Top Ad unit 728 × 90

✨📰 خاص مضامین 📰🏅

random

فقیرانہ آئے صدا کر چلے


 فقیرانہ آئے صدا کر چلے 

کہ میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے 

جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم 
سو اس عہد کو اب وفا کر چلے 

شفا اپنی تقدیر ہی میں نہ تھی 
کہ مقدور تک تو دوا کر چلے 

پڑے ایسے اسباب پایان کار 
کہ ناچار یوں جی جلا کر چلے 

وہ کیا چیز ہے آہ جس کے لیے 
ہر اک چیز سے دل اٹھا کر چلے 

کوئی ناامیدانہ کرتے نگاہ 
سو تم ہم سے منہ بھی چھپا کر چلے 

بہت آرزو تھی گلی کی تری 
سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے 

دکھائی دیئے یوں کہ بے خود کیا 
ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے 

جبیں سجدہ کرتے ہی کرتے گئی 
حق بندگی ہم ادا کر چلے 

پرستش کی یاں تک کہ اے بت تجھے 
نظر میں سبھوں کی خدا کر چلے 

جھڑے پھول جس رنگ گلبن سے یوں 
چمن میں جہاں کے ہم آ کر چلے 

نہ دیکھا غم دوستاں شکر ہے 
ہمیں داغ اپنا دکھا کر چلے 

گئی عمر در بند فکر غزل 
سو اس فن کو ایسا بڑا کر چلے 

کہیں کیا جو پوچھے کوئی ہم سے میرؔ 
جہاں میں تم آئے تھے کیا کر چلے 

شاعر: میر تقی میرؔ 

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.