Top Ad unit 728 × 90

✨📰 خاص مضامین 📰🏅

random

دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی


 دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی 

کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی 

کچھ تو نازک مزاج ہیں ہم بھی 
اور یہ چوٹ بھی نئی ہے ابھی 

شور برپا ہے خانۂ دل میں 
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی 

بھری دنیا میں جی نہیں لگتا 
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی 

تو شریک سخن نہیں ہے تو کیا 
ہم سخن تیری خامشی ہے ابھی 

یاد کے بے نشاں جزیروں سے 
تیری آواز آ رہی ہے ابھی 

شہر کی بے چراغ گلیوں میں 
زندگی تجھ کو ڈھونڈتی ہے ابھی 

سو گئے لوگ اس حویلی کے 
ایک کھڑکی مگر کھلی ہے ابھی 

تم تو یارو ابھی سے اٹھ بیٹھے 
شہر میں رات جاگتی ہے ابھی 

وقت اچھا بھی آئے گا ناصرؔ 
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی 

شاعر: ناصر کاظمی
دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی Reviewed by میاں محمد شاہد شریف on جون 27, 2024 Rating: 5

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.