مکی سورت ہے۔ پچپن آیتوں اور تین رکوع پر مشتمل ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو اس سورت کا مرکزی مضمون ’’اثبات رسالت‘‘ معلوم ہوتا ہے۔
سورت کی ابتداء حضورﷺ کے ’’چاند کو دو ٹکڑے کرنے‘‘ کے معجزہ سے کی گئی ہے، جسے قرآن کریم ’’شق القمر‘‘ کہتا ہے۔
مشرکین کا کہنا تھا کہ جادو کا اثر آسمان پر نہیں ہوتا، لہٰذا اگر آپ چاند دو ٹکڑے کر دیں تو ہم آپ کو ’’جادو گر‘‘ قرار دینے کے بجائے نبی تسلیم کر لیں گے۔ مگر وہ ہٹ دھرم اس معجزہ کو دیکھ کر بھی کہنے لگے کہ ’’محمد کا جادو تو آسمان پر بھی چل گیا‘‘ ۔
پھر قیامت کے ہولناک دن کی یاد دلا کر مشرکین کو بتایا گیا کہ اس دن تمہاری نگاہیں جھکی کی جھکی رہیں گی اور تمہاری زبانیں اس دن کی شدت کا برملا اعتراف کریں گی۔
پھر مشرکین مکہ کو حق کے انکار کے بدترین نتائج پر متنبہ کرنے کے لئے امم ماضیہ کا تذکرہ شروع کر دیا۔
حضرت نوحؑ کی ’’ہزار سالہ جد و جہد‘‘ قوم کی گستاخی اور تکذیب پر بارگاہ الٰہی میں عاجزانہ دعاء اور مدد کی درخواست جو کسی بھی دور کے پریشان حال انسان کی مشکلات کے حل کے لئے مقبول دعاء کا درجہ رکھتی ہے ’’رَبِّ اِنِّی مَغلُوبٌ فَاَنتَصِر“ اور اس کے نتیجہ میں اہل ایمان کی ’’کشتی کے ذریعے‘‘ نجات اور آسمان سے برسنے اور زمین سے ابلنے والے پانی کے سیلاب میں قوم کی غرقابی اور تباہی کو بیان کیا۔
اس کے بعد عاد و ثمود و قوم لوط و فرعون جو اپنے اپنے دور میں طاقت و قوت، ہنر اور ٹیکنالوجی، مستحکم معیشت اور مضبوط سیاسی نظام کے نمائندے تھے۔ ان کی تکذیب و نافرمانی پر ہلاکت و تباہی کی مثال پیش کر کے کافروں کو وعید اور اہل ایمان کو بشارت اور تسلی دی کہ ’’دعوت حق‘‘ کے مخالفین کتنے با اثر اور مستحکم کیوں نہ ہوں اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکتے، لہٰذا مشرکین مکہ پر بھی ایک دن آنے والا ہے جب یہ شکست کھا کر میدان (بدر) سے راہ فرار اختیار کرنے پر ہی عافیت سمجھیں گے۔
پھر مجرمین کے قیامت کے دن بدترین انجام کے ساتھ بتایا کہ متقی باغات اور نہروں کے خوشنما منظر میں اپنے رب کے ہاں با عزت مقام اور بہترین انجام سے سرفراز ہوں گے۔
٭٭٭