👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑🌴⭐قسط نمبر 𝟜 𝟠⭐🌴


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟜  𝟠⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں فوزی نے کہا اگر وہ زندہ نہ ہوا تو ہم بے آسرا ہوجائیں گے
اس صورت میں تمہارے باپ کو اور تمہارے بھائی کی بیوی کو بھی اپنے ساتھ لے جاؤں گا سیف الدین نے کہا فوزی کا باپ بھی سیف الدین کے پاس جاتا رہا اس نے عملی طور پر سیف الدین کو یقین دلا دیا کہ وہ اس کا وفادار ہے رات کو پھر دروازے پر دستک ہوئی بوڑھے نے دروازہ کھولا باہر سیف الدین کا وہ کمان دار کھڑا تھا جسے اس نے حلب روانہ کیا تھا بوڑھے نے اسے سیف الدین کے کمرے میں بھیج دیا اور اس کا گھوڑا دوسرے گھوڑوں کے ساتھ باندھ کر کمان دار سے کھانے کے متعلق پوچھنے گیا کمان دار بہت تیز آیا تھا کہیں رکا نہیں تھا اس لیے راستے میں کچھ کھا نہیں سکا تھا بوڑھا اندر کھانا لینے کے لیے گیا تو فوزی نے کہا کہ وہ کھانا لے جائے گی اور باتیں سنے گی وہ کھانا لے کر گئی تو کمان دار بولتے بولتے چپ ہوگیا سیف الدین نے کہا تم بات کرو یہ اپنی بچی ہے
فوزی کمان دار کے آگے کھانا رکھ کر سیف الدین کے قریب بیٹھ گئی یہ پہلا موقعہ تھا کہ وہ اس کے اتنی قریب بیٹھی تھی سیف الدین نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا فوزی نے ہاتھ چھڑایا نہیں ورنہ صلیبیوں کا یہ دوست ہاتھ سے نکل جاتا حلب کی فوج کا جذبہ قابل تعریف ہے کمان دار نے بات شروع کی فوزی نے سیف الدین کی انگلی میں پڑی ہوئی انگوٹھی کو انگلیوں سے مسلنا اور اس کے ہیرے کو بچوں کے سے اشتیاق سے دیکھنا شروع کردیا جیسے اسے کمان کی باتوں کے ساتھ کوئی دلچسپی نہ ہو لیکن اس کے کان اسی طرف لگے ہوئے تھے کمان دار کہہ رہا تھا الملک الصالح نے صلاح الدین ایوبی کو صلح کا پیغام بھیجا ہے صلح کا پیغام! سیف الدین نے بدک کر پوچھا جی ہاں صلح کا پیغام کمان دار نے کہا لیکن مجھے پتہ چلا ہے کہ اس نے صلاح الدین ایوبی کو دھوکہ دیا ہے اس کے صلیبی دوست اس کی فوج کے سامان کا نقصان پورا کررہے ہیں اور اسے اکسا رہے ہیں کہ وہ موصل اور حرن کی فوجوں کو مشترکہ کمان میں لاکر صلاح الدین ایوبی پر فوراً حملہ کرے اگر صلاح الدین ایوبی کی فوج نے سستا لیا اور اس نے اسی علاقے سے لوگوں کو بھرتی کرکے نفری پوری کرلی تو پھر اسے روکنا محال ہوجائے گا جاسوس خبر لائے ہیں کہ صلاح الدین ایوبی نے ترکمان کے سبزہ زار میں لمبے عرصے کے لیے پڑاؤ کرلیا ہے اور پیش قدمی کی تیاریاں بہت تیزی سے کررہا ہے الملک الصالح کے سالار بھی یہی کہتے ہیں کہ ترکمان کے مقام پر صلاح الدین ایوبی پر فوری حملہ ہونا چاہیے میں نے حلب کی فوج کے ایک صلیبی مشیر کے ساتھ بات کرنے کا موقعہ پیدا کرلیا تھا میں نے انجان بن کر اسے کہا کہ ہم فوری حملے کے قابل نہیں اس نے کہا کہ یہ تمہاری بہت بڑی جنگی لغزش ہوگی صلاح الدین ایوبی پر حملے کا مقصد یہ نہیں ہوگا کہ اسے شکست دی جائے مقصد یہ ہوگا کہ اسے تیاری کی مہلت نہ دی جائے اس ترکمان کے علاقے میں پریشان رکھا جائے اور ایسی لڑائی لڑی جائے جو طویل ہو جنگ نہ ہو معرکے لڑے جائیں یہ معرکے صلاح الدین ایوبی کے انداز کے ہی ہوں یعنی ضرب لگاؤ اور بھاگو شب خون مارو اور کوشش کرو کہ ترکمان کے سبزہ زار سے جہاں پانی کی بھی بہتات ہے صلاح الدین ایوبی کو پیچھے ہٹا دیا جائے تاکہ اس کی فوج کو چارہ اور پانی نہ مل سکے بہت اچھی ترکیب ہے سیف الدین نے کہا ایسی جنگ میرا شیر سالار مظفرالدین لڑ سکتا ہے وہ بہت عرصہ صلاح الدین ایوبی کے ساتھ رہا ہے میں کوشش کروں گا کہ تینوں فوجوں کی مشترکہ کمان مجھے مل جائے میں صلاح الدین ایوبی کو صحرائی لومڑی کی طرح دھوکے دے دے کر ماروں گا
فوزی نے سیف الدین کی تلوار لے لی اور اسے نیام سے نکال کر دیکھنے لگی وہ بالکل بھولی بنی ہوئی تھی
میں نے کوشش کی تھی کہ الملک الصالح کے ساتھ میری ملاقات ہوجائے کمان دار نے کہا لیکن سالاروں اور دوسرے حکام نے اسے ایسا گھیرا ہوا ہے کہ میں اسے مل نہ سکا یہ باتیں اس کے سالاروں سے معلوم کی ہیں
تمہیں آج پھر حلب جانا ہوگا سیف الدین نے کہا الملک الصالح کو یہ پیغام دینا کہ تم نے صلاح الدین ایوبی کے ساتھ صلح کرکے ہمیں دھوکہ دیا ہے تم نے اس کے حوصلے بڑھا دئیے ہیں اس کے ہاتھ مضبوط کردئیے ہیں وہ ہم میں سے کسی کو بھی نہیں بخشے گا تم ابھی بہت چھوٹے ہو گھبرا گئے ہو یا تمہارے سالاروں نے لڑائی سے بچنے کے لیے تمہیں مشورہ دیا ہے سیف الدین نے اس موضوع کا طویل پیغام دیا اور کمان دار سے کہا تمہیں سحر کی تاریکی میں نکل جانا چاہیے دن کے وقت تمہیں اس گاؤں میں کوئی نہ دیکھے
یہ تھا وہ پیغام جس کا ذکر تاریخ میں آیا ہے کمان دار کچھ دیر آرام کرکے حلب کو روانہ ہوگیا فوزی نے جو کچھ سنا تھا وہ داؤد کو بتا دیا یہ معلومات بھی کام کی تھیں حارث اور اس کا باپ گہری نیند سوگئے داؤد کسی کام سے باہر نکلا فوزی بھی دبے پاؤں نکل آئی داؤد اپنے گھوڑے کے پاس جا رکا فوزی بھی وہیں چلی گئی مجھے اس سے کوئی بڑا کام بتاؤ فوزی نے کہا میں تمہارے لیے جان بھی دے سکتی ہوں میرے لیے نہیں اپنی قوم کے لیے اور اپنے مذہب کے لیے جان دینا داؤد نے کہا تم جو کام کر رہی ہو وہ بہت بڑا ہے ہم جو جاسوس ہیں اسی کام میں اپنی جانیں قربان کردیا کرتے ہیں یہ کام میرا تھا جو میں تم سے کرا رہا ہوں میں نے تمہیں خطرے میں ڈال دیا ہے خطرہ کیسا؟
تم اتنی چالاک لڑکی نہیں ہو فوزی داؤد نے کہا سیف الدین بادشاہ ہے وہ اس جھونپڑے میں بھی بادشاہ ہے تو کیا بادشاہ مجھے کھا جائے گا؟
فوزی نے کہا میں چالاک تو نہیں سیدھی سادی بھی نہیں ہوں تم نے بادشاہی کی چمک دیکھی تو تمہاری آنکھیں بند ہوجائیں گی داؤد نے کہا ان لوگوں نے اسی چمک سے اندھا ہوکر ایمان بیچا ہے اور اسلام کی چڑیں کاٹ رہے ہیں میں ڈرتا ہوں کہیں تم بھی اس جال میں نہ آجاؤ تم کہاں کے رہنے والے ہو؟
میں کہیں کا بھی رہنے والا نہیں داؤد نے جواب دیا میں جاسوس اور چھاپہ مار ہوں جہاں دشمن کے ہاتھ چڑھ گیا وہیں مارا جاؤں گا اور جہاں بھی مارا جاؤں گا وہ میرا وطن ہوگا شہید کا لہو جس زمین پر گرتا ہے وہ زمین سلطنت اسلامیہ کی ہوجاتی ہے اس زمین کو کفر سے پاک کرنا ہر مسلمان کا فرض بن جاتا ہے ہماری ماؤں اور بہنوں نے ہمیں جوان کیا اور خدا کے حوالے کردیا ہے انہوں نے دلوں پر پتھر رکھ لیے ہیں اور اس خواہش سے دست بردار ہوگئی ہیں کہ ہم انہیں کبھی ملیں گے تمہارے دل میں اپنے گھر جانے کی اپنی ماں کو دیکھنے کی بہن سے ملنے کی خواہش تو ہوگی فوزی نے جذباتی لہجے میں کہا انسان خواہشوں کا غلام ہوجائے تو فرض دھرے رہ جاتے ہیں داؤد نے کہا جان سے پہلے جذبات قربان کرنے پڑتے ہیں تمہیں بھی یہ قربانی دینی ہوگی فوزی اس کے قریب ہوگئی اور بولی مجھے اپنے ساتھ رکھ سکتے ہو؟
نہیں داؤد نے کہا کچھ دن میرے پاس رہ سکتے ہو؟
فوزی نے پوچھا میرے فرض نے ضرورت سمجھی تو رہوں گا داؤد نے کہا مجھے اپنے پاس رکھ کر کیا کروگی؟
تم مجھے اچھے لگتے ہو نا فوزی نے کہا تم جب سے آئے ہو تمہاری باتیں سن رہی ہوں ایسی باتیں میں نے کبھی نہیں سنی تھیں میرے دل میں آتی ہے کہ تمہارے ساتھ رہوں اور مجھے زنجیر نہ ڈالو فوزی داؤد نے کہا اپنے آپ کو بھی جذبات کی زنجیر سے آزاد رکھو ہمارے سامنے بڑے کٹھن راستے ہیں ایک دوسرے کا ہاتھ ضرور تھامیں گے اکٹھے چلیں گے مگر ایک دوسرے کے قیدی نہیں بنیں گے اس نے ذرا دیر سوچ کر کہا فوزی تم زیادہ دور تک میرا ساتھ نہیں دے سکو گی مجھے تمہاری عصمت بھی عزیز ہے کام جو مردوں کا ہے وہ مرد ہی کریں گے
فوزی نے آہ لی اور اداس سی ہوگئی اس نے داؤد کو سر سے پاؤں تک دیکھا اور گھوم کر وہاں سے ہٹنے لگی داؤد نے لپک کر اس کا بازو پکڑ لیا اور اپنے قریب کرکے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں فوزی اس کے ساتھ لگ گئی اور جذبات سے کانپتی آواز میں بولی جو کام مردوں کا ہے وہ عورتیں بھی کرسکتی ہیں میری عصمت کوئی ایسا کچا دھاگا نہیں کہ ذرا سے جھٹکے سے ٹوٹ جائے گا میں تمہیں اپنی عصمت پیش نہیں کر رہی تم مجھے اچھے لگتے ہو تمہاری باتیں مجھے اچھی لگتی ہیں تم نے مجھے جو راستہ دکھایا ہے وہ میرے دل کو بہت اچھا لگا ہے میں تمہارے قریب اس لیے ہوگئی ہوں کہ شاید تمہیں میرے وجود سے اپنی ماں کی اور بہن کی بو باس مل جائے تم بہت تھکے ہوئے ہو نا داؤد! مجھے میرے بھائی کی بیوی نے بہت سی باتیں بتائی ہیں وہ کہتی ہے کہ مرد جب تھکا ہوا گھر آتا ہے تو عورت کے سوا اس کی تھکن اور کوئی دور نہیں کرسکتا عورت نہ ہو تو مرد کی روح مرجھا جاتی ہے میں ڈرتی ہوں کہ تمہاری روح مرجھا گئی تو کیا ہوگا داؤد؟
داؤد ہنس پڑا اور اس کے گال تھپکا کر بولا تمہاری ان بھولی بھالی باتوں نے میری روح کو تروتازہ کردیا ہے تمہیں میری کوئی بات بری تو نہیں لگی؟
فوزی نے پوچھا میرے بھائی کو تو نہیں بتاؤ گے کہ میں تمہارے پاس آئی تھی؟
نہیں داؤد نے کہا تمہارے بھائی کو کچھ نہیں بتاؤں گا اور تمہاری کوئی بات بھی مجھے بری نہیں لگی ہماری منزل ایک ہے داؤد فوزی نے کہا مجھے معلوم نہیں کہ دل کی بات کس طرح کہی جاتی ہے
تم نے دل کی بات کہہ دی ہے فوزی داؤد نے کہا اور میں نے سمجھ لی ہے تم نے ٹھیک کہا ہے کہ ہماری منزل ایک ہے مگر یہ نہ بھولنا کہ راستے میں خون کی ندی بھی ہے جس پر کوئی پل نہیں اگر تم ہمیشہ کے لیے میری ہو جانا چاہتی ہو تو ہمارا نکاح لہو کی تحریر ہوگی پھر ہماری لاشیں ایک دوسرے سے دور بھی ہوئیں تو ہم اکٹھے ہوجائیں گے راہ حق کے مسافروں کی شادیاں آسمانوں میں ہوتی ہیں اور باراتیں کہکشاں کے رستے میں جایا کرتی ہیں ان کی خوشی میں سارا آسمان ستاروں کی چراغاں کیا کرتا ہے فوزی جب وہاں سے چلی تو اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی اس مسکراہٹ میں مسرت کا تاثر کم اور ایسا تاثر زیادہ تھا جس میں عزم تھا اور کچھ کر گزرنے کا ارادہ دو دنوں کے بعد کمان دار واپس آگیا جو الملک الصالح کے نام سیف الدین کا پیغام لے کر گیا تھا اس کی ملاقات الملک الصالح سے نہیں ہوسکی تھی پیغام اس تک پہنچا دیا گیا تھا اس نے کہا تھا کہ وہ پیغام کا تحریری جواب دے گا کمان دار وہاں بتا آیا تھا کہ سیف الدین کہاں ہے اور جس گھر میں وہ بیٹھا ہے اس کی نشانیاں کیا ہیں سیف الدین اپنے پیغام کے جواب کا انتظار کرتا رہا جواب نہ آیا اور وہ پریشان ہونے لگا تیسرے چوتھے دن وہ بہت ہی بے چین ہوگیا کیوں نہ میں خود ہی حلب چلا جاؤں اس نے اپنے نائب سالار سے کہا اگر حلب کی فوج نے صلاح الدین ایوبی کے ساتھ صلح اور جنگ بندی کا معاہدہ کرلیا ہے تو ہمیں اپنے متعلق بہت کچھ سوچنا پڑے گا گمشتگین (والئی حرن) کا کچھ بھروسہ نہیں ہم تنہا تو نہیں لڑ سکتے ہمیں صلیبیوں کے ساتھ مل کر کوئی اور منصوبہ بنانا پڑے گا کیا یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ الملک الصالح صلح کا معاہدہ توڑ دے؟
یہ ممکن ہے کمان دار نے کہا میں نے اس کے جن سالاروں اور کمان داروں سے بات کی ہے وہ کہتے تھے کہ الملک الصالح نے صلاح الدین ایوبی کو دھوکہ دیا ہے اگر اس نے دھوکہ نہیں دیا تو بھی زیادہ تر سالار اور دوسرے حکام اس معاہدے کو تسلیم نہیں کرتے مشیر (صلیبی) تو فوری حملے کے حق میں ہیں
آپ کو حلب چلے جانا چاہیے نائب سالار نے اسے کہا اور میں موصل چلا جاتا ہوں تم ایک بار پھر حلب چلے جاؤ سیف الدین نے کمان دار سے کہا الملک الصالح کو بتا دو کہ میں آرہا ہوں تم روانہ ہو جاؤ گے تو اگلی رات میں بھی روانہ ہو جاؤں گا ہوسکتا ہے وہ مجھے ملنا نہ چاہے شہر سے باہر المبارک آکر بتا دینا کیا آپ کا اکیلے جانا مناسب ہے؟
نائب سالار نے پوچھا ان علاقوں میں کوئی خطرہ تو نہیں سیف الدین نے کہا میں رات کو جاؤں گا کسی کو کیا خبر کہ والئی موصل جارہا ہے صلاح الدین ایوبی کے جاسوسوں اور چھاپہ ماروں کا کوئی بھروسہ نہیں نائب سالار نے کہا ان سے ہماری کوئی جگہ محفوظ نہیں مجھے جانا ضرور ہے سیف الدین نے کہا خطرہ مول لینا ہی پڑے گا آج تم موصل کو روانہ ہو جاؤ میں کل رات حلب کو روانہ ہو جاؤں گا
جس وقت یہ باتیں ہورہی تھیں اس وقت داؤد اور حارث کے کان دروازے کی درز کے ساتھ لگے ہوئے تھے دونوں وہاں سے ہٹ گئے اور اپنے کمرے میں چلے گئے داؤد گہری سوچ میں کھویا ہوا تھا اسے سیف الدین کا تعاقب کرنا تھا لیکن کس طرح؟ 
سوچ سوچ کر اس کے دماغ میں ایک ترکیب آگئی ہم سیف الدین کے محافظ بنیں گے اور اس کے ساتھ حلب جائیں گے داؤد نے حارث سے کہا ہم اچانک اس کے سامنے جائیں گے اور کہیں گے کہ ہم اس کی فوج کے سپاہی ہیں
اگر اس نے کہہ دیا کہ دونوں موصل چلے جاؤ تو کیا کرو گے؟
حارث نے پوچھا میں اپنا جادو چلانے کی کوشش کروں گا داؤد نے کہا اگر یہ بھی ناکام ہوگیا تو؟
پھر یہ بھی حلب نہیں جائے گا داؤد نے کہا الملک الصالح نے صلاح الدین ایوبی کے ساتھ صلح کرلی ہے تو سیف الدین اس معاہدے کو منسوخ کرانے کے لیے حلب نہیں پہنچ سکے گا اس نے حارث کو سمجھا دیا کہ انہیں کیا کرنا ہے
اسی رات سیف الدین بند کمرے میں اپنے نائب سالار اور کمان دار کے پاس بیٹھا انہیں آخری ہدایات دے رہا تھا رات کا پہلا پہر تھا پہلے کمان دار وہاں سے نکلا حارث کے باپ نے اسے گھوڑا کھول دیا تھا کچھ دیر بعد نائب سالار بھی چلا گیا سیف الدین اکیلا رہ گیا وہ لیٹ گیا اچانک کمرے کا دروازہ دھماکے سے کھلا وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھا دیکھا فوزی سراپا مسرت اور خوشی بنی ہوئی تھی وہ ڈرتی آئی اور اس کے پاس بیٹھ کر اس نے سیف الدین کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے میرا بھائی آگیا ہے فوزی نے خوشی سے دیوانہ ہوتے ہوئے کہا اس کے ساتھ اس کا ایک دوست ہے تم نے انہیں بتایا ہے کہ میں یہاں ہوں؟
سیف الدین نے پوچھا ہاں! فوزی نے کہا میں نے بتا دیا ہے اور وہ اتنے خوش ہیں کہ آپ سے ملنے کی اجازت مانگتے ہیں انہیں لے آؤ داؤد اور حارث سیف الدین کے سامنے گئے فوجی انداز سے سلام کیا اور سیف الدین کے اشارے سے اس کے پاس بیٹھ گئے انہوں نے اپنے کپڑوں اور چہروں پر گرد ڈال لی تھی اور سانسیں اس طرح لے رہے تھے جیسے بہت تھکے ہوئے ہوں سیف الدین نے ان سے پوچھا کہ وہ کون سے دستے میں تھے حارث چونکہ اس کی فوج کا سپاہی تھا اس لیے ان سوالوں کا جواب اسی نے دیا داؤد کو تو کچھ بھی معلوم نہیں تھا
تم اتنے دن کہاں رہے ہو؟
سیف الدین نے پوچھا ہمیں بتاتے ہوئے شرم آتی ہے کہ ہماری فوج کس طرح پسپا ہوئی داؤد نے کہا ہمیں بھی پسپا ہونا تھا لیکن میں اسے ساتھ لے کر ایک چٹان پر چھپ گیا اور یہ دیکھنے لگا کہ صلاح الدین ایوبی کی فوج تعاقب میں آتی ہے یا کہیں پڑاؤ کرتی ہے میں نے جاسوسی شروع کردی آپ کو شاید یاد ہوگا کہ آپ نے صلیبی مشیروں سے چھاپہ مار جیش تیار کرائے تھے میں بھی ایک جیش میں تھا میں نے گہری دلچسپی سے تربیت حاصل کی تھی جنگ میں یہ تربیت بہت کام آٸ جنگ ختم ہوگئی تو میں نے اس تربیت سے فائدہ اٹھایا اور سوچا کہ میں اگر بھاگوں تو اپنی فوج کے لیے دشمن کے کچھ راز بھی لیتا چلوں یہ (حارث) مل گیا اسے میں نے اپنے ساتھ رکھ لیا صلاح الدین ایوبی کی فوج پیش قدمی کرتی رہی اور ہم دیکھتے رہے اگر ہمارے ساتھ سات آٹھ سپاہی ہوتے تو شب خون مار مار کر اس فوج کا بہت نقصان کرتے ہم نے صلاح الدین ایوبی کی فوج کو ترکمان کے علاقے میں پڑاؤ کرتے دیکھا ہے فوج نے خیمے جس طرح گاڑے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے جیسے فوج وہاں لمبے عرصے کے لیے ٹھہرے گی مجھے بہت افسوس ہے کہ ہماری فوجیں گھبرا کر بھاگ آئی ہیں اس سے پوچھیں ہم نے دشمن کی فوج کی جو لاشیں دیکھی ہیں ان کی تعداد چند سو نہیں چند ہزار ہے اور زخمیوں کا تو کوئی حساب ہی نہیں ہم نے رات کو ان کی خیمہ گاہ کے قریب جاکر دیکھا ہے اللہ توبہ زخمیوں کا کراہنا برداشت نہیں ہوتا تھا یوں معلوم ہوتا تھا جیسے آدھی فوج زخمی ہے امیر محترم! اللہ آپ کا اقبال بلند کرے آپ بہتر جانتے ہیں کہ کیا کرنا چاہیے ہم آپ کے غلام ہیں جو حکم دیں گے بجا لائیں گے میرا خیال یہ ہے کہ صلاح الدین ایوبی کی فوج لڑنے کے قابل نہیں اگر آپ اپنی فوج فوراً اکٹھی کرکے حملہ کردیں تو صلاح الدین ایوبی کو آپ دمشق پہنچا سکتے ہیں سیف الدین داؤد کی رپورٹ دلچسپی سے سن رہا تھا وہ شکست خوردہ تھا اس لیے وہ ایسی باتیں سننے کو ترس رہا تھا جو اسے یہ تسکین دیں کہ اسے شکست نہیں ہوئی اور وہ بھاگا نہیں بلکہ اس کی فوج اور اس کے اتحادی گھبرا کر بھاگے تھے داؤد اس کی یہ نفسیاتی ضرورت پوری کررہا تھا یہ اس کی کمزوری تھی جس کے اثر سے داؤد کی باتیں اسے ذہنی سکون دے رہی تھی ہم موصل جارہے تھے داؤد نے کہا اس (حارث) کا گاؤں راستے میں پڑتا تھا یہ کہنے لگا کہ گھر والوں سے ملتے چلیں ہم یہاں آئے تو اس کے محترم والد نے بتایا کہ آپ یہاں ہیں یقین نہ آیا آپ کو یہاں دیکھ کر بھی ہمیں یقین نہیں آرہا کہ آپ یہاں ہیں ہم یہ باتیں آپ تک پہنچانا چاہتے تھے خدا نے ہم پر بڑا ہی کرم کیا ہے ہم تمہاری باتیں سن کر بہت خوش ہوئے ہیں
سیف الدین نے بادشاہوں کی طرح کہا تمہیں اس بہادری کا انعام ملے گا
ہمارے لیے اس سے بڑا اور انعام کیا ہوسکتا ہے کہ ہم آپ کی برابری میں بیٹھے آپ کے ساتھ باتیں کررہے ہیں حارث نے کہا ہم آپ کے لیے جانیں دے کر اپنی روحوں کو خوش کرنے کو بے تاب ہیں معلوم ہوا ہے کہ آپ کے ساتھ کوئی اور بھی ہے؟
داؤد نے پوچھا وہ دونوں چلے گئے ہیں سیف الدین نے کہا میں بھی چلا جاؤں گا ہم پوچھنے کی جرأت نہیں کرسکتے کہ آپ یہاں کیوں رکے ہوئے ہیں حارث نے کہا اور اب کہاں جارہے ہیں میں آپ سے بہت شرمسار ہوں کہ آپ کو میرے گھر والوں نے اس گندے سے کمرے میں رکھا اور فرش پر بٹھا رکھا ہے
میری خواہش یہی تھی سیف الدین نے کہا میں یہیں چند دن گزارنا چاہتا تھا تم کسی کو نہ بتانا کہ میں یہاں ہوں
آپ کہاں جارہے ہیں؟
داؤد نے پوچھا میں حلب جاؤں گا سیف الدین نے جواب دیا وہاں سے موصل چلا جاؤں گا لیکن آپ اکیلے ہیں داؤد بولا آپ کے ساتھ کوئی محافظ نہیں اس علاقے میں کوئی خطرہ نہیں سیف الدین نے کہا اکیلا چلا جاؤں گا گستاخی کی معافی چاہتا ہوں داؤد نے کہا اس علاقے کو دشمن سے خالی نہ سمجھیں جو میں جانتا ہوں وہ آپ نہیں جانتے صلاح الدین ایوبی کے چھاپہ مار گھوم پھر رہے ہیں کسی نے آپ کو پہچان لیا تو ہم دونوں ساری عمر پچھتاتے رہیں گے کہ ہم آپ کے ساتھ کیوں نہ چلے گئے اتفاق سے ہم آگئے ہیں ہمارے پاس گھوڑے ہیں ہتھیار ہیں ہم آپ کے ساتھ چلیں گے ویسے بھی کوئی حکمران محافظوں کے بغیر کہیں جاتا اچھا نہیں لگتا
سیف الدین کو محافظوں کی ضرورت تھی وہ تو پہلے ہی ڈرا ہوا تھا داؤد نے اسے اور ڈرا دیا اس نے انہیں کہا کہ وہ اپنے کپڑے صاف کرلیں اور اگلی رات چلنے کے لیے تیار ہوجائیں وہ اندر چلے گئے اور سیف الدین فوزی کا انتظار کرنے لگا لیکن فوزی اس کے کمرے میں نہ گئی دن کو داؤد اور حارث اس کے لیے کھانا لے گئے اس کے پاس بیٹھے رہے اور دن گزر گیا جس وقت یہ تین مسلمان حکمران صلاح الدین ایوبی پر حملہ کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھے وہاں سے کچھ دور صلیبی کمانڈروں اور حکمرانوں کی کانفرنس ہورہی تھی وہ الملک الصالح گمشتگین اور سیف الدین کی متحدہ افواج کی شکست پر غور کررہے تھے ان میں تقریباً سب سلطان ایوبی کے مقابلے میں آکر شکست کھا چکے تھے
ان تین مسلمان فوجوں کی شکست دراصل ہماری شکست ہے ریمانڈ نے کہا جہاں تک میں جانتا ہوں صلاح الدین ایوبی کی فوج کی نفری زیادہ نہیں تھی مجھے آپ کی رائے سے اتفاق نہیں ایک مشہور فرانسیسی بادشاہ رینالٹ نے کہا ہمارا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ مسلمان آپس میں ٹکڑائیں تو ان میں سے کسی فریق کو فتح یا شکست ہو ہمارا مقصد صرف اتنا ہے کہ مسلمان آپس میں لڑتے رہیں اور ایک فریق ہمارے ہاتھ میں کھیلتا رہے ہمارا بدترین اور خطرناک دشمن صلاح الدین ایوبی ہے ہم چاہتے ہیں کہ اس کے مسلمان بھائی اس کے راستے میں حائل رہیں اور اس کی طاقت ضائع کرتے رہیں اگر اس کے مسلمان حریفوں کی طاقت ضائع ہورہی ہے تو ہوتی رہے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صلاح الدین ایوبی کو شکست دے کر اس کے حریف ہمارے خلاف متحد ہوجائیں میں آپ کو مسلمان علاقوں اور حکمرانوں کی پوری کیفیت سناتا ہوں جو ہمارے مشیروں نے بھیجی ہیں ایک کمانڈر نے کہا صلاح الدین ایوبی کے دشمن تینوں فوجوں کی جذباتی حالت یہ ہے کہ سپاہیوں میں لڑنے کا جذبہ خطرناک حد تک کم ہوگیا ہے ان کا جانی نقصان بھی بہت ہوا اور وہ بے شمار اسلحہ اور سامان پھینک آئے ہیں وہ فوری طور پر لڑنے کے قابل نہیں تھے ہم نے انہیں جو مشیر دے رکھے ہیں انہوں نے مسلمان حکمرانوں کو بڑی مشکل سے صلاح الدین ایوبی پر حملہ کرنے کے لیے تیار کیا ہے صلاح الدین ایوبی حباب الرکمان کے خوبصورت علاقے میں خیمہ زن ہے وہ فوری طور پر پیش قدمی نہیں کررہا ہمارے مشیر پوری کوشش کررہے ہیں کہ حلب حرن اور موصل کی فوجیں خواہ وہ کسی بھی حالت میں ہوں حملہ کردیں ہمیں امید ہے کہ وہ صلاح الدین ایوبی کو بے خبری میں جالیں گی اسے مارنے کا یہی ایک طریقہ ہے
اور یہ طریقہ شاید کامیاب نہ ہو آگسٹس نے کہا کیونکہ ایوبی بے خبر کبھی نہیں بیٹھا اس کا جاسوسی کا نظام ہر لمحہ بیدار اور سرگرم رہتا ہے اسے آنے والے واقعات اور حملوں کی اطلاع دو دن پہلے مل جاتی ہے ہمارے جو مشیر مسلمانوں کے ساتھ ہیں انہیں سختی سے ہدایت دو کہ اپنے جاسوسوں کو اور زیادہ تیز کردیں اور انکی تعداد بھی بڑھا دیں انہیں یہ کام دیں کہ تمام علاقوں میں گھومتے پھرتے رہیں اور ایوبی کے جاسوسوں کو پکڑیں جب مسلمان فوجیں حملے کے لیے کوچ کریں تو جاسوس اور چھاپہ مار دور دور بکھر جائیں جہاں کوئی مشکوک آدمی ادھر ادھر جاتا نظر آئے تو اسے پکڑ لیں مسافروں کو بھی روک لیں مقصد یہ ہے کہ ایوبی کو حملے کی خبر اس وقت ہو جب اس کے مسلمان بھائیوں کے گھوڑے اس کے خیمہ گاہ میں داخل ہوکر اس کی فوج کا کشت وخون شروع کردیں
یہ اطلاع بھی ملی ہے کہ صلاح الدین ایوبی ان علاقوں سے جو اس کے قبضے میں ہیں فوج کے لیے بھرتی کررہا ہے اور لوگ بھرتی ہورہے ہیں ایک اور کمانڈر نے کہا یہ سلسلہ رکنا چاہیے اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ جو ہم پہلے ہی اختیار کررہے ہیں کہ اس پر جلدی حملہ کرایا جائے تاکہ اسے تیاری کی مہلت نہ ملے دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ان علاقوں میں اخلاقی تخریب کاری کی وہی مہم چلائی جائے جو ہم نے مصر میں چلائی تھی یہ صحیح ہے کہ ہمارے بہت سے آدمی اور کئی ایک کارآمد اور قیمتی لڑکیاں پکڑی گئیں اور ماری گئی ہیں لیکن یہ قربانی تو دینی ہی پڑے گی ہم بھی تو مرتے ہیں صلیب کی خاطر ہمیں خود بھی مرنا ہے اور اپنی اولاد کو بھی مروانا ہے مسلمانوں کے ذہنوں پر حملہ ضروری ہے میں اعتراف کرتا ہوں کہ ہم صلاح الدین ایوبی کو اس خطے سے بے دخل نہیں کرسکے اس نے مصر میں پاؤں جما لیے ہیں اور یہاں بھی آگیا ہے اس کی کامیابی کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ میدان جنگ کا استاد ہے دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ انتظامیہ کا ماہر ہے اور تیسری بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس نے اپنے سپاہیوں میں قومیت اور مذہب کا جنون پیدا کررکھا ہے ہمارے خلاف لڑنے کو وہ مذہبی عقیدہ سمجھتے ہیں اس کا نتیجہ ہے کہ اس کے چھاپہ مار بھیڑیوں کی طرح ہماری فوج پر شب خون مارتے ہیں اس جنون اور اس عقیدے کو تباہ کرنا ضروری ہے
ہم نے ہمیشہ انسان کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھایا ہے جسے فرار اور لذت پرستی کہتے ہیں شاہ آگسٹس نے کہا جن مسلمانوں کے پاس دولت ہے وہ حکمران بننا چاہتے ہیں ہم نے ان کی اسی کمزوری کو استعمال کیا ہے ہمیں کوئی نیا طریقہ ایجاد کرنے کی ضرورت نہیں البتہ ایک اور مہم شروع کرنی ہے یہ ہے ایوبی کے خلاف نفرت کی مہم اس کے خلاف انتہائی گھٹیا باتیں مشہور کردو لیکن یہ کام تم نہیں کرو گے بلکہ مسلمانوں کی زبانیں استعمال کی جائیں گی اپنے مخالفین اور دشمنوں کو بدنام کرنے کے لیے اپنے کردار اور اخلاق کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے اپنے مفاد کو سامنے رکھنا چاہیے تمہارا دشمن حیثیت رتبے اور شہرت کے لحاظ سے جس قدر بلند ہو اس پر اتنے ہی گھٹیا اور پست الزام عائد کرو سو میں سے پانچ آدمی تو تمہاری بات مان جائیں گے اس دوران اپنی جنگی تیاریاں جاری رکھو ایک کمانڈر نے کہا ہمیں بہت وقت مل گیا ہے آپ نے بہت کامیابی سے مسلمانوں میں حکومت پرستی کا مرض پیدا کرکے انہیں آپس میں ٹکرایا ہے اگر ہم مسلمانوں میں اپنے دوست پیدا نہ کرتے تو آج صلاح الدین ایوبی فلسطین میں ہوتا ہم نے اسی کی قوم اس کے راستے میں کھڑی کردی ہے میں حیران ہوں ریمانڈ نے کہا کہ یہی مسلمان سپاہی ایوبی کی فوج میں ہیں وہ ہمارے دس دس سپاہیوں پر بھاری ہوتے ہیں مگر یہی مسلمان سپاہی ایوبی کے حریفوں کی فوج میں تھے اور ایسی بری شکست کھا گئے کہ بکھرے ہوئے بھاگے
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ عقیدے اور نظریے کا کرشمہ ہے جسے مسلمان ایمان کہتے ہیں رینالڈ نے کہا جو سپاہی یا سالار اپنا ایمان نیلام کر دیتا ہے اس میں لڑنے کا جذبہ نہیں رہتا اسے زندگی اور اجرت عزیز ہوتی ہے اسی لیے ہم نے کردار کشی کو ضروری سمجھا ہے ان لوگوں میں جنسیت اور نشے کی عادت پیدا کرو پھر تمہیں سپاہی اور گھوڑے مروانے کی ضرورت نہیں پڑے گی اس کانفرنس میں فیصلہ کیا گیا کہ حلب میں تینوں مسلمان فوجوں کو یکجا کرکے ایک کمان میں رکھا جائے واجبی سی مدد دی جائے انہیں ایک محاذ پر رکھا جائے لیکن ان تینوں میں تفرقہ بھی پیدا کیا جائے رات کا پہلا پہر گزر چکا تھا حارث کے گاؤں پر نیند کا غلبہ تھا اس کے گھر سے تین گھوڑے نکلے ایک پر سیف الدین سوار ہوا دوسرے پر حارث اور تیسرے پر دائود ان دونوں کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں جو انہوں نے فوجی انداز سے عمودی پکڑ رکھی تھیں انہیں الوداع کہنے کے لیے حارث کا باپ بہن اور بیوی دروازے کے باہر کھڑی تھیں حارث کے ہاتھ میں مشعل تھی سیف الدین فوزی پر نظریں جمائے ہوئے تھا اور فوزی داؤد کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی اس نے سیف الدین کی اور اپنے بھائی کی بھی موجودگی کو نظرانداز کردیا تھا خدا حافظ خدا حافظ کی آوازیں سنائی دیں اور تینوں سوار چل پڑے گھوڑے تاریکی میں روپوش ہوگئے فوزی ان کے ٹاپ سنتی رہی جوں جوں ٹاپو دھیمے ہوتے گئے فوزی کے کانوں میں داؤد کی آواز بلند ہوتی گئی راہ حق کے مسافروں کی شادیاں آسمانوں میں ہوا کرتی ہیں ان کی باراتیں کہکشاں کے رستے جایا کرتی ہیں وہ جب اندر جاکر سونے کے لیے لیٹی تو بھی اس کے گرد دائود کے یہی الفاظ گونج رہے تھے اچانک یہ سوال اس کے ذہن میں آیا کیا میں داؤد کے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہوں؟
وہ شرمسار ہوگئی پھر اسے اپنے آپ پر غصہ آنے لگا اسے داؤد کے یہ الفاظ یاد آئے راستے میں خون کی ندی بھی ہے جس پر کوئی پل نہیں اس کے ذہن میں خون موجیں مارنے لگا شادی ایک بے کار سا خیال بن کر ذہن سے نکل گیا سیف الدین اور اس کے محافظوں نے رات سفر میں گزار دی صبح طلوع ہوئی تو سیف الدین آگے آگے جارہا تھا داؤد اور حارث اتنا پیچھے تھے کہ ان کی باتیں سیف الدین کے کانوں تک نہیں پہنچ سکتی تھیں گھوڑوں کے قدموں کی بھی آوازیں تھیں
معلوم نہیں تم مجھے کیوں روک رہے ہو؟
حارث نے جھنجھلا کر داؤد سے کہا یہاں ہم اسے قتل کرکے لاش کہیں دبا دیں تو کسی کو ہم پر قتل کا شک نہیں ہوسکتا اسے زندہ رکھ کر ہم اس کی پوری فوج کو قتل کرا سکیں گے داؤد نے کہا یہ مرگیا تو اس کی فوج کی کمان کوئی اور لے لے گا مجھے راز معلوم کرنا ہے تم اپنے آپ کو قابو میں رکھو دوپہر سے کچھ پہلے انہیں حلب کے مینار نظر آنے لگے اس سے الگ ہٹ کر المبارک کا سبزہ زار تھا جہاں قدرتی چشمے تھے اس جگہ کے قریب پہنچے تو سیف الدین کا وہ کمان دار جو الملک الصالح کے لیے اس کی ملاقات کا پیغام لایا تھا دوڑتا آیا اس نے بتایا کہ الملک الصالح انتظار کررہا ہے المبارک کے سبزہ زار میں داخل ہوئے تو الملک الصالح کے دو سالار استقبال کے لیے کھڑے تھے اس نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس کے لیے چشمے کے کنارے خیمہ نصب کیا جائے وہ اسی جگہ قیام کرنا چاہتا تھا تاریخ میں اس سوال کا جواب نہیں ملتا کہ اس نے شہر میں الملک الصالح کے محل میں جانا کیوں پسند نہیں کیا تھا اس نے داؤد اور حارث کو اپنے ساتھ رکھا اس کے لیے نہایت خوش نما اور کشادہ خیمہ نصب کردیا گیا ملازم بھی آگئے اور خیمے نے وہاں محل کا منظر بنا دیا الملک الصالح نے اسے قلعے میں رات کے کھانے پر مدعو کیا اور وہیں ملاقات طے ہوئی شام کو سیف الدین اور الملک الصالح کی ملاقات ہوئی قاضی بہاؤالدین شداد نے اپنی یادداشتوں سلطان یوسف پر کیا افتاد پڑی (سلطان ایوبی کا پورا نام یوسف صلاح الدین ایوبی تھا) میں اس ملاقات کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے آخر کار یہ طے پایا کہ الملک الصالح اور سیف الدین والئی موصل کی ملاقات ہوگی ملاقات قلعے میں ہوئی جہاں الملک الصالح نے سیف الدین کا استقبال کیا سیف الدین نے کمسن شہزادے (الملک الصالح) کو گلے سے لگا لیا اور رو پڑا ملاقات کے بعد سیف الدین اپنے خیمے میں چلا گیا جو چشمہ المبارک کے پاس تھا وہاں اس نے بہت دن قیام کیا دو وقائع نگاروں نے جو کوائف قلمبند کیے تھے وہ اس طرح ہیں کہ سیف الدین نے الملک الصالح سے کہا کہ اس نے اس کے پیغام کا جواب نہیں دیا الملک الصالح حیران ہوا اس نے بتایا کہ اس نے دوسرے ہی دن تحریری جواب بھیج دیا تھا جس میں اس نے لکھا تھا کہ آپ فکر نہ کریں صلح کا معاہدہ محض دھوکہ ہے جو وقت حاصل کرنے کے لیے سلطان ایوبی کو دیا گیا ہے مجھے آپ کا کوئی پیغام نہیں ملا سیف الدین نے کہا میں تو اس پر پریشان تھا کہ آپ نے صلاح الدین ایوبی کے ساتھ صلح کا معاہدہ کرکے غلطی کی ہے اور ہمیں دھوکہ دیا ہے
الملک الصالح کے ساتھ اس کے دو سالار بھی تھے انہوں نے اسی وقت اس آدمی کو بلایا جسے پیغام دیا گیا تھا اس نے بتایا کہ قاصد کون تھا قاصد کو بلانے گئے تو معلوم ہوا کہ جس روز وہ پیغام لے کر گیا تھا اس روز کے بعد کسی کو نظر نہیں آیا اس اطلاع پر بھاگ دوڑ شروع ہوگئی قاصد کا کچھ پتہ نہ چلا کسی کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ وہ کہاں کا رہنے والا ہے وہ کہیں اکیلا رہتا تھا وہاں اس کا سامان پڑا تھا وہ خود نہیں تھا
یہ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ اتنا اہم پیغام صلاح الدین ایوبی تک پہنچا دیا گیا ہے یہ معاملہ الملک الصالح کے صلیبی مشیروں تک پہنچا تو انہوں نے یہ فیصلہ دیا قاصد صلاح الدین ایوبی کا جاسوس تھا یا سیف الدین کی طرف جاتے ہوئے قاصد ایوبی کے جاسوسوں یا چھاپہ ماروں کے ہتھے چڑھ گیا انہوں نے اسے قتل کردیا ہوگا اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ صلاح الدین ایوبی نے جنگی تیاریاں تیز کردی ہوں گی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ حملے میں پہل کردے اس کا یہ علاج ہے کہ تینوں فوجوں کو فوراً اکٹھا کیا جائے اور ایوبی پر حملہ کردیا جائے صلیبی یہی چاہتے تھے کہ مسلمانوں کے درمیان جنگ جاری رہے ایک ہی دن میں موصل اور حرن پیغام بھیج دئیے گئے کہ افواج جس حالت میں ہیں حلب پہنچیں حرن کے امیر گمشتگین نے کچھ پس وپیش کی لیکن سب کے درمیان بیٹھ کر وہ کھلی مخالفت نہ کرسکا یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ تینوں افواج ایک ہائی کمانڈ کے تحت ہوں گی اور سپریم کمانڈر سیف الدین ہوگا گمشتگین نے اپنی فوج شامل تو کردی لیکن خود حلب میں رہنا پسند کیا صاف ظاہر تھا کہ وہ سیف الدین کے ماتحت نہیں رہنا چاہتا دو تین دنوں میں تینوں فوجیں حلب میں جمع ہوگئیں صلیبیوں نے اسلحہ اور سامان بھیج دیا تھا انہوں نے مزید سامان کا وعدہ کیا اور افواج کو کوچ کرا دیا حملے کا پلان عجلت میں بنایا گیا تھا کوچ کو پوشیدہ رکھنے کے لیے نقل وحرکت رات کو کی گئی دن کو پڑاؤ کرنا تھا اس کے علاوہ یہ انتظام بھی کیا گیا کہ چھاپہ ماروں کی خاصی تعداد کوچ کے راستے دائیں بائیں اس ہدایت کے ساتھ پھیلا دی گئی کہ کوئی مسافر بھی نظر آئے تو اسے پکڑ کر حلب بھیج دو تاکہ فوج کا کوچ خفیہ رہے کوچ سے پہلے سیف الدین نے داؤد اور حارث کو بلایا انہیں شاباش دی اور کہا کہ انہوں نے مشکل کے وقت میں اس کا ساتھ دیا ہے جنگ کے بعد انہیں ترقی ملے گی اور انعام بھی اس نے حارث سے کہا تمہاری بہن کا میرے سر پر ایک قرض ہے میں اس کے سامنے اس وقت جاؤں گا جب میں یہ قرض ادا کرنے کے قابل ہوں گا حارث کو حیرت میں دیکھ کر اس نے کہا فوزی نے کہا تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی تلوار لے کر اور اس کے گھوڑے پر سوار ہوکر آؤ گے تو میں تمہارے ساتھ چلی چلوں گی حارث! میں اگر فاتح واپس آیا تو تمہاری بہن موصل کی ملکہ ہوگی ان شاء اللہ حارث نے کہا ہم آپ کو فاتح لائیں گے کیا تینوں فوجیں اکٹھی جارہی ہیں؟
ہاں! سیف الدین نے جواب دیا اور میں تینوں کا سالار اعلیٰ ہوں گا زندہ باد داؤد نے کہا اب بھاگنے کی باری صلاح الدین ایوبی کی ہے
داؤد اور حارث نے غلامانہ انداز سے جوشیلی باتیں کرکے اور فوزی کا نام بھی بار بار لے کر اس سے پلان کا خاکہ بھی معلوم کرلیا اور نقل وحرکت کا انداز بھی پوچھ لیا تم دونوں اپنی فوج میں چلے جاؤ سیف الدین نے کہا میرا محافظ دستہ آگیا ہے میں تم دونوں کو ہمیشہ یاد رکھوں گا
تینوں فوجوں کا کوچ رات کو ہوا داؤد اور حارث موصل کی ایک فوج کے جیش میں شامل ہوگئے تھے حارث کو تو کئی سپاہی جانتے تھے کیونکہ وہ اسی فوج کا تھا داؤد کے متعلق حارث نے بتایا کہ والئی موصل کا بھیجا ہوا آدمی ہے کوچ کی حالت میں کسی نے داؤد کے متعلق چھان بین نہ کی رات کو تینوں فوجیں تین کالموں میں چلتی رہیں آدھی رات کے بعد علاقہ چٹانی آگیا جہاں کئی جگہوں پر کالم کی ترتیب گڈ مڈ ہوگئی داؤد نے حارث سے کہا یہاں سے نکلو موقعہ اچھا ہے
رات کے اندھیرے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دونوں نے گھوڑے آہستہ آہستہ ایک طرف کرنے شروع کردئیے اور فوج سے دور ہٹتے گئے داؤد کی سکیم یہ تھی کہ دور جاکر گھوڑے سرپٹ دوڑا دیں گے دن کو تینوں افواج پڑاؤ کریں گی اور وہ دونوں ترکمان پہنچ جائیں گے اور صلاح الدین ایوبی کو حملے کی خبر دے دیں گے اس طرح اسے حملے کی اطلاع ایک دن پہلے مل جائے گی اور وہ دشمن کے استقبال کا انتظام کرلے گا داؤد کو اپنی سکیم کی کامیابی پر مکمل اعتماد تھا مگر اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ اردگرد علاقے میں چھاپہ مار اور جاسوس پھیلا دئیے گئے ہیں
وہ دونوں دور دائیں طرف نکل گئے جب دیکھا کہ فوج سے وہ بہت دور محفوظ فاصلے پر آگئے ہیں تو انہوں نے ترکمان کا رخ کرلیا لیکن گھوڑے دوڑائے نہیں رفتار ذرا سی تیز کردی وہ گھوڑوں کو تھکانے سے بھی گریز کررہے تھے کیونکہ انہیں منزل تک رکے بغیر پہنچنا تھا رات گزرتی جارہی تھی صبح کا اجالا نکھرنے لگا تو داؤد گھوڑے سے اترا اور ایک ٹیلے پر چڑھ کر اس طرف دیکھنے لگا جدھر افواج جارہی تھیں اسے دور گرد کے سوا کچھ نظر نہ آیا اسے اطمینان ہوگیا کہ وہ افواج سے بہت دور ہیں مگر یہ اس کی غلطی تھی اسے کوئی دیکھ رہا تھا نیچے آکر گھوڑے پر سوار ہوا اور دونوں نے گھوڑوں کی رفتار تیز کردی یہ ٹیلوں اور ریتلی چٹانوں کا علاقہ تھا وہ دو ٹیوں کے درمیان سے گزر رہے تھے آگے موڑ تھا وہ موڑ پر پہنچے تو آگے سے چار گھوڑ سوار آگئے چاروں نے برچھیاں ان کی طرف کردیں اور رک گئے گھوڑوں سے اترو گھوڑ سوار نے رعب سے کہا ہم مسافر ہیں داؤد نے کہا مسافر موصل کی فوج کی وردی میں نہیں ہوا کرتے گھوڑ سوار نے کہا مسافروں کے پاس یہ ہتھیار نہیں ہوا کرتے جو تم نے اٹھا رکھے ہیں تم جو کوئی بھی ہو تمہیں ہمارے ساتھ حلب چلنا ہوگا ہم تمہیں چھوڑ نہیں سکتے گھوڑے موڑو یہ حلب کے چھاپہ مار تھے جو مشکوک آدمیوں کو پکڑ کر حلب لے جانے کو تمام علاقے میں پھیلا دئیے گئے تھے چاروں سواروں نے ان دونوں کو گھیرے میں لے لیا داؤد نے حارث سے آہستہ سے کہا وقت آگیا ہے بھائی حارث نے اپنے گھوڑے کی لگام کو جھٹکا دیا گھوڑے نے اگلی دونوں ٹانگیں اٹھا دیں حارث نے ایڑی لگائی گھوڑے نے جست لگائی حارث نے سامنے والے گھوڑ سوار کے سینے میں برچھی اتار دی لیکن اس کے بائیں جو سوار تھا اس کی برچھی حارث کے کندھے میں اتر گئی داؤد تجربہ کار چھاپہ مار تھا اس نے گھوڑے کو ایڑی لگا کر وہیں سے گھمایا اور ایک اور سوار کو بے خبری میں لے لیا وہ چار تھے اور یہ دو یہ جگہ گھوڑوں کی لڑائی کے لیے موزوں نہیں تھی دونوں طرف ٹیلے تھے تھوڑی دیر گھوڑے کودتے پھلانگتے رہے برچھیاں ٹکراتی رہیں حارث گھوڑے سے گر پڑا داؤد کو بھی زخم آئے تھے جن میں دو تین گہرے تھے لیکن اس نے ہوش ٹھکانے رکھی آخر چاروں سوار مارے گئے یا شدید زخمی ہوکر گر پڑے داؤد بھی شدید زخمی تھا اس نے دیکھا کہ معرکہ ختم ہوگیا ہے تو اس نے حارث کے گاؤں کا رخ کرلیا حارث کو دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اسے یقین تھا کہ وہ مرگیا ہے اور اسے یہ بھی یقین تھا کہ وہ خود بھی مرجائے گا لیکن وہ سلطان ایوبی کو حملے سے قبل از وقت خبردار کرنے کے لیے زندہ رہنے کی کوشش کررہا تھا اس کا خون اتنا زیادہ بہہ گیا تھا کہ اس کی زین اور گھوڑے کی پیٹھ بھی لال ہوگئی تھی اس نے اندازہ کرلیا تھا کہ ترکمان دور ہے اور حارث کا گاؤں قدرے کم دور اس کی نظر حارث کے باپ پر تھی اسے امید تھی کہ وہ زندہ پہنچ گیا تو بوڑھے سے کہے گا کہ اپنے شہید بیٹے کی روح کی تسکین کے لیے ترکمان پہنچو اور سلطان ایوبی کو خبردار کردو اس نے گھوڑے کو ایڑی لگا دی گھوڑا جتنا زیادہ ہلتا تھا داؤد کے جسم سے خون اتنا ہی زیادہ نکلتا تھا پیاس سے اس کے حلق میں کانٹے چبھ رہے تھے اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا وہ سر کو جھٹک جھٹک کر راستہ دیکھنے کی کوشش کرتا تھا اس نے آیتہ کریمہ کا ورد شروع کردیا اور تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد آسمان کی طرف منہ کرکے بلند آواز سے کہتا زمین و آسمان کے مالک! مجھے تھوڑی سی زندگی عطا کردے اس کے نیچے گھوڑا بڑی اچھی چال دوڑتا جارہا تھا مگر داؤد کے زخم کھلتے جارہے تھے اور وہ محسوس کررہا تھا جیسے اس کے جوڑ بھی الگ ہورہے ہوں ایک بار تو اس کا سر ایسا ڈولا کہ وہ گھوڑے سے گرتے گرتے بچا وہ چونک کر سنبھل گیا وہ ایک بار پھر گھوڑے سے گرنے لگا اس نے سنبھلنے کی کوشش کی مگر سنبھل نہ سکا اسے اپنے پاؤں کے نیچے زمین محسوس ہوئی اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا تھا وہ ذرا سا اپنے آپ میں آیا تو اسے پتہ چلا کہ یہ رات کا اندھیرا ہے اور اسے کسی نے تھام رکھا ہے اسے وہ دشمن سمجھ کر آزاد ہونے کی کوشش کرنے لگا تو اس کے کانوں میں ایک نسوانی آواز پڑی داؤد! تم گھر میں ہو گھبراؤ نہیں اس نے آواز پہچان لی یہ فوزی کی آواز تھی وہ غشی کی حالت میں منزل پر پہنچ گیا تھا آیتہ کریمہ نے اسے روح کی روشنی عطا کی تھی
بابا کہاں ہیں؟
اس نے اندر جاکر پوچھا
وہ باہر چلے گئے ہیں فوزی نے کہا وہ کل یا پرسوں آئیں گے فوزی اور اس کی بھابھی اس کے زخم دھونے لگیں تو اس نے پانی مانگا پانی پی کر اس نے کہا فوزی! تم نے کہا تھا کہ مردوں کے کام عورتیں بھی کرلیا کرتی ہیں وہ رک رک کر بڑی مشکل سے بول رہا تھا میرے زخم نہ دھوؤ بے کار ہے میرے اندر خون نہیں رہا میں ٹھیک ہوتا تو برداشت نہ کرتا کہ تمہیں اس گھر سے باہر جانے دیتا مگر یہاں مسئلہ میری اور تیری ذات کا نہیں یہ ایک امانت کا مسئلہ ہے یہ ہمارے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناموس کا مسئلہ ہے اس نے فوزی کو ترکمان کا راستہ سمجھایا اور اسے پیغام دیا کہ حلب حرن اور موصل کی فوجیں کس طرح مشترکہ کمان میں حملے کے لیے آرہی ہیں کدھر سے آرہی ہیں اور ان کا پلان کیا ہے اس نے فوزی کو بتایا کہ اس کا بھائی اس فرض کی ادائیگی میں شہید ہو گیا ہے
فوزی تیار ہوگئی اور اس کے ساتھ حارث کی بیوی بھی تیار ہوگئی ایک گھوڑا گھر میں تھا دوسرا داؤد کا تھا فوزی اور اس کی بھابھی داؤد کو اس حالت میں چھوڑ کر جانے سے گھبرا رہی تھیں
فوزی داؤد نے نحیف آواز میں کہا میرے قریب آؤ وہ اس کے قریب آئی تو اس نے لڑکی کا ہاتھ تھام کر اور مسکرا کر کہا راہ حق کے مسافروں کی شادیاں آسمانوں میں ہوا کرتی ہیں ان کی باراتیں کہکشاں کے رستے جایا کرتی ہیں ہماری شادی کی خوشی میں آسمان پر ستاروں کی چراغاں ہوگی اور اس کا سر ایک طرف لڑھک گیا فوزی نے اسے بلایا مگر اس کی بارات کہکشاں کے راستے چل پڑی تھی
فوزی کو داؤد سب کچھ بتا کر شہید ہوا تھا فوزی اور اس کی بھابھی نے گھر اللہ کے حوالے کیا گھوڑے پر زین ڈالی اور اس پر فوزی کی بھابھی سوار ہوگئی فوزی نے داؤد کے گھوڑے کو پانی پلایا اور سوار ہوگئی زین پر خون کی تہہ جمی ہوئی تھی دونوں گھوڑے گاؤں سے نکل گئے دونوں لڑکیاں اللہ کے بھروسے پر جارہی تھیں اس راستے سے وہ واقف نہیں تھیں داؤد نے فوزی کو ایک ستارہ سمجھا دیا تھا وہ اس ستارے کی رہنمائی میں چلتی گئیں ادھر تینوں افواج دن بھر قیام کرکے رات کو چل پڑی تھیں ترکمان زیادہ دور نہیں تھا سلطان ایوبی ترکمان میں آنے والے طوفان سے بے خبر تھا اس نے دیکھ بھال کا انتظام کر رکھا تھا مگر اس کے دشمن نے بھی اب کے اچھے انتظامات کیے تھے اس نے اپنے چھاپہ ماروں کو بتا دیا تھا کہ ترکمان کے قریب انہیں سلطان ایوبی کے ایسے آدمی ملیں گے جو دیہاتی لباس میں یا خانہ بدوشوں کے بھیس میں ہوں گے اور وہ دیکھ بھال کررہے ہوں گے مورخ لکھتے ہیں کہ صلاح الدین ایوبی کا اس طوفان سے بچنا ممکن نظر نہیں آتا تھا اس کا بے خبری میں دبوچے جانا یقینی تھا اپنے سالاروں سے وہ کہہ رہا تھا کہ حلب حرن اور موصل والے اتنی جلدی حملہ کرنے کے قابل نہیں ہوسکتے حالانکہ اسے سیف الدین کی طرف الملک الصالح کا بھیجا ہوا پیغام مل گیا تھا
فوزی اور اس کی بھابھی پر جیسے دیوانگی طاری تھی انہیں یہ احساس ہی نہیں رہا تھا کہ وہ مستورات ہیں اور ان کے راستے میں کیسے کیسے خطرے ہیں رات انہوں نے گھوڑوں پر گزار دی صبح کا نور پھیلنے لگا تو وہ ٹیلوں اور ریتلی چٹانوں کے قریب سے گزر رہی تھیں فوزی نے ایک چٹان کے سہارے ایک آدمی کو بیٹھے دیکھا اس کے کپڑے خون سے لال ہوگئے تھے اس کا سر ڈھلک گیا تھا فوزی نے اپنی بھابھی سے کہا کہ کوئی زخمی معلوم ہوتا ہے لیکن رکیں گے نہیں معلوم نہیں کون ہے انہیں اس کے قریب سے گزرنا تھا وہ آدمی اٹھنے کی کوشش کررہا تھا
 گھوڑے قریب گئے تو فوزی نے چیخ کر کہا حارث اور وہ گھوڑے سے کود گئی وہ حارث تھا وہ شہید نہیں ہوا تھا لیکن اس کا زندہ رہنا بھی معجزہ تھا اس کے جسم پر برچھیوں کے بہت سے زخم تھے لڑکیوں نے گھوڑے کے ساتھ پانی کے چھوٹے چھوٹے مشکیزے باندھ رکھے تھے انہوں نے حارث کو پانی پلایا اسے ذرا سا ہوش آیا تو اس نے پوچھا میں گھر میں ہوں؟ 
داؤد کہاں ہے؟
فوزی نے اسے ساری بات بتا دی اور بتایا کہ وہ اس وقت کہاں ہیں اور کدھر جارہی ہیں حارث نے کہا مجھے گھوڑے پر ڈال لو اور ترکمان کی طرف گھوڑے دوڑا دو
دونوں لڑکیوں نے اسے گھوڑے پر بٹھا دیا فوزی اس کے پیچھے بیٹھ گئی حارث روح کی قوت سے زندہ تھا ورنہ اس کے جسم میں خون کا ایک قطرہ نہیں بچا تھا یہ فرض کی لگن کا کرشمہ تھا فوزی نے اس کی پیٹھ اپنے سینے سے لگا رکھی تھی اور اسے ایک بازو سے پکڑا ہوا تھا وہ سرگوشیوں میں فوزی کو راستہ بتا رہا تھا سلطان ایوبی کی دشمن افواج سیف الدین کی کمان میں ترکمان کے قریب پہنچ رہی تھی ادھر فوزی حارث اور حارث کی بیوی ایک محفوظ سمت سے ترکمان کی طرف جارہی تھیں افق سے آسمان گہرا بادامی ہوتا جارہا تھا اور یہ رنگ اوپر ہی اوپر اٹھتا جارہا تھا فوزی کی بھابھی نے افق کی طرف دیکھا تو اس نے گھبرا کر چلا کر کہا فوزی ادھر دیکھو حارث نے سرگوشی کی کیا ہے فوزی؟
آندھی فوزی نے کہا اور اس کے دل پر گھبراہٹ طاری ہوگئی اس خطے کے لوگ ان آندھیوں سے واقف تھے یہ علاقہ بے شک چٹانی تھا لیکن کچھ حصے ریتلے تھے اور اردگرد ریگزار تھا آندھی جب آتی تھی چٹانوں کو ریت میں دفن کرجاتی تھی انسانوں اور جانوروں کے لیے یہ قیامت ہوتی تھی لیکن یہ جو آندھی آرہی تھی وہ اس خطے کی چند ایک بھیانک آندھیوں میں سے ایک تھی اور اس آندھی نے تاریخی حیثیت حاصل کرلی میجر جنرل (ریٹائرڈ) محمد اکبر خان (رنگروٹ) نے اپنی انگریزی کتاب گوریلا وار فیئر میں ایک یورپی مورخوں اور مسلمان وقائع نگاروں کے حوالے دے کر لکھا ہے جس روز الملک الصالح گمشتگین اور سیف الدین کی متحدہ افواج سلطان صلاح الدین ایوبی پر بے خبری میں حملہ کرنے کے لیے ترکمان کے قریب پہنچ گئیں تو ایسی آندھی آئی کہ اپنی ناک سے ایک بالشت آگے کچھ نظر نہیں آتا تھا سلطان ایوبی کو معلوم نہیں تھا کہ اس آندھی میں اس پر ایک اور طوفان آرہا ہے
تاریخ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ متحدہ افواج نے سلطان ایوبی پر حملہ کرنے میں تاخیر کردی جو سالار اعلیٰ کی لغزش تھی لیکن راہ حق کے مسافروں کی مدد خدا کیا کرتا ہے کہا جاسکتا ہے کہ خدائے ذوالجلال نے دو مسلمان لڑکیوں کے جذبہ حریت کی لاج رکھ لی تھی ایک بہن اپنے زخمی بھائی کو سینے سے لگائے مجاہدین اسلام کو کفر کی یلغار سے خبردار کرنے کو دوڑی جارہی تھی اسے کوئی غم نہ تھا کہ اس کا بھائی مررہا ہے آندھی اتنی تیزی سے آئی کہ کسی کو سنبھلنے کا موقعہ نہ ملا متحدہ افواج چٹانوں کی اوٹ میں بکھر کر پناہ گزین ہوئیں گھوڑے اور اونٹ بے لگام ہوگئے کمانڈروں کو اطمینان تھا کہ آندھی گزر جائے گی اور فوجوں کو منظم کرلیا جائے گا مگر آندھی کا زور بڑھتا جارہا تھا سلطان ایوبی کی خیمہ گاہ کی بھی حالت بہت بری تھی خیمے اڑ رہے تھے بندھے ہوئے گھوڑوں اور اونٹوں نے قیامت برپا کررکھی تھی ریت کی بوچھاڑوں کے ساتھ کنکریاں اور ریزے جسموں میں داخل ہوتے محسوس ہوتے تھے چیخیں ایسی جیسے بدروحیں اور چڑیلیں چیخ رہی ہوں سورج ابھی غروب نہیں ہوا تھا مگر پتہ چلتا تھا کہ سورج کو بھی آندھی اڑا لے گئی ہے کمانڈر چلاتے پھر رہے تھے سپاہی اڑتے خیموں کو سنبھالتے گرتے اور اٹھتے تھے تین چار سپاہی ایک چٹان کی اوٹ میں دبکے بیٹھے تھے ایک گھوڑا جو آہستہ آہستہ چل رہا تھا ان پر چڑھ گیا سپاہیوں نے ادھر ادھر گرتے چلا چلا کر کہا گھوڑا روکو بدبخت کہیں اوٹ میں ہو جاؤ گھوڑا رکا تو ایک سپاہی نے اپنے ساتھیوں سے کہا کچھ اور نہ کہنا عورت ہے ایک اور نے کہا یہ دو عورتیں ہیں وہ فوزی اور اس کی بھابھی تھیں سپاہیوں نے یہ سمجھ کر آندھی میں راستہ بھول کر ادھر آنکلی ہیں ان کے گھوڑوں کی باگیں پکڑ لیں اور انہیں چٹان کی اوٹ میں کرنے لگے ہمیں سلطان ایوبی تک پہنچاؤ فوزی نے آندھی کی چیخوں میں چلا کر کہا سلطان صلاح الدین ایوبی کہاں ہے؟ 
ہم بہت ضروری پیغام لے کر آئی ہیں ورنہ سب مارے جاؤ گے سپاہیوں نے گھوڑے پر ایک لہولہان زخمی کو بھی دیکھ لیا تھا انہوں نے گھوڑوں کی باگیں پکڑیں اور بڑی ہی مشکل سے سلطان ایوبی کے خیمے تک پہنچے مگر وہاں کوئی خیمہ نہیں تھا اس کی حفاظت کے لیے قناتیں تان دی گئی تھیں لڑکیوں کو دیکھ کر سلطان ایوبی تیزی سے اٹھا سب سے پہلے حارث کو گھوڑے سے اتارا گیا وہ ابھی زندہ تھا لڑکیاں گھوڑوں سے اتریں اور تیزی سے بولتے ہوئے فوزی نے سلطان ایوبی کو بتایا کہ متحدہ فوج حملے کے لیے آگئی ہے حارث نے سرگوشیوں میں ضروری باتیں بتائیں اور وہ بولتے بولتے ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا
اس سے کچھ دیر بعد آندھی کا زور تھمنے لگا سلطان ایوبی نے اپنے سالاروں کو بلایا اور حکم دیا کہ خیمے سنبھالنے کی ضرورت نہیں سپاہیوں کو جیشوں اور دستوں میں اکٹھا کرو چھاپہ مار دستے فوراً بلاؤ اس نے سالاروں کو بتایا کہ کیا ہونے والا ہے اور رات کے اندر اندر کیا کیا نقل وحرکت کرنی ہے
آندھی کا زور کچھ اور کم ہوگیا لیکن رات کا اندھیرا پھیل گیا سیف الدین کی متحدہ افواج اپنے آپ کو سنبھالنے میں مصروف ہوگئیں بہت سے سپاہی سو گئے رات کا حملہ اس بدنظمی کی وجہ سے ملتوی کردیا گیا جانور بھی ادھر ادھر بھاگ دوڑ رہے تھے آدھی رات کے بعد افواج پر نیند کا غلبہ طاری ہوگیا سلطان ایوبی کا کیمپ جاگ رہا تھا اور وہاں بے پناہ سرگرمی تھی سیف الدین کو معلوم ہی نہ ہوسکا کہ اس کے دائیں اور بائیں سے دو تین میل دور اس فوج کا حصہ گزرتا جارہا ہے جسے وہ بے خبری میں تباہ کرنے آیا تھا صبح طلوع ہوئی متحدہ افواج بری طرح بکھر ہوئی تھیں رسد اڑ گئی تھی بعض گھوڑوں نے منہ زور ہوکر سپاہیوں کو کچل ڈالا تھا افواج کو عجلت سے منظم کیا گیا آدھے سے زیادہ دن اسی میں گزر گیا سیف الدین نے تینوں افواج کے سالاروں کو حکم دیا کہ چونکہ سلطان ایوبی بے خبر ہے اس لیے سامنے سے کھلا حملہ کردیا جائے دن کے پچھلے پہر حملہ کیا گیا دائیں بائیں چٹانیں اور سرسبز ٹیلے تھے ان سے حملہ آوروں پر تیروں کا مینہ برسنے لگا سامنے سے آگ کے گولے آنے لگے آتش گیر مادے کی ہانڈیاں گرتی اور پھٹتی تھیں سیال مادہ بکھر جاتا تھا اس پر جب منجنیقوں کے پھینکے ہوئے آگ کے گولے گرتے تھے تو زمین مہیب شعلے اگلتی تھی حملہ رک گیا سیف الدین نے افواج کو پیچھے ہٹا لیا اور حملے کی ترتیب اور سکیم بدل دی مگر اس کی افواج پیچھے ہٹیں تو عقب سے ان پر ایسا شدید اور تیز حملہ ہوا کہ افواج کا شیرازہ بکھر گیا یہ حملہ سلطان ایوبی کے اپنے مخصوص سٹائل کا تھا حملہ آوروں کی تعداد تھوڑی تھی گھوڑے سرپٹ دوڑتے آئے سواروں کی برچھیاں اور تلواریں چلیں اور وہ غائب ہوگئے ایسے ہی حملے پہلوؤں پر ہوئے سیف الدین کی مرکزی کمان ختم ہوگئی رات آئی حملے رات کو بھی جاری رہے سیف الدین اور پیچھے ہٹا تو اس پر تیروں کی بوچھاڑیں آنے لگیں سلطان ایوبی کے چھاپہ مار رات بھر سرگرم رہے صبح ابھی دھندلی تھی جب سلطان ایوبی نے ایک چٹان پر چڑھ کر میدان جنگ کی کیفیت دیکھی اس کے سامنے اب جنگ کا آخری مرحلہ تھا اس نے قاصد کو اپنے ریزرو دستوں کے کمانڈر کی طرف دوڑا دیا تھوڑی ہی دیر میں سرپٹ دوڑتے گھوڑوں نے زمین ہلا ڈالی پیادہ دستے دائیں اور بائیں سے نکلے اللہ اکبر کے نعروں سے آسمان پھٹنے لگا سیف الدین کی افواج اس قابل نہیں رہی تھیں کہ اس حملے کی تاب لاسکیں گھیرا بھی تھا اور گھیرا مکمل تھا سامنے سے شدید حملہ آگیا سیف الدین کی افواج کا جذبہ تو ختم ہوچکا تھا خود سیف الدین دل چھوڑ بیٹھا وہ دیکھ رہا تھا کہ کمان اس کے ہاتھ سے نکل گئی ہے اور افواج لڑنے کے قابل نہیں رہیں سوار زخمی سپاہیوں کو روند رہے تھے آخر انہوں نے فرداً فرداً ہتھیار ڈالنے شروع کردئیے سلطان ایوبی کی وہ فوج جو سیف الدین کے عقب میں تھی آگے آرہی تھی دائیں بائیں سے چھاپہ مار ہلے پہ ہلہ بول رہے تھے سیف الدین کی افواج شکنجے میں پس گئیں سیف الدین کے مرکز تک پہنچے تو وہاں شراب کی صراحیوں کے سوا کچھ بھی نہیں تھا وہاں سے جو قیدی پکڑے گئے انہوں نے بتایا کہ ان کا سالار اعلیٰ آخری بار ایک چٹان کی اوٹ میں دیکھا گیا تھا پھر نظر نہیں آیا اسے سلطان ایوبی کے حکم سے بہت تلاش کیا گیا مگر وہ کہیں بھی نظر نہ آیا وہ نکل گیا تھا اپنی افواج کو سلطان ایوبی کے رحم وکرم پر چھوڑ کر وہ بھاگ گیا تھا
رات ایک خیمے میں جو ترکمان کے سبزہ زار میں خاص طور پر نصب کیا گیا تھا فوزی اپنے بھائی کی لاش کے پاس بیٹھی کہہ رہی تھی میں نے خون کی ندی پار کرلی ہے جس پر کوئی پل نہیں ہوتا حارث میں نے تمہارا فرض ادا کردیا ہے سلطان ایوبی اس خیمے میں داخل ہوا تو فوزی نے پوچھا سلطان! کیا خبر ہے؟ 
میرے بھائی کا خون رائیگاں تو نہیں گیا؟
اللہ نے دشمن کو شکست دی ہے تم فاتح ہو میری عزیز بچی! تم اور سلطان ایوبی کی آواز رقت میں دب گئی اس کے آنسو بہہ نکلے...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی