مئی 2024
!حضرت محمد ﷺ ابراہیم جلیس ابن انشا ابن حبان ابو حمزہ عبدالخالق صدیقی ابوداؤد اپنے محبوب ﷺ کو پہچانئے احکامِ الصلوة احکام و مسائل احمد اشفاق احمد جمال پاشا احمد مشتاق اختر شیرانی اذکار و وظائف اردو ادب اردو کہانیاں ارشاد خان سکندر ارشد عبد الحمید اسلم انصاری اسلم راہی اسماء الحسنیٰﷻ اسماء المصطفیٰ ﷺ اصلاحی ویڈیو اظہر ادیب افتخار عارف افتخار فلک کاظمی اقبال ساجد اکاؤنٹنگ اکاؤنٹنگ اردو کورس اکاؤنٹنگ ویڈیو کورس اردو اکبر الہ آبادی الکا مشرا الومیناٹی امام ابو حنیفہ امجد اسلام امجد امۃ الحئی وفا ان پیج اردو انبیائے کرام انٹرنیٹ انجینئرنگ انفارمیشن ٹیکنالوجی انیس دہلوی اوبنٹو او ایس اور نیل بہتا رہا ایپل ایپلیکیشنز ایچ ٹی ایم ایل ایڈوب السٹریٹر ایڈوب فوٹو شاپ ایکسل ایم ایس ورڈ ایموجیز اینڈرائڈ ایوب رومانی آبرو شاہ مبارک آپ بیتی آج کی ایپ آج کی آئی ٹی ٹِپ آج کی بات آج کی تصویر آج کی ویڈیو آرٹیفیشل انٹیلیجنس آرٹیفیشل انٹیلیجنس کورس آسان ترجمہ قرآن آفتاب حسین آلوک شریواستو آؤٹ لُک آئی ٹی اردو کورس آئی ٹی مسائل کا حل باصر کاظمی باغ و بہار برین کمپیوٹر انٹرفیس بشیر الدین احمد دہلوی بشیر بدر بشیر فاروقی بلاگر بلوک چین اور کریپٹو بھارت چند کھنہ بھلے شاہ پائتھن پروٹون پروفیسر مولانا محمد یوسف خان پروگرامنگ پروین شاکر پطرس بخاری پندونصائح پوسٹ مارٹم پیر حبیب اللہ خان نقشبندی تاریخی واقعات تجربات تحقیق کے دریچے ترکی زبان سیکھیں ترمذی شریف تلوک چند محروم توحید تہذیب حافی تہنیت ٹپس و ٹرکس ثروت حسین جاوا اسکرپٹ جگر مراد آبادی جمادی الاول جمادی الثانی جہاد جیم جاذل چچا چھکن چودھری محمد علی ردولوی حاجی لق لق حالاتِ حاضرہ حج حذیفہ بن یمان حسرتؔ جے پوری حسرتؔ موہانی حسن بن صباح حسن بن صباح اور اسکی مصنوعی جنت حسن عابدی حسن نعیم حضرت ابراہیم  حضرت ابو ہریرہ حضرت ابوبکر صدیق حضرت اُم ایمن حضرت امام حسینؓ حضرت ثابت بن قیس حضرت دانیال حضرت سلیمان ؑ حضرت عثمانِ غنی حضرت عُزیر حضرت علی المرتضیٰ حضرت عمر فاروق حضرت عیسیٰ  حضرت معاویہ بن ابی سفیان حضرت موسیٰ  حضرت مہدیؓ حکیم منظور حماد حسن خان حمد و نعت حی علی الفلاح خالد بن ولید خالد عرفان خالد مبشر ختمِ نبوت خطبات الرشید خطباتِ فقیر خلاصۂ قرآن خلیفہ دوم خواب کی تعبیر خوارج داستان ایمان فروشوں کی داستانِ یارِ غار والمزار داغ دہلوی دجال درسِ حدیث درسِ قرآن ڈاکٹر عبدالحمید اطہر ندوی ڈاکٹر ماجد دیوبندی ڈاکٹر نذیر احمد ڈیزائننگ ذوالحجۃ ذوالقعدۃ راجیندر منچندا بانی راگھویندر دیویدی ربیع الاول ربیع الثانی رجب رزق کے دروازے رشید احمد صدیقی رمضان روزہ رؤف خیر زاہد شرجیل زکواۃ زید بن ثابت زینفورو ساغر خیامی سائبر سکیورٹی سائنس و ٹیکنالوجی سپلائی چین منیجمنٹ سچائی کی تلاش سراج لکھنوی سرشار صدیقی سرفراز شاہد سرور جمال سسٹم انجینئر سفرنامہ سلطان اختر سلطان محمود غزنوی سلیم احمد سلیم صدیقی سنن ابن ماجہ سنن البیہقی سنن نسائی سوال و جواب سورۃ الاسراء سورۃ الانبیاء سورۃ الکہف سورۃ الاعراف سورۃ ابراہیم سورۃ الاحزاب سورۃ الاخلاص سورۃ الاعلیٰ سورۃ الانشقاق سورۃ الانفال سورۃ الانفطار سورۃ البروج سورۃ البقرۃ سورۃ البلد سورۃ البینہ سورۃ التحریم سورۃ التغابن سورۃ التکاثر سورۃ التکویر سورۃ التین سورۃ الجاثیہ سورۃ الجمعہ سورۃ الجن سورۃ الحاقہ سورۃ الحج سورۃ الحجر سورۃ الحجرات سورۃ الحدید سورۃ الحشر سورۃ الدخان سورۃ الدہر سورۃ الذاریات سورۃ الرحمٰن سورۃ الرعد سورۃ الروم سورۃ الزخرف سورۃ الزلزال سورۃ الزمر سورۃ السجدۃ سورۃ الشعراء سورۃ الشمس سورۃ الشوریٰ سورۃ الصف سورۃ الضحیٰ سورۃ الطارق سورۃ الطلاق سورۃ الطور سورۃ العادیات سورۃ العصر سورۃ العلق سورۃ العنکبوت سورۃ الغاشیہ سورۃ الغافر سورۃ الفاتحہ سورۃ الفتح سورۃ الفجر سورۃ الفرقان سورۃ الفلق سورۃ الفیل سورۃ القارعہ سورۃ القدر سورۃ القصص سورۃ القلم سورۃ القمر سورۃ القیامہ سورۃ الکافرون سورۃ الکوثر سورۃ اللہب سورۃ اللیل سورۃ الم نشرح سورۃ الماعون سورۃ المآئدۃ سورۃ المجادلہ سورۃ المدثر سورۃ المرسلات سورۃ المزمل سورۃ المطففین سورۃ المعارج سورۃ الملک سورۃ الممتحنہ سورۃ المنافقون سورۃ المؤمنون سورۃ النازعات سورۃ الناس سورۃ النباء سورۃ النجم سورۃ النحل سورۃ النساء سورۃ النصر سورۃ النمل سورۃ النور سورۃ الواقعہ سورۃ الھمزہ سورۃ آل عمران سورۃ توبہ سورۃ سباء سورۃ ص سورۃ طٰہٰ سورۃ عبس سورۃ فاطر سورۃ فصلت سورۃ ق سورۃ قریش سورۃ لقمان سورۃ محمد سورۃ مریم سورۃ نوح سورۃ ہود سورۃ یوسف سورۃ یونس سورۃالانعام سورۃالصافات سورۃیٰس سورة الاحقاف سوشل میڈیا سی ایس ایس سی پلس پلس سید امتیاز علی تاج سیرت النبیﷺ شاہد احمد دہلوی شاہد کمال شجاع خاور شرح السنۃ شعب الایمان - بیہقی شعبان شعر و شاعری شفیق الرحمٰن شمشیر بے نیام شمیم حنفی شوال شوق بہرائچی شوکت تھانوی صادق حسین صدیقی صحابہ کرام صحت و تندرستی صحیح بُخاری صحیح مسلم صفر صلاح الدین ایوبی طارق بن زیاد طالب باغپتی طاہر چوھدری ظفر اقبال ظفرتابش ظہور نظر ظہیر کاشمیری عادل منصوری عارف شفیق عاصم واسطی عامر اشرف عبادات و معاملات عباس قمر عبد المالک عبداللہ فارانی عبید اللہ علیم عذرا پروین عرفان صدیقی عزم بہزاد عُشر عُشر کے احکام عطاء رفیع علامہ اقبال علامہ شبلی نعمانیؒ علی بابا عمر بن عبدالعزیز عمران جونانی عمرو بن العاص عنایت اللہ التمش عنبرین حسیب عنبر غالب ایاز غزہ فاتح اُندلس فاتح سندھ فاطمہ حسن فائر فاکس، فتنے فرحت عباس شاہ فرقت کاکوروی فری میسن فریدہ ساجد فلسطین فیض احمد فیض فینکس او ایس قتیل شفائی قربانی قربانی کے احکام قیامت قیوم نظر کاتب وحی کامٹیزیا ویڈیو ایڈیٹر کرشن چندر کرنل محمد خان کروم کشن لال خنداں دہلوی کلیم عاجز کنہیا لال کپور کوانٹم کمپیوٹنگ کورل ڈرا کوئز 1447 کوئز 2025 کیا آپ جانتے ہیں؟ کیف بھوپالی کیلیگرافی و خطاطی کینوا ڈیزائن کورس گوگل گیمز گینٹ چارٹس لائبریری لینکس متفرق مجاہد بن خلیل مجتبیٰ حسین محاورے اور ضرب الامثال محرم محسن اسرار محسن نقوی محشر بدایونی محمد بن قاسم محمد یونس بٹ محمدنجیب قاسمی محمود میاں نجمی مختصر تفسیر ِعتیق مخمور سعیدی مرادِ رسولِ کریم ﷺ مرزا غالبؔ مرزا فرحت اللہ بیگ مزاح و تفریح مستدرک حاکم مستنصر حسین تارڑ مسند احمد مشتاق احمد یوسفی مشکوٰۃ شریف مضمون و مکتوب معارف الحدیث معاشرت و طرزِ زندگی معتزلہ معرکہٴ حق و باطل مفتی ابولبابہ شاہ منصور مفتی رشید احمد مفتی سید مختار الدین شاہ مفتی شعیب عالم مفتی شفیق الدین الصلاح مفتی صداقت علی مفتی عتیق الرحمٰن شہید مفتی عرفان اللہ مفتی غلام مصطفیٰ رفیق مفتی مبین الرحمٰن مفتی محمد افضل مفتی محمد تقی عثمانی مفتی وسیم احمد قاسمی مقابل ہے آئینہ مکیش عالم منصور عمر منظر بھوپالی موبائل سوفٹویئر اور رپیئرنگ موضوع روایات مؤطا امام مالک مولانا اسلم شیخوپوری شہید مولانا اشرف علی تھانوی مولانا اعجاز احمد اعظمی مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مولانا جہان یعقوب صدیقی مولانا حافظ عبدالودود شاہد مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلیؔ مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ مولانا محمد ظفر اقبال مولانا محمد علی جوہر مولانا محمدراشدشفیع مولانا مصلح الدین قاسمی مولانا نعمان نعیم مومن خان مومن مہندر کمار ثانی میاں شاہد میر امن دہلوی میر تقی میر مینا کماری ناز ناصر کاظمی نثار احمد فتحی ندا فاضلی نشور واحدی نماز وٹس ایپ وزیر آغا وکاس شرما راز ونڈوز ویب سائٹ ویڈیو ٹریننگ یاجوج و ماجوج یوسف ناظم یونس تحسین ITDarasgah ITDarasgah - Pakistani Urdu Family Forum for FREE IT Education ITDarasgah - Pakistani Urdu Forum for FREE IT Education ITDarasgah.com - Pakistani Urdu Forum for IT Education & Information ITDCFED ITDCPD ITDCWSE ITDCXA


 ╏╠═🕌═[𝍖🕋𝍖 درسِ قرآن 𝍖🕋𝍖] 🌹 🌹  🌹


 سورہ المآئدۃ آیت نمبر 18

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
ترجمہ: شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے

وَ قَالَتِ الۡیَہُوۡدُ  وَ النَّصٰرٰی  نَحۡنُ اَبۡنٰٓؤُا اللّٰہِ وَ اَحِبَّآؤُہٗ ؕ قُلۡ فَلِمَ یُعَذِّبُکُمۡ  بِذُنُوۡبِکُمۡ ؕ بَلۡ  اَنۡتُمۡ  بَشَرٌ مِّمَّنۡ خَلَقَ ؕ یَغۡفِرُ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ لِلّٰہِ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا بَیۡنَہُمَا ۫ وَ اِلَیۡہِ الۡمَصِیۡرُ ﴿۱۸﴾
ترجمہ: 
یہود و نصاری کہتے ہیں کہ : ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں (ان سے) کہو کہ پھر اللہ تمہارے گناہوں کی وجہ سے تمہیں سزا کیوں دیتا ہے ؟ (١٨) نہیں ! بلکہ تم انہی انسانوں کی طرح انسان ہو جو اس نے پیدا کیے ہیں۔ وہ جس کو چاہتا ہے بخش دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے عذاب دیتا ہے۔ آسمانوں اور زمین پر اور ان کے درمیان جو کچھ موجود ہے اس پر تنہا ملکیت اللہ ہی کی ہے، اور اسی کی طرف (سب کو) لوٹ کر جانا ہے۔
تفسیر: 
18: یہ بات یہود ونصاری بھی مانتے تھے کہ وہ محتلف مواقع پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا نشانہ بنے ہیں اور ان میں سے بہت سے لوگ اس بات کے بھی قائل تھے کہ آخرت میں بھی کچھ عرصے کے لئے وہ دوزخ میں جائیں گے، لہذا بتانا یہ مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسان ایک جیسے پیدا فرمائے ہیں، ان میں کسی خاص نسل کے بارے میں یہ دعوی کرنا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی لاڈلی قوم ہے اور اس کے قوانین سے لازمی طور پر مستثنی ہے بالکل غلط دعوی ہے، اللہ تعالیٰ کے قوانین سب کے لئے برابر ہیں، اس نے کوئی خاص نسل اپنی رحمت کے لئے مخصوص نہیں کی ہے، البتہ وہ اپنی حکمت کے تحت جس کو چاہتا ہے بخش بھی دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اپنے قانون عدل کے تحت سزا بھی دیتا ہے۔
 آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی


 💖💘💞 درسِ حدیث 💞💘💖


سنن ابن ماجہ حدیث نمبر: 4075
کتاب: فتنہ و آزمائش سے متعلق احکام و مسائل
دجال اور یاجوج و ماجوج سے قیامت تک کا بیان

أَنَّهُ سَمِعَ النَّوَّاسَ بْنَ سَمْعَانَ الْكِلَابِيَّ يَقُولُ ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدَّجَّالَ الْغَدَاةَ فَخَفَضَ فِيهِ وَرَفَعَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ فَلَمَّا رُحْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرَفَ ذَلِكَ فِينَا فَقَالَ مَا شَأْنُكُمْ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ذَكَرْتَ الدَّجَّالَ الْغَدَاةَ فَخَفَضْتَ فِيهِ ثُمَّ رَفَعْتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ قَالَ غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُنِي عَلَيْكُمْ إِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا فِيكُمْ فَأَنَا حَجِيجُهُ دُونَكُمْ وَإِنْ يَخْرُجْ وَلَسْتُ فِيكُمْ فَامْرُؤٌ حَجِيجُ نَفْسِهِ وَاللَّهُ خَلِيفَتِي عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ إِنَّهُ شَابٌّ قَطَطٌ عَيْنُهُ قَائِمَةٌ كَأَنِّي أُشَبِّهُهُ بِعَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قَطَنٍ فَمَنْ رَآهُ مِنْكُمْ فَلْيَقْرَأْ عَلَيْهِ فَوَاتِحَ سُورَةِ الْكَهْفِ إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ خَلَّةٍ بَيْنَ الشَّامِ وَالْعِرَاقِ فَعَاثَ يَمِينًا وَعَاثَ شِمَالًا يَا عِبَادَ اللَّهِ اثْبُتُوا قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا لُبْثُهُ فِي الْأَرْضِ قَالَ أَرْبَعُونَ يَوْمًا يَوْمٌ كَسَنَةٍ وَيَوْمٌ كَشَهْرٍ وَيَوْمٌ كَجُمُعَةٍ وَسَائِرُ أَيَّامِهِ كَأَيَّامِكُمْ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَذَلِكَ الْيَوْمُ الَّذِي كَسَنَةٍ تَكْفِينَا فِيهِ صَلَاةُ يَوْمٍ قَالَ فَاقْدُرُوا لَهُ قَدْرَهُ قَالَ قُلْنَا فَمَا إِسْرَاعُهُ فِي الْأَرْضِ قَالَ كَالْغَيْثِ اسْتَدْبَرَتْهُ الرِّيحُ قَالَ فَيَأْتِي الْقَوْمَ فَيَدْعُوهُمْ فَيَسْتَجِيبُونَ لَهُ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ فَيَأْمُرُ السَّمَاءَ أَنْ تُمْطِرَ فَتُمْطِرَ وَيَأْمُرُ الْأَرْضَ أَنْ تُنْبِتَ فَتُنْبِتَ وَتَرُوحُ عَلَيْهِمْ سَارِحَتُهُمْ أَطْوَلَ مَا كَانَتْ ذُرًى وَأَسْبَغَهُ ضُرُوعًا وَأَمَدَّهُ خَوَاصِرَ ثُمَّ يَأْتِي الْقَوْمَ فَيَدْعُوهُمْ فَيَرُدُّونَ عَلَيْهِ قَوْلَهُ فَيَنْصَرِفُ عَنْهُمْ فَيُصْبِحُونَ مُمْحِلِينَ مَا بِأَيْدِيهِمْ شَيْءٌ ثُمَّ يَمُرَّ بِالْخَرِبَةِ فَيَقُولُ لَهَا أَخْرِجِي كُنُوزَكِ فَيَنْطَلِقُ فَتَتْبَعُهُ كُنُوزُهَا كَيَعَاسِيبِ النَّحْلِ ثُمَّ يَدْعُو رَجُلًا مُمْتَلِئًا شَبَابًا فَيَضْرِبُهُ بِالسَّيْفِ ضَرْبَةً فَيَقْطَعُهُ جِزْلَتَيْنِ رَمْيَةَ الْغَرَضِ ثُمَّ يَدْعُوهُ فَيُقْبِلُ يَتَهَلَّلُ وَجْهُهُ يَضْحَكُ فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ فَيَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ بَيْنَ مَهْرُودَتَيْنِ وَاضِعًا كَفَّيْهِ عَلَى أَجْنِحَةِ مَلَكَيْنِ إِذَا طَأْطَأَ رَأْسَهُ قَطَرَ وَإِذَا رَفَعَهُ يَنْحَدِرُ مِنْهُ جُمَانٌ كَاللُّؤْلُؤِ وَلَا يَحِلُّ لِكَافِرٍ يَجِدُ رِيحَ نَفَسِهِ إِلَّا مَاتَ وَنَفَسُهُ يَنْتَهِي حَيْثُ يَنْتَهِي طَرَفُهُ فَيَنْطَلِقُ حَتَّى يُدْرِكَهُ عِنْدَ بَابِ لُدٍّ فَيَقْتُلُهُ ثُمَّ يَأْتِي نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى قَوْمًا قَدْ عَصَمَهُمْ اللَّهُ فَيَمْسَحُ وُجُوهَهُمْ وَيُحَدِّثُهُمْ بِدَرَجَاتِهِمْ فِي الْجَنَّةِ فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ أَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ يَا عِيسَى إِنِّي قَدْ أَخْرَجْتُ عِبَادًا لِي لَا يَدَانِ لِأَحَدٍ بِقِتَالِهِمْ وَأَحْرِزْ عِبَادِي إِلَى الطُّورِ وَيَبْعَثُ اللَّهُ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَهُمْ كَمَا قَالَ اللَّهُ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ فَيَمُرُّ أَوَائِلُهُمْ عَلَى بُحَيْرَةِ الطَّبَرِيَّةِ فَيَشْرَبُونَ مَا فِيهَا ثُمَّ يَمُرُّ آخِرُهُمْ فَيَقُولُونَ لَقَدْ كَانَ فِي هَذَا مَاءٌ مَرَّةً وَيَحْضُرُ نَبِيُّ اللَّهِ وَأَصْحَابُهُ حَتَّى يَكُونَ رَأْسُ الثَّوْرِ لِأَحَدِهِمْ خَيْرًا مِنْ مِائَةِ دِينَارٍ لِأَحَدِكُمْ الْيَوْمَ فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ إِلَى اللَّهِ فَيُرْسِلُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ النَّغَفَ فِي رِقَابِهِمْ فَيُصْبِحُونَ فَرْسَى كَمَوْتِ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَيَهْبِطُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ فَلَا يَجِدُونَ مَوْضِعَ شِبْرٍ إِلَّا قَدْ مَلَأَهُ زَهَمُهُمْ وَنَتْنُهُمْ وَدِمَاؤُهُمْ فَيَرْغَبُونَ إِلَى اللَّهِ فَيُرْسِلُ عَلَيْهِمْ طَيْرًا كَأَعْنَاقِ الْبُخْتِ فَتَحْمِلُهُمْ فَتَطْرَحُهُمْ حَيْثُ شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ يُرْسِلُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مَطَرًا لَا يُكِنُّ مِنْهُ بَيْتُ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ فَيَغْسِلُهُ حَتَّى يَتْرُكَهُ كَالزَّلَقَةِ ثُمَّ يُقَالُ لِلْأَرْضِ أَنْبِتِي ثَمَرَتَكِ وَرُدِّي بَرَكَتَكِ فَيَوْمَئِذٍ تَأْكُلُ الْعِصَابَةُ مِنْ الرِّمَّانَةِ فَتُشْبِعُهُمْ وَيَسْتَظِلُّونَ بِقِحْفِهَا وَيُبَارِكُ اللَّهُ فِي الرِّسْلِ حَتَّى إِنَّ اللِّقْحَةَ مِنْ الْإِبِلِ تَكْفِي الْفِئَامَ مِنْ النَّاسِ وَاللِّقْحَةَ مِنْ الْبَقَرِ تَكْفِي الْقَبِيلَةَ وَاللِّقْحَةَ مِنْ الْغَنَمِ تَكْفِي الْفَخِذَ فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ رِيحًا طَيِّبَةً فَتَأْخُذُ تَحْتَ آبَاطِهِمْ فَتَقْبِضُ رُوحَ كُلَّ مُسْلِمٍ وَيَبْقَى سَائِرُ النَّاسِ يَتَهَارَجُونَ كَمَا تَتَهَارَجُ الْحُمُرُ فَعَلَيْهِمْ تَقُومُ السَّاعَةُ

ترجمہ : حضرت نواس بن سمعان کلابی ؓ سے روایتہ ے، ایک صبح رسول اللہ ﷺ نے دجال کا ذکر فرمایا، اس کی حقارت کا ذکر فرمایا اور اس کا عظیم (بڑا فتنہ) ہونا بیان فرمایا۔ (یا مطلب یہ ہے کہ تفصیل سے بیان کرتے ہوئے کبھی معمول کی آواز میں بیان فرمایا، کبھی آواز بلند فرمائی) حتی کہ ہمیں محسوس ہوا کہ وہ کھجور کے پتوں کے کسی جھنڈ میں ہے (اور ابھی نکلنے والا ہے)، جب ہم (اس کے بعد) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ہماری یہ (خوفزدگی کی) کیفیت ملاحظہ فرمائی۔ آپ نے فرمایا: ‘‘تم لوگوں کو کیا ہوا’’؟ ہم نے کہا: اللہ کے رسول! آج صبح آپ نے دجال کا ذکر فرمایا۔ اس کی پستی اور بلندی کا ذکر فرمایا (یا آہستہ اور بلند آواز سے تنبیہ فرمائی) حتی کہ ہمیں محسوس کہ وہ کھجوروں کے جھنڈ میں ہے۔ اپ نے فرمایا: ‘‘مجھے تمہارے بارے میں دجال سے زیادہ کسی اور چیز سے خطرہ ہے۔ اگر وہ اس وقت ظاہر ہوا جب کہ میں تمہارے اندر موجود ہوں تو تم سے پہلے میں اس کا مقابلہ کروں گا  (دلائل کے ذریعے سے یا اس کے شعبدوں کی حقیقت ظاہر کر کے ہو) اور اگر وہ اس وقت ظاہر ہوا جب میں تمہارے اندر نہیں ہوگا تو ہر شخص اپنا دفاع خود کرے گا اور میری عدم موجودگی میں اللہ ہر مسلمان کامددگار ہے ۔ دجال گھنگریالے بالوں والا جوان ہے۔ اس کی آنکھ ابھری ہوئی ہے ۔ وہ ایسا ہے کہ میں اسے عبدالعزیٰ بن قطن سے تشبیہ دیتاہوں ۔ تم میں سے جو کوئی اسے دیکھے اس کے سامنے سورہ کہف کی ابتدائی آیات پڑھے۔ وہ شام اور عراق کے درمیان ایک راستے پر ظاہر ہوگا اوردائیں بائیں فساد پھیلائے گا۔ اللہ کے بندو! ثابت قدم رہنا ۔‘‘ہم نے کہا : اللہ کے رسول ! وہ زمین کاکتناعرصہ رہے گا؟ آپ نے فرمایا : ‘‘چالیس دن (جن میں سے ) ایک دن ایک سال کے برابر ہوگا ۔ ایک دن ایک مہینے کے برابر، اور ایک دن ایک جمعہ(سات دن) کے برابر، اور باقی (سینتیس) دن تمہارے (عام )دنوں کی طرح ہوں گے ’’۔ ہم نے کہا: اللہ کے رسول ! وہ دن جو سال کے برابر ہوگا، کیااس دن میں ہمیں ایک دن کی (صرف پانچ )نمازیں کافی ہوں گی ؟ آپ نےفرمایا :‘‘ اس دن میں اس کی مقدار کے مطابق اندازہ کرلینا ’’۔ ہم نےکہا: اللہ کے رسول ! زمین میں اس (کے سفر کرنے) کی رفتار کتنی ہوگی ؟فرمایا :‘‘جیسے بادل، جس کے پیچھے ہوا لگی ہوئی ہو (اور اسے اڑائے لئے جارہی ہو ۔’’)نبی ﷺ نے فرمایا :‘‘ وہ کچھ لوگوں کے پاس آئے گا ، انھیں (اپنی بات تسلیم کرنے کی )دعوت دے گا، وہ اس کی بات مان لیں گے اور (اس کے دعوے کو سچا مان کر) اس پر ایمان لے آئیں گے ۔ وہ آسمان کوحکم دے گا کہ بارش برسائے توبارش ہوجائے گی ۔ زمین کوحکم دے گا کہ فصلیں اگائے تووہ اگا دے گی ۔ ان کے مویشی شام کو(چرچگ کر)واپس آئیں گے توان کی کوہانیں انتہائی اونچی، ان کے تھن انتہائی بڑے(دودھ سے لبریز) اور ان کی کھوکھیں خوب نکلی ہوئی ہوںگی (خوب سیر ہوں گے ۔)پھر وہ کچھ (اور )لوگون کے پاس جائے گا ، انھیں (اپنے دعویٰ پر ایمان لانے کی )دعوت دے گا، وہ اس کی بات ٹھکرا دیں گے ، وہ ان کے پاس سے چلا جائے گا۔ صبح ہوگی تو وہ لوگ قحط کاشکار ہوجائیں گے ، ان کے پاس (مال ، جانور وغیرہ )کچھ نہیں رہے گا ۔ پھر وہ ایک کھنڈر پر سے گزرے گا تو اے کہے گا: اپنے خزانے نکال دے۔ (فوراً زمین میں مدفون )وہ (خزانے)شہد کی مکھیوں کی طرح اس کے پیچھے چل پڑیں گے ۔ پھر وہ یک بھرپور جوانی والے ایک آدمی کو بلائے گا اور اسے تلورا کے ایک وار سے دوٹکڑے کردے گا۔ (ان ٹکڑوں کو ایک دوسرے سے اتنی دور پھینک دے گا)جتنی دور تیر جاتا ہے ۔ پھر اسے بلائے گاتووہ (زندہ ہوکر)ہنستاہو آجائے گا، اس کاچہرہ (خوشی سے )دمک رہا ہوگا ۔ اسی اثنا میں اللہ تعالی حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو (زمین پر)بھیج دے گا۔ وہ دمشق کے مشرق کی طرف سفید مینار کے قریب نازل ہوں گے ، انھوں نے ورس اور زعفران سے رنگے ہوئے دوکپڑے پہن رکھے ہوں گے ، دو فرشتوں کے پروح پرہاتھ رکھے ہوئے ہوں گے ۔جب سرجھکائیں گے تو(پانی کے )قطرے ٹپکیں گے ، جب سر اٹھائیں گے توموتیوں کی طرح قطرے گریں گے ۔ جس کافر تک انکے سانس کی مہک پہنچے گی ، وہ ضرور مر جائے گا۔ ان کے سانس کی مہک وہاں تک پہنچے گی جہاں تک ان کی نظر پہنچے گی ۔ پھر وہ (دجال کے تعاقب میں )روانہ ہوں گے حتی کے اسے لُد شہر کے دروازے پر جالیں گے اور قتل کردیں گے ۔ پھر اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام ان لوگوں کے پاس آئیں گے جنہیں اللہ نے (دجال کے فتنے میں مبتلا ہوکر گمراہ ہونے سے )بچالیا ہوگا۔ ان کے چہروں سے غبار صاف کریں گے اور انھیں جنت میں انکے درجات سے آگاہ کریں گے ۔ اسی اثنامیں اللہ تعالی حضرت عیسیٰ پر وحی نازل فرمائے گا:اے عیسیٰ ! میں نے اپنے کچھ بندے ظاہر کئے ہیں، ان سے جنگ کرنے کی کسی میں طاقت نہیں ، ان (مومنوں ) کی حفاظت کے لئے ‘‘طور ’’ پر لے جائیے۔ تب اللہ تعالی یاجوج ماجوج کو چھوڑ دے گااوروہ جیساکہ اللہ نے فرمایا :‘‘ہرٹیلے سے (اتر اترکر)بھاگے آرہے ہوں گے ’’۔ ان کے پہلے لوگوں (ہجوم کے شروع کے حصے) کاگزر بحیرہ طبریہ سے ہوگا، وہ اس کاسارا پانی پی جائیں گے۔ جب انکے پچھلے افراد گزریں گے توکہیں گے:کبھی اس مقام پر پانی بھی ہوتا تھا ۔اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی (طور ہی پر)موجود ہوں گے۔(یاجوج ماجوج کی وجہ سے کہیں آجا نہیں سکیں گے اس لئے خوراک کی شدید قلت ہوجائے گی )حتی کہ انھیں ایک بیل کا سر اس سے بہتر معلوم ہوگاجتنا تمہیں آج کل سو اشرفیوں کی رقم اچھی لگتی ہے۔ اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام اور آپ کے ساتھ اللہ کی طرف توجہ فرمائیں گے (اور دعائیں کریں گے ۔) تب اللہ یاجوج ماجوج کی گردنوں میں کیڑے پیداکردے گا،چنانچہ وہ سارے کے سارے ایک ہی بار مر جائیں گے ۔ اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام اور آپ کے ساتھ (پہاڑ سے )اتریں گے تودیکھیں گے کہ ایک بالشت جگہ بھی ایسی نہیں جو ان کی بدبو، ان کی سڑاند اور ان کے خون سے آلود نہ ہو۔ وہ اللہ کی طرف توجہ فرمائیں گے (اور دعائیں کریں گے )تو اللہ ایسے پرندے بھیج دے گاجو بختی اونٹوں کی گردنوں کی طرح ہوں گے۔ وہ ان (کی لاشوں )کو اٹھا اٹھا کر جہاں اللہ چاہے پھینک دیں گے ۔ پھر اللہ ان پر ایسی بارش نازل فرمائے گا جس سے نہ اینٹوں کے مکان میں بچاؤ ہوگا، نہ خیمے میں ۔ وہ (بارش ) زمین کو دھو کر آئینے کی طرح صاف کردے گی ۔ پھر زمین کوحکم ہوگا: اپنے پھل اگا ، اور برکت دوبارہ ظاہر کردے۔ ان دنوں ایک جماعت ایک انار کھائے گی تو سب افراد سیر ہوجائیں گے اور اس کاچھلکا ان سب کو سایہ کرسکے گا۔ اللہ دودھ والے جانوروں میں اتنی برکت دے گاکہ ایک دودھ دینے والی اونٹنی سے ایک بڑی جماعت کاگزارا ہوجائے گا ۔ اور ایک دودھ دینے والی گائے ایک قبیلے کے لئے کافی ہوگی۔ اور ایک دودھ دینے والی بکری ایک بڑے کنبے کوکافی ہوگی ۔ وہ اسی انداز سے (خوش گوار اور بابرکت ایام گزار رہے )ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ان پر ایک خوش گوار ہوا بھیج دے گا۔ وہ ان کی بغلوں کے نیچے سے گزرے گی اور ہر مسلمان کی روح قبض کرلے گی ۔اور باقی ایسے لوگ رہ جائیں گے جو اس طرح (سرعام) جماع کریں گے جس طرح گدھے جفتی کرتے ہیں ۔ انھی پر قیامت قام ہوگی ۔ (صور پھونکنے پریہی لوگ مریں گے ’’۔)


تشریح : 
1۔سورہ کہف کے پہلے رکوع  کی تلاوت  دجال کے فتنے سے حفاظت کا باعث ہے۔
2۔علماء کو چاہیے کہ علامات قیامت کی صحیح احادیث عوام کو سنائیںخاص طور پر دجال کے بارے میں انھیں باخبر کریں تاکہ وہ فتنے سے بچ سکیں۔
3۔دجال کے حکم پر بارش کا برسنا یا قحط پڑجانا اسی طرح ایک آزمائش ہے جس طرح اس کی جنت اور  جہنم یا اس کا مردے کو زندہ کرنا۔
4۔دجال کے ظہور کے زمانے میں دن رات کا موجودہ نظام  محدود مدت کے لیے معطل ہوجائے گا۔
5۔ایک سال کے برابر لمبے دن میں، وقت کا اندازہ کر کے،پورے سال کی نمازیں ادا کرنے کا حکم ہے  ۔اس میں اشارہ ہے کہاس وقت انسانوں کے پاس ایسے ذرائع ہوں گے جن سے وہ وقت  کا صحیح اندازہ  کرسکیں گےاس میںگھڑی کی ایجاد کی پیش گوئی ہے۔
6۔اس حدیث سے قطب شمالی اور قطب جنوبی کے ان علاقوں کے بارے میں بھی جہاںسال کے بعض حصوں میں دن رات کا معروف  نظام نہیں رہتا۔ایسے علاقوں میں نماز اور روزے کا اندازہ گھڑی دیکھ کر کیا جائے۔اگر کوئی شخص خلا میں جائے تو وہاں بھی اسی اصول کو مد نظر رکھے۔
7۔حضرت عیسی ٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود ہیں۔اس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔اور یہ بھی متفق علیہ مسئلہ ہے کہ وہ دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے۔اس سے صرف صرف مرزا غلام قادیانی اور اس کے پیروکا ر اختلاف  رکھتے ہیں۔
8۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے بہت سے معاملات معجزانہ کیفیت رکھتے ہیں۔ان میں سے یہ بھی ہے کہ پہلے کافروں نے انھیں شہید کرنے کی کوشش کی تھی اب کافروں کا ان کی حد نظر میں زندہ رہنا ممکن نہ ہوگا۔
9۔لد ایک شہر ہے جو فلسطین( موجودہ یہودی ریاست  اسرائیل) میں واقع  ہے۔وہاں ہوائی اڈہ بھی ہے۔ممکن ہے کہ شہر کے دروازے سے مراد اس کا ہوائی اڈہ ہو جہاں دجال فرار ہونے کی کوشش میں حضرت عیسی ٰ علیہ السلام  کے قابو میں آجائے۔
10۔دجال بھی مسیح کہلاتا ہے مگر وہ جھوٹا مسیح ہے۔عیسیٰ علیہ السلام سچے  مسیح ہیں جن  کے ہاتھ سے وہ جہنم میں رسید ہوگا۔
11۔یاجوج ماجوج جسمانی  لحاظ  سے قوی ہیکل ہونگےاور تعداد میں بھی بہت زیادہ ہونگےاس لیے عام انسان ان کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے
12۔یاجوج ماجوج اس وقت کہاں ہیں؟یہ معلوم نہیں تاہم وہ یقیناًموجود ہیںاس میں شک نہیں۔
13۔اہل چین یا اہل روس یا اس کے علاوہ کسی ملک کے باسی لوگوں کو یاجوج ماجوج قراردیان درست نہیں۔
14۔یاجوج ماجوج اچانک ختم ہوجائینگے۔
15۔یاجوج ماجوج کی ہلاکت  کے بعد نباتات اور حیوانات کی  پیداوار میں بہت زیادہ برکت ہوگی۔
16۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات  مدینہ منورہ میں ہوگی
17۔ان کے بعد ان کے خلفاء ہونگے مسلمانوں کی تعداد کم ہوتی جائے گی آخر ایک خاص  ہوا سے بچے کھچے مسلمان فوت ہوجائیں گے
18۔قیامت کے ابتدائی مراحل مثلاً:صور پھونکے جانے  پر سب کا مرجانا وغیرہ بہت شدید  مراحل ہیں۔اللہ تعالی مسلمانوں کو ان سے محفوظ رکھے گا۔


فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد :  قسط نمبر  05 ═(پہلی فتح)═
 🌴⚔️🛡️فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد🕌💚🌷
✍🏻تحریر:  صادق حسین صدیقی
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جس وقت امامن اور اسمٰعیل عیسائیوں کے خیموں کی طرف چلے تھے اس وقت جنگ زور شور سے ہو رہی تھی-ہر طرف تلواریں اٹھتی اور جھکتی نظر آ رہی تھیں-خون کی پهوہاریں برس رہی تھیں سر کٹ کر گیندوں کی طرح سے اچھل رہے تھے اور زمین گر رہے تھے-اس وقت مسلمان اور عیسائی دونوں اپنی اپنی ہستیوں کو بھولے ہوئے تھے اور نہایت جوش نیز بڑے غیظ و غضب سے بھرے ہوئے لڑ رہے تھے-عیسائیوں کو یقین تھا کہ وہ مسلمانوں کو یا تو مار ڈالیں گے یا پسپا کر دیں گے مگر اس سے پہلے ان کا کبھی مسلمانوں سے مقابلہ نہ ہوا تھا بلکہ مقابلہ تو درکنار انہوں نے کبھی ان کو دیکھا تک نہ تھا-اس سے پہلے وہ یہ سمجھ رہے تھے، بلکہ مار رہے تھے، جو عیسائی ان تلواروں کی زد میں آ جاتا ہے تها -وہ بہت جدوجہد کرنے کے باوجود بھی نہ بچتا موت اسے آ دباتی تھی-عیسائیوں کو اپنی کیفیت دیکھ دیکھ کر بہت طیش آ رہا تھا-وہ جوش و غیظ میں آ کر گھوڑوں کو ایڑیں لگا لگا کر جھپٹ جھپٹ کر حملے کر رہے تھے-ان کی بے پناہ تلواریں اٹھتی تھیں اور بجلی کی طرح کوندتے ہوئے مسلمانوں کے سروں پر جھکتی تھیں لیکن مجاہدین نہایت اطمینان اور بڑی تجربہ کاری سے ان کو اپنی ڈھالوں پر روک لیتے تھے اور ان کے حملے کو روکتے ہی خود بھی حملہ کر دیتے تھے-ان کا ہر حملہ ایسا جان لیوا ہوتا تھا کہ دس بیس عیسائیوں کو آن کی آن میں ختم کر دیتا تھا-چونکہ محاذ جنگ دور تک پھیلا ہوا تھا، اس لیے دور تک تلواروں کا کھیت آگا ہوا معلوم ہوتا تھا-جنگ دوپہر سے پہلے شروع ہوئی تھی اور اب دوپہر کو ڈھلے ہوئے کافی وقت ہو گیا تھا-جنگ ہنوز پورے زور و شور سے ہو رہی تھی-سرفروش بڑی دلیری سے لڑ رہے تھے مسلمان جس جوش و جرات سے لڑ رہے تھے اس سے معلوم ہوتا تھا کہ وہیہ چاہتے ہیں کہ جنگ ظہر کا وقت قضا ہونے سے پہلے ہیختم ہو جائے مگر عیسائی بھی کچھ موم کے بنے ہوئے نہ تھے وہ بھی نہایت دلیری اور بہادری سے لڑ رہے تھے-مغیث الرومی دائیں طرف والے دستے کو سنبھالے تھے اور کمال جوش سے لڑ رہے تھے-انہوں نے اس قدر عیسائیوں کو قتل کر ڈالا تھا کہ انہیں شمار ہی نہ کر سکے تھے اور اب بھی وہ تھکے نہیں تھے-برابر اسی شد و مد سے حملے کر رہے تھے اور دشمنوں کوہمہ تن مصروف نظر آ رہے تھے-ان کی خون آشام تلوار جس طرف جھکتی تھی اور جس کے سر پر پڑتی تھی اسے قتل کئے بغیر نہ چھوڑتی تھی وہ ایک ہاتھ میں ڈھال اور دوسری ہاتھ تلوار لئے بڑی جان بازی سے لڑ رہے تھے عیسائی ان کو غصہ بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے کہ کسی طرح سے انہیں مار ڈالیں مگر ان کے پاس جانے کی جرات نہ پڑتی تھی اور جو قسمت کا مارا ان کے پاس پہنچ بھی جاتا تو وہ قتل ہو کر گر پڑا تھا-عیسائیوں پر ان کا رعب طاری ہو گیا تھا اور ان سے بچنے کے لیے ادھر ادھر دبنے لگے تھے مگر وہ انہیں بچنے بھی نہ دیتے تھے خود ہی جھپٹ کر اور جست کر کے حملہ کرتے تھے -طارق لشکر کے درمیان میں تھے وہ بھی بھوکے شیروں کی طرح سے غنیم پر جا پڑتے تھے-یہاں تدمیر بھی موجود تھا اور وہ بڑے جوش و خروش سے لڑ رہا تھا اسے لڑتے ہوئے دیکھ کر عیسائی پوری قوت سے لڑ رہے تھے____
طارق اس وقت اپنی ہستی کو بھولے ہوئے تھے نیز لڑائی میں کچھ ایسے مصروف تھے کہ وہ یہ بھی نہیں دیکھ رہے تھے کہ ان کے ساتھ کوئی مسلمان ہے بھی یا اکیلے لڑ رہے ہیں-
اکثر و بیشتر ایسا ہی ہوا کہ وہ تنہا ہو جاتے اور انہوں نے تنہا ہی حملہ کر کے دشمنوں کی صفوں کو الٹ دیا بیسویں عیسائیوں کو مار ڈالا اور دسیوں گھوڑوں کو مجروح کیا-
عیسائی ان کو اس طرح سے لڑتے دیکھ کر تعجب کر رہے تھے-
وہ نہیں جانتے تھے کہ طارق کسی شیر کی اولاد ہے اور کس قدر ان میں جوش و خروش اور قوت ہے-"
وہ جب کسی پر حملہ کرتے اس کی ڈھال کو پھاڑ کر سر دو پھانکیں کر کے حلق سے سینے تک چیر دیتے تھے-
ایک مرتبہ انہوں نے عیسائیوں کے غول پر حملہ کر دیا-
قریب پچاس ساٹھ عیسائی تھے انہوں نے پہلے ہی حملے میں دو کو مار ڈالا اور دوسرے میں بھی ایک کو ختم کر دیا-
عیسائیوں کو یہ دیکھ کر بڑا غصہ آیا چونکہ طارق تنہا تھے اس لیے عیسائیوں کا حوصلہ بڑھ گیا اور انہوں نے طارق کو نرغے میں لے کر چاروں طرف سے تلواروں کا مینہ برسا دیا اگرچہ طارق بری طرح سے گھر چکے تھے مگر وہ گھبرائے نہیں نہ ہی بے اوسان ہوئے بلکہ نہایت استقلال اور ہمت سے ڈٹے رہے
وہ جس طرح جست لگا کر جاتے اور جس پر حملہ کرتے اسے قتل کئے بغیر نہ چھوڑتے تھے انہوں نے تھوڑی دیر میں دس پندرہ آدمیوں کو مار ڈالا-
یہ دیکھ کر عیسائیوں کے حوصلے پست ہو گئے اور ان سے بچ بچا کر لڑنے لگے لیکن وہ کب بچنے دیتے تھے-
وہ اور بھی تیزی سے جھپٹ جھپٹ کر حملے کرنے لگے-
چونکہ ابھی تک گھمسان کی جنگ ہو رہی تھی اور ہر شخص مصروف پیکار تھا اس لیے کسی کو بھی طارق کے حال سے آگاہی نہ تھی لہذا کوئی بھی ان کی مدد کے لیے نہیں آیا مگر اللہ نے ان کو کچھ ایسی قوت عطا فرمائی تھی کہ ان کو مدد کی ضرورت پیش نہ آئی اور انہوں نے آدھے عیسائیوں کو تو مار ڈالا اور آدھے ڈر کر ادھر ادھر دبک گئے-
انہیں اس معرکہ میں اتنی محنت و مشقت کرنا پڑی کہ جب عیسائی ان کے سامنے سے ہٹے تو وہ پسینے میں نہا رہے تھے-
سارے چہرے پر پسینے کے قطرے اس طرح سے بہہ رہے تھے کہ جیسے کہ انہوں نے وضو کیا ہو اور وضو کر کے منہ پوچھنے کی نوبت نہ آئی ہو-
وہ کھڑے ہو کر سستاتے لگے-
اس وقت ان کے ہاتھ بھی شل ہو چکے تھے کھڑے کھڑے ان کی نگاہ آسمان کی طرف اٹھ گئی-
انہوں نے دیکھا کہ آفتاب مغرب کی جانب جھک گیا ہے اور ظہر کا وقت تنگ ہو رہا ہے چونکہ ہر مسلمان مصروف پیکار تھا اور عیسائی و مسلمان مخلوط ہو رہے تھے اس لیے یہ ناگریز ہو گیا تھا کہ نصف لشکر کو پیچھے ہٹا کر نماز شروع کر دی جائے-"
یہ دیکھ کر طارق نے آہ بھرتے ہوئے کہا-"
آہ-"
آج ظہر کی نماز قضا ہو رہی ہے-"
انہوں نے آسمان کی طرف منہ کر کے کہا اللہ مسلمانوں کی مدد کر دیکھ تیری عبادت کرنے والے آج ظہر کی نماز بھی نہیں پڑھ سکے ہیں-"
چند لمحے سستانے کے بعد وہ پھر سے جنگ کے لیے تیار ہو گئے انہوں نے بلند آواز فرمایا:
مسلمانوں یہ کیا کم ہمتی ہے لڑائی کو کیوں طول دے رہے ہو؟ "
کیوں نہیں کوشش کر کے دشمنوں کو ختم کر ڈالتے؟ "
یہ کہتے ہی انہوں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور ہر شخص نے ہر جگہ نئے جوش و جذبے سے حملہ کر دیا-
خود طارق بھی دشمنوں پر جا ٹوٹے اور لڑائی شروع ہو گئی عیسائی بھی شور و غل مچا رہے تھے مگر مسلمانوں کے نعرہ کی آواز میں ان کا غل جذب ہو کر رہ گیا تھا-
طارق نے دور ہی سے دیکھ لیا تھا کہ تدمیر اپنے ساتھیوں کو جوش دلا کر لڑائی کو برانگیختہ کر رہا تھا انہوں نے ان لوگوں پر حملہ کر دیا جو ان کے سامنے تھے اور نہایت صفائی سے سپاہیوں کو مار کر تدمیر کے پاس جانے کا راستہ صاف کر دیا-
تدمیر دور ہی سے کھڑا ان کی لڑائی کی کیفیت دیکھ چکا تھا-"
اسے خود بھی حملہ کرنے کی جرات نہیں ہوئی تھی اب جبکہ طارق خودہی اس کے سامنے آ گئے تو اسے مجبوراً مقابلہ پر آنا پڑا-"
اس نے فوراً حملہ کیا-
طارق کی تلوار نے ڈھال کو پھاڑ ڈالا تدمیر گھبرا گیا اس نے اپنی ڈھال طارق کے سر پر دے ماری-
طارق نے جلدی سے اس کی ڈھال کے وار کو روکا اور دوسرا حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھا تدمیر سمجھ گیا کہ اگر وہ زرا سی دیر بھی وہاں رکا تو اس کی موت یقینی ہے-
لہذا اس نے جلدی سے گھوڑا لوٹایا اور نہایت تیزی سے ڈورا کچھ دیر تک طارق نے اس کا پیچھا کیا مگر وہ گھوڑے پر تھا اور یہ پیدل اس لیے وہ دور نکل گیا مجبور ہو کر یہ لوٹے اور لڑنے والے عیسائیوں پر ٹوٹ پڑے-
عیسائیوں نے تدمیر کو بھاگتے ہوئے دیکھ لیا تھا-
ان کی ہمتیں ٹوٹ گئی تھیں حوصلے پست ہو گئے اور وہ بد حواس ہو کر نہایت تیزی سے بڑے بے اوسان ہو کر بھاگے-
مجاہدین اسلام نے ڈور کر ان کا تعاقب کیا اور جہاں تک بھی ان کا بس چلا اور موقع ملا انہیں مارتے کاٹتے ان کے پیچھے لگے چلے گئے؛ لیکن جب عیسائی دور نکل گئے تب طارق نے بلند آواز کہا-"
مسلمانوں واپس لوٹ آو ابھی وقت ہے کہ ہم ظہر کی نماز پڑھ لیں-"
اس آواز کو سنتے ہی جس جس مسلمان نے سنا اس نے پکار کر دوسروں کو اس سے آگاہ کر دیا اس طرح سے تمام مسلمانوں نے سن لیا اور سب واپس لوٹ آئے انہوں نے میدان جنگ میں ایک طرف جا کر نماز کی تیاری شروع کر دی-
وضو کیا اور نماز پڑھنے میں مشغول ہو گئے
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جاری ہے۔۔۔

 

دین اسلام میں والدین کیساتھ حسن سلوک کی شدید تاکید کی گئی ہے اور ان سے بد سلوکی کرنے سے منع کیا گیا ہے، اولاد پر والدین کا حق اتنا بڑا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کے ساتھ والدین کا حق بیان فرمایا ہے۔ یعنی مخلوق خدا میں والدین کے حق کو باقی تمام حقوق پر ترجیح دی ہے۔

اسی طرح حضور نبی کریمﷺ نے بھی والدین کی نافرمانی کرنے اور انہیں اذیت و تکلیف پہنچانے کو کبیرہ گناہ قرار دیا ہے، والدین سے بدسلوکی کرنے والے بدنصیب کو رحمت الٰہی اور جنت سے محروم قرار دیا ہے، اللہ رب العزت نے انسانوں کو مختلف رشتوں میں پرویا ہے، ان میں کسی کو باپ بنایا ہے تو کسی کو ماں کا درجہ دیا ہے اور کسی کو بیٹا بنایا ہے تو کسی کو بیٹی کی نسبت عطا کی ہے ، غرض ر شتے بنانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے حقوق مقر ر فرمائے ہیں۔

ان حقوق میں سے ہر ایک کا ادا کر نا ضروری ہے، لیکن والد ین کے حق کو اللہ رب العزت نے قرآن کریم میںاپنی بندگی اور ا طا عت کے فوراً بعد ذکر فرمایا، یہ اس بات کی طرف اشا رہ ہے کہ رشتوں میں سب سے بڑا حق والدین کا ہے۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں، ترجمہ ’’ اور تیرے رب نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ ، اگر وہ تیری زندگی میں بڑھاپے کو پہنچ جائیں۔
چاہے ان میں ایک پہنچے یا دونوں (اور ن کی کوئی بات تجھے ناگوار گزرے تو) ان سے کبھی ’’ہوں‘‘ بھی مت کرنا اور نہ ان سے جھڑک کر بولنا اور ان سے خوب ادب سے بات کر نا، اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کر تے رہنا: اے ہمارے پروردگار! تو اُن پر رحمت فرما، جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے پالا ہے (صرف ظاہر داری نہیں، دل سے اُن کا احترام کرنا) تمہارا رب تمہارے دل کی بات خوب جانتا ہے اور اگر تم سعادت مند ہو تو وہ توبہ کرنے والے کی خطائیں بکثرت معاف کرنے والا ہے‘‘ (سورۃ الاسراء23) اس آیت کریمہ میں اللہ جل جلالہٗ نے سب سے پہلے اپنی بندگی و اطاعت کا حکم ارشاد فرمایا ہے کہ میرے علاوہ کسی اور کی بندگی ہر گز مت کرنا، اس کے بعد فرمایا کہ: اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤ۔ اولاد کو یہ سوچنا چاہیے کہ والدین نہ صرف میرے وجود کا سبب ہیں، بلکہ آج میں جو کچھ ہوں۔

انہی کی برکت سے ہوں، والدین ہی ہیں جو اولاد کی خاطر نہ صرف ہر طرح کی تکلیف، دکھ اور مشقت کو برداشت کر تے ہیں، بلکہ بسا اوقات اپنا آرام و راحت، اپنی خوشی و خواہش کو بھی اولاد کی خاطر قربان کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے ’’ یعنی ان کے ساتھ انتہائی تواضع و انکساری اور ا کرام و احترام کے ساتھ پیش آئے، بے ادبی نہ کرے، تکبر نہ کرے، ہر حال میں اُن کی اطاعت کرے الا یہ کہ وہ اللہ کی نا فرمانی کا حکم دیں تو پھر اُن کی اطا عت جائز نہیں۔

سورہ عنکبوت میں اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے’’ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کر نے کا حکم دیا ہے اور ساتھ یہ بھی بتا دیا ہے کہ اگر وہ تجھ پر اس بات کا زور ڈالیں کہ تو ایسی چیز کو میرے ساتھ شریک ٹھہرائے، جس کے معبود ہونے کی کوئی دلیل تیرے پاس نہ ہو تو اُن کا کہنا مت ماننا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے خاص طور سے والدین کے بڑھاپے کو ذکر فرما کر ارشاد فرمایا کہ اگر ان میں کوئی ایک یا وہ دونوں تیری ز ند گی میں بڑھا پے کو پہنچ جا ئیں تو اُن کو ’’اُف‘‘بھی مت کہنا اور نہ اُن سے جھڑک کر بات کرنا، روایات میں ’’اُف‘‘ کا ترجمہ ’’ہوں‘‘ سے کیا ہے کہ اگر ان کی کوئی بات نا گوار گزرے تو ان کو جواب میں ’’ہوں‘‘ بھی مت کہنا۔ اللہ رب العزت نے بڑھاپے کی حالت کو خا ص طور سے اس لیے ذکر فرمایا کہ والدین کی جوا نی میں تو اولاد کو نہ ’’ہوں‘‘ کہنے کی ہمت ہوتی اور نہ ہی جھڑکنے کی، جوانی میں بدتمیزی اور گستاخی کا اندیشہ کم ہوتا ہے۔

البتہ بڑھاپے میں والدین جب ضعیف ہو جاتے ہیں اور اولاد کے محتاج ہوتے ہیں تو اس وقت اس کا زیادہ اندیشہ رہتا ہے۔ پھر بڑھاپے میں عا م طور سے ضعف کی وجہ سے مزاج میں چڑچڑاپن اور جھنجھلاہٹ پیدا ہوتی ہے، بعض دفعہ معمولی باتوں پر اور بسااوقات درست اور حق بات پر بھی والدین اولاد پر غصہ کر تے ہیں، تو اب یہ اولاد کے امتحان کا وقت ہے کہ وہ اس کو برداشت کر کے حسن سلوک کا مظاہرہ کر تے ہیں، یا نا ک بھوں چڑھا کر بات کا جواب دیتے ہیں، اس موقع کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ جواب دینا اور جھڑک کر بات کرنا تو دور کی با ت ہے۔

ان کو’’اُف‘‘ بھی مت کہنا اور ان کی بات پر معمولی سی ناخوشگواری کا اظہار بھی مت کرنا، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضور نبی کریمﷺ سے سوال کیا کہ اللہ تعالی کو کون سا عمل محبوب ہے؟ تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا بروقت نماز ادا کرنا، میں نے عرض کیا پھر کونسا؟آپﷺ نے ارشاد فرمایا والدین سے نیکی کرنا، میں نے عرض کیا پھر کونسا؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرنا (بخاری شریف970مسلم شریف 85) حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپﷺ سے جہاد کیلئے اجازت طلب کی تو آپﷺ نے فرمایا کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟ اس شخص نے عرض کیا جی ہاں۔ تو آپﷺ نے فرمایا پھر انہی کی خدمت کر کے جہاد کر (بخاری شریف 5972) دوسری روایت میں حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضور نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا میں ہجرت اور جہاد پر آپﷺ کی بیعت کرتا ہوں اور میں اس پر صرف اللہ تعالی سے اجر کا طلبگار ہوں، آپﷺ نے فرمایا کیا تمہارے ماں باپ میں سے کوئی موجود ہے؟

اس نے عرض کیا جی ہاں دونوں زندہ ہیں۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کیا تم اللہ تعالیٰ سے اجر کے طالب ہو؟ اس نے عرض کیا جی ہاں، آپﷺ نے فرمایا اپنے ماں باپ کے پاس واپس چلے جاؤ اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو (مسلم شریف 2549) حضرت معاویہ بن جاھمہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ وہ حضور نبی کریمﷺ کے پاس آئے اور عرض کرنے لگے یا رسول اللہﷺ! میں جہاد کرنا چاہتا ہوں اور آپﷺ سے مشورہ لینے آیا ہوں آپﷺ نے فرمایا کیا تمہاری ماں(زندہ) ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں تو آپﷺ نے فرمایا ماں کی خدمت میں لگے رہو کیونکہ جنت اس کے قدموں کے پاس ہے (نسائی جلد 2 3104, ابن ماجہ 2781) اور دوسری روایت میں ہے کہ آپﷺ نے حضرت جاھمہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟

انہوں نے عرض کیا جی ہاں تو آپﷺ نے فرمایا جاؤ انہی کی خدمت میں لگے رہو کیونکہ جنت ان کے قدموں کے نیچے ہے (طبرانی جلد 2-ص 289،الترغیب والترہیب 2485) حضور نبی کریم ﷺ نے اس شخص کو بدنصیب قرار دیا جو والدین کو بڑھاپے کی حالت میں پا کر بھی جنت میں داخل نہ ہو سکے، حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا! اس شخص کی ناک خاک میں ملے، اس شخص کی ناک خاک میں ملے،اس شخص کی ناک خاک میں ملے (تین مرتبہ فرمایا) پوچھا گیا اے اللہ کے رسولﷺ! کس کی (ناک خاک میں ملے)؟ تو آپﷺ نے فرمایا جس نے ماں باپ دونوں کو یا اُن میں سے کسی ایک کو بحالتِ بڑھاپا پایا اور پھر جنت میں داخل نہ ہو سکا (یعنی انکی خدمت کر کے یا اُنہیں راضی رکھ کر جنت کا حقدار نہ بن سکا) (مسلم شریف 2551) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کسی نے پوچھا کہ میں نے خراسان سے اپنی والدہ کو اپنے کندھے پر اٹھایا اور بیت اللہ لایا اور اسی طرح کندھے پر اٹھا کر حج کے منا سک ادا کروائے،کیا میں نے اپنی والدہ کا حق ادا کر دیا؟تو حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما نے فرمایا: ’’نہیں ہر گز نہیں، یہ سب تو ماں کے اس ایک چکر کے برابر بھی نہیں جو اس نے تجھے پیٹ میں رکھ کر لگایا تھا۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے کسی نے دریا فت کیا کہ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کس طرح کیا جائے؟ تو انھوں نے فرما یا: تو ان پر اپنا مال خرچ کر، اور وہ تجھے جو حکم دیں اس کی تعمیل کر، ہاں اگر گناہ کا حکم دیں تو مت مان۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک میں سے یہ بھی ہے کہ تم ان کے سامنے اپنے کپڑے بھی مت جھا ڑو، کہیں کپڑوں کا غبا ر اور دھول ان کو لگ نہ جا ئے۔

حضرت سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ منبر پر جلو افروز ہوئے اور آپﷺ نے تین مرتبہ (آمین) فرمایا پھر آپ ﷺ نے فرمایا میرے پاس جبریل (امین علیہ السلام) آئے اور انہوں نے آ کر کہا اے محمد ﷺ! جو آدمی اپنے والدین (دونوں یا ان) میں سے کسی ایک کو پائے (پھر ان سے نیکی نہ کرے) پھر وہ مر جائے اور جہنم میں چلا جائے تو اللہ تعالیٰ اسے (اپنی رحمت سے) دور کر دے۔آپ ﷺکہیں آمین تو میں نے کہا آمین، پھر انہوں نے کہا اے محمدﷺ! جس شخص نے ماہ رمضان پایا پھر وہ اس حالت میں مر گیا کہ اسکی مغفرت نہیں کی گئی اور وہ جہنم میں داخل ہو گیا تو اللہ اسے بھی (اپنی رحمت سے) دور کر دے۔ آپ ﷺ کہیں آمین ، میں نے کہا آمین، انہوں نے کہا کہ جس شخص کے پاس آپ ﷺ کا ذکر کیا گیا اور اُس نے آپ ﷺ پر درود نہیں پڑھا پھر اُسکی موت آگئی اور وہ جہنم میں چلا گیا تو اللہ تعالیٰ اسے بھی (اپنی رحمت سے) دور کر دے ۔ آپﷺ کہیں آمین تو میں نے کہا آمین (ابن حبان ج 3,صفحہ 188, 907 -صحیح الترغیب والترھیب 2491) اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ جن کے والدین زندہ ہیں ان کو اپنے والدین کی خدمت کر نے کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین

تحریر: مولانا قاری محمد سلمان عثمانی


 

دوستو! آج ہم آپ کو بتائیں گے کہ کس طرح ایکسل شیٹ میں رقم کے مجموعے کو خود کا طور پر الفاظ میں تبدیل کرتے ہیں جسے اصطلاحی طور پر (Amount in words) کہتے ہیں۔

اس مقصد کے لئے ہم ایکسل میں میکروز کا استعمال کریں گے ۔


سب سے پہلے جس ورک شیٹ میں اماؤنٹ اِن ورڈز کو خودکار کرنا ہے اسے اوپن کرلیں۔

اب آپ ویژول بیسک ایڈیٹر کو اوپن کرلیں۔

اب آپ کے پاس بائیں پینل میں ایکسل فائل کی تمام شیٹس کی لسٹ دکھائی دے گی اور سب سے آخر میں مکمل ورک بُک کا آپشن دکھائی دے گا


اگر آپ نے یہ سارا عمل کسی ایک شیٹ کے لئے کرنا ہے تو اُس شیٹ پر کلک کریں ورنہ مکمل ورک شیٹ پر کلک کردیں۔


ماڈیول پر کلک کرنے پر  جو ونڈو اوپن ہوگی وہاں آپ نے نیچے دیا گیا تمام کوڈ کاپی پیسٹ کرنا ہے۔
Option Explicit
'Main Function
Function SpellNumber(ByVal MyNumber)
    Dim Rupees, Paisas, Temp
    Dim DecimalPlace, Count
    ReDim Place(9) As String
    Place(2) = " Thousand "
    Place(3) = " Million "
    Place(4) = " Billion "
    Place(5) = " Trillion "
    ' String representation of amount.
    MyNumber = Trim(Str(MyNumber))
    ' Position of decimal place 0 if none.
    DecimalPlace = InStr(MyNumber, ".")
    ' Convert paisas and set MyNumber to rupee amount.
    If DecimalPlace > 0 Then
        Paisas = GetTens(Left(Mid(MyNumber, DecimalPlace + 1) & _
                  "00", 2))
        MyNumber = Trim(Left(MyNumber, DecimalPlace - 1))
    End If
    Count = 1
    Do While MyNumber <> ""
        Temp = GetHundreds(Right(MyNumber, 3))
        If Temp <> "" Then Rupees = Temp & Place(Count) & Rupees
        If Len(MyNumber) > 3 Then
            MyNumber = Left(MyNumber, Len(MyNumber) - 3)
        Else
            MyNumber = ""
        End If
        Count = Count + 1
    Loop
    Select Case Rupees
        Case ""
            Rupees = "No Rupees"
        Case "One"
            Rupees = "One Rupee"
         Case Else
            Rupees = Rupees & " Rupees"
    End Select
    Select Case Paisas
        Case ""
            Paisas = " and No Paisas"
        Case "One"
            Paisas = " and One Paisa"
              Case Else
            Paisas = " and " & Paisas & " Paisas"
    End Select
    SpellNumber = Rupees & Paisas
End Function
      
' Converts a number from 100-999 into text
Function GetHundreds(ByVal MyNumber)
    Dim Result As String
    If Val(MyNumber) = 0 Then Exit Function
    MyNumber = Right("000" & MyNumber, 3)
    ' Convert the hundreds place.
    If Mid(MyNumber, 1, 1) <> "0" Then
        Result = GetDigit(Mid(MyNumber, 1, 1)) & " Hundred "
    End If
    ' Convert the tens and ones place.
    If Mid(MyNumber, 2, 1) <> "0" Then
        Result = Result & GetTens(Mid(MyNumber, 2))
    Else
        Result = Result & GetDigit(Mid(MyNumber, 3))
    End If
    GetHundreds = Result
End Function
      
' Converts a number from 10 to 99 into text.
Function GetTens(TensText)
    Dim Result As String
    Result = ""           ' Null out the temporary function value.
    If Val(Left(TensText, 1)) = 1 Then   ' If value between 10-19...
        Select Case Val(TensText)
            Case 10: Result = "Ten"
            Case 11: Result = "Eleven"
            Case 12: Result = "Twelve"
            Case 13: Result = "Thirteen"
            Case 14: Result = "Fourteen"
            Case 15: Result = "Fifteen"
            Case 16: Result = "Sixteen"
            Case 17: Result = "Seventeen"
            Case 18: Result = "Eighteen"
            Case 19: Result = "Nineteen"
            Case Else
        End Select
    Else                                 ' If value between 20-99...
        Select Case Val(Left(TensText, 1))
            Case 2: Result = "Twenty "
            Case 3: Result = "Thirty "
            Case 4: Result = "Forty "
            Case 5: Result = "Fifty "
            Case 6: Result = "Sixty "
            Case 7: Result = "Seventy "
            Case 8: Result = "Eighty "
            Case 9: Result = "Ninety "
            Case Else
        End Select
        Result = Result & GetDigit _
            (Right(TensText, 1))  ' Retrieve ones place.
    End If
    GetTens = Result
End Function
     
' Converts a number from 1 to 9 into text.
Function GetDigit(Digit)
    Select Case Val(Digit)
        Case 1: GetDigit = "One"
        Case 2: GetDigit = "Two"
        Case 3: GetDigit = "Three"
        Case 4: GetDigit = "Four"
        Case 5: GetDigit = "Five"
        Case 6: GetDigit = "Six"
        Case 7: GetDigit = "Seven"
        Case 8: GetDigit = "Eight"
        Case 9: GetDigit = "Nine"
        Case Else: GetDigit = ""
    End Select
End Function

اب آپ نے  تمام ورکنگ کو سیو کرتے ہوئے ویژول بیسک ایڈیٹر کو بند کردینا ہے جیسا کہ نیچے امیج میں دکھایا گیا ہے۔


اب آپ نے کرسر اُس سیل میں لے جانی ہے جہاں آپ نے اماؤنٹ اِن ورڈز پرنٹ کروانا ہے

یہاں آپ نے ایف 2 پریس کرنا ہے اور مندرجہ ذیل کوڈ کاپی پیسٹ کرنا ہے۔
1
=@SpellNumber(E16)

اس کوڈ میں بریکٹ میں دکھائی دے رہے ای 16 کے بجائے آپ نے وہ سیل کوٹ کرنا ہے جہاں رقم ہندسوں میں موجود ہو مثال کے طور پر بی 5 یا ڈی 15 یا کچھ بھی، جیسا کہ نیچے امیج میں شو ہو رہا ہے۔


اب آپ اینٹر پریس کریں گے تو آپ دیکھیں گے کہ ای 16 میں موجود ہندسے الفاظ کی صورت میں ٹارگٹ سیل میں ڈسپلے ہورہے ہیں۔


آپ ایک ہی شیٹ  میں کئی بار اماؤنٹ اِن ورڈز کی کمانڈ استعماال کرسکتے ہیں  مگر ہر بار سورس سیل کا ریفرنس احتیاط سے لکھنا ہوگا


جی دوستو! امید ہے آپ کو سارا طریقہ کار سمجھ آگیا ہوگا، کسی بھی قسم کی دقت اور پریشانی کی صورت میں کمنٹ کریں اور اپنی پریشانی کا حل حاصل کریں۔

آپ سب کا بے حد شکریہ


ایک خوبصورت عورت ایک بدشکلے سے بیاہی گئی   ۔ ۔ ۔ ۔ 

 ایک دن لاڈ کرتے ہوئے خاوند سے کہنے لگی ۔ ۔ ۔ ۔ 

ہم تو دونوں ہی جنتی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 

میاں نے پوچھا بھلی لوک تجھے کیسے یقین ہے ۔ ۔ ۔ ۔ 

بولی اللہ نے ہر صابر اور شاکر سے جنت کا وعدہ کر رکھا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جب سے ہماری شادی ہوئی ہے میں صبر کر رہی ہوں اور آپ شکر۔ ۔ ۔ ۔ ۔  


 🌷 *بسْمِ ﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم* 🌷


آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی 

🌼🌻❪تین بچھو❫🌼🌻

*آپ کے خواب اور ان کی تعبیر مع تدبیر*

💤💤━❰・ *خواب* ・❱━💤💤
کیا فرماتے ہیں معبرین اس خواب کی تعبیر کے بارے میں کہ بندہ نے خواب دیکھا کہ میرے ہاتھ میں ایک روٹی ہے اور اس روٹی پر تین بچھو ہیں پھر میں ان بچھؤوں پر کسی چیز سے وار کرتا ہوں تو اس سے ایک بچھو مرجاتا ہے ، ایک میرے کمرے میں داخل ہوتا ہے اور ایک بچھو بھاگ جاتا ہے ۔
 
*حالم: اکبر خان، اسلام آباد*

━❰・ *تعبیر* ・❱━
آپ کے خواب کی تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے والد محترم کے تین بھائی ہیں جن سے ممکن ہے زمین پر تنازع ہوجائے اور اس میں اللہ نہ کرے کہ ایک کو آپ کے ہاتھوں نقصان پہنچے ، ایک آپ سے مل جائے گا اور ایک اس معاملے سے نکل جائے گا ۔

━❰・ *تدبیر* ・❱━
اگر مستقبل میں تایا اور چاچوں سے زمین کا کوئی تنازع پیدا ہوتا ہے تو اسے پہلی فرصت میں اہل خیر کو ثالث بناکر احسن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کریں اور کوشش کریں کہ معاملہ لڑائی جھگڑے تک نہ پہنچے وگرنہ صورت حال پریشان کن ہوسکتی ہے۔ 
 ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
▓█ *مَجْلِسُ الْمعبرین* █▓
معبر:✍  
*مفتی محمد افضل  عفی عنہ* 
 ━━━━━━━❪❂❫━━━━━━


 🌹 *بسْمِ ﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم* 🌹 

            
             عشرکےاحکام ❰・ *پوسٹ نمبر 12* ・❱

   *جانوروں کو کھلائے جانے والے چارے میں عشر کا حکم*
       جو چارہ جانوروں کو کھلانے کے لیے کاشت کیا جاتا ہے اس میں بھی عشر یا نصف عشر واجب ہے۔

*بار بار اگنے والی سبزیوں میں عشر کا حکم*
          بعض فصلیں اور سبزیاں ایسے ہوتی ہیں کہ کاٹنے کے بعد دوبارہ اور سہ بارہ اگتی ہیں ، ان میں ہر دفعہ کاٹنے پر عشر یا نصف عشر واجب ہوگا۔

 *بٹائی پر دی گئی زمین میں عشر کا حکم*
           عشری زمین اگر بٹائی پر دی جائے تو اس کی پیداوار میں عشر زمیندار اور مالک دونوں پر ان کے حصص کے بقدر لازم آتا ہے۔ پھر چاہے تو تقسیم سے پہلے کل پیداوار سے عشر ادا کریں یا تقسیم کے بعد اپنے اپنے حصہ سے۔

 📚حوالہ:
▪الدرالمختار مع ردالمحتار 2/326
▪ماہنامہ صدائے جامعہ فاروقیہ اپریل 2018 صفحہ 42

مرتب:✍  
*مفتی عرفان اللہ درویش ھنگو عفی عنہ* 


 تھم گیا درد اجالا ہوا تنہائی میں 

برق چمکی ہے کہیں رات کی گہرائی میں 

باغ کا باغ لہو رنگ ہوا جاتا ہے 
وقت مصروف ہے کیسی چمن آرائی میں 

شہر ویران ہوئے بحر بیابان ہوئے 
خاک اڑتی ہے در و دشت کی پہنائی میں 

ایک لمحے میں بکھر جاتا ہے تانا بانا 
اور پھر عمر گزر جاتی ہے یکجائی میں 

اس تماشے میں نہیں دیکھنے والا کوئی 
اس تماشے کو جو برپا ہے تماشائی میں 

شاعر: احمد مشتاق


 ╏╠═🕌═[𝍖🕋𝍖 درسِ قرآن 𝍖🕋𝍖] 🌹 🌹  🌹


 سورہ المآئدۃ آیت نمبر 11

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
ترجمہ: شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ ہَمَّ قَوۡمٌ اَنۡ یَّبۡسُطُوۡۤا اِلَیۡکُمۡ  اَیۡدِیَہُمۡ فَکَفَّ اَیۡدِیَہُمۡ عَنۡکُمۡ ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ﴿٪۱۱﴾
ترجمہ: 
اے ایمان والو ! اللہ نے تم پر جو انعام فرمایا اس کو یاد کرو۔ جب کچھ لوگوں نے ارادہ کیا تھا کہ تم پر دست درازی کریں، تو اللہ نے تمہیں نقصان پہنچانے سے ان کے ہاتھ روک دئیے (١٢) اور (اس نعمت کا شکر یہ ہے کہ) اللہ کا رعب دل میں رکھتے ہوئے عمل کرو، اور مومنوں کو صرف اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
تفسیر: 
12: یہ ان مختلف واقعات کی طرف اشارہ ہے جن میں کفار نے مسلمانوں کا خاتمہ کرنے کے منصوبے بنائے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سب کو خاک میں ملادیا، ایسے واقعات بہت سے ہیں، ان میں سے کچھ واقعات مفسرین نے اس آیت کے تحت بھی ذکر کئے ہیں، مثلاً صحیح مسلم میں روایت ہے کہ مشرکین سے ایک جنگ کے دوران عسفان کے مقام پر آنحصرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ظہر کی نماز تمام صحابہ کو جماعت سے پڑھائی، مشرکین کو پتہ چلا تو ان کو حسرت ہوئی کہ جماعت کے دوران مسلمانوں پر حملہ کرکے انہیں ختم کردینے کا یہ بہترین موقع تھا، پھر انہوں نے منصوبہ بنایا کہ جب یہ حضرات عصر کی نماز پڑھیں گے تو ان پر ایک دم حملہ کردیں گے ؛ لیکن عصر کا وقت آیا تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ نے صلاۃ الخوف پڑھی جس میں مسلمان دو حصوں میں تقسیم ہو کر نماز پڑھتے ہیں اور ایک حصہ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہتا ہے (اس نماز کا طریقہ پیچھے سورة نساء : ١٠٢ میں گزرچکا ہے) چنانچہ مشرکین کا منصوبہ دھرا رہ گیا (روح المعانی) مزیدواقعات کے لئے دیکھئے معارف القرآن۔
 آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی


 💖💘💞 درسِ حدیث 💞💘💖
سنن ابن ماجہ حدیث نمبر: 4076
کتاب: فتنہ و آزمائش سے متعلق احکام و مسائل
یاجوج ماجوج کی کمانوں ، تیروں اور ڈھالوں کو مسلمان سات سال تک ایندھن کے طور پر استعمال کریں گے 

عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَمِعَ النَّوَّاسَ بْنَ سَمْعَانَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَيُوقِدُ الْمُسْلِمُونَ مِنْ قِسِيِّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَنُشَّابِهِمْ وَأَتْرِسَتِهِمْ سَبْعَ سِنِينَ

ترجمہ : حضرت نواس بن سمعان ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :یاجوج ماجوج کی کمانوں ، تیروں اور ڈھالوں کو مسلمان سات سال تک ایندھن کے طور پر استعمال کریں گے ’’۔


تشریح : 
1۔اس سے یاجوج ماجوج کے افراد کی تعداد اور ان کے اسلحہ کی مقدار کا اندازہ ہوتا ہے۔
2۔ان کا اسلحہ اس لیے جلانے کے کام آئے گا کہ سب لوگوں کے مسلمان ہوجانے کی وجہ سے جہاد کی ضرورت نہیں رہے گی۔


 


یہاں ونڈوز 11 پر ڈیسک ٹاپ دکھانے کے تین آسان طریقے ہیں۔

01

Windows 11 پر ، کھلی کھڑکیوں اور بے ترتیبی ڈیسک ٹاپس کے سمندر میں کھو جانا آسان ہے، اور ایک ہی وقت میں متعدد ایپس اور فائلز کھلنے کے ساتھ، آپ کو جس چیز کی ضرورت ہے اسے جلدی تلاش کرنا مایوس کن ہوسکتا ہے۔ اسی لیے ڈیسک ٹاپ کو دکھانے کا آپشن بہت پریکٹیکل ہے۔ 


چند کلکس کا استعمال کرتے ہوئے، آپ اپنی تمام کھلی کھڑکیوں کو کم سے کم کر سکتے ہیں اور اپنے ڈیسک ٹاپ آئیکنز اور فائلوں تک تیزی سے رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، یہ ایک لائف سیور فیچر ہے جو آپ کو حساس معلومات کا جائزہ لیتے وقت اسکرین پر موجود ہر چیز کو تیزی سے چھپانے کی اجازت دیتا ہے اور کوئی آپ پر چلتا ہے۔


اس گائیڈ میں ، میں آپ کو ونڈوز 11 پر ڈیسک ٹاپ کو تیزی سے دکھانے کے آسان طریقے بتاؤں گا۔


ونڈوز 11 ڈیسک ٹاپ کو دکھانے کے تین طریقے

ونڈوز 11 پر، ڈیسک ٹاپ کو دکھانے کے کئی طریقے ہیں، بشمول کی بورڈ شارٹ کٹ، ٹاسک بار آپشن، اور ڈیسک ٹاپ سیٹنگز۔


کی بورڈ شارٹ کٹ 

آپریٹنگ سسٹم ڈیسک ٹاپ کو دکھانے کے لیے کم از کم دو کی بورڈ شارٹ کٹ پیش کرتا ہے:


ونڈوز کی + ڈی:  اگر آپ اس کلید کومبو کو دباتے ہیں، تو سسٹم آپ کو ڈیسک ٹاپ تک رسائی دینے کے لیے اسکرین پر موجود ہر چیز کو کم سے کم کر دے گا۔ آپ اپنی ونڈوز کو بحال کرنے کے لیے وہی شارٹ کٹ دہرا سکتے ہیں۔ (  "D"  ڈیسک ٹاپ کے لیے ہے۔)

ونڈوز کی + ایم:  اگر آپ اس کلید کو دبائیں گے تو سسٹم تمام ونڈوز کو کم سے کم کر دے گا۔ شو ڈیسک ٹاپ شارٹ کٹ کے برعکس، اس صورت میں، آپ کو   اسکرین پر ونڈوز کو بحال کرنے کے لیے "Windows key + Shift + M" کی بورڈ شارٹ کٹ استعمال کرنا ہوگا۔ (  "M"  "کم سے کم" کے لیے ہے۔)

ٹاسک بار بٹن

ونڈوز 11 پر، آپ کوپائلٹ (یا اطلاع) آئیکن  کے آگے نیچے دائیں کونے میں واقع بٹن پر بھی کلک کر سکتے ہیں ۔


اگر آپشن کام نہیں کر رہا ہے، تو یہ ممکنہ طور پر فعال نہیں ہے، ایسی صورت میں، آپ کو ان اقدامات پر عمل کرنا ہوگا:


ترتیبات کھولیں  ۔

ٹون  پرسنلائزیشن پر کلک کریں ۔

دائیں جانب ٹاسک بار کے  صفحے پر کلک کریں  ۔

ٹاسک بار کے طرز عمل کی  ترتیب پر کلک کریں  ۔

"ڈیسک ٹاپ دکھانے کے لیے ٹاسک بار کے دور کونے کو منتخب کریں" کے  آپشن کو چیک کریں  ۔



(اختیاری) خصوصیت کو غیر فعال کرنے کا اختیار صاف کریں۔

ایک بار جب آپ اقدامات مکمل کر لیں، ٹاسک بار کے نیچے دائیں کونے میں بٹن پر کلک کریں، جو ڈیسک ٹاپ کو دکھائے گا۔ 


یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ جب مائیکروسافٹ نے Copilot آئیکن کو سسٹم ٹرے میں منتقل کیا، تو کمپنی نے ڈیسک ٹاپ کو دکھانے کے آپشن کو غیر فعال کر دیا، لیکن اس نے اسے ہٹایا نہیں۔ تاہم، رائے کے بعد، اصل رویہ واپس آ گیا ہے.


ڈیسک ٹاپ کے آئیکونزچھپائیں۔ 

متبادل طور پر، اگر آپ ڈیسک ٹاپ کو شبیہیں کے بغیر دکھانا چاہتے ہیں، تو آپ کو انہیں چھپانا چاہیے۔ یہ ہے طریقہ:


"Windows key + D"  کی بورڈ شارٹ کٹ استعمال کریں  ۔

ڈیسک ٹاپ پر دائیں کلک کریں،  "دیکھیں" کو منتخب کریں  اور  فیچر کو بند کرنے کے لیے  "ڈیسک ٹاپ آئیکنز دکھائیں" کا اختیار منتخب کریں (اگر چیک کیا گیا ہو)۔



اقدامات مکمل کرنے کے بعد، آپ کو ڈیسک ٹاپ اور ڈیسک ٹاپ تک بغیر کسی شبیہ کے رسائی حاصل ہوگی۔


آپ ڈیسک ٹاپ پر دائیں کلک کرکے، "دیکھیں"  مینو تک رسائی حاصل کرکے، اور  فیچر کو آن کرنے کے لیے  "ڈیسک ٹاپ آئیکنز دکھائیں" کا اختیار منتخب کرکے آئیکنز کو دوبارہ دکھا سکتے ہیں  ۔


 



از _ اے ایم
5 فروری 2016

الکمونیا کے قدیم ترین جنگلات میں جہاں زہریلے حشرات العرض کے سوا کسی ذی روح کا تصور بھی محال ہے وہاں شدید سردی اور دھند میں کھجل سائیں اپنے مخصوص حلیے میں (صرف میلی کچیلی دھوتی اور گلے میں قدیم موتیوں کی مالائیں پہنے) دنیا و مافیہا سے بے خبر آلتی پالتی مارے اکڑوں بیٹھا ہوا ایک چِلّے میں غرق تھا.. اچانک ایک خوفناک گہرے سیاہ رنگ کا بچھو گھاس میں سے نمودار ہوا اور رینگتا ہوا باباسائیں کے پاؤں سے ہوتا ہوا پورے بدن کے پھیرے لیکر انہیں کوئی مسجم پتھر سمجھ کر واپس گھاس میں گم ہوگیا.. 


آج بابا سائیں کو چلے میں بیٹھے ہوئے پورے چالیس دن گزر چکے تھے آج کی رات ان کے چلے کے چالیسویں اور آخری رات تھی.. باباسائیں یہ چِلّہ حال ہی میں چھوڑ جانے والی محبوبہ کو واپس حاصل کرنے کے لیے کاٹ رہے تھے.. مگر آخری تین چار دنوں سے انہیں شدید رکاوٹیں پیش آرہی تھی ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے کوئی نادیدہ قوت ہر حال اس کا چلہ ختم کروانا چاہتی ہے مگر ساری زندگی انہوں نے اتنے چلے کاٹے کہ اب ایسی نادیدہ قوتیں بھی ان کے عمل کے آگے بے بس نظر آتی تھیں.. رات کے دو بج چکے تھے صرف ایک گھنٹہ باقی تھا جوں جوں چلہ ختم ہونے کا وقت قریب آرہا تھا اس خاموش اور پراسرار ماحول کی بے چینی شدید بڑھتی ہوئی محسوس ہورہی تھی درخت ہوائیں حشرات العرض ہرچیز پوری طرح سے بے چین دکھائی رہی تھی.. بظاہر کھجل سائیں کی آنکھیں بند تھیں مگر اس کے بیرک اور گیان کی بدولت ہزاروں میل دور تک کا تمام تر منظر اسے صاف دکھائی دے رہا تھا.. نادیدہ قوتوں کو جب ہر طرح سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو آخری حربے کے طور پر اس کی محبوبہ کی بہترین سہیلی کو نیند کے عالم میں کھجل سائیں کے عین سامنے لادیا گیا.. چلہ ختم ہونے میں کچھ لمحے باقی تھے.. اضطراب بڑھتا جارہا تھا.. نادیدہ قوت نے بہترین چال چلی تھی.. کھجل سائیں کی محبوبہ کی یہ بہترین سہیلی بیحد خوبصورت اور نخرے والی تھی جس پر کھجل سائیں کی پہلے دن سے ہی نظر تھی.. نادیدہ قوت نے اس کی سب سے بڑی کمزوری کو استعمال کیا.. اور محبوبہ کی سہیلی کے دماغ کو قابو کرتے ہوئے اسے کھجل سائیں کے سامنے لاکھڑا کردیا.. اس کی آنکھوں میں کھجل سائیں کے لیے بے پناہ محبت اور تڑپ جھلک رہی تھی جو کہ سراسر نادیدہ قوت کی طرف سے پیداکردہ تھی..

جوں جوں آخری لمحہ قریب آرہا تھا تجسس بڑھتا چلا جارہا تھا .. نادیدہ قوت اگر محبوبہ کی سہیلی کی شبیہہ بناتی تو یقیناً کھجل سائیں کے بیرک اسے بتا دیتے مگر اصلی کو سامنے لاکھڑا کردینے کی چال بہت زبردست تھی.. آخری لمحہ آنے کو تھا کہ محبوبہ کی سہیلی نے اظہارِ محبت کردیا جس پر کھجل سائیں کا صبر ٹوٹ گیا...
اس نے آنکھیں کھول دیں اور چلہ ٹوٹ گیا.. 
اچانک فضا میں ایک غیرانسانی چیختی چلاتی آواز میں قہقہہ بلند ہوا اور پھٹے ہوئے لفظوں میں وہی آواز کھجل سائیں کی.سماعت سے ٹکرائی..
ہاہاہا.. تمہارا چِلہّ ٹوٹ گیا..
مورکھ... اتنے دنوں کی بھوک پیاس محنت اور اپنوں سے دوری کے نتیجے میں صرف ناکامی تیرے حصے میں آئی..ہاہاہا
یہ فقرہ سنتے ہی کھجل سائیں نے منہ ہی منہ میں کوئی منتر پڑھ کر خود پر اور اس سہیلی پر پھونکا پھر بلند آواز میں اسی نادیدہ قوت سے مخاطب ہوا..
"ہاہاہا... جیت تمہاری نہیں.. میری ہوئی.... میں اُس بے وفا کے لیے نہیں بلکہ اسکی اسی سہیلی کو حاصل کرنے کے لیے یہ چلہ کاٹ رہا تھا"
ماحول کو پھر سے سانپ سونگھ چکا تھا اور کھجل سائیں ایک منتر پڑھ کر سہیلی سمیت دھویں میں تحلیل ہوچکا تھا..




🕋 مئی کی 27 اور 28 تاریخ جبکہ جولائی کی 16 تاریخ کو قبلہ کی سمت درست کرنے کا بہترین موقع 

🌻 اپنا قبلہ درست کیجیے!

📿 مئی کی 27 اور 28 تاریخ کو قبلہ کی سمت درست کرنے کا طریقہ!

مئی کی 27 اور 28 تاریخ کی دوپہر کو اِستواء یعنی زوال کے وقت سورج بیت اللہ کے عین اوپر سے گزرتا ہے، اس لیے اس وقت دنیا بھر میں گھروں، دفاتر اور مساجد سمیت ہر مقام کا قبلہ آسانی کے ساتھ معلوم کیا جاسکتا ہے۔ پاکستانی وقت کے مطابق دوپہر 2 بجکر 17 منٹ پر یہ موقع میسر آئے گا۔ اس لیے مذکورہ وقت سے پہلے ہی زمین پر ایک لکڑی وغیرہ نصب کی جائے، مذکورہ وقت یعنی 2 بجکر 17 منٹ پر اس لکڑی کے سایہ پر ایک خط یعنی لکیر کھینچ دی جائے، بس وہی لکیر قبلہ کی جس جانب ہوگی وہی قبلہ کی درست سمت ہوگی۔

❄ چند ضروری وضاحتیں:

⓵ مئی کی 27 اور 28 تاریخ کو جب سورج کعبہ کے عین اوپر سے گزر رہا ہوگا تو اس وقت مکہ مکرمہ میں دوپہر کے 12 بجکر 17 منٹ ہورہے ہوں گے، اس لیے ہر ملک کے باشندے مکہ مکرمہ سے وقت کے فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے حساب لگا کر اپنے ملک کے وقت کے مطابق قبلہ کی درست سمت معلوم کرسکتے ہیں۔ واضح رہے کہ 16 جولائی کو بھی پاکستانی وقت کے مطابق 2 بجکر 26 منٹ پر سورج بیت اللہ کے عین اوپر سے گزرتا ہے اس لیے اس تاریخ کو بھی قبلہ کی درست سمت معلوم کی جاسکتی ہے۔ اس کی تفصیلات فلکیات کی کتب میں دیکھی جاسکتی ہے۔

⓶ماقبل میں قبلہ معلوم کرنے کا جو طریقہ ذکر ہوچکا یہ ایک آسان طریقہ ہے جو کہ ایک عام آدمی کے لیے بہت ہی سہولت کا باعث ہے، اس لیے جو حضرات گھروں، دفاتر، تعلیمی اداروں اور دیگر مقامات میں اندازے سے قبلہ رخ ہوکر نماز ادا کرتے ہیں ان کے لیے یہ بہت ہی سنہری موقع ہے کہ وہ مئی کی 27 اور 28 تاریخ جبکہ جولائی کی 16 تاریخ کو آسانی کے ساتھ اپنا قبلہ درست کرسکتے ہیں۔

⓷ چوں کہ آجکل قبلہ درست کرنے اور معلوم کرنے کے متعدد آلات اور اسباب بھی موجود ہیں، اس لیے اگر کسی نے ان آلات اور اسباب کی مدد سے قبلہ کی درست سمت معلوم کرلی ہو تو یہ بھی کافی ہے۔

⓸ چوں کہ مکہ مکرمہ کے علاوہ دیگر ممالک کا قبلہ جہتِ کعبہ ہے کہ جس طرف کعبہ ہے اسی طرف رخ کریں، جس کی رو سے نمازی کے دائیں اور بائیں 45، 45 ڈگری تک قبلہ رخ شمار ہوگا، اس لیے اگر کوئی نمازی کا کعبے کی سیدھ سے 45 ڈگری تک دائیں یا بائیں جانب رخ پِھر بھی جائے تب بھی وہ قبلہ رخ ہی شمار ہوگا۔ اس لیے اگر مذکورہ تاریخوں کو سورج کے ذریعے قبلہ معلوم کرنے کے نتیجے میں کسی مسجد کے قبلے کی سمت میں معمولی فرق آرہا ہو تو اس میں انتشار اور تنازع پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہیے کیوں کہ ماقبل کی تفصیل سے معلوم ہوچکا ہے کہ 45 ڈگری تک نماز قبلہ رخ ہی شمار ہوتی ہے۔ (جواہر الفقہ، احسن الفتاوی)

⓹ زیرِ نظر تحریر میں قبلہ سے متعلق تفصیلی مسائل بیان کرنے مقصود نہیں، بلکہ صرف قبلہ معلوم کرنے کا طریقہ اور چند اہم وضاحتیں ذکر کرنا مقصود ہیں تاکہ اس اہم موقع سے ہر مسلمان فائدہ اٹھا سکیں۔

✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ
فاضل جامعہ دارالعلوم کراچی

 


🌷 بسْمِ ﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم 🌷

ا҉҉ٓ҉҉ي҉҉ٔ҉҉ی҉҉ ҉҉ٹ҉҉ی҉҉ ҉҉د҉҉ر҉҉س҉҉گ҉҉ا҉҉ہ҉҉ ҉҉ک҉҉م҉҉ی҉҉و҉҉ن҉҉ٹ҉҉ی҉҉

🌼👈آپ کے مسائل اور ان کا حل👉🌼

🕌👈 *راجہ داہر اور محمد بن قاسم*  👉🕌

کیا رہنمائی فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام اس بارے میں کہ آج کل سوشل میڈیا پر مختلف ذرائع سے یہ پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ ہندو راجہ داہر سادات اور اہل بیت کا محافظ تھا جبکہ محمد بن قاسم ایک ڈاکو اور لٹیرا تھا جو دراصل سندھ میں سادات کو تاراج کرنے کی نیت سے آیا تھا۔
المستفتی : *ابو ہریرہ ایم ایس روپڑیؔ*، مقام اسلام آباد

💡👈الجواب حامدا و مصلیا 👉💡

اس حقیقت سے صرف نظر کرتے ہوئے کہ جس میں عالمگیر سطح پر مسلمانوں کی روشن تاریخ مسخ کرنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں اگر  صرف برصغیر کی حد تک کی بھی  اس حقیقت  کو تحریر کی شکل دی  جائے تو بھی بیسیوں کتابیں رقم کرنے کے بعد بھی یہ حقیقت پوری طرح  رقم نہ ہو ،  چہ جائیکہ چند سطریں لکھ کر اس کا جواب دینے کی کوشش کی جائے  لیکن چوں کہ سائل نے سوال کیا ہے  تو قلت وقت   اور خرابی طبیعت کے باوجود  بھی سائل کے سوال کا جواب قرض کی طرح واجب خیال کرتا ہوں ۔
 حضرت آدم علیہ السلام سے لےکر آخری انسان تک جتنے بھی انسان  اللہ تعالی کے احکامات پر چلنے والے ہیں اور ہوں گے  اللہ تعالی نے  ان  کی فقط ایک پہچان بتائی  ہے اور وہ ہے "مسلمان ہونا" اس کے علاوہ باقی پہچان تو تعارف کی حد تک قابل قبول ہے مگر اس سے اوپر اس کی کوئی حیثیت نہیں ۔
 یہی وجہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوت کا اعلان فرمایا اور لوگوں کو پہلے انبیاء علیہم السلام کی طرح ایک دین کی طرف بلایا تو اس وقت بھی ان کی فقط ایک ہی پہچان بتائی گئی تھی اور وہ پہچان تھی  صرف "مسلمان ہونا" اس  بات پر اس وقت کے برگزیدہ ہستیوں یعنی حضرات  صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حقیقتاً عمل بھی کرکے دکھایا جس پر اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن مجید اور احادیث کی کتابوں میں موجود واقعات  گواہ بھی ہیں۔
 حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد بھی اپنی یہی پہچان قائم دائم رکھی تھی انھوں نے دین کی جتنی بھی خدمت کی تھی فقط ایک مسلمان کی حیثیت سے کی تھی اس کے علاوہ انھوں نے نہ تو  کوئی حیثیت  بنا رکھی تھی اور نہ ہی بتارکھی تھی ۔
مسلمانوں کے دشمنوں کی صف میں موجود ایک طبقہ یعنی یہود جو ازل سے عیاری اور مکاری میں مشہور ہے اس کے ساتھ ساتھ اس طبقے کی ایک نمبر  اسلام دشمنی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اس طبقے نے جہاں اور مواقع پر اپنی دشمنی دکھائی ہے وہیں پر اس طبقے نے مسلمانوں کی ایک پہچان (یعنی فقط مسلمان ہونا) والی خوبی پر بھی وار کرنے کی کوششیں کیں ہیں  اور مسلمانوں کے اندر پراپگینڈا کے ذریعے ایک ایسی کمزوری کا ڈرامہ رچانا شروع کیا ہے جس کی اصل میں کوئی حقیقت نہیں تھی  مگر چوں کہ پراپگینڈا تو پراپگینڈا ہوتا ہےیہ  بے اصل ہونے کے باوجود بھی اپنا وجود کسی نہ کسی درجے میں  قائم کرلیتا ہے تو  اس وقت بھی یہی ہوا ۔
 چناں چہ اس پراپگینڈا کی وجہ سے اس وقت بھی کچھ لوگ لاعلمی کی وجہ سے اس کا شکار ہوگئے تھے   کہ فلاں  فلاں موقع پر جو  جو معاملات ہوئے تھے وہ  نہ تو دین تھا  اور نہ دین کی خدمت تھی  بلکہ  اس کی وجہ اسلام سے قبل کا وہ تعصب تھا جو فلاں قوم  کا فلاں قوم کے لیے تھا  اور حقیقت میں یہ  چیز یعنی تعصب بھی دیگر خرافات کی طرح دریا برد  کردی گئی تھی  جس پر قرآن پاک اور احادیث  کی کتابوں میں موجود ایسے بےشمار واقعات گواہ ہیں کہ جن کی روشنی میں یہ بات بہت اچھے سے واضح ہوتی ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے نزدیک قومیت کی کوئی حیثیت نہیں تھی ۔ چناں چہ غزوہ بدر کے موقع پر قیدیوں کے بارے میں  جب حضرت عمر  رضی اللہ عنہ سے رائے معلوم کی گئی تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا  کہ فلاں آدمی جو میرا قریبی رشتہ دار ہے، وہ میرے حوالہ کر دیں کہ میں اس کی گردن اڑادوں اور عقیل کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالہ کر دیں کہ وہ عقیل کی گردن اڑا دیں اور فلاں آدمی جو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے بھائی ہیں وہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ  کے حوالہ کر دیں  کہ  حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ ان کی گردن اڑا دیں تاکہ اللہ جل شانہ کے سامنے یہ چیز واضح ہوجائے  ( کہ ان کے حکم کے مقابلے میں ) ہمارے دلوں میں مشرک(رشتہ داروں ) کے لیے   کسی قسم کی  کوئی نرمی نہیں ہے۔
 تو یہ تھی حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نزدیک قومی تعصب کی حیثیت یعنی جب اللہ تعالی کے حکم کے مقابلے میں اپنا آیا تو اس کی رعایت نہ رکھتے ہوئے فقط اعلائے کلمۃ اللہ کا نعرہ بلند کیا  ایسے میں اگر کوئی خرافاتی یہ کہے کہ فلاں فلاں موقع پر جو جو معاملات ہوئے تھے وہ فقط قومیتی تعصب کی وجہ سے ہوئے تھے سوائے پراپگینڈا کے اور کچھ کہلانے کاحق دار نہیں ۔
آج کل ایک مربتہ پھر  اسی  پراپگینڈا کی بہتی گنگا میں ہاتھ  دھونے ہونے  والے  پراپگینڈا بریگیڈیئر کے ساتھ  اب مقامی   اندھے قوم پرست اور دیسی لبرلز بھی شامل ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے  اب  الزامات کا دائرہ صرف محمد بن قاسم رح  تک محدود نہیں  رہا بلکہ اس طبقے کے الزامات کا شکار اور بھی مسلمان فاتحین ہیں  جنھوں نے  برصغیر میں باہر سے آکر جنگیں لڑی ہیں۔ لہذا قوم پرستوں اور دیسی لبرلز کے اس قبیل کے اعتراضات پر پریشان نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ محمد بن قاسم رح پر سادات کے خلاف جنگ کا الزام فقط ایک آڑ ہے  نہ تو یہ حقیقت ہے کہ محمد بن قاسم رح نے سادات کے خلاف جنگ کی تھی اور  نہ ان قوم پرستوں اور دیسی لبرلز کو  سادات سے کچھ  محبت  ہے  بلکہ مسلمانوں کی صفوں میں موجود راجہ داہر کی یہ  اولاد فقط اپنے لیے ایک محفوظ آڑ چاہتے ہیں تاکہ اس کا سہارا لےکر محمد بن قاسم رح  اور ان جیسے دیگر ان  مسلمان فاتحین پر بھونک سکے ۔جنھوں نے  راجہ داہر اور ان جیسے کافروں کے خلاف جنگیں لڑی ہیں۔
 ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
▓█ مَجْلِسُ الْفَتَاویٰ █▓
مجیب :✍  مفتی محمد افضل  عفی عنہ  
⌛❪🕌🕋🕌❫⌛


MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget