Top Ad unit 728 × 90

✨📰 خاص مضامین 📰🏅

random

توڑ دی اس نے وہ زنجیر ہی دل داری کی


 توڑ دی اس نے وہ زنجیر ہی دل داری کی 

اور تشہیر کرو اپنی گرفتاری کی 

ہم تو صحرا ہوئے جاتے تھے کہ اس نے آ کر 
شہر آباد کیا نہر صبا جاری کی 

ہم بھی کیا شے ہیں طبیعت ملی سیارہ شکار 
اور تقدیر ملی آہوئے تاتاری کی 

اتنا سادہ ہے مرا مایۂ خوبی کہ مجھے 
کبھی عادت نہ رہی آئنہ برداری کی 

مرے گم گشتہ غزالوں کا پتہ پوچھتا ہے 
فکر رکھتا ہے مسیحا مری بیماری کی 

اس کے لہجے میں کوئی چیز تو شامل تھی کہ آج 
دل پہ اس حرف عنایت نے گراں باری کی 

شاعر: عرفان صدیقی

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.