں پھرتا دیکھتا ہوں میں جہاں بھی ہوتا ہوں اپنے فرض سے کوتاہی نہیں کرتا میرا فرض میرا ایمان ہے وہ چونک اٹھا ذرا سی دیر کچھ سوچ کر اس نے پوچھا لزا تم نے شاید میرے ایمان کی بنیاد ہلا دی ہے مجھے بتاؤ تم لوگ مجھے اور میرے ساتھیوں کو کہاں لے جارہے ہو مجھے یہ بتاؤ کہ تمہارے دل میں میری محبت ہے یا مجھے دیکھ کر تم حیوان بن جاتے ہو؟
لزا نے ایسے لہجے میں پوچھا جس میں پیار اور مذاق کی ہلکی سی بھی جھلک نہیں تھی اس کا انداز گزشتہ رات کی نسبت بدلا ہوا تھا
تم نے مجھے کہا تھا کہ محبت کو ناپاک نہ کرنا الناصر نے کہا میں تم پر ثابت کروں گا کہ میں حیوان نہیں تم مجھے یہ بتاؤ کہ تمہاری قوم میں ایک سے ایک بڑھ کر خوبرو جنگجو تنومند اور اونچے رتبے والا مرد موجود ہے تم کسی بادشاہ کے سامنے چلی جاؤ تو وہ تخت سے اتر کر تمہارا استقبال کرے گا پھر تم نے مجھ میں کیا دیکھا ہے؟
لزا نے کوئی جواب نہ دیا الناصر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا مجھے جواب دو لزا لزا نے سر گھٹنوں پر رکھ دیا الناصر کو اس کی سسکیاں سنائی دیں وہ پریشان ہوگیا اس نے بار بار اس سے پوچھا کہ وہ کیوں رو رہی ہے وہ روتی رہی الناصر نے اسے اپنے بازوؤں میں لے لیا تو لزا نے سر اس کے سینے پر رکھ دیا الناصر سمجھ نہ سکا کہ جس طرح اس کی اپنی ذات سے انسانی فطرت کی بنیادی کمزوری ابھر کر اس کی عقل پر غالب آگئی تھی اسی طرح لزا بھی ایک کمزوری کی گرفت میں آگئی تھی یہ وہ کمزوری تھی جو ملکہ کو اپنے غلام کے آگے جھکا دیتی ہے اور جو دولت کے انبار کو پتھروں کا ڈھیر سمجھ کر اپنے دل کی تسکین کے لیے کسی کٹیا میں جا بیٹھتی ہے لزا محبت کی پیاسی تھی وہ محبت جو روح کو مطمئن کردے اسے جسمانی محبت ملی تھی اور ان مردوں سے ملی تھی جن سے اسے نفرت تھی اس نے عصیات کے قلعے کی طرف جاتے ہوئے اور قلعے میں پہنچ کر بھی تھیریسیا کے آگے اپنے جذبات کا اظہار کردیا تھا وہ کچھ سوچے سمجھے بغیر الناصر کے پاس جابیٹھی تھی اور اسے کہا تھا مجھ پر بھروسہ کرنا اس وقت اس کے دل میں کوئی فریب کاری نہیں تھی یہ اس کے دل کی آواز تھی وہ اپنی روح کی رہنمائی میں الناصر کے پاس چلی گئی تھی اگر اسے تھیریسیا وہاں سے اٹھا نہ لے جاتی تو لزا نہ جانے الناصر سے اور کیا کچھ کہتی پھر اسے الناصر کو پھانسنے کو کہا گیا اس نے یہ کمال بھی کر دکھایا مگر اس کا دل ساتھ نہیں دے رہا تھا یہ اس کا فرض تھا جو اس نے ادا کیا تھا وہ اپنے دل اور فرض کے درمیان بھٹک گئی تھی الناصر کو معلوم نہیں تھا کہ تھوڑی دیر پہلے جب قافلہ رکا تو خیمے نصب کیے جارہے تھے تو گمشتگین نے لزا کے کان میں کہا تھا
سب سو جائیں تو میرے خیمے میں آجانا تمہاری قوم کی بھیجی ہوئی بہترین شراب پیش کروں گا تمہیں بڑی استادی سے شیخ سنان سے بچا کر لایا ہوں لزا نے اسے کوئی جواب نہیں دیا تھا اس سے ہٹی تو صلیبی نے اسے کہا خدا نے تمہیں اس بوڑھے درندے سے بچا لیا ہے تھیریسیا سوجائے تو میرے خیمے میں آجانا جشن منائیں گے لزا کو اپنی خوبصورتی اور اپنے جسم سے نفرت ہونے لگی وہ اپنے خیمے میں چلی گئی تھی تھیریسیا سو گئی لزا کی آنکھ نہ لگی وہ اٹھی اور دبے پاؤں الناصر کی طرف چل پڑی الناصر اسی کے خیال اور انتظار میں جاگ رہا تھا وہ الناصر کو کوئی جواب دینے ہی لگی تھی کہ الناصر نے چونک کر کہا سنو تمہیں کوئی آہٹ سنائی دے رہی ہے؟ 
گھوڑے آرہے ہیں دھمک بڑی صاف ہے لزا نے کہا سب کو جگا دیں شیخ سنان نے ہمارے تعاقب میں سپاہی بھیجے ہوں گے الناصر دوڑ کر ٹیلے پر چڑھ گیا اسے بہت سے مشعلیں نظر آئیں جو گھوڑوں کی چال کے ساتھ اوپر نیچے اوپر نیچے ہورہی تھیں گھوڑوں کے قدموں کی آوازیں بلند ہوتی جارہی تھیں الناصر دوڑتا نیچے آیا لزا کو اپنے ساتھ لیا اور سوئے ہوئے قافلے کی طرف دوڑا سب کو جگا دیا اس نے اپنے چھاپہ ماروں کو ساتھ لیا اور ٹیلے کے قریب لے گیا لزا کو اپنے ساتھ رکھا سب کے پاس برچھیاں اور تلواریں تھیں گمشتگین کے باڈی گارڈ اور شتربان بھی برچھیوں اور تلواروں سے مسلح ہوکر مقابلے کے لیے تیار ہوگئے وہ پندرہ سولہ سوار تھے
چھ سات کے ہاتھوں میں مشعلیں تھیں انہوں نے آتے ہی قافلے کو گھیرے میں لے لیا ایک نے للکار کر کہا دونوں لڑکیاں ہمارے حوالے کردو شیخ سنان نے کہا ہے کہ دونوں لڑکیاں دے دو گے تو خیریت سے جاسکو گے الناصر تجربہ کار چھاپہ مار تھا اس نے اپنے چھاپہ مار پہلے ہی گھیرے سے دور کرکے چھپا لیے تھے اس نے اشارہ کیا اور وہ تین چھاپہ ماروں کے ساتھ ان سواروں پر ٹوٹ پڑا جو اس کے سامنے تھے چھاپہ ماروں نے پیچھے سے برچھیاں ان کے جسموں میں داخل کردیں سوار گرے تو الناصر نے اپنے ساتھیوں سے بلند آواز سے کہا ان کے گھوڑوں پر سوار ہو جاؤ ایک گھوڑا اس نے پکڑ لیا اس پر سوار ہوا تو اپنے پیچھے لزا کو بٹھا لیا اسے کہا کہ بازو مضبوطی سے اس کی کمر کے گرد لپیٹ لے سنان کے فدائیوں نے ہلہ بول دیا انہوں نے مشعلیں پھینک دی تھیں یہ جلتی رہیں الناصر اور اس کے چھاپہ ماروں نے بہت مقابلہ کیا ایک گھوڑے کے سرپٹ دوڑنے کی آواز آئی جو دور ہٹتی گئی وہ گمشتگین تھا جو جان بچا کر بھاگ گیا تھا فدائیوں نے الناصر کے گھوڑے پر لڑکی دیکھ لی تھی اسے وہ زندہ پکڑنے کی کوشش کررہے تھے تین تین چار چار گھوڑے اسے گھیرے میں لیتے اور سوار برچھیوں سے اس کے گھوڑے کو زخمی کرنے کے لیے برچھیوں کے وار کرتے تھے الناصر تجربہ کار لڑاکا سوار تھا اس نے اپنے گھوڑے کو بچائے رکھا اور دو فدائی گرا لیے اسے دوڑتا گھوڑا یکلخت روکنا اور تیزی سے موڑنا پڑتا تھا لزا کے پاؤں رکابوں میں نہیں تھے ایک بار الناصر کو گھوڑا تیز رفتار پر ہی موڑنا پڑا لزا سنبھل نہ سکی اور گر پڑی فدائی گھوڑوں سے کود آئے لزا الناصر کی طرف دوڑی لیکن دو فدائیوں نے اسے پکڑ لیا الناصر نے گھوڑے کو ایڑی لگائی اور برچھی تانی فدائیوں نے لزا کو آگے کردیا الناصر کو اپنے ساتھیوں کے متعلق کچھ علم نہیں تھا اسے بھاگتے دوڑتے گھوڑوں کی اور برچھیاں اور تلواریں ٹکرانے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں وہ تین چار فدائیوں میں اکیلا تھا اس کا ہر وار خالی جارہا تھا کیونکہ وہ ان کے قریب آتا تھا تو فدائی لزا کو آگے کردیتے تھے آخر وہ بھی گھوڑے سے کود گیا بے جگری سے لڑا زخمی ہوا اور اس نے دو فدائیوں کو گرا لیا اس نے ایک بار چلا کر کہا خاموش رہو لزا یہ تمہیں نہیں لے جاسکیں گے
الناصر نے یہ کرکے بھی دکھا دیا کہ فدائی لزا کو نہ لے جاسکے اس نے فدائیوں کو بری طرح زخمی کرکے پھینک دیا اس معرکے میں وہ قیام گاہ سے دور ہٹ گئے تھے الناصر نے ایک گھوڑا پکڑا لزا کو اس پر سوار کیا خود اس کے پیچھے سوار ہوا اور گھوڑے کو ایڑی لگا دی لیکن بھاگا نہیں معرکہ خاموش ہوگیا تھا اس نے جاکر دیکھا وہاں صرف لاشیں تھیں اور دو تین فدائی زخموں سے تڑپ رہے تھے اس کے تینوں ساتھی مارے گئے تھے صلیبی بھی مرا پڑا تھا تھیریسیا لاپتہ تھی الناصر نے زیادہ انتظار نہ کیا آسمان کی طرف دیکھا قطبی ستارے کا اندازہ کیا اور گھوڑے کو اس رخ پر ڈال دیا بہت دور جاکر اس نے گھوڑا روک لیا اب بتاؤ تم کہاں جانا چاہتی ہو اس نے لزا سے پوچھا میں تمہیں صرف اس لیے اپنے ساتھ نہیں لے جاؤں گا کہ تم تنہا رہ گئی ہو اور مجبور ہو کہو تو تمہیں تمہارے علاقے میں لے چلتا ہوں قید ہوگیا تو پرواہ نہیں کروں گا تم امانت ہو
اپنے ساتھ لے چلو لزا نے کہا الناصر! مجھے اپنی پناہ میں لے لو گھوڑا رات بھر چلتا رہا صبح طلوع ہوئی تو الناصر نے علاقہ پہچان لیا یہیں کہیں اس نے ایک بار اپنے جیش کے ساتھ شب خون مارا تھا الناصر کے کپڑے خون سے لال ہوگئے تھے دونوں نے گھوڑے سے اتر کر پانی پیا گھوڑے کو پانی پلایا الناصر نے زخم دیکھے کوئی زخم گہرا نہیں تھا خون رک گیا تھا اس نے اس ڈر سے زخم نہ دھوئے کہ خون جاری ہوجائے گا لزا ٹہلتی ٹہلتی ایک طرف نکل گئی الناصر اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے چٹان کے دوسری طرف گیا لزا بیٹھی ہوئی تھی الناصر کی طرف اس کی پیٹھ تھی وہاں ہڈیاں بکھری ہوئی تھیں جو انسانوں کی معلوم ہوتی تھیں کھوپڑیاں تھیں پسلیوں کے پنجر تھے ہاتھوں ٹانگوں اور بازوؤں کی ہڈیاں بھی تھیں ان کے درمیان تلواریں اور برچھیاں پڑی تھیں
لزا ایک کھوپڑی کو سامنے رکھے بیٹھی تھی کسی عورت کی کھوپڑی معلوم ہوتی تھی چہرے پر کہیں کہیں کھال تھی سر کے لمبے لمبے بال کچھ سر کے ساتھ تھے باقی ادھر ادھر بکھرے ہوئے تھے سینے کا پنجرہ کھال کے بغیر تھا پسلیوں میں ایک خنجر اترا ہوا تھا گلے کی ہڈی پر سونے کا ہار پڑا تھا اس پنجرے کے اردگرد چیتھڑے پڑے تھے جو ریشمی کپڑے کے تھے الناصر آہستہ آہستہ چلتا لزا کے پیچھے جاکھڑا ہوا لزا کھوپڑی میں کھو گئی تھی اچانک اس نے اپنے دونوں ہاتھ کانوں پر رکھے اور بڑی ہی زور سے چیخ ماری وہ تیزی سے اٹھ کر گھومی الناصر نے اسے بازوؤں میں لے کر سینے سے لگا لیا لزا نے اپنا چہرہ الناصر کے سینے میں چھپا لیا اس کا جسم تھرتھر کانپ رہا تھا الناصر اسے چشمے تک لے گیا جب وہ اپنے آپ میں آئی تو الناصر نے اس سے پوچھا کہ اس نے چیخ کیوں ماری تھی؟
مجھے اپنا انجام نظر آگیا تھا لزا نے اداس لہجے میں کہا تم نے وہ خشک لاش دیکھی ہوگی کسی عورت کی ہے یہ کوئی مجھ جیسی ہوگی اس نے میری طرح حسن کے جادو چلائے ہونگے ہر کسی کے لیے سہانا فریب بنی رہی ہوگی اور کہتی ہوگی کہ اس کے حسن کو زوال نہیں اور وہ سدا جوان اور ہمیشہ زندہ رہے گی تم نے اس کی پسلیوں کے پنجرے میں خنجر پھنسا ہوا دیکھا ہے؟ 
گلے میں ہار دیکھا ہے؟ 
یہ ہار اور یہ خنجر جو کہانی سناتے ہیں وہ میری کہانی ہے اور دوسری جو کھوپڑیاں بکھری پڑی ہیں اور ان کے ساتھ جو تلواریں اور برچھیاں پڑی ہیں وہ سو بار سنی ہوئی کہانی سناتی ہیں میں نے یہ کبھی توجہ سے نہیں سنی تھی آج اس عورت کی کھوپڑی دیکھی تو مجھے یوں نظر آیا جیسے یہ میری اپنی کھوپڑی ہو اس خشک کھوپڑی پر گوشت چڑھ گیا تو میرا چہرہ بن گیا میں نے ایک گدھ کو دیکھا جو میرے چہرے سے آنکھیں نکال رہا تھا ایک بھیڑیئے کو دیکھا جو میرے گلابی گالوں کو نوچ رہا تھا ان مردار خوروں نے میرا چہرہ کھا لیا اور پیچھے کھوپڑی رہ گئی مجھے ایسے نظر آیا جیسے کھوپڑی کے جبڑے اور خوفناک دانت ہل رہے ہوں مجھے آواز سنائی دی یہ ہے تمہارا انجام اور میرے دل کو کسی خوفناک چیز نے دانتوں میں جکڑ لیا کچھ دنوں بعد وہاں جاکر دیکھنا جہاں ہم پر فدائیوں نے حملہ کیا تھا 
الناصر نے کہا وہاں بھی تمہیں یہی منظر نظر آئے گا لاشوں کے پنجر کھوپڑیاں تلواریں اور برچھیاں اور شاید ان سے کچھ دور تھیریسیا کی کھونپڑی بھی پڑی مل جائے اس کے سینے میں بھی خنجر اترا ہوا ہوگا وہ سب عورت کے لیے مرے ہیں یہ سب بھی عورت کے لیے مرے ہیں اگر میں نے اپنی روش نہ چھوڑی تو ایک روز صحرا میں گدھ اور بھیڑئیے میرے اس جسم کا گوشت نوچ رہے ہوں گے جس پر مجھے ناز ہے اور جسے حاصل کرنے کے لیے کوئی جان پیش کرتا ہے کوئی دولت لزا نے کہا مگر انسان عبرت حاصل نہیں کرتا ان کی تباہی اور بربادی نہیں دیکھتا جو اس سے پہلے اس زمین پر اپنے اوپر حسن دولت اور جسمانی طاقت کا نشہ طاری کرکے تکبر اور غرور سے چلتے پھرتے تھے میں نے اپنے آپ کو پہچان لیا ہے اپنی اصلیت جان لی ہے تم بھی سن لو الناصر! خدا نے تمہیں مردوں کی طاقت اور مردانہ حسن دیا ہے تمہیں جو عورت دیکھے گی وہ تمہارے قریب آنے کی خواہش کرے گی دیکھ لو تم بھی جاکر اپنا انجام دیکھ لو وہ ایسے انداز سے بول رہی تھی جیسے اس پر آسیب کا اثر ہو اس کی شوخیاں اور فریب کاریاں ختم ہوچکی تھیں وہ کسی تارک الدنیا فقیر کے لہجے میں بول رہی تھی
میں تمہیں اپنی اصلیت بتا دوں؟
اس نے الناصر سے پوچھا میں تمہیں دکھا دوں کہ میری پسلیوں کے پنجرے میں کیا ہے؟
اس نے اپنے سینے پر ہاتھ مارا اور چپ ہوگئی اس کا ہاتھ سونے کے اس ہار پر جالگا تھا جس میں جواہرات بھی تھے اس نے ہار کو مٹھی میں لیا زور سے جھٹکا دیا ہار ٹوٹ کر اس کے ہاتھ میں آگیا اس نے ہار چشمے میں پھینک دیا انگلیوں سے انگوٹھیاں اتاریں جن میں ہیرے جڑے ہوئے تھے یہ بھی چشمے میں پھینک دئیے کہنے لگی میں ایک فریب ہوں الناصر! میں نے تمہیں بھی فریب دیا تھا
میرے دل میں تمہاری محبت بھی پیدا ہوگئی تھی مگر اس پر میرے فرض کی بدروح کا بھی اثر تھا یہ بہت اچھا ہوا کہ فدائیوں نے ہم پر حملہ کردیا اور یہ اور زیادہ اچھا ہوا کہ میں نے اپنی زندگی میں اپنی کھوپڑی دیکھ لی ورنہ میں بتا نہیں سکتی کہ جہاں ہم تمہیں لے جارہے تھے وہاں تم پر کیا روپ چڑھا دیا جاتا میری محبت کا کیا حشر ہوتا تم ایک بہت بڑے فریب کا شکار ہونے جارہے تھے میں اب جھوٹ نہیں بولوں گی تمہیں اس مقصد کے لیے لے جایا جارہا تھا کہ میں اپنی خوبصورتی اور محبت کے جھانسے سے تمہاری عقل پر قبضہ کرلوں اور تمہارے ہاتھوں صلاح الدین ایوبی کو قتل کرایا جائے گمشتگین قلعہ عصیات میں اس لیے گیا تھا کہ شیخ سنان اسے صلاح الدین ایوبی کے قتل کے لیے کرائے کے قاتل دے دے سنان نے بتایا کہ اس نے چار فدائی بھیج رکھے ہیں اگر یہ بھی ناکام ہوگئے تو وہ آئندہ اس کام کے لیے کوئی فدائی نہیں بھیجے گا کیونکہ وہ بہت سے کارآمد فدائی ضائع کرچکا ہے آخر یہ سودا طے ہوا کہ گمشتگین تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو اپنے ساتھ لے جائے اور سیف الدین کے قتل کے لیے تیار کرے اتنے میں ہمارا افسر آگیا اس نے فیصلہ کیا کہ ایوبی کا قتل ضروری ہے
یہ کبھی ممکن نہیں ہوسکتا کہ میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے سائے کو بھی میلی نگاہ سے دیکھوں الناصر نے کہا دنیا کی کوئی طاقت مجھے اتنا بے عقل نہیں بنا سکتی لزا ہنس پڑی کہنے لگی میں نے دل سے اپنے فرائض کو قبول نہیں کیا ورنہ ہم فولاد کو بھی پانی بنا دیا کرتی ہیں اس نے الناصر کو تفصیل سے بتایا کہ اس کے فرائض اور جذبات میں کتنا تضاد ہے اس نے یہ بھی بتایا کہ وہ سیف الدین کے پاس رہی ہے اس نے پوچھا کیا تم مجھ جیسی ناپاک لڑکی کو قبول کرلو گے؟
میں سچے دل سے اسلام قبول کرلوں گی اگر تم نے سچے دل سے توبہ کرلی ہے تو میرے لیے یہ گناہ ہوگا کہ میں تمہیں قبول نہ کروں الناصر نے کہا لیکن سلطان صلاح الدین ایوبی کی اجازت کے بغیر میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا دل سے بوجھ اتار دو اگر تم پاکیزہ زندگی بسر کرنا چاہتی ہو تو ایسی زندگی تمہیں صرف ہمارے مذہب میں ملے گی اس نے پوچھا کیا تمہیں معلوم ہے کہ جو فدائی ہمارے سلطان کے قتل کے لیے گئے ہیں وہ کس بھیس میں گئے ہیں اور قاتلانہ حملہ کس طرح کریں گے؟
کچھ علم نہیں لزا نے جواب دیا میرے سامنے اس سے زیادہ کوئی بات نہیں ہوئی کہ چار فدائی بھیجے گئے ہیں ہمیں اڑ کر ترکمان پہنچنا ہوگا الناصر نے کہا مجھے سلطان اور اس کے محافظوں کو خبردار کرنا ہے اس نے لزا کو اپنے آگے گھوڑے پر بٹھا لیا اور ایڑی لگا دی اتنی حسین لڑکی اس کے سینے سے لگی ہوئی تھی اس کے ریشم جیسے بال اس کے گالوں میں لہرا رہے تھے مگر اس کے ذہن میں سلطان ایوبی سما گیا تھا فرض نے اس کے جذبات کو سلا دیا تھا مقصد نے اسے مرد میدان اور انسان کامل بنا دیا تھا اور لزا کی تو جیسے روح ہی بدل گئی تھی وہ اس قوی اور تنو مند جوان کے قبضے میں اور اس کے رحم وکرم پر تھی لیکن اسے جیسے احساس ہی نہیں تھا کہ وہ مرد ہے اور یہ ایک نوجوان لڑکی اگر کوئی واعظ برسوں وعظ سناتا رہتا تو لزا پر کچھ اثر نہ ہوتا الناصر نے خاموش زبان سے یہ حقیقت اس کے دل میں اتار دی کہ وہ پاکیزہ زندگی بسر کرنا چاہتی ہے تو ایسی زندگی اسے اسلام میں ملے گی سلطان صلاح الدین ایوبی کو قلعہ اعزاز کے قلعہ دار کا جواب آگ بگولہ کیے ہوئے تھا
اسے یہ قلعہ سر کرنا تھا اور فوراً بعد حلب کو محاصرے میں لے کر یہ شہر لینا تھا اسے بوزا اور منبج کے دو قلعے لڑے بغیر مل گئے تھے ان میں جو دستے تھے انہیں اس نے اپنی فوج میں شامل کرکے ان کی جگہ اپنے دستے بھیج دئیے تھے اور وہ اعزاز اور حلب کی طرف پیش قدمی کی سکیم بنا رہا تھا اس نے حسب معمول دیکھ بھال کے لیے اپنے فوجی اس علاقے میں بھیج رکھے تھے جہاں اسے آگے بڑھنا اور محاصرہ کرنا تھا جاسوسوں نے اسے حلب اور اعزاز کے دفاعی انتظامات بتا دئیے تھے سلطان ایوبی خود بھی آگے چلا جاتا تھا اور اپنی آنکھوں زمین کے خدوخال اور دیگر جنگی کوائف کا جائزہ لیتا تھا ایسے دوروں کے دوران وہ اپنا جھنڈا ساتھ نہیں رکھتا تھا اور اپنے محافظوں (باڈی گارڈز) کو بھی ساتھ نہیں لے جاتا تھا تاکہ دشمن کو پتہ نہ چل سکے کہ یہ صلاح الدین ایوبی ہے وہ گھوڑا بھی کسی دوسرے کا استعمال کرتا تھا اس کے گھوڑے کو جس کے سفید رنگ پر کہیں کہیں گہرے لال دھبے تھے دشمن کے سالار پہچانتے تھے
اسے کہا گیا تھا کہ وہ محافظوں کے بغیر اتنی دور نہ نکل جایا کرے لیکن اس نے اپنی حفاظت کی کبھی پرواہ نہیں کی تھی اب تو اس پر جنون سا طاری تھا وہ اپنے مسلمان دشمنوں کو ناکوں چنے چبوا چکا تھا ان کے تابوت میں آخری کیل گاڑنی رہ گئی تھی وہ علاقہ ایسا تھا کہ چٹانیں اور ٹیلے بھی تھے اور کہیں کہیں درختوں کے جھنڈ بھی کچھ حصے میں گہرے کھڈ بھی تھے ایسے علاقے میں سلطان ایوبی کا محافظوں کے بغیر گھومنا پھرنا خطرناک تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سلطانِ محترم! اس کی انٹیلی جنس کے سربراہ حسن بن عبداللہ نے ایک روز اسے جھنجھلا کر کہا خدانخواستہ آپ پر قاتلانہ حملہ کامیاب ہوگیا تو سلطنت اسلامیہ آپ جیسا کوئی دوسرا پاسبان پیدا نہیں کرسکے گی ہم قوم کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے آنے والی نسلیں ہماری قبروں پر لعنت بھیجیں گے کہ ہم آپ کی حفاظت نہ کرسکے تھے
اگر خدا کو یہی منظور ہے کہ مجھے کسی فدائی یا صلیبی کے ہاتھوں قتل ہونا ہے تو میں ایسی موت کو کیسے روک سکتا ہوں سلطان ایوبی نے کہا بادشاہ جب اپنی جان کی حفاظت میں مگن ہوجاتے ہیں تو وہ ملک اور قوم کی آبرو کی حفاظت کے قابل نہیں رہتے اگر مجھے قتل ہونا ہے تو مجھے اپنا فرض جلدی جلدی ادا کرلینے دو مجھے محافظوں کا قیدی نہ بتاؤ مجھ پر بادشاہی کا نشہ طاری نہ کرو تم جانتے ہو مجھ پر کتنے قاتلانہ حملے ہوچکے ہیں اللہ تعالیٰ نے مجھے ہر بار بچا لیا ہے اب بھی بچا لے گا
اس کا ذاتی عملہ اس کی سلامتی کے لیے پریشان رہتا تھا پچھلی کہانیوں میں وہ تمام قاتلانہ حملے بیان کیے گئے ہیں جو اس پر ہوئے تھے ہر حملے کے وقت وہ اکیلا تھا لیکن اس کا محافظ دستہ قریب ہی تھا جو ہر بار وہاں پہنچ گیا اب سلطان ایوبی نے یہ طریقہ اختیار کرلیا تھا کہ وہ اپنے ذاتی عملے اور محافظوں کو کسی جگہ کھڑا کرکے خود ٹیلوں اور چٹانوں میں غائب ہوجاتا تھا  حسن بن عبداللہ نے یہ انتظام کررکھا تھا کہ محافظ دستے کے چند ایک آدمی دور دور رہ کر سلطان ایوبی پر نظر رکھتے تھے یہ کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ بہت دنوں سے چار آدمی ویرانوں میں گھوم پھر رہے ہیں اور وہ سلطان ایوبی پر نظر رکھتے ہیں یہی وہ چار فدائی تھے جن کے متعلق قلعہ عصیات میں شیخ سنان نے گمشتگین کو بتایا تھا کہ سلطان ایوبی کے قتل کے لیے بھیجے گئے ہیں ان چاروں نے دیکھ لیا تھا کہ سلطان ایوبی محافظوں کے بغیر گھومتا پھرتا رہتا ہے چنانچہ انہوں نے یہ منصوبہ ترک کردیا تھا کہ جنگ زدہ علاقے کے پناہ گزینوں کے روپ میں سلطان ایوبی کے پاس جائیں گے اور اسے قتل کردیں گے سلطان ایوبی انہیں بڑا اچھا موقعہ دے رہا تھا ان چار فدائیوں کی سکیم اچھی تھی ان کی کمزوری یہ تھی کہ وہ اپنے ساتھ تیروکمان نہیں لائے تھے کیونکہ پکڑے جانے کا خطرہ تھا اگر ان کے پاس ایک بھی کمان ہوتی تو وہ کسی بھی جگہ چھپ کر سلطان ایوبی کو نشانہ بنا سکتے تھے وہاں چھپنے کی جگہیں بہت تھیں آسانی سے فرار ہوا جاسکتا تھا ان کے پاس لمبے خنجر تھے ادھر سے الناصر لزا کو گھوڑے پر بٹھائے تیزی سے آرہا تھا لزا نے اسے بتا دیا تھا کہ چار فدائی سلطان ایوبی کے قتل کے لیے گئے ہوئے ہیں الناصر بہت جلدی سلطان ایوبی تک پہنچنا اور اسے خبردار کرنا چاہتا تھا مگر سفر لمبا تھا اور گھوڑے پر دو سواروں کا بوجھ تھا گھوڑا اتنی لمبی مسافت دوڑتے ہوئے طے نہیں کرسکتا تھا اس نے راستے میں گھوڑے کو آرام دیا پانی پلایا اور پھر چل پڑا ادھر سلطان ایوبی اپنی حفاظت سے بالکل ہی بے نیاز ہوگیا تھا اور چار فدائی چھپ کر اسے دیکھ رہے تھے اس علاقے میں کوئی فوج نہیں تھی کوئی آبادی بھی نہیں تھی فدائی جنگ کے درندوں کی طرح شکار کی تلاش میں رہتے اور رات وہیں گزار لیتے تھے
سورج غروب ہوگیا الناصر اور لزا کا گھوڑا چلتا رہا اس کی چال بتا رہی تھی کہ اس کی رفتار کم ہوگی بڑھے گی نہیں الناصر نے بوجھ کم کرنے کے لیے گھوڑے سے چھلانگ لگا دی اور لگام پکڑ کر پیدل چلنے لگا رات گزرتی جارہی تھی لزا نے الناصر سے تین چار بار کہا کہ وہ اور زیادہ سواری نہیں کرسکتی اس کی ہڈیاں بھی دکھنے لگی تھیں وہ کچھ دیر آرام کرنا چاہتی تھی لیکن الناصر جو خود تھکن پیاس اور بھوک سے بے حال ہوا جارہا تھا نہ رکا اس نے لزا سے کہا تمہاری اور میری جان سے سلطان صلاح الدین ایوبی بہت زیادہ قیمتی ہے اگر میں رک گیا اور سلطان ایوبی قتل ہوگیا تو میں سمجھوں گا کہ میں اپنے سلطان کا قاتل ہوں صبح طلوع ہوئی الناصر اب قدم گھسیٹ رہا تھا لزا گھوڑے پر سر رکھے سوئی ہوئی تھی گھوڑا معمولی سی چال چل رہا تھا ایک جگہ پانی اور گھاس دیکھ کر گھوڑا رک گیا لزا نے نیند سے چونک کر کہا خدا کے لیے اسے مت گھسیٹو اسے ذرا کھا پی لینے دو گھوڑے نے پانی پی لیا تو الناصر اس کی لگام پکڑ کر چل پڑا گھوڑا دوڑنے کے قابل نہیں رہا تھا الناصر بھی تھک ہار کر سوار ہوگیا لزا کا رنگ پیلا پڑ چکا تھا اس کے منہ سے بات بھی نہیں نکلتی تھی الناصر کو یہ تو معلوم ہی نہیں تھا کہ سلطان ایوبی کہاں ہوگا وہ ترکمان کو جارہا تھا سلطان ایوبی آگے چلا گیا تھا جسے بعد میں کوہ سلطان کا نام دیا گیا تھا مگر وہ اب وہاں بھی نہیں تھا اس مقام سے بھی آگے چلا گیا تھا
الناصر کو ترکمان اور کوہِ سلطان کی چٹانیں نظر آنے لگی تھیں اور وہ سوچ رہا تھا کہ کس طرف سے جائے سورج بہت اوپر آگیا تھا
اس وقت سلطان ایوبی ایک چٹانی ویرانے میں اپنے عملے کے ساتھ وہاں کا جائزہ لے رہا تھا اس نے عملے کو ایک جگہ رکنے کو کہا اور اکیلا ہی ایک طرف نکل گیا اس کے ذہن میں شاید اپنی فوج کی پیش قدمی کی کوئی سکیم تھی گھوڑے سے اتر کر وہ ایک چٹان پر چڑھ گیا چاروں فدائی اس چٹان سے تھوڑی ہی دور ایک جگہ چھپ کر اسے دیکھ رہے تھے وہ کچھ دیر اوپر کھڑا ادھر ادھر دیکھتا رہا نیچے آنے دو ایک فدائی نے اپنے ساتھیوں سے کہا اس کے محافظ قریب ہی کہیں چھپے ہوئے ہوں گے دوسرے نے کہا آج بچ کر نہ جائے ایک اور بولا صرف ایک آدمی آگے جائے گا چوتھے نے کہا وار پیچھے سے کرنا ضرورت پڑی تو باقی آگے جائیں گے سلطان ایوبی چٹان سے اترا اور گھوڑے پر سوار ہوکر کسی اور طرف چلا گیا فدائی اس کے پیچھے پیچھے گئے حملے کے لیے یہ جگہ موزوں نہیں تھی الناصر ابھی بہت دور تھا سلطان ایوبی ایک بار پھر گھوڑے سے اترا ایک اور چٹان پر چڑھا تھوڑی دیر بعد وہاں سے اترا اور گھوڑے کی لگام پکڑ کر پیدل چل پڑا فدائی اس سے ذرا ہی دور چھپے ہوئے تھے سلطان ایوبی ایک جگہ سے گھوم گیا آگے میدان تھا وہ گھوڑے پر سوار ہونے ہی لگا تھا کہ اسے دوڑتے قدموں کی آہٹ سنائی دی ایک فدائی ایک فٹ لمبا خنجر ہاتھ میں لیے اس سے دو تین قدم دور رہ گیا تھا سلطان ایوبی نے دیکھ لیا سلطان ایوبی نے اپنا خنجر نکالا فدائی نے وار کردیا سلطان ایوبی نے اس کی خنجر والی کلائی کے آگے اپنی کلائی رکھ کر وار روکنے کی کوشش کی مگر فدائی تنومند تھا وار بڑی ہی طاقت سے کیاگیا تھا سلطان ایوبی نے وار کیا جو فدائی بچا گیا چٹان کی اوٹ سے ایک اور فدائی نکلا اس نے بھی وار کیا جو سلطان ایوبی نے بچا تو لیا لیکن اس کے کولہے کی کھال کو چیر گیا سلطان ایوبی گھوڑے کی اوٹ میں ہوگیا ایک فدائی ادھر آیا تو سلطان ایوبی نے بائیں ہاتھ کا گھونسہ اس کے منہ پر مارا وہ پیچھے کو گرنے لگا تو سلطان ایوبی نے خنجر اس کے دل کے مقام پر اتار کر زور سے ایک طرف کو جھٹکا دیا یہ فدائی ختم ہوگیا دوسرے نے اس کے پیچھے سے وار کیا لیکن سلطان ایوبی بروقت سنبھل گیا فدائی کے خنجر کی نوک سلطان ایوبی کے ایک بازو میں لگی یہ زخم بھی گہرا نہیں تھا
باقی دو فدائی بھی سامنے آگئے سرپٹ دوڑتے گھوڑوں کے ٹاپو سنائی دئیے جو آن واحد میں سلطان ایوبی کے قریب آگئے فدائی بھاگے ایک کو تو سواروں نے گھوڑوں تلے کچل ڈالا دوسرے کو مار ڈالا سلطان ایوبی کی پکار پر آخری فدائی کو زندہ پکڑ لیا گیا اللہ تعالیٰ نے سلطان صلاح الدین ایوبی کو اس حملے سے بھی بچا لیا اس پر جس وقت حملہ ہوا اس کا عملہ اس سے ساتھ آٹھ سو گز دور ایک بلندی پر کھڑا تھا اتفاق سے ان میں سے کسی نے دیکھ لیا ورنہ یہ حملہ ناکام ہونے والا نہیں تھا
یہ قاتلانہ حملہ مئی ١١٧٦ء (ذی القعد ٥٧١ ہجری) کا ہے اس کے متعلق مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے قاضی بہاؤالدین شداد نے اپنی ڈائری میں اتنا ہی لکھا ہے کہ صلاح الدین ایوبی قلعہ اعزاز کے محاصرے کے لیے جارہا تھا کہ چار فدائیوں نے اس پر قاتلانہ حملہ کیا اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسے بچا لیا میجر جنرل (ریٹائرڈ) محمد اکبر خان (رنگروٹ) نے متعدد حوالوں سے لکھا ہے کہ سلطان ایوبی قلعہ اعزاز کے محاصرے کے دوران دن کے وقت اپنے ایک سالار جاوالا سدی کے خیمے میں سویا ہوا تھا جب ایک فدائی نے خیمے میں جاکر اس پر خنجر سے وار کیا اتفاق سے سلطان ایوبی کے سر پر وہ مخصوص پگڑی تھی جو وہ میدان جنگ میں پہنا کرتا تھا اسے تربوش کہتے تھے حملہ آور کا خنجر تربوش میں لگا اور سلطان ایوبی جاگ اٹھا فوراً ہی چار پانچ فدائی اندر آگئے اور ان کے ساتھ ہی سلطان ایوبی کے باڈی گارڈ بھی اندر آگئے جنہوں نے فدائیوں کو ہلاک کرڈالا جنرل موصوف نے لکھا ہے کہ یہ فدائی کچھ عرصے سے دھوکے میں سلطان ایوبی کے محافظ دستے میں شامل ہوگئے تھے
یورپی مورخوں نے لکھا ہے کہ حملہ آور سلطان ایوبی کے اپنے باڈی گارڈ تھے ان مورخین نے سلطان ایوبی کے خلاف یہ شہادت مہیا کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ اپنی فوج میں بالکل مقبول نہیں تھا یہاں تک کہ اس کے باڈی گارڈ تک اس کے وفادار نہیں تھے اس وقت کے وقائع نگاروں کی غیر مطبوعہ تحریروں سے یہی کہانی سامنے آتی ہے جو سنائی گئی ہے فدائی نہ اس کے محافظ دستے میں تھے نہ کسی دھوکے سے حملہ آور ہوئے تھے 
انہیں سلطان ایوبی اکیلا مل گیا تھا
جو فدائی پکڑا گیا تھا اس نے بیان دیا کہ وہ چاروں قلعہ عصیات سے آئے ہیں اسے حسن بن عبداللہ کے حوالہ کردیا گیا جس نے اس سے قلعہ عصیات کے متعلق تمام تر معلومات لے لیں یہ بھی پوچھ لیا کہ اندر کتنی فوج ہے اور اس کے لڑنے کی اہلیت کیسی ہے یہ معلومات سلطان ایوبی کو دی گئیں کل رات کے آخری پہر ہم عصیات کی طرف کوچ کریں گے سلطان ایوبی نے کہا اس نے اپنی ہائی کمانڈ کے سالاروں کو بلایا اور کہا فدائیوں کا یہ اڈا اکھاڑنا ضروری ہوگیا ہے اس پر فوراً قبضہ کرنا ہے فوج کا تیسرا حصہ کافی ہوگا اس نے بتایا کہ کتنی نفری جائے گی اور اس کی ترتیب کیا ہوگی اس شام سلطان ایوبی کو اطلاع دی گئی کہ الناصر نام کا ایک چھاپہ مار واپس آیا ہے حسن بن عبداللہ الناصر سے ساری رپورٹ لے چکا تھا اسے سلطان ایوبی کے سامنے پیش کرنا ضروری تھا الناصر کو بڑی ہی بری حالت میں پیش کیا گیا مسلسل سفر بھوک اور پیاس نے اسے ادھ مؤا کردیا تھا اس کے ساتھ لزا تھی اس کا رنگ اڑا ہوا اور جسمانی حالت دگرگوں تھی الناصر نے سلطان ایوبی کو پوری تفصیل سے سنایا کہ اس پر کیا گزری ہے اس نے کوئی بات پوشیدہ نہ رکھی لزا کے متعلق بھی سب کچھ بتایا سلطان ایوبی نے لزا سے پوچھا کہ وہ اپنے متعلق فیصلے میں آزاد ہے لزا شاید اپنے آپ کو قیدی سمجھ رہی تھی اور اسے بہت برے سلوک کی توقع تھی لیکن یہاں معاملہ الٹ تھا اس نے الناصر کے ساتھ رہنے کی خواہش ظاہر کی اسے بتایا گیا کہ اسے دمشق بھیج دیا جائے گا جہاں وہ نورالدین زنگی کی بیوہ کی تحویل میں رہے گی اور الناصر اسے کچھ عرصے کے بعد ملے گا دراصل اس قسم کی لڑکیوں کو ان کی جذباتی باتوں سے متاثر ہوکر قابل اعتماد نہیں سمجھا جاتا تھا دمشق میں انہیں عزت اور آرام سے رکھا جاتا تھا اور ان کی خفیہ نگرانی کی جاتی تھی الناصر کو زخموں کے علاج اور آرام کے لیے پچھلے کیمپ میں بھیج دیا گیا شیخ سنان کا غصہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا گمشتگین اسے دھوکہ دے گیا تھا اس نے گمشتگین کے قافلے کے تعاقب میں جو آدمی بھیجے تھے ان میں سے صرف دو واپس آئے تھے وہ تھیریسیا کو اٹھا لائے تھے لزا کو الناصر بچا لے گیا تھا شیخ سنان تھیریسیا سے انتقام لے رہا تھا اسے اس نے قید میں ڈال رکھا تھا تھی تو وہ بھی بہت ہی خوبصورت لڑکی لیکن شیخ سنان کی نظر لزا پر تھی
دن کا پچھلا پہر تھا عصیات کے قلعے کی دیواروں پر کھڑے سنتریوں نے دور گرد کے بادل اٹھتے دیکھے گرد آگے ہی آگے آ رہی تھی سنتری دیکھتے رہے حتیٰ کہ گرد میں سینکڑوں گھوڑے نظر آنے لگے پھر پیادہ فوج نظر آئی سنتریوں نے نقارے بجا دئیے کمانڈروں نے اوپر جاکر دیکھا شیخ سنان کو اطلاع دی وہ بھی سامنے والی دیوار پر چڑھ گیا اس وقت فوج قلعے کے قریب آکر محاصرے کی ترتیب میں ہورہی تھی شیخ سنان نے مقابلے کا حکم دے دیا قلعے کی دیواروں پر تیرانداز پہنچ گئے لیکن انہوں نے کوئی تیر نہ چلایا کیونکہ وہ باہر کی فوج کا رویہ دیکھنا چاہتے تھے سلطان ایوبی کو قلعے کے اندر کی معلومات مل چکی تھیں الناصر اس کے ساتھ تھا دو منجینقیں نصب کردی گئی الناصر نے انہیں بتایا کہ شیخ سنان کا محل کہاں ہے اور کتنی دور ہے اس کی رہنمائی میں منجنیقوں نے پہلے بڑے پتھر پھینکے جو ٹھکانے پر پڑے سنان کے محل کی دیواروں میں شگاف پڑ گئے قلعے سے تیروں کا مینہ برس پڑا سلطان ایوبی کے حکم سے منجنیقوں سے آتش گیر مادے کی سربمہر ہانڈیاں اندر پھینکی گئیں یہ سنان کے محل کے قریب گر کر ٹوٹیں سیال مادہ دور دور تک پھیل گیا اسے آگ لگانے کے لیے فیتے والے آتشیں تیر چلائے گئے لیکن آتش گیر سیال پر نہ گرے تیر ٹھکانے پر پھینکنا آسان نہیں تھا انہیں قلعے کی دیوار کے اوپر سے اندر جانا تھا اتفاق سے قریب کہیں آگ جل رہی تھی ایک ہانڈی اس کے اتنا قریب پھٹی کہ آگ نے اس کے مادہ کو شعلہ بنا دیا دوسرے ہی لمحے سنان کا محل شعلوں کی لپیٹ میں آگیا وہاں بے شمار آتش گیر مادہ گر اور بہہ بہہ کر پھیل گیا تھا
شیخ سنان پر شعلوں نے دہشت طاری کردی اس کی فوج صلیبیوں اور مسلمانوں کی لڑاکا فوج نہیں تھی یہ نشے اور کابلی کی ماری ہوئی فوج تھی سنان نے حقیقت کو تسلیم کرلیا اور اس نے قلعے پر سفید جھنڈا چڑھا دیا سلطان ایوبی نے جنگ بندی کا حکم دے دیا اور کہا کہ شیخ سنان سے کہو کہ باہر آئے ہر طرف خاموشی طاری ہوگئی ذرا دیر بعد قلعے کا دوازہ کھلا اور شیخ سنان دو تین سالاروں کے ساتھ باہر آیا سلطان ایوبی اس کے استقبال کے لیے آگے نہیں بڑھا اس کی نگاہ میں سنان مجرم تھا وہ جب سلطان ایوبی کے سامنے آیا تو سلطان نے اسے اور اس کے سالاروں کو اتنا بھی نہ کہا کہ بیٹھ جاؤ سنان سلطان ایوبی نے کہا کیا چاہتے ہو؟
جان امان شیخ سنان نے شکست خوردہ آواز میں کہا اور قلعہ؟
سلطان ایوبی نے پوچھا مجھے آپ کا فیصلہ منظور ہوگا اپنی فوج کے ساتھ قلعے سے فوراً نکل جاؤ سلطان ایوبی نے کہا تم کوئی سامان اپنے ساتھ نہیں لے جاسکو گے اپنی فوج کو سمیٹو کسی کمان دار اور کسی سپاہی کے پاس کوئی اسلحہ نہ ہو یہاں سے خالی ہاتھ نکلو تہہ خانے میں جو قیدی ہیں انہیں وہیں رہنے دو اور یاد رکھو سلطنت اسلامیہ کی حدود میں نہ ٹھہرنا صلیبیوں کے پاس جاکر دم لینا تم نے اب کے جو چار فدائی میرے قتل کے لیے بھیجے تھے وہ بھی مارے گئے ہیں میں نے تمہیں بخش دیا ہے سفید جھنڈا تم نے چڑھایا ہے میں قرآن کے فرمان کا پابند ہوں میں کہہ نہیں سکتا خدا تمہیں معاف کریگا یا نہیں اپنے آپ کو مسلمان کہنا چھوڑ دو ورنہ میں تمہیں اور تمہارے فرقے کو بحیرۂ روم میں ڈبو کر دم لوں گا جب سورج غروب ہورہا تھا دور افق پر انسانوں کی لمبی قطار سرجھکائے چلی جارہی تھی شیخ سنان اسی قطار میں تھا اس قطار میں اس کے سپاہی اور اس کے سالار بھی تھے اور اس قطار میں اس کے پیشہ ور قاتل بھی تھے وہ اپنے ساتھ کچھ بھی نہیں لے جاسکے تھے ان کے گھوڑے اور اونٹ قلعے میں رکھ لیے گئے سورج غروب ہونے تک سلطان ایوبی کی فوج قلعے پر قبضہ مکمل کرچکی تھی تہہ خانے سے قیدیوں کو نکال لیا گیا تھا قلعے سے جو زروجواہرات برآمد ہوئے تھے ان کا کوئی شمار نہ تھا
سلطان ایوبی نے قلعہ ایک سالار کے حوالے کیا اور رات کو ہی کوہِ سلطان کو روانہ ہوگیا وہ اب زیادہ انتظار نہیں کرنا چاہتا تھا چند ہی دنوں میں اس نے پیش قدمی کی اور اعزاز کے قلعے کا جا محاصرہ کیا حلب والوں نے اس قلعے کو دفاعی لحاظ سے بہت مستحکم کررکھا تھا یہ دراصل حلب کا دفاع تھا اس میں جو فوج تھی وہ تازہ دم تھی میدان جنگ میں نہیں گئی تھی سلطان ایوبی کو ایسی خوش فہمی نہیں تھی کہ وہ اس قلعے کو فوراً سر کرلے گا یہ خطرہ بھی تھا کہ عقب سے حلب کی فوج حملہ کردے گی اس خطرے کو روکنے کا انتظام کرلیا گیا تھا سلطان ایوبی کو یہ فائدہ حاصل تھا کہ حلب کی فوج ترکمان کی لڑائی سے نقصان اٹھا کر آئی تھی اس کا لڑنے کا جذبہ مجروح ہوچکا تھا
قلعہ اعزاز کے دفاع میں لڑنے والوں نے بے جگری سے مقابلہ کیا تمام دن اور ساری رات انہوں نے سلطان ایوبی کی فوج کو قلعے کے قریب نہ آنے دیا دیواریں توڑنے والی پارٹیوں نے بہت کوشش کی کہ کسی جگہ سے دیوار کے قریب چلے جائیں اور دیوار توڑ سکیں لیکن تیر اندازوں نے انہیں قریب نہ آنے دیا اگلے دن بڑی منجنیقوں سے قلعے کے دروازے پر وزنی پتھر مارے گئے آتش گیر مادہ کی ہانڈیاں بھی دروازے پر پھینک کر آتشیں تیر چلائے گئے شعلوں نے دروازے کو چاٹنا شروع کردیا اوپر سے اعزاز کے تیر اندازوں نے منجنیقیں چلانے والوں پر بہت تیر برسائے یہ تیر بڑی کمانوں سے پھینکے جارہے تھے اس لیے دود تک آ جاتے تھے ان سے منجنیقیوں کے کئی آدمی زخمی اور شہید ہوئے لیکن اس قربانی کے بغیر قلعہ سر کرنا ممکن نہیں تھا ایک شہید ہوتا تو دوسرا اس کی جگہ لے لیتا تھا
دروازہ جل رہا تھا اور اس پر لگاتار پتھر پڑ رہے تھے بہت دیر بعد پتھر دروازے میں سے اندر جانے لگے شعلوں نے لکڑی کو کھا لیا تھا لوہے کا فریم باقی تھا جو پتھروں سے ٹیڑھا ہورہا تھا رات کو شعلے بجھ گئے دروازے کا آہنی ڈھانچہ رہ گیا اس میں سے پیادے گزر سکتے تھے گوڑھے گزارنا مشکل تھا یہاں جانبازی کی ضرورت تھی پیادہ دستوں کو حکم دیا گیا کہ دروازے کے ڈھانچے میں سے گزر کر اندر جائیں یہ سلطان ایوبی کے کریک ٹروپس تھے انہوں نے ہلہ بول دیا اعزاز کے سپاہیوں نے ان دستوں کا یہ حشر کیا کہ آگے جو گئے تھے انہیں وہیں ڈھیر کردیا پیچھے والے اپنے ساتھیوں کی لاشوں کے اوپر سے اندر گئے یہ معرکہ بڑا ہی خون ریز تھا اس سے یہ فائدہ اٹھایا گیا کہ دروازے کا آہنی ڈھانچہ توڑ لیا گیا جو پیادے زندہ تھے وہ اندر جاکر بکھر گئے اور خوب لڑے پھر گھوڑ سواروں کو اندر جانے کا حکم ملا سلطان ایوبی نے قلعے کے اندر آتش زنی کا حکم دے دیا ایک دستہ جگہ جگہ آگ لگانے لگا اعزاز کی فوج ہتھیار ڈالنے پر آمادہ نظر نہیں آتی تھی یہ قلعہ حلب سے نظر آتا تھا رات کو حلب والوں نے دیکھا کہ جہاں قلعہ ہے وہاں سے آسمان سرخ ہورہا ہے شعلے بلند ہورہے تھے یہ اطلاع تو حلب میں پہنچ چکی تھی کہ سلطان ایوبی نے اعزاز کو محاصرے میں لے رکھا ہے حلب کی ہائی کمانڈ نے اس امکان پر بھی غور کیا تھا کہ سلطان ایوبی پر عقب سے حملہ کیا جائے مگر سالاروں نے بتایا کہ فوج لڑنے کے قابل نہیں اس وقت سیف الدین حلب میں ہی تھا اور گمشتگین بھی وہیں چلا گیا تھا ان دونوں کے درمیان اعزاز اور حلب کے دفاع کے سلسلے میں ترش کلامی ہوئی جو اس حد تک بڑھی کہ گمشتگین نے سیف الدین کو قتل کی دھمکی دے دی سیف الدین نے اتحاد توڑ دیا اس کی جو بچی کھچی فوجی تھی وہ حلب سے نکال لے گیا یہ لوگ دراصل ایک دوسرے کے بھی دشمن تھے الملک الصالح کی عمر اب تیرہ برس سے کچھ اوپر ہوگئی تھی وہ سوچنے سمجھنے کے قابل ہوگیا تھا اس نے گمشتگین کا رویہ دیکھا تو اس نے محسوس کرلیا کہ اس کا یہ دوست سازشی ہے اس نے گمشتگین کو قید خانے میں ڈال دیا تاریخ میں تحریر ہے کہ گمشتگین نے ان حالات میں کہ حلب اور اعزاز محاصرے میں تھے الملک الصالح کے خلاف کوئی نئی سازش تیار کی تھی جس کا انکشاف ہوگیا اور اسے قید میں ڈال کر دو تین روز بعد قتل کردیا گیا آخر اعزاز کے محافظوں نے ہتھیار ڈال دئیے سلطان ایوبی کو اس کی بہت بڑی قیمت دینی پڑی اس کے جن دستوں نے قلعے کے اندر معرکہ لڑا تھا ان کی نفری آدھی رہ گئی تھی اعزاز والوں نے ثابت کردیا تھا کہ وہ بزدل نہیں سلطان ایوبی نے فوراً حلب کو محاصرے میں لے لیا حلب قریب ہی تھا حلب کے اندر جذبے کی یہ کیفیت تھی کہ رات اعزاز کے شعلوں نے انہیں دہشت زدہ کردیا تھا انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ ان کی فوج میں اتنا دم نہیں رہا کہ شہر کا دفاع کرسکے انہی شہریوں نے کچھ عرصے پہلے سلطان ایوبی کے چھکے چھڑا دئیے تھے اور اسے محاصرہ اٹھانا پڑا تھا مگر اب یہ شہر جیسے مر ہی گیا تھا محاصرے کے دوسرے دن الملک الصالح کا ایک ایلچی سلطان ایوبی کے پاس آیا وہ جو پیغام لایا وہ صلح کی پیش کش نہیں تھی یہ ایک ایسا جذباتی پیغام تھا جس نے سلطان ایوبی کو جھنجھوڑ ڈالا پیغام یہ تھا کہ نورالدین زنگی مرحوم کی بچی سلطان ایوبی سے ملنا چاہتی ہے اس بچی کا نام شمس النساء تھا یہ الملک الصالح کی چھوٹی بہن تھی عمر دس گیارہ سال تھی الملک الصالح جب دمشق سے حلب گیا تو اپنی بہن کو بھی ساتھ لے گیا تھا ان کی ماں رضیع خاتون بنت معین الدین (بیوہ نورالدین زنگی) دمشق میں ہی رہی تھی وہ سلطان ایوبی کی حامی تھی
سلطان ایوبی نے حلب کے ایلچی کو جواب دیا کہ بچی کو لے آئے بچی آگئی اس کے ساتھ الملک الصالح کے دو سالار تھے سلطان ایوبی نے بچی کو سینے سے لگا لیا اور وہ بہت رویا بچی کے ہاتھ میں الملک الصالح کا تحریری پیغام تھا جس میں اس نے شکست قبول کرلی تھی اور سلطان ایوبی کو سلطان تسلیم کرلیا تھا اس نے سلطان ایوبی کی اطاعت بھی قبول کرلی تھی اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ گمشتگین کو قتل کردیا گیا ہے اس لیے حرن بھی سلطان ایوبی کی ملکیت تصور کیا جائے تم لوگ بچی کو کیوں ساتھ لائے ہو؟
سلطان ایوبی نے سالاروں سے پوچھا یہ پیغام تم خود نہیں لاسکتے تھے؟
جواب سالاروں کو دینا چاہیے تھا لیکن انہوں نے بچی کی طرف دیکھا بچی نے سلطان ایوبی سے کہا ماموں جان! مجھے بھائی صالح نے بھیجا ہے آپ اعزاز کا قلعہ ہمیں دے دیں اور ہمیں حلب میں رہنے دیں ہم آئندہ آپ سے لڑائی نہیں کریں گے سلطان ایوبی نے بچی کے ساتھ آئے ہوئے سالاروں کو غضب ناک نظروں سے دیکھا وہ شرط منوانے کے لیے زنگی مرحوم کی بچی کو ساتھ لائے تھے
میں اعزاز کا قلعہ اور حلب تمہیں دیتا ہوں شمس النساء سلطان ایوبی نے بچی کو گلے لگا کر کہا اور حکم جاری کردیا کہ اعزاز کے قلعے سے اپنی فوج نکال لی جائے اور حلب کا محاصرہ اٹھا لیا جائے  اس نے حلب کے سالاروں سے کہا میں نے اعزاز اور حلب اس معصوم بچی کو دیا ہے تم بزدل بے غیرت اور ایمان فروش اس قابل بھی نہیں کہ تمہیں فوج میں رہنے دیا جائے
٢٤جون ١١٧٦ء (١٤ ذی الحج ٥٧١ ہجری) معاہدے پر دستخط ہوگئے سلطان ایوبی نے اعزاز اور حلب کو سلطنت اسلامیہ میں شامل کرلیا اور الملک الصالح کو نیم خودمختاری کی حیثیت دے دی اس کے فوراً بعد سیف الدین نے بھی سلطان ایوبی کی اطاعت قبول کرلی اور مسلمانوں کی آپس کی لڑائیوں کا دور ختم ہوگیا مگر قوم میں غدار اور ایمان فروش بدستور سرگرم رہے...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی