اپریل 2011
!حضرت محمد ﷺ ابراہیم جلیس ابن انشا ابن حبان ابو حمزہ عبدالخالق صدیقی ابوداؤد اپنے محبوب ﷺ کو پہچانئے احکامِ الصلوة احکام و مسائل احمد اشفاق احمد جمال پاشا احمد مشتاق اختر شیرانی اذکار و وظائف اردو ادب اردو کہانیاں ارشاد خان سکندر ارشد عبد الحمید اسلم انصاری اسلم راہی اسماء الحسنیٰﷻ اسماء المصطفیٰ ﷺ اصلاحی ویڈیو اظہر ادیب افتخار عارف افتخار فلک کاظمی اقبال ساجد اکاؤنٹنگ اکاؤنٹنگ اردو کورس اکاؤنٹنگ ویڈیو کورس اردو اکبر الہ آبادی الکا مشرا الومیناٹی امام ابو حنیفہ امجد اسلام امجد امۃ الحئی وفا ان پیج اردو انبیائے کرام انٹرنیٹ انجینئرنگ انفارمیشن ٹیکنالوجی انیس دہلوی اوبنٹو او ایس اور نیل بہتا رہا ایپل ایپلیکیشنز ایچ ٹی ایم ایل ایڈوب السٹریٹر ایڈوب فوٹو شاپ ایکسل ایم ایس ورڈ ایموجیز اینڈرائڈ ایوب رومانی آبرو شاہ مبارک آپ بیتی آج کی ایپ آج کی آئی ٹی ٹِپ آج کی بات آج کی تصویر آج کی ویڈیو آرٹیفیشل انٹیلیجنس آرٹیفیشل انٹیلیجنس کورس آسان ترجمہ قرآن آفتاب حسین آلوک شریواستو آؤٹ لُک آئی ٹی اردو کورس آئی ٹی مسائل کا حل باصر کاظمی باغ و بہار برین کمپیوٹر انٹرفیس بشیر الدین احمد دہلوی بشیر بدر بشیر فاروقی بلاگر بلوک چین اور کریپٹو بھارت چند کھنہ بھلے شاہ پائتھن پروٹون پروفیسر مولانا محمد یوسف خان پروگرامنگ پروین شاکر پطرس بخاری پندونصائح پوسٹ مارٹم پیر حبیب اللہ خان نقشبندی تاریخی واقعات تجربات تحقیق کے دریچے ترکی زبان سیکھیں ترمذی شریف تلوک چند محروم توحید تہذیب حافی تہنیت ٹپس و ٹرکس ثروت حسین جاوا اسکرپٹ جگر مراد آبادی جمادی الاول جمادی الثانی جہاد جیم جاذل چچا چھکن چودھری محمد علی ردولوی حاجی لق لق حالاتِ حاضرہ حج حذیفہ بن یمان حسرتؔ جے پوری حسرتؔ موہانی حسن بن صباح حسن بن صباح اور اسکی مصنوعی جنت حسن عابدی حسن نعیم حضرت ابراہیم  حضرت ابو ہریرہ حضرت ابوبکر صدیق حضرت اُم ایمن حضرت امام حسینؓ حضرت ثابت بن قیس حضرت دانیال حضرت سلیمان ؑ حضرت عثمانِ غنی حضرت عُزیر حضرت علی المرتضیٰ حضرت عمر فاروق حضرت عیسیٰ  حضرت معاویہ بن ابی سفیان حضرت موسیٰ  حضرت مہدیؓ حکیم منظور حماد حسن خان حمد و نعت حی علی الفلاح خالد بن ولید خالد عرفان خالد مبشر ختمِ نبوت خطبات الرشید خطباتِ فقیر خلاصۂ قرآن خلیفہ دوم خواب کی تعبیر خوارج داستان ایمان فروشوں کی داستانِ یارِ غار والمزار داغ دہلوی دجال درسِ حدیث درسِ قرآن ڈاکٹر عبدالحمید اطہر ندوی ڈاکٹر ماجد دیوبندی ڈاکٹر نذیر احمد ڈیزائننگ ذوالحجۃ ذوالقعدۃ راجیندر منچندا بانی راگھویندر دیویدی ربیع الاول ربیع الثانی رجب رزق کے دروازے رشید احمد صدیقی رمضان روزہ رؤف خیر زاہد شرجیل زکواۃ زید بن ثابت زینفورو ساغر خیامی سائبر سکیورٹی سائنس و ٹیکنالوجی سپلائی چین منیجمنٹ سچائی کی تلاش سراج لکھنوی سرشار صدیقی سرفراز شاہد سرور جمال سسٹم انجینئر سفرنامہ سلطان اختر سلطان محمود غزنوی سلیم احمد سلیم صدیقی سنن ابن ماجہ سنن البیہقی سنن نسائی سوال و جواب سورۃ الاسراء سورۃ الانبیاء سورۃ الکہف سورۃ الاعراف سورۃ ابراہیم سورۃ الاحزاب سورۃ الاخلاص سورۃ الاعلیٰ سورۃ الانشقاق سورۃ الانفال سورۃ الانفطار سورۃ البروج سورۃ البقرۃ سورۃ البلد سورۃ البینہ سورۃ التحریم سورۃ التغابن سورۃ التکاثر سورۃ التکویر سورۃ التین سورۃ الجاثیہ سورۃ الجمعہ سورۃ الجن سورۃ الحاقہ سورۃ الحج سورۃ الحجر سورۃ الحجرات سورۃ الحدید سورۃ الحشر سورۃ الدخان سورۃ الدہر سورۃ الذاریات سورۃ الرحمٰن سورۃ الرعد سورۃ الروم سورۃ الزخرف سورۃ الزلزال سورۃ الزمر سورۃ السجدۃ سورۃ الشعراء سورۃ الشمس سورۃ الشوریٰ سورۃ الصف سورۃ الضحیٰ سورۃ الطارق سورۃ الطلاق سورۃ الطور سورۃ العادیات سورۃ العصر سورۃ العلق سورۃ العنکبوت سورۃ الغاشیہ سورۃ الغافر سورۃ الفاتحہ سورۃ الفتح سورۃ الفجر سورۃ الفرقان سورۃ الفلق سورۃ الفیل سورۃ القارعہ سورۃ القدر سورۃ القصص سورۃ القلم سورۃ القمر سورۃ القیامہ سورۃ الکافرون سورۃ الکوثر سورۃ اللہب سورۃ اللیل سورۃ الم نشرح سورۃ الماعون سورۃ المآئدۃ سورۃ المجادلہ سورۃ المدثر سورۃ المرسلات سورۃ المزمل سورۃ المطففین سورۃ المعارج سورۃ الملک سورۃ الممتحنہ سورۃ المنافقون سورۃ المؤمنون سورۃ النازعات سورۃ الناس سورۃ النباء سورۃ النجم سورۃ النحل سورۃ النساء سورۃ النصر سورۃ النمل سورۃ النور سورۃ الواقعہ سورۃ الھمزہ سورۃ آل عمران سورۃ توبہ سورۃ سباء سورۃ ص سورۃ طٰہٰ سورۃ عبس سورۃ فاطر سورۃ فصلت سورۃ ق سورۃ قریش سورۃ لقمان سورۃ محمد سورۃ مریم سورۃ نوح سورۃ ہود سورۃ یوسف سورۃ یونس سورۃالانعام سورۃالصافات سورۃیٰس سورة الاحقاف سوشل میڈیا سی ایس ایس سی پلس پلس سید امتیاز علی تاج سیرت النبیﷺ شاہد احمد دہلوی شاہد کمال شجاع خاور شرح السنۃ شعب الایمان - بیہقی شعبان شعر و شاعری شفیق الرحمٰن شمشیر بے نیام شمیم حنفی شوال شوق بہرائچی شوکت تھانوی صادق حسین صدیقی صحابہ کرام صحت و تندرستی صحیح بُخاری صحیح مسلم صفر صلاح الدین ایوبی طارق بن زیاد طالب باغپتی طاہر چوھدری ظفر اقبال ظفرتابش ظہور نظر ظہیر کاشمیری عادل منصوری عارف شفیق عاصم واسطی عامر اشرف عبادات و معاملات عباس قمر عبد المالک عبداللہ فارانی عبید اللہ علیم عذرا پروین عرفان صدیقی عزم بہزاد عُشر عُشر کے احکام عطاء رفیع علامہ اقبال علامہ شبلی نعمانیؒ علی بابا عمر بن عبدالعزیز عمران جونانی عمرو بن العاص عنایت اللہ التمش عنبرین حسیب عنبر غالب ایاز غزہ فاتح اُندلس فاتح سندھ فاطمہ حسن فائر فاکس، فتنے فرحت عباس شاہ فرقت کاکوروی فری میسن فریدہ ساجد فلسطین فیض احمد فیض فینکس او ایس قتیل شفائی قربانی قربانی کے احکام قیامت قیوم نظر کاتب وحی کامٹیزیا ویڈیو ایڈیٹر کرشن چندر کرنل محمد خان کروم کشن لال خنداں دہلوی کلیم عاجز کنہیا لال کپور کوانٹم کمپیوٹنگ کورل ڈرا کوئز 1447 کوئز 2025 کیا آپ جانتے ہیں؟ کیف بھوپالی کیلیگرافی و خطاطی کینوا ڈیزائن کورس گوگل گیمز گینٹ چارٹس لائبریری لینکس متفرق مجاہد بن خلیل مجتبیٰ حسین محاورے اور ضرب الامثال محرم محسن اسرار محسن نقوی محشر بدایونی محمد بن قاسم محمد یونس بٹ محمدنجیب قاسمی محمود میاں نجمی مختصر تفسیر ِعتیق مخمور سعیدی مرادِ رسولِ کریم ﷺ مرزا غالبؔ مرزا فرحت اللہ بیگ مزاح و تفریح مستدرک حاکم مستنصر حسین تارڑ مسند احمد مشتاق احمد یوسفی مشکوٰۃ شریف مضمون و مکتوب معارف الحدیث معاشرت و طرزِ زندگی معتزلہ معرکہٴ حق و باطل مفتی ابولبابہ شاہ منصور مفتی رشید احمد مفتی سید مختار الدین شاہ مفتی شعیب عالم مفتی شفیق الدین الصلاح مفتی صداقت علی مفتی عتیق الرحمٰن شہید مفتی عرفان اللہ مفتی غلام مصطفیٰ رفیق مفتی مبین الرحمٰن مفتی محمد افضل مفتی محمد تقی عثمانی مفتی وسیم احمد قاسمی مقابل ہے آئینہ مکیش عالم منصور عمر منظر بھوپالی موبائل سوفٹویئر اور رپیئرنگ موضوع روایات مؤطا امام مالک مولانا اسلم شیخوپوری شہید مولانا اشرف علی تھانوی مولانا اعجاز احمد اعظمی مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مولانا جہان یعقوب صدیقی مولانا حافظ عبدالودود شاہد مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلیؔ مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ مولانا محمد ظفر اقبال مولانا محمد علی جوہر مولانا محمدراشدشفیع مولانا مصلح الدین قاسمی مولانا نعمان نعیم مومن خان مومن مہندر کمار ثانی میاں شاہد میر امن دہلوی میر تقی میر مینا کماری ناز ناصر کاظمی نثار احمد فتحی ندا فاضلی نشور واحدی نماز وٹس ایپ وزیر آغا وکاس شرما راز ونڈوز ویب سائٹ ویڈیو ٹریننگ یاجوج و ماجوج یوسف ناظم یونس تحسین ITDarasgah ITDarasgah - Pakistani Urdu Family Forum for FREE IT Education ITDarasgah - Pakistani Urdu Forum for FREE IT Education ITDarasgah.com - Pakistani Urdu Forum for IT Education & Information ITDCFED ITDCPD ITDCWSE ITDCXA


مدنی سورت ہے، انتیس آیتوں اور چار رکوع پر مشتمل ہے۔  
’’حدید‘‘ لوہے اور اسٹیل کو کہتے ہیں اور اس کے منافع اور فوائد ہر دور میں مسلم رہے ہیں، لوہے کو طاقت و قوت اور مضبوطی کا ایک بڑا مظہر سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے سورت کا نام  ’’الحدید‘‘ رکھا گیا ہے۔ 
آسمان و زمین، عرش و کرسی کی تخلیق، شب و روز کا منظم سلسلہ، ہر چیز پر اللہ کے علم کا احاطہ، اللہ تعالیٰ کسی بھی قسم کی کمزوری اور عیب سے پاک ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ 
اللہ پر ایمان لانے اور جہاد فی سبیل اللہ کے لئے مال خرچ کرنے کی ترغیب ہے اور اس پر اجرو ثواب دینے کو قرض کے ساتھ مشابہت دے کر بتایا ہے کہ جس طرح قرض کی ادائیگی ایک فریضہ اور لازمی ہوتی ہے اسی طرح اللہ کے نام پر اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے مال خرچ کرنے پر بدلہ دیا جانا بھی لازمی اور ضروری ہے۔ 
پھر مؤمنین کا اپنے ایمان کے نور سے قیامت میں استفادہ اور منافقین کی بیچارگی اور نور ایمان سے محرومی پر حسرت و افسوس کا عبرتناک منظر پیش کیا ہے اور  ’’گلو گیر انداز‘‘ میں مومنین کو اپنے ایمانی تقاضوں پر عملدرآمد کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ 
دنیا کی زندگی کی بے ثباتی اور اسباب و وسائل کی کشش سے دھوکہ میں نہ پڑنے کی تلقین فرمائی ہے اور اس کے بالمقابل بے پناہ وسعتوں کی حامل جنت کے حصول میں لگنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔  
’’تقدیر‘‘ کے عقیدہ کی افادیت کو بیان کیا ہے کہ اس سے اہل ایمان مایوسیوں سے محفوظ ہو کر  ’’جہد مسلسل‘‘ کے عادی بن سکتے ہیں اور اپنی انتھک کوششوں اور محنتوں سے معاشرہ کو انقلاب سے ہمکنار کر سکتے ہیں۔  
’’لوہا‘‘ اپنے اندر بھرپور انسانی منافع لئے ہوئے ہے، اس سے طاقت و قوت کا اظہار ہوتا ہے اور یہ طاقت و قوت اللہ کے دین کی حمایت اور اس کے دفاع میں استعمال ہونی چاہئے۔ 
پھر سلسلہ انبیاء کا مختصر تذکرہ جس میں ابو البشر ثانی حضرت نوحؑ اور امام الانبیاء حضرت ابراہیمؑ کا حوالہ اور پھر  ’’عبد صالح‘‘ حضرت عیسیٰؑ اور ان کی کتاب انجیل کا تذکرہ فرما کر ان کے متبعین کی صفات اور قیامت میں ان کے لئے اجر عظیم کے وعدہ کے ساتھ ان کے پیروکاروں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتے ہوئے بتایا ہے کہ اس طرح وہ دہرے اجر کے مستحق ہو جائیں گے اور یہ سب کچھ اللہ کے فضل اور اس کی عطا کردہ توفیق سے ہی میسر آ سکتا ہے۔ 
٭٭٭


مکی سورت ہے، چھیانوے چھوٹی چھوٹی آیتوں اور تین رکوع پر مشتمل ہے۔ 
سورت کا مرکزی مضمون  ’’بعثت بعدا لموت‘‘ کا عقیدہ ہے، قیام قیامت ایک ایسی حقیقت ہے جسے جھٹلانا ممکن نہیں ہے، اس دن عدل و انصاف کے ایسے فیصلے ہوں گے جس کے نتیجہ میں بعض لوگ اعزازو اکرام کے مستحق قرار پائیں گے جبکہ بعض لوگوں کو ذلت و رسوائی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ 
اس دن زمین شدت کے ساتھ ہل کر رہ جائے گی اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر فضاء میں اڑنے لگیں گے۔ 
لوگوں کی نیکی اور بدی کے حوالہ سے تین جماعتیں بنا دی جائیں گی۔ 
اصحاب المیمنہ (دائیں طرف والے) اصحاب المشأمہ (بائیں طرف والے) اور خاص الخاص مقربین جن کے اندر پہلی امتوں کے نیکو کار لوگ اور امت محمدیہ کے مقربین شامل ہوں گے۔ پھر ان کے لئے انعامات اور حور و قصور کا تذکرہ اور بائیں طرف والوں کے لئے جہنم کے عذاب اور سزاؤں کا تذکرہ، پھر مرنے کے بعد زندہ ہونے پر عقل کو جھنجھوڑ کر رکھ دینے والے دلائل کا ایک سلسلہ بیان کیا ہے۔ 
ہمیں کوئی عاجز نہیں کر سکتا کہ ہم نیست و نابود کر کے تمہاری جگہ دوسری مخلوق پیدا کر کے لے آئیں۔ جب تم نے ہمارے پہلے پیدا کرنے کو تسلیم کر لیا ہے تو دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے۔ تم سمجھتے کیوں نہیں ہو؟ ۔
تم کھیتوں میں بیج ڈالتے ہو، اسے اگانا تمہارے اختیار میں نہیں ہے۔ ہم ہی اسے گاتے ہیں، اگر ہم اس کھیتی کو تباہ کر کے رکھ دیں تو تم کف افسوس ملتے رہ جاؤ گے۔ 
تمہارے پینے کا پانی بادلوں سے کون نازل کرتا ہے۔ کیا تم اتارتے ہو یا ہم اتارتے ہیں۔ اگر ہم اس پانی کو نمکین اور کڑوا بنا دیں تو تم کیا کر سکتے ہو؟ کیا اس پر تم شکر نہیں کرتے ہو؟ ۔
جس آگ کو تم جلاتے ہو اس کا درخت کون پیدا کرتا ہے تمہیں اپنے رب عظیم کی تسبیح بیان کرتے رہنا چاہئے۔ 
قرآن کریم کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لئے نظام شمسی کے مربوط و منظم سلسلہ کو بطور شہادت پیش کرنے کے لئے اس کی قسم کھا کر فرمایا کہ جس ذات نے اجرام فلکی کا یہ محیر العقول نظام بنایا ہے اسی قادر مطلق نے یہ قرآن کریم نازل فرمایا ہے۔ اسے چھونے کے لئے پاکیزگی اور طہارت کا اہتمام کرنا ضروری ہے۔ 
پھر  ’’جاں کنی‘‘ کا عالم اور جزاء و سزاء کے لئے دربار خداوندی میں حاضری کے موقع پر تین جماعتوں میں لوگوں کی تقسیم کا اعادہ اور آخر میں رب عظیم کی تسبیح بیان کرنے کے حکم پر سورة کا اختتام کیا گیا ہے۔ 
٭٭٭


اٹھتر چھوٹی چھوٹی آیتوں اور تین رکوع پر مشتمل مدنی سورت ہے۔ 
اس میں قانون سازی کی بجائے توحید باری تعالیٰ پر کائناتی شواہد قائم کئے گئے ہیں اور قیامت کے مناظر، جہنم کی ہولناکی اور خاص طور پر جنت اور اس کے خوشنما مناظر کو نہایت خوبصورتی اور تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ 
ایک حدیث شریف میں اس سورت کو عروس القرآن یعنی  ’’قرآن کریم کی دلہن‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ 
اس میں بالکل منفرد انداز میں ایک ہی جملہ  ’’فبأی الٓاء ربکما تکذبان‘‘ تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے، کو اکتیس مرتبہ دہرایا گیا ہے۔ 
حدیث میں آتا ہے کہ جنات کو جب حضورﷺ نے سورة الرحمن سنائی تو وہ ہر مرتبہ یہی کہتے رہے  ’’لا بشیِ من نعمک ربنا نکذب فلک الحمد‘‘ ہم آپ کی کسی بھی نعمت کو نہیں جھٹلاتے، تمام تعریفیں آپ ہی کے لئے ہیں۔ 
شروع سورت میں بتایا ہے کہ رحمت الٰہیہ کے مظاہر میں ایک بڑا مظہر قرآن کریم کی تعلیم اور انسان کو اس کے پڑھنے کا سلیقہ سکھانا اور اسے قوت بیان کا عطاء کرنا ہے۔ 
سورج اور چاند حساب کے ایک نہایت ہی دقیق نظام کے تحت چل رہے ہیں، پودے اور درخت بھی اللہ کے نظام کے پابند اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔ اسی نے آسمان کو بلند کیا اور عدل و انصاف کا مظہر  ’’ترازو‘‘ پیدا کیا لہٰذا ناپ تول میں کسی کمی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔ 
زمین کو اس انداز پر پیدا کیا کہ تمام مخلوقات اس پر بآسانی زندگی بسر کر سکیں۔ اس میں پھول، خوشہ دار کھجور، غلے اور چارہ اور خوشبودار پھول پیدا کئے۔ 
ان نعمتوں میں غور کر کے بتاؤ آخر تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے۔ 
ایسی مٹی جو خشک ہو کر بجنے لگ جاتی ہے ہماری قدرت کا کمال دیکھو کہ ہم نے اس سے نرم و نازک جسم والا انسان پیدا کر دیا اور جنات کو بھڑکنے والی آگ سے پیدا کیا۔ 
کھارے اور میٹھے پانی کی لہروں کو آپس میں مل کر ایک دوسرے کا ذائقہ اور تاثیر بدلنے سے اس طرح روکتا ہے جیسے ان کے درمیان کوئی حد فاصل قائم ہو۔ 
ان سے موتی اور مرجان کا خوشنما پتھر بھی حاصل ہوتا ہے اور پہاڑوں جیسی ضخامت کے بحری جہاز بھی ان سمندروں کے اندر تیرتے اور نقل و حمل کے لئے سفر کرتے ہیں۔ 
کائنات کی ہر چیز کو فنا ہے مگر رب ذوالجلال کے لئے دائمی بقاء ہے۔ 
اس طرح انعامات خداوندی کے تذکرہ کے بعد قیامت کے ہولناک مناظر اور جہنم کی دہشت ناک سزاؤں کا تذکرہ کیا اور جنت کے روح پرور مناظر کا بیان شروع کر دیا جس میں باغات اور چشمے، انواع و اقسام کے پھل، ریشم و کمخواب کے لباس، یاقوت و مرجان کی طرح حسن و جمال اور خوبصورتی کی پیکر جنتی حوریں جو اپنے شوہر کے علاوہ کسی کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھتی ہوں گی اور آخر میں رب ذوالجلال والا کرام کے نام کی برکتوں کے تذکرہ پر سورة کو ختم کیا گیا ہے۔ 
٭٭٭


مکی سورت ہے۔ پچپن آیتوں اور تین رکوع پر مشتمل ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو اس سورت کا مرکزی مضمون  ’’اثبات رسالت‘‘ معلوم ہوتا ہے۔ 
سورت کی ابتداء حضورﷺ کے  ’’چاند کو دو ٹکڑے کرنے‘‘ کے معجزہ سے کی گئی ہے، جسے قرآن کریم  ’’شق القمر‘‘ کہتا ہے۔ 
مشرکین کا کہنا تھا کہ جادو کا اثر آسمان پر نہیں ہوتا، لہٰذا اگر آپ چاند دو ٹکڑے کر دیں تو ہم آپ کو  ’’جادو گر‘‘ قرار دینے کے بجائے نبی تسلیم کر لیں گے۔ مگر وہ ہٹ دھرم اس معجزہ کو دیکھ کر بھی کہنے لگے کہ  ’’محمد کا جادو تو آسمان پر بھی چل گیا‘‘ ۔
پھر قیامت کے ہولناک دن کی یاد دلا کر مشرکین کو بتایا گیا کہ اس دن تمہاری نگاہیں جھکی کی جھکی رہیں گی اور تمہاری زبانیں اس دن کی شدت کا برملا اعتراف کریں گی۔ 
پھر مشرکین مکہ کو حق کے انکار کے بدترین نتائج پر متنبہ کرنے کے لئے امم ماضیہ کا تذکرہ شروع کر دیا۔ 
حضرت نوحؑ کی  ’’ہزار سالہ جد و جہد‘‘ قوم کی گستاخی اور تکذیب پر بارگاہ الٰہی میں عاجزانہ دعاء اور مدد کی درخواست جو کسی بھی دور کے پریشان حال انسان کی مشکلات کے حل کے لئے مقبول دعاء کا درجہ رکھتی ہے  ’’رَبِّ اِنِّی مَغلُوبٌ فَاَنتَصِر“ اور اس کے نتیجہ میں اہل ایمان کی  ’’کشتی کے ذریعے‘‘ نجات اور آسمان سے برسنے اور زمین سے ابلنے والے پانی کے سیلاب میں قوم کی غرقابی اور تباہی کو بیان کیا۔ 
اس کے بعد عاد و ثمود و قوم لوط و فرعون جو اپنے اپنے دور میں طاقت و قوت، ہنر اور ٹیکنالوجی، مستحکم معیشت اور مضبوط سیاسی نظام کے نمائندے تھے۔ ان کی تکذیب و نافرمانی پر ہلاکت و تباہی کی مثال پیش کر کے کافروں کو وعید اور اہل ایمان کو بشارت اور تسلی دی کہ  ’’دعوت حق‘‘ کے مخالفین کتنے با اثر اور مستحکم کیوں نہ ہوں اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکتے، لہٰذا مشرکین مکہ پر بھی ایک دن آنے والا ہے جب یہ شکست کھا کر میدان (بدر) سے راہ فرار اختیار کرنے پر ہی عافیت سمجھیں گے۔ 
پھر مجرمین کے قیامت کے دن بدترین انجام کے ساتھ بتایا کہ متقی باغات اور نہروں کے خوشنما منظر میں اپنے رب کے ہاں با عزت مقام اور بہترین انجام سے سرفراز ہوں گے۔ 
٭٭٭


مکی سورت ہے۔ باسٹھ آیتوں اور تین رکوع پر مشتمل ہے۔ 
سورت کی ابتداء میں قسمیں کھا کر اللہ نے سفر معراج کی تصدیق کرتے ہوئے  ’’معراج سماوی‘‘ کے بعض حقائق خاص طور پر اللہ تعالیٰ سے عرش معلیٰ پر ملاقات اور سدرۃ المنتہیٰ پر فرشتہ سے بالمشافہ گفتگو کا تذکرہ کیا ہے۔ 
پھر شرک کی تردید کرتے ہوئے باطل خداؤں کی مذمت کے ساتھ بتایا ہے کہ اللہ کے علاوہ بتوں کی عبادت ہو یا معزز فرشتوں کی وہ ہر حال میں باطل اور قابل مواخذہ ہے۔ 
پھر انسانی زندگی کے ضابطہ کو بیان کیا ہے کہ انسان کی محنت اور کوشش ہی اس کی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ 

؂ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی 

آخر میں نہایت اختصار کے ساتھ امم ماضیہ کا تذکرہ کر کے قوموں کے عروج و زوال کا ضابطہ بیان کر دیا کہ قوموں کی تباہی میں وسائل سے محرومی یا معیشت کی تنگی نہیں بلکہ ایمان سے محرومی، عملی بے راہ روی اور اخلاقی انحطاط سب سے بڑے عوامل ہوا کرتے ہیں۔ 
٭٭٭


مکی سورت ہے، انچاس آیتوں اور دو رکوع پر مشتمل ہے۔
اس مختصر سی سورت میں عقائد کی تینوں بنیادوں  ’’توحید و رسالت اور قیامت‘‘ کے موضوع پر مدلل گفتگو موجود ہے۔ 
اللہ تعالیٰ نے پانچ قسمیں کھا کر فرمایا ہے کہ اللہ کا عذاب جب واقع ہو گا تو اسے کوئی روکنے والا نہیں ہو گا۔ اس دن آسمان تھر تھر کانپ رہا ہو گا۔ پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح فضاء میں اڑتے پھر رہے ہوں گے۔ 
کافروں کو جہنم کے کنارے کھڑے کر کے پوچھا جائے گا کہ جس آگ کے تم منکر تھے وہ تمہارے سامنے ہے۔ کیا اب بھی اسے تم  ’’جادو‘‘ ہی سمجھتے ہو یا تمہاری بینائی کام نہیں کر رہی ہے۔ آگ کو برداشت کر سکو یا نہ کر سکو تمہیں اس آگ میں ہمیشہ ہمیشہ پڑے رہنا ہو گا۔ 
پھر متقیوں کے لئے جنات اور ان میں جو انعامات ملیں گے ان کا تذکرہ۔ خاص طور پر جنتیوں کی اولاد اور اہل خانہ کو ان کے ساتھ جنت میں یکجا کرنے کا ذکر ہے۔ 
پھر رسالت محمدیہ کی صداقت کا بیان ہے اور آپ کو حکم دیا گیا ہے کہ مشرکین کے بے جا مطالبات اور نازیبا کلمات سے صرف نظر کر کے آپ نصیحت کی تلقین فرماتے رہیں۔ 
پھر دلائل توحید اور اللہ کے لئے اولاد ثابت کرنے کی مذمت ہے اور آخر میں نبی کریمﷺ کے توسط سے تمام مؤمنین کو تلقین ہے کہ اللہ کے حکم کے مطابق ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں۔ آپ ہماری نگاہوں میں ہیں۔ آپ کو چاہئے کہ دن رات اور صبح و شام اللہ کی تسبیح و تحمید میں مشغول رہا کریں۔ 
٭٭٭


مکی سورت ہے۔ ساٹھ آیتوں اور تین رکوع پر مشتمل ہے۔ 
دوسری مکی سورتوں کی طرح عقیدہ کے موضوع پر ذہن سازی کا عمل اس سورت میں بھی جاری ہے۔ 
غبار اڑانے والی ہواؤں، بارش برسانے والے بادلوں، پانی پر تیرنے والی بادبانی کشتیوں اور دنیا کا نظام چلانے والے فرشتوں کی قسمیں کھا کر بتایا ہے کہ مرنے کے بعد کی زندگی برحق ہے۔ 
پھر منکرین قرآن و آخرت کی ہٹ دھرمی اور عناد اور ان کا بدترین انجام اور ایمان والوں کی صفات فاضلہ اور ان کا انجام خیر ذکر فرمایا ہے۔ 
پھر حضرت ابراہیمؑ کا مہمان بننے والے فرشتوں کا تذکرہ اور بڑھاپے میں انہیں اولاد کی خوشخبری سنائی اور بتایا ہے کہ قادر مطلق کے لئے اولاد عطاء فرمانے کے لئے جوانی اور بڑھاپے کے عوامل اثر انداز نہیں ہوتے، وہ اپنی قدرت کاملہ سے میاں بیوی کے بڑھاپے اور بانجھ پن کے باوجود اولاد دینے پر مکمل قدرت رکھتا ہے۔ 
قوم لوط کی ہلاکت کے واقعہ سے اس پارہ کی ابتداء ہو رہی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ (حضرت لوطؑ کا) صرف ایک گھرانہ اسلام کی بدولت عذاب سے نجات پا سکا۔ اس کے علاوہ پوری قوم اپنی بے راہ روی کی بناء پر پتھروں کی بارش سے تباہ کر دی گئی۔ 
قصۂ موسیٰ و فرعون میں بھی یہی ہوا کہ انہوں نے رسول کا انکار کیا۔ ہم نے اسے سمندر میں ڈال کر غرق کر کے نشان عبرت بنا دیا۔ 
قوم ثمود اور اس سے پہلے قوم نوح کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا کہ ان کی سرکشی اور فسق و فجور نے ان کی تباہی کی راہ ہموار کی اور آنے والوں کے لئے نشانِ عبرت بن کر رہ گئے۔ 
اتنے بڑے آسمان کی چھت بنانے والا اور زمین کا اتنا خوبصورت فرش لگانے والا کتنا بہترین کاریگر اور کتنا وسعتوں والا مالک ہے۔ اس نے ہر چیز کو جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا (نر اور مادہ، مثبت و منفی کی شکل میں) اسی اللہ کی طرف متوجہ ہونا چاہئے اور اس کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک نہیں بنانا چاہئے۔ 
باقی رہا نبی کی کردار کشی کرنے کے لئے اسے دیوانہ و جادوگر کے نام سے بدنام کرنے کی کوشش، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پہلے انبیاءؑ کو بھی اسی قسم کے ناموں سے یاد کیا گیا ہے، آپ ان باتوں کی طرف دھیان نہ دیں اور ایمان والوں کو یاد دہانی کراتے رہیں اور جنات و انسانوں کو ان کے مقصد تخلیق کی طرف متوجہ کریں۔ کافروں کے لئے قیامت کے دن ہلاکت کے سوا اور کچھ نہیں ہو گا۔ 
٭٭٭


شیرِ خدا حضرت علی کرم اﷲ وجہہ اسلام لانے والے اولین لوگوں میں سے ہیں، آپ کی عمر مبارک نو سال کی تھی، جب محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک پر مشرف بہ ایمان ہوئے۔ مکی زندگی کے نشیب و فراز میں آپ دم بہ دم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ رہے۔ مدینہ میں دامادِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا شرف حاصل ہوا۔متعدد معرکوں میں دادِ شجاعت کے باعث ’’شیر خدا‘‘ کا لقب پایا۔ خیبر کی فتح اﷲ تعالیٰ نے آپؓ کے ہاتھ پر عطا کی۔ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے دستِ راست رہے اور امت کے چوتھے خلیفہ کے طور پر قیامت تک مسلمان آپ کو یاد کرتے رہیں گے۔ 

شیرِ خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہہ کی ولادت باسعادت ۶۰۳ء مطابق ۱۳رجب ۳۲ میلادی کو ہوئی، یہ مدت ہجرتِ مدینہ سے کم و بیش اکیس سال بیشتر بنتی ہے۔ ’’علی‘‘ نام رکھا گیا، ’’ابوالحسن‘‘ اور ’’ابوتراب‘‘ کنیتیں تھیں۔ والدہ ’’حیدر (شیر)‘‘ کہہ کر پکارتی تھیں، ’’مرتضیٰ‘‘اور ’’اسداﷲ‘‘ کے القابات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عطا ہوئے، جبکہ امت آپ کو ’’امیرالمومنین‘‘ کے خطاب سے یاد کرتی ہے۔ 

شیرِ خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہہ نجیب الطرفین قریشی وہاشمی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سگے چچازاد تھے۔ آپ کی پرورش ونگہداشت وتربیت براہِ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیرِ نگرانی ہوئی۔ آپؓ کے والد ابوطالب بن عبدالمطلب کثیر العیال اور معاشی طور پر مفلوک الحال تھے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا کہ جعفر طیارؓ کی پرورش آپ کریں اور علیؓ کی کفالت میں کرتا ہوں، اس وقت شیرِ خدا حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کی عمر مبارک تین سال تھی۔ اس طرح آپ کا دامن صحبتِ نبوی کے باعث بچپن ہی سے جہالت و مفسدات کی آلودگیوں سے پاک رہا۔

بڑے ہوئے تو سفر و حضر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنے لگے،گھر کے جملہ معاملات میں ہاتھ بٹاتے اور اپنی عمر کے اعتبار سے ذمہ داریوں کی ادائیگی میں بھی معاونت کرتے۔ اسی وجہ سے آپؓ کے اخلاق و عادات پر اخلاقِ نبوی کی گہری چھاپ تھی۔ بعثت کے بعد جب رشتہ داروں کو دعوت دینے کا حکم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب آلِ بنی ہاشم کو کھانے پر بلایا اور انہیں اپنی نبوت پر ایمان لانے کا کہا، تواس وقت شیرِ خدا حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے فرمایا: ’’گو میں عمر میں چھوٹا ہوں، میری ٹانگیں کمزور ہیں اور آشوبِ چشم میں مبتلا ہوں، مگر میں آپ کا مددگار بنوں گا۔‘‘ اس وقت آپؓ کی عمر مبارک صرف آٹھ سال تھی۔ مکی زندگی کے پر آشوب دور میں آپؓ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہے، خود فرماتے ہیں کہ: ’’میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے ایسے چلتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے چلتا ہے۔‘‘ تبلیغی اسفار میں بالعموم آپ ہی رفیقِ سفر ہوتے۔ تین سالہ شعبِ ابی طالب کے جاں گسل دورمیں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رکاب رہے۔ ہجرت کے موقع پر آخری رات آپ ہی بسترِنبوی پرمحوِ استراحت ہوئے، یہ گویا موت کا بستر تھا اور آپؓ نے حکمِ نبوی کے سامنے جان کی پروا بھی نہ کی۔ اگلے دن امانتیں لوٹا کر عازمِ مدینہ ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی قبا کے مقام پر ہی قیام پذیر تھے کہ حضرت علیؓ اس حال میں آپ سے ملے کہ دونوں پاؤں آبلوں سے بھرے تھے۔ مواخات کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو انصار میں شامل فرماکر مہاجرین میں سے شیرِ خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہہ کو اپنا مواخاتی بھائی قرار دیا اور فرمایا: تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو۔ جب آپ کی عمر مبارک۲۳،۲۴ سال کی ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی خاتونِ جنت حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کا نکاح آپ سے فرمادیا، اس طرح آپ دامادِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بن کرعز و شرف میں پہلے سے اور آگے نکل گئے۔ یہ۲ ہجری کا واقعہ ہے ۔

مدنی زندگی کے تمام غزوات میں شیرِ خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ راست رہے۔ بدر، احد اور خندق کے معرکوں میں آپ نے عزم و ہمت اور شجاعت و جوانمردی کی عظیم الشان تاریخ رقم کی، صلح حدیبیہ کا معاہدہ آپ ہی نے تحریر کیا۔ معرکۂ خیبر میں تو مرحب جیسے بدمعاش پہلوان سے نپٹنا صرف آپ کا ہی خاصہ تھا، آپ نے اس کے وار کے جواب میں ایسا وار کیا کہ جبڑوں تک اس کا سر پھٹتا چلا گیا۔ آخری قلعہ کا دروازہ آپ نے اپنے دستِ ایمانی سے اُکھاڑ پھینکا تھا۔ مکہ پر چڑھائی کے وقت جاسوسی کا خط لے جانے والی عورت کو بھی آپ نے پکڑاتھااور اس سے خط برآمد کیا۔ 

شیرِ خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہہ صرف غزوۂ تبوک میں شامل نہ ہوئے تھے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور جانشین آپؓ کو مدینہ رہنے کا حکم فرمایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پرفرمایاکہ: ’’میں علم کاشہرہوں اور علی ؓاس کادروازہ ہیں۔‘‘ وصالِ نبوی کے وقت ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرۂ مبارکہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے چند دیگر اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین کا کام سرانجام دیا۔ ۔ وصالِ نبوی بالعموم تمام صحابہؓ کے لیے اور بالخصوص اہلِ بیتؓ کے لیے کسی سانحے سے کم نہ تھا، لیکن شیرِ خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہہ نے بڑے حوصلے، صبر اور ہمت سے اس مرحلے پر خود کو اور اہل بیت نبوی کو بخوبی سنبھالا۔ آپ خلفائے ثلاثہؓ یعنی حضرت ابوبکر،حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے زمانوں میں ان کے دستِ راست رہے۔ ایران پر چڑھائی کے موقع پر یہ شیرِ خدا حضرت علی کرم اﷲ وجہہ ہی تھے، جنہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کسی طور بھی مرکزِخلافت ’’مدینہ منورہ‘‘ نہ چھوڑنے کا صائب مشورہ دیا تھا۔ ایک موقع پر آپؓ نے خود اس کا اعتراف کیا، جب ایک شخص نے سابق خلفاء کے دور میں پرامن حالات اور آپ کے دورِ خلافت میں حالات کی خرابی کا شکوہ کیاتو آپؓ نے فرمایا:  ’’ہمیں مشورہ دینے والے تم ہو اور انہیں مشورہ دینے والے ہم تھے۔‘‘

خلیفۂ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی قائم کردہ کمیٹی جو حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ اور حضرت سعدبن ابی وقاصؓ پر مشتمل تھی، اس کمیٹی نے اپنے فیصلے میںجو ترتیب مقرر کی تھی، اس میں حضرت عثمانؓ کے بعد دوسرا نمبر حضرت علی کرم اللہ وجہہ ؓ کا ہی تھا، چنانچہ شہادتِ عثمانؓ کے بعد تین دن تک منصبِ خلافت خالی رہا، مدینہ پر بلوائیوں کا قبضہ تھا اور کوئی بھی نامور شخصیت بارِ خلافت اُٹھانے کو تیار نہ تھی، ان حالات میں انصار و مہاجرین کے بزرگ جمع ہو کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے اور اُنہیں اس منصب کے قبول کرنے کی دعوت دی،ابتداء ًآپؓ نے انکار کیا اور فرمایا کہ: مجھے امیر کی نسبت وزیر بننا پسند ہے، لیکن حالات کے بگاڑ کا حل اور اُمت کا اجماع دونوں امور آپ کی ذات پر ہی جمع ہو رہے تھے، تب آپ کی ہمتِ عالیہ تھی جس نے اس نازک اور کڑے وقت میں ۲۴ ؍ذوالحجہ ۳۵ ہجری کو اُمت کی باگ دوڑ سنبھالنے کا فیصلہ کیا۔ شیرِ خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہہ نے عنانِ اقتدار سنبھالتے ہی گزشتہ خلفائے راشدینؓ کی سنت کے مطابق اجتماعِ مسلمین کے سامنے ایک خطبہ دیا، آپؓ نے فرمایا:  ’’اﷲ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت و راہنمائی کے لیے قرآن مجید نازل فرمایا ہے، اس میں خیر وشر سب کھول کھول کر بیان کر دیا گیا ہے۔ تم اﷲ تعالیٰ کے عائد کردہ فرائض اداکرو، تمہیں جنت ملے گی۔ اﷲ تعالیٰ نے حرم پاک کو محترم ٹھہرایا ہے۔ مسلمانوں کی جان کو ہر چیز سے زیادہ قیمتی قرار دیا ہے اور مسلمانوں کو خلوص واتحاد کی تلقین کی ہے۔ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں، ماسوائے جس کسی پر کوئی حدِ شرعی واجب ہو۔ خدا کے بندوں سے معاملہ کرتے ہوئے خدا سے ڈرو، قیامت کے روز زمینوں اور مویشیوں کی بابت تم سے باز پرس ہوگی۔ اﷲ تعالیٰ کی اطاعت کرو اور اس کے احکامات کی خلاف ورزی سے بچو۔ جہاں کہیں بھلائی کی بات دیکھو اسے قبول کرواور جہاں بدی نظر آئے اس سے پرہیز کرو۔‘‘

عنانِ اقتدار سنبھالتے ہی سب سے پہلے جو مسئلہ درپیش ہوا وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قصاص تھا۔ تمام بزرگوں کا اور اُمت کا مطالبہ تھا کہ قاتلوں کو فی الفور سزا دی جائے، شیرِ خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہہ پر جیسے جیسے دباؤ بڑھتا گیا، آپ کی مشکلات میں اضافہ ہوتا گیا، کیونکہ خلیفۂ ثالث ایک بلوے میں شہید کیے گئے تھے اور بلوے میں اصل قاتل کی تلاش کوئی آسان کام نہیں ہوتا اور خاص طور پر جب سب بلوائی اَیکہ کر لیں تو یہ ناممکن ہوجاتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا کہنا تھا کہ امن و امان قائم ہونے پراور حالات معمول پر آنے تک ہی قاتلینِ عثمانؓ سے قصاص لینا ممکن ہوسکے گا، جبکہ دوسری طرف مدینہ بری طرح بدامنی کاشکار تھا۔ شیرِ خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہہ کے بار بار کہنے کے باوجود بلوائی مدینہ طیبہ چھوڑنے پر تیار نہ تھے۔شام کے گورنرحضرت امیرمعاویہؓ نے شیرِ خدا حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کی بیعت کرنے سے انکار کردیا اور قاتلینِ عثمانؓ کو ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔ امیرالمؤمنین حضر ت علی کرم اﷲ وجہہ نے مفاہمت کی بہت کوشش کی، لیکن حالات بڑی تیزی سے جنگ کی طرف جارہے تھے۔

شیرِ خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہہ ابھی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے معاملہ کرنے کی کوشش میں تھے کہ دوسری طرف ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی قصاص کامطالبہ کیا اور اپنے لشکر کے ساتھ بصرہ کا رُخ کیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی سپاہ کے ساتھ بصرہ کا رخ کیا، مصالحت کی کوششیں کئی دنوں تک چلتی رہیں اور دونوں لشکر آمنے سامنے خیمہ زن رہے۔ ایک رات گئے صلح جوئی کی کوششیں بارآور ثابت ہوئیں، تمام شرائط طے پا گئیں اور فیصلہ ہوا کہ چونکہ رات بہت بیت چکی ہے، اس لیے صبح کو معاہدہ لکھ لیا جائے گا اور افواج اپنے اپنے علاقوں کو لوٹ جائیں گی۔ قاتلینِ عثمانؓ جو دراصل دونوں طرف کی افواج میں پھیلے ہوئے تھے، انہیں یہ صلح کسی طور بھی راس نہیں تھی، کیونکہ جس دن امن قائم ہوتا، اسی دن سے ان کی گرفتاری اور قصاص کا عمل شروع ہو جاتا، چنانچہ ایک طے شدہ پروگرام کے تحت اگلے دن دونوں طرف کے بلوائیوں نے جنگ شروع کر دی۔ قائدین سمجھتے رہے کہ فریقِ مخالف نے رات کے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے، لیکن حقیقت بہت مختلف تھی۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اونٹ پر سوار تھیں، اسی لیے اس جنگ کو جنگِ جمل کہتے ہیں۔ شیرِ خدا حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے اپنی افواج کو حکم دیا کہ اونٹ کی ٹانگیں کاٹ دی جائیں، اونٹ کے بیٹھتے ہی بصری افواج تتر بتر ہو گئیں، ان کا پیچھا کرنے،قتل کرنے اور گرفتار کرنے سے شیرِ خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہہ نے منع کر دیا اور بصرہ کی چالیس بزرگ خواتین کے ساتھ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کو مدینہ منورہ روانہ کر دیا۔

جنگِ جمل کے بعد شیرِ خدا حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے کوفہ کو اپنا دارالحکومت بنایا اور حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کو اطاعت کی دعوت دی اور نہ ماننے پرجنگ کی دھمکی بھی دی۔ ۳۶ ہجری میں دونوں فوجیں آمنے سامنے صف آرا ہو گئیں۔ یہ لڑائی جنگ صفین کہلاتی ہے، ایک طویل اور تھکا دینے والی جنگ، جس کے دوران گاہے گاہے صلح کی کوششیں بھی جاری رہیں، لیکن بے سود۔ جب شامی افواج شکست سے دوچار ہونے لگیں تو انہوں نے نیزوں پر قرآن اُٹھا لیے کہ ہمارا تمہارا فیصلہ کتاب اﷲ کرے گی، اس پر عَلوی افواج نے لڑنے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ دونوں طرف سے ثالث مقرر ہوئے، دونوں نے فیصلہ کیا کہ شیرِ خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہہ اور حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ دونوں کو معزول کر کے اُمت کے لیے نیا خلیفہ مقرر کیا جائے۔اعلان کے وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ثالث حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے طے شدہ فیصلے کا اعلان کیا، حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے ثالث حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں کا خلیفہ قرار دے دیا۔ اس موقع پر پھر بزرگانِ امت درمیان میں آگئے اور طے کیا کہ دونوں اپنے اپنے علاقوں پر حکومت کریں، کوئی دوسرے کے معاملے میں دخل نہ دے، چنانچہ دونوں افواج واپس چلی گئیں۔ یہ کشمکش ابھی جاری تھی کہ خوارج نے خروج کردیا اور شیرِ خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہہ کے لیے ایک نیا محاذ کھل گیا۔ خارجی بہت دلیر اور مضبوط عقیدے کے مالک تھے اور جنگ سے ٹلتے نہ تھے، ان کی یہی خو ئے شجاعت ہی شہادتِ حضرت علی ؓکا باعث بنی اورایک خارجی نے آپؓ پر فجر کی نماز میں حملہ کیا،جس کا وار کاری ثابت ہوا اور ۲۱؍رمضان المبارک ۴۰ ہجری کو آپ شہادت سے ہم آغوش ہوئے۔ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے جنازہ پڑھایا اور لاش کی بے حرمتی کے خوف سے نامعلوم مقام پر دفن کیا۔ اس وقت آپؓ کی عمر مبارک ۶۳ برس تھی اور مدتِ خلافت ۴سال اور۹ماہ ہے۔

آپ نے نظامِ خلافت میں کئی اصلاحات کیں، عُمال کے محاسبے کے فاروقی نظام پر سختی سے عمل درآمد کروایا، رات کو شہروں کا گشت اپنا معمول بنایا اور بہت سی فوجی اصلاحات بھی کیں، لیکن چونکہ آپ کا سارا دور شورشوں اور بغاوتوں سے بھرا ہواتھا، اس لیے آپ کو کھل کر اپنی صلاحیتیں استعمال کرنے کا موقع نہ ملا۔ علم و فضل،امانت و دیانت اور زہدوتقویٰ آپ کی پہچان نہیں، بلکہ آپ ان سب صفاتِ جمیلہ کی پہچان ہیں۔ اُمت مسلمہ ہمیشہ آپ کی گرویدہ رہی ہے اور کل اُمت خلیفۂ راشد کی حیثیت سے آپ کی پیروکار ہے۔ علماء کے مطابق صرف و نحوکے علم کے بانی حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہی ہیں،شروع میں یہ ایک ہی علم تھااور حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے سب سے پہلے اس علم کی مبادیات کا تعین کیا تھا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہوتے ہوئے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مزیدکوئی شادی نہیں کی تھی،بی بی صاحبہؓ کے بعد پھر آپ نے متعدد نکاح کیے ۔آپ کی کل اولاد کی تعدادباختلاف ۲۷ تک پہنچتی ہے۔ حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے چلنے والی نسل ’’فاطمی‘‘ اولاد کہلاتی ہے، جب کہ دیگر زوجات والے ’’علوی‘‘ کہلاتے ہیں۔ آپ کی نسل سے بعض نے حکومت بھی کی، لیکن زیادہ تر اپنے اجدادسے کسب کرتے ہوئے فقیرانہ زندگی پر قانع رہے، چنانچہ تصوف کے کم و بیش تمام سلسلے اولادِ علیؓ سے ہوتے ہوئے حضرت علی ؓپر ہی ختم ہوجاتے ہیں اور یہ حضرت کااصل فیض ہے جو تاقیامت جاری رہے گا۔ واقعۂ کربلا میں آپ کی اولادِ مبارکہ ایک بہت بڑے سانحے سے دوچار ہوئی، لیکن اہلِ بیتؓ کی یہ قربانیاں دین کی حیاتِ ابدی کا باعث ہیں۔


مکی سورت ہے۔ پینتالیس آیتوں اور تین رکوع پر مشتمل ہے۔ 
اس مختصر سورت میں توحید و رسالت اور بعث بعد الموت کے تینوں عقیدے پوری آب و تاب کے ساتھ مذکور ہیں۔ 
قرآن کریم کی عظمت کے بیان کے ساتھ ہی اس حقیقت سے پردہ اٹھایا گیا ہے کہ منکرین کے انکارِ قرآن کی وجہ مرنے کے بعد زندہ ہونے کے عقیدہ کا بیان ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ گوشت پوست کے بوسیدہ ہو کر ذرات کی شکل میں ہواؤں کی لہروں، پانی کی موجوں اور زمین کی پنہائیوں اور فضاء کی وسعتوں میں بکھرنے کے بعد ان کے ذرات کو علیحدہ علیحدہ شناخت کر کے کس طرح جمع کیا جائے گا؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس ایسی محفوظ کتاب ہے جس میں ہر ایک کے اجزاء اور ذرات کی تفصیل اس طرح مذکور ہے کہ وہ زمین میں جہاں بھی چھپ جائے یا بکھر کر غائب ہو جائے تو وہ ہمارے علم میں رہتا ہے اور اسے جمع کر کے دوبارہ انسان بنا دینا ہمارے لئے کوئی مشکل نہیں ہے۔ 
پھر توحید پر کائناتی شواہد اور رسالت پر واقعاتی حقائق سے استدلال کر کے بتایا ہے کہ انبیاء و رسل کے انکار پر پہلی قوموں کی طرح مشرکین مکہ کا مقدر بھی ہلاکت و تباہی بن سکتی ہے۔ 
اس کے بعد جہنم کا تذکرہ اور اللہ کی قدرت کا بیان ہے کہ ساتوں آسمان اور زمین جیسی عظیم مخلوقات کو بنا کر بھی وہ نہیں تھکا تو انسان کو دوبارہ بنانے سے وہ کیسے تھک جائے گا۔ 
موت و حیات اللہ ہی کے قبضۂ قدرت میں ہونے کے اعلان کے ساتھ ہی اس بات کی تلقین پر سورت کا اختتام کیا گیا ہے کہ اپنی وعظ و تبلیغ کی بنیاد قرآن کریم کو بنا کر اللہ کے وعدے اور وعیدیں لوگوں کو سنائی جائیں۔ 
٭٭٭

 

" سورۃ النور "

آیت نمبر: 27
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّىٰ تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَىٰ أَهْلِهَا ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ  تَذَكَّرُونَ
ترجمہ:اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں داخل نہ ہو، یہاں تک کہ انس معلوم کرلو اور ان کے رہنے والوں کو سلام کہو۔ یہ تمھارے لیے بہتر ہے، تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔
تفسیر:
1۔ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتًا....: سورت کے شروع سے زنا اور بہتان کی حد اور ان کی مذمت کا بیان آ رہا ہے، اب ان احکام کا ذکر شروع ہوتا ہے جن سے مردوں اور عورتوں کے ایسے میل جول کی روک تھام ہوتی ہے جو زنا اور بہتان کا سبب بنتا ہے۔ ان احکام میں گھروں میں داخلے کی اجازت، نظر کی حفاظت، پردے اور نکاح کی تاکید اور قحبہ گری سے ممانعت جیسے آداب شامل ہیں۔ 
2۔ غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ : یعنی صرف اپنے گھروں میں داخلے کے لیے اجازت کی ضرورت نہیں، جہاں آدمی اکیلا رہتا ہو، یا بیوی کے ساتھ رہتا ہو۔ اگرچہ افضل یہی ہے کہ وہاں داخلے سے پہلے بھی کسی طرح گھر والوں کو اپنی آمد سے آگاہ کر دیا جائے، ممکن ہے وہ ایسی حالت میں ہوں جس میں خاوند کا دیکھنا انھیں پسند نہ ہو۔ چنانچہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب بیان کرتی ہیں: ((كَانَ عَبْدُ اللّٰهِ إِذَا جَاءَ مِنْ حَاجَةٍ فَانْتَهٰی إِلَی الْبَابِ تَنَحْنَحَ وَ بَزَقَ كَرَاهَةَ أَنْ يَّهْجُمَ مِنَّا عَلٰی أَمْرٍ يَكْرَهُهُ )) [ ابن جریر : ۲۶۱۳۱ ] ’’عبد اللہ (رضی اللہ عنہ ) جب کسی کام سے فارغ ہو کر گھر آتے تو دروازے پر آ کر کھانستے اور تھوکتے کہ کہیں ان کی نظر ہماری کسی ایسی چیز پر نہ پڑ جائے جو انھیں نا پسند ہو۔‘‘ ابن کثیر نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِذَا أَطَالَ أَحَدُكُمُ الْغَيْبَةَ فَلَا يَطْرُقْ أَهْلَهُ لَيْلًا )) [ بخاري، النکاح، باب لا یطرق أھلہ.....: ۵۲۴۴ ] ’’جب تم میں سے کوئی شخص زیادہ عرصہ گھر سے غائب رہے تو گھر والوں کے پاس رات کے وقت نہ آئے۔‘‘ مسلم میں یہ الفاظ زائد ہیں: ((نَهٰی رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ أَنْ يَّطْرُقَ الرَّجُلُ أَهْلَهُ لَيْلًا يَتَخَوَّنُهُمْ أَوْ يَلْتَمِسُ عَثَرَاتِهِمْ )) [ مسلم، الإمارۃ، باب کراھیۃ الطروق....:184؍715، قبل ح : ۱۹۲۹ ] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (زیادہ عرصہ گھر سے غائب رہنے والے شخص کو) منع فرمایا کہ وہ گھر والوں کی خیانت یا ان کی غلطی کی تلاش کے لیے رات کو (اچانک) ان کے پاس آئے۔‘‘ 
3۔ ’’ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا ‘‘ کا لفظی ترجمہ ہے ’’یہاں تک کہ تم انس حاصل کر لو۔‘‘ اس لیے اس میں نہ صرف اجازت حاصل کرنے کا مفہوم شامل ہے، بلکہ یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ تم معلوم کر لو کہ گھر میں کوئی ہے بھی یا نہیں اور ہے تو اسے تمھارا آنا ناگوار تو نہیں ہے؟ 
4۔ اجازت مانگنے کا طریقہ، بنو عامر کا ایک آدمی آیا اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت طلب کی، کہنے لگا : ’’کیا میں اندر آ جاؤں؟‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خادم سے کہا : ’’اس کے پاس جاؤ اور اسے اجازت مانگنے کا طریقہ سکھاؤ کہ وہ اس طرح کہے: ((اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَ أَدْخُلُ؟ )) ’’السلام علیکم، کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟‘‘ اس آدمی نے یہ بات سن لی اور کہا : ((اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَ أَدْخُلُ؟)) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دے دی اور وہ داخل ہو گیا۔‘‘ [ أبوداؤد، الأدب، باب کیف الاستئذان ؟ : ۵۱۷۷ ] 
کَلَدہ بن حنبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ’’میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور آپ کے پاس سیدھا چلا آیا، میں نے نہ سلام کہا ( اور نہ اجازت مانگی)، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِرْجِعْ فَقُلْ اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ )) [ أبوداؤد، الأدب، باب کیف الاستئذان؟ : ۵۱۷۶، صححہ الألباني ] ’’واپس جاؤ اور کہو السلام علیکم۔‘‘ 
5۔ اجازت زیادہ سے زیادہ تین مرتبہ مانگے، اگر اجازت نہ ملے تو واپس چلا جائے۔ [ دیکھیے بخاري، الاستئذان، باب التسلیم و الاستئذان ثلاثا : ۶۲۴۵، عن أبي موسٰی رضی اللّٰہ عنہ ] 
6۔ دروازہ کھٹکھٹانے یا سلام کہنے پر اگر گھر والے پوچھیں، کون ہے تو اپنا نام بتائے۔ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک قرض کے سلسلے میں حاضر ہوا، جو میرے والد کے ذمے تھا، میں نے دروازہ کھٹکھٹایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ((مَنْ ذَا؟ فَقُلْتُ أَنَا، فَقَالَ أَنَا أَنَا )) ’’کون ہے؟‘‘ میں نے کہا : ’’میں ہوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میں، میں۔‘‘ گویا آپ نے اسے ناپسند فرمایا۔ [ بخاري، الاستئذان، باب إذا قال من ذا؟ فقال أنا : ۶۲۵۰ ] 
7۔  ہزیل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک آدمی آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے کے سامنے کھڑا ہو کر اجازت مانگنے لگا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((هٰكَذَا عَنْكَ أَوْ هٰكَذَا، فَإِنَّمَا الْاِسْتِئْذَانُ مِنَ النَّظَرِ )) [ أبوداؤد، الأدب، باب کیف الاستئذان ؟ : ۵۱۷۴، صححہ الألباني ] ’’اس طرف ہو جاؤ یا اس طرف، کیونکہ دیکھنے ہی کی وجہ سے اجازت مانگی جاتی ہے۔‘‘ 
8۔  ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَوِ اطَّلَعَ فِيْ بَيْتِكَ أَحَدٌ وَ لَمْ تَأْذَنْ لَهُ خَذَفْتَهُ بِحَصَاةٍ فَفَقَأْتَ عَيْنَهُ مَا كَانَ عَلَيْكَ مِنْ جُنَاحٍ )) [ بخاري، الدیات، باب من أخذ حقہ....: ۶۸۸۸ ] ’’اگر کوئی آدمی تیرے گھر میں جھانکے، جبکہ تو نے اجازت نہ دی ہو اور تو کنکری پھینک کر اس کی آنکھ پھوڑ دے تو تجھ پر کچھ گناہ نہ ہو گا۔‘‘ ایسی صورت میں آنکھ پھوڑنے پر نہ قصاص ہے، نہ دیت۔ 
9۔  ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ....: یعنی ان آداب میں دونوں طرف کا فائدہ ہے، اجازت مانگنے والے کا بھی اور گھر والوں کا بھی۔ (ابن کثیر) ’’ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ ‘‘ تاکہ تم نصیحت حاصل کرو کہ جس طرح تمھیں دوسروں کا بلااجازت آ گھسنا برا محسوس ہوتا ہے، اسی طرح دوسروں کو تمھارا بلااجازت در آنا بھی برا محسوس ہوتا ہے۔ افسوس کہ مسلمانوں نے اجازت مانگنے کے حکم پر عمل کرنا چھوڑ دیا۔ (الا ما شاء اللہ) رشتہ داروں، ہمسایوں بلکہ اجنبیوں تک کے گھروں میں آنے جانے کے لیے اجازت کی ضرورت ہی نہیں رہی، اس پر مزید عام بے پردگی اور بے لباسی سے بدتر لباس ہے، جس سے مسلم معاشرے میں بے حیائی کا سیلاب آ رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں بدکاری، بدگمانی، تہمت تراشی، رقابت، قتل و غارت اور دوسری برائیاں پھیل رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی حدود اور اپنے احکام پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ ( آمین )


آیت نمبر: 28

فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فِيهَا أَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوهَا حَتَّىٰ يُؤْذَنَ لَكُمْ ۖ وَإِن قِيلَ لَكُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا ۖ هُوَ أَزْكَىٰ لَكُمْ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ  عَلِيمٌ

ترجمہ:پھر اگر تم ان میں کسی کو نہ پاؤ تو ان میں داخل نہ ہو، یہاں تک کہ تمھیں اجازت دی جائے اور اگر تم سے کہا جائے واپس چلے جاؤ تو واپس ہوجاؤ، یہ تمھارے لیے زیادہ پاکیزہ ہے اور اللہ جو کچھ تم کرتے ہو، اسے خوب جاننے والا ہے۔

تفسیر:
1۔ فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فِيْهَا اَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوْهَا : یعنی اگر گھر میں کوئی موجود نہ ہو تو اس سے تمھارے لیے بغیر اجازت وہاں داخلہ جائز نہیں ہو جاتا۔ ہر آدمی جس طرح اپنی ذاتی حالتوں میں سے بعض حالتوں پر کسی کا مطلع ہونا پسند نہیں کرتا اسی طرح وہ اپنی بعض چیزوں پر بھی کسی کے مطلع ہونے کو پسند نہیں کرتا اور عین ممکن ہے کہ بلااجازت گھس جانے سے تم پر چوری یا خیانت کا الزام لگ جائے اور جھگڑا پیدا ہو جائے۔ ہاں، اگر اس نے اجازت دے رکھی ہو کہ میں گھر میں نہ ہوں تو تم آ جاؤ تو وہاں جانے میں کوئی حرج نہیں۔ 
2۔ وَ اِنْ قِيْلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا: یعنی اگر تمھیں واپس جانے کے لیے کہا جائے تو واپس ہو جاؤ، نہ غصہ کرو، نہ کبر کی وجہ سے تنگی یا بے عزتی محسو س کرو، کیونکہ گھر والے نے تمھارا کوئی ایسا حق نہیں روکا جو اس پر واجب ہو، وہ اجازت کا اختیار رکھتا ہے، چاہے دے یا نہ دے، لوگوں کے اپنے اپنے حالات ہوتے ہیں، کسی کو کیا خبر کہ کوئی کس حال میں ہے۔ 
3۔ هُوَ اَزْكٰى لَكُمْ: یعنی تمھارا واپس آ جانا تمھارے لیے زیادہ عزت اور پاکیزگی کا باعث ہے، کیونکہ اس طرح تم کسی کے دروازے پر کھڑے رہنے کی بے قدری سے بچ جاؤ گے، واپس چلے آنے سے صاحب خانہ کے دل میں تمھاری حیا ہو گی اور سب سے بڑھ کر اللہ کی طرف سے اجر ہے۔ 
4۔ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ: اس میں جاسوسی یا کسی بری نیت سے کسی گھر میں داخل ہونے پر وعید ہے۔ 
5۔ طبری نے بعض مہاجرین سے نقل کیا ہے کہ میری ساری عمر یہ آرزو رہی ہے کہ میں کسی کے گھر جاؤں اور اندر سے مجھے یہ جواب ملے کہ واپس چلے جاؤ اور میں واپس چلا آؤں، تاکہ مجھے اس آیت پر کم از کم ایک مرتبہ تو عمل کرنے کی سعادت نصیب ہو جائے۔



آیت نمبر: 29

لَّيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ مَسْكُونَةٍ فِيهَا مَتَاعٌ لَّكُمْ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا  تَكْتُمُونَ

ترجمہ:تم پر کوئی گناہ نہیں کہ ان گھروں میں داخل ہو جن میں رہائش نہیں کی گئی، جن میں تمھارے فائدے کی کوئی چیز ہو اور اللہ جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے ہو۔

تفسیر:
1۔ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْرَ مَسْكُوْنَةٍ....: یعنی ایسے مکان جو کسی کے رہنے کی جگہیں نہ ہوں اور ان سے تمھارا کوئی فائدہ یا کوئی ضرورت وابستہ ہو اور وہ ہر خاص و عام کے لیے کھلے ہوں تو ان کے اندر بلااجازت داخل ہونے میں تم پر کوئی گناہ نہیں، جیسے اسٹیشن، بسوں کے اڈے، مساجد، کھانے پینے اور رہائش کے ہوٹل، مسافر خانے، دکانیں اور وہ مہمان خانے جن میں جانے کی ایک دفعہ اجازت مل چکی ہو۔ اسی طرح وہ مکانات جو بے آباد، ویران اور اجڑے پڑے ہوں ان کے اندر آرام کر لینا، سایہ حاصل کرنا اور رات گزارنا وغیرہ جائز ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جن مکانوں میں آدمی کا کوئی فائدہ، مقصد یا ضرورت نہ ہو وہاں نہیں جانا چاہیے۔ 
2۔ وَ اللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَ مَا تَكْتُمُوْنَ : یعنی اللہ تعالیٰ تمھارے ظاہر اور پوشیدہ اعمال جانتا ہے، اسے خوب معلوم ہے کہ کسی جگہ جانے میں تمھاری نیت کیا ہے۔



آیت نمبر: 30

قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا  يَصْنَعُونَ

ترجمہ:مومن مردوں سے کہہ دے اپنی کچھ نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔ بے شک اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے جو وہ کرتے ہیں۔

تفسیر:
1۔ قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ: ’’غَضَّ طَرْفَهُ، خَفَضَهُ‘‘ ’’اس نے اپنی آنکھ نیچی کر لی۔‘‘ دوسرا معنی ہے ’’نَقَصَ وَ وَضَعَ مِنْ قَدْرِهِ‘‘ ’’اس نے فلاں کی قدر کم کی۔‘‘ (قاموس) زنا اور بہتان سے محفوظ رکھنے کے لیے گھروں میں داخلے کے آداب بیان فرمانے کے بعد نظر کی حفاظت کا حکم دیا، کیونکہ آدمی کے دل کا دروازہ یہی ہے اور تمام شہوانی فتنوں کا آغاز عموماً یہیں سے ہوتا ہے۔ احمد شوقی نے کہا ہے : ’’نَظْرَةٌ فَابْتِسَامَةٌ فَسَلَامٌ فَكَلَامٌ فَمَوْعِدٌ فَلِقَاءٌ‘‘ ’’نظر ملتی ہے، پھر مسکراہٹ، پھر سلام، پھر گفتگو، پھر وعدہ اور پھر ملاقات تک بات جا پہنچتی ہے۔‘‘ 
2۔ اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے ’’ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ‘‘ کے ساتھ براہ راست مخاطب فرمایا ہے، جیسا کہ ’’ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ ‘‘ اور ’’ لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ ‘‘ سے پہلے ہے، یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا : ’’مومن مردوں سے کہہ دے‘‘ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ نظر کا معاملہ نہایت خطرناک ہے اور اسے روکنا نہایت مشکل کام ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے شہنشاہانہ جلال کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ مومن مردوں سے کہہ دے اور مومن عورتوں سے کہہ دے۔ (البقاعی) (واللہ اعلم) 
3۔ ’’ قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ ‘‘ میں’’ مِنْ ‘‘ تبعیض کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ’’مومن مردوں سے کہہ دے اپنی کچھ نگاہیں نیچی رکھیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ کا حکم یہ نہیں کہ کسی چیز کو بھی نظر بھر کر نہ دیکھو، راستہ چلتے ہوئے بھی نگاہ مت اٹھاؤ، بلکہ حکم کچھ نگاہیں نیچی رکھنے کا ہے اور مراد ان چیزوں سے نگاہ نیچی رکھنا ہے جن کی طرف نگاہ بھر کر دیکھنا اللہ تعالیٰ نے حرام فرمایا ہے، مثلاً اپنی بیوی اور محرم رشتوں کے سوا عورتوں کو دیکھنا، کسی ڈاڑھی کے بغیر لڑکے کو شہوت کی نظر سے دیکھنا، یا کسی کا خط یا وہ چیز دیکھنا جسے وہ چھپانا چاہتا ہے وغیرہ۔ 
4۔ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ : بلا ارادہ پڑنے والی پہلی نظر معاف ہے، گناہ اس نظر پر ہے جو جان بوجھ کر ڈالی جائے۔ نظر کا ذکر خصوصاً فرمایا، کیونکہ عموماً زنا کی ابتدا اس سے ہوتی ہے، ورنہ زنا سارے حواس ہی سے ہوتا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّ اللّٰهُ كَتَبَ عَلَی ابْنِ آدَمَ حَظَّهُ مِنَ الزِّنَا أَدْرَكَ ذٰلِكَ لَا مَحَالَةَ فَزِنَا الْعَيْنِ النَّظَرُ وَ زِنَا اللِّسَانِ الْمَنْطِقُ وَالنَّفْسُ تَتَمَنّٰی وَ تَشْتَهِيْ وَالْفَرْجُ يُصَدِّقُ ذٰلِكَ كُلَّهُ وَ يُكَذِّبُهُ )) [ بخاري، الاستئذان، باب زنا الجوارح دون الفرج : ۶۲۴۳ ] ’’اللہ تعالیٰ نے ابن آدم پر زنا میں سے اس کا حصہ لکھ دیا ہے، جسے وہ لامحالہ حاصل کرے گا، چنانچہ آنکھ کا زنا دیکھنا ہے، زبان کا زنا بولنا ہے اور نفس تمنا اور خواہش کرتا ہے اور شرم گاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب کر دیتی ہے۔‘‘ 
جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اچانک نظر کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں اپنی نظر ہٹا لوں۔‘‘ [ مسلم، الآداب، باب نظر الفجائۃ : ۲۱۵۹ ] البتہ ضرورت کے لیے غیر محرم عورت کو دیکھ سکتا ہے، مثلاً اس سے نکاح کا ارادہ ہو، یا طبی ضرورت ہو، یا کسی حادثہ کی وجہ سے ضرورت پڑ جائے۔ اللہ نے فرمایا: ﴿وَ قَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَيْهِ﴾ [الأنعام : ۱۱۹ ] ’’حالانکہ بلاشبہ اس نے تمھارے لیے وہ چیزیں کھول کر بیان کر دی ہیں جو اس نے تم پر حرام کی ہیں، مگر جس کی طرف تم مجبور کر دیے جاؤ۔‘‘ 
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا يَنْظُرُ الرَّجُلُ إِلٰی عَوْرَةِ الرَّجُلِ وَلَا الْمَرْأَةُ إِلٰی عَوْرَةِ الْمَرْأَةِ وَ لَا يُفْضِی الرَّجُلُ إِلَی الرَّجُلِ فِيْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ وَلَا تُفْضِی الْمَرْأَةُ إِلَی الْمَرْأَةِ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ )) [مسلم، الحیض، باب تحریم النظر إلی العورات : ۳۳۸ ] ’’کوئی مرد دوسرے مرد کی شرم گاہ نہ دیکھے، نہ ہی کوئی عورت کسی عورت کی شرم گاہ دیکھے۔ نہ کوئی مرد کسی مرد کے ساتھ ایک کپڑے میں لیٹے اور نہ کوئی عورت کسی عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں لیٹے۔‘‘ 
5۔ مرد کے لیے اپنی بیوی یا لونڈی کے جسم کا ہر حصہ دیکھنا جائز ہے، اسی طرح بیوی کے لیے اپنے خاوند کے جسم کا اور لونڈی کے لیے اپنے مالک کے جسم کا ہر حصہ دیکھنا جائز ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ﴾ [البقرۃ : ۱۸۷ ] ’’وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔‘‘ ظاہر ہے کہ لباس سے جسم کا کوئی حصہ پوشیدہ نہیں رہتا۔ ابن ماجہ (۶۶۲) میں عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی حدیث کہ میں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شرم گاہ نہیں دیکھی، سند کے لحاظ سے ثابت نہیں، کیونکہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت کرنے والا راوی مجہول ہے۔ اس کے برعکس عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں : ’’میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے، ہمارے ہاتھ اس میں باری باری آتے جاتے تھے۔‘‘ ایک روایت میں ہے : ’’ہم جنبی ہوتے تھے۔‘‘ [ بخاري، الغسل، باب ھل یدخل الجنب یدہ.....: ۲۶۱، ۲۶۳ ] 
6۔ وَ يَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ:يہاں ’’مِنْ‘‘ استعمال نہیں فرمایا کہ اپنی کچھ شرم گاہوں کی حفاظت کریں، بلکہ فرمایا، اپنی شرم گاہوں کی مکمل حفاظت کریں، کیونکہ نظر سے مکمل بچاؤ ممکن نہ تھا۔ 
7۔  اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا يَصْنَعُوْنَ : وہ اس حکم پر عمل کرنے والوں کو جزا دے گا اور عمل نہ کرنے والوں کو سزا دے گا، خواہ ان کی نیکی یا بدی سے کوئی آگاہ ہو یا آگاہ نہ ہو، جو کچھ وہ کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح واقف ہے۔ فرمایا: ﴿يَعْلَمُ خَآىِٕنَةَ الْاَعْيُنِ وَ مَا تُخْفِي الصُّدُوْرُ﴾ [المؤمن : ۱۹ ] ’’وہ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے اور اسے بھی جو سینے چھپاتے ہیں۔‘‘



پانی انسان کے لئے خدا کی طرف سے فراہم کردہ عظیم نعمت ہے، پانی کے بغیر انسان کا زندہ رہنا مشکل ہے۔ انسان جب پانی پیتا ہے تو اسے سکون محسوس ہوتا ہے۔ دنیا کے تمام انسان، چرند، پرند، جانور اورپودوں کی نشوونما کے لئے پانی لازمی ہے۔ پانی جہاں زرعی اجناس کی پیداوار کے لئے ضروری ہے وہیں پانی سے بجلی کی پیداوار بھی حاصل کی جاتی ہے۔ پانی انسانوں کے لئے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ آکسیجن۔۔۔ خدا نے انسان کو آگ، پانی، ہوا اور مٹی سے پیدا کیا، اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پانی انسان کے لئے کیا اہمیت رکھتا ہے۔ یہ بات حقیقت ہے کہ پانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر زندگی کا تصور ممکن ہی نہیں ہے۔ انسانی جسم کا دو تہائی حصہ پانی پر مشتمل ہے۔ ایک عام انسان کے جسم میں پینتیس سے پچاس لیٹر تک پانی ہوتا ہے۔ قدیم زمانے میں انسان کنوﺅں اور دریاﺅں کے پانی کو روز مرہ زندگی میں استعمال کیا کرتا تھا۔ آج کے دور میں آبادی میں اضافے کی وجہ سے دریاﺅں اور ندی نالوں کے پانی کو بڑے آبی ذخیروں میں محفوظ کیا جاتا ہے اور پانی کو ضرورت کے تحت استعمال کیا جاتا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک پانی کو بڑے آبی ذخائر میں محفوظ کر کے اسے اپنی ضروریات کے تحت استعمال کرتے ہیں۔
ہمارے ملک پاکستان میں بھی بجلی اور توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے دو بڑے ڈیمز منگلا اورتربیلا موجود ہیں۔ منگلا ڈیم کی تعمیر ضلع میرپور میں 1967ءمیں کی گئی، ڈیم چار سو چون فیٹ اونچا اور دس ہزار تین سو فیٹ لمبا ہے جبکہ ڈیم میں دس پاور جنریشن پلانٹ نصب ہیں جن سے ایک ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں دوسرا تعمیر ہونے والا ڈیم تربیلا ڈیم تھا جو کہ صوبہ سرحد (خیبرپختونخواہ) کے ضلع ہری پور میں 1971ءمیں تعمیر کیا گیا، ڈیم کی اونچائی چار سو پچاسی فیٹ اور ڈھائی سو سکیئر کلو میٹر تک پھیلا ہوا ہے جبکہ ڈیم سے چوتیس سو میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ پاکستانی سیاست دانوں کی ناقص پولیسیوں کے باعث تربیلا ڈیم کے بعد پاکستان میں کوئی بھی بڑا ڈیم وجود میں نہیں آسکا جس کی وجہ سے آج پاکستان پانی کے شدید مسائل میں مبتلا ہے۔ جب بھی ڈیم بنانے کی بات کی جاتی ہے تو کالا باغ کا نام لے لیا جاتا ہے جس کو بنانے کے لئے ضلعی حکومتیں متفق نہیں، ڈیمز کے بننے کی باتیںتو کی جاتی رہیں ہیں مگر اس اہم مسئلے کو سیاست کی نظر کر دیا جاتا رہا ہے۔ کالا باغ ڈیم ضلع میانوالی میں کالاباغ کے مقام پر بنایا جانا تھا۔ ان دنوں پاکستان ایک عشاریہ پانچ بلین ڈالر کی لاگت سے ایک بڑے ڈیم نیلم جہلم پروجیکٹ پر کام کر رہا ہے جو کہ دریائے جہلم کے پانی کو روک کر بنایا جا رہا ہے، ڈیم سے نو سو انتھر میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکے گی اور پانی کی وسیع مقدار بھی محفوظ ہو سکے گی۔ مگر اس کے پانی پر بھی بھارت کی نظر لگی ہوئی ہے کیونکہ بھارت بھی دریائے جہلم کے پانی کو روک کر تین سو تیس میگاواٹ بجلی کی پیداوار کا حامل کرشن گنگا ڈیم تعمیر کر رہا ہے۔ حالانکہ یہ غیر قانونی ہے اور سندھ طاس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت تین دریائوں ستلج، بیاس اور راوی پر بھارت جبکہ سندھ، جہلم اور چناب کے پانی پر پاکستان کا مکمل حق ہے۔ بھارتی آبی جارحیت کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا کہ جب پاکستان نے بھارتی بگلیہار ڈیم کے ڈیزائن پر اعتراضات کئے اور اسے ورلڈ بینک کے مقرر کردہ سوئس شہری پروفیسر ریمنڈ لیفیت نے درست تسلیم کیا تھا۔ اس معاملے کے بعد سے بھارتی آبی جاحیت کا سلسلہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔
میڈیا کی رپورٹ کے مطابق جب سے بھارت نے بگلیہار ڈیم بنایا ہے دریائے چناب اٹھانوے فیصد خشک ہو چکا ہے اور اس کی وجہ سے چار لاکھ ایکڑ سے زائد اراضی بنجر ہو گئی ہے۔ جس طرح ہمارے دریا خشک ہو رہے ہیں یہ بات زیادہ قرینِ قیاس بنتی جا رہی ہے کہ آئندہ جنگیں پانی کے حصول کےلئے ہوا کریں گی۔
بھارت نے آبی ذخیروں کی تعمیر کا ایک پروگرام شروع کیا ہے جس کے تحت وہ ہمارے دریائوں پر باون ڈیم تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اسی سلسلے میںبیشتر پروجیکٹس پر کام مکمل بھی ہونے والا ہے۔ ان پروجیکٹس کے مکمل ہوتے ہی پاکستان کے پانی پر بھارت مکمل طور پر قابص ہو جائے گا۔ بھارت ہمارے ملک کی زمین کو بنجر کرنا چاہتا ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ بھارت تمام دریائوں کے پانی پر اپنا حق جمائے اور پاکستان بوند بوند کو ترسے۔۔۔
نیل جہلم پروجیکٹ کے علاوہ ایک اور پروجیکٹ جس پر کام کرنے میں حکومت دلچسپی رکھتی ہے وہ دیامیر بھاشا ڈیم پروجیکٹ ہے۔ دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر پر آٹھ عشاریہ پانچ بلین ڈالر لاگت آئے گی جبکہ ساڑھے چار ہزار میگاواٹ بجلی کو پیدا کیا جا سکے گا۔ بھارت نے اس ڈیم کی تعمیر پر اعتراضات کیے ہیں۔ بھارت کا کہنا ہے کہ ڈیم کا منصوبہ مقبوضہ علاقے میں قائم کیاجا رہا ہے جو کہ غیر قانونی ہے اور ڈیم جموںوکشمیر میں سیلاب کا باعث بھی بنے گا۔ یہ ڈیم مکمل طور پر پاکستانی علاقے میں بنایا جائے گا اس کے باوجود بھارت کا اعتراض کچھ عجیب بات محسوس ہوتی ہے۔ اس ڈیم کی تعمیر دریائے سندھ پر اسلام آباد سے چار سو کلو میٹر، تربیلا سے تین سو پندرہ کلومیٹر، گلگت سے ایک سو پینتیس کلومیٹر اور چلاس سے چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر کی جائے گی۔
دریائے سندھ پانی کی کمی کے باعث نالہ سندھ کی شکل اختیار کر چکا ہے، جہاں دریائے سندھ میںلوگ کشتیاں چلایا کرتے تھے آج وہاں عام آدمی چہل قدمی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح ڈیڈ لیول پر پہنچ گئی ہے اور قابل استعمال پانی کا ذخیرہ ختم ہو گیا ہے، پانی کے ذخائر میں کمی کے باعث بجلی کی پیداوار میں بھی کمی ہوگئی ہے۔
قیام پاکستان کے ابتدائی دنوں میں ہر شہری کو پانچ ہزار چھ سوکےوبک پانی میسر تھا جبکہ اب صورتحال پانچ گنا کم ہوچکی ہے۔ تربیلا اور چشمہ میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں بتیس فیصد کمی ہو چکی ہے جس سے پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائشاٹھارہ عشاریہ ایک سات ملین ایکڑ فٹ سے کم ہو کر بارہ عشاریہ سات چھ ملین ایکڑ فٹ رہ گئی ہے۔ پاکستان میں 1947ءمیں پانی کی فی کس دستیابی چھپن سو پچاس کیوبک میٹر، 1951ءمیں چھ ہزار دو سو ساٹھ کیوبک میٹر فی کس، 2000ءمیں ایک ہزار چار سو انتیس کیوبک میٹر فی کس 2005ءمیں ایک ہزار چار سو بیس کیوبک میٹر اور 2010ءمیں کم ہو کر ہزار کیوبک میٹر فی کس رہ گئی ہے۔ 2025ءتک پانی کی فی کس دستیابی کم ہو کر پانچ سو پچاس کیوبک میٹر رہ جانے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ پاکستان کے دریائوں سندھ، جہلم، چناب، کابل اور دیگر دریائوں میں سالانہ ایک سو تیس سے ایک سو پیتیس ایم اے ایف پانی آتا ہے جس میں سے صرف نو فیصد پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ اگر پاکستان نے بھارتی آبی جاحیت کے خلاف موئثر اقدامات اور متعدد ڈیمز کی تعمیر پر توجہ نہ دی تو ملک شدید مسائل میں پھنس جائے گا۔
تحریر:سید محمد عابد



فاخرہ ایک وقت میں 80روٹیاں کھاتی تھی۔۔۔

اس کو سرکس والوں نے دیکھا اور نوکری پر رکھ لیا۔۔۔

پہلا شو شروع ہوا

فاخرہ نے 80 روٹیاں کھالیں۔۔۔

اگلا شو ایک گھنٹے بعد شروع ہوا ۔۔۔

اس نے پھر 80 روٹیاں کھالیں۔۔۔

لوگ بہت حیران تھے۔۔۔

اب تیسرے شو کے لئے رش بڑھ گیا۔۔۔

ایک گھنٹے بعد جب تیسرا شو شروع ہوا تو فاخرہ غائب تھی۔۔۔

اس کو ڈھونڈتے ہوئے جب اس کے گھر پہنچے تو وہ روٹی کھارہی تھی۔۔۔

جب اس سے وجہ پوچھی تو کہنے لگی۔۔۔

ہن میں نوکری ہی کردی رواں۔۔۔

روٹی نہ کھاواں۔۔۔

 

باب الاسلام اردو فورم کی جانب سے اعلان

بسم اللہ الرحمن الرحیم




الحمد للہ والصلاۃ و السلام علی رسول اللہ۔


الحمد للہ کہ اس نے ہمیں اس اردو اسلامی فورم کو  پیش کرنے میں کامیابی عطا فرمائی ہے، جو نہ صرف مواد کی مقدار اور معیار پر خاص توجہ دیتا ہے، بلکہ منہج اور عقائد کی درستگی کو بھی انتہائی احتیاط کے ساتھ ملحوظ نظر رکھتا ہے۔


ہم اللہ سبحانہ و تعالی سے دعا گو ہیں کہ ہماری کوششوں میں برکت ڈالے اور انہیں درجہ قبولیت عطا فرمائے اور اس فورم کو توحید و جہاد کا فعال منبر بنا دے، آمین۔


ربط


 http://bab-ul-islam.net

 
***************************************************************************************



__._,_.___
Recent Activity:
Etihad-e-Islam : Unity of All Muslims.
.

__,_._,___

 
__._,_.___
Recent Activity:
Etihad-e-Islam : Unity of All Muslims.
MARKETPLACE

Find useful articles and helpful tips on living with Fibromyalgia. Visit the Fibromyalgia Zone today!


Stay on top of your group activity without leaving the page you're on - Get the Yahoo! Toolbar now.

.

__,_._,___

 






"" Sura An-Nur ""
 ***~***~***~***~***~***~***~***


 23 - Those Who Slander Chaste, Indiscreet And Believing Women Are Cursed In this Life And In The Hereafter For Them Is A Grievous Chastisement.
23 - Jo Log Paak Daman Bholi Bhali Baimaan Auratoun Par Tohmat Lagate Hain Woh Duniya Wo Aaqirat Mein Maloun Hain Aur Un keliye Bada Bhari Azaab Hai.

24 - On The Day When Their Tongues Their Hands And Their Feet Will Bear Witness Against Them As To Their Action.
24 - Unke Muqabile Me Unki Zubanein Aur Unke Hath Paoun Unke Aamal Ki Gawahi Denge.

25 - On The Day Allah Will Pay Them Back(All) Their Just Dues, And They Will Realise That Allah Is The (Very) Truth That Makes All Things Manifest.
 25 - Uss Din Allah Talah Unhe Poora Poora Badla Haq Wo Insaaf Ke Sath Dega Aur Woh Jaan Lenge Ke Allah Talah Hi Haq Hai(aur wahi) Zahar Karne Wala Hai.

" Tafseer "
**~**~**~**~**
iss Aayat Ko Hazrat Ayesha Razi Allah Anhu Aur Digar Azwaj-E-Mutaharat Ke Sath Qaas Qaraar Diya Hai ke Iss Aayat Me Bataur Qaas Unn Par Tohmat Lagane Ki Sazaa Bayan Ki Gayi Hai Aur Woh Yeh Hai Ke Unke Liye Touba Nahi Hai,Aur Woh Duniya Aur Aaqirat Me Rahmat-E-ilahi Se Mehroom Hai.

Aaye Allah Humari Zuban Ko Apne Bass Me Rakhne ki Toufeeq Aata Farma, Aur Doosroun Par ilzam Lagane Aur Uski Saza Se Bacha....Ameeeen Ya Rabbul Alameeeeen


***~***~***~***~***~***~***~***
Aap Sab Ki Dua Ki Talib
Mrs Rubina Yasmeen
***~***~***~***~***~***~***~***
Join My Group

http://groups.yahoo.com/group/yaadein_meri






__._,_.___
Recent Activity:
Etihad-e-Islam : Unity of All Muslims.
MARKETPLACE

Get great advice about dogs and cats. Visit the Dog & Cat Answers Center.


Stay on top of your group activity without leaving the page you're on - Get the Yahoo! Toolbar now.

.

__,_._,___

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget