" سورۃ النور "
آیت نمبر: 27
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّىٰ تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَىٰ أَهْلِهَا ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
ترجمہ:اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں داخل نہ ہو، یہاں تک کہ انس معلوم کرلو اور ان کے رہنے والوں کو سلام کہو۔ یہ تمھارے لیے بہتر ہے، تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔
تفسیر:
1۔ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتًا....: سورت کے شروع سے زنا اور بہتان کی حد اور ان کی مذمت کا بیان آ رہا ہے، اب ان احکام کا ذکر شروع ہوتا ہے جن سے مردوں اور عورتوں کے ایسے میل جول کی روک تھام ہوتی ہے جو زنا اور بہتان کا سبب بنتا ہے۔ ان احکام میں گھروں میں داخلے کی اجازت، نظر کی حفاظت، پردے اور نکاح کی تاکید اور قحبہ گری سے ممانعت جیسے آداب شامل ہیں۔
2۔ غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ : یعنی صرف اپنے گھروں میں داخلے کے لیے اجازت کی ضرورت نہیں، جہاں آدمی اکیلا رہتا ہو، یا بیوی کے ساتھ رہتا ہو۔ اگرچہ افضل یہی ہے کہ وہاں داخلے سے پہلے بھی کسی طرح گھر والوں کو اپنی آمد سے آگاہ کر دیا جائے، ممکن ہے وہ ایسی حالت میں ہوں جس میں خاوند کا دیکھنا انھیں پسند نہ ہو۔ چنانچہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب بیان کرتی ہیں: ((كَانَ عَبْدُ اللّٰهِ إِذَا جَاءَ مِنْ حَاجَةٍ فَانْتَهٰی إِلَی الْبَابِ تَنَحْنَحَ وَ بَزَقَ كَرَاهَةَ أَنْ يَّهْجُمَ مِنَّا عَلٰی أَمْرٍ يَكْرَهُهُ )) [ ابن جریر : ۲۶۱۳۱ ] ’’عبد اللہ (رضی اللہ عنہ ) جب کسی کام سے فارغ ہو کر گھر آتے تو دروازے پر آ کر کھانستے اور تھوکتے کہ کہیں ان کی نظر ہماری کسی ایسی چیز پر نہ پڑ جائے جو انھیں نا پسند ہو۔‘‘ ابن کثیر نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِذَا أَطَالَ أَحَدُكُمُ الْغَيْبَةَ فَلَا يَطْرُقْ أَهْلَهُ لَيْلًا )) [ بخاري، النکاح، باب لا یطرق أھلہ.....: ۵۲۴۴ ] ’’جب تم میں سے کوئی شخص زیادہ عرصہ گھر سے غائب رہے تو گھر والوں کے پاس رات کے وقت نہ آئے۔‘‘ مسلم میں یہ الفاظ زائد ہیں: ((نَهٰی رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ أَنْ يَّطْرُقَ الرَّجُلُ أَهْلَهُ لَيْلًا يَتَخَوَّنُهُمْ أَوْ يَلْتَمِسُ عَثَرَاتِهِمْ )) [ مسلم، الإمارۃ، باب کراھیۃ الطروق....:184؍715، قبل ح : ۱۹۲۹ ] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (زیادہ عرصہ گھر سے غائب رہنے والے شخص کو) منع فرمایا کہ وہ گھر والوں کی خیانت یا ان کی غلطی کی تلاش کے لیے رات کو (اچانک) ان کے پاس آئے۔‘‘
3۔ ’’ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا ‘‘ کا لفظی ترجمہ ہے ’’یہاں تک کہ تم انس حاصل کر لو۔‘‘ اس لیے اس میں نہ صرف اجازت حاصل کرنے کا مفہوم شامل ہے، بلکہ یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ تم معلوم کر لو کہ گھر میں کوئی ہے بھی یا نہیں اور ہے تو اسے تمھارا آنا ناگوار تو نہیں ہے؟
4۔ اجازت مانگنے کا طریقہ، بنو عامر کا ایک آدمی آیا اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت طلب کی، کہنے لگا : ’’کیا میں اندر آ جاؤں؟‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خادم سے کہا : ’’اس کے پاس جاؤ اور اسے اجازت مانگنے کا طریقہ سکھاؤ کہ وہ اس طرح کہے: ((اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَ أَدْخُلُ؟ )) ’’السلام علیکم، کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟‘‘ اس آدمی نے یہ بات سن لی اور کہا : ((اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَ أَدْخُلُ؟)) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دے دی اور وہ داخل ہو گیا۔‘‘ [ أبوداؤد، الأدب، باب کیف الاستئذان ؟ : ۵۱۷۷ ]
کَلَدہ بن حنبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ’’میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور آپ کے پاس سیدھا چلا آیا، میں نے نہ سلام کہا ( اور نہ اجازت مانگی)، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِرْجِعْ فَقُلْ اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ )) [ أبوداؤد، الأدب، باب کیف الاستئذان؟ : ۵۱۷۶، صححہ الألباني ] ’’واپس جاؤ اور کہو السلام علیکم۔‘‘
5۔ اجازت زیادہ سے زیادہ تین مرتبہ مانگے، اگر اجازت نہ ملے تو واپس چلا جائے۔ [ دیکھیے بخاري، الاستئذان، باب التسلیم و الاستئذان ثلاثا : ۶۲۴۵، عن أبي موسٰی رضی اللّٰہ عنہ ]
6۔ دروازہ کھٹکھٹانے یا سلام کہنے پر اگر گھر والے پوچھیں، کون ہے تو اپنا نام بتائے۔ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک قرض کے سلسلے میں حاضر ہوا، جو میرے والد کے ذمے تھا، میں نے دروازہ کھٹکھٹایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ((مَنْ ذَا؟ فَقُلْتُ أَنَا، فَقَالَ أَنَا أَنَا )) ’’کون ہے؟‘‘ میں نے کہا : ’’میں ہوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میں، میں۔‘‘ گویا آپ نے اسے ناپسند فرمایا۔ [ بخاري، الاستئذان، باب إذا قال من ذا؟ فقال أنا : ۶۲۵۰ ]
7۔ ہزیل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک آدمی آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے کے سامنے کھڑا ہو کر اجازت مانگنے لگا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((هٰكَذَا عَنْكَ أَوْ هٰكَذَا، فَإِنَّمَا الْاِسْتِئْذَانُ مِنَ النَّظَرِ )) [ أبوداؤد، الأدب، باب کیف الاستئذان ؟ : ۵۱۷۴، صححہ الألباني ] ’’اس طرف ہو جاؤ یا اس طرف، کیونکہ دیکھنے ہی کی وجہ سے اجازت مانگی جاتی ہے۔‘‘
8۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَوِ اطَّلَعَ فِيْ بَيْتِكَ أَحَدٌ وَ لَمْ تَأْذَنْ لَهُ خَذَفْتَهُ بِحَصَاةٍ فَفَقَأْتَ عَيْنَهُ مَا كَانَ عَلَيْكَ مِنْ جُنَاحٍ )) [ بخاري، الدیات، باب من أخذ حقہ....: ۶۸۸۸ ] ’’اگر کوئی آدمی تیرے گھر میں جھانکے، جبکہ تو نے اجازت نہ دی ہو اور تو کنکری پھینک کر اس کی آنکھ پھوڑ دے تو تجھ پر کچھ گناہ نہ ہو گا۔‘‘ ایسی صورت میں آنکھ پھوڑنے پر نہ قصاص ہے، نہ دیت۔
9۔ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ....: یعنی ان آداب میں دونوں طرف کا فائدہ ہے، اجازت مانگنے والے کا بھی اور گھر والوں کا بھی۔ (ابن کثیر) ’’ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ ‘‘ تاکہ تم نصیحت حاصل کرو کہ جس طرح تمھیں دوسروں کا بلااجازت آ گھسنا برا محسوس ہوتا ہے، اسی طرح دوسروں کو تمھارا بلااجازت در آنا بھی برا محسوس ہوتا ہے۔ افسوس کہ مسلمانوں نے اجازت مانگنے کے حکم پر عمل کرنا چھوڑ دیا۔ (الا ما شاء اللہ) رشتہ داروں، ہمسایوں بلکہ اجنبیوں تک کے گھروں میں آنے جانے کے لیے اجازت کی ضرورت ہی نہیں رہی، اس پر مزید عام بے پردگی اور بے لباسی سے بدتر لباس ہے، جس سے مسلم معاشرے میں بے حیائی کا سیلاب آ رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں بدکاری، بدگمانی، تہمت تراشی، رقابت، قتل و غارت اور دوسری برائیاں پھیل رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی حدود اور اپنے احکام پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ ( آمین )
آیت نمبر: 28
فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فِيهَا أَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوهَا حَتَّىٰ يُؤْذَنَ لَكُمْ ۖ وَإِن قِيلَ لَكُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا ۖ هُوَ أَزْكَىٰ لَكُمْ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ
ترجمہ:پھر اگر تم ان میں کسی کو نہ پاؤ تو ان میں داخل نہ ہو، یہاں تک کہ تمھیں اجازت دی جائے اور اگر تم سے کہا جائے واپس چلے جاؤ تو واپس ہوجاؤ، یہ تمھارے لیے زیادہ پاکیزہ ہے اور اللہ جو کچھ تم کرتے ہو، اسے خوب جاننے والا ہے۔
تفسیر:
1۔ فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فِيْهَا اَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوْهَا : یعنی اگر گھر میں کوئی موجود نہ ہو تو اس سے تمھارے لیے بغیر اجازت وہاں داخلہ جائز نہیں ہو جاتا۔ ہر آدمی جس طرح اپنی ذاتی حالتوں میں سے بعض حالتوں پر کسی کا مطلع ہونا پسند نہیں کرتا اسی طرح وہ اپنی بعض چیزوں پر بھی کسی کے مطلع ہونے کو پسند نہیں کرتا اور عین ممکن ہے کہ بلااجازت گھس جانے سے تم پر چوری یا خیانت کا الزام لگ جائے اور جھگڑا پیدا ہو جائے۔ ہاں، اگر اس نے اجازت دے رکھی ہو کہ میں گھر میں نہ ہوں تو تم آ جاؤ تو وہاں جانے میں کوئی حرج نہیں۔
2۔ وَ اِنْ قِيْلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا: یعنی اگر تمھیں واپس جانے کے لیے کہا جائے تو واپس ہو جاؤ، نہ غصہ کرو، نہ کبر کی وجہ سے تنگی یا بے عزتی محسو س کرو، کیونکہ گھر والے نے تمھارا کوئی ایسا حق نہیں روکا جو اس پر واجب ہو، وہ اجازت کا اختیار رکھتا ہے، چاہے دے یا نہ دے، لوگوں کے اپنے اپنے حالات ہوتے ہیں، کسی کو کیا خبر کہ کوئی کس حال میں ہے۔
3۔ هُوَ اَزْكٰى لَكُمْ: یعنی تمھارا واپس آ جانا تمھارے لیے زیادہ عزت اور پاکیزگی کا باعث ہے، کیونکہ اس طرح تم کسی کے دروازے پر کھڑے رہنے کی بے قدری سے بچ جاؤ گے، واپس چلے آنے سے صاحب خانہ کے دل میں تمھاری حیا ہو گی اور سب سے بڑھ کر اللہ کی طرف سے اجر ہے۔
4۔ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ: اس میں جاسوسی یا کسی بری نیت سے کسی گھر میں داخل ہونے پر وعید ہے۔
5۔ طبری نے بعض مہاجرین سے نقل کیا ہے کہ میری ساری عمر یہ آرزو رہی ہے کہ میں کسی کے گھر جاؤں اور اندر سے مجھے یہ جواب ملے کہ واپس چلے جاؤ اور میں واپس چلا آؤں، تاکہ مجھے اس آیت پر کم از کم ایک مرتبہ تو عمل کرنے کی سعادت نصیب ہو جائے۔
آیت نمبر: 29
لَّيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ مَسْكُونَةٍ فِيهَا مَتَاعٌ لَّكُمْ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا تَكْتُمُونَ
ترجمہ:تم پر کوئی گناہ نہیں کہ ان گھروں میں داخل ہو جن میں رہائش نہیں کی گئی، جن میں تمھارے فائدے کی کوئی چیز ہو اور اللہ جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے ہو۔
تفسیر:
1۔ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْرَ مَسْكُوْنَةٍ....: یعنی ایسے مکان جو کسی کے رہنے کی جگہیں نہ ہوں اور ان سے تمھارا کوئی فائدہ یا کوئی ضرورت وابستہ ہو اور وہ ہر خاص و عام کے لیے کھلے ہوں تو ان کے اندر بلااجازت داخل ہونے میں تم پر کوئی گناہ نہیں، جیسے اسٹیشن، بسوں کے اڈے، مساجد، کھانے پینے اور رہائش کے ہوٹل، مسافر خانے، دکانیں اور وہ مہمان خانے جن میں جانے کی ایک دفعہ اجازت مل چکی ہو۔ اسی طرح وہ مکانات جو بے آباد، ویران اور اجڑے پڑے ہوں ان کے اندر آرام کر لینا، سایہ حاصل کرنا اور رات گزارنا وغیرہ جائز ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جن مکانوں میں آدمی کا کوئی فائدہ، مقصد یا ضرورت نہ ہو وہاں نہیں جانا چاہیے۔
2۔ وَ اللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَ مَا تَكْتُمُوْنَ : یعنی اللہ تعالیٰ تمھارے ظاہر اور پوشیدہ اعمال جانتا ہے، اسے خوب معلوم ہے کہ کسی جگہ جانے میں تمھاری نیت کیا ہے۔
آیت نمبر: 30
قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ
ترجمہ:مومن مردوں سے کہہ دے اپنی کچھ نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔ بے شک اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے جو وہ کرتے ہیں۔
تفسیر:
1۔ قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ: ’’غَضَّ طَرْفَهُ، خَفَضَهُ‘‘ ’’اس نے اپنی آنکھ نیچی کر لی۔‘‘ دوسرا معنی ہے ’’نَقَصَ وَ وَضَعَ مِنْ قَدْرِهِ‘‘ ’’اس نے فلاں کی قدر کم کی۔‘‘ (قاموس) زنا اور بہتان سے محفوظ رکھنے کے لیے گھروں میں داخلے کے آداب بیان فرمانے کے بعد نظر کی حفاظت کا حکم دیا، کیونکہ آدمی کے دل کا دروازہ یہی ہے اور تمام شہوانی فتنوں کا آغاز عموماً یہیں سے ہوتا ہے۔ احمد شوقی نے کہا ہے : ’’نَظْرَةٌ فَابْتِسَامَةٌ فَسَلَامٌ فَكَلَامٌ فَمَوْعِدٌ فَلِقَاءٌ‘‘ ’’نظر ملتی ہے، پھر مسکراہٹ، پھر سلام، پھر گفتگو، پھر وعدہ اور پھر ملاقات تک بات جا پہنچتی ہے۔‘‘
2۔ اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے ’’ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ‘‘ کے ساتھ براہ راست مخاطب فرمایا ہے، جیسا کہ ’’ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ ‘‘ اور ’’ لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ ‘‘ سے پہلے ہے، یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا : ’’مومن مردوں سے کہہ دے‘‘ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ نظر کا معاملہ نہایت خطرناک ہے اور اسے روکنا نہایت مشکل کام ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے شہنشاہانہ جلال کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ مومن مردوں سے کہہ دے اور مومن عورتوں سے کہہ دے۔ (البقاعی) (واللہ اعلم)
3۔ ’’ قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ ‘‘ میں’’ مِنْ ‘‘ تبعیض کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ’’مومن مردوں سے کہہ دے اپنی کچھ نگاہیں نیچی رکھیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ کا حکم یہ نہیں کہ کسی چیز کو بھی نظر بھر کر نہ دیکھو، راستہ چلتے ہوئے بھی نگاہ مت اٹھاؤ، بلکہ حکم کچھ نگاہیں نیچی رکھنے کا ہے اور مراد ان چیزوں سے نگاہ نیچی رکھنا ہے جن کی طرف نگاہ بھر کر دیکھنا اللہ تعالیٰ نے حرام فرمایا ہے، مثلاً اپنی بیوی اور محرم رشتوں کے سوا عورتوں کو دیکھنا، کسی ڈاڑھی کے بغیر لڑکے کو شہوت کی نظر سے دیکھنا، یا کسی کا خط یا وہ چیز دیکھنا جسے وہ چھپانا چاہتا ہے وغیرہ۔
4۔ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ : بلا ارادہ پڑنے والی پہلی نظر معاف ہے، گناہ اس نظر پر ہے جو جان بوجھ کر ڈالی جائے۔ نظر کا ذکر خصوصاً فرمایا، کیونکہ عموماً زنا کی ابتدا اس سے ہوتی ہے، ورنہ زنا سارے حواس ہی سے ہوتا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّ اللّٰهُ كَتَبَ عَلَی ابْنِ آدَمَ حَظَّهُ مِنَ الزِّنَا أَدْرَكَ ذٰلِكَ لَا مَحَالَةَ فَزِنَا الْعَيْنِ النَّظَرُ وَ زِنَا اللِّسَانِ الْمَنْطِقُ وَالنَّفْسُ تَتَمَنّٰی وَ تَشْتَهِيْ وَالْفَرْجُ يُصَدِّقُ ذٰلِكَ كُلَّهُ وَ يُكَذِّبُهُ )) [ بخاري، الاستئذان، باب زنا الجوارح دون الفرج : ۶۲۴۳ ] ’’اللہ تعالیٰ نے ابن آدم پر زنا میں سے اس کا حصہ لکھ دیا ہے، جسے وہ لامحالہ حاصل کرے گا، چنانچہ آنکھ کا زنا دیکھنا ہے، زبان کا زنا بولنا ہے اور نفس تمنا اور خواہش کرتا ہے اور شرم گاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب کر دیتی ہے۔‘‘
جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اچانک نظر کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں اپنی نظر ہٹا لوں۔‘‘ [ مسلم، الآداب، باب نظر الفجائۃ : ۲۱۵۹ ] البتہ ضرورت کے لیے غیر محرم عورت کو دیکھ سکتا ہے، مثلاً اس سے نکاح کا ارادہ ہو، یا طبی ضرورت ہو، یا کسی حادثہ کی وجہ سے ضرورت پڑ جائے۔ اللہ نے فرمایا: ﴿وَ قَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَيْهِ﴾ [الأنعام : ۱۱۹ ] ’’حالانکہ بلاشبہ اس نے تمھارے لیے وہ چیزیں کھول کر بیان کر دی ہیں جو اس نے تم پر حرام کی ہیں، مگر جس کی طرف تم مجبور کر دیے جاؤ۔‘‘
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا يَنْظُرُ الرَّجُلُ إِلٰی عَوْرَةِ الرَّجُلِ وَلَا الْمَرْأَةُ إِلٰی عَوْرَةِ الْمَرْأَةِ وَ لَا يُفْضِی الرَّجُلُ إِلَی الرَّجُلِ فِيْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ وَلَا تُفْضِی الْمَرْأَةُ إِلَی الْمَرْأَةِ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ )) [مسلم، الحیض، باب تحریم النظر إلی العورات : ۳۳۸ ] ’’کوئی مرد دوسرے مرد کی شرم گاہ نہ دیکھے، نہ ہی کوئی عورت کسی عورت کی شرم گاہ دیکھے۔ نہ کوئی مرد کسی مرد کے ساتھ ایک کپڑے میں لیٹے اور نہ کوئی عورت کسی عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں لیٹے۔‘‘
5۔ مرد کے لیے اپنی بیوی یا لونڈی کے جسم کا ہر حصہ دیکھنا جائز ہے، اسی طرح بیوی کے لیے اپنے خاوند کے جسم کا اور لونڈی کے لیے اپنے مالک کے جسم کا ہر حصہ دیکھنا جائز ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ﴾ [البقرۃ : ۱۸۷ ] ’’وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔‘‘ ظاہر ہے کہ لباس سے جسم کا کوئی حصہ پوشیدہ نہیں رہتا۔ ابن ماجہ (۶۶۲) میں عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی حدیث کہ میں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شرم گاہ نہیں دیکھی، سند کے لحاظ سے ثابت نہیں، کیونکہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت کرنے والا راوی مجہول ہے۔ اس کے برعکس عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں : ’’میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے، ہمارے ہاتھ اس میں باری باری آتے جاتے تھے۔‘‘ ایک روایت میں ہے : ’’ہم جنبی ہوتے تھے۔‘‘ [ بخاري، الغسل، باب ھل یدخل الجنب یدہ.....: ۲۶۱، ۲۶۳ ]
6۔ وَ يَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ:يہاں ’’مِنْ‘‘ استعمال نہیں فرمایا کہ اپنی کچھ شرم گاہوں کی حفاظت کریں، بلکہ فرمایا، اپنی شرم گاہوں کی مکمل حفاظت کریں، کیونکہ نظر سے مکمل بچاؤ ممکن نہ تھا۔
7۔ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا يَصْنَعُوْنَ : وہ اس حکم پر عمل کرنے والوں کو جزا دے گا اور عمل نہ کرنے والوں کو سزا دے گا، خواہ ان کی نیکی یا بدی سے کوئی آگاہ ہو یا آگاہ نہ ہو، جو کچھ وہ کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح واقف ہے۔ فرمایا: ﴿يَعْلَمُ خَآىِٕنَةَ الْاَعْيُنِ وَ مَا تُخْفِي الصُّدُوْرُ﴾ [المؤمن : ۱۹ ] ’’وہ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے اور اسے بھی جو سینے چھپاتے ہیں۔‘‘