⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟞 𝟟⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس وقت حلب کے باہر تینوں مسلمانوں امراء کی جو کانفرنس منعقد ہوئی تھی برخاست ہوئی انہوں نے سلطان پر حملے کا پلان بنا لیا تھا زیادہ تر عقل صلیبی مشیروں کی استعمال کی گئی تھی انہوں نے یہ بھی طے کیا تھا کہ تینوں فوجوں کی ترتیب کیا ہوگی حملے کے لیے گمشتگین کی فوج کو آگے رکھنا تھا اس کے پہلوؤں کی حفاظت کی ذمہ داری حلب کی فوج کی تھی اور پہلے حملے کے بعد دوسرا حملہ جو سلطان صلاح الدین ایوبی کے جوابی حملے کو روکنے کے لیے کرنا تھا سیف الدین کے سپرد کیا گیا تھا سیف الدین نے اس متحدہ محاذ کو یہ دھوکہ دیا کہ وہ اپنی فوج کا ایک حصہ اپنے بھائی عزالدین مسعود کی کمان میں چھوڑ آیا تھا مشترکہ کمان کو اس نے یہ بتایا تھا کہ یہ محفوظ ہے جسے وہ ہنگامی حالات میں استعمال کرے گا مگر اپنے بھائی کو اس نے کہا تھا کہ وہ حلب اور حرن کی فوجوں کی کیفیت دیکھ کر آگے آئے اگر جنگ کی حالت ہمارے خلاف ہوگئی تو محفوظہ کو موصل کے دفاع میں استعمال کیا جائے اور اگر جوابی حملے میں شریک ہونا ہی پڑا تو یہ شرکت ایسی ہو کہ موصل کا اور اپنے مفاد کا زیادہ خیال رکھا جائے ماہ رمضان شروع ہوچکا تھا ان تینوں فوجوں میں اعلان کردیا گیا تھا کہ جنگ کے دوران روزے کی کوئی پابندی نہیں تین چار روز بعد تینوں افواج اپنے اپنے شہر سے کوچ کرگئیں انہیں قرون حماة کے قریب آکر اکٹھے ہونا اور حملے کی ترتیب میں آنا تھا
اس کوچ سے دو روز پہلے سلطان صلاح الدین ایوبی اپنی مورچہ بندی دیکھ رہا تھا جب اسے اطلاع ملی کہ حرن سے دو سالار مفرور ہوکر آئے ہیں اور ان کے ساتھ ایک لاش ہے سلطان صلاح الدین ایوبی نے گھوڑے کو ایڑی لگا دی وہاں جاکر وہ گھوڑے سے کود کر اترا اور دونوں سالاروں کو گلے لگایا پھر دونوں سپاہیوں سے گلے ملا یہ دونوں اس کے نامور چھاپہ مار جاسوس تھے کمان دار بھی اس کا جاسوس تھا اور ایک عرصے سے گمشتگین کی فوج میں تھا سلطان صلاح الدین ایوبی نے لاش کے گالوں کا بوسہ لیا اور حکم دیا کہ لاش دمشق بھیج دی جائے اور شہیدوں کے قبرستان میں دفن کی جائے آپ یہاں بیٹھے کیا سوچ رہے ہیں؟
سالار شمس الدین نے اپنی بپتا سنانے سے پہلے جنگی باتیں شروع کردیں میں کمک کا انتظار کررہا ہوں سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا کہ گزشتہ رات اطلاع ملی ہے کہ کمک آج رات پہنچ جائے گی اسے قاہرہ سے آنا تھا اس لیے اتنے دن لگ گئے ہیں
سلطان ایوبی نے دونوں بھائیوں کو تفصیل سے بتایا کہ اس کی نفری کتنی ہے اور اسے اس نے کس طرح ڈیپلائے کر رکھا ہے اسی وقت سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنے تمام دستوں کے کمانڈروں کو بلایا اور شمس الدین اور شادبخت سے ملایا پرانے افسر دونوں کو جانتے تھے سلطان صلاح الدین ایوبی نے دونوں سے کہا کہ وہ اس کے کمانڈروں کو بتائیں کہ جو افواج حملہ کرنے آرہی ہیں ان کی جنگی اہلیت کیسی اور جذباتی کیفیت کیا ہے انہوں نے بتایا کہ فوج بہرحال فوج ہوتی ہے دشمن کو اناڑی اور کمزور سمجھنا ایک جنگی لغزش تصور کی جاتی ہے یہ نہ بھولیں کہ یہ مسلمان افواج ہیں جن کے سپاہی پیٹھ دکھانے کے عادی نہیں سپاہیوں میں عسکری روح موجود ہے وہ پورے جوش وخروش سے لڑیں گے ان کے ذہنوں میں یہ ڈالا گیا ہے کہ آپ لوگ درندے وحشی اور عورتوں کے شکاری ہیں اور سلطان صلاح الدین ایوبی اپنی سلطنت کو وسعت دینے آیا ہے صلیبیوں نے ان کے دلوں میں آپ کے خلاف نفرت بھر رکھی ہے
سالاروں نے بتایا کہ جہاں تک ان کی قیادت کا تعلق ہے وہ قابل تعریف نہیں ان میں کوئی بھی سلطان صلاح الدین ایوبی نہیں سیف الدین اور گمشتگین اپنے ذاتی مفاد کے لیے لڑنے آرہے ہیں دونوں اپنے حرم اور شراب کے مٹکے ساتھ لائیں گے ہماری جگہ گمشتگین اپنی فوج کی کمان خود کرے گا یہ قیادت فوج کو طریقے سے لڑا نہیں سکے گی پھر بھی آپ کو محتاط ہوکر لڑنا پڑے گا وہ آپ کو ان پہاڑیوں میں محاصرے میں لینا چاہتے ہیں تینوں فوجوں کی کمان مشترک ہوگئی ہے لیکن وہ دل سے متحد نہیں
یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ خطیب ابن المخدوم صاعقہ قید خانے کا عہدے دار اور ایک جاسوس پہنچ گئے وہ راستہ بھول گئے تھے اس لیے دیر سے پہنچے سلطان صلاح الدین ایوبی کو معلوم تھا کہ خطیب اس کا حامی ہے اور وہ موصل میں اس کے جاسوسوں کی رہنمائی اور نگرانی کرتا رہا ہے سلطان صلاح الدین ایوبی نے اسے بھی اجلاس میں شامل کرلیا اور اسے کہا کہ وہ موصل کی فوج کے متعلق کچھ بتائے وہ امیر اپنی فوج کو کس طرح لڑائے گا جو شراب اور عورت کا رسیا ہو اور قرآن سے فال نکال کر فیصلے کرتا ہو خطیب نے کہا جس کے سینے میں ایمان ہی نہیں وہ میدان جنگ میں زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکتا اس نے مجھ سے کہا کہ میں قرآن سے فال نکال کر بتاؤں کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف جنگ میں اسے فتح ہوگی یا شکست میں نے اسے بتایا کہ چونکہ اس کا یہ اقدام قرآنی احکام کے خلاف ہے اس لیے اسے شکست ہوگی اس نے مجھے قید میں ڈال دیا وہ قرآن کو جادو کی کتاب سمجھتا ہے میں آپ کو قرآن کی کرامات سناتا ہوں میرا فرار قرآن کی بدولت ممکن ہوا ہے سیف الدین نے میری بیٹی کو اغوا کرنے کی کوشش کی لیکن میری بیٹی بال بال بچ گئی میں آپ سب کو یہ مژدہ سناتا ہوں کہ اگر آپ قرآنی احکام کے پابند رہے اور جنگ کو قومی اور مذہبی سطح پر رہنے دیا تو فتح آپ کی ہوگی یہ جنگ کا مذہبی پہلو ہے فنی پہلو کے متعلق میں یہ مشورہ دوں گا کہ چھاپہ ماروں کو زیادہ استعمال کریں آپ کا تو طریقہ ہی یہی ہے لیکن ان مسلمان بھائیوں کے خلاف یہ طریقہ زیادہ استعمال کریں انہیں راتوں کو بھی چین نہ لینے دیں
خطیب کو جس عہدے دار نے فرار کرایا تھا وہ بھی ساتھ تھا اس کی درخواست پر اسے فوج میں شامل کرلیا گیا اور خطیب کو اس کی بیٹی صاعقہ کے ساتھ دمشق بھیج دیا گیا سالار شمس الدین اور سالار شادبخت کو سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنے ساتھ رکھا
حلب حرن اور موصل کی افواج کوچ کرتی آرہی تھی ادھر سلطان صلاح الدین ایوبی کے لیے مصر سے جو کمک آرہی تھی وہ قریب آگئی تھی تاریخ یہ دیکھ رہی تھی کہ سلطان ایوبی تک دشمن کی فوج پہلے پہنچتی ہے یا کمک وہ بہت پریشان تھا وہ محاصرے سے ڈرتا تھا کمک کے بغیر محاصرہ توڑنا آسان نہیں تھا اس نے دماغی قوت کا آخری ذرہ بھی اس مسئلے پر صرف کر ڈالا کہ وہ محاصرے میں آگیا تو اتنی تھوڑی نفری سے محاصرہ کس طرح توڑے گا وہ اس قدر پریشان ہوگیا کہ اس نے اپنی اعلیٰ کمان کے سالاروں سے بھی اس کا اظہار کردیا اس نے کہا چھاپہ مار دستوں کو مکمل طور پر اپنے قابو میں اور اپنی نظر میں رکھنا کمک کا کچھ پتہ نہیں محاصرے کا خطرہ ہے محاصرہ صرف چھاپہ مار ہی توڑ سکیں گے اللہ کو جو منظور ہوگا وہ ہوکر رہے گا ایک سالار نے کہا یہ قلعہ تو نہیں جس میں محصور ہوکر ہم لڑ نہیں سکیں گے ان چٹانوں پر ہم گھوم پھر کر لڑیں گے
اس رات بھی وہ اچھی طرح سو نہ سکا اس کے خیمے میں قندیل جلتی رہی اس نے میدان جنگ اور اس علاقے کا جو نقشہ بنایا تھا اس کو دیکھتا اور اس پر نشان لگاتا رہا اگر اسے کوئی غیرفوجی دیکھتا تو یہی کہتا کہ وہ شطرنج کھیلنے کی مشق کررہا ہے سحری کھانے کے لیے جب نقارے بجے اور اس کی فوج جاگ اٹھی تو اس کی بھی آنکھ کھلی اسے دو خبریں اکٹھی ملیں ایک یہ کہ کمک پہنچ گئی ہے اور دوسری یہ کہ دشمن کی افواج آٹھ کوس تک آگئی ہیں اور شاید کل ہمارے سر پر آ جائیں گی یہ دیکھ بھال کی کسی پارٹی کا کمانڈر تھا اس نے بتایا کہ دشمن کی پیش قدمی تین حصوں میں ہورہی ہے ایک حصہ آگے ہے دوسرا پیچھے اور تیسرا اس سے پیچھے سلطان صلاح الدین ایوبی نے جو معلومات لینی تھیں لے لیں اس نے یہ اطلاعات لانے والوں کو بھیج دیا اور دربان سے کہا کہ وہ چھاپہ مار دستوں کے کمانڈر اور کمک کے اعلیٰ کمانڈروں کو فوراً بلا لائے اور انہیں کہے کہ وہ سحری اس کے ساتھ کھائیں اس نے جلدی جلدی وضو کیا اور کمک آجانے پر شکرانے کے نفل پڑھے پھر خدا سے کامیابی کی التجا کی تھوڑی ہی دیر میں چھاپہ ماروں کا کمانڈر آگیا اور اس کے بعد کمک کے چار کمانڈر آگئے سحری کا کھانا بھی آگیا کمک اس کی توقع سے کم تھی لیکن ان حالات میں یہی کافی تھی العادل نے اسلحہ جو بھیجا تھا اس سے سلطان صلاح الدین ایوبی مطمئن ہوگیا اسلحہ میں چھوٹی اور بڑی منجنیقیں زیادہ تھیں اور آتش گیر مادہ بھی بہت زیادہ تھا کمک نفری کے لحاظ سے تھوڑی تھی لیکن یہ نفری چونکہ تجربہ کار تھی اس لیے کارگر تصور کی جاتی تھی البتہ یہ دشواری نظر آرہی تھی کہ اس فوج اور گھوڑوں کو پہاڑی لڑائی کا تجربہ نہیں تھا اتنے میں انٹیلی جنس کا سربراہ حسن بن عبداللہ بھی آگیا اس نے بتایا کہ حلب سے اپنا ایک جاسوس آیا ہے جس نے یہ معلومات دی ہیں کہ صلیبیوں نے اس مشترکہ لشکر کو تیروں اور کمانوں کا ذخیرہ آتش گیر مادے کے مٹکے اور پانچ سو گھوڑے بھیجے ہیں جاسوس نے یہ بھی بتایا کہ وہ پیش قدمی کے بعد آیا ہے اس لیے اس نے دیکھا ہے کہ یہ مٹکے اونٹوں پر لاد کر لائے گئے ہیں یہ قافلہ الگ تھلگ فوج کے ساتھ ہے منجنیقیں بھی ساتھ ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دشمن منجنیقوں سے آگ کے گولے پھینکے گا اور فلیتے والے آتشیں تیر چلائے گا سلطان صلاح الدین ایوبی نے چھاپہ مار دستوں کے اعلیٰ کمانڈر سے کہا تمہیں سب کچھ بتایا جاچکا ہے اپنا کام تم جانتے ہو اب پہلے منصوبے میں یہ ترمیم کرلو کہ جب تک دشمن حملہ نہ کرے اس پر کہیں بھی شب خون نہ مارنا اطلاع کے مطابق وہ سیدھا قرون حماة کی طرف آرہا ہے شب خون مارو گے تو اس کی رفتار سست ہوجائے گی حملے کے بعد تمہیں معلوم ہے کہ میں جوابی حملہ نہیں کروں گا دشمن کو میرے حملے کی توقع ہوگی اور میں حملہ سامنے سے نہیں عقب سے کروں گا تمہارا کام اس وقت شروع ہوگا جب دشمن عقب کے حملے سے گھبرا کر ادھر ادھر نکلنے کی کوشش کرے گا ان پہاڑیوں میں سے دشمن کا ایک بھی سپاہی نکل کر نہ جائے زیادہ سے زیادہ قیدی پکڑو وہ مسلمان سپاہی ہیں تمہاری قید میں آئیں گے تو حق اور باطل کو سمجھ جائیں گے یہی میری منشا ہے ہمارے مقابلے میں آکر ہمارے تیروں سے اور ہماری تلواروں سے جو مرتا ہے اسے مرنے سے میں روک نہیں سکتا تمہارے سامنے یہ اطلاع آئی ہے کہ دشمن آتش گیر مادے کے مٹکے لا رہا ہے ہونا تو یہ چاہیے کہ صحیح حالت میں ہمارے قبضے میں آجائیں لیکن ان سے تم ایک فائدہ اٹھا سکتے ہو اپنے کسی دستے کے دس بارہ منتخب چھاپہ ماروں کو یہ کام سونپو کہ وہ حملے کے دوران شب خون مار کر ان مٹکوں کو توڑ دیں اور آگ لگا دیں دن کے وقت وہ دیکھ لیں کہ مٹکوں کا قافلہ کہاں ہے سب سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ دشمن ابھی ندی تک نہیں پہنچا گھوڑوں کو پانی پلا لو اور مشکیزے بھرلو موسم سرد ہے اور یہ صحرا نہیں پیاس سے کوئی مرے گا نہیں پھر بھی یہ جنگ ہے اور پیاس پریشان کرے گی اسے رخصت کرکے اس نے کمک کے کمانڈروں سے کہا تم لوگ صرف یہ ذہن میں رکھنا کہ یہ مصر کا صحرا نہیں پہاڑی علاقہ ہے اور ٹھنڈ ہے دھوپ نکلے گی اور بھاگو دوڑو گے تو گرمی آجائے گی یہاں تمہیں ضرب لگاؤ اور کسی اور طرف نکل جاؤ کا موقعہ ضرور ملے گا تمہیں اس کی تربیت دی گئی ہے لیکن یہاں خیال رکھنا کہ تمہارے لیے زمین محدود ہے صحرا میں تو کئی کئی کوس کا چکر کاٹ کر دشمن کے اوپر آسکتے ہو اور تمہیں اپنی چال دہرانے کے لیے لامحدود میدان مل سکتا ہے یہاں میں نے دشمن کو جس جگہ گھسیٹ کر لانے کا بندوبست کیا ہے وہ میدان ہی ہے لیکن محدود ہے وقت نہیں کہ تمہیں چٹانوں اور ٹیکریوں سے متعارف کرایا جائے اس لیے اپنی عقل استعمال کرنا تیر اندازوں کو چٹانوں پر رکھنا گھوڑوں کو ٹیکریوں پر نہ لے جانا جلدی تھک جائیں گے ہمارے گھوڑے کچھ عادی ہوگئے ہیں
اس نے کمک کو محفوظہ کے طور پر رکھ لیا اور کمانڈروں کو اپنی اعلیٰ کمان کے سالاروں کے سپرد کردیا ان سالاروں کو جنگ کا پلان دیا جاچکا تھا
وادیوں میں صبح کی آذان کی کئی مقدس آوازیں گونج رہی تھیں سلطان ایوبی نے غسل کیا اپنی تلوار نیام سے نکالی اس کی چمک اور دھار دیکھی اور جذبات اچانک ابل پڑے اس نے تلوار دونوں ہاتھوں پر رکھی قبلہ رو ہوکر ہاتھ اٹھائے آنکھیں بند کرکے اس نے خدا کو پکارا خدائے عزوجل تیری خوشنودی اس میں ہے کہ مجھے شکست دے تو میں اس ذلت کے لیے تیار ہوں فتح دے تو تیری ذات باری کا شکر ادا کروں گا آج میں تیرے رسولﷺ کے نام لیواؤں کے خلاف لڑ رہا ہوں اگر یہ گناہ ہے تو مجھے اشارہ دے کہ میں اپنی تلوار اپنے پیٹ میں اتار دوں میں ان بچیوں کی روح کی پکار پر آیا ہوں جن کی عصمتیں صرف اس لیے لٹ گئی ہیں کہ وہ تیرے رسولﷺ کی امت سے تھیں
مجھے تیرے وہ بے بس بندے پکار رہے ہیں جو مسلمان ہونے کی وجہ سے کفار کے ظلم وتشدد کا نشانہ بنے ہوئے ہیں میں تیرے عظیم مذہب کی عظمت اور عصمت کی حفاظت کے لیے صحراؤں جنگلوں اور پہاڑوں میں بھٹکتا پھر رہا ہوں
میرے رسولﷺ
میرے رسولﷺ مقبول میرے سچے رب ذوالجلال میں آپ کے قبلہ اول کو آزاد کرانے چلا تھا
رسولﷺ کی امت میرے راستے میں آگئی ہے مجھے اشارہ دو کہ ان کا خون بہانا مجھ پر حلال ہے یا نہیں میں گمراہ تو نہیں ہوگیا؟
مجھے اپنے نور کی روشنی دکھاؤ اگر میں حق پر ہوں تو ہمت واستقلال عطا فرماؤ
اس نے سرجھکا لیا اور بہت دیر اسی حالت میں کھڑا رہا پھر اچانک تلوار نیام میں ڈال لی اور باہر نکل گیا اس کے قدموں میں کچھ اور ہی شان تھی وہ اس جگہ چلا جارہا تھا جہاں اس کے مرکز اور اعلیٰ کمان کے کمانڈر اور دیگر افراد باجماعت نماز پڑھا کرتے تھے جماعت کھڑی ہورہی تھی وہ پچھلی صف میں کھڑا ہوگیا اس کے ایک طرف اس کا باورچی اور دوسری طرف اس کے کسی کمان دار کا اردلی کھڑا تھا نماز سے فارغ ہوکر سلطان صلاح الدین ایوبی قرون حماة کی طرف روانہ ہوگیا راستے میں اسے باری باری چار قاصد ملے اور زبانی پیغام دئیے یہ دیکھ بھال کی پارٹیوں کے قاصد تھے جو حرن حلب اور موصل کی مشترکہ فوجوں کی نقل وحرکت اور سرگرمیوں کی خبریں لائے تھے یہ سلسلہ دن رات چلتا رہتا تھا سلطان صلاح الدین ایوبی نے قاصدوں کو رخصت کردیا اس کے ساتھ سالار شمس الدین تھا اس کے بھائی سالار شادبخت کو اس نے کسی اور طرف متعین کردیا تھا
دشمن کے متعلق جو خبریں مل رہی ہیں ان کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟
شمس الدین نے پوچھا کیا ہم اتنی تھوڑی فوج سے اتنے بڑے لشکر کا مقابلہ کرسکیں گے؟
میرے لیے یہ کوئی مسئلہ نہیں کہ دشمن کتنا لشکر لایا ہے اور میرے پاس کیا ہے سلطان صلاح الدین ایوبی نے جواب دیا میں پریشان اس پر ہوں کہ دشمن حملہ کیوں نہیں کرتا میرے ان مسلمان بھائیوں کے پاس صلیبی جاسوس ہیں کیا صلیبی اتنے اناڑی ہوگئے ہیں کہ انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ مصر سے میری کمک آرہی ہے اور میں کمک کے بغیر لڑ نہیں سکتا؟
اگر دشمن سرگرم ہوتا تو میرے تمام مسئلے حل ہوجاتے دشمن کا یوں آکے بیٹھ جانا اور مجھے اتنا وقت دے دینا کہ میں کمک حاصل کرلوں اسے ٹھکانے بھی لگا لوں تمام تر فوج کے گھوڑوں کو پانی پلا کر پانی کا ذخیرہ بھی کرلوں میرے لیے پریشان کن ہے مجھے خدشہ ہے کہ دشمن کوئی ایسی چال چلے گا جو کبھی میرے دماغ میں نہیں آئی یہ لوگ کھیل تماشے کے لیے تو نہیں آئے جہاں تک ان لوگوں کو جانتا ہوں شمس الدین نے کہا ان کے پیش نظر کوئی ایسی چال نہیں مجھے اپنے اللہ پر بھروسہ ہے خدا نے ان کے دماغوں پر مہر ثبت کردی ہے کیونکہ وہ باطل کی انگیخت اور مدد سے حق کے خلاف لڑنے آئے ہیں ان کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے میں کسی گہری اور خطرناک چال کا خدشہ محسوس نہیں کررہا شمس بھائی! سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا مجھے بھی اللہ پر ہی بھروسہ ہے لیکن میں جذبات اور فلسفے کے بجائے حقیقت کو دیکھا کرتا ہوں حق پر باطل نے بھی کئی بار فتح پائی ہے کیونکہ حق والے اللہ کے بھروسے ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھ گئے تھے حق خون اور جان کی قربانی مانگتا ہے اگر ہم یہ قربانی دینے کے لیے تیار ہیں تو حق کی فتح ہوگی باطل میں جو قوت ہے اس کا مقابلہ ہمیں میدان میں کرنا ہے ہمیں حقائق پر نظر رکھنی ہے اپنی پوری صلاحیتیں اور جسم کی تمام تر طاقت استعمال کرنی ہے اس کے بعد کے نتائج اللہ پر چھوڑ دو اپنے آپ کو خوش فہمیوں میں مبتلا نہ کرو وہ گھوڑے سے اترا سالار شمس الدین دو اور مشیر اور محافظ جو اس کے ساتھ تھے گھوڑوں سے اترے سلطان صلاح الدین ایوبی شمس الدین اور دونوں مشیروں کو ایک بلند چٹان پر لے گیا ان کے سامنے چٹانوں میں گھرا ہوا وسیع میدان تھا جو سینگوں کی شکل کی چٹانوں سے آگے پھیلتا چلا گیا تھا اس طرف جہاں سلطان صلاح الدین ایوبی کھڑا تھا دو چٹانیں آگے پیچھے تھیں ان کے درمیان وادی یا گلی تھی جو میدان میں کھلتی تھیں یہ گھوم پھر کر اس طرف باہر نکل جاتی تھی میدان میں چٹانوں کے ساتھ ساتھ سینکڑوں چھوٹے بڑے خیمے کھڑے تھے ایک طرف اس فوج کے گھوڑے بندھے تھے جو خیموں میں تھی سپاہی گھوم پھر رہے تھے کچھ ایسے بھی تھے جو دھوپ میں لیٹے ہوئے یا سوئے ہوئے تھے انہیں دیکھ کر معلوم ہوتا تھا جیسے انہیں معلوم ہی نہیں کہ ان پر ایک بہت بڑا لشکر کسی بھی وقت حملہ کرنے کے لیے ان کے سر پر بیٹھا ہے اگر وہ جنگی تیاری میں ہوتے تو ان کے خیمے کھڑے رہنے کے بجائے لپٹے ہوئے کہیں اور رکھے ہوئے ہوتے اور ان کے گھوڑوں پر زینیں کسی ہوئی ہوتیں ان دستوں کے سالاروں اور کمانڈروں کو میں نے جو ہدایات دی ہیں وہ تم تینوں ایک بار پھر سن لو سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا ہوسکتا ہے میں تم سے پہلے مارا جاؤں اور جنگ شروع ہوتے ہی مارا جاؤں میرے بعد میدان کی ذمہ داریاں تم سنبھالو گے میں نے انہیں بتایا ہے کہ خیمے لگے رہنے دو گھوڑے زینوں کے بغیر بندھے رہنے دو فراغت کی حالت میں گھومو پھرو اور ادھر ادھر بیٹھے اور لیٹے رہو لیکن خیموں میں اپنے ہتھیار اور گھوڑوں کی زینیں تیار رکھو دشمن کے جاسوس تمہیں دیکھ رہے ہیں انہیں یہ تاثر دو کہ تمہیں دشمن کی کچھ خبر نہیں جب دشمن کا لشکر آئے تو گھبراہٹ کا مظاہرہ کرو ہتھیار اٹھالو خیمے پھر بھی کھڑے رہنے دینا آگے بڑھ کر مقابلہ نہ کرنا دشمن اوپر چڑھ آئے تو لڑتے ہوئے اتنی تیزی سے پیچھے ہٹنا کہ دشمن کے حملہ آور دستے تمہارے ساتھ ہی ان چٹانوں کے گھیرے میں آجائیں دشمن کو پسپائی کا تاثر دو
سلطان صلاح الدین ایوبی نے دو متوازی چٹانوں کے درمیان گلی کی طرف اشارہ کرکے کہا میں نے ان دستوں کو بتا دیا ہے کہ اس گلی میں آکر پیچھے کو نکل جائیں انہیں جہاں اکٹھا ہونا ہے وہ جگہ بھی انہیں بتا دی ہے اس نے وہ جگہ اپنے رفیقوں کو بتا کر کہا ان دستوں کو دشمنوں کے عقب میں جانا ہوگا ان چٹانوں پر میں نے دشمن کے استقبال کا جو بندوبست کررکھا ہے وہ تمہیں معلوم ہے یاد رکھو میرے دوستو! ہمیں یہاں کوئی علاقہ اور کوئی قلعہ فتح نہیں کرنا ہمیں دشمن کو بے بس اور بے کار کرنا ہے تاکہ وہ ہمارے راستے سے ہٹ جائے مجھے اپنے مسلمان بھائیوں کو دشمن کہتے ہوئے شرم آتی ہے مگر حالات کا تقاضا یہی ہے میں انہیں ہلاک نہیں کرنا چاہتا میں نے احکام جاری کردئیے ہیں کہ زیادہ افراد کو زندہ پکڑو اور جنگی قیدی بناؤ میں انہیں تلوار سے زیر کرکے اخلاق سے ذہن نشین کراؤں گا کہ تم مسلمان سپاہی ہو اور تمہارے بادشاہ تمہارے مذہب کے دشمن کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں
کسی قوم کو مارنا ہو تو اس میں خانہ جنگی کرادو سالار شمس الدین نے کہا صلیبیوں نے کامیابی سے یہ حربہ استعمال کیا ہے
مسلمان قوم کی مثال بارود کی سی ہے سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا یہ قوم جذباتی ہوتی چلی جارہی ہے بارود کے اس ڈھیر میں کہیں سے بھی چنگاری آن گرے یہ دھماکے سے پھٹ جاتا ہے یہ چنگاری مسجد کے امام سے ملے یا عیش پرست حکمران سے یا دشمن ہمارے ہی بھائیوں کے ہاتھوں یہ چنگاری پھینکے جذبات بارود کی طرح پھٹتے ہیں اگر قوم کی یہ کمزوری جڑ پکڑی گئی تو قوم کا اللہ ہی حافظ ہے قوم اگر زندہ رہی تو کفار اسے دھڑوں میں تقسیم کرکے لڑاتے رہیں گے اور قوم کے سربراہ حکمرانی اور لالچ میں آپس میں لڑتے رہیں گے یہ جو تین فوجیں اپنی ہی قوم کے خلاف یلغار کر کے آئی ہیں ان کے سربراہ اکٹھے ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے دشمن ہیں وہ ایک دوسرے کو دھوکہ فریب دے کر سلطنت اسلامیہ کا بادشاہ بننا چاہتے ہیں میں ان لوگوں کے دماغوں سے بادشاہی کا کیڑا نکال کر قوم کو راہ راست پر لانے کی فکر میں ہوں میرے پیش نظر اسلام کا تحفظ اور فروغ ہے
قرون حماة سے تھوڑی ہی دور حرن کا قلعہ دار گمشتگین جس نے خودمختاری کا اعلان کردیا تھا اپنے سالاروں اور چھوٹے بڑے کمانڈروں کو اکٹھا کرکے کہہ رہا تھا صلاح الدین ایوبی صلیبیوں کو شکست دے سکتا ہے وہ جب تمہارے سامنے آئے گا تو لومڑی کی ساری چالیں بھول جائے گا وہ ہم میں سے نہیں وہ کرد ہے تم پکے مسلمان ہو دین دار اور پرہیز گار ہو وہ صرف نام کا مسلمان مکار اور عیار ہے وہ یہاں اپنی سلطنت قائم کرکے اس کا بادشاہ بننے کی کوشش میں ہے میں تمہیں اس کی جنگی کیفیت بھی بتا دیتا ہوں اس کے پاس فوج بہت تھوڑی ہے اور وہ پہاڑیوں میں گھرا بیٹھا ہے تھوڑی ہی دیر پہلے جاسوسوں نے مجھے اطلاع دی ہے کہ اس کی فوج خیموں میں آرام کررہی ہے اور اس کے گھوڑے بھی تیاری کی حالت میں نہیں اس کی وجوہات دو ہوسکتی ہیں ایک یہ کہ اسے یقین ہے کہ اسے ہم شکست نہیں دے سکتے دوسری یہ کہ اسے یہ خوش فہمی بھی ہوسکتی ہے کہ ہم اس پر حملہ نہیں کریں گے وہ شاید صلح کے لیے ہمارے پاس ایلچی بھی بھیجے گا اب ہم اس کے ساتھ کوئی صلح یا سمجھوتہ نہیں کریں گے وہ اب ہمارا قیدی ہے اگر زندہ ہمارے ہاتھ نہ آیا تو میں تمہیں اس کی لاش دکھاؤں گا اپنے سپاہیوں سے کہہ دو کہ صلاح الدین ایوبی امام مہدی یا پیغمبر نہیں اور اس کی فوج میں کوئی جن بھوت نہیں ہم اس کی فوج کو بے خبری میں جا پکڑیں گے اپنے سامعین کو اشتعال دلا کر اور ان کا حوصلہ بڑھا کر اس نے انہیں رخصت کردیا اور اپنے ان خیموں میں چلا گیا جنہوں نے جنگل میں منگل بنا رکھا تھا
اس کا اپنا خیمہ بہت بڑا تھا جس کے اندر قالین بچھے ہوئے تھے اور بیش قیمت پلنگ تھا شراب کی صراحی اور نہایت دلکش پیالے رکھے تھے اندر سے خیمہ کسی محل کا کمرہ معلوم ہوتا تھا اس کے ارد گرد کئی اور خیمے تھے جو فوجی خیموں سے مختلف اور خوبصورت تھے ان میں حرم کی لڑکیاں اور ناچنے گانے والیاں رہتی تھیں خیموں سے دور دور پہرہ دار کھڑے تھے گمشتگین کے خیمے کے باہر نو آدمی اس کے انتظار میں کھڑے تھے انہیں دیکھ کر گمشتگین تیز چل پڑا اور قریب جاکر انہیں اندر چلنے کو کہا اندر جاتے ہی لڑکیوں کی ایک قطار ہاتھوں میں طشتریاں اٹھائے خیمے میں داخل ہوئی کھانا چن دیا گیا اور شراب کی صراحیاں بھی آگئیں گمشتگین ان نو آدمیوں کے ساتھ کھانے پر بیٹھ گیا یہ نو آدمی کھانے پر ٹوٹ پڑے انہوں نے بھنے ہوئے گوشت کے بڑے بڑے ٹکڑے ہاتھوں میں لے کر مردار خور درندوں کی طرح کھانے شروع کردیے ساتھ ساتھ وہ شراب پانی کی طرح پی رہے تھے ان کی آنکھیں لال سرخ تھیں جن سے وہ وحشی اور خونخوار لگتے تھے تین چار خوبصورت لڑکیاں ان کے پیالے شراب سے بھرتی جارہی تھیں اور یہ وحشی کبھی کسی لڑکی کے بکھرے ہوئے بالوں پر ہاتھ پھیرتے کبھی ان کے عریاں بازوؤں کو پکڑ کر ان پر اپنے گال رگڑتے کھانا اور چھیڑ خانی چلتی رہی گمشتگین ان کی حرکتیں اور کھانے کا انداز دیکھ کر مسکراتا رہا مگر اس کی مسکراہٹ بتاتی تھی کہ وہ زبردستی مسکرا رہا ہے اور اسے یہ لوگ بالکل پسند نہیں
کھانے پینے سے فارغ ہوکر گمشتگین نے لڑکیوں کو باہر بھیج دیا اور ان نو آدمیوں کے ساتھ کچھ دیر گپ شپ لگا کر کہا اب وقت آگیا ہے کہ میں تمہیں صلاح الدین کی طرف رخصت کروں اب کے وار خالی نہیں جانا چاہیے اگر آپ ہمیں روک نہ لیتے تو اب تک آپ یہ خوشخبری سن چکے ہوتے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی قتل ہوگیا ہے اور قاتل معلوم نہیں کون تھے ایک آدمی نے کہا یہ حسن بن صباح کے وہی نو فدائی تھے جنہیں ان کے مرید شیخ سنان نے تریپولی سے سلطان صلاح الدین ایوبی کے قتل کے لیے بھیجا تھا یہ منتخب افراد تھے جو بظاہر انسان تھے لیکن خصلت کے درندے تھے انہوں نے اپنے اپنے دائیں ہاتھ کی درمیانی انگلی سے خون کے دس دس قطرے نکال کر مقدس پیالے میں گرائے ان پر شراب اور حشیش ڈالی اور تینوں چیزیں ملا کر ہر ایک نے ایک ایک گھونٹ پیا اور اپنے مخصوص الفاظ میں حلف اٹھایا تھا کہ وہ سلطان صلاح الدین ایوبی کو قتل کریں گے یا زندہ نہیں رہیں گے شیخ سنان نے انہیں تارک الدنیا صوفیوں کے لباس میں ہاتھوں میں تسبیحیں اور گلے میں قرآن لٹکا کر اس ہدایت کے ساتھ روانہ کیا تھا کہ وہ سلطان صلاح الدین ایوبی تک رسائی حاصل کریں اور اس کے سامنے یہ مسئلہ رکھیں کہ مسلمان کے خلاف نہیں لڑنا چاہیے اور وہ ثالث بن کر آپس میں ٹکرانے والے مسلمان امراء کا صلح نامہ کرائیں گے اس طرح تنہائی میں سلطان صلاح الدین ایوبی کو قتل کردیں گے
شیخ سنان نے طریقہ اچھا سوچا تھا سلطان صلاح الدین ایوبی مذہبی پیشواؤں کو احترام سے اپنے پاس بٹھانے اور ان کی بات توجہ سے سننے کا عادی تھا اس کی دوسری کمزوری یہ تھی کہ وہ چاہتا ہی یہی تھا کہ کوئی درمیان میں آکر مخالفین کے ساتھ اس کا سمجھوتہ کرادے تاکہ مسلمان مسلمان کے ہاتھوں قتل نہ ہوں ورنہ صلیبیوں کو جنگی تیاریوں کا اور حملہ کرکے بہت بڑی کامیابی حاصل کرنے کا موقعہ مل جائے گا اس نے حلب وغیرہ میں اپنے ایلچی بھیجے بھی تھے جو توہین آمیز جواب لائے تھے اب نوصوفی منش چغوں میں خنجر اور تلواریں چھپائے اس کی خواہش پوری کرنے کا دھوکہ لے کر آرہے تھے وہ اسے آسانی سے قتل کرسکتے تھے تریپولی سے وہ روانہ ہوئے اور حرن پہنچے تھے گمشتگین کو اس کے صلیبی مشیروں نے بتایا تھا کہ یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کو قتل کرنے جارہے ہیں اس نے ان سے قتل کا طریقہ سنا تو اسے مسترد کرکے انہیں اپنے پاس شاہی مہمانوں کی حیثیت سے روک لیا اور صلیبی مشیروں سے کہا تھا کہ وہ سلطان صلاح الدین ایوبی پر حملہ کرنے جارہا ہے ان نو فدائیوں کو اپنے ساتھ لے جائے گا اور موزوں موقعے پر اور کسی بہتر طریقے سے سلطان صلاح الدین ایوبی کو قتل کرائے گا چنانچہ وہ انہیں اپنے ساتھ محاذ پر لے آیا تھا
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس نے میدان جنگ میں ان کے لیے موقعہ پیدا کرلیا اور ان کا بہروپ بھی تیار کرلیا تھا اس نے کھانے سے فارغ ہوکر انہیں کہا آج میں تمہیں بتاتا ہوں کہ میں نے صلاح الدین ایوبی کے قتل کا کیا طریقہ سوچا ہے تم نے صوفیوں کا جو روپ دھارا ہے وہ شک پیدا کرسکتا ہے ایوبی کی نظر بڑی گہری ہے اس پر پہلے چار پانچ قاتلانہ حملے ہوچکے ہیں وہ اور زیادہ محتاط ہوگیا ہے اس کے ساتھ دو بڑے ہی تجربہ کار سراغ رساں ہیں ایک علی بن سفیان اور دوسرا حسن بن عبداللہ وہ ایک نظر میں انسان کو بھانپ لیتے ہیں ہمارے جاسوسوں کی اطلاع کے مطابق اس وقت حسن بن عبداللہ اس کے ساتھ ہے اور علی بن سفیان قاہرہ میں ہے صلاح الدین ایوبی سے کوئی اجنبی ملنے جاتا ہے تو دو تین سالار اور حسن بن عبداللہ اس کی بڑی گہری چھان بین کرتے ہیں انہیں شک ہو تو اس کی تلاشی بھی لیتے ہیں
ایوبی یا حسن بن عبداللہ کو یہ خیال آسکتا ہے کہ یہ چپقلش تو کئی مہینوں سے چل رہی ہے تمہیں صلح نامے کا خیال آج کیسے آیا ہے ایوبی یہ بھی پوچھ سکتا ہے کہ تم کہاں کے مذہبی پیشوا ہو اور وہ کوئی ایسا سوال پوچھ سکتا ہے جس کا تم لوگ جواب نہ دے سکو یا ایسا جواب دو جو تمہیں بے نقاب کردے وہ خود عالم ہے مذہب اور تاریخ کا اس کا گہرا مطالعہ ہے اس کے علاوہ تمہارے چہروں پر داڑھیوں کے سوا صوفیوں والی کوئی نشاندہی نظر نہیں آتی تم میں سے چار کی داڑھیاں ابھی چھوٹی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ایک مہینے سے بڑھائی گئی ہیں تمہاری آنکھوں میں حشیش اور شراب کا نشہ چڑھا ہوا ہے مجھے ان چہروں پر پاکیزگی کا شائبہ تک نظر نہیں آتا
ان نو میں سے کسی نے بھی برا نہ مانا ان کے سرغنہ نے کہا مجھے آپ کی ہر ایک بات سے اتفاق ہے اگر صلاح الدین ایوبی نے ہمیں صوفی یا امام سمجھ کر عزت سے اپنے خیمے میں بٹھا لیا اور کچھ کھانے پینے کے لیے ہمارے آگے رکھ دیا تو میرے یہ دوست ٹوٹ پڑیں گے ہم میں سے کسی کو بھی علم نہیں کہ امام اور خطیب کھاتے کس طرح ہیں آپ نے کیا طریقہ سوچا ہے؟
نہایت سہل اور بے خطر گمشتگین نے کہا میں تمہیں صلاح الدین ایوبی کے رضاکار محافظ بنا کر قرون حماة بھیج رہا ہوں اس کے محافظ گہری چھان بین کے بعد منتخب کیے جاتے ہیں ان کے خاندانوں کی بھی جانچ پڑتال ہوتی ہے اس لیے یہ ناممکن ہے کہ تم جاتے ہی اس کے محافظ دستے میں شامل ہو جاؤ گے میں نے ایک طریقہ سوچا ہے جو مجھے امید ہے کامیاب ہوگا جاسوسوں نے بتایا کہ دمشق کے لوگوں میں ہمارے خلاف اور صلاح الدین ایوبی کے حق میں اتنا جوش وخروش اور جذبہ پایا جاتا ہے کہ وہ رضاکارانہ طور پر محاذ پر آرہے ہیں وہاں جسے دیکھو تیغ زنی اور تیر اندازی کی مشق کررہا ہے مجھے معلوم ہوا ہے کہ ایوبی ان رضاکاروں کو باقاعدہ فوج میں تو نہیں رکھتا دوسرے کاموں کے لیے رکھ لیتا ہے میں اس فضا سے فائدہ اٹھا رہا ہوں
اس نے الگ رکھا ہوا لکڑی کا ایک بکس کھولا اس میں کپڑے تھے اس نے فدائیوں سے کہا تم سب یہ لباس پہن کر صلاح الدین ایوبی کے پاس جاؤ گے یہ اس کے محافظ دستے کا مخصوص لباس ہے تم میں سے ایک آدمی کے ہاتھ میں ایوبی کا جھنڈا ہوگا باقی آٹھ کی برچھیوں کے ساتھ اس کی فوج کی جھنڈیاں ہوں گی تم سیدھے ایوبی کے پاس جاؤ گے تمہیں روک لیا جائے گا اس تک نہیں پہنچنے دیا جائے گا تم جوش اور جذبات سے کہنا کہ ہم رضاکار ہیں اور دمشق سے سلطان صلاح الدین ایوبی کی حفاظت کے لیے آئے ہیں یہ بھی کہنا کہ ہم نے بڑی محبت سے محافظ دستے کا لباس سلوایا اور دل میں سلطان کی عقیدت لے کر آئے ہیں ہمیں سلطان کے اردگرد پہرے پر لگایا جائے یا ہمیں جانباز دستے میں شامل کردیا جائے ہم واپس نہیں جائیں گے تمہیں صلاح الدین ایوبی تک جانے نہیں دیں گے تم ضد کرنا اور کہنا کہ ہم اتنی دور سے عقیدت اور جذبات سے آئے ہیں ہم سلطان سے ملے بغیر نہیں جائیں گے میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ وہ جذبے کی بہت قدر کرتا ہے تم سے ملے گا ضرور برچھیاں تمہارے ہاتھوں میں ہوں گی اگر وہ باہر ہوا تو گھوڑوں سے اترنا نہیں قریب جاکر گھوڑوں کو ایڑی لگا دینا اور اس کا جسم برچھیوں سے چھلنی کرکے نکلنے کی کوشش کرنا تم سب نے جان کی بازی لگانے کا حلف اٹھایا ہے لیکن مجھے امید ہے تم سب نکل آؤ گے مجھے پوری توقع ہے کہ اپنے سلطان کو زخمی حالت میں دیکھ کر محافظوں میں افراتفری مچ جائے گی پیشتر اس کے کہ وہ سمجھ پائیں کہ یہ ہوا کیا ہے تم ان کے تیروں کی زد سے نکل آؤ گے میں تمہیں عرب کی اس نسل کے گھوڑے دے رہا ہوں جن کے تعاقب میں ہوا بھی نہیں پہنچ سکتی طریقہ بہت اچھا ہے فدائی قاتلوں کے سرغنہ نے کہا ہمارے وہ ساتھی بدبخت اناڑی اور بزدل تھے جو اسے سوتے وقت بھی قتل نہ کرسکے اسی کے ہاتھوں مارے گئے اور جو زندہ رہے وہ پکڑے گئے اب ہم جارہے ہیں اگر اس کا سر کاٹ کر نہ لاسکے تو آپ یہ خبر ضرور سنیں گے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی قتل ہوگیا ہے اور اگر ہم اسے قتل کر آئے تو؟
ایک فدائی نے حرم کی لڑکیوں کے خیموں کی طرف اشارہ کرکے اور شیطانی مسکراہٹ سے کہا گمشتگین شیطان کی مسکراہٹوں کو اچھی طرح سمجھتا تھا اس نے ایسی ہی مسکراہٹ سے کہا تم میں سے جو زندہ آئیں گے اور صلاح الدین ایوبی کو قتل کرکے آئیں گے انہیں میں ایک ایک خیمے میں داخل کردوں گا تمہیں جو انعام صلیبی دیں گے اس سے اتنے زیادہ زروجواہرات میں دوں گا جو تم نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھے اور تم میں سے جو آدمی صلاح الدین ایوبی کا سر کاٹ کر لائے گا اسے اس کی پسند کی دو لڑکیاں ہمیشہ کے لیے دوں گا
فدائیوں نے وحشیوں کی طرح چیخ چیخ کر قہقہے لگانے شروع کردئیے گمشتگین نے بڑی مشکل سے انہیں خاموش کیا اور کہا آؤ تمہیں وہ راستہ بتا دوں جو دمشق سے قرون کی طرف آتا ہے تم یہاں سے دور کا چکر کاٹ کر دمشق کے راستے پر پہنچو گے لیکن خیال رکھنا کہ راستے میں کوئی بھی پوچھے کہ تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو تو یہی بتانا کہ تم دمشق سے آئے ہو اور محاذ پر جارہے ہو راستے میں تمہیں صلاح الدین ایوبی کے جاسوس اور چھاپہ مار ملیں گے تمہیں آج ہی رات روانہ ہونا ہے
آج ہی رات؟
ایک فدائی نے پوچھا کل دن کو نہ جائیں؟
اتنا وقت نہیں گمشتگین نے جواب دیا تمہارا چکر بہت لمبا ہے دو دنوں بعد منزل پر پہنچو گے گھوڑوں کو آرام دیتے جانا ورنہ تھکے ہوئے گھوڑوں سے وہاں سے بھاگ نکلنا دشوار ہوجائے گا
گمشتگین نے بکس سے کپڑے نکال کر انہیں کہا کہ یہیں پہن لو اس نے دربان سے کہا کہ وہ نو گھوڑے لے آئے جو میں نے الگ کروا رکھے ہیں
آدمی رات کے بعد نو گھوڑ سوار گمشتگین کے کیمپ سے دور اس سمت جارہے تھے جدھر دمشق سے قرون حماة کو راستہ جاتا تھا اگلے گھوڑ سوار کے پاس سلطان صلاح الدین ایوبی کا جھنڈا تھا اور باقی آٹھ کی برچھیوں کی انیوں کے ساتھ چھوٹی چھوٹی جھنڈیاں بندھی تھیں
اسی روز جس وقت گمشتگین اپنے سالاروں اور کمانڈروں کو اشتعال انگیز تقریر سے جوش دلا رہا تھا سیف الدین اور حلب کی فوجیں بھی ایسی ہی اشتعال انگیز تقریریں سن رہی تھیں حلب کا ایک سالار گھوڑے پر سوار اپنی فوج سے کہہ رہا تھا یہ وہی صلاح الدین ہے جس نے حلب کا محاصرہ کیا تھا تم نے اسی صلاح الدین کو اس کی اسی فوج کو حلب سے بھگایا تھا رب کعبہ کی قسم! یہ روایت جھوٹی ہے کہ صلاح الدین جس قلعے میں جس شہر کو محاصرے میں لیتا ہے اسے فتح کرکے دم لیتا ہے وہ حلب کے محاصرے میں کیوں کامیاب نہیں ہوا تھا؟
اس نے محاصرہ اٹھا کیوں لیا تھا؟
صرف اس لیے کہ تم شیر ہو تم جان پر کھیل جانے والے سرفروش ہو تم نے شہر سے نکل کر اس پر جو حملے کیے تھے انہیں وہ برداشت نہیں کرسکا فتح اس کی ہوتی ہے جس پر خدا خوش ہوتا ہے خدائے ذوالجلال کی خوشنودی تمہیں حاصل ہے صلاح الدین ایوبی پر خدا کیوں خوش ہوگا
وہ لٹیرا ہے اس نے دمشق پر قبضہ کیا اور اس شہر کے لوگوں کی اس نے جو حالت کی ہے وہ وہاں جاکر دیکھو کسی عورت کی عزت محفوظ نہیں رہی ہمیں دمشق چھوڑ کر حلب آنا پڑا ہمیں وہاں واپس جانا ہے ہمیں صلاح الدین ایوبی سے انتقام لینا ہے اور اللہ کے سپاہیو! یہ نہ سوچنا کہ تم مسلمان ہوکر مسلمان فوج کے خلاف لڑنے جارہے ہو وہ مسلمان کافر سے بدتر ہے جو مسلمانوں کے شہروں کو فتح کرتا پھر رہا ہے تم پر ایسے مسلمان کا قتل خدا نے فرض کردیا ہے
خلافت کے محافظو! تمہارے دشمن صلیبی نہیں صلاح الدین ایوبی اور اس کی فوج ہے صلیبیوں کو دشمن اس شخص نے بنایا ہے نورالدین زنگی نے قوم پر سب سے بڑا ظلم یہ کیا ہے کہ صلاح الدین کو مصر کی امارت دے دی ورنہ یہ شخص چھوٹے سے ایک جیش کی کمان کرنے کے بھی قابل نہ تھا میں اسے اپنی فوج میں سپاہی کی حیثیت سے بھی نہ رکھوں آج اس شخص کی موت اسے ان چٹانوں میں لے آئی ہے اب اس کے سامنے تمہاری تلواریں تمہاری برچھیاں اور تمہارے گھوڑے ہوں گے اور اس کے پیچھے چٹانیں اور پہاڑیاں ہوں گی تم اسے اور اس کی فوج کو پیس کر رکھ دو گے تمہیں حلب کی توہین اور بربادی کا انتقام لینا ہے اگر تم نے صلاح الدین کو یہاں انہی پہاڑیوں میں ختم نہ کیا تو وہ سیدھا حلب پر آئے گا اس کی نظریں حلب پر لگی ہوئی ہیں
وہ تمہیں اپنا غلام بنانا چاہتا ہے تمہاری بہنیں اور بیٹیاں اس کے سالاروں کے حرم کی زینت بنیں گی اگر میں جھوٹا ہوں تو نورالدین زنگی کا بیٹا جھوٹا نہیں ہوسکتا سیف الدین والئی موصل جھوٹا نہیں ہوسکتا گمشتگین جھوٹا نہیں ہوسکتا اگر اتنے امراء جھوٹے نہیں ہیں تو اکیلا صلاح الدین ایوبی جھوٹا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام کی تین فوجیں اسے کچلنے کے لیے آئی ہیں تم سب سچے ہو غیرت اور حمیت والے ہو ثابت کردو کہ غیرت اور حمیت کی خاطر تم اپنے بھائی کا بھی خون بہا سکتے ہو
فوج بظاہر خاموشی سے سن رہی تھی لیکن اس کے اندر اشتعال نے طوفان بپا کررکھا تھا سالار نے حقائق پر پردہ ڈال کر فوج کے جذبات کو مشتعل کردیا اور فوج نعرے لگانے لگی ہم غلام نہیں بنیں گے صلاح الدین ایوبی زندہ نہیں رہے گا ایک شور تھا جو زمین و آسمان کو ہلا رہا تھا
سیف الدین کے کیمپ کی بھی کیفیت جذباتی تھی وہ بھی اپنی فوج کے جذبات کو بھڑکا رہا تھا اس نے سپاہیوں کے لیے یہ سہولت بھی پیدا کردی تھی کہ دو علماء سے یہ فتویٰ لے لیا تھا کہ میدان جنگ میں روزہ فرض نہیں تمام فوج خوش تھی سیف الدین نے کہا کہ ہم اس وقت حملہ کریں گے جب صلاح الدین ایوبی کی فوج کا دم خم ٹوٹ چکا ہو پھر ہماری منزل دمشق ہوگی دمشق میں بے اندازہ دولت ہے جو تمہاری ہوگی
ادھر لشکروں اور فوجوں کی باتیں ہورہی تھیں ادھر سلطان صلاح الدین ایوبی کے کیمپ میں چھ چھ آٹھ آٹھ دس دس چھاپہ ماروں کے حساب سے سکیمیں بن رہی تھیں سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنی فوج سے کوئی خطاب نہیں کیا کوئی جوشیلی تقریر نہیں کی اس کی نظر اس زمین پر تھی جس پر اسے لڑنا تھا اس زمین کے خدوخال سے وہ زیادہ سے زیادہ جنگی فائدہ اٹھانا چاہتا تھا اس نے جو بھی بات کی اپنے سینئر اور جونئیر کمانڈروں سے کی اور وہ بھی حقیقت کی بات کی کبھی کبھی وہ اس وجہ سے جذباتی ہوجاتا تھا کہ اس کے مسلمان بھائی فلسطین کے راستے مں حائل ہوگئے ہیں اور مسلمان مسلمان کے ہاتھوں قتل ہوں گے اس کا اس کے پاس کوئی علاج نہیں تھا وہ صلح اور امن کے لیے ایلچی بھیج کر اپنی توہین کرا چکا تھا اب وہ تصادم کے لیے پوری طرح تیار تھا اس نے مصر سے آئی ہوئی کمک کو اپنی سکیم کے مطابق تقسیم کردیا تھا اور دشمن کے انتظار میں بے چین ہورہا تھا اس نے اپنے مشیروں سے اس خیال کا اظہار بھی کیا تھا کہ دشمن شاید یہ چاہتا ہے کہ پہاڑیوں سے نکل کر اس پر حملہ کیا جائے سلطان صلاح الدین ایوبی چٹانوں سے نکلنے سے گریز کررہا تھا وہ دشمن کو پہل کرنے کا موقعہ دے رہا تھا وہ اگر چاہتا تو اپنے چھاپہ ماروں سے دشمن کے کیمپوں میں تباہی مچا سکتا تھا یہ اس کا خصوصی طریقہ جنگ تھا لیکن اس نے چھاپہ ماروں کو بھی استعمال نہ کیا وہ دشمن کی چال اور حرکت دیکھ رہا تھا
دمشق میں نورالدین زنگی مرحوم کی بیوہ نے اپنا ایک اور محاذ کھول رکھا تھا جب سے سلطان صلاح الدین ایوبی دمشق سے نکلا تھا اس عظیم عورت نے لڑکیوں کی ایک رضا کار فوج تیار کرنی شروع کردی تھی لڑکیوں کو زخمیوں کو میدان جنگ سے اٹھانے خون روکنے اور ابتدائی مرہم پٹی کی تربیت دی جاتی تھی لیکن زنگی کی بیوہ انہیں تیغ زنی تیر بازی اور تیز اندازی کی تربیت بھی دے رہی تھی اس مقصد کے لیے اس نے چند ایک تجربہ کار مرد اپنے ساتھ رکھے ہوئے تھے اسے معلوم تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی محاذ پر عورت کی موجودگی کو پسند نہیں کرتا اور یہ تو سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ وہ لڑکیوں کو فوج میں شامل کرے گا اس کے باوجود زنگی کی بیوہ لڑکیوں کو جنگی تربیت دے رہی تھی وہاں کیفیت یہ تھی کہ کسی کو یہ کہنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی تھی کہ وہ اپنی بیٹی کو مرہم پٹی وغیرہ کی تربیت کے لیے بھیجا کرے لوگ اپنی بیٹیوں کو تربیت کے لیے بھیج کر فخر محسوس کرتے تھے دس بارہ سال کی عمر کے بچے اپنے طور پر لکڑی کی تلواریں بنا کر تیغ زنی کرتے رہتے تھے
زنگی کی بیوہ کی فوج میں چار لڑکیوں کا اضافہ ہوا ان میں ایک تو فاطمہ تھی جسے سلطان صلاح الدین ایوبی کا ایک چھاپہ مار جاسوس حرن سے بلکہ گمشتگین کے حرم سے نکال لایا تھا دوسری موصل کے خطیب ابن المخدوم کی بیٹی منصورہ تھی آپ پڑھ چکے ہیں کہ اسے اپنے باپ کے ساتھ کس طرح موصل سے نکالا گیا تھا باقی دو وہ لڑکیاں تھیں جنہیں حلب سے گمشتگین کے پاس تحفے کے طور پر بھیجا گیا تھا انہیں سالار شمس الدین اور سالار شادبخت نے حرن کے قاضی کو قتل کرکے وہاں سے نکالا تھا یہ حمیرہ اور سحر تھیں یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے پاس محاذ پر پہنچی تھیں جہاں سے انہیں دمشق بھیج دیا گیا تھا ایسی بے ٹھکانہ لڑکیوں کو نورالدین زنگی کی بیوی کے سپرد کردیا جاتا تھا یہ چاروں اس کے پاس پہنچیں تو انہوں نے وہاں لڑکیوں کو تربیت حاصل کرتے دیکھا یہی ان کی خواہش تھی جو فوری طور پر پوری ہوگئی
انہوں نے زنگی کی بیوہ کو اپنی اپنی آپ بیتی سنائی وہاں انہیں ان لڑکیوں کے سامنے لے گئی اور انہیں کہا کہ وہ تمام لڑکیوں کو تفصیل سے سنائیں کہ دشمن کے قبضے میں ان پر کیا گزری ہے چاروں نے اپنی اپنی کہانی سنائی خطیب کی بیٹی منصورہ ذہنی طور پر زیادہ مستعد اور ہوشیار تھی اس نے لڑکیوں سے کہا عورت قوم کی آبرو ہوتی ہے دشمن جب کسی شہر پر قبضہ کرتا ہے تو اس کی فوج سب سے پہلے عورتوں پر ہلہ بولتی ہے تم نے ان دو لڑکیوں (حمیرہ اور سحر) سے سن لیا ہے کہ جو علاقے صلیبیوں کے قبضے میں ہیں وہاں صلیبی مسلمانوں کے ساتھ کتنا ہولناک سلوک کر رہے ہیں وہاں کسی مسلمان لڑکی کی عزت محفوظ نہیں خدانخواستہ دمشق بھی ان کے قبضے میں آگیا تو تمہارا بھی وہی حشر ہوگا اگر ہم نے خون کی قربانی دینے سے گریز کیا تو صلیبی ہمارے آقا بن کر رہیں گے انہوں نے ہمارے بہت سے امراء کو خرید لیا ہے اب صلیبی بھی تمہارے دشمن اور مسلمان امراء بھی تمہارے دشمن ہیں اگر تم فتح حاصل کرنا چاہتی ہو تو انتقام کے جذبے کو زندہ و پائندہ رکھو میرے محترم والد کہا کرتے ہیں کہ جو قوم ان معصوموں کو فراموش کر دیتی ہے جو کفار کی بربریت کا شکار ہوئے تھے وہ زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکتی
میری بہنو! میں محترم سلطان صلاح الدین ایوبی کی مرید ہوں ان کے نام پر سولی چڑھنے کو تیار ہوں لیکن مجھے ان کا یہ اصول پسند نہیں کہ عورت محاذ پر نہ جائے انہوں نے جو سوچا ہے ٹھیک ہی سوچا ہے لیکن عورت کو کمزور سمجھا جارہا ہے نوجوان اور خوبصورت لڑکیوں کو حرموں میں ٹھونس دیا جاتا ہے ہمیں مرد کی تفریح کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے اس طرح قوم کی آدھی قوت بیکار ہوکر رہ گئی ہے دشمن لشکر لے کر آتا ہے اس کے مقابلے میں ہماری فوج آدھی بھی نہیں ہوتی ہم مردوں کے دوش بدوش لڑیں گی اور فوج کی کمی پوری کریں گی میں موصل میں جاسوسوں کے گروہ میں رہی ہوں میں اس محاذ پر لڑ کر آئی ہوں یہ میرے والد کی غلطی تھی کہ انہوں نے جذبات میں آکر والئی موصل پر اپنے اصل خیالات کا اظہار کردیا اگر وہ نہ پکڑے جاتے تو وہاں ارادے کچھ اور تھے ہم وہاں تباہ کاری نہ کرسکے اور ہمیں وہاں سے نکلنا پڑا
ان چاروں لڑکیوں کی آپ بیتی اور منصورہ کی باتوں نے لڑکیوں کے جذبے کی شدت میں اضافہ کردیا ان میں سے چار سو لڑکیاں تربیت حاصل کرکے تیار ہوچکی تھیں انہیں محاذ کے لیے روانہ کیا جانے لگا چاروں لڑکیوں نے چند دنوں میں کچھ تربیت حاصل کرلی تھی انہیں روک لیا گیا لیکن ان میں انتقام کا جذبہ اتنا زیادہ تھا کہ وہ اسی جیش کے ساتھ محاذ پر جانے کی ضد کرنے لگیں فاطمہ حمیرہ اور سحر کی ضد اتنی سخت تھی کہ تینوں رو پڑیں ان کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا زنگی کی بیوہ نے انہیں بھی چار سو کے اس جیش میں شامل کرلیا ان کے ساتھ ایک سو مردوں کو بھیجا گیا یہ رضاکار تھے انہوں نے لڑنے کی تربیت حاصل کرلی تھی ان کا کمانڈر حجاج ابو وقاص تھا
نورالدین زنگی کی بیوہ نے حجاج وقاص کو ایک تحریری پیغام دے کر کہا یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کو دے دینا میں نے سب کچھ لکھ دیا ہے تم انہیں یہ بتانا کہ یہ لڑکیاں زخمیوں کی دیکھ بھال کے لیے تیار کی گئی ہیں تم ایک بار پھر سن لو ان لڑکیوں اور رضاکار محافظوں کو اپنے ساتھ رکھنا انہیں شب کو شب خون مارنے کی تربیت دی گئی ہے اور لڑکیاں بھی لڑ سکتی ہیں زخمیوں کو سنبھالنے کے بہانے تم سب لڑو گے فوج کے سامنے رکاوٹ نہ بن جانا جہاں موقعہ ملے دشمن کو کمزور کرو میں نے لڑکیوں کو بتا دیا ہے کہ دشمن کے ہاتھ زندہ نہ آئیں وہ خود کہتی ہیں کہ پکڑے جانے کا خطرہ ہوا تو وہ اپنی تلوار سے اپنے آپ کو ختم کردیں گی
چار سو لڑکیوں اور ایک سو رضاکار مردوں کا یہ دستہ گھوڑوں پر سوار دمشق سے روانہ ہوا تو سارا شہر امڈ کر باہر آگیا لوگوں نے جانے والوں پر پھول برسائے اس قسم کی صدائیں بلند ہورہی تھیں واپس نہ آنا آگے جانا صلاح الدین ایوبی سے کہنا کہ دمشق کی تمام عورتیں آئیں گی اللہ تمہیں فتح دے گا اسلام کا کوئی دشمن زندہ نہ رہے شہر کے بہت سے آدمی گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار دور تک اس جیش کے ساتھ گئے
رمضان کا مہینہ تھا راستے میں ایک رات پڑاؤ کرنا تھا افطاری کے وقت سے کچھ دیر پہلے یہ قافلہ ایک جگہ رک گیا لڑکیاں کھانے کی تیاریوں میں مصروف ہوگئیں اور مرد خیمے نصب کرنے لگے اپریل کا مہینہ تھا راتیں سرد ہوجاتی تھیں گھوڑوں کے اس قافلے کے ساتھ اونٹ بھی تھے جن پر خیمے لدے ہوئے تھے ان خیموں میں برچھیاں تلواریں اور تیروکمان لپٹے ہوئے تھے سورج غروب ہونے سے ذرا پہلے بارہ گھوڑ سوار آگئے یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے چھاپہ مار تھے جو دمشق سے محاذ پر جانے والے راستے کی حفاظت میں گھوم پھر رہے تھے انہوں نے لڑکیوں اور رضاکاروں کے قافلے کو دیکھ لیا تھا
ان آٹھ سواروں کو اپنی طرف آتا دیکھ کر میرکارواں حجاج ابو وقاص آگے بڑھا چھاپہ ماروں کا کمانڈر انطانون تھا اس نے ابو وقاص سے پوچھا کہ وہ کون ہیں اور کہاں جارہے ہیں ابو وقاص نے اسے مکمل جواب دیا اور اسے مطمئن کردیا چھاپہ ماروں کو دیکھ کر بہت سی لڑکیاں دوڑی گئیں اور ان کے گرد جمع ہوگئیں سب کا یہی ایک سوال تھا کہ محاذ کی کیا خبر ہے انطانون نے انہیں بتایا کہ جنگ ابھی شروع نہیں ہوئی اور کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ کس وقت شروع ہوجائے
فاطمہ بیتابی سے آگے بڑھی اور انطانون کا ہاتھ پکڑ لیا انطانون نے فاطمہ کو گمشتگین کے حرم سے نکالا تھا ابو وقاص نے انطانون سے کہا کہ وہ افطار ان کے ساتھ کریں اور کھانا بھی انہی کے ساتھ کھائیں سب بکھر گئے ہر کوئی کسی نہ کسی کام میں مصروف تھا انطانون اور فاطمہ نے اتنا سا موقعہ پیدا کرلیا کہ انطانون نے اسے رات کو ملنے کی ایک جگہ بتا دی دمشق سے دور اس ویرانے میں آذان کی صدائے مقدس گونجی سب نے روزہ افطار کیا نماز پڑھی اور کھانا کھایا سب دن بھر کے تھکے ہوئے تھے جنہیں سونا تھا وہ سوگئے لڑکیوں نے ٹولیوں میں بٹ کر گیت گانے شروع کردئیے چھاپہ ماروں نے ان سے کچھ دور اپنا ڈیرہ جما لیا انطانون اپنی پارٹی کو یہ کہہ کر چلا گیا کہ وہ ادھر ادھر دیکھ بھال کرنے جارہا ہے
فاطمہ چپکے سے لڑکیوں میں سے غائب ہوگئی وہ خیمہ گاہ سے دور ایک جگہ کھڑی انطانون کا انتظار کررہی تھی انطانون بھی آگیا فاطمہ کے ساتھ اس کی پہلی ملاقات حرن میں ہوئی تھی اس وقت انطانون سلطان صلاح الدین ایوبی کا جاسوس تھا اس نے اس لڑکی کو صرف اس لیے پھانسا تھا کہ وہ حرن کے حکمران اور سلطان صلاح الدین ایوبی کے دشمن گمشتگین کے حرم کی لڑکی تھی اسے وہ اپنی جاسوسی کے لیے استعمال کرنا چاہتا تھا حالات کچھ ایسے ہوئے کہ فاطمہ نے ایک صلیبی مشیر کو قتل کردیا اور انطانون گرفتار ہوکر فرار ہوا اور فاطمہ کو ساتھ لے آیا سلطان صلاح الدین ایوبی نے فاطمہ کو دمشق بھیج دیا اور انطانون اپنی درخواست پر چھاپہ مار دستے میں شامل ہوگیا اب اتنے دنوں بعد فاطمہ اسے اچانک مل گئی تو انطانون نے بڑی شدت سے محسوس کیا کہ اس لڑکی کے بغیر اس کی زندگی روکھی پھیکی ہوگئی ہے اور یہ لڑکی اس کے دل میں اتر گئی ہے یہ تعلق صرف اتنا ہی نہیں تھا کہ لڑکی کو جاسوسی کے لیے استعمال کرنا تھا کچھ ایسی ہی کیفیت فاطمہ کی تھی
ان کی ملاقات جذباتی تھی وہ اپنے اپنے قابو میں نہیں رہے تھے لیکن انطانون نے اس کی بازوؤں سے نکل کر کہا فاطمہ ہمارا فرض ابھی پورا نہیں ہوا میں حرن میں بھی اپنا فرض پورا نہیں کرسکا تھا تمہیں وہاں سے نکال لانا کوئی کارنامہ نہیں تھا اور یہ میرے فرائض میں شامل بھی نہیں تھا میں سلطان کے آگے شرمسار ہوں اور میں اپنی قوم کے آگے بھی شرمسار ہوں میں چھاپہ مار دستے میں اسی لیے شامل ہوا ہوں کہ فرض پورا نہ کرسکنے کے گناہ کا کفارہ ادا کرسکوں سلطان محترم نے مجھ پر ذمہ داری عائد کردی ہے کہ ان سات چھاپہ ماروں کی کمان اور قیادت مجھے دے دی ہے اب ایک بار پھر تم میرے راستے میں نہ آجانا مجھے تم سے محبت ہے لیکن مجھے پہلے فرض ادا کرنے دو میں بھی فرض ادا کرنے آئی ہوں فاطمہ نے کہا میں گمشتگین کو قتل کرنے آئی ہوں
ناممکن ہے انطانون نے کہا محترم سلطان عورت کو محاذ سے بہت دور رکھتا ہے وہ شاید تم سب کو واپس بھیج دے گا میں واپس نہیں جاؤں گی فاطمہ نے غصے سے کہا میں ثابت کردوں گی کہ عورت حرم کے لیے نہیں جہاد کے لیے پیدا کی گئی ہے انطانون میری یہ خواہش پوری کرو کہ مجھے اپنے ساتھ لے چلو مجھے مردانہ کپڑے پہنا کر اپنے ساتھ رکھو ایسا ہو نہیں سکتا انطانون نے کہا اگر میں تمہیں اپنے ساتھ رکھ بھی لوں تو میری توجہ تم پر لگی رہے گی میں اپنا کام نہیں کرسکوں گا اور اگر میں پکڑا گیا تو مجھے اس جرم میں قید خانے میں ڈال دیں گے کہ میں نے ایک لڑکی اپنے ساتھ رکھی ہوئی تھی میری اور تمہاری نیت کتنی ہی نیک کیوں نہ ہو یہ جرم معمولی نہیں فاطمہ جنگ جذبات سے نہیں لڑی جاتی اپنے آپ کو قابو میں رکھو تم جدھر جارہی ہو جاؤ ہوسکتا ہے سلطان تم سب کو زخمیوں کی مرہم پٹی کے لیے اپنے ساتھ رکھ لے تم پھر مل سکو گے فاطمہ نے پوچھا شاید کہیں زندہ یا مردہ مل جاؤں انطانون نے جواب دیا چھاپہ مار اپنے متعلق بتا نہیں سکتا کہ وہ کس وقت کہاں ہوگا اور اس کی لاش کہاں سے ملے گی چھاپہ ماروں کی لاشیں ملا نہیں کرتیں وہ دشمن کی جمعیت میں جاکر مرا کرتے ہیں زندہ رہا تو سیدھا تمہارے پاس آؤں گا
ہوسکتا ہے تم زخمی ہو جاؤ تم میں ہی تمہاری مرہم پٹی کروں فاطمہ نے کہا چھاپہ ماروں کی مرہم پٹی دشمن کیا کرتا ہے انطانون نے جواب دیا فاطمہ جذبات میں نہ آؤ ہمیں جذبات کو بھی اور ایک دوسرے کو بھی قربان کرنا پڑے گا اگر تم یہ چاہتی ہو کہ تم جیسی لڑکیاں حرموں میں نہ جائیں اور وہ صلیبیوں کے وحشی پن سے بچی رہیں تو میرا خیال دل سے نکال دو میدان جنگ میں تمہیں جو فرض سونپا جائے صرف اسے دل میں رکھنا تم گمشتگین کو قتل نہیں کرسکو گی یہ ارادہ بھی دل سے نکال دو سلطان صلاح الدین ایوبی کی سرگرمیاں دو ہی تھیں
میدان جنگ کا نقشہ دیکھتا اور اس کی لکیروں میں کھویا رہتا یا گھوڑے پر سوار اپنی فوج کی مورچہ بندیاں دیکھتا رہتا تھا وہ کچھ دیر کے لیے یا موزوں وقت تک کے لیے دفاعی جنگ لڑنے کا فیصلہ کرچکا تھا وہ اصل جنگ قرون کے اندر لڑنا چاہتا تھا جس کی اس نے سکیم بنا رکھی تھی لیکن ایک پہلو اسے پریشان کررہا تھا بائیں پہلو پر تو چٹانیں اور ان کے پیچھے پہاڑیاں تھیں لیکن دائیں پہلو پر چٹانیں زیادہ نہیں تھیں ان کے پیچھے کچھ میدان تھا دشمن اس طرف پیش قدمی کرکے یا ہلہ بول کر آگے نکل سکتا تھا اس سے سلطان ایوبی کا سارا پلان تباہ ہونے کا خطرہ تھا اس کے پاس اتنی فوج نہیں تھی کہ اس میدان میں سواروں اور پیادوں کی دیوار کھڑی کرسکتا قریبی چٹان پر اس نے تیر انداز بٹھا دئیے تھے لیکن یہ انتظام کافی نہیں تھا میدان کے لیے اس نے دو دستے سوار اور پیادہ تیار کرلیے تھے لیکن انہیں ابھی چھپا کر رکھا ہوا تھا سلطان صلاح الدین ایوبی کو یہ میدان پریشان کررہا تھا ان دستوں کے علاوہ اس نے ایک منتخب دستہ اپنے پاس رکھ لیا تھا
وہ ایک چٹان پر کھڑا ادھر دیکھ رہا تھا کہ دور افق سے اسے گرد اٹھتی نظر آئی ایسی گرد فوجی اچھی طرح پہچانتے تھے وہ کوئی سوار فوج آ رہی تھی گرد کے پھیلاؤ سے پتہ چلتا تھا کہ گھوڑے ایک صف میں نہیں چار چار یا چھ چھ کی ترتیب میں ایک دوسرے کے پیچھے آرہے ہیں دشمن کے سوا اور کون ہوسکتا تھا سلطان ایوبی نے غصے سے پوچھا کیا اس راستے پر اپنا ایک بھی آدمی نہیں تھا؟
تیاری کا حکم دو
تیاری کے نقارے بچ اٹھے فوج کو جس طرح دفاع کے لیے تیاری کی مشق کرائی گئی تھی وہ اسی طرح تیار ہوگئی ذرا سی دیر بعد گھوڑے نظر آنے لگے ان کی چال دشمن والی یا حملے والی نہیں تھی سلطان ایوبی نے حکم دیا کہ دوچار سوار دوڑاؤ دیکھو یہ کون لوگ ہیں سوار دوڑا دئیے گئے اور جب وہ واپس آئے تو دور سے چلانے لگے دمشق سے رضا کار آئے ہیں ساتھ عورتوں کی فوج ہے
عورتوں کی فوج؟
سلطان ایوبی نے حیران ہوکر پوچھا عورتوں کی فوج؟
اس نے ذرا توقف سے سکون کی آہ لے کر کہا یہ فوج میری بیوہ بہن نے تیار کرکے بھیجی ہوگی زنگی مرحوم کی بیوہ ہی یہ کام کرسکتی ہے سلطان ایوبی نے ہنسنا شروع کردیا عینی شاہدوں کا بیان ہے کہ وہ اتنا کبھی نہیں ہنسا تھا ہنستے ہنستے وہ سنجیدہ ہوگیا اور اپنے پاس کھڑے سالاروں سے کہنے لگا میری قوم کی بچیاں تمہیں فتح یاب کرکے دم لیں گی ہم کیوں نہ مرمٹیں ان بچیوں کی آبرو پر لیکن میں انہیں واپس بھیج دوں گا اگر ایک بھی لڑکی دشمن کے ہاتھ چڑھ گئی تو میں مر کر بھی چین حاصل نہیں کر سکوں گا
وہ چٹان سے اتر کر آگے چلا گیا لڑکیوں اور رضاکاروں کی فوج قریب آگئی اس کا کمانڈر ابو وقاص گھوڑے سے اتر کر سلطان ایوبی کے پاس آیا سلام کے بعد نورالدین زنگی کی بیوہ کا تحریری پیغام دیا اس نے لکھا تھا
میرے بھائی! اللہ تمہارا حامی وناصر ہو میرا شوہر زندہ ہوتا تو تم اتنے سارے دشمنوں کے سامنے اکیلے نہ ہوتے میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتی جو مجھ سے ہوسکتا تھا وہ پیش کررہی ہوں ان لڑکیوں کو میں نے زخمیوں کو سنبھالنے اور زخموں کی مرہم پٹی کی تربیت دلائی ہے دوائیوں کا ذخیرہ بھی بھیج رہی ہوں ایک سو رضا کار بھی ساتھ ہیں بوڑھے فوجیوں نے انہیں جنگی تربیت دی ہے تقریباً تمام کو شب خون مارنے کی مشق بھی کرائی ہے یہ سب جوش اور جذبے والے ہیں میں جانتی ہوں کہ ان لڑکیوں کو تم محاذ پر رکھنا پسند نہیں کرو گے میں تمہارے خیالات سے آگاہ ہوں لیکن یہ خیال رکھنا کہ تم نے انہیں واپس بھیج دیا تو دمشق والوں کا دل ٹوٹ جائے گا تم نہیں جانتے کہ اس شہر میں لوگوں میں کیا جذبہ ہے مرد تو محاذ پر جانے کو تیار ہیں عورتیں بھی تمہاری قیادت میں لڑنے کو بیتاب ہیں اس جیش کو سارے شہر نے عقیدت اور ولولے سے رخصت کیا ہے یہاں تو بچے بھی فوجی تربیت حاصل کررہے ہیں تمہیں فوج کی کمی محسوس نہیں ہوگی پیغام پڑھ کر سلطان ایوبی کے آنسو نکل آئے اس نے لڑکیوں کی طرف دیکھا وہ تھیں تو لڑکیاں لیکن گھوڑوں پر وہ سپاہی لگتی تھیں سلطان ایوبی نے سب کو گھوڑوں سے اتار کر اپنے سامنے کھڑا کرلیا اس نے کہا میں تم سب کو میدان جنگ میں خوش آمدید کرتا ہوں تمہارے جذبے کا صلہ میں نہیں دے سکتا خدا دے گا میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ لڑکیوں کو محاذ پر بلاؤں گا میں ڈرتا ہوں کہ تاریخ کہے گی کہ صلاح الدین ایوبی نے اپنی بیٹیوں کو لڑایا تھا میں تمہارے جذبات کو مجروح بھی نہیں کرسکتا تمہیں اپنے پاس رکھنے سے پہلے میں تمہیں موقعہ دینا چاہتا ہوں کہ سوچ لو تم میں اگر کوئی ایسی لڑکی ہے جو اپنی مرضی سے نہیں آئی تو وہ الگ ہوجائے اور وہ لڑکیاں بھی الگ ہوجائیں جن کے دل میں ذرا بھی شک اور خوف ہے
کوئی ایک بھی لڑکی الگ نہ ہوئی سلطان ایوبی نے کہا میں تمہیں پیچھے محفوظ جگہ رکھوں گا جنگ کے دوران تمہیں آگے نہیں جانے دوں گا پھر بھی یہ علاقہ ایسا ہے کہ تم دشمن کی زد میں آسکتی ہو ہوسکتا ہے تم میں سے کئی تیروں سے ماری جائیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم میں سے کوئی دشمن کے ہاتھ چڑھ جائے یہ بھی سن لو کہ برچھی اور تلوار کا زخم بہت گہرا اور بڑا ہی بھیانک ہوتا ہے
ایک لڑکی کی آواز بلند ہوئی آپ تاریخ سے ڈرتے ہیں اور ہم بھی تاریخ سے ڈرتی ہیں ہم واپس چلی گئیں تو تاریخ کہے گی کہ قوم کی بیٹیوں نے صلاح الدین ایوبی کو تنہا چھوڑ دیا اور گھروں میں بیٹھی رہی تھیں
ایک اور لڑکی نے کہا خدا صلاح الدین کی تلوار میں اور زیادہ قوت دے ہم حرموں کے لیے پیدا نہیں ہوئیں
تیسری لڑکی نے کہا تین چاند پہلے میرا بیاہ ہوا تھا اگر آپ نے مجھے واپس بھیج دیا تو میں اپنے خاوند کو اپنے اوپر حرام سمجھوں گی تمہارا خاوند خود کیوں نہیں آیا؟
سلطان ایوبی نے پوچھا اس نے اپنی دلہن کو کیوں بھیج دیا ہے
وہ آپ کی فوج میں ہے لڑکی نے جواب دیا
پھر تمام لڑکیوں نے چلانا شروع کردیا اس کے سوا کچھ پتہ نہیں چلتا تھا کہ وہ اپنے جوش اور جذبے کا مظاہرہ کررہی ہیں یہ شور ذرا تھما تو کسی لڑکی کی آواز سنائی دی محترم سلطان! ہمیں لڑنے کا موقعہ دیں ہم آپ کو مایوس نہیں کریں گی یہ بھول جاؤ کہ میں تمہیں لڑائی میں شریک ہونے دوں گا
سلطان ایوبی نے کہا تمہیں چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تقسیم کر دوں گا
اس نے اسی روز لڑکیوں کو چار چار کی ٹولیں میں تقسیم کردیا ہر ٹولی کے ساتھ ایک ایک رضاکار لگا دیا گیا رضاکاروں کے متعلق کہا گیا تھا کہ انہیں جنگی ٹریننگ دی گئی ہے لیکن سلطان ایوبی نے انہیں زخمیوں کی مرہم پٹی کا کام دیا کیونکہ وہ باقاعدہ فوج کے سپاہی نہیں تھے انہیں فوج کے ساتھ مل کر لڑنے کا تجربہ نہیں تھا لڑکیوں اور رضاکاروں کی خیمہ گاہ قرون سے دور بنائی گئی انہیں سپاہیوں کے حوالے کردیا گیا جو زخمیوں اور لاشوں کو اٹھانے اور زخمیوں کی مرہم پٹی کا کام کرتے تھے ان سپاہیوں نے لڑکیوں اور رضاکاروں کو ٹریننگ دینی شروع کردی فاطمہ منصورہ حمیرہ اور سحر ایک ٹولی میں آگئیں ان کا ایک ٹولی میں اکٹھا ہوجانا قدرتی امر تھا کیونکہ وہ اکٹھی دمشق پہنچیں اور ان کے دلوں میں ایک ہی جیسی خواہش اور ولولہ تھا ان کے ساتھ آذر بن عباس نام کا ایک رضاکار تھا اس کا چھوٹا سا خیمہ الگ تھا اور اس کے قریب ہی چاروں لڑکیوں کے لیے بڑا خیمہ نصب کیا گیا تھا ان لڑکیوں میں خطیب کی بیٹی منصورہ جسانی اور دماغی لحاظ سے تیز اور ہوشیار تھی شام سے کچھ دیر پہلے اس نے دیکھا کہ ان کا ساتھی رضاکار آذر ایک چٹان پر چڑھتا جارہا ہے وہ اوپر چلا گیا ور ادھر ادھر دیکھنے لگا منصورہ بھی اوپر چلی گئی اس نے ادھر ادھر دیکھا وادیوں میں اور ڈھلانوں پر سپاہی نظر آرہے تھے آذر نے منصورہ سے کہا آؤ آگے چلیں وہ اس کے ساتھ چلی گئی آذر قدرتی مناظر اور پہاڑی علاقے کی تعریفیں کرتا رہا آذر خوبرو جوان تھا اس کی باتوں میں زندہ دلی اور چاشنی تھی اس نے منصورہ کے ساتھ بڑی شگفتہ سی باتیں شروع کردیں منصورہ نے بھی اس میں دلچسپی لینی شروع کردی وہ سورج غروب ہونے سے ذرا پہلے واپس آئے اتنے سے وقت میں آذر منصورہ کے دل میں اتر چکا تھا افطاری کے بعد لڑکیاں اپنے خیمے میں بیٹھی کھانا کھا رہی تھیں فوج کے کسی کمانڈر نے خیمے میں جھانک کر دیکھا اور لڑکیوں سے پوچھا کہ انہیں کوئی تکلیف تو نہیں؟
لڑکیوں نے آرام اور اطمینان کا اظہار کیا تو کمانڈر خیمے سے ہٹ گیا باہر آذر کھڑا تھا اس نے کمانڈر کو باتوں میں لگا لیا وہ بہت دیر باہر کھڑے باتیں کرتے رہے منصورہ ان کی باتیں سن رہی تھی آذر نے کمانڈر سے پوچھا کہ اتنی تھوڑی فوج سے وہ تین فوجوں کا مقابلہ کس طرح کریں گے دشمن کے لیے پھندا تیار ہے کمانڈر نے کہا جنگ اس میدان میں نہیں ہوگی جہاں دشمن کی توقع ہے ہم اسے اس جگہ گھسیٹ لائیں گے جہاں ہم نے وسیع پیمانے پر گھات تیار رکھی ہوئی ہے اس کمانڈر نے آذر کی جذباتی اور جوشیلی باتوں سے متاثر ہوکر تفصیل سے بتا دیا کہ سلطان ایوبی نے اپنی فوج کو کس طرح تقسیم کیا ہے اور وہ کیا کرے گا مصر کی کمک کے متعلق بھی تفصیل بتا دی اسی رات کا واقعہ ہے آدھی رات کے لگ بھگ منصورہ کی آنکھ کھل گئی اسے آذر بن عباس کے خیمے سے باتیں سنائی دیں وہ سمجھی کہ آذر کا کوئی دوست ہوگا لیکن اسے یہ الفاظ سنائی دئیے تم ابھی نکل جاؤ کچھ باتیں تم نے خود معلوم کرلی ہیں باقی میں نے بتا دی ہیں میرے لیے یہاں سے نکلنا ممکن نہیں تھا اچھا ہوا تم آگئے اب راستہ سمجھ لو اس آدمی نے آذر کو بتایا کہ وہ کس طرف سے نکلے اسے سارا راستہ سمجھا کر کہا تم پیدل جارہے ہو پیدل ہی جانا چاہیے صبح سے پہلے پہنچ جاؤ گے جلدی پہنچنے کی کوشش کرنا کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ کل ہی اندھا دھند حملہ کریں پھندا تیار ہے اور مضبوط ہے قرون کے اندر نہ آئیں خدا حافظ
منصورہ کو اس آدمی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی وہ چلا گیا تھا منصورہ نے خیمے کا پردہ ذرا سا ہٹا کر باہر دیکھا آذر اپنے خیمے سے باہر کھڑا تھا وہ ایک طرف چل پڑا منصورہ نے اپنے خیمے کی کسی لڑکی کو جگائے بغیر اپنے سامان سے خنجر نکالا اور باہر نکل گئی...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*