⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟙 𝟠⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس پر ابرق کے ذرے چپکے ہوئے تھے جو مشعلوں کی روشنی میں ستاروں کی طرح ٹمٹماتے اور چمکتے تھے آشی کے سر پر ریشم کا باریک رومال تھا اس کے بال اسی ریشم جیسے تھے جو شانوں پر اس انداز سے پڑے ہوئے تھے کہ عریاں شانوں کی سپیدی ان میں ستاروں کی طرح نظر آتی تھی وہ خوبصورت تو تھی ہی اس کا بناؤ سنگھار اور سج دھج ایسی تھی جس میں طلسماتی سا تاثر تھا اور جو حیوانی جذبے کو اکساتی تھی
پہاڑیوں اور جنگلوں میں رہنے والے ان لوگوں کے لیے یہ لڑکی اس کی چال اور اس کا لباس عجوبے سے کم نہ تھا ان کی نظریں گرفتار ہوگئیں اور ان پر سحر طاری ہوگیا آشی کے ایک ہاتھ میں گز ڈیڑھ لمبے اور اس سے آدھے چوڑے قالین کا ایک ٹکڑا تھا جو اس نے دونوں مشعلوں کے درمیان بچھا دیا اس نے دونوں بازو پھیلائے اور آسمان کی طرف دیکھا خیمے کا پردہ ہٹا اور عمرو درویش مستانہ چال چلتا قالین پر کھڑا ہوگیا اس نے بھی آشی کی طرح بازو دائیں بائیں پھیلائے آسمان کی طرف دیکھا اور کچھ بڑبڑانے لگا اے خدا کی برگزیدہ ہستی جس کا احترام ہم سب پر فرض ہے ہم تیرے حضور حاضر ہوئے ہیں یہ ان تین آدمیوں سے ایک تھا جن کا ذکر اوپر آچکا ہے اس نے کہا تیری دن کی باتیں ہمارے دلوں میں اتر گئی ہیں مگر ایک شک ہے ہمیں طور کا جلوہ دکھا جس کا تونے وعدہ کیا تھا
مصر فرعونوں کا ملک ہے عمرو دوریش نے بلند آواز سے کہا فرعون مر گئے مگر خدا نے مصر کی بادشاہی جس کو بھی دی وہ فرعون بنا یہ مصر کی زمین کی مصر کے پانی کی اور مصر کی ہوا کی تاثیر ہے جو کلمئہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے تھے وہ بھی فرعون بنے حضرت موسیٰ علیہ واسلام نے فرعونوں کی خدائی کو للکارا اور نیل کے پانی کو کاٹ کر دکھا دیا اب مصر ایک بار پھر فرعونوں کے قبضے میں آگیا ہے وہاں شراب کی نہریں بہتی ہیں اور پردہ نشین کنواریوں کی عصمتوں سے کھیلا جاتا ہے خدائے ذوالجلال نے ہمارے اس خطے کو یہ سعادت بخشی ہے کہ مصر کو فرعونوں سے آزاد کراؤ خداوند عالم نے تمہیں کوہِ طور کا جلوہ بخشا ہے
عمرو درویش نے بازو پھیلائے اور آسمان کی طرف دیکھ کر جوشیلی آواز میں کہا اپنے بھٹکے ہوئے بندوں کو اپنا وہی نور دکھا جو تو نے موسیٰ علیہ السلام کو دکھایا تھا
اس نے لپک کر ایک مشعل زمین سے اکھاڑی رات تاریک ہو چکی تھی پہاڑ چٹانیں اور درخت اندھیرے کی سیاہی میں روپوش ہوگئے روشنی صرف ان دو مشعلوں کے شعلوں کی تھی جس میں عمرو درویش اور آشی نظر آرہے تھے عمرو درویش نے مشعل اوپر کی اور ایک سمت اشارہ کرکے کہا ادھر دیکھو ادھر ایک پہاڑی ہے تم اس پہاڑی کو نہیں دیکھ سکتے اس کا جلوہ دیکھو
اس نے مشعل اور زیادہ اوپر کرکے دائیں بائیں لہرائی اس کے ساتھ ہی سامنے پہاڑی سے ایک شعلہ اُٹھا اور ذرا سی دیر میں کم ہوتے ہوئے ختم ہوگیا لوگوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے حیرت زدگی نے ان کی زبانیں گنگ کردیں
اگر تم خدا کے اس جلوے کو بھی اپنے دلوں میں نہ اتارا تو یہ شعلہ جو تم نے دیکھا ہے تمہارے اس سرسبز علاقے کو ریگزار بنادے گا عمرودوریش نے کہا میں اسے روک نہیں سکوں گا اسے تم نے دعوت دی ہے
عمرو درویش اپنے خیمے میں چلا گیا آشی نے لوگوں کو اشارہ کیا کہ وہ چلے جائیں لوگ وہاں سے جانے لگے تو ایک دوسرے کے ساتھ بات کرتے ہوئے بھی گھبراتے تھے
ان کے دلوں میں کوئی شک نہیں رہا تھا وہ جب خیمے سے دور نکل گئے تو ایک آدمی جو ان کے ساتھ تھا
دوڑ کر آگے ہوا اور سب کی طرف منہ کرکے رُک گیا سب نے دیکھا وہ ایک گاؤں کی مسجد کا پیش امام تھا
ذرا رک جاؤ امام نے بازو پھیلا کرکہا سب رک گئے تو اس نے کہا اپنے ایمان کو قابو میں رکھو مسلمانو! یہ جادو گری ہے جو تم دیکھ آئے ہو یہ شعبدہ بازی ہے رسولﷺ کے بعد نہ کوئی پیغمبر آیا ہے نہ آئے گا خدا ایسے گناہگاروں کو جلوے اور نور نہیں دکھایا کرتا جو اپنے ساتھ بے حیا لڑکیاں لیے پھرتے ہیں یہ لڑکی نہیں جن ہے ایک آدمی نے کہا جنات انسانوں کے روپ میں نہیں آسکتے امام نے کہا جنات کسی انسان کے غلام نہیں ہوسکتے مسلمانو اپنے عقیدے کی حفاظت کرو سلطان صلاح الدین ایوبی فرعون نہیں وہ خدا کا سچا بندہ ہے اس نے پیغمبر کا دعویٰ نہیں کیا وہ تمہارے مذہب کا پاسبان اور صلیب کا دشمن ہے
محترم امام ایک آدمی نے کہا کیا آپ پانی کو آگ لگا سکتے ہیں؟
اس کی نہ سنو ایک اور نے کہا یہ اپنی امامت قائم رکھنا چاہتا ہے ہم نے جو دیکھا ہے وہ آپ دکھا دیں ایک اور نے کہا پھر ہم آپ کی اطاعت قبول کر لیں گے میرے ساتھ اس پہاڑی پر چلو جہاں سے شعلہ اُٹھا تھا امام نے کہا میں تمہیں دکھا دوں گا کہ یہ کیا شعبدہ ہے اگر میں غلط ہوں تو مجھے اسی جگہ قتل کر دینا جہاں شعلہ بھڑکا تھا
ہم خدا کے کاموں میں دخل دینے کی جرأت نہیں کرینگے ایک آدمی نے کہا دو تین آدمی بیک وقت بول پڑے وہ بھی امام کے خلاف بول رہے تھے انہوں نے لوگوں کو ایسا اشتعال دلایا کہ سب چل پڑے اور امام کو دھکے دیتے آگے چلے گئے امام اکیلا کھڑا رہا کچھ دیر وہاں کھڑے رہ کر امام اس پہاڑی کی طرف چل پڑا جس پر شعلہ اُٹھا تھا وہ بہت ہی تیز چلا جارہا تھا ایک پتھریلے ویرانے سے گزر کر چٹان کے دامن میں پہنچا تو دو آدمی اس سے کچھ پیچھے چلے جارہے تھے امام چٹان کے ساتھ ساتھ چلا جا رہا تھا پیچھے جانے والے دونوں اور تیز ہوگئے ان کے قدموں کی آہٹیں سن کر امام رک گیا وہ دونوں اس کے قریب جا رکے ان کے چہرے کپڑوں میں چھپے ہوئے تھے امام نے ان سے پوچھا کہ وہ کون ہیں انہوں نے کوئی جواب نہ دیا ان میں سے ایک امام کے پیچھے چلا گیا امام اس کی طرف مڑا تو دوسرے نے امام کی گردن کے گرد اپنا بازو لپیٹ لیا امام نے کمر بند سے خنجر نکالا مگر اس کا خنجر والا ہاتھ ایک آدمی کے ہاتھ کے شکنجے میں آگیا اس کی گردن دوسرے آدمی کے بازو کے شکنجے میں تھی جو اتنا تنگ اور سخت ہوگیا تھا کہ اس کا سانس رک رہا تھا
اس نے آزاد ہونے کی آخری کوشش کی وہ پوری طاقت سے اچھلا دونوں پاؤں جوڑ کر سامنے والے کے پیٹ میں مارے اسے پیچھے سے ایک آدمی نے جکڑ رکھا تھا سامنے والا امام کی لاتوں سے پیچھے کو گرا اور اس کے پیچھے والا دھکہ برداشت نہیں کرسکا وہ بھی پیچھے کو گرا اور امام کی گردن پر اس کے بازو کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی امام نے ایک اور جھٹکا دیا اور آزاد ہوگیا وہ اب ایک خونریز لڑائی کے لیے تیار ہوکر اُٹھا لیکن وہ دونوں آدمی بھاگ گئے ان کے بھاگنے کی وجہ صرف یہ ہو سکتی تھی کہ وہ دونوں اسی علاقے کے مسلمان تھے انہیں پہنچانے جانے کا خطرہ تھا
امام نے انہیں پکارا للکارا لیکن وہ غائب ہوگئے تھے
امام نے آگے جانا مناسب نہ سمجھا اور وہیں سے واپس چلا گیا عمرو دوریش کے خیمے میں وہی تین آدمی بیٹھے تھے جو دن کے وقت بھی اس کے پاس آئے تھے انہوں نے عمرودرویش کو بتایا کہ لوگ وہی تاثر لے کر گئے ہیں جو ان پر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی انہوں نے اسے یہ بھی بتایا کہ کل رات اسے آگے ایک اور گاؤں کے قریب جانا ہے اور طور کا جلوہ ایک اور پہاڑی پر دکھانا ہے تینوں چلے گئے آشی عمرودرویش کے ساتھ اکیلی رہ گئی کیا تم اپنی کامیابی پر خوش ہو؟
آشی نے پوچھا آشی عمرودرویش نے آہ لے کر کہا میں تمہیں اس قسم کے سوالوں کا جواب دینے سے ڈرتا ہوں
کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں صلیبیوں اور سوڈانیوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنی رہوں؟
آشی نے کہا تم نے میرے اندر ایمان بیدار کیا ہے اور اب تم مجھ پر اعتبار نہیں کرتے میں اعتبار تمہارے عمل پر کروں گا عمرو درویش نے کہا تمہارے الفاظ پر نہیں مجھے بتاؤ میں کیا کروں آشی نے کہا جو کہو گے کروں گی ابھی یہی کرتی رہو جو کر رہی ہو عمرو دوریش نے کہا وقت آنے پر تمہیں بتاؤں گا کہ کیا کرنا ہے ہوسکتا ہے تمہیں یہ بتانے کا وقت ہی نہ ملے کہ مجھے کیا کرنا ہے آشی نے کہا تم نے دیکھ لیا ہے کہ تمہارے اردگرد جاسوسوں کا جال بچھا ہوا ہے جہاں تم نے ذرا سی مشکوک حرکت کی یہ جاسوس تمہیں غائب یا قتل کردیں گے اور مجھے اپنے ساتھ لے جائیں گے اگر تم مجھے پہلے ہی بتا دو کہ تمہارا ارادہ کیا ہے تو میں تمہیں بروقت خبردار کرسکوں گی مجھے تو وہ بہرحال اپنے گروہ کا فرد سمجھتے ہیں
آشی کے انداز میں کچھ ایسی سادگی اور خلوص تھا
جس سے عمرو درویش قائل ہوگیا کہ یہ لڑکی اسے دھوکہ نہیں دے گی اس نے کہا تمہارے کمالات دیکھتا ہوں تو ڈرتا ہوں کہ تم مجھے دھوکہ دوگی کمالات میں تو تم بھی کم نہیں ہو آشی نے کہا اسی لیے تو میں محسوس کر رہی ہوں کہ تم نے اپنی قوم کو دھوکہ دینے کا پختہ ارادہ کرلیا ہے میں تمہیں اپنا ارادہ بتا دیتا ہوں عمرودرویش نے کہا اور یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ تم نے اپنا وعدہ پورا نہ کیا اور مجھے فریب دیا تو تم زندہ نہیں رہو گی میں قتل ہوجانے سے نہیں ڈرتا اور قتل کرنے سے بھی نہیں ڈروں گا میں نے راستے میں تمہیں بتا دیا تھا کہ میں کسی اور مقصد کے لیے جا رہا ہوں مجھے اُمید تھی کہ یہاں اپنے علاقے میں آکر اپنے خفیہ مقصد میں آسانی سے کامیاب ہو جاؤں گا مگر یہاں آکر دیکھا ہے کہ سوڈانیوں نے مجھے جاسوسوں کے گھیرے میں لے رکھا ہے مجھے دوسرا غم یہ ہو رہا ہے کہ میں نے اپنی قوم کی پیٹھ میں خنجر اتار دیا ہے میں اپنے اصل مقصد کی خاطر اپنے آپ کو پوشیدہ رکھ رہا ہوں مگر میری کارستانی جسے تم میرا کمال کہتی ہو میری قوم کے مذہبی عقیدے کو زہر کی طرح مار رہی ہے میں نے اگر یہ سوانگ جاری رکھا تو یہ مسلمان سوڈانیوں کی غلامی کی زنجیروں میں بندھ جائیں گے اور ان کا قومی وقار ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا تم کیا کرنا چاہتے ہو؟
آشی نے پوچھا میں اسحاق کے گاؤں تک پہنچنا چاہتا ہوں عمرو درویش نے کہا تم اسحاق کو جانتی ہو نا وہی کماندار جو جنگی قیدی کے حیثیت سے قید خانے میں پڑا ہے اسے اپنے رنگ میں رنگنے کے لیے تمہیں بھی ایک رات اس کے پاس بھیجا گیا تھا
اس شخص کو تو میں ساری عمر نہیں بھول سکوں گی آشی نے کہا اس کی بھی اتنی ہی مرید ہوں جتنی تمہاری ہوں میں اس کے گھر تک پہنچنا چاہتا ہوں عمرو درویش نے کہا پھر میں اپنے گاؤں جانے کا ارادہ رکھتا ہوں میں یہ سوچ کر آیا تھا کہ یہاں آکر غائب ہو جاؤں گا اور یہاں کے لوگوں کو بتاؤں گا کہ وہ سوڈانیوں کے ہتھکنڈوں سے بچیں معلوم ہوتا ہے تم نے کوئی باقاعدہ منصوبہ نہیں بنایا تھا آشی نے کہا ہمیں جس کام کے لیے بھیجا جاتا ہے اس کا ہمیں بڑا واضح منصوبہ دیا جاتا ہے میں قید خانے میں ظالمانہ اذیتیں سہہ سہہ کر نکلا ہوں عمرو درویش نے کہا اتنی ہی عقل رہ گئی تھی کہ قید خانے سے نکلنے کا یہ طریقہ سوچ لیا تھا
یہاں آکر حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ اپنے مقصد کی کامیابی ناممکن نظر آتی ہے اب مجھے سوچنے دو آشی نے کہا اگر ہم خدا کی راہ میں ثابت قدم رہے تو تم اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاؤ گے کل ہم آگے جا رہے ہیں کوئی صورت نکل آئے گی ضرورت یہ ہے کہ ہمیں یہاں کے کسی عقل مند آدمی کے ساتھ ملاقات کا موقع مل جائے اسی علاقے میں عمرو درویش کے خیمے سے دو اڑھائی میل دور مصری تاجروں کا ایک قافلہ آیا چار آدمی اور چھ اونٹ تھے قافلے کا سردار لمبی داڑھی والا ایک بزرگ سیرت انسان تھا جس نے ایک آنکھ پر سبز رنگ کے کپڑے کا ٹکڑا لٹکا رکھا تھا جیسے اس کی یہ آنکھ خراب ہو یہ قافلہ دو راتیں پہلے سوڈان کی سرحد میں داخل ہوا تھا پہلے بتایا جا چکا ہے کہ سلطان ایوبی نے مصر سے سوڈان میں اناج سمگل کرنے کی درپردہ اجازت دے رکھی تھی دوسری اجناس بھی سمگل کی جاتی تھیں سوڈان میں ان اشیاء کی قلت تھی مصر کے یہ سمگلر دراصل سلطان ایوبی کی انٹیلی جنس کے آدمی تھے انہیں مصر کے سرحدی دستے نہیں روکتے تھے اور سوڈان کی سرحد کے پہرہ دار بھی انہیں نظر انداز کر دیتے تھے
یہ قافلہ بھی بلا روک ٹوک سرحد پار کرکے سوڈان میں داخل ہوگیا تھا لیکن رات کی تاریکی کی وجہ سے سوڈان کے سرحدی پہرہ دار یہ نہ دیکھ سکے کہ چار تاجروں اور چھ اونٹوں کا یہ قافلہ سوڈان کے کسی شہر کی طرف جانے کی بجائے اس پہاڑی علاقے کی سمت چلا گیا ہے جہاں مسلمان آباد تھے ادھر تاجروں کے کسی قافلے کو جانے کی اجازت نہیں تھی کیونکہ سوڈان کی حکومت مسلمانوں کو اناج اور دیگر اجناس سے اور تجارت سے محروم رکھنا چاہتی تھی یہ قافلہ رات بھر چلتا رہا صبح ہوئی تو اونٹوں کو ٹیلوں کے علاقے میں چھپا دیا گیا سرحد دور پیچھے رہ گئی تھی ان لوگوں نے سارا دن وہیں چھپ کر گزارا رات تاریک ہوئی تو یہ قافلہ پھر چل پڑا اور آدھی رات کے وقت پہاڑی علاقے میں داخل ہوگیا یہی قافلے کی منزل تھی سحر کے وقت قافلہ ایک گاؤں میں داخل ہوا میر کارواں ایک مکان کے سامنے رکا اور دروازے پر دستک دی کچھ دیر بعد دروازہ کھلا ایک آدمی ہاتھ میں دیا لیے باہر آیا میر کارواں نے اس کے کان میں کچھ کہا دروازہ کھولنے والے نے کہا خوش آمدید تم سب فوراً اندر چلو اونٹوں کو ہم سنبھال لیں گے
چاروں تاجر اندر چلے گئے میزبان نے اپنے گھر والوں کو اور پڑوس کے دو تین آدمیوں کو جگایا سب نے اونٹوں کو مختلف گھروں کے اونٹوں میں بانٹ کر باندھ دیا سامان اتار کر میزبان کے گھر میں رکھ دیا گیا میرکارواں نے کہا کہ سامان فوراً کھولو اور غائب کردو سب نے سامان کھولا تو اس میں اناج کی بجائے تیروں کا ذخیرہ تھا کمانیں تلواریں اور خنجر تھے اور تین چار بوریوں میں آتش گیر مادے سے بھری ہوئی ہانڈیاں تھیں یہ سامان غائب کر دیا گیا کیا میں اپنے آپ میں آجاؤں؟
میرکارواں نے پوچھا تنگ آگیا ہوں کوئی خطرہ نہیں میزبان نے کہا سب لوگ اپنے ہیں
میر کارواں نے لمبی داڑھی اتار دی اور آنکھ سے سبز کپڑا بھی اتار دیا یہ داڑھی نقلی تھی اس کی اصلی داڑھی چھوٹی تھی اور سلیقے سے تراشی ہوئی سامان ادھر ادھر چھپا کر جب آدمی مہمانوں کے پاس آئے تو ایک آدمی میرکارواں کو دیکھ کر ٹھٹھک گیا میرکارواں مسکرایا اور پوچھا پہچانا نہیں تھا مجھے؟
اوہ میرے دوست علی بن سفیان! اس آدمی نے کہا خدا کی قسم میں نے نہیں پہچانا تھا اس نے آہ بھر کر کہا ہماری خوش نصیبی ہے کہ آپ خود آگئے ہیں یہاں کے حالات ٹھیک نہیں
مجھے اطلاع مل گئی تھی کہ سوڈان کے قید خانے کے ایک سپاہی نے دو سوڈانی فوج کے دو کمانداروں کو قتل کردیا ہے علی بن سفیان نے کہا اور مجھے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ سوڈانی ہمارے جنگی قیدیوں کو ہمارے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں
لمبی داڑھی اور آنکھ پر سبز پٹی اور تاجروں کے چغے کے روپ میں سلطان صلاح الدین ایوبی کا ماہر جاسوس اور سراغرساں علی بن سفیان تھا جو یہاں کے حالات کا جائزہ لینے آیا تھا اسے جاسوسوں نے قاہرہ جا کر جو خبریں دی تھیں وہ ان کی روشنی میں باتیں کررہا تھا اور وہ جس گھر میں بیٹھا تھا وہ اس کے بھیجے ہوئے جاسوسوں کا مرکز تھا اس کا میزبان سوڈانی باشندہ تھا یہ سب لوگ سلطان ایوبی کے پرستار تھے
ان لوگوں نے علی بن سفیان کو ایک نئی بات بتائی افواہ پھیل رہی ہے کہ خدا کا کوئی ایلچی آیا ہے جو پانی کو آگ لگاتا ہے میربان نے علی بن سفیان کو بتایا اور وہ لوگوں کو اس قسم کی باتیں کہتا ہے کہ خدا نے مجھے یہ پیغام دے کر مردوں سے اُٹھایا ہے کہ مسلمانوں سے کہو کہ سوڈان کے وفادار ہوجائیں کیونکہ یہ زمین تمہاری ماں ہے اس نے عمرودرویش کے متعلق ساری باتیں سنادیں لیکن اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ عمرو درویش رات کو طور کا جلوہ دکھا کر لوگوں کے دلوں میں بے حد خطرناک شکوک پیدا کرچکا ہے
مجھے یہی ڈر تھا کہ دشمن عقیدوں پر حملہ کرے گا
علی بن سفیان نے کہا اسی لیے میں خود آیا ہوں صلیبی تخریب کاری کے ماہر ہیں اور ہماری قوم جذباتی ہے صلیبی الفاظ کا بڑا ہی دلفریب جالا تن دیتے ہیں ہمارے بھائی کھچے ہوئے اس کے حسین تاروں میں اُلجھ جاتے ہیں مجھے فوری طور پر اس فتنے کے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات ملنی چاہئیں میرا خیال ہے کہ عمرو درویش کو میں جانتا ہوں ہماری فوج کے ایک دستے کا کماندار تھا
اس علاقے میں مصری جاسوس چھاپہ مار بھی تھے
علی بن سفیان نے میزبان سے کہا کہ وہ چند ایک آدمیوں کو بلانے کا انتظام کرے تاکہ اس تخریب کاری پر جوابی حملہ کیا جاسکے سورج طلوع ہورہا تھا جاسوسوں کو بلانے کے لیے آدمی دوڑا دئیے گئے وہ گئے ہی تھے کہ ایک گھوڑا سرپٹ دوڑاتا آرہا تھا اس مکان کے سامنے آ رکا سوار اُتر کر اندر آیا تو سب احترام کے لیے اُٹھے یہ امام تھا اور یہ وہی امام تھا جس نے عمرو درویش کے خلاف آواز اُٹھائی تھی لوگ اسے دھکے دیتے چلے گئے تھے پھر رات کو اس پر دو نا معلوم آدمیوں نے قاتلانہ حملہ کیا تھا امام وہیں سے واپس آگیا تھا اسے معلوم تھا کہ مسلمانوں نے اس گاؤں اور اس گھر کو جاسوسی اور دیگر سرگرمیوں کا خفیہ مرکز بنا رکھا ہے امام اپنے گھر گیا اور گھوڑے پر سوار ہو کر اس گاؤں کو روانہ ہوگیا یہ امام اس پر یقین رکھتا تھا کہ عمرو درویش شعبدہ باز ہے وہ اس گاؤں میں رپورٹ دینے اور شعبدہ بازی کے خلاف کاروائی کرنے کے لیے مدد لینے آیا تھا آگے علی بن سفیان بیٹھا تھا
امام علی بن سفیان سے واقف نہیں تھا تعارف کرایا گیا تو امام نے تفصیل سے سنایا کہ عمرو درویش نے کیا شعبدہ دکھایا ہے اور مسلمان تماشائیوں نے اس کا کس طرح اثر قبول کیا ہے
اگر ہم نے یہ سلسلہ نہ روکا تو مسلمان اپنے عقیدوں سے منحرف ہوجائیں گے امام نے کہا یہ شخص جو اپنا نام عمرو درویش بتاتا ہے آج رات اگلے گاؤں کو جا رہا ہے اور یہی شعبدہ دکھائے گا
انہوں نے تھوڑی دیر اسے مسئلے پر غور کیا ایک طریقہ یہ سوچا گیا کہ عمرو درویش کو قتل کردیا جائے علی بن سفیان نے اتفاق نہ کیا اس نے اس قسم کا اظہار کیا کہ اسے یقین ہے کہ عمرو درویش کو قتل کیے بغیر راہ راست پر لایا جاسکے گا اور اسی کی زبان سے کہلوا لیا جائے گا کہ اس نے جو معجزے دکھائے ہیں وہ شعبدہ بازی تھی قتل کے خلاف دلائل دیتے ہوئے اس نے کہا کہ اس طرح لوگ اسے اور زیادہ برحق ماننے لگیں گے
علی بن سفیان کے ساتھ تاجروں کے بھیس میں جو تین آدمی آئے تھے وہ مصری فوج کے غیر معمولی طور پر ذہین اپنے فن کے ماہر اور تجربہ کار لڑاکا جاسوس تھے علی بن سفیان انہیں تاجروں کے بھیس میں ساتھ لایا تھا خود لمبی داڑھی اور ایک آنکھ پر سبز پٹی کا بہروپ چڑھایا گھوڑے منگوائے چند اور آدمیوں سے کہا کہ وہ گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار ہو کر اس کے پیچھے پیچھے آئیں اس نے سب کو ہدایات دیں اور امام کے ساتھ اس سمت روانہ ہوگیا جہاں عمرو درویش کو خیمہ زن ہونا تھا
عمرو درویش صبح طلوع ہوتے ہی اگلے مقام کے لیے روانہ ہوگیا تھا اس کے ساتھی اس علاقے کے لوگوں کے لباس میں اس کی حفاظت کے لیے جا رہے تھے اس کی تشہیر دور دور تک ہوگئی تھی وہ ایک اور گاؤں سے کچھ دور رُک گیا اور خیمہ گاڑ دیا تھوڑی سی دیر میں وہ اور آشی تیار ہوگئے تھے خیمے کے سامنے دو مشعلیں جلا کر گاڑ دی گئیں اس کے ساتھیوں نے گاؤں والوں کو جا بتایا کہ انہوں نے خدا کے جس ایلچی کے معجزے سنے ہیں وہ ان کے گاؤں کے باہر خیمہ زن ہے لوگ دوڑے گئے جن لوگوں نے ایک روز پہلے عمرو درویش کو دیکھا تھا وہ بھی دور کا فاصلہ طے کرکے آگئے تھے
عمرو درویش دونوں مشعلوں کے درمیان چھوٹے قالین پر بیٹھ گیا آشی اپنے اسی بھڑکیلے لباس اور طلسماتی بناؤ سنگھار سے آراستہ تھی عمرو درویش کے سامنے کپڑا الٹا پڑا تھا اس نے وہی ادا کاری شروع کر دی جو وہ پہلے کر چکا تھا ایک آدمی نے وہی سوال پوچھا جو پہلے پوچھا گیا تھا عمرو درویش نے وہی باتیں اسی انداز سے دہرا کر کہا کہ کسی کے پاس پانی ہو تو اس کپڑے پر ڈالا جائے علی بن سفیان اپنی پارٹی کے ساتھ پہنچ چکا تھا اور اس نے عمرو درویش کو پہچان لیا تھا اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ یہ شخص مصری فوج کے ایک دستے کا کماندار ہے
علی بن سفیان کو بتا دیا گیا تھا کہ عمرو درویش پانی کو آگ لگاتا ہے علی بن سفیان کو ایک شک تھا یہ تسلیم نہیں کیا سکتا تھاکہ پانی کو آگ لگ سکتی ہے اس کے دماغ میں جو شک پیدا ہوا تھا اس کے مطابق وہ چھوٹے سے مشکیزے میں پانی اپنے ساتھ لے گیا تھا جوں ہی عمرو درویش نے کہا کہ کسی کے پاس پانی ہو تو اسے کپڑے پر ڈالے تو ایک آدمی تیزی سے آگے بڑھا اس کے پاس مشکیزہ تھا
اس نے کچھ پانی کپڑے پر انڈیل دیا علی بن سفیان آگے بڑھا اور مشعل زمین سے اکھاڑ کر لوگوں سے کہا تم میں سے کوئی آدمی آگے آئے ایک آدمی جو علی بن سفیان کے ساتھ آیا تھا آگے گیا علی بن سفیان نے مشعل اس کے ہاتھ میں دے کر کہا اس کپڑے پر شعلہ رکھو وہ آدمی ہچکچایا علی بن سفیان نے لوگوں سے کہا تم میں سے کوئی بھی آدمی اس پانی کو آ گ لگا سکتا ہے
اس آدمی نے مشعل کا شعلہ کپڑے کے قریب کیا تو کپڑے سے شعلہ بھڑک کر اُٹھا ایک آدمی جو عمرو درویش کا ساتھی تھا بولا تم کوئی شعبدہ باز ہو پیچھے ہٹو ورنہ تم پر خدا کی اس برگزیدہ شخصیت کا قہر نازل ہوگا
عمرو درویش خاموشی سے اور حیرت سے علی بن سفیان کو دیکھ رہا تھا علی بن سفیان نے اپنا کمر بند کھول کر عمردرویش کے آگے رکھ دیا اور اس پر پانی انڈیل کر کہا اگر تم خدا کے ایلچی ہو تو اس کپڑے کو آگ لگاؤ اس نے مشعل عمرو درویش کے آگے کر دی مگر عمرو درویش اس کے منہ کی طرف دیکھتا رہا لوگوں نے آپس میں کھسر پھسر شروع کردی علی بن سفیان کے ساتھ آئے ہوئے آدمیوں نے عمرو درویش کے خلاف بولنا شروع کر دیا امام کی آواز سب سے زیادہ بلند تھی
عمرو درویش کے آدمیوں نے اس کی حمایت میں بولنا شروع کر دیا دونوں طرف سے بولنے والے جاسوس تھے یہ بھی جنگ تھی حق اور باطل معرکہ آراء تھے
علی بن سفیان نے لوگوں کو ادھر اُلجھا ہوا دیکھا تو عمرو درویش کے سامنے بیٹھ گیا عمرو درویش اس نے دھیمی آواز میں کہا ایمان کی کتنی قیمت ملی ہے
تم کون ہو؟
عمرو درویش نے پوچھا بہت دور سے آیا ہوں
علی بن سفیان نے کہا تمہاری شہرت سرحد پار سنی تھی اور تمہیں دیکھنے آیا ہوں عمرو درویش نے بے چینی سے ادھر ادھر دیکھا اور پوچھا میں تم پر کس طرح اعتبار کر لوں؟
میری داڑھی پر ہاتھ پھیرو علی بن سفیان نے کہا مصنوعی ہے ایمان کی جو قیمت وصول کی ہے اس سے دوگنی دوں گا یہ شعبدہ بازی ختم کرو میں تمہیں ساتھ لے جاؤں گا
میں قاتلوں کے گھیرے میں ہوں عمرو درویش نے کہا میری نہیں مانو گے تو بھی قتل ہو جاؤ گے علی بن سفیان نے کہا تم جانتے ہو کہ یہاں ہمارے بہت سے آدمی موجود ہیں تمہارے ساتھ کتنے آدمی ہیں؟
مجھے معلوم نہیں عمرو درویش نے کہا اور پوچھا تمہارا نام کیا ہے؟
بتا نہیں سکتا علی بن سفیان نے کہا میں جو پوچھتا ہوں وہ بتاؤ طور کا جلوہ کیا ہے؟
صاف صاف بتادو تمہاری حفاظت کی ذمہ داری لیتا ہوں
جب اُٹھو گے تو اپنے دائیں طرف دیکھنا عمرو درویش نے کہا اونچی پہاڑی کے آگے ایک اونچی چٹان ہے ایک بہت بڑا درخت ہے شام سے ذرا بعد وہاں اپنے آدمی چھپا دینا جس طرح پانی کو آگ لگنے کا بھید جان گئے ہو طور کا جلوہ بھی جان جاؤ گے مجھے موقعہ دو کہ یہ تماشا دکھاؤں تم وہاں سے شعلہ نہ اُٹھنے دینا میرے فرار کا اور میری حفاظت کا فرض تم پورا کرو گے بس میری شعبدہ بازی یہی ہوگی کہ یہاں سے نکل بھاگوں مجھے اسحاق کو قید خانے سے آزاد کرانا ہے اُٹھو اور اعلان کرو کہ رات کو طور کا جلوہ دکھاؤں گا
علی بن سفیان کی جگہ کوئی اور آدمی ہوتا تو وہ عمرو درویش کی یہ ادھوری سی بات نہ سمجھ سکتا علی بن سفیان اسی میدان کا کھلاڑی تھا وہ اشارے سمجھ لیتا تھا اس نے اُٹھ کر اعلان کیا خدا کا یہ برگزیدہ انسان رات کو طور کاجلوہ دکھائے گا میں نے اس کی بات سمجھ لی ہے تم سب چلے جاؤ شام کے بعد آنا
عمرو درویش کے آدمی اس کے پاس جا بیٹھے اور پوچھا کہ اس آدمی کے ساتھ کیا باتیں ہوئی ہیں عمرو درویش نے جواب دیا میں نے اسے قائل کر لیا ہے لیکن یہ ہے کون ؟
ایک آدمی نے کہا اسے ضرور پتہ چل گیا ہے کہ کپڑے میں آتش گیر سیال ہے جو جل اُٹھتا ہے
تم کیوں فکر کرتے ہو؟
عمرو درویش نے مسکرا کر کہا میں آج رات اس کے شکوک رفع کردوں گا اگر یہ رات کو آیا تو اسے ہم قتل کردیں گے دوسرے آدمی نے کہا ابھی نہیں عمرو درویش نے کہا کہیں ایسا نہ ہو کہ بنا بنایا کھیل بگڑ جائے اگر یہ رات کو میرے پاس آیا تو میں اسے خیمے میں بٹھالوں گا تم اسے باندھ کر اُٹھا لے جانا ہم اس کا پیچھا کرتے ہیں تیسرے آدمی نے کہا اسے نظر میں رکھنا ضروری ہے
دو آدمی اُٹھے اور ان لوگوں سے جا ملے جو واپس جارہے تھے ان دونوں نے علی بن سفیان کو ڈھونڈا مگر وہ ان میں نہیں تھا لوگوں سے پوچھا تو کوئی بھی نہ بتا سکا کہ وہ آدمی کہاں ہے جس کی داڑھی لمبی اور ایک آنکھ پر سبز پٹی بندھی تھی
علی بن سفیان گھوڑے پر سوار ہو کر دور نکل گیا تھا
عمرو درویش خیمے میں آشی کے ساتھ اکیلا رہ گیا تو آشی نے اس سے پوچھا یہ آدمی کون تھا؟
اس نے تمہارے ساتھ اس طرح باتیں کی تھیں جیسے وہ تم سے اور تمہارے بہروپ سے واقف ہے
سنو آشی! عمرو درویش نے کہا آج رات کچھ ہونے والا ہے میں بتا نہیں سکتا کہ کیا ہوگا اس آدمی کو میں پہچان نہیں سکا اس نے بتایا بھی نہیں کہ وہ کون ہے لیکن یہ کوئی معمولی آدمی نہیں مجھے اُمید نہیں کہ آج رات ہم فرار ہو سکیں اور یہ توقع بھی ہے کہ میں قتل ہو جاؤں گا آج رات تمہیں ثابت کرنا ہوگا کہ تمہاری رگوں میں مسلمان باپ کا خون ہے اگر تم نے دھوکہ دینے کی کوشش تو تم میرے ہاتھوں قتل ہوگی اگر تم مجھے کچھ اور بھی بتا دو کہ کیا ہوگا اور مجھے کیا کرنا ہے تو شاید میں زیادہ اچھے طریقے سے تمہاری مدد کرسکوں گی آشی نے کہا میں تمہاری خاطر قتل ہونے کے لیے تیار ہوں لیکن اس سے تمہارا مقصد پورا نہ ہوا تو میری جان رائیگاں جائے گی تمہیں یہ کرنا ہے عمرو درویش نے کہا کہ اپنے آدمیوں کی باتوں میں نہ آنا کوشش کرنا کہ ان کا ارادہ قبل از وقت معلوم کرلو اور مجھے خبردار کردو میں بتا نہیں سکتا کہ آج رات کیا ہوگا تم تیار رہنا تم کئی بار کہہ چکے ہوکہ تمہیں مجھ پر اعتبار نہیں آشی نے کہا لیکن میں نے تمہیں ایک بار بھی نہیں کہا کہ مجھے تم پر اعتبار نہیں اگر تم یہاں سے آزاد ہو گئے تو کیا تم مجھے بھی اپنے ساتھ لے جاؤ گے؟
تم واپس جانا پسند نہیں کروگی؟
نہیں آشی نے رنجیدہ مگر پرعزم لہجے میں کہا مرجانا پسند کروں گی تم شہزادی ہو آشی! عمرو درویش نے کہا میں نے یہ تو سوچا ہی نہیں تھا کہ تم میرے ساتھ چلو گی تو تمہارا مستقبل کیا ہوگا تم ان جنگلوں میں رہنا یقیناً پسند نہیں کرو گی میں تمہیں قاہرہ لے جاؤں گا وہاں تمہارے متعلق سوچنے کے لیے بڑے اچھے دماغ موجود ہیں
مجھے تم اپنے ساتھ نہیں رکھو گے؟
آشی نے پوچھا مجھے اپنی بیوی نہیں بناؤ گے؟
اگر یہ شرط ہے تو میں اسے قبول نہیں کروں گا عمرو درویش نے کہا لوگ کہیں گے کہ میں نے اپنا فرض تمہیں حاصل کرنے کے لیے ادا کیا ہے میرا گھر جہاں میری ایک بیوی موجود ہے تمہارے قابل نہیں آشی میں سپاہی ہوں میرا گھر میدان جنگ ہے مجھے اپنی بیوی کی صورت دیکھے تین سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے تم اگر اس لیے میری بیوی بننا چاہتی ہو کہ میں تمہاری پسند کا مرد ہوں تو تم مایوس ہوگی تمہاری محبت اور تمہاری دعائیں اس تیر کو نہیں روک سکیں گی جسے میرے سینے سے پار ہونا ہے تم مجھے اپنی خواہش بتادو میں ذلت اور خواری کی اس زندگی سے آزاد ہونا چاہتی ہوں آشی نے کہا مجھے تمہاری مدد اور سہارے کی ضرورت ہے بعد میں جو ہوگا دیکھا جائے گا میں تمہارے راستے میں نہیں آؤں گی اگر زندہ رہا تو تمہیں پوری مدد اور سہارا دوں گا
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
آخر وہ گیا کہاں؟یہ آواز ان جاسوسوں میں سے ایک کی تھی جو عمرو درویش کے ساتھ لگے ہوئے تھے وہ اس وقت عمرو درویش کے خیمے سے کہیں دور کھڑے علی بن سفیان کے متعلق سوچ رہے تھے اس نے کہا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عمرو درویش اس کے دل کو اپنے قبضے میں لینے کی بجائے اپنا دل اس کے قبضے میں دے چکا ہو ہمیں اب بہت ہی محتاط ہونا پڑے گا ہمیں بتایا گیا تھا کہ عمرو درویش پر بھروسہ نہ کرنا وہ لمبی داڑھی والا آدمی آگ کا بھید جان گیا ہے دوسرے نے کہا اب یہ دیکھنا ہے کہ عمرو درویش نے اس بھید پر پردہ ڈالا ہے یا اس آدمی پر آشی کس مرض کی دوا ہے؟
تیسرے نے کہا کیا وہ عمرو درویش کے دل کا حال معلوم نہیں کر سکتی؟
یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ یہ لڑکی بھی عمرو درویش کی سازش میں شریک ہو گئی ہو اگر کوئی سازش ہے اور آشی اس میں شریک ہے تو اس کے متعلق حکم صاف ہے کہ قتل کردو ایک نے کہا کیا تم اتنی قیمتی چیز کو یوں ضائع کردو گے؟
دوسرے نے کہا اسے اڑا لے جائیں گے اور کسی دولت والے کو منہ مانگے داموں یہ ہیرا دے دیں گے وہاں یہ بتائیں گے کہ آشی کو قتل کرکے دفن کر دیا ہے
تینوں نے ایک دوسرے کو ایسی نظروں سے دیکھا جیسے ان میں اتفاق رائے ہوگیا ایک نے کہا آج رات ہمیں طور کا جلوہ دکھانا ہے دیکھ لیں گے کہ عمرو درویش یا اس کی نیت کیا ہے رات کو ہم میں سے ایک کو آشی کے ساتھ رہنا ہوگا کہیں ایسا نہ ہو کہ لڑکی ہاتھ سے نکل جائے انہوں نے طے کر لیا کہ رات عمرو درویش اور آشی کے ساتھ کون ہوگا
چار آدمی کافی ہوں گے علی بن سفیان نے کہا میں عمرو درویش کے ساتھ ہوں گا تم سب نے ان تین چار آدمیوں کو پہچان لیا ہے جو عمردرویش کی حمایت میں بول رہے تھے یہ تمہارے علاقے کے وہ مسلمان ہیں جو سوڈانیوں کے لیے کام کر رہے ہیں عمرو درویش نے مجھے انہی کے متعلق بتایا ہے کہ وہ قاتلوں کے گھیرے میں ہے انہیں نظر میں رکھنا ضرورت پڑے تو ختم کردینا لیکن زندہ پکڑنا بہتر ہوگا اس وقت علی بن سفیان ایک مسجد میں بیٹھا تھا امام اسی مسجد کا تھا علی بن سفیان نے اپنا بہروپ اتار دیا تھا اس نے مسجد میں ہی رات کے لیے اپنے آدمیوں کو مختلف کام بانٹ دئیے اور کہا مجھے جو شک تھا وہ صحیح ثابت ہوا ہے مجھے اُمید ہے کہ رات کو بھی مجھے کامیابی ہوگی سورج غروب ہونے سے ذرا پہلے اس پہاڑی پر جو عمرو درویش نے علی بن سفیان کو دکھائی تھی ایک آدمی چڑھ رہا تھا وہ اس احتیاط کے ساتھ چڑھ رہا تھا کہ کوئی دیکھ نہ لے دوسری طرف سے دو آدمی اسی کی طرح جھکے جھکے اوپر جا رہے تھے اور ایک آدمی کسی اور طرف سے اوپر جا رہا تھا یہ آدمی جب اوپر چلا گیا تو رینگ کر ایک بہت بڑے درخت تک پہنچا ادھر ادھر دیکھا اور درخت پر چڑھنے لگا دو آدمی ایک بہت بڑے پتھر کے عقب میں بیٹھ گئے یہ جگہ درخت سے دور نہیں تھی چوتھا آدمی بھی اوپر چلا گیا اور ایک موزوں جگہ چھپ گیا جو آدمی درخت پر چڑھا تھا وہ اوپر ایک موٹے ٹہن پر اس طرح بیٹھ گیا کہ ٹانگیں اوپر کرکے سکیڑ لیں شاخیں اور پتے اتنے گھنے تھے کہ یہ آدمی نیچے سے نظر نہیں آسکتا تھا
وہ آہستہ سے ایک پرندے کی طرح بولا اسے پرندے کی آواز میں تین ساتھیوں کا جواب ملا سورج پہاڑ کے عقب میں اتر گیا تھا اور تین آدمی اکھٹے پہاڑی چڑھتے جا رہے تھے ان کے پاس آگ جلانے کا سامان اور مٹی کے برتن میں آتش گیر مادہ تھا اس کے پاس لمبے خنجر بھی تھے شام کا دھندلکا گہرا ہوتا جا رہا تھا ان تین آدمیوں کا انداز ایسا تھا جیسے انہیں کسی بھی طرف سے کوئی خطرہ نہیں وہ باتیں کرتے جارہے تھے ان کی باتیں ان چار آدمیوں کو سنائی دینے لگیں جو پہلے سے وہاں چھپے بیٹھے تھے وہ پوری طرح چھپ گئے وہاں سے دور نیچے عمرو درویش کا خیمہ تھا جو شام کے اندھیرے میں نظر نہیں آتا تھا خیمے کے باہر گاڑھی ہوئی دو مشعلوں کے شعلے دکھائی دے رہے تھے خدا کا ایلچی تیار ہوگیا ہے ان تین آدمیوں میں سے ایک نے ہنس کر کہا جو بعد میں اوپر آئے تھے سامان کھول کر تیار کرلو آج میرا دل کسی اور طریقے سے دھڑک رہا ہے دوسرے نے کہا اس کے اندر کوئی وہم بیٹھ گیا ہے کیا تم محسوس نہیں کر رہے کہ آج کچھ گڑبڑ ہے؟
میں بھی کچھ گڑبڑ اس آدمی کی وجہ سے محسوس کررہا ہوں جس نے ایک آنکھ پر سبز پٹی باندھ رکھی تھی ان میں سے ایک نے کہا گھبراؤ نہیں ہم طور کا جلوہ دکھا کر سب کے وہم دور کر دیں گے اگر لوگ مان گئے تو اس ایک آدمی کی کوئی پرواہ نہیں کرے گا تم اپنا کام کرو وقت تھوڑا رہ گیا ہے اندھیرا گہرا ہو رہا ہے
ایک آدمی نے مٹی کے برتن کا منہ کھول کر تیل کی طرح سیال زمین پر انڈیل دیا جگہ چونکہ پتھریلی تھی اس لیے یہ مادہ جذب نہ ہوسکا اس سے ذرا دور ہٹ کر ایک آدمی نے چھوٹا سا دیا جلا کر بڑے پتھروں کے درمیان رکھ دیا تاکہ دور سے اس کی لو نظر نہ آسکے اس کی روشنی میں تینوں آدمی نظر آرہے تھے
اب ادھر مشعل پر نظر رکھو ایک نے کہا جوں ہی مشعل اوپر نیچے حرکت کرے دیا تیل پر پھینک دو لوگوں کو طور کا جلوہ نظر آجائے گا
یہ اہتمام اس بڑے درخت کے نیچے کیا گیا تھا جس پر ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا نیچے تینوں آدمی اکٹھے کھڑے ہوگئے اس نے جھینگر کی آواز پیدا کی ایک بہت بڑے پتھر کے پیچھے سے بھی جھینگر کی آواز سنائی دی تینوں آدمی بے پرواہ ہوکے کھڑے رہے اچانک اوپر سے ایک آدمی ان تینوں میں سے ایک آدمی کے کندھوں پر گرا نیچے والا آدمی اوپر والے کے نیچے آگیا دوسرے دو بری طرح گھبرا گئے اور ادھر ادھر ہوئے ذرا سی دیر میں تین آدمی مختلف اوٹوں سے اُٹھے اور ان دونوں پر جھپٹ پڑے انہیں خنجر نکالنے کی مہلت نہ ملی ان میں سے جو آدمی اوپر والے کے نیچے پڑا تھا وہ قوی ہیکل تھا اس نے اوپر والے کو لڑھکا دیا علی بن سفیان نے کہا تھا کہ انہیں زندہ پکڑنا ہے مگر اس آدمی کو ہلاک کرنا ضروری ہوگیا جو آدمی اس کے اوپر گرا تھا اس نے خنجر نکالا اور اس قوی ہیکل آدمی کے دل میں اتار دیا دوسرے دو آدمیوں کو ان رسیوں سے باندھ دیا گیا جو اسی مقصد کے لیے ساتھ لے جائی گئی تھیں
عمرو درویش کے خیمے کے باہر لوگ جمع ہوگئے تھے ان میں علی بن سفیان بھی تھا اور اس کے ساتھ مصری فوج کے چھاپہ مار بھی خاصی تعداد میں موجود تھے جو اس علاقے میں مختلف بہروپوں میں رہتے تھے انہیں دن کے دوران اکٹھا کر لیا گیا اور بتا دیا گیا تھا کہ ان کا مشن کیا ہے ان میں چند ایک گھوڑوں پر سوار تھے ان کے پاس ہتھیار بھی تھے لوگوں میں عمرو درویش پر نظر رکھنے والے اور اس کی مدد کرنے والے سوڈانی جاسوس بھی تھے ان کی تعداد پانچ چھ سے زیادہ نہیں تھی
علی بن سفیان نے انہیں پہچان رکھا تھا وہ بھی مرنے مارنے کے لیے تیار ہو کر آئے تھے لیکن انہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ ان کے مد مقابل کتنے آدمی ہیں
آشی اپنے مخصوص طلسماتی لباس اور حلیے میں باہر نکلی اس نے اداکاری کی دونوں مشعلوں کے درمیان چھوٹا سا قالین بچھایا عمرو درویش خیمے سے نکلا اور مستانہ چال چلتا قالین پر آن کھڑا ہوا دونوں بازو پھیلا کر آسمان کی طرف کیے اور منہ اوپر کرکے کچھ بڑبڑانے لگا آشی نے اس کے آگے سجدہ کیا پھر اس کے سامنے دوزانو بیٹھ گئی
اے خدا کے مقدس ایلچی! جس کا احترام ہم سب پر فرض ہے آشی نے کہا انسانوں کا یہ گروہ طور کا وہ جلوہ دیکھنے آیا ہے جو خدائے ذوالجلال نے موسیٰ علیہ السلام کو دکھایا تھا اور جنات بھی جن سے میں ہوں طور کا جلوہ دیکھنے آئے ہوئے ہیں کیا ان سب کو شک ہے کہ میں خدا کا جو پیغام لایا ہوں وہ برحق نہیں ؟
عمرو درویش نے پوچھا اگر گستاخی معاف ہو تو مجھے بخش دینا اے خدا کے بھیجے ہوئے پیغمبر! ایک آدمی نے کہا طور کا جلوہ دکھا کر ہم گناہ گاروں کے دلوں سے سارے شکوک نکال دیں گے
علی بن سفیان نے اس آدمی کو دیکھا اسے وہ پہچانتا تھا وہ عمرو درویش کے ساتھ کا آدمی تھا
ہاں مقدس ہستی! علی بن سفیان نے آگے آکر کہا ہم شک میں ہیں ہمیں طور کا جلوہ دکھا اور اگر یہ لڑکی جنات میں سے ہے تو اسے کہہ کہ تھوڑی سی دیر کے لیے غائب ہو جائے پھر سارے شک ختم ہوجائیں گے
عمرو درویش نے درخت والی پہاڑی کی طرف اشارہ کرکے کہا ادھر دیکھو اندھیرے میں تمہیں کچھ بھی نظر نہیں آ رہا اس نے زمین سے ایک مشعل اکھاڑی اور بلند کی اس نے اونچی آواز میں کہا خدائے ذوالجلال! تیرے سادہ اور جاہل بندے شکوک کے اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں انہیں وہی جلوہ دکھا جو تو نے موسیٰ علیہ السلام کو دکھایا تھا اور جس سے فرعونوں کے نشمین کو جلایا تھا
اس نے مشعل دائیں بائیں لہرائی پھر اوپر کرکے نیچے کی مگر پہاڑی پر کوئی شعلہ نمو دار نہ ہوا عمرو درویش نے ایک بار پھر مشعل کو اوپر سے نیچے کو لہرایا مگر پہاڑی پر چھوٹا سا شرارہ بھی نہ چمکا پہاڑی پر عمرو درویش کا ایک آدمی مرا پڑا تھا اور دو رسیوں سے بندھے ہوئے تھے
وہ علی بن سفیان کے چار آدمیوں کے قبضے میں تھے انہیں وہاں سے عمرو درویش کی مشعل کی حرکت نظر آرہی تھی کسی نے کہا آج کسی کو طور کا جلوہ نظر نہیں آئے گا سب نے قہقہہ لگایا آج طور کا جلوہ نظر نہیں آئے گا علی بن سفیان نے بلند آواز سے کہا وہ عمرو درویش سے مخاطب ہوا
عمرو درویش! اگر تو آج پہاڑی سے شعلہ اُٹھا دے تو میں خدا کی بجائے تیری عبادت کروں گا
ایک آدمی نے خنجر نکالا اور علی بن سفیان کی پیٹھ کر طرف سے آگے گیا وہ دو چار قدم آگے گیا ہوگا کہ پیچھے سے ایک بازو اس کی گردن کے گرد لپٹ گیا کوئی بھی نہ دیکھ سکا کہ ایک آدمی خیمے کے عقب سے خیمے کے اندر چلا گیا ہے اس نے خیمے میں سے آشی کو پکارا آشی اندر آگئی فوراً نکلو اس آدمی نے آشی سے کہا ہمارا راز فاش ہو چکا ہے یہ آدمی جس نے کہا ہے کہ آج طور کا جلوہ نظر نہیں آئے گا یہاں کا آدمی معلوم نہیں ہوتا یہ مصر سے آیا ہے ہمارا ایک ساتھی پکڑا گیا ہے یہاں کے مسلمان جنگلی اور وحشی ہیں ہوسکتا ہے یہ عمرو درویش کو قتل کردیں ہم تو نکل جائیں گے تم ان کے ہاتھ آگئی تو تمہارے ساتھ وحشیوں جیسا سلوک کریں گے میں نہیں جاؤں گی آشی نے مسکرا کر کہا مجھے ان وحشیوں اور جنگلیوں سے کوئی خطرہ نہیں
کیا تم پاگل ہو گئی ہو ؟
میں پاگل تھی آشی نے کہا اب دماغ درست ہوگیا ہے اب وہاں جاؤں گی جہاں عمرودرویش کہے گا
باہر علی بن سفیان اور امام لوگوں سے کہہ رہے تھے کہ وہ انہیں وہاں لے جائیں گے جہاں سے طور کا جلوہ نظر آنا تھا وہاں انہیں دکھایا جائے گا کہ انہوں نے ایک رات پہلے جو جلوہ دیکھا تھا اس کی حقیقت کیا تھی
علی بن سفیان کے چھاپہ ماروں نے لوگوں میں سے تین آدمیوں کو اس طرح پکڑ لیا تھا کہ کسی کو پتہ نہ چل سکا ان کے پہلوؤں کے ساتھ خنجروں کی نوکیں لگا کر انہیں الگ اندھیرے میں لے گئے اور ان پر قابو پا لیا گیا تھا عمرو درویش ابھی وہیں کھڑا تھا
خیمے کے اندر ایک سوڈانی جاسوس آشی کو بچانے کے لیے اسے ساتھ لے جانا چاہتا تھا مگر آشی جانے سے انکار کر رہی تھی وہ آدمی حیران تھا کہ لڑکی انکار کیوں کر رہی ہے وہ بار بار یہی کہتا تھا کہ مسلمان جنگلی اور وحشی ہیں آشی نے کہا تم بھی مسلمان ہو میں بھی مسلمان ہوں میں اب اپنی قوم کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گی باہر غل غپاڑہ بڑھتا جا رہا تھا اس آدمی نے لمبا خنجر نکال لیا اور آشی کو قتل کی دھمکی دے کر ساتھ چلنے کو کہا آشی نے تلوار ایسی جگہ رکھی ہوئی تھی جہاں سے فوراً نکالی جا سکتی تھی عمرو درویش نے اسے کہہ رکھا تھا کہ ہتھیار ہر لمحہ تیار رہنے چاہئیں آشی نے لپک کر تلوار کھینچ لی اور کہا ہم دونوں میں سے کوئی بھی باہر نہیں جائے گا
ایک مرد کے لیے یہ بہت بڑا چیلنج تھا کہ اسے ایک عورت للکارے وہ جان گیا کہ یہ معاملہ گڑبڑ ہے اور اتنی قیمتی لڑکی ہاتھ سے جا رہی ہے اس کو قتل کردیا یا اڑا لے جانا ضروری ہوگیا تھا اسے توقع نہیں تھی کہ آشی تیغ زنی کی سوجھ بوجھ رکھتی ہے یا نہیں وہ خنجر سے اس پر حملہ آور ہوا آشی نے اس کے خنجر پر تلوار ماری خنجر اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا لیکن خیمے سے ٹکرا کر اس کے قریب گرا اس نے خنجر اُٹھا لیا آشی نے اس پر تلوار کا وار کیا وہ تجربہ کار تیغ زن تھا وار بچا گیا آشی نے کہا میرا استاد بھی وہی ہے جس نے تمہیں تیغ زنی سکھائی ہے
اس نے آشی کا ایک اور وار اس طرح روکا کہ ایک طرف ہوا اور آشی کے سنبھلنے تک اس کے اوپر آگیا اس نے آشی کی کلائی پکڑ لی اور بولا میں تمہیں قتل نہیں کروں گا آشی! ہوش میں آؤ آشی نے اس کی ناک پر ٹکر ماری وہ پیچھے ہٹا تو وار اس کے خنجر پر کرکے خنجر پھر گرا دیا وہ وار بچانے کے لیے پیچھے ہٹا تو خیمے نے اسے روک لیا اب تلوار کی نوک اس کی شہہ رگ پر تھی آشی نے کہا میں مسلمان باپ کی بیٹی ہوں اس نے نوک اس آدمی کی شہہ رگ میں دبائی اور بولی بیٹھ جاؤ ہاتھ پیچھے کرلو میری طاقت میرا ایمان ہے میں اب کھلونہ نہیں باہر اب یہ عالم تھا کہ ایک مشعل علی بن سفیان نے اُٹھا لی تھی اور دوسری امام نے چار پانچ چھاپہ ماروں نے عمرو درویش کو اپنے گھیرے میں لے لیا تھا اسے انہوں نے مجرموں کی حیثیت سے حراست میں نہیں لیا تھا بلکہ حفاظت کے لیے اسے اپنی پناہ میں لے لیا تھا خطرہ یہ تھا کہ جو سوڈانی جاسوس اس کے ساتھ لگے ہوئے تھے وہ اسے قتل کرسکتے تھے لیکن معلوم ہوتا تھا کہ ان میں سے اب کوئی بھی آزاد نہیں تھا
یہ ہدایت علی بن سفیان نے دی تھی کہ جوں ہی ہنگامہ شروع ہو عمرو درویش کو پناہ میں لے لیا جائے عمرو درویش نے ایک چھاپہ مار سے کہا خیمے میں لڑکی ہے اسے بھی ساتھ لے چلنا ہے وہ مسلمان ہے
خیمے میں گئے تو وہاں کچھ اور ہی منظر تھا آشی نے تلوار کی نوک پر ایک آدمی کو بٹھا رکھا تھا اس آدمی کو پکڑ لیا گیا عمرودرویش سے علی بن سفیان نے کہا مجھے یقین ہے کہ میرے آدمی اس پہاڑی پر پہنچ گئے ہیں اسی لیے وہاں سے شعلہ نہیں اُٹھا بہتر یہ ہے کہ لوگوں کو ابھی وہاں لے جاکر دکھایا جائے کہ شعلہ کیسے پیدا کیا جاتا ہے تاکہ جو اس شعبدہ بازی کے جھانسے میں آگئے ہیں ان کے ذہن صاف ہوجائیں ایک مسئلہ اور ہے جس کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے عمرو درویش نے کہا اسحاق کو قید خانے سے رہا کرانا ہے اس علاقے میں سوڈانیوں کے بہت سے جاسوس ہیں ان میں سے کوئی نہ کوئی یہاں کے حالات کی اچانک اور غیر متوقعہ تبدیلی دیکھ کر حکومت اور فوج کو اطلاع دے دے گا اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اسحاق کو قید خانے کے تہہ خانے میں ڈال کر اسے اذیت رسانی سے مار دیا جائے گا میں سوڈانی سالار کو یہ دھوکہ دے کر آیا تھا کہ میں یہاں کے مسلمانوں کے ذہن بدل دوں گا میں نے قید خانے میں اسحاق کے ساتھ بات کر لی تھی اور اسے بتا دیا تھا کہ میں سوڈانیوں کی بات مان لیتا ہوں اور اپنے علاقے میں جا کر چند دن ان کی مرضی کے مطابق کام کروں گا میرا ارادہ تھا کہ یہاں آکر لوگوں کو درپردہ بتادوں گا کہ میرا اصل مقصد کیا ہے میرا ارادہ یہ بھی تھا کہ قاہرہ بھی اطلاع بھجوا دوں گا اور اسحاق کو فرار کرانے کی بھی کوئی صورت پیدا کروں گا
یہاں آیا تو مجھے پتہ چلا کہ بہت سے سوڈانی جاسوس جو اسی علاقے کے مسلمان ہیں میرے ارد گرد پھر رہے ہیں اور میں آزاد نہیں ہوں اتفاق سے یہ لڑکی مسلمان نکلی اس نے آشی کے ماضی کے متعلق سب کو تفصیل سنائی اور کہا مجھے اُمید نہیں تھی کہ میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاؤں گا میں بہت پریشان ہوں ہمارے مسلمان بھائی اس قدر سادہ اور جذباتی ہیں کہ میری باتوں اور شعبدہ بازیوں کے قائل ہوتے گئے مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں کیا کروں میں ہر لمحہ سوڈانی جاسوسوں کی نظر میں رہتا تھا خدا نے میری نیت کی قدر کی اور آپ کو بھیج دیا
اس نے علی بن سفیان کو بتایا کہ اس نے کیا سوچا ہے علی بن سفیان نے اس کی سکیم پر غور کیا کچھ ردوبدل کی اور اسے کہا وہ دو چھاپہ ماروں اور آشی کے ساتھ اسی وقت روانہ ہوجائے اور اسحاق کو رہا کرائے علی بن سفیان نے اسے بتایا کہ وہ لوگوں کو اس پہاڑی پر لے جائے گا اور انہیں بتائے گا کہ طور کے جلوے کی حقیقت کیا تھی
عمرو درویش دو چھاپہ مار اور آشی اسی وقت گھوڑوں پر روانہ ہوگئے وہ خیمے کی پچھلی جانب سے چپکے سے نکل گئے تھے علی بن سفیان خیمے سے باہر نکلا لوگ پریشانی اور حیرت کے عالم میں باہر ٹولیوں میں کھڑے چہ مگوئیاں کر رہے تھے علی بن سفیان نے بلند آواز سے کہا اگر تم طور کے جلوے کی حقیقت دیکھنا چاہتے ہو تو ہمارے ساتھ آؤ تم سب جانتے ہو کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پیغمبری اور نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا ہے اس کے بعد خدا نے کسی کو کبھی جلوہ یا معجزہ دکھایا ہے نہ دکھائے گا اس آدمی کو تمہارے عقیدے خراب کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا تم نے غور نہیں کیا کہ یہ شخص تمہیں صرف یہ بات کہتا رہا ہے کہ سوڈان کی فوج کو تم نے اس علاقے سے ہمیشہ دور رکھا ہے اب سوڈانیوں نے تمہارے دلوں پر قبضہ کرنے کے لیے یہ حربہ استعمال کیا ہے
غیور مسلمانو! دشمن جب اس قسم کے اوچھے حربوں پر اتر آتا ہے تو یہ اس حقیقت کا ثبوت ہوتا ہے کہ وہ میدان میں تمہارے مقابلے میں آنے سے ڈرتا ہے تم حق پر ہو یہ خطہ تمہارا ہے یہاں اسلام کی حکومت ہوگی کفار تمہارے دلوں سے قوم اور مذہب کا احساس ختم کرنے کے جتن کر رہے ہیں آج تمہیں طور کے جلوے دکھائے جا رہے ہیں کل تمہیں صلیبی لڑکیوں کے جلوے دکھا کر تم میں بے حیائی پیدا کی جائے گی تمہیں انسان سے حیوان بنایا جائے گا پھر تم محسوس بھی نہیں کرو گے کہ تم عزت غیرت اور وقار سے محروم ہوگئے ہو تم کفار کے غلام ہوگے سوڈان کا بادشاہ مسلمان نہیں ہے وہ کافر ہے اسلام کا دشمن اور صلیبیوں کا دوست ہے کیا تم پسند کرو گے کہ تمہاری بیٹیاں کفار کے بیٹیوں کی طرح مردوں کے ساتھ شراب پیئیں اور بدکاری کریں؟
کیا تم پسند کرو گے کہ مسجدیں ویران ہوجائیں اور قرآن کے ورق زمین پر روندے جائیں ؟
رب کعبہ کی قسم! ہم ایسا نہیں چاہتے ایک آواز آئی اسے ہمارے سامنے لاؤ جو اپنے آپ کو خدا کا ایلچی کہتا ہے وہ بے قصور ہے علی بن سفیا ن نے کہا وہ تم میں سے ہی ہے وہ اب اصلی روپ میں تمہارے سامنے آئے گا اور تمہیں بتائے گا کہ کفار کس طرح تمہاری جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں ابھی تم میری باتیں سنو تم مسلمان ہو خدا نے تمہیں برتری اور فوقیت عطا فرمائی ہے کفار تمہیں خدا کی عطا کی ہوئی عظمت سے بیگانہ کرنا چاہتے ہیں
تم کون ہو؟
کسی نے بلند آواز سے کہا تمہاری باتوں میں دانائی ہے کیا تم ہمیں دکھا سکتے ہو کہ یہ سب کیا تھا جو ہمیں دکھایا گیا ہے؟
میں تمہیں دکھاتا ہوں علی بن سفیان نے کہا خیمے میں سے ایک برتن اُٹھایا جس میں تیل کی قسم کا آتش گیر سیال تھا اس نے یہ تیل ایک کپڑے پر ڈال کر زمین پر رکھ دیا اس پر پانی ڈالا مشعل اُٹھا کر اس کا شعلہ کپڑے کے قریب کیا تو کپڑا بھڑک کر شعلہ بن گیا اس نے سب کو بتایا کہ جس کپڑے پر پانی ڈال کر عمرو درویش آگ لگاتا تھا وہ بھی اسی تیل سے بھیگا ہوتا تھا اب میں تمہیں وہ آدمی دکھاتا ہوں جو اس کے ساتھی تھے
علی بن سفیان نے کہا اس نے کسی کو آواز دے کر کہا انہیں سامنے لے آؤ لوگوں کے ہجوم سے کچھ دور اندھیرے میں وہ آدمی پکڑے کھڑے تھے جو عمرو درویش کے سوانگ میں شامل تھے انہیں چھاپہ ماروں نے نرغے میں لے رکھا تھا اچانک شور اُٹھا گھوڑا دوڑنے کی آوازیں سنائی دیں کسی نے بلند آواز سے کہا ایک بھاگ گیا ایک جاسوس نکل گیا دوسروں کو سامنے لایا گیا مشعل اوپر کرکے ان کے چہرے سب کو دکھائے گئے یہ مسلمان ہیں کئی آوازیں اُٹھی انہیں سنگسار کردو لوگ ان کی طرف بڑھے مشعلوں کی روشنی میں تلواریں چمکیں رُک جاؤ علی بن سفیان نے درمیان میں آکر کہا خدا کا قانون اپنے ہاتھ میں نہ لو ان کی سزا تمہارے بزرگ مقرر کریں گے انہیں حراست میں لے لو اور میرے ساتھ آؤ سارے لوگ علی بن سفیان کے پیچھے چل پڑے وہ انہیں اس پہاڑی کی طرف لے جا رہا تھا جہاں اس کے چھاپہ ماروں نے ایک آدمی کو ہلاک کر دیا تھا اور دو کو کرسیوں سے باندھ رکھا تھا
اس وقت عمرو درویش آشی اور دو چھاپہ مار دور نکل گئے تھے وہ سوڈان کے دارالحکومت کی طرف جارہے تھے
دوستو! عمرو درویش نے دوڑتے گھوڑے سے کہا ہمیں بہت جلدی پہنچنا ہے آشی! اگر تم سواری سے تھک جاؤ تو میرے پیچھے بیٹھ جانا سفر بڑا ہی لمبا اور وقت بہت ہی تھوڑا ہے مجھے ڈر ہے کہ کوئی جاسوس ہم سے پہلے نہ پہنچ جائے جاسوس بھی دارالحکومت کو روانہ ہوگیا تھا یہ وہی تھا جو علی بن سفیان کے آدمیوں کی حراست سے بھاگا تھا وہ ایک وادی میں چلا گیا تھا کیونکہ اسے تعاقب کا ڈر تھا وہ وادی سے نکلا اور اس نے دارالحکومت کا رخ کرتے بہت دور کا چکر کاٹا اتنے وقت میں عمرو درویش بہت دور نکل گیا تھا جاسوس کو یہ خبر دینی تھی کہ عمرو درویش کا راز بے نقاب ہوگیا ہے اسے عمرو درویش پر شک کا اظہار بھی کرنا تھا اس کا مطلب یہ تھا کہ عمرو درویش کو ایک بار پھر قید خانے میں بند ہونا تھا عمرودرویش اس سے پہلے پہنچ کر سوڈانی سالار کو دھوکہ دینا اور اسحاق کو رہا کرانا چاہتا تھا آشی کو اس سکیم کا علم تھا اور وہ گواہ کی حیثیت سے ساتھ جارہی تھی
لوگ مشعلوں کی روشنی میں پہاڑی پر چڑھتے جارہے تھے علی بن سفیان آگے آگے تھا پہاڑی کی چوٹی پر اس کے آدمیوں نے دو جاسوسوں کو باندھ رکھا تھا انہیں مشعلیں اوپر آتی نظر آرہی تھیں ایک آدمی نے دیا اوپر کردیا تھا کہ آنے والوں کو معلوم ہوجائے کہ انہیں کہاں آنا ہے
ہمارے ساتھ چلو رسیوں سے بندھے ہوئے ایک آدمی نے کہا جو مانگو گے ملے گا ہمیں چھوڑ دو کیا تم ہر مسلمان کو ایمان فروش سمجھتے ہو؟
اسے جواب ملا دنیا کی دولت اور دوزخ کی آگ میں کوئی فرق نہیں تم اپنی قوم کو دھوکہ دے رہے ہو وہ آرہے ہیں دوسرے قیدی نے کہا وہ ہمیں سنگسار کردیں گے یہ بڑی اذیت ناک موت ہوگی کہو کیا لیتے ہو ہم دوسری طرف سے بھاگ چلتے ہیں سونا دیں گے
جوں جوں مشعلیں اوپر آرہی تھیں دونوں قیدیوں کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی ایک نے کہا تمہارے پاس تلواریں ہیں ان سے ہماری گردنیں کاٹ دو ہمیں ان لوگوں سے بچاؤ اللہ سے گناہوں کی بخشش مانگو مشعلیں ان کے سر پر آن رکیں علی بن سفیان نے لوگوں کو دور دور کھڑا کر دیا لوگ دو آدمیوں کو رسیوں میں بندھا دیکھ کر حیران ہونے لگے یہ ہیں طور کا جلوہ دکھانے والےعلی بن سفیان نے لوگوں سے کہا اور زمین پر دیکھا وہاں آتش گیر سیال گرا ہوا تھا ذرا پرے برتن پڑا تھا اس نے کہا اس برتن میں وہی تیل تھا جو میں نے کپڑے پر ڈال کر دکھایا تھا یہ تیل یہاں گرایا گیا ہے میں نے چار آدمی شام کے وقت یہاں چھپا دئیے تھے عمرودرویش کی مشعل کے اشارے پر ان دونوں نے اس دئیے سے اس تیل کو آگ لگانی تھی اور یہ طور کا جلوہ تھا جو تم لوگ نہ دیکھ سکے کیوں کہ میرے آدمیوں نے انہیں لگانے سے پہلے ہی پکڑ لیا تھا
یہ تین تھے ایک آدمی نے کہا تیسرے نے ہمارا مقابلہ کیا اس کی لاش درخت کے ساتھ پڑی ہے
علی بن سفیان نے مشعل کو شعلہ تیل پر رکھا تو تیل جل اُٹھا شعلہ اوپر تک آیا اور آہستہ آہستہ بجھنے لگا علی بن سفیان نے کہا کیا اس کے بعد کسی شک کی گنجائش رہ جاتی ہے کہ خدا سے تمہارا رشتہ توڑ کر تمہیں آتش پرست بنایا جارہا تھا اس نے ان دو آدمیوں سے جو رسیوں سے بندھے ہوئے تھے پوچھا کیا میں جھوٹ کہہ رہا ہوں؟
مجھے بخش دو ایک نے خوفزدہ آواز میں کہا تم نے جو کہا سچ کہا ہے
کیا تم اسی علاقے کے مسلمان نہیں ہو؟
ہاں! دونوں نے سر ہلائے کیا تمہیں صلیبیوں اور سوڈانی کفار نے اس کام کی تربیت نہیں دی انہوں نے ہی دی ہے اور تم اپنی قوم کو دھوکہ دینے اور اپنے مذہب کو تباہ کرنے کا انعام نہیں لیتے؟
ہاں! ایک نے جواب دیں ہم اس کا انعام لیتے ہیں
ہمیں بخش دو دوسرے نے کہا ہم اپنی قوم کے لیے جانیں قربان کردیں گے پیچھے سے ایک جوشیلے مسلمان نے اتنی تیزی سے تلوار کے دو وار کیے کہ دونوں کے سر جسموں سے جدا ہو کر گر پڑے اگر میں قاتل ہوں تو مجھے قتل کر دیا جائے تلوار چلانے والے نے تلوار لوگوں کے آگے پھینک کر کہا خدا کی قسم یہ شخص قاتل نہیں ہے
امام نے کہا یہ قتل جائز تھا ایک شور اُٹھا
عمرودرویش نے سحر کے آغاز میں گھوڑے روکے چھاپہ ماروں اور آشی سے کہا کہ ذرا آرام کرلیں گھوڑوں کو بھی آرام دینا ضروری تھا دارالحکومت کی طرف جانے والا جاسوس آدمی رات تک چلا اور ایک جگہ آرام کرنے کے لیے رُک گیا اسے معلوم نہیں تھا کہ عمرو درویش آگے آگے جا رہا ہے وہ لیٹا اور سو گیا صبح طلوع ہوتے ہی عمرو درویش نے اپنے قافلے کو گھوڑوں پر سوار کیا اور روانہ ہوگیا وہ فوجی تھا چھاپہ مار بھی سختیاں برداشت کرنے کے عادی تھے آشی لڑکی تھی جو محلات میں رہنے کی عادی تھی اسے ٹریننگ تو ملی تھی لیکن اس کی زندگی عیش وعشرت میں گزر رہی تھی
آشی! عمرو درویش نے اسے دوڑتے گھوڑے سے کہا تمہارا چہرہ اُتر گیا ہے تم شب بیداری کی بھی عادی نہیں میرے گھوڑے پر آجاؤ آشی مسکرائی اس کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں عمرو درویش نے اسے ایک بار پھر کہا کہ وہ اپنا گھوڑا چھوڑ دے آشی نے انکار میں سر ہلا دیا گھوڑے دوڑے جا رہے تھے کچھ دور آگے جا کر ایک چھاپہ مار نے عمرو درویش سے کہا لڑکی اونگھ رہی ہے گر پڑے گی عمرو درویش نے اپنا گھوڑا آشی کے قریب کیا اور باگیں کھینچ لیں آشی بیدار ہوگئی عمرو درویش نے اسے کہا کہ وہ اس کے آگے سوار ہوجائے میں سہارا نہیں لینا چاہتی آشی نے کہا سہارا دوں گی مجھے اپنا عہد پورا کرنا ہے مجھے اپنے ماں باپ کے قتل کا اور اپنی عصمت کا انتقام لینا ہے میں جاگنے کی کوشش کر رہی ہوں
گھوڑے چلے بہت آگے جا کر آشی نیند پر قابو نہ پا سکی عمرو درویش اس کے قریب تھا اگر وہ دیکھ نہ لیتا تو آشی گر پڑتی اس نے گھوڑے روک کر آشی سے کوئی بات کئے بغیر اسے کمر سے پکڑا اور اپنے گھوڑے پر اپنے آگے بٹھا لیا ایک چھاپہ مار نے آشی کے گھوڑے کی باگیں اپنی زین کے ساتھ باندھ لیں اور گھوڑے دوڑ پڑے آشی نے سر عمرودرویش کے سینے پر پھینک دیا اور گہری نیند سو گئی اس کے کھلے بال عمرو درویش کے چہرے پر پڑنے لگے ایسے ملائم اور ریشمی بالوں سے لمس سے وہ آشنا نہیں تھا مگر ان بالوں نے اس پر وہ اثر نہ کیا جو ایک جوان مرد پر ہونا چاہئے تھا اسے آشی کی باتیں یاد آنے لگیں تمہاری آغوش میں مجھے اپنے ماں باپ کی آغوش کا سرور آیا تھا
آشی نے اسے صحرا میں چند راتیں پہلے کہا تھا مجھے تو یہ بھی یاد نہیں تھا کہ میرے ماں بھی باپ تھے تم نے میرا ماضی میرے آگے رکھ دیا ہے پھر عمرودرویش کو یوں محسوس ہونے لگا جیسے ہوا کے زناٹوں سے اسے آشی کی سرگوشیاں سنائی دے رہی ہوں مجھے اپنے سینے اور اپنے بازوؤں کی پناہ میں لیے رکھو میں مسلمان کی بچی ہوں مجھے صلیبیوں کے حوالے نہ کر دینا خون خون مجھے خون نظر آرہا ہے یہ میرے باپ کا خون ہے
یہ میری ماں کا خون ہے دونوں خون مل کر بیت المقدس کی ریت میں جذب ہوگئے ہیں عمرو درویش تمہاری رگوں میں ہاشم درویش کا خون دوڑ رہا ہے تمہیں اس لہو کا خراج وصول کرنا ہے جو بیت المقدس کی ریت میں جذب ہو گیا تھا تمہیں فلسطین کی آبرو پکار رہی ہے قبلہ اول کو دل سے اتار نہ دینا ہاشم کے بیٹے چھاپہ ماروں نے دیکھا کہ عمرو درویش نے گھوڑے کو ایڑ لگا دی تھی چھاپہ ماروں کو بھی اپنے گھوڑوں کی رفتار تیز کرنی پڑی آشی کے بال اور زیادہ بکھر کر ہوا کے زناٹوں سے اس کے چہرے پر اڑنے لگے
عمرودرویش! ایک چھاپہ مار نے گھوڑا اس کے قریب کرکے کہا گھوڑے کسی چوکی سے بدلنے کی تو اُمید نہیں گھوڑے کو اس طرح نہ مارو ذرا آہستہ ذرا آہستہ
عمردرویش نے چھاپہ مار کی طرف دیکھا اور مسکرا دیا اس نے گھوڑے کی رفتار ذرا کم کردی اور بولا خدائے ذوالجلال ہمارے ساتھ ہے گھوڑے تھکیں گے نہیں
اس کی آواز سے آشی کی آنکھ کھل گئی اس نے گھبرا کر پوچھا میں کتنی دیر سوئی رہی؟
میرا گھوڑا کہاں ہے؟
تم تو سو گئی تھی عمرودرویش نے کہا لیکن میرے ایمان کی جو رگ سوئی ہوئی تھی وہ جاگ اُٹھی ہے اُٹھو اپنے گھوڑے پر سوار ہو جاؤ ہم شام تک منزل پر پہنچ جائیں گے
علی بن سفیان اسی گاؤں میں چلا گیا تھا جسے مسلمانوں نے اپنی زمین دوز سرگرمیوں کا مرکز بنا رکھا تھا اس نے اپنے چھاپہ ماروں اور جاسوسوں کے سپرد یہ کام کیا کہ تمام علاقے میں پھیل کر عمرودرویش کی شعبدہ بازیوں کی حقیقت بتادیں اس نے وہاں کے لیڈروں کو بتایا کہ وہ لوگوں کو تیار کرلیں یہ علاقہ بہرحال سوڈان کا تھا جہاں مسلمانوں کو من مانی کرنے کی اجازت نہیں تھی سوڈانی فوج حملہ کرنے کا حق رکھتی تھی مسلمانوں نے اپنے علاقے میں اپنا قانون رائج کر رکھا تھا انہوں نے جن جاسوسوں کو گرفتار کیا تھا انہیں اپنے بنائے ہوئے قید خانے میں ڈال دیا تھا انہیں سزا دینی تھی جو سوڈانی قانون کے مطابق جرم تھا ان مجرموں نے جو کچھ بھی کیا سوڈانی حکومت کی بہتری کے لیے کیا تھا علی بن سفیان نے خطرہ مول لیا تھا
اس نے چھاپہ ماروں کی دو پارٹیاں تیار کرلیں
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*