مکی سورت ہے۔ پینتالیس آیتوں اور تین رکوع پر مشتمل ہے۔
اس مختصر سورت میں توحید و رسالت اور بعث بعد الموت کے تینوں عقیدے پوری آب و تاب کے ساتھ مذکور ہیں۔
قرآن کریم کی عظمت کے بیان کے ساتھ ہی اس حقیقت سے پردہ اٹھایا گیا ہے کہ منکرین کے انکارِ قرآن کی وجہ مرنے کے بعد زندہ ہونے کے عقیدہ کا بیان ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ گوشت پوست کے بوسیدہ ہو کر ذرات کی شکل میں ہواؤں کی لہروں، پانی کی موجوں اور زمین کی پنہائیوں اور فضاء کی وسعتوں میں بکھرنے کے بعد ان کے ذرات کو علیحدہ علیحدہ شناخت کر کے کس طرح جمع کیا جائے گا؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس ایسی محفوظ کتاب ہے جس میں ہر ایک کے اجزاء اور ذرات کی تفصیل اس طرح مذکور ہے کہ وہ زمین میں جہاں بھی چھپ جائے یا بکھر کر غائب ہو جائے تو وہ ہمارے علم میں رہتا ہے اور اسے جمع کر کے دوبارہ انسان بنا دینا ہمارے لئے کوئی مشکل نہیں ہے۔
پھر توحید پر کائناتی شواہد اور رسالت پر واقعاتی حقائق سے استدلال کر کے بتایا ہے کہ انبیاء و رسل کے انکار پر پہلی قوموں کی طرح مشرکین مکہ کا مقدر بھی ہلاکت و تباہی بن سکتی ہے۔
اس کے بعد جہنم کا تذکرہ اور اللہ کی قدرت کا بیان ہے کہ ساتوں آسمان اور زمین جیسی عظیم مخلوقات کو بنا کر بھی وہ نہیں تھکا تو انسان کو دوبارہ بنانے سے وہ کیسے تھک جائے گا۔
موت و حیات اللہ ہی کے قبضۂ قدرت میں ہونے کے اعلان کے ساتھ ہی اس بات کی تلقین پر سورت کا اختتام کیا گیا ہے کہ اپنی وعظ و تبلیغ کی بنیاد قرآن کریم کو بنا کر اللہ کے وعدے اور وعیدیں لوگوں کو سنائی جائیں۔
٭٭٭