جون 2024
!حضرت محمد ﷺ ابراہیم جلیس ابن انشا ابن حبان ابو حمزہ عبدالخالق صدیقی ابوداؤد اپنے محبوب ﷺ کو پہچانئے احکامِ الصلوة احکام و مسائل احمد اشفاق احمد جمال پاشا احمد مشتاق اختر شیرانی اذکار و وظائف اردو ادب اردو کہانیاں ارشاد خان سکندر ارشد عبد الحمید اسلم انصاری اسلم راہی اسماء الحسنیٰﷻ اسماء المصطفیٰ ﷺ اصلاحی ویڈیو اظہر ادیب افتخار عارف افتخار فلک کاظمی اقبال ساجد اکاؤنٹنگ اکاؤنٹنگ اردو کورس اکاؤنٹنگ ویڈیو کورس اردو اکبر الہ آبادی الکا مشرا الومیناٹی امام ابو حنیفہ امجد اسلام امجد امۃ الحئی وفا ان پیج اردو انبیائے کرام انٹرنیٹ انجینئرنگ انفارمیشن ٹیکنالوجی انیس دہلوی اوبنٹو او ایس اور نیل بہتا رہا ایپل ایپلیکیشنز ایچ ٹی ایم ایل ایڈوب السٹریٹر ایڈوب فوٹو شاپ ایکسل ایم ایس ورڈ ایموجیز اینڈرائڈ ایوب رومانی آبرو شاہ مبارک آپ بیتی آج کی ایپ آج کی آئی ٹی ٹِپ آج کی بات آج کی تصویر آج کی ویڈیو آرٹیفیشل انٹیلیجنس آرٹیفیشل انٹیلیجنس کورس آسان ترجمہ قرآن آفتاب حسین آلوک شریواستو آؤٹ لُک آئی ٹی اردو کورس آئی ٹی مسائل کا حل باصر کاظمی باغ و بہار برین کمپیوٹر انٹرفیس بشیر الدین احمد دہلوی بشیر بدر بشیر فاروقی بلاگر بلوک چین اور کریپٹو بھارت چند کھنہ بھلے شاہ پائتھن پروٹون پروفیسر مولانا محمد یوسف خان پروگرامنگ پروین شاکر پطرس بخاری پندونصائح پوسٹ مارٹم پیر حبیب اللہ خان نقشبندی تاریخی واقعات تجربات تحقیق کے دریچے ترکی زبان سیکھیں ترمذی شریف تلوک چند محروم توحید تہذیب حافی تہنیت ٹپس و ٹرکس ثروت حسین جاوا اسکرپٹ جگر مراد آبادی جمادی الاول جمادی الثانی جہاد جیم جاذل چچا چھکن چودھری محمد علی ردولوی حاجی لق لق حالاتِ حاضرہ حج حذیفہ بن یمان حسرتؔ جے پوری حسرتؔ موہانی حسن بن صباح حسن بن صباح اور اسکی مصنوعی جنت حسن عابدی حسن نعیم حضرت ابراہیم  حضرت ابو ہریرہ حضرت ابوبکر صدیق حضرت اُم ایمن حضرت امام حسینؓ حضرت ثابت بن قیس حضرت دانیال حضرت سلیمان ؑ حضرت عثمانِ غنی حضرت عُزیر حضرت علی المرتضیٰ حضرت عمر فاروق حضرت عیسیٰ  حضرت معاویہ بن ابی سفیان حضرت موسیٰ  حضرت مہدیؓ حکیم منظور حماد حسن خان حمد و نعت حی علی الفلاح خالد بن ولید خالد عرفان خالد مبشر ختمِ نبوت خطبات الرشید خطباتِ فقیر خلاصۂ قرآن خلیفہ دوم خواب کی تعبیر خوارج داستان ایمان فروشوں کی داستانِ یارِ غار والمزار داغ دہلوی دجال درسِ حدیث درسِ قرآن ڈاکٹر عبدالحمید اطہر ندوی ڈاکٹر ماجد دیوبندی ڈاکٹر نذیر احمد ڈیزائننگ ذوالحجۃ ذوالقعدۃ راجیندر منچندا بانی راگھویندر دیویدی ربیع الاول ربیع الثانی رجب رزق کے دروازے رشید احمد صدیقی رمضان روزہ رؤف خیر زاہد شرجیل زکواۃ زید بن ثابت زینفورو ساغر خیامی سائبر سکیورٹی سائنس و ٹیکنالوجی سپلائی چین منیجمنٹ سچائی کی تلاش سراج لکھنوی سرشار صدیقی سرفراز شاہد سرور جمال سسٹم انجینئر سفرنامہ سلطان اختر سلطان محمود غزنوی سلیم احمد سلیم صدیقی سنن ابن ماجہ سنن البیہقی سنن نسائی سوال و جواب سورۃ الاسراء سورۃ الانبیاء سورۃ الکہف سورۃ الاعراف سورۃ ابراہیم سورۃ الاحزاب سورۃ الاخلاص سورۃ الاعلیٰ سورۃ الانشقاق سورۃ الانفال سورۃ الانفطار سورۃ البروج سورۃ البقرۃ سورۃ البلد سورۃ البینہ سورۃ التحریم سورۃ التغابن سورۃ التکاثر سورۃ التکویر سورۃ التین سورۃ الجاثیہ سورۃ الجمعہ سورۃ الجن سورۃ الحاقہ سورۃ الحج سورۃ الحجر سورۃ الحجرات سورۃ الحدید سورۃ الحشر سورۃ الدخان سورۃ الدہر سورۃ الذاریات سورۃ الرحمٰن سورۃ الرعد سورۃ الروم سورۃ الزخرف سورۃ الزلزال سورۃ الزمر سورۃ السجدۃ سورۃ الشعراء سورۃ الشمس سورۃ الشوریٰ سورۃ الصف سورۃ الضحیٰ سورۃ الطارق سورۃ الطلاق سورۃ الطور سورۃ العادیات سورۃ العصر سورۃ العلق سورۃ العنکبوت سورۃ الغاشیہ سورۃ الغافر سورۃ الفاتحہ سورۃ الفتح سورۃ الفجر سورۃ الفرقان سورۃ الفلق سورۃ الفیل سورۃ القارعہ سورۃ القدر سورۃ القصص سورۃ القلم سورۃ القمر سورۃ القیامہ سورۃ الکافرون سورۃ الکوثر سورۃ اللہب سورۃ اللیل سورۃ الم نشرح سورۃ الماعون سورۃ المآئدۃ سورۃ المجادلہ سورۃ المدثر سورۃ المرسلات سورۃ المزمل سورۃ المطففین سورۃ المعارج سورۃ الملک سورۃ الممتحنہ سورۃ المنافقون سورۃ المؤمنون سورۃ النازعات سورۃ الناس سورۃ النباء سورۃ النجم سورۃ النحل سورۃ النساء سورۃ النصر سورۃ النمل سورۃ النور سورۃ الواقعہ سورۃ الھمزہ سورۃ آل عمران سورۃ توبہ سورۃ سباء سورۃ ص سورۃ طٰہٰ سورۃ عبس سورۃ فاطر سورۃ فصلت سورۃ ق سورۃ قریش سورۃ لقمان سورۃ محمد سورۃ مریم سورۃ نوح سورۃ ہود سورۃ یوسف سورۃ یونس سورۃالانعام سورۃالصافات سورۃیٰس سورة الاحقاف سوشل میڈیا سی ایس ایس سی پلس پلس سید امتیاز علی تاج سیرت النبیﷺ شاہد احمد دہلوی شاہد کمال شجاع خاور شرح السنۃ شعب الایمان - بیہقی شعبان شعر و شاعری شفیق الرحمٰن شمشیر بے نیام شمیم حنفی شوال شوق بہرائچی شوکت تھانوی صادق حسین صدیقی صحابہ کرام صحت و تندرستی صحیح بُخاری صحیح مسلم صفر صلاح الدین ایوبی طارق بن زیاد طالب باغپتی طاہر چوھدری ظفر اقبال ظفرتابش ظہور نظر ظہیر کاشمیری عادل منصوری عارف شفیق عاصم واسطی عامر اشرف عبادات و معاملات عباس قمر عبد المالک عبداللہ فارانی عبید اللہ علیم عذرا پروین عرفان صدیقی عزم بہزاد عُشر عُشر کے احکام عطاء رفیع علامہ اقبال علامہ شبلی نعمانیؒ علی بابا عمر بن عبدالعزیز عمران جونانی عمرو بن العاص عنایت اللہ التمش عنبرین حسیب عنبر غالب ایاز غزہ فاتح اُندلس فاتح سندھ فاطمہ حسن فائر فاکس، فتنے فرحت عباس شاہ فرقت کاکوروی فری میسن فریدہ ساجد فلسطین فیض احمد فیض فینکس او ایس قتیل شفائی قربانی قربانی کے احکام قیامت قیوم نظر کاتب وحی کامٹیزیا ویڈیو ایڈیٹر کرشن چندر کرنل محمد خان کروم کشن لال خنداں دہلوی کلیم عاجز کنہیا لال کپور کوانٹم کمپیوٹنگ کورل ڈرا کوئز 1447 کوئز 2025 کیا آپ جانتے ہیں؟ کیف بھوپالی کیلیگرافی و خطاطی کینوا ڈیزائن کورس گوگل گیمز گینٹ چارٹس لائبریری لینکس متفرق مجاہد بن خلیل مجتبیٰ حسین محاورے اور ضرب الامثال محرم محسن اسرار محسن نقوی محشر بدایونی محمد بن قاسم محمد یونس بٹ محمدنجیب قاسمی محمود میاں نجمی مختصر تفسیر ِعتیق مخمور سعیدی مرادِ رسولِ کریم ﷺ مرزا غالبؔ مرزا فرحت اللہ بیگ مزاح و تفریح مستدرک حاکم مستنصر حسین تارڑ مسند احمد مشتاق احمد یوسفی مشکوٰۃ شریف مضمون و مکتوب معارف الحدیث معاشرت و طرزِ زندگی معتزلہ معرکہٴ حق و باطل مفتی ابولبابہ شاہ منصور مفتی رشید احمد مفتی سید مختار الدین شاہ مفتی شعیب عالم مفتی شفیق الدین الصلاح مفتی صداقت علی مفتی عتیق الرحمٰن شہید مفتی عرفان اللہ مفتی غلام مصطفیٰ رفیق مفتی مبین الرحمٰن مفتی محمد افضل مفتی محمد تقی عثمانی مفتی وسیم احمد قاسمی مقابل ہے آئینہ مکیش عالم منصور عمر منظر بھوپالی موبائل سوفٹویئر اور رپیئرنگ موضوع روایات مؤطا امام مالک مولانا اسلم شیخوپوری شہید مولانا اشرف علی تھانوی مولانا اعجاز احمد اعظمی مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مولانا جہان یعقوب صدیقی مولانا حافظ عبدالودود شاہد مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلیؔ مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ مولانا محمد ظفر اقبال مولانا محمد علی جوہر مولانا محمدراشدشفیع مولانا مصلح الدین قاسمی مولانا نعمان نعیم مومن خان مومن مہندر کمار ثانی میاں شاہد میر امن دہلوی میر تقی میر مینا کماری ناز ناصر کاظمی نثار احمد فتحی ندا فاضلی نشور واحدی نماز وٹس ایپ وزیر آغا وکاس شرما راز ونڈوز ویب سائٹ ویڈیو ٹریننگ یاجوج و ماجوج یوسف ناظم یونس تحسین ITDarasgah ITDarasgah - Pakistani Urdu Family Forum for FREE IT Education ITDarasgah - Pakistani Urdu Forum for FREE IT Education ITDarasgah.com - Pakistani Urdu Forum for IT Education & Information ITDCFED ITDCPD ITDCWSE ITDCXA


 🌷 *بسْمِ ﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم* 🌷


🏫 آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی 🏫

_*آپ کے خواب اور ان کی تعبیر مع تدبیر*_

🌼🌻❪ناخن میں سے پسو نکالنا ❫🌼🌻

💤💤━❰・ *خواب* ・❱━💤💤
کیا فرماتے ہیں معبرین کرام اس خواب کی تعبیر کے بارے میں کہ میں نے خواب میں اپنے مرحوم والد صاحب کو اس حال میں دیکھا کہ وہ اپنی انگلی کے ناخن سے میل نکال رہے تھے میل میں سے پسو بھی نکل رہے تھے میں نے والد صاحب سے پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ تو انھوں نے کہا "ناخن سے پسو نکالو۔" 

حالم : یوسف ، اسلام آباد

━❰・ *تعبیر* ・❱━
آپ کے خواب کی تعبیر میں اشارہ ہے کہ آپ نے کاروبار کا جو ذریعہ اپنایا ہے وہ خاندانی شرافت کے برعکس ہے ۔
━❰・ *تدبیر* ・❱━
اگر آپ اس قبیل کا کوئی کاروبار کررہے ہیں جس پر آپ کی ضمیر بھی آپ کو ملامت کرتی ہے اور جسے معاشرہ بھی پسندیدہ نگاہ سے نہیں دیکھتا ہے تو ایسا کاروبار چھوڑ کر دوسرا مناسب اور جائز کاروبار شروع کریں ۔ البتہ دوسرے کاروبار کے شروع کرنے اور چلنے تک یہ کاروبار  (جسے آپ کررہے ہیں) نہ چھوڑیں ۔
 ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
▓█ *مَجْلِسُ الْمعبرین* █▓
معبر:✍  
*مفتی محمد افضل  عفی عنہ* 
━━❪🕌🕋🕌❫━━


 🌹 *بسْمِ ﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم* 🌹 


عشر کے احکام : ❰・ *پوسٹ نمبر 18* ・❱

   *گزشتہ سالوں کا عشر ادا کرنے کا طریقہ*

                گزشتہ سالوں کی وہ پیداوار جس کا عشر ادا نہ کیا گیا ہو ، اس کا عشر نکالنے کا طریقہ یہ ہے کہ محتاط اندازے کے مطابق اتنی پیداوار کی موجودہ قیمت لگا کر عشر ادا کیا جائے گا۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ مثلا اگر گزشتہ تین سالوں میں پیداوار کا عشر ادا نہیں کیا ہے تو اب توبہ استغفار کرکے محتاط اندازے سے حساب لگالے کہ گزشتہ تین سالوں میں پیداوار کتنی ہوئی تھی؟ ، اس پیداوار کا دسواں یا بیسواں حصہ شریعت کے حکم کے مطابق اب ادا کرے یا موجودہ قیمت لگاکر مستحقین کو دیدے ، یاد رہے گزشتہ سالوں کی قیمت کا اعتبار نہ ہوگا بلکہ قیمت دینے کی صورت میں موجودہ قیمت کا اعتبار کیا جائے گا۔
☆۔۔۔اس سے ایک مسئلہ یہ بھی معلوم ہوا کہ عشر میں غلہ اور اناج کی جگہ قیمت دینا بھی جائز ہے۔

 📚حوالہ:
▪بدائع الصنائع 2/22
▪ماہنامہ صدائے جامعہ فاروقیہ اپریل 2018 صفحہ 43

مرتب:✍  
*مفتی عرفان اللہ درویش ھنگو عفی عنہ* 


 دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی 

کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی 

کچھ تو نازک مزاج ہیں ہم بھی 
اور یہ چوٹ بھی نئی ہے ابھی 

شور برپا ہے خانۂ دل میں 
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی 

بھری دنیا میں جی نہیں لگتا 
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی 

تو شریک سخن نہیں ہے تو کیا 
ہم سخن تیری خامشی ہے ابھی 

یاد کے بے نشاں جزیروں سے 
تیری آواز آ رہی ہے ابھی 

شہر کی بے چراغ گلیوں میں 
زندگی تجھ کو ڈھونڈتی ہے ابھی 

سو گئے لوگ اس حویلی کے 
ایک کھڑکی مگر کھلی ہے ابھی 

تم تو یارو ابھی سے اٹھ بیٹھے 
شہر میں رات جاگتی ہے ابھی 

وقت اچھا بھی آئے گا ناصرؔ 
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی 

شاعر: ناصر کاظمی


 ╏╠═🕌═[𝍖🕋𝍖 درسِ قرآن 𝍖🕋𝍖] 🌹 🌹  🌹


 سورہ المآئدۃ آیت نمبر 41

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
ترجمہ: شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے

یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ لَا یَحۡزُنۡکَ الَّذِیۡنَ یُسَارِعُوۡنَ فِی الۡکُفۡرِ مِنَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اٰمَنَّا بِاَفۡوَاہِہِمۡ وَ لَمۡ تُؤۡمِنۡ قُلُوۡبُہُمۡ ۚۛ وَ مِنَ الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا ۚۛ سَمّٰعُوۡنَ لِلۡکَذِبِ سَمّٰعُوۡنَ لِقَوۡمٍ اٰخَرِیۡنَ ۙ  لَمۡ  یَاۡتُوۡکَ ؕ یُحَرِّفُوۡنَ الۡکَلِمَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَوَاضِعِہٖ ۚ یَقُوۡلُوۡنَ اِنۡ اُوۡتِیۡتُمۡ ہٰذَا فَخُذُوۡہُ وَ اِنۡ لَّمۡ تُؤۡتَوۡہُ فَاحۡذَرُوۡا ؕ وَ مَنۡ یُّرِدِ اللّٰہُ فِتۡنَتَہٗ فَلَنۡ تَمۡلِکَ لَہٗ  مِنَ اللّٰہِ  شَیۡئًا ؕ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ لَمۡ یُرِدِ اللّٰہُ اَنۡ یُّطَہِّرَ قُلُوۡبَہُمۡ ؕ لَہُمۡ فِی الدُّنۡیَا خِزۡیٌ ۚۖ وَّ لَہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ  عَذَابٌ  عَظِیۡمٌ ﴿۴۱﴾
ترجمہ: 
اے پیغمبر ! جو لوگ کفر میں بڑی تیزی دکھا رہے ہیں وہ تمہیں غم میں مبتلا نہ کریں (٣٢) یعنی ایک تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے زبان سے تو کہہ دیا ہے کہ ہم ایمان لے آئے ہیں، مگر ان کے دل ایمان نہیں لائے، اور دوسرے وہ لوگ ہیں جنہوں نے (کھلے بندوں) یہودیت کا دین اختیار کرلیا ہے۔ یہ لوگ جھوٹی باتیں کان لگا لگا کر سننے والے ہیں (٣٣) (اور تمہاری باتیں) ان لوگوں کی خاطر سنتے ہیں جو تمہارے پاس نہیں آئے (٣٤) جو (اللہ کی کتاب کے) الفاظ کا موقع محل طے ہوجانے کے بعد بھی ان میں تحریف کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اگر تمہیں یہ حکم دیا جائے تو اس کو قبول کرلینا اور اگر یہ حکم نہ دیا جائے تو بچ کر رہنا۔ اور جس شخص کو اللہ فتنے میں ڈالنے کا ارادہ کرلے تو اسے اللہ سے بچانے کے لیے تمہارا کوئی زور ہرگز نہیں چل سکتا۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ ( ان کی نافرمانی کی وجہ سے) اللہ نے ان کے دلوں کو پاک کرنے کا ارادہ نہیں کیا۔ (٣٥) ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور انہی کے لیے آخرت میں زبردست عذاب ہے۔
تفسیر: 
32: یہاں سے آیت نمبر : ٥٠ تک کی آیتیں کچھ خاص واقعات کے پس منظر میں نازل ہوئی ہیں، جن میں کچھ یہودیوں نے اپنے کچھ جھگڑے اس امید پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لانے کا ارادہ کیا تھا کہ آپ ان کا فیصلہ ان کی خواہش کے مطابق کریں گے، ان میں سے ایک واقعہ تو یہ تھا کہ خیبر کے دو شادی شدہ یہودی مرد و عورت نے زنا کرلیا تھا، جس کی سزا خود تورات میں یہ مقرر تھی کہ ایسے مرد و عورت کو سنگسار کرکے ہلاک کیا جائے، یہ سزا موجودہ تورات میں بھی موجود ہے (دیکھئے استثناء : ٢٢، ٢٣، ٢٤) لیکن یہودیوں نے اس کو چھوڑ کر کوڑوں اور منہ کالا کرنے کی سزا مقرر کر رکھی تھی، شاید وہ یہ چاہتے تھے کہ اس سزا میں بھی کمی ہوجائے اس لئے انہوں نہ یہ سوچا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت میں بہت سے احکام تورات کے احکام کے مقابلے میں نرم ہیں، اس لئے اگر آپ سے فیصلہ کر ایا جائے تو شاید آپ کوئی نرم فیصلہ کریں اور یہ مرد و عورت سنگساری کی سزا سے بچ جائیں، اس غرض کے لئے خیبر کے یہودیوں نے مدینہ منورہ میں رہنے والے کچھ یہودیوں کو جن میں سے کچھ منافق بھی تھے، ان مجرموں کے ساتھ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بھیجا، مگر ساتھ ہی انہیں یہ تاکید کی کہ اگر آپ سنگساری کے سوا کوئی اور فیصلہ کریں تو اسے قبول کرلینا اور اگر سنگساری کا فیصلہ کریں تو قبول مت کرنا، چنانچہ یہ لوگ آپ کے پاس آئے، آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتادیا گیا تھا کہ اس کی سزا سنگساری ہے، جسے سن کر وہ بوکھلاگئے، آپ نے انہی سے پوچھا کہ تورات میں اس کی سزا کیا ہے، شروع میں انہوں نے چھپانے کی کوشش کی مگر آخر میں جب آپ نے ان کے ایک بڑے عالم ابن صوریا کو قسم دی اور حضرت عبداللہ بن سلام (رض) جو پہلے خود یہودی عالم تھے ان کا پول کھول دیا تو وہ مجبور ہوگیا اور اس نے تورات کی وہ آیت پڑھ دی جس میں زنا کی سزا سنگساری بیان کی گئی تھی، اور یہ بھی بتایا کہ تورات کا حکم تو یہی تھا مگر ہم میں سے غریب لوگ یہ جرم کرتے تو یہ سزا ان پر جاری کی جاتی تھی اور کوئی مال دار یا باعزت گھرانے کا آدمی یہ جرم کرتا تو اسے کوڑوں وغیرہ کی سزا دے دیا کرتے تھے، پھر رفتہ رفتہ سبھی کے لئے سنگساری کی سزا کو چھوڑدیا گیا، اس قسم کا ایک دوسرا واقعہ بھی پیش آیا تھا جس کی تفصیل نیچے آیت نمبر ٤٥ کی تشریح : میں آرہی ہے۔ 33: یعنی یہودیوں کے پیشوا جو جھوٹی بات تورات کی طرف منسوب کر کے بیان کردیتے ہیں، اور وہ ان کی خواہشات کے مطابق ہوتی ہے تو یہ اسے بڑے شوق سے سنتے اور اس پر یقین کرلیتے ہیں، چاہے وہ تورات کے صاف اور صریح احکام کے خلاف ہو اور یہ لوگ جانتے ہوں کہ ان کے پیشواؤں نے رشوت لے کر یہ بات بیان کی ہے۔ 34: اس سے ان یہودیوں کی طرف اشارہ ہے جو خود تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس نہیں آئے، لیکن ان یہودیوں اور منافقوں کو آپ کے پاس بھیج دیا۔ جو لوگ آئے تھے وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات اس لیے سننے آئے تھے کہ آپ کا موقف سننے کے بعد ان لوگوں کو مطلع کریں جنہوں نے ان کو بھیجا تھا۔ 35: چونکہ یہ دنیا آزمائش ہی کے لئے بنائی گئی ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ کسی ایسے شخص کو زبردستی راہ راست پر لاکر اس کے دل کو پاک نہیں کرتا جو ضد پر اڑا ہوا ہو، یہ پاکیزگی انہی کو عطا ہوتی ہے جو حق کی طلب رکھتے ہوں اور خلوص کے ساتھ اسے قبول کریں۔
 آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی


 💖💘💞 درسِ حدیث 💞💘💖


سنن ابن ماجہ حدیث نمبر: 4081

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ لَمَّا كَانَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقِيَ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى فَتَذَاكَرُوا السَّاعَةَ فَبَدَءُوا بِإِبْرَاهِيمَ فَسَأَلُوهُ عَنْهَا فَلَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ مِنْهَا عِلْمٌ ثُمَّ سَأَلُوا مُوسَى فَلَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ مِنْهَا عِلْمٌ فَرُدَّ الْحَدِيثُ إِلَى عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ فَقَالَ قَدْ عُهِدَ إِلَيَّ فِيمَا دُونَ وَجْبَتِهَا فَأَمَّا وَجْبَتُهَا فَلَا يَعْلَمُهَا إِلَّا اللَّهُ فَذَكَرَ خُرُوجَ الدَّجَّالِ قَالَ فَأَنْزِلُ فَأَقْتُلُهُ فَيَرْجِعُ النَّاسُ إِلَى بِلَادِهِمْ فَيَسْتَقْبِلُهُمْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ فَلَا يَمُرُّونَ بِمَاءٍ إِلَّا شَرِبُوهُ وَلَا بِشَيْءٍ إِلَّا أَفْسَدُوهُ فَيَجْأَرُونَ إِلَى اللَّهِ فَأَدْعُو اللَّهَ أَنْ يُمِيتَهُمْ فَتَنْتُنُ الْأَرْضُ مِنْ رِيحِهِمْ فَيَجْأَرُونَ إِلَى اللَّهِ فَأَدْعُو اللَّهَ فَيُرْسِلُ السَّمَاءَ بِالْمَاءِ فَيَحْمِلُهُمْ فَيُلْقِيهِمْ فِي الْبَحْرِ ثُمَّ تُنْسَفُ الْجِبَالُ وَتُمَدُّ الْأَرْضُ مَدَّ الْأَدِيمِ فَعُهِدَ إِلَيَّ مَتَى كَانَ ذَلِكَ كَانَتْ السَّاعَةُ مِنْ النَّاسِ كَالْحَامِلِ الَّتِي لَا يَدْرِي أَهْلُهَا مَتَى تَفْجَؤُهُمْ بِوِلَادَتِهَا قَالَ الْعَوَّامُ وَوُجِدَ تَصْدِيقُ ذَلِكَ فِي كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى حَتَّى إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ(الانبیا:96)

ترجمہ : حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نےفرمایا: جس رات رسول اللہ ﷺ کو معراج ہوئی، آپ کی ملاقات حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی علیہم السلام سے بھی ہوئی۔ وہ آپس میں قیامت کے بارے میں بات چیت کرنے لگے۔ سب سے پہلے انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پوچھا لیکن اس کے بارے میں معلومات نہیں تھیں۔ پھر انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا، انہیں بھی اس کا علم نہ تھا۔ تب حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام سے بات کرنے کو کہا گیا تو انہوں نے فرمایا: مجھے قیامت قائم ہونے سے پہلے کی باتیں بتائی گئی ہیں، باقی رہا اس کے قائم ہونے کا وقت تو وہ اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں، پھر انہوں نے دجال کے ظہور کا ذکر کیا اور فرمایا: میں نازل ہو کر اسے قتل کروں گا، تب لوگ اپنے اپنے شہروں کو لوٹ جائیں گے۔ آگے سے انہیں یاجوج ماجوج ملیں گے جو ہر ٹیلے سے تیزی کے ساتھ اُتر رہے ہوں گے۔ وہ جس پانی (چشمے وغیرہ) کے پاس سے گزریں گے پی جائیں گے۔ اور جس چیز کے پاس سے گزریں گے، اسے کراب کر دیں گے۔ تب لوگ اللہ سے فریاد کریں گے، چنانچہ میں اللہ سے دُعا کروں گا کہ ان (یاجوج ماجوج) کو تباہ  کر دے۔ تب (ساری) زمین میں ان کی سرانڈ پھیل جائے گی۔ لوگ اللہ سے فریاد کریں گے، میں بھی اللہ سے دعا کروں گا، چنانچہ اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش نازل فرمائے گا جو انہیں اٹھا کر سمندر میں پھینک دے گی۔ پھر پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر دیا جائے گا اور زمین کو اس طرح کھینچ دیا جائے گا جس طرح چمڑے کو کھینچ دیا جاتا ہے۔ مجھے (عیسیٰ علیہ السلام کو) بتایا گیا ہے کہ جب یہ واقعہ ہو گا تو قیامت اتنی قریب ہو گی جیسے وہ حاملہ جس (کا وقت بالکل قریب ہو اور اس) کے گھر والوں کو پتہ نہ ہو کہ کب اچانک ولادت ہو جائے گی’’۔
(حدیث کے ایک راوی) عوام بن حوشب ؓ نے فرمایا: اس کی تائید قرآن مجید کی اس آیت سے بھی ہوتی ہے: حَتّٰی اِذجا فُتِحَتْ یَاجُوْجُ وَ مَاجوُوُْ وَ ھُمْ مِّنْ کُلِّ حَدَبٍ یَّنْسِلُوْنَ۔ ‘‘حتی کہ جب یاجوج اور ماجوج کو کھول دیا جائے گا تو وہ ہر بلندی سے دوڑتے ہوئے آئیں گے’’۔


 🌴⚔️🛡️فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد🕌💚🌷

✍🏻تحریر:  صادق حسین صدیقی
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
نائلہ نے مراسلہ کھولا-
وہ ابھی اسے پڑھنے بھی نہ پائی تھی کہ رازرق نے بحاجت آمیز انداز میں کہا - " میری پیاری تم اسے نہ پڑھو-"
انسان کی یہ فطرت ہے کہ جس چیز سے منع کرو اس کو ضرور ہی کرے گا-
لہذا نائلہ کو جتنا رازرق منع کرتا تھا اتنا ہی اسے اس کے دیکھنے کا شوق بڑهہ رہا تھا-
نائلہ نے سنا ہوا تھا کہ رازرق ہوس پرست بدکار ہے لیکن ابھی تک اسے اس کی نسبت تصدیق نہیں ہوئی تھی-
رازرق نائلہ سے اس لئے بھی ڈرتا تھا کہ پادریوں کی جماعت اس کی پشت پر تهی -
اس زمانہ میں اندلس کے اندر پادریوں کا بڑا زور تھا -
ان مذہبی لوگوں کی ایک بڑی جماعت قائم ہو گئی تھی اور اس جماعت نے عوام کے دلوں میں کافی اثر و رسوخ پیدا کر لیا تھا -
بادشاہ کے احکام کی آن کے سامنے کوئی وقعت نہیں تهی.
رازرق سے پہلے اندلس کا بادشاہ ڈنرا تها وہ خاندان گاتهہ سے تها گاتهہ ان مشہور وحشی قوموں میں سے ایک قوم تھی جنہوں نے روما کی زبردست سلطنت کو تخت و تاراج کر دیا تھا - گاتهہ ایک ایشیائی قوم تھی جس کی دو شاخیں ہو گئی تھی - ایک اسٹروگاتهہ(مشرقی گاتهہ)یہ ابطالیہ پر مسلط ہو گئی اور دوسری وزی گاتهہ(مغربی گاتهہ) جو اندلس پر حکمران ہو گئی تھی -
شاہ ڈنرا وزی گاتهہ سے تها اس نے جب دیکھا کہ ملک میں پادریوں کا اقتدار روز افزوں ترقی پر ہے تو وہ ان کی بیخ کنی کے در پہ ہو گیا - "
اس میں شک نہیں کہ ڈنرا رحم دل تھا اور رعایا کے ہر فرد کو خواہ وہ کسی قسم اور کسی طبقہ کا کیوں نہ ہو ایک نظر سے دیکھتا تھا -
اس کی یہی بات پادریوں کو ناگوار گزرتی تھی -
اندلس میں یہودی اور عیسائی دو قومیں آباد تهیں -
پادری یہودیوں کو مقہور و ذلیل کرتے تھے، ڈنرا کو ان کی یہ بات بری معلوم ہوتی تھی اور وہ مظلوم یہودیوں کی طرف داری کر جاتا تھا.
پادریوں نے اس بادشاہ پر یہود نوازی کا الزام لگا کر اسے تخت سے معزول کر دیا تھا اور رازرق کو پادریوں کی بدولت تخت نصیب ہوا تھا -
اس کی ملکہ نے پادریوں کی جماعت کو اپنے ساتھ کر لیا تھا -
یہی وجہ تھی کہ رازرق اس سے ڈرتا تھا - کیوں اسے خوف تھا کہ کہیں نائلہ اسے بھی ڈنرا کی طرح پادریوں سے معزول نہ کروا دے-
نائلہ نے ضد کے لہجے میں کہا میں اسے ضرور پڑھوں گی-
رازرق :لیکن تم اسے پڑھ کر رنجیدہ ہو گی -
نائلہ :یہ تو میں جانتی ہوں-
رازرق :مگر عقل مندی نہیں ہے کہ انسان جان بوجھ کر غم و فکر اٹھائے-
نائلہ :لیکن مجبوری! !!!
رازرق :تم کو کوئی مجبور نہیں کر رہا.
نائلہ :یہ مراسلہ کس کا ہے-
رازرق :کونٹ جولین کا-
نائلہ :کیا لکھا ہے اس میں؟
رازرق :اگر یہ بات بتانے کی ہوتی تو منع کیوں کرتا پڑھنے سے .
نائلہ :سنو جب سے فلورنڈا یہاں سے گئی ہے اسی وقت سے میں مضطرب اور بےقرار رہنے لگی ہوں-
رازرق :شاید اس لیے کہ وہ تمہیں یاد آتی ہے.
نائلہ :وہ حسین نیک دل لڑکی ہے یاد کرنے کے قابل لیکن میری بےچینی تو کسی اور ہی سبب ہے.
کس سبب ؟رازرق نے پوچھا۔۔
نائلہ :مجھے خوف ہے کہ شاید تم نے اسے پریشان کرنا چاہا تھا وہ عصمت مآب تهی - "اس لیے چلی گئی ہے.
رازرق اس بات کا کیا جواب دیتا اس کا سیہ اعمال نامہ تو اس وقت نائلہ کے ہاتھ میں تھا اگر وہ جھوٹ بولتا تو وہ پڑھ کر سب معلوم کر لیتی اور اگر سچ بولتا تو کیسے اپنی زبان سے اپنی بد اعمالی کا اقرار کرتا.
نائلہ نے کہا - " تم چپ ہو گئے کیا میرا اندیشہ صحیح تھا؟ "
رازرق :اس ذکر کو جانے دو بیگم-
زرا سنو اگر تم یہ مراسلہ مجھے واپس کر دو تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ عجیب گنبد نہیں کهولوں گا - "
نائلہ بے ساختہ ہنس پڑی اور اس نے کہا - "اگر آپ اسے کهولیں تو میرا اس میں کیا نقصان ہے اور اگر نہ بھی کهولیں تو مجھے اس کا کیا فائدہ ہوگا؟ "
رازرق :لیکن اس کے پڑھنے سے بھی تمہیں کوئی فائدہ نہیں ہے - "
نائلہ :جس قدر تم اس کے نہ پڑھنے پر اصرار کرتے ہو اس قدر میرے اندر اشتیاق پیدا ہو رہا ہے اگر تم اس وقت جب کہ میں نے اسے دیکھا تھا اور دریافت کیا تھا کہ یہ کس کا مراسلہ ہے صاف صاف بتا دیتے تو میں اس کے پڑهتے کا خیال تک نہ کرتی-
رازرق :مجھ سے غلطی ہو گئی ہے میں اس کی معافی چاہتا ہوں-
نائلہ :اب غلطی کا خمیازہ بگهتو -
یہ کہہ کر اس نے اسے پڑهنا شروع کیا. رازرق بے حد بے چین پریشان اور مضطرب ہو گیا - "
رازرق نے پهر کہا اسے مت پڑہو بیگم-"
نائلہ نے غصہ میں آ کر کہا دیکھو تم خاموش رہو میں اسے ضرور پڑھوں گی - "
اب رازرق کو مزید کچھ کہنے کی جرات نہ ہو سکی.
وہ نائلہ کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا اور نائلہ اسے پڑھنے لگی وہ پڑھتی جاتی اور اس کا چہرہ غیظ و غضب سے سرخ ہوتا جا رہا تھا نیز آنکھوں سے چنگاریاں سی برس رہی تھی.
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
جوں جوں وہ غضب ناک ہوتی جا رہی تھی توں توں رازرق کے چہرے کا رنگ فق ہوتا جا رہا تھا - "
بالآخر نائلہ نے اسے ختم کر لیا اب اس کی ہوش ربا نگاہوں سے شعلے نکلنے لگے تھے.
اس نے غصہ کو ضبط کرتے ہوئے کنیزوں کی طرف اشارہ کیا وہاں سے چلے جانے کے لیے.
تمام پرستاریں نہایت سکوت کے ساتھ سر تسلیم خم کر کے وہاں سے چلی گئیں.
جب فقط نائلہ اور رازرق رہ گئے تب نائلہ نے قدرے درشت لہجے میں کہا کیا یہ تمہارا سیہ اعمال نامہ نہیں ہے؟ "
رازرق کا خوف دور ہو چکا تھا وہ بڑا چالباز تھا عمر کی پختگی نے اسے بہت حد تک عیار و مکار بنا دیا تھا وہ خوب جانتا تھا کہ اس وقت نائلہ کا مقابلہ کیسے کرنا ہے جو کم سن اور بھولی سی ہے.
رازرق :میں اسی لیے کہتا تھا کہ اسے نہ پڑھو جولین بڑا ہوشیار آدمی ہے-
اس نے ایسی چال چلی ہے کہ جس سے عوام کی نظروں میں میری وقعت کم ہو جائے-"
نائلہ :مگر کیا اس سے اس کے خاندان کی بدنامی نہیں ہے؟
رازرق :ضرور ہو گی مگر اسی کا مقصد اسی طرح پورا ہو گا - "
نائلہ :اس کا کیا مقصد ہے؟ "
رازرق :کیا تم بھول گئی ہو کہ اس کے عقد میں معزول بادشاہ کی بیٹی ہے اور وہ خواہش مند ہے کہ مجھے معزول کرا کے اپنے خسر کو تخت نشین کرا دے.
بیگم صاحبہ یہ ایسی گہری چال ہے کہ جس کے سمجھنے کے لیے بڑے غور و فکر کی ضرورت ہے-
نائلہ :مگر میرے خیال میں کوئی شخص کسی قیمت پر بھی اپنی بیٹی کے متعلق اس وقت تک ایسے الفاظ نہیں لکھ سکتا جب تک کوئی واقعہ نہ ہوا ہو-"
رازرق :کونٹ جولین خار کھائے ہوئے اور وہ جو کچھ بھی کرے تھوڑا ہے-
نائلہ سوچنے لگی-
رازرق :سمجھ گیا کہ اس کافسوں کار گر ثابت ہونے لگا ہے لہذا اس نے پھر عاجزی کے لہجہ میں کہا - "پیاری مجھ پر اعتماد کرو! !میں سچ کہہ رہا ہوں - "
اسی لیے تو میں اس کے نہ پڑھنے پر مجبور کر رہا تھا کہ کہیں اسے صحیح نہ سمجھ لو! !کیوں کہ عورتوں میں رشک و حسد کا مادہ زیادہ ہے-
نائلہ :مگر میں تو فلورنڈا سے دریافت کئے بنا اس کے متعلق کوئی رائے قائم نہیں کر سکتی-
رازرق :بالکل ٹھیک کہا تم نے تم اس سے پوچھو اور اپنا اطمینان کر لو-"
سوچو تو صحیح ایسا ہوتا تو میں فلورنڈا کو جانے دیتا؟ "
نائلہ :میں کچھ نہیں جانتی میں تصدیق ضرور کروں گی! !
رازرق :میں بھی یہی کہتا ہوں کہ ضرور تصدیق کرو لیکن خفیہ خفیہ کیونکہ اعلانیہ تصدیق کرنے میں میری رسوائی کا خدشہ ہے-"
نائلہ :میں سب سمجھتی ہوں - "
رازرق :تم نے اس بات پر غور کیا کہ وہ مسلمانوں کو میرے ملک پر چڑھا لایا ہے اس نے ضرور ان سے اپنے یا ڈنرا کے لیے کوئی معاہدہ کر لیا ہو گا - "
نائلہ :یہ ممکن ہے!
رازرق :مگر میں ان کو شکست دے کر خود جولین پر حملہ کر دوں گا-
نائلہ :اس کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتی-
رازرق :مگر ایک وعدہ کر لو! !
نائلہ :کیا؟
رازرق: جب تک لڑائی اختتام کو نہیں پہنچتی اس وقت تک تم خاموش رہو گی-
نائلہ: ایک شرط پر-
رازرق: وہ کیا؟
نائلہ:اقرار کرو کہ تم بھی کسی لڑکی کو نہیں ستاو گے - "
رازرق:اقرار کرتا ہوں!
نائلہ: میں بھی اقرار کرتی ہوں.
رازرق:شکر ہے معاملہ بآسانی طے ہو گیا - "
نائلہ:ابهی شکر کا موقع نہیں ہے -
رازرق: کیوں؟
نائلہ:اس لیے کہ میں تحقیقات کروں گی اور اگر یہ سچ ثابت ہوا تو____؟"
رازرق اس کے چہرے کی جانب دیکھ رہا تھا _
اسے غصہ آ رہا تھا -وہ فقرہ پورا نہ کر سکی 
رازرق:میں اس کے لیے تیار ہوں.
نائلہ: بس اس بات پر عارضی صلح سمجھو!
یہ کہتے ہی وہ لوٹی اور چل پڑی _
رازرق کو اسے روک کر کچھ اور کہنے کی جرات نہ ہو سکی.
وہ اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا-
جب وہ کمرے سے باہر نکل گئی تو اس نے ٹھنڈاسانس بھرا اور کوچ پر جا پڑا
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جاری ہے۔۔۔


 کراچی سے دجالی تنظیم 'الیومیناٹی' کا ایک خفیہ رکن پکڑا گیا ہے جو اپنی بیوی اور بیٹیوں کی ننگی وڈیوز بناکر اپنے آقاؤں کو بھیجتا تھا اور بدلے میں اسے ڈالرز ملتے تھے۔ شیطان کے اس پجاری کا نام 'مرزا طاہر عباس' ہے۔ 


پاکستان میں کئی دہائیوں بعد الیومیناٹی رکن پکڑے جانے پر خفیہ ادارے حرکت میں آگئے ہیں اور اب اس تنظیم کے دیگر ارکان کو پکڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ 

عین ممکن ہے کراچی میں اس تنظیم کا کوئی خفیہ دفتر بھی موجود ہو جہاں سے یہ دھندا چل رہا ہو بلکہ کراچی خے علاوہ ملک کے دیگر شہروں میں بھی انکے خفیہ دفاتر ہوسکتے ہیں۔ بہت جلد دیگر انکے دیگر کارندے بھی پکڑے جائیں گے۔ ان شاءاللہ انکا سارا راز فاش کروں گا 

مرزا طاہر عباس کی بیوی نے بتایا کہ یہ درندہ پچھلے 10 سال سے الیومیناٹی تنظیم کا رکن تھا جہاں سے شیطان کے پجارے اسے مختلف ٹاسک دیتے تھے جن کے بدلے اسے ڈالرز میں پیسے ملتے تھے۔ 

ٹاسک میں ایک یہ تھا کہ اپنی بیوی سے ہم بستری کرو اور مباشرت کے دورا بیوی کو خوب مارو پیٹو اسکے بال پکڑو، اسے گھسیٹو، مطلب وحشی بن کر اس سے مباشرت کرو اور اس کی وڈیو بناکر ہمیں بھیجو۔ 

بیوی بتاتی ہے کہ وہ پچھلے 10 سال سے میرے ساتھ ایسا کرتا رہا ہے اور اب تک میری سینکڑوں وڈیوز بناکر انہیں بھیج چکا ہے۔

لیکن اس دفعہ ملزم کو نیا حکم ملا کہ اب اپنی بیٹیوں کی بھی ننگی وڈیوز بناکر بھیجو۔۔۔ جس کے بعد ملعون مرزا طاہر نے اپنی بیٹیوں کے باتھ روم میں خفیہ کیمرے لگائے اور انکی وڈیوز بناکر اپنے آقاوں کو بھیجیں۔۔۔

لیکن جب یہ بات بیوی کو پتا چلی کہ اب اسکے ساتھ ساتھ اسکی بیٹیوں کی بھی وڈیوز بناکر بھیج رہا ہے تو اس نے احتجاج کیا مگر مرزا طاہر نے بیوی کو خاموش رہنے کا کہا ورنہ جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں۔

بیوی دھمکیوں پر پریشان ہوگئی اور اس نے اپنی ایک بہن کو کہا کہ تم پولیس سے رابطہ کرو۔ 

یہ بیوی صاحبہ بھی پچھلے 10 سال تک اپنی جنسی تشدد اور ہم بستری کی وڈیوز بنواتی رہیں، تب اسکی غیرت مری ہوئی تھی۔۔۔ لیکن یہ غیرت اس وقت جاگی جب درندے نے بیٹیوں کی وڈیوز بنانا شروع کیں۔

خیر ملزم اب پکڑا جاچکا ہے۔ مزید الیومیناٹی کارندے بھی جلد پکڑے جائیں گے۔ لگتا ہے یہ تنظیم پھر سے پاکستان میں اپنے پنجے گاڑ رہی ہے۔ اس تنظیم کو ننگا کرنے کا پھر سے وقت ہوا چاہتا ہے۔ واللہ شیطان کے پجاریوں کا سایہ بھی ہم اس وطن پر نہیں پڑنے دیں گے۔

اطلاع کے مطابق ملزم انکا ممبر انٹرنیٹ پر بنا تھا، نیٹ پر ہی کسی گروپ میں اسے ممبرشپ کا کہا گیا، واٹس ایپ پر رابطے ہوئے اور اسے باقائدہ شیطانی ٹاسک ملنا شروع ہوگئے۔ 

یاد رہے الیومیناٹی تنظیم کسی مذھب کو نہیں مانتی بلکہ شیطان کو اپنا خدا مانتی ہے اور اعلانیہ شیطان کی پوجا بھی کرتی ہے، شیطان کو سجدے کیے جاتے ہیں، شیطان پر انسانوں بالخصوص معصوم بچوں اور بچیوں کا خون چڑھایا جاتا ہے۔۔۔ 

یعنی پہلے معصوم بچوں کو شیطان کے مجسمے کے سامنے قتل کیا جاتا ہے پھر انکا خون شیطان پر چڑھایا جاتا ہے اور کچھ خون الیومیناٹی کے نئے پرانے ممبران کو پلایا جاتا ہے۔ شیطان کو خوش کرنے کیلیے سیکس اور قتل کرنا انکے ہاں ایک عام سی بات ہے۔

یہ لوگ ہر وہ کام کرتے ہیں جس سے شیطان خوش ہو۔ انکے ٹاسک اتنے گھٹیا ہوتے ہیں کہ میں یہاں لکھ نہیں سکتا۔۔۔ ایک چھوٹی مثال دیتا ہوں یہ کسی مسلمان کو ممبر بناتے ہیں تو سب سے پہلے اسکی مسلمانیت نکالتے ہیں۔ 

مثال کے طور پر اسے کہتے ہیں کہ تم اپنی مذھبی کتاب قرآن پاک کو پاوں سے باندھ کر 'نعوذباللہ' باتھ روم میں جاو، اس پر نعوذباللہ پیشاب یا پاخانہ لگاو۔۔۔ استغفراللہ۔۔۔ اور پھر اس عمل کی وڈیو بناکر ہمیں بھیجو۔۔۔ 

ایسے گھٹیا ترین عمل وہی کرسکتا ہے جو مکمل طور پر شیطان کو اپنا خدا تسلیم کرلے یا جو اپنی روح مکمل طور پر شیطان کو بیچ دے۔ 

بدلے میں ایسے ممبر پر الیومیناٹی تنظیم ڈالروں کی بارش کرتی ہے لیکن ان اعمال کی وجہ سے انکی آخرت برباد ہوجاتی ہے۔

ایک اور مثال۔۔۔ وہ کہتے ہیں گھر سے باہر جاو،  گلی میں کھڑے کسی ننہے بچے کو پکڑو، اسے قتل کرو، اسکا سر کاٹ کر اسکی وڈیو بناکر ہمیں بھیجو۔۔۔۔

یا کہتے ہیں کہ اپنی ننہی بیٹی کے ساتھ زنا کرو۔۔۔۔ 

اپنی بہن یا ماں کی ننگی وڈیو بناکر بھیجو۔۔۔

 اپنی بھانجی بھتیجی کو زنا کرکے وحشیوں کی طرھ قتل کرو اسکی وڈیو بناکر ہمیں بھیجو۔

اللہ کی پناہ ۔۔۔۔ 

الیومیناٹی فری مینسری ایک ایسا فتنہ ہے جس کے ممبران کو جتنا جلد جہنم واصل کیا جائے اتنا اچھا ہوگا۔ 

 اس طرح کے وحشیانہ، ظالمانہ اور قاتلانہ ٹاسک دینے کا مقصد ممبران کے اندر سے انسانیت، رحمدی، مذھبی خیالات وغیرہ سب کچھ نکال کر اسکی روح خریدنا ہوتا ہے۔ 

جب ایک ممبر اپنی روح بیچ کر مکمل طور پر شیطان بن جاتا ہے تو پھر الیومیناٹی تنظیم اسے ترقی دیکر سینئر ممبر بناتی ہے۔۔۔ 

الیومیناٹی کے کل 13 طبقے ہیں۔۔۔ عام ممبر سب سے نچلے درجے پر ہوتا ہے جبکہ سب سے اوپر 13 نمبر پر دنیا بھر میں پھیلے 13 صیہونی خاندان ہیں جو پوری دنیا کی سیاست معیشت، فلم انڈسٹری الغرض ہر چیز کو اپنے کنٹرول میں رکھتے ہیں اور یہی 13 خاندان اسرائیل کے خالق تھے۔

تحریر : یاسررسول

 


مائیکروسافٹ پی سی مینیجر کے ساتھ، صارفین آسانی سے کمپیوٹر کی بنیادی دیکھ بھال انجام دے سکتے ہیں اور صرف ایک کلک سے اپنے آلات کی رفتار بڑھا سکتے ہیں۔ یہ ایپ بہت سی خصوصیات پیش کرتی ہے، بشمول ڈسک کلین اپ، اسٹارٹ اپ ایپ مینجمنٹ، وائرس اسکیننگ، ونڈوز اپ ڈیٹ چیک، عمل کی نگرانی، اور اسٹوریج مینجمنٹ۔


مائیکروسافٹ پی سی مینیجر کی اہم خصوصیات:

اسٹوریج مینیجر- کبھی کبھار استعمال ہونے والی ایپس کو آسانی سے اَن انسٹال کریں، بڑی فائلوں کا نظم کریں، صفائی کریں، اور عارضی فائلوں کو خود بخود صاف کرنے کے لیے اسٹوریج سینس سیٹ کریں۔
ہیلتھ چیک اپ فیچر -ممکنہ مسائل، وائرسز، اور اسٹارٹ اپ پروگرام کو آف کرنے کے لیے اسکین کرتا ہے۔ یہ آپ کو ہٹانے کے لیے غیر ضروری اشیاء کی شناخت کرنے میں مدد کرتا ہے، آپ کے سسٹم کی کارکردگی کو بہتر بناتا ہے۔
پاپ اپ مینجمنٹ - پاپ اپ ونڈوز کو ایپس میں ظاہر ہونے سے روکیں۔
ونڈوز اپ ڈیٹ - کسی بھی زیر التواء اپ ڈیٹس کے لیے آپ کے سسٹم کو اسکین کرتا ہے۔
اسٹارٹ اپ ایپس - اپنے پی سی پر اسٹارٹ اپ ایپس کو فعال یا غیر فعال کریں، جس سے آپ اپنے سسٹم کی اسٹارٹ اپ کارکردگی کو بہتر بناسکتے ہیں۔
براؤزر پروٹیکشن - یقین رکھیں کہ نقصان دہ پروگرام آپ کے ڈیفالٹ براؤزر کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ آپ کو اپنا ڈیفالٹ براؤزر تبدیل کرنے کے قابل بھی بناتا ہے۔
پروسیس مینجمنٹ - آپ کو کسی بھی فعال عمل کو آسانی سے ختم کرنے کی اجازت دیتا ہے، نظام کی بہترین کارکردگی اور وسائل کے استعمال کو یقینی بناتا ہے۔
اینٹی وائرس تحفظ - ونڈوز سیکیورٹی کے ساتھ مکمل طور پر مربوط ہے۔ کسی بھی وقت اپنے کمپیوٹر کی حفاظت کریں۔


Adguard تیسری پارٹی کی آن لائن سروس کے طور پر کام کرتا ہے، جو مائیکروسافٹ اسٹور سے براہ راست appx، appxbundle، اور msixbundle فائلوں کو ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے صارف دوست طریقہ پیش کرتا ہے۔ ایپ کے مختلف ورژن اور اس کے انحصار پیکجز دونوں کے لیے آفیشل ڈاؤن لوڈ لنکس تیار کیے جائیں گے۔

مائیکروسافٹ پی سی مینیجر آف لائن انسٹالر کو کیسے ڈاؤن لوڈ کریں (APPX/MSIX)

1. ابتدائی طور پر، آپ کو Microsoft اسٹور میں ایپ کا URL تلاش کرنا چاہیے۔ اپنے براؤزر کے ذریعے مائیکروسافٹ اسٹور تک رسائی حاصل کریں اور "مائیکروسافٹ پی سی مینیجر" تلاش کریں۔ ایک بار تلاش کرنے کے بعد، ایپ URL کو کاپی کریں، جس میں پروڈکٹ ID شامل ہے، یا تو ایڈریس بار سے یا نیچے فراہم کردہ لنک سے۔

https://apps.microsoft.com/detail/9PM860492SZD

2. اب ایپ کے یو آر ایل کو مخصوص جگہ میں چسپاں کریں، پھر براہ راست ڈاؤن لوڈ لنک بنانے کے لیے چیک مارک بٹن پر کلک کریں۔

3 . ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے، متعلقہ لنک پر دائیں کلک کریں اور اپنے براؤزر کے مینو سے "لنک کو بطور محفوظ کریں..." کو منتخب کریں۔ کبھی کبھار، Microsoft Edge ڈاؤن لوڈ کو غیر محفوظ قرار دے سکتا ہے۔ ایسی صورتوں میں، ڈاؤن لوڈ کو کامیابی سے مکمل کرنے کے لیے متبادل براؤزر جیسے گوگل کروم یا فائر فاکس کے استعمال پر غور کریں۔

مائیکروسافٹ پی سی مینیجر ایک مکمل طور پر مفت ٹول ہے جسے خاص طور پر ونڈوز 10 (ورژن 1809 یا جدید تر) اور ونڈوز 11 پر استعمال کرنے کے لیے آپٹمائز کیا گیا ہے۔


 صبیح طارق ہانگ کانگ میں بازار سے کچھ سامان خرید کر گھر واپس جارہے تھے ۔۔۔۔


راستے میں ایک جگہ دیوار پر لکھا ہوا تھا ۔۔۔۔

读者是个驴

صبیح کو بہت غصہ آیا ۔۔۔

صبیح نے پہلا لکھا ہوا مٹا کر یہ لکھا کہ۔۔۔۔

作者是个驴
😆😁🤓🫣😎🤪😉


 🌷 *بسْمِ ﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم* 🌷


🏫 آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی 🏫

_*آپ کے شرعی مسائل اور ان کا حل*_

🌼❪*حروف تہجی کے پرنٹ والے کپڑے پہننا*❫🌼

🕌━❰・ *سوال* ・❱━🕌
کیا اس طریقے کے کپڑے پہننا صحیح ہے، جن پر اردو رسم الخط یا حروف تہجی بنے ہوئے ہوں؟

🕋━❰・ *الجواب* ・❱━🕋
حروفِ تہجی  قابلِ احترام ہیں، اس لیے ان حروف کو ایسی جگہ لکھنا جس سے اس کی بے ادبی کا اندیشہ ہو درست نہیں ہے، یہاں تک کہ فقہاء کرام نے ذکر کیا ہے کہ اگر تیر کے نشانہ کی جگہ (ہدف) پر ابوجہل، فرعون وغیرہ کا نام لکھا تو بھی اس پر تیر کا نشانہ لینا مکروہ ہے، اس لیے ان حروف کی حرمت ہے۔

لہذا پہننے کے کپڑوں پر اگر حروف تہجی پرنٹ ہوں تو  اس میں بعض صورتوں میں تو  بے  ادبی کا صدور   اور بعض میں اس کا اندیشہ  موجود ہے، مثلاً قمیص وغیرہ پر اگر حروف پرنٹ ہوں تو اگرچہ ظاہر میں بے ادبی نہیں ہے، لیکن اندیشہ ہے کہ دھلنے میں یا بعد میں پرانے ہونے کی صورت میں پھینکنے پر بے ادبی ہوگی، اور اگر شلوار یا پائجامہ پر یہ حروف ہوں تو اس میں بے ادبی ہونا ظاہر ہے، اس لیے ایسے کپڑوں کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہیے۔

البتہ اگر کپڑے پر کتابت کا مقصد  انہیں فریم وغیرہ کرا کر (جیسا کہ آیۃ الکرسی وغیرہ لکھی جاتی ہے) اونچی جگہ لگانا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

 *فتاوی ہندیہ میں ہے*:

"إذا كتب اسمَ *فرعون* أو كتب *أبو جهل* على غرض، يكره أن يرموه إليه؛ لأن لتلك الحروف حرمةً، كذا في السراجية". (٥/ ٣٢٣، ط: رشيدية)

*وفیه أیضاً*:

*ولو كتب القرآن على الحيطان و الجدران، بعضهم قالوا: يرجى أن يجوز، و بعضهم كرهوا ذلك مخافة السقوط تحت أقدام الناس، كذا في فتاوي قاضيخان*.

( الباب الخامس في آداب المسجد، و ما كتب فيه شيئ من القرآن، أو كتب فيه اسم الله تعالى، ٥/ ٣٢٣، ط: رشيدية)

 *فقط والله أعلم* ۔ 
 ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
▓█ *فتوی نمبر : 144111200008* █▓
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
━━❪🕌🕋🕌❫━━


 🌹 *بسْمِ ﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم* 🌹 


عشرکےاحکام ❰・ *پوسٹ نمبر 17* ・❱

   *عشر ادا کرنے سے پہلے پیداوار کو استعمال کرنے کا حکم*
                   عشر چوں کہ ایک شرعی فریضہ ہے اس لیے فقہاء کرام رحمھم اللہ تعالی نے یہ لکھا ہے کہ جب تک پیداوار کا عشر ادا نہ کیا جائے یا الگ نہ کیا جائے تو اس وقت تک پیداوار کو کھانا اور استعمال کرنا جائز نہیں ہے اور اگر استعمال کرلیا تو اس میں جو عشر کی مقدار بنتی ہے اتنی مقدار ادا کرنا واجب ہے، بعض حضرات نے تھوڑا سا استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔

   *عشر کے وجوب کے بعد ادائیگی سے پہلے فوت ہوگیا تو؟*
                جس شخص پر عشر واجب ہو اور وہ فوت ہوجائے اور پیداوار موجود ہو تو اس میں سے عشر ادا کیا جائے گا۔

 📚حوالہ:
▪الدرالمختار مع ردالمحتار 3/321 دارالمعرفہ 
▪الفتاوی الھندیہ 1/185

مرتب:✍  
مفتی عرفان اللہ درویش ھنگو عفی عنہ


 

تیری نگہ سے تجھ کو خبر ہے کہ کیا ہوا 
دل زندگی سے بار دگر آشنا ہوا 

اک اک قدم پہ اس کے ہوا سجدہ ریز میں 
گزرا تھا جس جہاں کو کبھی روندتا ہوا 

دیکھا تجھے تو آرزوؤں کا ہجوم تھا 
پایا تجھے تو کچھ نہ تھا باقی رہا ہوا 

دشت جنوں میں ریگ رواں سے خبر ملی 
پھرتا رہا ہے تو بھی مجھے ڈھونڈھتا ہوا 

احساس نو نے زیست کا نقشہ بدل دیا 
محرومیوں کا یوں تو چمن ہے کھلا ہوا 

چمکا ہے بن کے سرو چراغاں تمام عمر 
کیا آنسوؤں کا تار تھا تجھ سے بندھا ہوا 

بکھرے ہیں زندگی کے کچھ اس طرح تار و پود 
ہر ذرہ اپنے آپ میں محشر نما ہوا 

پوچھو تو ایک ایک ہے تنہا سلگ رہا 
دیکھو تو شہر شہر ہے میلہ لگا ہوا 

پردہ اٹھا سکو تو جگر تک گداز ہے 
چاہو کہ خود ہو یوں تو ہے پتھر پڑا ہوا 

انسان دوستی کے تقاضوں کا سلسلہ 
انسان دشمنی کی حدوں سے ملا ہوا 

اقدار کے فریب میں اب آ چکا نظرؔ 
کشتی ڈبو گیا جو خدا، ناخدا ہوا 

شاعر: قیوم نظر


 ╏╠═🕌═[𝍖🕋𝍖 درسِ قرآن 𝍖🕋𝍖] 🌹 🌹  🌹


 سورہ المآئدۃ آیت نمبر 33

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
ترجمہ: شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے

اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیۡنَ یُحَارِبُوۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَسۡعَوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ فَسَادًا اَنۡ یُّقَتَّلُوۡۤا اَوۡ یُصَلَّبُوۡۤا اَوۡ تُقَطَّعَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ اَرۡجُلُہُمۡ مِّنۡ خِلَافٍ اَوۡ یُنۡفَوۡا مِنَ  الۡاَرۡضِ ؕ ذٰلِکَ لَہُمۡ خِزۡیٌ فِی الدُّنۡیَا وَ لَہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ﴿ۙ۳۳﴾
ترجمہ: 
جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑائی کرتے اور زمین میں فساد مچاتے پھرتے ہیں، ان کی سزا یہی ہے کہ انہیں قتل کردیا جائے، یا سولی پر چڑھا دیا جائے، یا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں، (٢٦) یا انہیں زمین سے دور کردیا جائے (٢٧) یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے، اور آخرت میں ان کے لیے زبردست عذاب ہے۔
تفسیر: 
26: پیچھے جہاں انسانی جان کی حرمت کا ذکر تھا وہاں یہ اشارہ بھی کردیا گیا تھا کہ جو لوگ زمین میں فساد مچاتے ہیں ان کی جان کو یہ حرمت حاصل نہیں ہے، اب ان کی مفصل سزا بیان کی جارہی ہے، مفسرین اور فقہاء کا اس بات پر تقریباً اتفاق ہے کہ اس آیت میں ان لوگوں سے مراد وہ ڈاکو ہیں جو اسلحے کے زور پر لوگوں کو لوٹتے ہیں، ان کے بارے میں یہ جو کہا گیا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے لڑائی کرتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان قوانین کی بےحرمتی کرتے ہیں اور ان کا لوگوں سے لڑنا گویا اللہ اور اس کے رسول سے لڑنا ہے، ان لوگوں کے لئے اس آیت میں چار سزائیں بیان کی گئی ہیں، ان سزاؤں کی تشریح امام ابوحنیفہ (رح) نے یہ فرمائی ہے کہ اگر ان لوگوں نے کسی کو قتل کیا ہو مگر مال لوٹنے کی نوبت نہ آئی ہو تو انہیں قتل کیا جائے گا، مگر یہ قتل کرنا حد شرعی کے طور پر ہوگا قصاص کے طور پر نہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اگر مقتول کو وارث معاف بھی کرنا چاہیں تو ان کی معافی نہیں ہوگی، اور اگر ڈاکوؤں نے کسی کو قتل بھی کیا ہو اور مال بھی لوٹا ہو تو انہیں سولی پر لٹکا کر ہلاک کیا جائے گا، اور اگر مال لوٹا ہو اور کسی کو قتل نہ کیا ہو تو ان کا دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں کاٹا جائے گا، اور اگر انہوں نے لوگوں کو صرف ڈرایا دھمکایا ہو، نہ مال لوٹنے کی نوبت آئی ہو، نہ کسی کو قتل کرنے کی، تو امام ابوحنیفہ (رح) نے أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ، کی تشریح یہ کی ہے کہ انہیں قید خانے میں بند کردیا جائے گا، یہ تشریح : حضرت عمر (رض) کی طرف بھی منسوب ہے، دوسرے فقہاء نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ انہیں جلا وطن کردیا جائے گا۔ یہاں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن کریم نے ان جرائم کی سزائیں اصولی طور پر بیان فرمائی ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احادیث میں تفصیل بیان فرمائی ہے کہ ان سخت سزاؤں پر عمل درآمد کے لئے کیا شرائط ہیں، فقہ کی کتابوں میں یہ ساری تفصیل آئی ہے، یہ شرائط اتنی کڑی ہیں کہ کسی مقدمے میں ان کا پورا ہونا آسان نہیں ؛ کیونکہ مقصد ہی یہ ہے کہ یہ سزائیں کم سے کم جاری ہوں، مگر جب جاری ہوں تو دوسرے مجرموں کے لئے سامان عبرت بن جائیں۔ 27: یہ قرآنی الفاظ کا لفظی ترجمہ ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے ” زمین سے دور کرنے “ کی تشریح یہ کی ہے کہ انہیں قید خانے میں بند کردیا جائے گا۔ یہ تشریح حضرت عمر (رض) کی طرف بھی منسوب ہے۔ دوسرے فقہاء نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ انہیں جلا وطن کردیا جائے گا۔
 آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی


 💖💘💞 درسِ حدیث 💞💘💖


سنن ابن ماجہ حدیث نمبر: 4080


عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ يَحْفِرُونَ كُلَّ يَوْمٍ حَتَّى إِذَا كَادُوا يَرَوْنَ شُعَاعَ الشَّمْسِ قَالَ الَّذِي عَلَيْهِمْ ارْجِعُوا فَسَنَحْفِرُهُ غَدًا فَيُعِيدُهُ اللَّهُ أَشَدَّ مَا كَانَ حَتَّى إِذَا بَلَغَتْ مُدَّتُهُمْ وَأَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَبْعَثَهُمْ عَلَى النَّاسِ حَفَرُوا حَتَّى إِذَا كَادُوا يَرَوْنَ شُعَاعَ الشَّمْسِ قَالَ الَّذِي عَلَيْهِمْ ارْجِعُوا فَسَتَحْفِرُونَهُ غَدًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى وَاسْتَثْنَوْا فَيَعُودُونَ إِلَيْهِ وَهُوَ كَهَيْئَتِهِ حِينَ تَرَكُوهُ فَيَحْفِرُونَهُ وَيَخْرُجُونَ عَلَى النَّاسِ فَيُنْشِفُونَ الْمَاءَ وَيَتَحَصَّنُ النَّاسُ مِنْهُمْ فِي حُصُونِهِمْ فَيَرْمُونَ بِسِهَامِهِمْ إِلَى السَّمَاءِ فَتَرْجِعُ عَلَيْهَا الدَّمُ الَّذِي اجْفَظَّ فَيَقُولُونَ قَهَرْنَا أَهْلَ الْأَرْضِ وَعَلَوْنَا أَهْلَ السَّمَاءِ فَيَبْعَثُ اللَّهُ نَغَفًا فِي أَقْفَائِهِمْ فَيَقْتُلُهُمْ بِهَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ دَوَابَّ الْأَرْضِ لَتَسْمَنُ وَتَشْكَرُ شَكَرًا مِنْ لُحُومِهِمْ

ترجمہ : حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :‘‘یاجوج ماجوج روزانہ (دیوار) کھودتے ہیں حتی کہ جب (تنی کم موٹی رہ جاتی ہے کہ) انہیں سورج کی روشنی (اس کے آرپار) نظر آنے کے قریب ہوتی ہے تو ان کا افسر کہتا ہے: واپس چلو، اس (باقی دیوار) کو ہم کل کھود ڈالیں گے۔ اللہ تعالیٰ اسے پھر پہلے سے بھی انتہائی سخت کر دیتا ہے۔ جب ان کا مقرر وقت آئے گا اور اللہ تعالی کی منشاء ہو گی کہ انہیں لوگوں تک پہنچنے دے تو وہ کھودیں گے، جب وہ سورج کی روشنی دیکھنے کے قریب ہوں گے تو ان کا افسر کہے گا: چلو، اس کو ہم کل کھود لیں گے ان شاء اللہ۔ وہ اللہ کی مرضی کا ذکر کریں گے تو (اس کی یہ برکت ہو گی کہ) جب (صبح کو) واپس آئیں گے تو اسے اسی حالت میں پائیں گے جیسی چھوڑ کر گئے تھے۔ وہ اسے کھود کر لوگوں کے سامنے نکل آئیں گے، اور پانی پی کر ختم کر دیں گے۔ لوگ ان سے بچاؤ کے لئے قلعہ بند ہو جائیں گے۔ وہ آسمان کی طرف تیر پھینکیں گے تو تیر خون سے تربتر واپس آئیں گے۔ تب وہ کہیں گے: ہم نے زمین والوں کو زیر کر لیا اور آسمان والوں پر غالب آگئے۔ تب اللہ ان کی گدیوں میں کیڑے پیدا کر دے گا جن سے وہ ہلاک ہو جائیں گے’’۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ‘‘قسم ہے اس ذات کی جس کے ہات میں میری جان ہے! زمین کے جانور ان کا گوشت کھا کھا کر موٹے ہو جائیں گے اور ان پر چربی چڑھ جائے گی’’۔


تشریح : 
1۔ کھودنے کا مطلب یہ ہے کہ دیوار میں سوراخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اللہ تعالی انھین کامیاب نہیں ہونے دیتااس لیے دیوار دوبارہ موٹی ہوجاتی ہے۔
2۔تمام اسباب اللہ کے تصرف میں ہیں۔اس کی مرضی کے بغیر اسباب پر محنت کے باوجود کامیابی نہیں ہوتیاس لیے مومن کا توکل اللہ پر ہونا چاہیے،
3۔اللہ کے نام میں اتنی برکت ہے کہ وہ کافر(یاجوج ماجوج) بھی اللہ  کا نام لیں گے تو دیوار دوبارہ موٹی نہیں ہوگی اور وہ لوگ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں گے۔



 مرزا عبد الودود بیگ کا دعویٰ کچھ ایسا غلط معلوم نہیں ہوتا کہ کرکٹ بڑی تیزی سے ہمارا قومی کھیل بنتا جا رہا ہے۔ قومی کھیل سے غالباً ان کی مراد ایسا کھیل ہے جسے دوسری قومیں نہیں کھیلتیں۔ 


ہم آج تک کرکٹ نہیں کھیلے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں اس کی برائی کرنے کا حق نہیں۔ اب اگر کسی شخص کو کتے نے نہیں کاٹا، تو کیا اس بد نصیب کو کتوں کی مذمت کرنے کا حق نہیں پہنچتا؟ ذرا غور کیجئے۔ افیم کی برائی صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جو افیم نہیں کھاتے۔ افیم کھانے کے بعد ہم نے کسی کو افیم کی برائی کرتے نہیں دیکھا۔ برائی کرنا تو بڑی بات ہے ہم نے کچھ بھی تو کرتے نہیں دیکھا۔ 

اب بھی بات صاف نہیں ہوئی تو ہم ایک اور مستند نظیر پیش کرتے ہیں۔ مولانا ابو الکلام آزاد کو گڑ سے سخت چڑ تھی۔ ان کا قول ہے کہ جس نے ایک مرتبہ گڑ چکھ لیا اس کو تمام عمر دوسری مٹھاس پسند نہیں آ سکتی چونکہ وہ خود شکر کی لطیف حلاوتوں کے عادی و مداح تھے، لہذا ثابت ہوا کہ وہ بھی ساری عمر گڑ کھائے بغیر گڑکی برائی کرتے رہے۔ 

یوں تو آج کل ہر وہ بات جس میں ہارنے کا امکان زیادہ ہو کھیل سمجھی جاتی ہے۔ تاہم کھیل اور کام میں جوبین فرق ہماری سمجھ میں آیا یہ ہے کہ کھیل کا مقصد خالصتاً تفریح ہے۔ دیکھا جائے تو کھیل کام کی ضد ہےجہاں اس میں گمبھیرتا آئی اور یہ کام بنا۔ یہی وجہ ہے کہ پولو انسان کے لئے کھیل ہے اور گھوڑے کے لئے کام۔ ضد کی اور بات ہے ورنہ خود مرزا بھی اس بنیادی فرق سے بے خبرنہیں۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دن وہ ٹنڈو اللہ یار سے معاوضہ پر مشاعرہ ’’پڑھ‘‘ کے لوٹے تو ہم سے کہنے لگے،’’فی زمانہ ہم تو شاعری کو جب تک وہ کسی کا ذریعہ معاش نہ ہو، نری عیاشی بلکہ بد معاشی سمجھتے ہیں۔‘‘ 

اب یہ تنقیح قائم کی جا سکتی ہے کہ آیا کرکٹ کھیل کے اس معیار پر پورا اترتا ہے یانہیں۔ فیصلہ کرنے سے پہلے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ کرکٹ در اصل انگریزوں کا کھیل ہے اور کچھ انہی کے بلغمی مزاج سے لگا کھاتاہے۔ ان کوقومی خصلت ہے کہ وہ تفریح کے معاملےمیں انتہائی جذباتی ہوجاتے ہیں اورمعاملات محبت میں پرلے درجے کے کاروباری۔ اسی خوش گوار تضاد کا نتیجہ ہے کہ ان کا فلسفہ حد درجہ سطحی ہے اور مزاح نہایت گہرا۔ 

کرکٹ سے ہماری دل بستگی ایک پرانا واقعہ ہے جس پر آج سو سال بعد تعجب یا تاسف کااظہار کرنا اپنی نا واقفیت عامہ کاثبوت دینا ہے۔ 1857 کی رستخیز کے بعدبلکہ اس سے کچھ پہلے ہمارے پرکھوں کو انگریزی کلچر اور کرکٹ کے باہمی تعلق کا احساس ہو چلا تھا۔ چنانچہ سرسید احمد خاں نے بھی انگریزی تعلیم و تمدن کے ساتھ ساتھ کرکٹ کو اپنانے کی کوشش کی۔ روایت ہے کہ جب علی گڑھ کالج کے لڑکے میچ کھیلتے ہوتے تو سرسید میدان کے کنارے جا نماز بچھاکر بیٹھ جاتے۔ لڑکوں کا کھیل دیکھتے اور رو رو کر دعا مانگتے،’’الٰہی میری بچوں کی لاج تیرے ہاتھ ہے۔‘‘ 

جیسا کہ اوپر اشارہ کیا جا چکا ہے، کرکٹ انگریزوں کے لیے مشغلہ نہیں مشن ہے۔ لیکن اگر آپ نے کبھی کرکٹ کی ٹیموں کو مئی جون کی بھری دوپہر میں ناعاقبت اندیشانہ جرات کے ساتھ موسم کو چیلنج کرتے دیکھا ہے تو ہماری طرح آپ بھی اس نتیجہ پر پہنچے بغیرنہ رہ سکیں گے کہ ہمارے ہاں کرکٹ مشغلہ ہے نہ مشن، اچھی خاصی تعزیری مشقت ہے، جس میں کام سے زیادہ عرق ریزی کرنا پڑتی ہے۔ اب اگر کوئی سرپھرا منہ مانگی اجرت دے کر بھی اپنے مزدوروں سے ایسے موسمی حالات میں یوں کام کرائے تو پہلے ہی دن اس کا چالان ہوجائے۔مگر کرکٹ میں چونکہ عام طور سے معاوضہ لینے کا دستورنہیں، اس لئے چالان کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاتھوں جس طرح ہلکا پھلکا کھیل ترقی کرکے کام میں تبدیل ہو گیا وہ اس کے موجودین کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا۔ غالب نے شاید ایسی ہی کسی صورت حال سے متاثر ہوکر کہا تھا کہ ہم مغل بچے بھی غضب ہوتے ہیں، جس پر مرتے ہیں اس کو مار رکھتے ہیں۔ 

اور اس کا سبب بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کھیل کے معاملے میں ہمارا رویہ بالغوں جیسا نہیں، بالکل بچوں کاسا ہے۔ اس لحاظ سے کہ صرف بچے ہی کھیل میں اتنی سنجیدگی برتتے ہیں۔ پھر جیسے جیسے بچہ سیانا ہوتا ہے کھیل کے ضمن میں اس کا رویہ غیرسنجیدہ ہوتا چلا جاتا ہے اور یہی ذہنی بلوغ کی علامت ہے۔ 

کرکٹ کے رسیا ہم جیسے نا آشنائے فن کولا جواب کرنے کیلئے اکثر کہتے ہیں، ’’میاں! تم کرکٹ کی باریکیوں کو کیا جانو؟ کرکٹ اب کھیل نہیں رہا، سائنس بن گیا ہے سائنس!‘‘ 

عجیب اتفاق ہے۔ تاش کے دھتیا بھی رمی کے متعلق نہایت فخر سے یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ سولہ آنے سائنٹفک کھیل ہے۔ بکنے والے بکا کریں، لیکن ہمیں رمی کے سائنٹیفک ہونے میں مطلق شبہ نہیں کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ روپیہ ہارنے کا اس سے زیادہ سائنٹیفک طریقہ ہنوز دریافت نہیں ہوا۔ پس ثابت ہوا کہ کرکٹ اور رمی قطعی سائنٹیفک ہیں اور اسی بنا پر کھیل نہیں کہلائے جا سکتے۔ بات یہ ہے کہ جہاں کھیل میں دماغ پر زور پڑا کھیل کھیل نہیں رہتا کام بن جاتا ہے۔ ایک دفعہ کرکٹ پر نکتہ چینی کرتے ہوئے ہم نے مرزا سے کہا کہ کھیلوں میں وہی کھیل افضل ہے جس میں دماغ پر کم سے کم زور پڑے۔ 

فرمایا، ’’بجا! آپ کی طبع نازک کیلئے جو نہایت موزوں رہے گا۔ کس واسطے کہ جوئے کی قانونی تعریف یہی ہے کہ اسے کھیلنے کیلئے عقل قطعی استعمال نہ کرنی پڑے۔‘‘ 

محض کرکٹ ہی پر منحصر نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں رجحان عام ہے کہ تعلیم نہایت آسان اور تفریح روز بروز مشکل ہوتی جاتی ہے (مثلاً بی اے کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، مگر برج سیکھنے کے لئے عقل درکار ہے) ریڈیو، ٹیلی ویژن، سنیما اور با تصویر کتابوں نے اب تعلیم کو بالکل آسان اور عام کر دیاہے لیکن کھیل دن بدن گراں اور پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ لہذا بعض غبی لڑکے کھیل سے جی چراکر تعلیم کی طرف زیادہ توجہ دینے لگے ہیں۔ اس سے جو سبق آموز نتائج رونما ہوئے وہ سیاست دانوں کی صورت میں ہم سب کے سامنے ہیں۔ 

کسی اعتدال پسند دانا کا قول ہے، ’’کھیل کے وقت کھیل اور کام کے وقت کام اچھا۔‘‘ اگر ہم یہ کہیں کہ ہمیں اس زریں اصول سے سرا سر اختلاف ہے تو اس کو یہ معنی نہ پہنائے جائیں کہ خدانخواستہ ہم شام و سحر، آٹھوں پہر کام کرنے کے حق میں ہیں۔ سچ پوچھئے تو ہم اپنا شمار ان نارمل افراد میں کرتے ہیں جن کو کھیل کے وقت کھیل اور کام کے وقت کھیل ہی اچھا لگتا ہےاور جب کھل کے باتیں ہو رہی ہیں تو یہ عرض کرنے کی اجازت دیجئے کہ فی الواقع کام ہی کے وقت کھیل کا صحیح لطف آتا ہے۔ لہذا کرکٹ کی مخالفت سے یہ استنباط نہ کیجئے کہ ہم تفریح کے خلاف بپھرے ہوئے بوڑھوں (ANGROLD MEN) کا کوئی متحدہ محاذ بنانے چلے ہیں۔ ہم بذات خود سو فی صد تفریح کےحق میں ہیں، خواہ وہ تفریح برائے تعلیم ہو، خواہ تعلیم براہ تفریح! ہم تو محض یہ امر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اگر چہ قدیم طریق تعلیم سے جدید طرز تفریح ہزار درجے بہتر ہے، 

مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ 

تمہید قدرے طویل اور سخن گسترانہ سہی، لیکن بوجوہ ناگزیر تھی۔ اب ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں اور آنکھوں دیکھاحال سناتے ہیں۔ 

ٹسٹ میچ کے ہنگامہ پر ورو زمانے کا ذکر ہے۔ شہر کی آبادی دو حصوں میں بٹ گئی تھی۔ ایک حصہ کہ 

جس میں کاہل بھی ہیں، غافل بھی ہیں، ہشیار بھی ہیں 

اپنے اپنے گھروں میں بیٹھاریڈیوکمنٹری سن رہا تھا۔ دوسرا انبوہ ان سفید پوشوں پر مشتمل تھا، جو عزت کی خاطر اپنی اپنی چھاتیوں پر خالی ایریل لگاکر خود ایرانی ہوٹلوں اور پان کی دکانوں کے سامنے کھڑے کمنٹری سن رہے تھے۔ پاکستان ایک میچ جیت چکا تھا اور کرکٹ کے خلاف ایک لفظ بھی منہ سے نکالنا غداری کے مترادف تھا۔ مرزا کرکٹ کااپنے آپ پر طاری کر کے کہنے لگے، ’’یہ کھیلوں کا بادشاہ ہے۔‘‘ 

ہماری جو شامت آئی تو بول اٹھے، ’’مرزا! کرکٹ رئیسوں کا کھیل ہے۔ دیکھتے نہیں یہ مر رہاہے۔ اس کا کوئی مستقبل نہیں کیونکہ نہ اسے روسی کھیلتے ہیں نہ امریکی۔‘‘ 

’’اسی سے کچھ امید بندھتی ہے کہ شایدیہ کھیل زندہ رہ جائے۔‘‘ مرزا نے چھوٹتے ہی دہلا لگایا۔ 

’’ایسا مہنگا اور پیچیدہ کھیل جس کا میچ مسلسل پانچ دن گھسٹتا رہے اور جسے ہمارے غریب عوام نہ کھیل سکیں اور نہ دیکھ پائیں، ہرگز لائق التفات نہیں۔‘‘ ہم نے دکھتی ہوئی رگ پکڑی۔ 

’’پھر کون سا کھیل لائق التفات ہے، حضور؟‘‘ مرزا نے چڑاؤنے انداز میں پوچھا۔ 

’’اس سے بہتر تو بیس بال رہے گی۔‘‘ ہم نے کہا۔ 

’’بات ایک ہی ہے، آدھا بیٹ ٹوٹ جانے کے بعد بھی کرکٹ جاری رہے تو امریکہ میں اسے بیس بال کہتے ہیں۔ کسی اور کھیل کا نام لو۔‘‘ مرزا نے کہا۔ 

’’ٹینس۔‘‘ ہمارے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ 

’’اگر تم نے کبھی ٹینس میچ میں گیند کے ساتھ سینکڑوں تماشائیوں کی گردنیں ایک ساتھ پنڈولم کی طرح دائیں گھومتی دیکھی ہیں تو بخدا تمہیں اس کھیل ہی سے نفرت ہو جائے گی۔‘‘ مرزا نے کہا۔ 

’’اس کے یہ معنی ہوئے کہ تمہیں ٹینس دیکھنے پر اعتراض ہے۔ مت دیکھو مگر کھیلنے میں کیا حرج ہے؟‘‘ ہم نے دبایا۔ 

’’جی نہیں! یورپ میں ٹینس بیمار مردوں اور تندرست عورتوں کا کھیل ہے۔ 

صاحب! اچھے کھیل کی خوبی یہ ہے کہ 

کچھ ہاتھ ہلیں، کچھ پاؤں ہلیں، اچھلیں بازو، پھڑکے سب تن۔‘‘ 

مرزا نے ایکاایکی ہمارے مقابلے پر نظیر اکبرآبادی کولا کھڑا کیاجن سے نبٹنا فی الجملہ ہمارے لئے مشکل تھا۔ 

’’چلو ہاکی سہی۔‘‘ ہم نے سمجھوتے کے انداز میں کہا۔ 

’’چھی! ہماری یہ بڑی کمزوری ہے کہ اپنی ٹیم کسی کھیل میں جیت جائے تو اسے قومی کھیل سمجھتے لگتے ہیں اور اس وقت تک سمجھتے رہتے ہیں جب تک کہ ٹیم دوسرا میچ ہار نہ جائے۔‘‘ مرزا نے فتویٰ دیا۔ 

’’تمہیں پسند نہ آئے ،یہ اور بات ہے۔ مگر کراچی میں ہاکی کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اگر کہیں دوستانہ میچ بھی ہورہا ہو تو خلقت اس بری طرح ٹوٹتی ہے کہ فیلڈ تک میں کھیلنے کی جگہ نہیں رہتی۔‘‘ ہم نے کہا۔ 

’’خدا آباد رکھے، کراچی کا کیا کہنا۔ بندر روڈ پر کوئی شخص راہ چلتے یونہی پان کی پیک تھوک دے اور پھر اس کی طرف ٹکٹکی باند ھ کر دیکھنے لگے تو دو منٹ میں ٹھٹ کے ٹھٹ لگ جائیں اور سارا ٹریفک رک جائے۔ یاد رکھو! تماشے میں جان تماشائی کی تالی سے پڑتی ہے، نہ کی مداری کی ڈگڈگی سے!‘‘ مرزانے بات کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ 

’’فٹ بال کیسی رہیگی؟‘‘ ہم نے عاجز آکر آخر ان ہی سے پوچھا۔ 

مرزا کہنے لگے، ’’کرکٹ اشراف کھیلتے ہیں، فٹ بال دیہاتیوں کا کھیل ہے۔ جٹ گنواروں کا! ہڈیاں تڑوانے کے اوربھی مہذب طریقے ہوسکتے ہیں۔ لاحول ولاقوۃ! 

اس باجماعت بد تمیزی کو کھیل کس نے کہہ دیا؟ آپ نے شاید وہ لطیفہ نہیں سنا کہ ایک پرانا کھلاڑی چند سکھوں کو فٹ بال سکھا رہا تھا۔ جب کھیل کے سب قاعدے ایک ایک کر کے سمجھا چکا تو آخر میں یہ گر کی بات بتائی کہ ہمیشہ یاد رکھو، سارے کھیل کا دارومدار فقط زور سے کک لگانے پر ہے۔ اس سے کبھی نہ چوکو۔ اگر گیند کو کک نہ کر سکو تو پروا نہیں۔ اپنے مخالف ہی کو کک کر دو۔ اچھا اب کھیل شروع کرو، گیند کدھر ہے؟ یہ سن کر ایک سردار جی اپنا جانگیا چڑھاتے ہوئے بے تابی سے بولے، گیند دی ایسی تیسی! تسی کھیل شروع کرو، خالصہ!‘‘ 

’’لیکن گنواروں اور دیہاتیوں کے ساتھ کھیلنے میں کون سی ہیٹی ہوتی ہے؟‘‘ ہم نے اپنے جمہوری جذبے سے تقریباً نڈھال ہوکر پوچھا۔ 

’’تفریح میں بری صحبت سے پرہیز لازم ہے۔ یاد رکھئے آپ تجارت اور عبادت تو کسی کے ساتھ بھی کرسکتے ہیں لیکن تاش صرف اشرافوں کے ساتھ کھیلنے چاہئیں۔ یہی نہیں یوروپ میں بھی اس فرق کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ وہاں بڑے بڑے اسٹاک ایکس چینج اور گرجا میں ہرکس و ناکس کو بے روک ٹوک جانے کی اجازت ہے مگر کلب اور کسینو (قمار خانہ) میں فقط خاندانی شرفا بار پاتے ہیں۔‘‘ 

کیا عرض کریں، کرکٹ کے مخالفوں کو قائل معقول کرنے کیلئے مرزا کیسی کیسی دھاندلی روا سمجھتے ہیں اور آن واحد میں بات کو تنگنائے منطق سے نکال کر اس مقام پر پہنچا دیتے ہیں جہاں بات کرتے دشمنوں کی زبان کٹتی ہے۔ بات گنجلک ہوئی جاتی ہے۔ 

اس لئے ہم وضاحتاً ان کے برہان قاطع کی ایک ادنیٰ مثال پیش کرتے ہیں۔ ایک دن کرکٹ کے جسمانی فوائد (روحانی فیوض کا بیان آگے آئے گا) پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمانے لگے، ’’کرکٹ سے کلائی مضبوط ہوتی ہے۔‘‘ 

’’کلائی مضبوط ہونے سے فائدہ؟‘‘ 

’’کرکٹ اچھا کھیلا جاتاہے۔‘‘ 

ایک اور نازک موقع پر انہوں نے اسی قسم کی منطق سے ایک کج فہم کا ناطقہ بند کیا۔ ان صاحب کا استدلال تھا کہ کرکٹ میں ہر وقت چوٹ چپیٹ کا خدشہ لگا رہتاہے۔ مرزا کوقائل کرنے کی غرض سے انہی کے سر کی قسم کھاکے کہنے لگے، ’’میرے سامنے کی تین دانت کرکٹ ہی کی نذر ہوئے۔ (اندرونی چوٹوں کا کوئی شمار نہیں) وہ تو کہیے بڑی خیر ہوئی کہ میرے اوسان خطا نہیں ہوئے۔ اگر میں عین وقت پر منہ نہ پھاڑ دیتا تو کہیں زیادہ نقصان ہوتا۔‘‘ بعد کو انہوں نے کرکٹ کی راہ میں دیگر اعضائے بدن کے باری باری مجروح و ماؤف ہونے کی درد بھری داستان میچ دار سنائی اوریہ ثابت کر دیا کہ ان کے اپنے تاریخی زخموں کی مجموعی تعداد رانا سانگا کے ستر زخموں سے کسی طرح کم نہیں۔ 

مرزا نے جھنجلاکر کہا، ’’مگر دستانے پیڈ اور گارڈ آخر کس مرض کی دوا ہیں؟‘‘ 

وہ صاحب بولے، ’’دیکھئے نا! یہ ذرہ بکتر تو خود اس بات کی دلیل ہے کہ کھیل واقعی خطرناک ہے۔ ان حفاظتی تدابیر کانام سن کر مجھے اس وقت اپنے گاؤں کا وہ زمیندار یاد آ رہا ہے جس نے ستر سال کی عمر میں ایک سولہ سالہ لڑکی سے شادی کی تھی۔ ابھی سہاگ کے جوڑے کا کلف بھی ٹھیک سے نہ ٹوٹا ہوگا کہ وہ حالات پیدا ہوگئے جن میں بعض جلد باز اصحاب قتل کر بیٹھتے ہیں۔ لیکن آدمی تھا بلا کا دور اندیش۔ بہت کچھ غور و خوض اور اپنی طبیعت کے فطری رجحان کو دیکھتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچا کہ خود کشی نسبتاً آسان رہے گی۔ قتل میں بڑا کھٹر اگ ہے۔ یادرہے کہ اس زمانے میں ریل اور بندوق کاغلط استعمال عام نہیں ہوا تھا۔ اسلیے غیور حضرات کو کنویں میں جھانکنا پڑتے تھے۔ لیکن ان دنوں کڑاکے کی سردی پڑ رہی تھی اور کنویں کا پانی ایسا ٹھنڈا برف ہو رہا تھا کہ غصے میں کوئی آدمی کود پڑے تو چھن سے آواز پیدا ہو۔ لہذا زمیندار نے ایک روئی کا فرغل اور دو موٹے موٹے لحاف اوڑھ کر کنویں میں چھلانگ لگائی اور آخر انہی لحافوں نے اسے نہ صرف سردی بلکہ حرام موت سے بھی بچا لیا۔‘‘ 

مرزا چٹخارہ لے کربولے، ’’بہت خوب! آئندہ آپ اس لذیذ حکایت کو کرکٹ کے بجائے نکاح ثانی کے خلاف بطور دلیل استعمال کیجئے گا۔‘‘ 

ہم نے بیچ میں پڑ کر مصالحت کرانے کی کوشش کی، ’’ظاہر ہے لحاف اوڑھ کر کر کٹ نہیں کھیلاجا سکتا۔ مگر ایک بات آج تک میری سمجھ میں بھی نہیں آئی۔ کھلاڑی دبیز دستانے پہنتے ہیں، بھاری بھرکم پیڈ چڑھاتے ہیں، گارڈ باندھتے ہیں اور خدا جانے کیا کیا الابلا اپنے اوپر منڈ لیتے ہیں۔ جب کہیں اپنے کو گیند سے محفوظ سمجھتے ہیں۔ لیکن آخر اس کے بجائے نرم گیند کیوں نہیں استعمال کرتے؟ سیدھی سی بات ہے۔‘‘ 

مرزا صریحاً کنی کاٹ کر فلسفہ بگھارنے لگے، ’’حضرت! مجھے سزا کے طور پر بھی وہ کھیل منظور نہیں جس میں چوٹ کا قوی احتمال نہ ہو۔ مردوں کو چوٹ کھاکے مسکرانے کی عادت ہونی چاہئے۔‘‘ 

’’چوٹ کھانے سے حاصل؟‘‘ 

’’آدمی مضبوط ہوتا ہے۔‘‘ 

’’اس سے کیا ہوتا ہے؟‘‘ 

’’آئندہ چوٹ لگے تو چیخ نہیں نکلتی۔‘‘ 

مرزا کو کرکٹ سے کتنی دلچسپی اور اس کی باریکیوں سے کس حد تک واقفیت ہے، ہمیں اس کا تھوڑابہت اندازہ پانچ سال قبل ہوا۔ ٹسٹ کا چوتھا دن تھا اور ایک سلو بالر بولنگ کر رہا تھا۔ اس کی کلائی ایک ادنیٰ اشارے، انگلیوں کی ایک خفیف سی حرکت پر گیند ناچ ناچ اٹھتی اور تماشائی ہر گیند پر کرسیوں سے اٹھ اٹھ کر داد دیتے اور داد دے کر باری باری ایک دوسرے کی گود میں بیٹھ جاتے۔ ہمارے پاس ہی ایک میم کے پیچھے کرسی پر آلتی پالتی مارے بیٹھا بوڑھا پارسی تک، اپنے پوپلے منہ سے سیٹی بجا بجا کر بولر کا دل بڑھا رہا تھا۔ ادھر اسٹیڈیم کے باہر درختوں کی پھننگوں سے لٹکے ہوئے شائقین ہاتھ چھوڑ چھوڑ کر تالیاں بجاتے اور کپڑے جھاڑ کر پھر درختوں پر چڑھ جاتے تھے۔ ہر شخص کی نظریں گیند پر گڑی ہوئی تھیں۔ ایک بارگی بڑے زور سے تالیاں بجنے لگیں۔ 

’’ہائے! بڑے غضب کی گگلی ہے!‘‘ ہم نے جوش سے مرزا کا ہاتھ دبا کر کہا۔ 

’’نہیں یار! مدراسن ہے!‘‘ مرزا نے دانت بھینچ کر جواب دیا۔ 

ہم نے پلٹ کر دیکھا تو مرزا ہی کی رائے صحیح نکلی، بلکہ بہت خوب نکلی۔ 

ان کی دلچسپی کا اندازہ اس اہتمام سے بھی ہوتا ہے جو پچھلے تین برس سے ان کے معمولات میں داخل ہو چکا ہے۔ اب وہ بڑے چاؤ سے لدے پھندے ٹسٹ میچ دیکھنے جاتے ہیں۔ ڈیڑھ دو سیر بھو بل کی بھنی مونگ پھلی، بیٹری کا ریڈیو اور تھرماس! (اس زمانے میں ٹرانزسٹر عام نہیں ہوئے تھے) یہاں ہم نے ناشتے دان، سگریٹ، دھوپ کی عینک اور اسپرو کی ٹکیوں کا ذکر اس لئے نہیں کیا کہ یہ تو ان لوازمات میں سے ہیں جن کے بغیر کوئی دور اندیش آدمی کھیل دیکھنے کاقصد نہیں کرتا۔ یوں تو تازہ اخبار بھی ساتھ ہوتا ہے مگر وہ اس سے چھتری کا کام لیتے ہیں۔ خود نہیں پڑھتے البتہ پیچھے بیٹھنے والے باربارصفحہ الٹنے کی درخواست کرتے رہتے ہیں۔ دن بھر ریڈیو سے چمٹے کمنٹری سنتے رہتے ہیں بلکہ ہمارا خیال ہے کہ انہیں کمنٹری سننے سے زیادہ سنانے میں لطف آتا ہے۔ البتہ کمنٹری آنا بند ہو جائے تو کھیل بھی دیکھ لیتے ہیں۔ یا پھر اس وقت سر اٹھاکر فیلڈ کی طرف دیکھتے ہیں جب ریڈیو پر تالیوں کی آواز سے کانوں کے پردے پھٹنے لگیں۔ میچ کسی اور شہر میں ہورہا ہو تو گھر بیٹھے کمنٹری کے جوشیلے حصوں کوٹیپ پر ریکارڈ کرلیتے ہیں اور آئندہ ٹسٹ تک اسے سنا سنا کر اپنا اور دوسرے مسلمان بھائیوں کاخون کھولاتے رہتے ہیں۔ 

جاہلوں کا ذکرنہیں، بڑے بڑوں کوہم نے اس خوش فہمی میں مبتلا دیکھا کہ زیادہ نہ کم پورے بائیس کھلاڑی کرکٹ کھیلتے ہیں۔ ہم قواعد و ضوابط سے واقف نہیں لیکن جو کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا، اسی کی قسم کھاکر عرض کرتے ہیں کہ در حقیقت کرکٹ صرف ایک ہی شخص کھیلتا ہے۔ مگر اس کھیل میں یہ وصف ہے کہ بقیہ اکیس حضرات سارے سارے دن اس مغالطے میں مگن رہتے ہیں کہ وہ بھی کھیل رہے ہیں۔ حالانکہ ہوتا یہ ہے کہ یہ حضرات شام تک سارس کی طرح کھڑے کھڑے تھک جاتے ہیں اور گھر پہنچ کر اس تکان کو تندرستی سمجھ کر پڑ رہتے ہیں۔ 

مرزا کہتے ہیں (ناممکن ہے کرکٹ کا ذکر ہواور بار بارمرزا کی دہائی نہ دینی پڑے) کہ کھیل، علی الخصوص کرکٹ، سے طبیعت میں ہار جیت سے بے نیازی کا جذبہ پید ا ہوتا ہے۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ جیتنے کیلئے واقعی کاوش و مزادلت درکار ہے۔ لیکن ہارنے کیلئے مشق و مہارت کی چنداں ضرورت نہیں کہ یہ مشکل مخالف ٹیم بالعموم خود آسان کر دیتی ہے۔ 

اچھے اسکولوں میں شروع ہی سے تربیت دی جاتی ہے کہ جس طرح مرغابی پر پانی کی بوند نہیں ٹھیرتی، اسی طرح اچھے کھلاڑی پر ناکامی کا کوئی اثر نہیں ہونا چاہئے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ بعض کمزور طبیعتیں اس نصیحت کا اس قدر اثر لیتی ہیں کہ ہر قسم کے نتائج سے بے پروا ہو جاتی ہیں۔ 

لیکن اگر ہم کھلے خزانے یہ اعتراف کر لیں کہ ہمیں جیت سے رنج اور ہار سے خوشی نہیں ہوتی تو کون سی عیب کی بات ہے؟ انگلستان کا بادشاہ ولیم فاتح اس سلسلہ میں کمال کی بے ساختگی و صاف دلی کی ایک مردہ مثال قائم کر گیا ہے جو آج بھی بعضوں کے نزدیک لائق توجہ وتقلید ہے۔ ہوا یہ کہ ایک دفعہ جب وہ شطرنج کی بازی ہار گیا تو آؤ دیکھا نہ تاؤ جھٹ چوبی بساط جیتنے والے کے سر پر دے ماری، جس سے اس گستاخ کی موت واقع ہو گئی۔ مورخین اس باب میں خاموش ہیں، مگر قیاس کہتا ہے کہ درباریوں نے یوں بات بنائی ہوگی، ’’سرکار! یہ تو بہت ہی کم ظرف نکلا۔ جیت کی ذرا تاب نہ لا سکا۔ شادی مرگ ہو گیا۔‘‘ 

یہی قصہ ایک دن نمک مرچ لگا کرہم نے مرزا کوسنایا۔ بگڑ گئے، کہنے لگے، ’’آپ بڑافلسفہ چھانٹتے ہیں مگر یہ ایک فلسفی ہی کا قول ہے کہ کوئی قوم سیاسی عظمت کی حامل نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس نے کسی نہ کسی عہد میں اپنے کھیل کا لوہا نہ منوایا ہو۔‘‘ 

ہم نے چھیڑا، ’’مگر قومیں پٹ پٹ کرہی ہیکڑ ہوتی ہیں۔‘‘ 

قوموں کو جہاں کا تہاں چھوڑ کر ذاتیات پر اتر آئے، ’’جس شخص نے عمر بھراپنے دامن صحت کو ہرقسم کی کسرت اور کھیل سے بچائے رکھا، وہ غریب کھیل کی اسپرٹ کو کیا جانے، 

بچپن میں بھی تم کھیل جوکھیلے تو صنم کا 

میں جانتا ہوں، تم جیسے تھڑو لے محض ہار کے ڈر سے نہیں کھیلتے۔ ایسا ہی ہے تو پرسوں صبح بغدادی جمخانہ آجاؤ، پھر تمہیں دکھائیں کرکٹ کیا ہوتا ہے۔‘‘ 

اس کے بعد انہوں نے بتایا کہ مذکورالصدرمقام پرہر ہفتے دوستانہ میچ ہوتے رہتے ہیں (دوستانہ میچ سے مراد ایسا میچ ہے جس میں لوگ ہار کربھی قائل نہیں ہوتے) ابھی گزشتہ سنیچر کو عینک لگانے والوں کی ٹیم نے سگار پینے والوں کو پورے نو وکٹوں سے شکست دی تھی اور پرسوں ان کی کمپنی کے کنوارے ملازمین اپنے افسروں اور ان کی بیویوں سے شوقیہ میچ کھیل رہے ہیں۔ ہم نے کچھ ہچر مچر کی تو آنکھ مار کے کہنے لگے، ’’بےپردگی کاخاص انتظام ہوگا، ضرور آنا۔‘‘ 

ہم ناشتہ کرتے ہی بغدادی جمخانہ پہنچ گئے۔ پروگرام کے مطابق کھیل ٹھیک دس بجے شروع ہونا چاہئے تھا مگر امپائر کا سفید کوٹ استری ہوکر دیر سے آیا۔ اس لئے چھپے ہوئے پروگرام کے بجائے ساڑھے گیارہ بجے تک کھلاڑی مونگ پھلی کھاتے رہے۔ 

پندرہ منٹ کی ردو کد کے بعد طے پایا کہ جوٹیم’’ٹاس‘‘ ہارے وہی بیٹنگ کرے۔ پھر کلدارروپیہ کھنکا، تالیاں بجیں۔ معطر رومال ہوا میں لہرائے اور مرزا کسے بندھے بیٹنگ کرنے نکلے۔ 

ہم نے دعادی، ’’خدا کرے تم واپس نہ آؤ۔‘‘ 

مرزا نے ہمارا شکریہ ادا کیا اورچلتے چلتے پھر تاکید کی، ’’کرکٹ مت دیکھو۔کرکٹ کی اسپرٹ دیکھو۔‘‘ 

ہم یہ بتانابھول ہی گئے کہ روانہ ہونے سے قبل مرزا نے اپنے بیٹ پر جملہ تماشائیوں کے دستخط لئے۔ ایک خاتون نے (جو کسی طرف سے ان پڑھ معلوم نہیں ہوتی تھیں) دستخط کی جگہ بیٹ پر اپنے ترشے ترشائے سرخ سرخ ہونٹ ثبت کر دیئے اور مرزا پیچھے مڑمڑکر دیکھتے ہوئے وکٹ تک پہنچے۔ بلکہ یوں کہناچاہئے کہ سارا سارا رستہ الٹے قدموں طے کیا اور بیچ میں وکٹ سے ٹکر نہ ہوتی تو شاید ساری فیلڈ اسی طرح پار کر جاتے۔ 

مرزا نے کرکٹ میں بھی وہی تیہا اور تیور دکھائے جوہم ان کے مچیٹوں اور معاشقوں میں دیکھتے چلے آئے تھے۔ یعنی تکنیک کم اور جوش زیادہ! روانگی سے چند منٹ پہلے پیڈ کے تسمے باندھتے ہوئے انہوں نے ایک مرکھنے سے کلرک کو یہ ہتھکنڈا بتایا کہ چھکالگانے کی سہل ترکیب یہ ہے کہ خوب کس کے ہٹ لگاؤ۔ 

کلرک نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے گھورتے ہوئے کہا، ’’یہ تو سبھی جانتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ زور کاہٹ کس طرح لگایا جائے۔‘‘ 

مرزا اپنی بڑی بڑی آنکھیں لال کرکے بولے، ’’میں تو یہ کرتا ہوں کہ ہٹ لگاتے وقت آنکھ میچ کر اپنے افسر کا تصور کرتا ہوں۔ خدئی قسم! ایسے زور کاہٹ لگتا ہے کہ گیند تارا ہو جاتی ہے۔‘‘ 

مرزا کے کھیلنے بلکہ نہ کھیلنے کا انداز دیکھ کرہمیں یقین ہوگیا کہ افسر کا ایک فوٹو نہیں، بلکہ پورا کا پورا البم ان کی آنکھوں میں پھر رہا ہے۔ اس لئے وہ بیٹ کو پوری طاقت کے ساتھ گوپھن کی طرح گھمائے جا رہے تھے۔ تین ادوار اسی طرح خالی گئے اور گیند کو ایک دفعہ بیٹ سے ہم کنار ہونے کاموقع نہیں ملا۔ مرزا کے مسکرانے کا انداز صاف بتارہا تھا کہ وہ اس صورت حال کو بولر کی نا لائقی سے زیادہ اپنے استادانہ ہتھکنڈوں پرمحمول کر رہے ہیں۔ مگر اتفاق سے چوتھے اوور میں ایک گیند سیدھوں سیدھ بیٹ پر جا لگی۔ مرزا پوری طاقت سے بیٹ دور پھینک کر چیخے، 

’’ہاؤز دیٹ؟‘‘ 

امپائر دوڑا دوڑا آیا۔ بیٹ اٹھا کر انہیں پکڑایا اور بڑی مشکل سے سمجھا بجھا کر دوبارہ کھیلنے پر رضا مند کیا۔ 

مصیبت اصل میں یہ تھی کہ مخالف ٹیم کا لمبا تڑنگا بولر، خدا جھوٹ نہ بلوائے، پورے ایک فرلانگ سے ٹہلتا ہوا آتا۔ ایک بارگی جھٹکے کے ساتھ رک کر کھنکارتا، پھر خلاف توقع نہایت تیزی سے گیند پھینکتا۔ اس کے علاوہ حالانکہ صرف دائیں آنکھ سے دیکھ سکتا تھا مگر گیند بائیں ہاتھ سے پھینکتا تھا۔ مرزا کاخیال تھا کہ اس بے ایمان نے یہ چکرا دینے والی صورت انتظاماً بنا رکھی ہے۔لیکن ایک مرزا ہی پرموقوف نہیں کوئی بھی یہ اندازہ نہیں کر سکتا تھا کہ وہ گیند کیسے اور کہاں پھینکے گا بلکہ اس کی صورت دیکھ کر کبھی تو یہ شبہ ہوتا تھا کہ اللہ جانے پھینکےگا بھی یانہیں۔ 

واقعہ یہ ہے کہ اس نے گیند سے اتنے وکٹ نہیں لئے جتنے گیند پھینکنے کے انداز سے۔ بقول مرزا، ’’مشاق بولرسے کوئی خائف نہیں ہوتا۔ وہ زیادہ سے زیادہ وکٹ ہی تو لے سکتا ہے۔ جان تو اناڑی سے نکلتی ہے۔‘‘ سبھی کے چھکے چھوٹ گئے۔ گیند پھینکنے سے پہلے جب وہ اپنی ڈھائی گھڑ کی چال سے لہریا بناتا ہوا آتا تو اچھے اچھوں کے بیٹ ہاتھ کے ہاتھ میں رہ جاتے۔ 

آگے بڑھا کوئی تو کوئی ڈر کے رہ گیا 

سکتے میں کوئی منہ پہ نظر کر کے رہ گیا 

ہر مرتبہ ظالم کچھ ایسے غیر پیشہ ورانہ جذبے اور جوش کے ساتھ کچکچا کے گیند پھینکتا گویا یہ وہ پہلا پتھر ہے جس سے ایک گنہگار دوسرے گنہگار کو سنگسار کرنے جا رہا ہے۔ اس کے باوجود مرزا انتہائی دندان شکن حالات میں ڈنڈے گاڑے کھڑے تھے۔ 

لیکن یہ درست ہے کہ رن نہ بننے کی بڑی وجہ مرزا کے اپنے پینترے تھے ۔ وہ اپنا وکٹ ہتھیلی پر لئے پھر رہے تھے۔ وہ کرتے یہ تھے کہ اگر گیند اپنی طرف آتی ہوتی تو صاف ٹل جاتے۔ لیکن اگر ٹیڑھی آتی دکھائی دیتی تو اس کے پیچھے بیٹ لے کرنہایت جوش و خروش سے دوڑتے (کپتان نے بہتیرا اشاروں سے منع کیا مگر وہ دو دفعہ گیند کو باؤنڈری لائن تک چھوڑنے گئے) البتہ ایک دفعہ جب وہ اپنے بیٹ پر لپ اسٹک سے بنے ہوئے ہونٹوں کو محویت سے دیکھ رہے تھے تو گیند اچانک بیٹ سے آلگی اور وہ چمک کر ہوا میں گیند سے زیادہ اچھلے۔ وکٹ کیپر اگر بڑھ کے بیچ میں نہ پکڑ لیتا تو ایسے اوندھے منہ گرتے کہ ہفتوں اپنی شکل آپ نہ پہچان پاتے۔ 

یوں بھی بعض کھلاڑی گیند کو دیکھتے نہیں، سنتے ہیں یعنی ان کو اپنے قرب وجوار میں گیند کی موجودگی کا احساس پہلے پہل اس آواز سے ہوتا ہے جو گیند اور وکٹ کے ٹکرانے سے پیدا ہوتی ہے۔ 

چند اوور کے بعد کھیل کا رنگ بدلتا نظرآیا اور یوں محسوس ہونے لگا گویا وکٹ گیند کو اپنی جانب اس طرح کھینچ رہا ہے جیسے مقناطیسی لوہےکو۔ ہم نے دیکھا کہ ساتویں اوور کی تیسری گیند پر مرزا نے اپنی مسلح و مسلم ران درمیان میں حائل کر دی۔ سب یک زبان ہوکر چیخ اٹھے، ’’ہاؤز دیٹ۔‘‘ 

’’مرزا نے دانستہ اپنی ٹانگ اس جگہ رکھی جہاں میں ہمیشہ گیند پھینکتا ہوں۔‘‘ بولر نے الزام لگایا۔ 

’’بکواس ہے۔ بات یوں ہے کہ اس نے جان بوجھ کر اس جگہ گیند پھینکی جہاں میں ہمیشہ اپنی ٹانگ رکھتا ہوں۔‘‘ مرزا نے جواب دیا۔ 

’’اگر میرا نشانہ ایساہی ہوتا تو مرزا جی کبھی کے پویلین میں براجمان ہوتے۔‘‘بولر بولا۔ 

’’تو یوں کہو کہ تمہاری گیند وکٹ سے الرجک ہے۔‘‘ مرزا نے کہا۔ 

’’میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ مرزا نے عمداً ٹانگ آگے کی۔‘‘ یک چشم بولر نے حلفیہ کہا۔ 

امپائر نے دونوں کو سمجھایا کہ بحثا بحثی کرکٹ کی اسپرٹ کے خلاف ہے۔ پھریہ فیصلہ صادر فرمایا کہ بیٹس مین کے کھیل کے محتاط اسٹائل سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اگر اسے ذرا بھی احتمال ہوتا کہ گیند اس کی ٹانگ کی طرف آ رہی ہے تو وہ کھٹاک سے وکٹ کو اپنی ٹانگ کے آگے کر دیتا۔ 

اس فیصلہ پر مرزا نے اپنی ٹوپی اچھالی اور جب وہ اپنے مرکز کی طرف واپس آگئی تو پھر کھیل شروع ہوا۔ لیکن دوسرے ہی اوور میں بولر نے گیند ایسی کھینچ کے ماری کہ مرزا کے سر سے ایک آواز (اور منہ سے کئی!) نکلی اور ٹوپی اڑ کر وکٹ کیپر کے قدموں پر جا پڑی۔ 

جب امپائر نے مرزا کو ٹوپی پہنانے کی کوشش کی تو وہ ایک انچ تنگ ہو چکی تھی! اس کے باوجود مرزا خوب جم کر کھیلے اور ایسا جم کے کھیلے کہ ان کی اپنی ٹیم کے پاؤں اکھڑ گئے۔ اس اجمال پرملال کی تفصیل یہ ہے کہ جیسے ہی ان کا ساتھی گیند پر ہٹ لگاتا ویسے ہی مرزا اسے رن بنانے کی پر زور دعوت دیتے اور جب وہ کشاں کشاں تین چوتھا ئی پچ طے کرلیتا تو اسے ڈانٹ ڈپٹ کر، بلکہ دھکیل کر، اپنے وکٹ کی جانب واپس بھیج دیتے۔ مگر اکثر یہی ہوا کہ گیند اس غریب سے پہلے وہاں پہنچ گئی اور وہ مفت میں رن آؤٹ ہو گیا۔ جب مرزا نے یکے بعددیگرے اپنی ٹیم کے پانچ کھلاڑیوں کا بشمول کپتان ذی شان، اس طرح جلوس نکال دیا تو کپتان نے پس ماندگان کو سختی سے تنبیہ کردی کہ خبردار! مرزا کے علاوہ کوئی رن نہ بنائے۔ 

لیکن مرزا آخری وکٹ تک اپنی وضع احتیاط پر ثابت قدمی سے قائم رہے اور ایک رن بنا کے نہیں دیا۔ اس کے باوجود ان کا اسکور اپنی ٹیم میں سب سے اچھا رہا۔ اس لئے کہ رن تو کسی اور نے بھی نہیں بنائے مگر وہ سب آؤٹ ہو گئے۔ اس کے بر عکس مرزا خود کو بڑے فخر کے ساتھ’’ زیرو ناٹ آؤٹ‘‘ بتاتے تھے۔ ناٹ آؤٹ! اور یہ بڑی بات ہے۔ 

کھیل کے مختصر وقفے کے بعد طویل لنچ شروع ہوا۔ جس میں بعض شادی شدہ افسروں نے چھک کے بیئر پی اور اونگھنے لگے۔جنہوں نے نہیں پی وہ ان کی بیویوں سے بدتمیزیاں کرنے لگے۔ جب چائے کے وقت میں کل دس منٹ باقی رہ گئے اور بیرے جھپاک جھپاک پیالیاں لگانے لگے تو مجبوراً کھیل شروع کرنا پڑا۔ دو کھلاڑی امپائر کو سہارا دے کر پچ تک لے گئے اور مرزا نے بولنگ سنبھالی۔ پتہ چلا کہ وہ بولنگ کی اس نایاب صنف میں ید طولیٰ رکھتے ہیں جسے ان کے بد خواہ ’’وائڈبال‘‘ کہنے پر مصر تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہٹ لگے بغیر بھی دھڑا دھڑ رن بننے لگے۔ تین اوور کے بعد یہ حال ہو گیا کہ مرزا ہر گیند پرگالی دینے لگے۔ (شکار میں بھی ان کا سدا سے یہی دستور رہاکہ فائر کرنے سے پہلے دانت پیش کر تیتر کو کوستے ہیں اور فائر کرنے کے بعد بندوق بنانے والے کارخانے کو گالیاں دیتے ہیں۔) 

ہم بولنگ کی مختلف قسموں اورباریکیوں سے واقف نہیں۔ تاہم اتنا ضرور دیکھا کہ جس رفتار سے مرزا وکٹ کی طرف گیند پھینکتے، اس سے چوگنی رفتار سے واپس کردی جاتی۔ وہ تھوڑی دیرکج رفتار گیند کو حیرت اور حسرت سے دیکھتے۔ بار بار اس پر اپنا دایاں کف افسوس ملتے۔ پھر بھدر بھدر دوڑتے اور جب اور جہاں سانس بھر جاتی وہیں اسی لمحے لنجے ہاتھ سے گیند پھینک دیتے۔ 

منہ پھیر کر ادھر کو، ادھر کو بڑھا کے ہاتھ 

ابتدا میں تو مخالف ٹیم ان کی بولنگ کے معیار سے نہایت مطمئن و محظوظ ہوئی۔ لیکن جب اسکے پہلے ہی کھلاڑی نے پندرہ منٹ میں تیس رن بنا ڈالے تو کپتان نے اصرار کیا کہ ہمارے دوسرے بیٹس مین رہے جاتے ہیں۔ ان کو بھی موقع ملنا چاہئے۔ اسلیے آپ اپنا بولر بدلیے۔ 

مرزا بولنگ چھوڑ کر پویلین آگئے۔ مارے خوشی کے کانوں تک باچھیں کھل پڑ رہی تھیں۔ جب وہ اپنی جگہ پر واپس آ گئیں تو منہ ہمارے کان سے بھڑا کر بولے، ’’کہو، پسند آئی؟‘‘ 

’’کون؟ کدھر؟‘‘ ہم نے پوچھا۔ 

ہمارا ہاتھ جھٹک کر بولے، ’’نرے گاؤدی ہو تم بھی! میں کرکٹ کی اسپرٹ کی بات کر رہا ہوں۔‘‘

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget